سید امیر علی
(قسط 15 )
پہلا باب پیغمبر اسلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور رسالت
ہر قسم کی طاقت کرشمہ سازی سے معّرا ہونے کا اعلان کرکے پیغمبر اسلام صرف اپنی تعلیمات کو اپنی قدسی رسالت کی سچائی کے ثبوت میں پیش کرتا ہے۔ وہ اپنی قوتِ نفوذ کا لوہا منوانے یا اپنی تنبیہات کومؤثر بنانے کے لیے کبھی معجزوں کی آڑ نہیں لیتا۔ وہ ہمیشہ فطرت کے جانے پہچانے مظاہرے سے وجودِ باری تعالیٰ پر دلیل لاتاہے ۱؎۔ وہ مستقلاً انسان کی فطری کمزوری یا زو واعتقادی کی بجائے اس کے شعور باطنی او راس کی عقل سے خطاب کرتاہے۔ وہ کہتا ہے:۔ اپنے ارد گرد نظر ڈالو،یہ حیرت انگیز دنیا، سورج، چاند اور ستارے، جو آسمان کے نیلے گنبد میں خاموشی اور تیزی سے اپنے مقررہ راستے پر چلے جاتے ہیں، یہ قانون اور نظام جوکائنات پر حکمران ہے، یہ بارش کے قطرے جو مردہ زمین کو دوبارہ زندہ کردیتے ہیں، یہ جہاز جو انسان کی منفعت کی چیزوں سے لدے ہوئے سمندر کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جاتے ہیں، زرّیں پھلوں سے لدے ہوئے کھجور کے درخت۔۔۔ کیا یہ چیزیں تمہارے لکڑی اور پتھر کے دیوتاؤں کی بنائی ہوئی ہیں (مبنی برالفرقان 49تا59 اور سورہ ق)
”نادانوں، تم نشانیاں چاہتے ہو جب کہ ساری کائنات خدا کی نشانیوں سے بھری پڑی ہے۔ آپ جسم کی بناوٹ ہی کو دیکھو۔ کیسی حیرت انگیز طور پر پیچیدہ او رکس خوبصورتی سے ترتیب دی ہوئی ہے۔ رات اور دن کاایک دوسرے کے بعد آنا جانا، زندگی او رموت، تمہارا سونااور جاگنا، خدا کی فراداں نعمتوں سے متمتع ہونے کی جو خواہش تمہارے دل میں ہے، ہوائیں پانی سے لدے ہوئے بادلوں کو خدا کی رحمت کاپیش خیمہ بنا کر لاتی ہوئی، گونا گونی میں ہم آہنگی او رحسنِ ترتیب، نسل انسانی کی رنگا رنگی میں باہمی وابستگی،پھل پھول، چرندے پرندے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ اس موضوع پر سرولیم میور کی عبادت ذیل قابل غور ہے“۔ یہ محل نظر ہے کہ آیا مکہ کی بُت پرستی کسی مقابلے کے بغیر محمد صلعم کی تعلیمات کے سامنے جنہیں آپ مدلّل شواہد سے تقویت بخشے تھے، سپر انداز ہوجاتی“ قریش کی طرح میور بھی خرق عادات کی تائید کے بغیر تعلیمات محمدؐ کو کافی نہیں سمجھتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود انسان۔۔۔۔ کیا یہ چیزیں ایک عقل کل کے وجود کاکافی ثبوت نہیں ۱؎۔؟
پیغمبر اسلامؐ کی نگاہوں میں فطرت بجائے خود ایک الہام اور معجزہ ہے۔
ہر گیا ہے کہ اززمیں روید وَحدَہ لاَشَریک لہ گوید
وحدانیت کاپیغمبر از بسکہ فطرت کا پیغمبر تھا۔ اس کی تعلیمات کی اخلاقی و لنشینی اور توحید الہٰی کے پرُ ذوق و شوق دعوے کی بنیاد ایک محیط کل نظام کے عقلی و ذہنی اور اک پر ہے اور ایک واحد عقل اور واحد ارادہ کے عینی شواہد پر جو کائنات کی تنظیم،ہدایت او رحکومت کا ذمہ دار ہے۔ اس کا سب سے عظیم الشان معجزہ وہ کتاب ہے جس میں اس نے ”فطرت، ضمیر اور رسالت کے تمام انکشافات“کو الہامی زبان میں بیان کردیا۔“ اے منکر لوگو، کیا تم کوئی اس سے بھی معجزہ چاہتے ہو کہ تمہاری عامیانہ زبان میں وہ بے مثال کتاب نازل کی گئی جس کے آگے تمہاری ساری شاعری اور تمہارے سارے معّلقات ہیچ ہیں، تاکہ اس کے ذریعہ ساری کائنات کو رحم و کرم کی بشارت دی جائے، اور تکبر و جبرکرنے والو ں کو ڈرایا جائے؟“
لیکن قریش نے آپؐ کے مواعظ و نصائح پرکان نہ دھرے۔ ان کی آنکھوں پر ایسا پردہ پڑا ہوا تھا کہ وہ خدا کی نشانیوں کو اور کارخانہ قدرت میں ذات باری تعالیٰ کو نہ دیکھ سکتے تھے۔ ان کے کان اتنے بہرے تھے کہ انہوں نے اس صاحب بصیرت کی بات نہ سنی جو انہیں نیکی کی طرف لوٹ آنے اور اپنے قدیم جرائم ومکروہات کو ترک کرنے کی دعوت دیتا تھا۔ انہوں نے رسولؐاللہ کو جو جواب دیا اس سے ایسی شدید مخاصمت ٹپکتی تھی جس کی مثال صرف اس تشدد میں ملتی ہے جو عیسائیت کی تاریخ میں ایرانیوں اور فلیجیوں نے کیا۔ ان کا جواب یہ تھا ”جان رکھ، اے محمد ؐ! ہم تیری تبلیغ کو روکنے سے اس وقت تک باز نہ آئیں گے جب تک یا تو فنا نہ ہوجائے یا ہم فنا نہ ہوجائیں۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ مبنی بر الانعام۔96تا 99،الذّٰزیٰت 20،الحجر۔20، طٰہٰ۔50تا57، سَبا ء 20تا 28، 29 وغیرہ وغیرہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہی دنوں میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کی تعبیر مسلم مؤرخین نے ایک طریقہ سے کی ہے اور آنح ضرت ؐ کے عیسائی نگاروں نے ایک اور طریقے سے ایک دن آپؐ پر وحی کی حالت طاری تھی اور آپؐ چند آیات تلاوت فرمارہے تھے جو اب قرآن کے تریپنویں (53ویں) سورہئ نجم) کا جزو ہیں۔ جب آپؐ ان الفاظ تک پہنچے،کہ کیا تم لوگو نے لات اور عُزیٰ اور وہ جو تیسری دیوی مناۃ ہے، ان کے بارے میں بھی غور کیا ہے؟“ ایک بُت پرست نے جو اس موقع پر موجود تھا اور جسے روایات نے اب شیطان میں تبدیل کردیا ہے، ان دیویوں کی مذمت کی پیش بندی کرنے کے ارادہ سے پکار کر کہا ”یہ حسین اور سربلند دیویاں ہیں جن سے عِنداللہ شفاعت کی اُمید کی جاسکتی ہے“۔ اس نے یہ کلمات ایسے طور پر کہے کہ گویا یہ وحی کا جزوہیں۔ قریش یاتو اس چالاکی کی کامیابی پر خوش ہوئے یا ان الفاظ کو آنحضرتؐ کے الفاظ تصور کر کے یہ سمجھے کہ آنحضرتؐ نے ان کے بتوں کی رعایت کی ہے۔ چنانچہ انہوں نے فوراً مصالحت کرنے پر آمادہ گی ظاہر کی۔ جب آنحضرتؐ کو حقیقت حال کاعلم ہوا تو آپؐ نے فوراً اعلان کیا، ”وہ کچھ بھی نہیں،محض چندخالی خولی نام ہیں جو تم نے او رتمہارے باپ دادا نے گھڑ لیے ہیں“۔ مسلمان مؤرخین اور رادیان حدیث نے اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے۔ لیکن عیسائی سوانح نگاروں نے اسے ایسے طریقے سے پیش کیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک لمحہ کے لیے آنحضرتؐ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کسی قسم کی مصالحت سے قریش کے ساتھ جھگڑے کو ختم کیا جائے۔ متعصب لوگ اسے لغزش اور تعصب سے تعبیر کرتے ہیں۔ لیکن فراخ دل اور غیر متعصب مؤرخین کے نزدیک یہ واقعہ رسول عربیؐ کے جمال سیرت کو او ر بھی تاباں بنا دیتا ہے۔ظلم و ستم روز بروز بڑھتا چلا جاتا ہے، آپؐ کے متبعین کی تکالیف شدید تر ہوتی چلی جاتی تھیں اور شہر کی ساری آبادی مسلّح ہوکر آپؐ کے مقابلے پر تُلی ہوئی تھی۔ آپؐ کو اپنے متبعین کی حالت زار دیکھ کر سخت رنج ہوتا تھا۔ عربوں کی بُت پرستی کے خلاف نڈھال کر دینے والی جنگ نے آپؐ کو غمزدہ کردیا تھا۔ کوئی مقام تعجب نہیں اگر اپنے متعصب دشمنوں کے حق میں تھوڑی سی رعائت کر کے مکش مکش کو ختم کرنے کا خیال لمحہ بھر کے لیے آپؐ کے دل میں آیا ۱؎ اس طرح محمدؐ نے مشرکین کے حق میں اپنی پہلی اور آخری رعایت کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ غرانیق کاقصہ بالکل لغو او ربیہودہ ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ آنحضرت ؐ نے جب (باقی حاشیہ صفحہ 116 پر ملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپؐ نے قرآن کی ایک آیت تلاوت کی جس میں آپؐ نے ان تین چاند دیویوں کاتذکرہ احترام سے کیا اور اس کا اقرار کیاکہ ان سے عنداللہ شفاعت کی امید کی جاسکتی ہے، پس خدا کے آگے جھک جاؤ او راس کی بندگی کرو۔ سارا مجمع اس مصالحت سے خوش ہوکر محمدؐ کے خدا کے حضور سجدہ میں گرگیا۔ سارے شہر اس دوگونہ مذہب کو قبول کرلیا۔ لیکن صحرا کا یہ رویا دیکھنے والا ایسا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 115) سورہ نجم کی ان آیات کی تلاوت کی ہو تو کسی شریر نے کہہ دیا ہوکہ آنحضرت ؐ نے چند لمحوں کے لیے ہی سہی بتوں کی عظمت کو تسلیم کرلیا تھا۔ او ران کی شفاعت کو پذیرائی کے لائق سمجھ لیا تھا لیکن آنحضرتؐ کا فی الواقعہ ایسا کرنا قطعی قرین عقل نہیں۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل نکات پر غور کرلینا چاہئے۔
(1) قرآن حکیم نے منصب نبوت کے بارے میں جن خصائص کی تشریح کی ہے۔ ان میں ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ پیغمبر کبھی بھی باطل سے سمجھوتا نہیں کرتا۔ کوئی بات اپنی طرف سے نہیں کہتا۔ مصالحت اور تالیف قلب اپنی جگہ اچھی چیز ہے۔ مگر پیغمبر،اس کے لیے اس بنیادی عقیدہ سے انحراف نہیں کرسکتا۔ کہ جس کی دعوت کا دادومدار ہوتا ہے۔وہ اپنے منصب جلیل کے اعتبار سے ایک طرح سے مجبور ہے کہ توحید کے انوار کو عام کرکے رہے۔ منصب نبوت کے بارے میں چند آیات ملاحظہ ہوں۔
فاصد ع بہا تومرواعوض عن المشرکین۔ الحجر 94۔ غرض آپؐ کو جس بات کا حکم کیا گیا ہے اس کو صاف صاف سناو دیجئے او رمشرکین کی پروا ہ نہ کیجئے۔
قل مسایکوف لی ان ابدلہ ن تلقائی آپؐ یہ کہہ دیجئے کہ مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ میں اپنی طرف سے اس میں ترمیم کروں، بس میں تو اسی کا اتباع کروں گا جو میرے پاس وحی کے ذریعہ پہنچا ہے۔
لوتقول علینا بعض الاقاویل لا خذنا منہ بالیمین ثمہ لقطعنا منہ الوتین۔ الحاقہ 46۔ اگر یہ پیغمبر ہمارے ذمہ جھوٹی باتیں لگا دیتے تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑتے پھر ہم ان کی رگ دل کاٹ دیتے۔
کیا ان شواہد کے بعدبھی ہم یہ فرض کرسکتے ہیں کہ بتوں کی تعریف میں آنحضرت ؐ (باقی حاشیہ صفحہ 117 پر ملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شخص نہ تھا کہ ایک جھوٹی بات پر توقف کرتا۔ مکّے کا سارا شہر بھی اس کی نذر کردیا جاتا تو وہ اپنے اندر کی صداقت کو جھٹلا تے رہنے پر راضی نہ ہوتا۔اس نے میدان میں آکر اقرار کیا کہ اس سے لغزش ہوگئی تھی: اسے شیطانے ورغلا دیا تھا۔ اس نے کھلم کھلّا اپنے الفاظ کوواپس لیا او رکہا:۔ ”جہاں تک ان بتوں کا تعلق ہے وہ محض خالی خولی نام ہیں جنہیں انہوں نے اور ان کے آباواجداد نے وضع کرلیا۱؎۔“
مغربی سوانح نگاروں نے محمدؐ کی اس ”لغزش“ پربڑی شماتت آمیزخوشی کا اظہار کیا ہے لیکن جھگڑا چکانے کایہ حیلہ ایسا تھا کہ بہت کم لوگ اس سے کام لینے سے انکار کرتے۔پھر محمدؐ کی زندگی کسی دیوتا کی زندگی نہیں بلکہ ایک انسان کی زندگی ہے، ایسے واردات و تجربات سے پورے طور پر مملو جو انسانوں کے لیے مخصوص ہیں۔ لیکن اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اہل مکہ کی تالیف قلوب اور ان کے شدید جبر وستم سے امان حاصل کرنے کی خاطر محمدؐ نے ان کی بات کی تغلیط نہ کی تو ہم (بقیہ حاشیہ صفحہ116) کے منہ سے یہ الفاظ نکلے ہونگے۔
(2)مصنف نے اپنی طرف سے یہ جملہ بڑھا دیا ہے لیکن کس بار محدثین مثلاً علامہ عینی، حافظ منذری بیہقی قاضی عیاض او رنوری نے اس قصہ کو باطل اور موضوع قرار دیا ہے۔ نوری کاکہنا ہے۔ لایصیح فیہ شئی لامن جھتہ النقل ولا من جھتہ العقل۔کہ یہ قصہ نہ تو روایت کے اعتبار سے صحیح ہے او رنہ عقل و روایت کے اعتبار سے ہی درست ہے۔
(3) آخری او راہم نکتہ یہ ہے کہ سورہ نجم کی جن آیات کے بعد اس جملہ کوپڑھا یا گیاہے سیاق و سباق کے لحاظ سے اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔ کیونکہ اگر اس قصہ کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ مضمون و معنیٰ کا پورا کارخانہ ہی مختل ہوکر وہ جائے گا۔ یہی نہیں لات اور منات سے متعلق قرآن حکیم نے جو اعتراض کیا ہے۔ یعنی یہ سب قومؤنث ہیں اورکیا انصاف ہے کہ تم اپنے لیے توبیٹے تجویز کرتے ہو اور اللہ کے لیے بیٹیاں۔ الکم الذکر ولہ الانثیٰ۔تلک اذاً قسمۃ ضیز الی۔(ادارہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ Stanley Lane pools, Introduction to the Selections from the koran, p.xiix
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بارے میں کیا کہیں گے اس نے اس مصالحت کے ذریعے جو کچھ حاصل کیا تھا اس سے وہ مردانہ وار دست بردار ہوگیا اور اپنی غلطی کا علانیہ اقرار کر کے دوبارہ قریش کی توہین و تحقیر کا مورد بننے کے لیے سینہ سپر ہوگیا؟
ٖٓٓٓآپ ؐ کے یہ اعلان کرتے ہی لات،عزّٰ ی او رمنات صرف نام ہی نام ہیں ظلم و ستم آگے بھی زیادہ سختی کے ساتھ ازسرِ نو شروع ہوگیا۔ لیکن آپؐ کو تائید ایزدی کا جو یقین واثق تھا اور فرشتہ رحمت آپؐ کو جو آسمانی پیغام دے رہا تھا ان کے بل بوتے پر آپؐ نے اپنے دشمنوں کی مخالفت او رایذا رسانیو ں کی پروانہ کرکے اپنی تبلیغ کو جاری رکھا۔چنانچہ ہر طرح کی مزاحمت کے باوجود آپؐ کی تعلیمات آہستہ آہستہ لیکن استقلال کے ساتھ پھیلتی گئیں۔ سچائی کے جو بیج اس طرح بوئے گئے ان کو پنپنے سے کوئی چیز روک نہ سکتی تھی۔ صحرا کے وحشی عرب اور وہ تاجر جو دوردور دراز شہروں سے قومی میلے میں آتے تھے اوراس عجیب و غریب انسان کی باتیں سنتے جسے اس کے دشمن آسیب میں مبتلا سمجھتے تھے، اس کی وہ تعلیمات سنتے جو اس کی روح کی گہرائیوں سے نکلتی تھیں، خوف و حیرت سے اس کے و ہ ملامت آمیز کلمات سنتے جووہ ان کے بتوں، ان کی توہم پرستوں، ان کی بدافعالیوں او ران کے بُرے طور طریقوں کے بارے میں کہتاتھا۔ وہ یہ سب سنتے او راس سے غیر شعوری طور پر ایک نئی روشنی اور ایک نئی زندگی حاصل کرکے اپنے دور افتا دہ علاقوں میں اپنے ساتھ لے جاتے۔ وہ ہجو آمیز باتیں او رگالیا ں جو آنحضرت ؐ کے دشمن آپؐ کی شان بکتے تھے اُلٹاآپؐ کے کلام کی شہرت کو دوبالاکردیتیں۔
اس اثناء میں اہل مکہ بھی چین نہ بیٹھے رہے تھے۔ کئی مرتبہ قریش نے ابوطالب کے پاس وفد بھیجے کہ وہ اپنے بھتیجے کو ان کے مذہب کے خلاف تبلیغ کرنے سے روک دیں۔ شروع شروع میں تو ابوطالب انہیں خلق اور نرمی سے واپس کردیتے رہے۔لیکن جب قریش کے الحاد وناپاکی کے خلاف آنحضرت ؐ کی آتش بیانیاں جاری رہیں تو انہوں نے آپؐ کو کعبہ سے نکال دیا، جہاں آپؐ تبلیغ کیا کرتے تھے، اور پھر اکٹھے ہوکر آپؐ کے چچا کے پاس آئے۱؎ اور کہا۔:۔
۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ تاریخ طبری
۔۔۔۔۔۔
”ہم آپ کی بزرگی اور رتبے کا لحاظ کرتے ہیں، لیکن آخر اس کی کوئی حد بھی ہے۔ آپ کا بھتیجا ہمارے بتو او رہمارے آباواجداد کے بارے میں جو گستاخانہ باتیں کہتاہے اب وہ ہمارے دائرہ برادشت سے باہر نکل گئی ہیں۔ یا تو آپؐ اسے اس سے باز رکھیں یا خود اس کے ساتھ شامل ہوجائیں تاکہ تلوار ہمارے درمیان فیصلہ کردے او رہم دونو ں میں سے ایک گروہ ہلاک ہوجائے ۱؎۔ یہ کہہ کر وہ لوگ رخصت ہوگئے۔ ابوطالب کونہ تو اپنی قوم سے جدا ہونا گوارا تھا نہ وہ یہ چاہتے تھے کہ اپنے بھتیجے کو بت پرستوں کے حوالے کردیں۔ چنانچہ انہوں نے آنحضرت ؐ کو بلابھیجا او رآپؐ کو قریش کی باتوں سے مطلع کر کے تبلیغ ترک کردینے کی التجا کی۔آنح ضرتؐ کے دل میں خیال گزرا کہ غالباً آپؐ کے چچا آپؐ کی حمایت سے دستبردار ہوناچاہتے ہیں لیکن بیکسی کے اس لمحے میں بھی آپؐ کا عزم بلند بر قرار رہا۔آپؐ نے مضبوطی سے جواب دیا:”اے میرے چچا،اگر یہ لوگ میری دائیں ہتھیلی پرسورج او ربائیں ہتھیلی پرچاند رکھ دیں او رمجھے اپنے کام سے باز آنے کو کہیں تو میں پھر بھی باز نہ آؤں گا،جب کہ خدا کا منشا پورا نہ ہوجائے یا میں اس کے پورا کرنے کی کوشش میں فنا نہ ہوجاؤں،“لیکن اپنے مشفق چچا کے ترکِ حمایت کے خیال سے غمزدہ ہوکر آپؐ پلٹ کر جانے ہی کو تھے کہ ابوطالب نے پُکار کر کہا:”ادھر آؤ میرے بھتیجے، جو تمہارا جی چاہتا ہے کہتے چلے جاؤ میں کبھی تمہارا ساتھ نہ چھوڑوں گا۲؎“۔قریش نے پھر ایک مرتبہ کوشش کی کہ ابوطالب اپنے بھتیجے کو ان کے سپرد کردیں۔آنحضرتؐ کے بدلے میں انہوں نے قبیلہ مخزوم کا ایک شخص دینے کی پیشکش کی لیکن یہ کوشش بھی ناکام رہی۳؎۔ابوطالب نے اپنے بھتیجے کی حمایت کا جو اعلان کیا تھا اس سے قریش بہت خشمناک ہوگئے اور آگے سے بھی زیادہ جبر و تشدد کی دھمکیاں دینے لگے۔ اس محترم رئیس قبیلہ نے بنی ہاشم اور بنی مطلب کو، جو آنحضرتؐ کے قرابت دار تھے،ان کی عزّت کا واسطہ دلایا اوران سے التجا کی کہ اپنے خاندان کے اس ممتاز فرد کو حریف قبیلوں کی نفرت اور عداوت کا ہدف بننے سے بچائیں۔ اس التجا کا سب سے احترام کیا، نہ کیا تو صرف بھینگے ابولہب نے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ ابن الاثیر۔ابن ہشام۔
۲؎ ابن ہشام، ابن الاثیر،ابوالفداء
۳؎ ابن ہشام،ابن الاثیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس زمانہ میں اسلام کو ایک قوّی وجری ہاتھ آیا یعنی حضرت عمر ؓ جن کی مستعدی و سرگرمی عمل نے انہیں ملکت اسلامیہ میں آگے چل کر بڑی اہمیت بخشی۔انہوں نے دین محمدیؐ کی جو خدمات انجام دیں ان کی بدولت ان کا نام جریدہئ تاریخ پرثبت ہے۔ وہ عدی بن کعبؓ کے خاندان کے ایک ممتاز فرد اور خطّاب کے فرزند تھے،جو مسلمانوں کی ایذا رسانی میں پیش پیش تھے۔ قبول اسلام سے پہلے وہ اسلام کے شدید مخالف اور پیغمبر اسلام کے سخت دشمن تھے۔ کہاجاتا ہے کہ ان کا قبول اسلام قرآن کی ایک سورت کے معجز اثر کا نتیجہ تھا، جس کی تلاوت انہوں نے بہن کے مکان پر سُنی،جہاں وہ انتہائی غضب کے عالم میں قاتلانہ ارادے سے گئے تھے۔ آپؓ کے کانوں میں جو کلام پڑا اس سے آپؓ اس قدر مثاثر ہوئے کہ سیدھے آنحضرتؐ کے پاس گئے۔ ان کے ہاتھ میں برہنہ تلوار تھی جو وہ آنحضرتؐ او ران کے متبعین کے قتل کی خاطر گھر سے لے کر نکلے تھے۔جو مومنین آنحضرتؐ کے پاس بیٹھے آپؐ کے ارشادات سن رہے تھے وہ حضرت عمر ؓ کو اس عالم نے آتے دیکھ کر ہراساں ہوگئے، لیکن حضرت عمر ؓ نے آگے بڑھ کر رسولؐاللہ کا ہاتھ چوم لیا اور دین حق کے دائرے میں داخل کئے جانے کی درخواست کی۔ مومنین نے ان پر خدا کے فضل کا یہ نزول دیکھ کر نعرہ تشکّر بلند کیا۔قبول اسلام کے بعد وہ اسلام کے لئے زبردست پشت پناہ ثابت ہوئے۔
اب مسلمانوں کو اس کی ضرورت نہ رہی کہ کونوں کھدروں میں چھپے رہیں اور درپردہ نماز ادا کریں۔ طبقہئ غرباء کے کثیر التّعداد پیروؤں کے علاوہ اب آنحضرتؐ کے گرد چیدہ برگزیدہ اصحاب کی ایک جماعت بھی جمع ہوگئی تھی، جو حضرت ابوبکرؓ، حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ جیسے مستعد، قابل اور صاحب عزّت لوگوں پر مشتمل تھی۔ حضرت علیؓ اگرچہ نوحمر تھے، لیکن تیزی سے امتیاز حاصل کررہے تھے۔
ان اہم شخصیتوں کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے مسلمانوں کے حوصلے بڑھے اور اب وہ کھلم کھلّا نماز ادا کرنے لگے۔ قریش، جن پر حضرت عمرؓ کے ایمان لانے سے گویا بجلی سی گرِپڑی تھی، صورت حال کی نزاکت کو محسوس کرنے لگے۔ لیکن ایک فیصلہ کن ضربن لگانے کے موقعے کی تاک میں رہے۔
جب ان کا وفد اپنی ناکامی کی خبر لے کر حبشہ سے واپس آیا تو ان کے غضب کی انتہا نہ رہی۔ انہوں نے بالآخر ہاشم او رمطلّب کے خاندانوں کو ایک ضرب کاری سے مٹادینے کی ٹھان لی۔ اس مقصد کو پیش نظر رکھ کر انہوں نے بعثت نبویؐ کے ساتویں سال، یعنی 616ء کے اوآخر میں، بنی ہاشم او ربنی مطلب کے خلاف ایک انجمن قائم کی۔ انہوں نے ایک معاہدے پر دستخط کئے، جو کعبہ میں محفوظ کردیا گیا اور جس کا مضمون یہ تھا کہ وہ ہاشمیوں کے ساتھ رشتہ ونکاح اور لین دین نہ کریں گے۔ بنی ہاشم او ربنی مطلب، جن میں مسلمان بھی تھے او ربُت پرست بھی، اس معاہدے سے خوفزدہ ہوئے اور اس اندیشے سے کہ مباوا یہ کسی مزید حملے کا پیش خیمہ ہو، انہوں نے یہ مناسب سمجھا کہ اپنے گھروں کوچھوڑ کر جو شہر میں جابجا بکھرے ہوئے تھے، ایک جگہ جمع ہوکر رہیں۔ چنانچہ سب شعبِ ابوطالب میں چلے گئے، جو مکّے کے مشرقی مضافات میں ایک لمبی اور تنگ گھائی، جسے چٹانوں اور دیواروں نے شہر سے جداکر رکھا ہے اور جہاں سے شہر میں آمد و رفت کا ایک چھوٹے سے دروازے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔اکیلا ابولہب ان میں شامل نہ ہوا،بلکہ دشمنوں کے ساتھ مل گیا۔
یہ لوگ آنحضرت ؐ کو اپنی حفاظت میں لیے ہوئے تین سال تک اس گھاٹی میں رہے۔ قریش نے انہیں چار وں طرف سے گھیر رکھا تھا او رانہیں ہر طرح کی تنگی سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ کھانے پینے کاجو سامان اور اپنے ساتھ لے گئے تھے وہ جلدہی ختم ہوگیا اور یہ حالت ہوگئی کہ فاقہ زدہ بچوں کے رونے کی آواز باہر سے سنائی دینے لگیں۔قریش میں جو لوگ نسبتاً کم متّعصب تھے اگر وہ لوگ کبھی کبھی چوری چھپے انہیں مدد نہ پہنچا دیا کرتے تو غالباً وہ سب کے سب تباہ ہوجاتے۔ قریش کے بعض بعض سردار اپنی ناانصافیوں پر شرمندگی محسوس کرنے لگے تھے۔ بعثت بنویؐ کے دسویں سال میں یعنی 619ء میں ہشام بن عمر نے جسے ہاشمیوں سے بہت دلچسپی تھی، ہاشم و مطلب کے خاندانوں اور قریش کے درمیان سمجھوتہ کرانے کی کوشش کی۔ وہ زبیر ابن ابو اُمیّہ کو اپناہم خیال بنانے میں کامیاب ہوگیا، چنانچہ اس کی اور دوسرے لوگوں کی تحریک پر قریش کا معاہدہ منسوخ ہوگیا او رہاشم ومطلب کے خاندانوں کو اجازت مل گئی کہ مکّے میں واپس آجائیں اور شہری حقوق سے ازسر نو مستفید ہوں۔
اس کے بعد کا سال تاریخ اسلام میں عام الخرن کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ کیونکہ اس سال میں ابوطالب اور حضرت خدیجہؓ نے یکے بعد دیگرے وفات پائی۔ ابوطالب کی وفات نے آپؐ کو اپنی نوجوانی کے سرپرست سے محروم کردیا جو آپؐ کے او رآپؐ کے دشمنوں کے درمیان ایک دیوار کی طرح حائل رہاتھا۔حضرت خدیجہؓ کی وفات آپؐ کے لیے شدید صدمہ تھی۔ جب ابھی آپؐ پر کوئی ایمان نہ لایا تھا، یہاں تک کہ خود آپؐ کے اندر اپنی رسالت کاشعور پوری طرح بیدارنہ ہواتھا اور جب آپؐ کے چاروں طرف تاریکی اور نا امیدی تھی، ایسے آڑے وقت میں حضرت خدیجہؓ کی محبت اور ایمان ویقین نے آپؐ کا ساتھ دیا تھا ”وہ ہمیشہ آپؐ کے لیے امید و تسکین کا فرشتہ رہیں“۔ ان کی محبت و مودّت کی یاد تادمِ آخر آنحضرتؐ کے دل میں تازہ رہی۔۔۔“
پہلے باب پر نوٹ
سرولیم میور کا خیال ہے کہ موسیلو کو سیں دی پرسیوال M. Caussin- de perceval نے بطحا کو کسی جگہ کا نام تصور رکرنے میں غلطی کیا ہے۔ ان کے خیال میں وہ سنگریز وں والی زمین ہے جس پرمسلمانوں کی اذیت دی جاتی تھی (جلد دوم صفحہ 128) اپنے بیان اور موسیلو کوسین دمی پرسیوال کے بیان کی تصدیق میں میرے لیے صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ بطحا کا موجود ہوناایک ایسا امر ہے جس کے بارے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مسلم مصنفین نے اکثر بطحا کا ذکر ایک ایسے مقام کی حیثیت سے کیا ہے جو مکّے کے قرب وجوار میں واقع ہے۔ مثلاً مشہور شاعر حکیم سنائی کہتاہے:۔
چوعلمت ہست خدمت کن چوبے علماں کہ زشت آید
گرفتہ چینیاں احرام و مکّی خفتہ دربطحےٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Related Article:
URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-15/d/123084
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism