سید
امیر علی
(قسط 22 )
20 مئی 2021
فَما تطاوُل اَمَالِ
المدیحِ الیٰ مافیہ مِن
کَرَمِ الاَ خَلاقِ وَالشّیم
7 ہجری۔12 اپریل۔628ء سے یکم مئی۔629 ء تک:۔یہودی قبائل ہزیمتیں
اٹھانے کے باوجود،اب بھی خطرناک تھے اور ابھی تک مسلمانوں کی تباہی کی تدبیر میں
منہمک تھے۔ مدینے سے تین چار روز کی مسافت پر شمال مشرق کی جانب ان کے قبضے میں
ایک ایسا علاقہ تھاجس میں جا بجا قلعے تھے۔ ان میں سب سے بڑا قلعہ ”القموص“ ایک
دشوار گذار پہاڑی پر واقع تھا۔ قلعوں کے اس مجموعے کا نام خیبرتھا (خیبر کے معنی
قلعہ بندمقام) خیبر میں جو لوگ آباد تھے ان میں بنی نضیر او ربنی قریظ کی بہت سی
شاخیں بھی تھیں، جو ان قلعوں میں پناہ گزین تھیں۔ خیبر کے یہودیوں کو آنحضرتؐ اور
آپؐ کے متبعین سخت دشمنی اور نفرت تھی، جسے ان کے بھائی بندوں کی آمدنے اور
بڑھادیا۔ ان لوگوں کا بنی غطفان اور دوسرے بدویوں کے ساتھ دیرینہ اتحاد تھا۔
چنانچہ وہ مسلمانوں کے خلاف ایک اور متحدہ محاذ قائم کرنے کی کوششوں میں متواتر
سرگرم کا ر تھے۱؎۔صحرائی
قبائل مسلمانوں کونقصان پہنچانے کی جو قوت رکھتے تھے مسلمان اس سے بخوبی آگاہ تھے
اور انہیں اس کا احساس تھا کہ مدینے کے خلاف نئے اتحاد کا سدّ باب کرنا ضروری تھا۔
چنانچہ اس سال مام محرّم کے ابتدائی ایّام میں چودہ سو (1400) آدمیوں پر مشتمل ایک
مہم خیبر بھیجی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ کوسین دی پرسیوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہودیوں نے اپنے حلیفوں
سے مدد طلب کی۔ بنی فزادہ فوراً ان کی امداد کو پہنچے، لیکن اس خوف سے کہ کہیں
مسلمان پہلو بدل کر ان کی غیر موجودگی میں اچانک ان کے گلّوں اورریوڑوں پر حملہ
آور نہ ہوجائیں، وہ لوگ جلدی سے پیچھے ہٹ گئے۔ اس طرح یہودی میدان جنگ میں اکیلے
رہ گئے۔ مسلمانوں نے انہیں صلح کی شرائط پیش کیں لیکن انہوں نے منظور نہ کیں۔
اگرچہ یہودیو ں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا،لیکن ایک کے بعد ایک قلعے نے اپنے دروازے کھول
دیئے۔ اخیر میں سب سے زبردست قلعے قمو ص کی باری آئی۔ یہودیوں نے جی توڑ کر اس کے
بچاؤ کی کوشش کی لیکن وہ بھی مسلمانوں کے ہاتھ آگیا۔ اس قلعے کی تسخیر سے باقی
یہودیوں پر واضح ہوگیا کہ مزید مقابلہ بے سود ہے۔ وہ معافی کے خواستگار ہوئے اور
انہیں معافی دے دی گئی۔ انہیں اس کی امر کی ضمانت بھی دے دی گئی کہ اگر ان کا
آئندہ طور طریقہ اچھا رہا تو ان کی زمینیں اور غیر مفقولہ جائدادیں ان کے قبضے میں
رہنے دی جائیں گی او رانہیں اپنے مذہب پرکار بند رہنے کی آزادی ہوگی۔ کیونکہ وہ
عام محصولات سے مستثنیٰ تھے، اس لیے آنحضرتؐ نے ان پر یہ فرض عائد کیا کہ تحفظ کے
بدلے میں وہ حکومت کو اپنی زمینوں کے پیداوار کا آدھا حصہ دیا کریں گے۔ جو قلعے
مسلمانوں نے باقاعدہ محاصرہ سے تسخیر کئے ان میں جو جائداد منقولہ تھی وہ اسلامی
فوج کے حق میں ضبط کر لی گئی اور فوجیوں میں تقسیم کردی گئی۔ سواروں کو تین حصے
ملے اور پیادوں کو ایک حصہ ملا۱؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
ابن ہشام، ابن لاثیر۔یہ سراسر جھوٹ ہے کہ پوشیدہ خزانے کاپتہ چلانے کے لیے کنانہ
کو اذیت دی گئی۔
اس مہم کے دوران آنحضرتؐ
کو ہلاک کرنے کی متعدد کوششیں کی گئیں۔مثلاً جب آپؐ خیبر میں داخل ہوئے تو ایک یہو
دن نے آپؐ کی او ر چند صحابہؓ کی دعوت کی او رکھانے میں زہر ملا دیا۔ ایک صحابی تو
چار نوالوں کے بعد ہی جاں بحق ہوگیا۔ آنحضرتؐ کی جان بچ گئی، لیکن زہر آپؐ کے جسم
میں سرایت کر گیا اور اس کے اثرات تادم آخر باقی رہے۔ آنحضرتؐ نے یہودن کو معاف
کردیا او راسے (باقی حاشیہ صفحہ190پرملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
7 ھ کے اواخر میں آنحضرتؐ اور صحابہؓ نے قریش کے ساتھ صلح کا فائدہ
اٹھاکر زیارت کعبہ کی وہ خواہش پوری کی جو مدتوں سے ان کے دلوں میں تھی۔ اس سفر کو
اسلامی تاریخ میں ’عمرۃ القضاء‘ کے محترم نام سے دیا جاتا ہے۱؎۔ مارچ 629 ء میں آنحضرتؐ دوہزار صحابہؓ
کے ہمراہ کے لیے حازم مکّہ ہوئے۔ قریش کو ان زائرین سے ملنا یا بات تک کرنا گوارا
نہ تھا۔ چنانچہ رسوم عمرہ کی سہ روزہ مدّت کے لیے انہوں نے شہر خالی کردیا اور
قریب کی پہاڑیوں پر سے مسلمانو ں کے عمرہ ادا کرنے کا تماشا دیکھتے رہے۔ میور
لکھتا ہے:”وہ یقینا ایک عجیب وغریب نظارہ تھا جو اس وقت وادیئ مکّہ میں دکھائی دے
رہاتھا۔ ایک ایسا نظارہ جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں ملتی ہیں۔ تین دن کے لیے اس
قدیم شہر کے تمام باشندے، کیا اعلیٰ او رکیا ادنیٰ،شہر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ ہر
گھر خالی ہوجاتی ہے۔ادھر اہل مکّہ شہر سے باہر جارہے ہیں او رادھر جلاوطن مسلمان
جنہیں اپنے مولد سے شہربدر ہوئے کئی سال گذر چکے تھے، اپنے حلیفوں کے ہمراہ جوق
درجوق شہر کے اندرداخل ہوتے ہیں، ان خالی گھروں میں جاتے ہیں جہاں ان کا بچپن گذرا
تھا اور اس مختصر مہلت میں جو انہیں دی گئی ہے زیارت کعبہ کی رسوم ادا کرتے ہیں۔
مکّے والے ارد گرد کی بلنددیوں پر چڑھ کر خیموں میں یا پہاڑیوں او رگھاٹیوں میں
جہاں کہیں بھی وہ سر چھپا سکتے ہیں پناہ لیتے ہیں۔ ابو قبیس کی آگے کونکلی ہوئی
چوٹی پر جھرمٹ بنا کر زائرین کی نقل وحرکت کامشاہدہ کرتے ہیں، جواپنے نبی کی
سربراہی میں کعبے کا طواف کررہے ہیں یا صفا و مروہ کے درمیان تیز قدمی سے چل رہے
ہیں۔ اوپر والے نیچے والوں میں سے ہر شخص کو متجسّسانہ نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں کہ
شاید انہیں کوئی مدتوں سے بچھڑا ہوا دوست یا عزیز نظر آئے۔ جن شدائد مصائب سے
اسلام کو اپنی ابتدائی زندگی میں دوچار ہونا پڑا، ان کے بغیر ناممکن تھا کہ یہ
نظارہ دیکھنے میں آتا ۲؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقیہ حاشیہ صفحہ190) اپنے
لوگوں میں رہنے کی اجازت دے دی۔ طبری،ابن الاثیر
۱؎ سورہ فتح 27
۲؎ Muir,
Life of Muhammed, voi, iii,402
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمانوں نے شرائط صلح کی
سختی سے پابندی کی اور تین دن کے قیام کے بعد مکّہ خالی کردیا۔ جس پرُامن طریقے سے
مسلمانوں نے اپنی زیارت کعبہ کی آرزو پوری کی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قریش کے
اوربہت سے اہم افراددائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ ان کے ضبط و تحمل اور ایفائے عہد
نے دشمنوں پر بہت گہرا اثر کیا۔ قریش کے جو لوگ آنحضرتؐ کے شدید ترین مخالف تھے
اور جن میں بہت سے صاحب حیثیت اور ذمی اثر لوگ بھی تھے جنہوں نے آپؐ سے جنگ کی تھی
اور آپؐ کو برُا بھلا کہا تھا، وہ آنحضرتؐ کی کریم النفّسی،شرافت اور عفو و رحم سے
اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا۱؎۔
شہنشاہ یونان کے ایک
ناجگزار سردارکے ہاتھوں مسلمان سفیر کا قتل ایک ایسا جرم تھا جسے خاموشی سے اور
سزا دیئے بغیر نظر انداز نہ کیا جاسکتا تھا۔ غسّانی شہزادہ سے تاوان کا مطالبہ
کرنے کے لیے تین ہزار آدمیوں کی ایک مہم روانہ کی گئی۔ بازنطینی شہنشاہ کے ماتحت
عمّال نے اس جرم سے بریت ظاہر کرنے کی بجائے اس کی ذمہ داری اپنے سرلے لی،جس کے
معنی یہ تھے کہ ساری بازنطینی سلطنت مسلمانوں سے بر سر جنگ تھی۔ ان عمّال نے اپنی
فوجیں جمع کر کے موتہ کے قریب مسلمانوں پر حملہ کردیا،جو شام کے شہر بلقاء سے کچھ
دور، جہاں مسلمان سفیر قتل کیا گیا تھا، ایک گاؤں تھا۔ مسلمانوں نے بازنطینیوں او
ران کے حلیفوں کو پسپاتو کردیا،، لیکن دشمنوں کی فوج تعداد میں مسلمانوں سے بہت
زیادہ تھی۔اس لیے مسلمان مدینہ واپس آگے۲؎۔
اسی زمانے کی بات ہے کہ
قریش نے بنی بکر کے ساتھ مل کر صلح حدیبیہ کی شرائط کی خلاف ورزی کی اور بنی خزاعہ
پر حملہ کردیا، جو مسلمانوں کے حلیف اور ان کی حفاظت میں تھے۔ انہوں نے بنی خزاعہ
کے بہت سے آدمی ہلاک کردیئے او رباقیوں کو منتشر کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ مثلاً خالدبن ولیدجوجنگ اُحد میں قریش سواروں
کے سردار تھے، او رعمر و بن العاص۔
۲؎ کوسین دی پرسیوال، ابن الاثیر۔ اس لڑائی میں
مسلمانوں کے سالار لشکر زید ؓبن حارث،عم زادہ رسولؐ جعفرؓ او ربہت سے دوسرے نمایاں
افراد شہید ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنی خزاعہ فریاد لے کر
آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انصاف کامطالبہ کیا۔ مکّے میں بڑی مدت سے
ناانصافی اور ظلم و ستم کی گرم بازار ی تھی،اہل مکّہ نے خود شرائط صلح کو توڑا تھا
اور ان کے کئی سرداروں نے بنی خزاعہ کے قتل عام میں حصہ لیا تھا آنحضرتؐ خود دس
ہزار مجاہدوں کے لے کر میدان میں نکلے۔ عکرمہ اور صفوان کی سر کردگی میں ان کے
قبائل نے تھوڑی سی مزاحمت کی جس میں چند مسلمان شہید ہوگئے۔ ان کے سوا کوئی مقابلہ
میں نہ آیا اور آنحضرتؐ نے مکہ میں درود کیا۔
اس طرح آنحضرتؐ ایک فاتح
کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے۔ وہ جوکسی زمانہ میں غریب الوطن اورموردِ ظلم وستم
تھا، اپنی رسالت کہ رحم و کرم سے ثابت کرنے کے لیے اپنے شہر میں واپس آیا۔ جس شہر
نے اس کے ساتھ اتنی بے رحمی کاسلوک کیا تھا، جس نے اسے ؐ او ر اسؐ کے جاں نثار وں
کو اجنبیوں کی پناہ لینے پر مجبور کیا تھا، جس نے اسؐ کی اور اسؐ کے عقیدت مندو ں
کی جان لینے کی قسم کھا رکھی تھی، وہ شہراب اسؐ کے قدموں پر پڑاتھا۔ اس کے ظالم و
سفّاک دشمن،جنہوں نے پرُامن مردوں اور عورتوں پر ظلم و ستم ڈھا کر بلکہ مُردوں کی
بھی بے حرُمتی کر کے اپنے ننگ انسانیت ہونے کا ثبوت دیا تھا، اب اسؐ کے رحم وکرم
کے محتاج تھے، لیکن فتح و ظفر کی اس گھڑی میں تمام بُرائیاں بھلا دی گئیں،تمام زیادتیاں
معاف کردی گئیں اور مکّے کی تمام آبادی کو عام معافی دے دی گئی۔ اپنے بدترین
دشمنوں کے شہر میں فاتحانہ داخل ہونے کے بعد آپؐ نے واجب القتل لوگوں کی جو فہرست
بنائی وہ صرف چار مجرموں پر مشتمل تھی،جنہیں عدل مستوجب سزا قرار دے چکا تھا۔ فوج
نے بھی آپؐ کی مثال کی تقلید کی اور پرُامن طریقے سے شہر میں داخل ہوئی۔”کوئی گھر
نہ لُوٹا گیا اور کسی عورت کی توہین نہ کی گئی۔ بالکل بجا طور پر کہا گیاہے کہ
فتوحات کی تاریخ میں اس فاتحانہ درود کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ لیکن عربوں کے بُت
بے دریغی سے توڑ دیئے گئے۔ کفّار غم وتاسف کے عالم میں کھڑے اپنے معبود بُتوں کے
ہبوط کانظارہ دیکھ رہے تھے او رپھر ان پر حقیقت آشکار ہوگئی، جب بُتوں کے سرنگوں
ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس ؐ پرانی جانی پہچانی آواز کو، جسے وہ تمسخر میں
اُڑا دیا کرتے تھے، یہ اعلان کرتے سنا”حق آگیا اورباطل گیا گزرا ہوا او رواقعی
باطل آنی جانی چیز ہے۱؎”ان
کے اصنام کتنے بے دست و پا نکلے!
ان قدیم بتوں کو توڑ نے
اور جاہلیت کی تمام رسوم کو مٹانے کے بعد رسولؐ خدا نے لوگوں کو جمع کر کے ایک
خطبہ دیا۔ اس میں آپؐ نے پہلے تو انسانوں کی فطری مساوات و اخوت کے بارے میں قرآن
کے احکام بیان۲؎
کئے اور پھر فرمایا: ”اے قریش! میری طرف سے تمہیں اپنے لیے کس سلوک کی توقع ہے؟“
انہو ں نے جواب دیا۔”آپؐ ہمارے شفیق برادراور مہربان برادر کے فرزند ہیں،ہمیں آپؐ
سے بھلائی ہی کی توقع ہے۳؎۔”طبری
کہتا ہے کہ الفاظ سن کر آپؐ کی آنکھوں میں آنسو آگے اورآپ ؐ نے فرمایا۔”اچھا میں
بھی تم سے وہی کہتا ہوں جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا:۔ لاتثریب علیکم الیوم
یغفر اللہ الکم وھوا رحم الراحمین (خدا تمہیں معاف کرے، آج تم پر کوئی ملامت نہیں۔
وہ بڑا رحیم و رحمٰن ہے۴؎“)
اب ایک ایسا منظر رونما
ہوا جس کی کوئی مثال تاریخ عالم میں نظر نہیں آتی۔ جوق درجوق لوگ آتے اور اسلام
قبول کرتے چلے جاتے۔آپؐ نے کوہِ صفا پر بیٹھ کر ان سب سے وہی عہد لیا جو آپؐ نے مدینے
والوں سے لیا تھا۔ ”ہم خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے، چوری نہ کریں گے،
زنانہ کریں گے اور اولادکو قتل نہ کریں گے،ہم جھوٹ نہ بولیں گے اور عورتوں کے بارے
میں بُری باتیں نہ کہیں گے۵؎۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ بنی اسرائیل
۲؎ سورہ الحجرات آیت 10
۳؎ ابن ہشام،طبری
۴؎ سورہ یوسف
۵؎ ابن الاثیر۔کوسین دی پرسیوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس قرآن کی پیشگوئی پوری
ہوئی:۔”جب خدا کی مدد آپہنچے اور فتح ہوجائے اور تم لوگو ں کو جوق درجوق اللہ کے دین
میں داخل ہوتے دیکھو تو اپنے ربّ کی حمد و ثنا کرو اور اس سے توبہ کی درخواست کرو۔
وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۱؎۔“
اب آپؐ کی رسالت کا مقصد
تکمیل کے قریب تھا۔ آپؐ نے اکابر صحابہ کو تمام اطراف میں صحرا کے بدوی قبائل کی
طرف بھیجا تاکہ انہیں دعوت اسلام دیں اور انہیں تاکید ی احکام دیئے کہ امن و خیر
سگالی کی تبلیغ کریں۔ انہیں صرف تشدد سے اپناتحفظ کرنے کی خاطر ہتھیار اُٹھانے کی
اجازت دی گئی۔ ایک موقعے کے سوا ان ہدایات پر پوراپورا عمل کیا گیا۔ خالد بن ولید
کے آدمیوں نے اپنے شعلہ مزاج نو مسلم سردار کے حکم پر قبیلہ بنی جذیمہ کے چندبدوی یہ
سمجھ کہ کہ وہ دشمن سپا ہ کے آدمی ہیں قتل کر ڈالے۔لیکن دوسرے مسلمانوں نے دخل
اندازی کر کے مزید خوں ریزی روک دی۔ جب بے جاخو ں ریزی کی خبر رسولؐخدا نے سنی تو
آپؐ فرطِ غم سے بے قرار ہوگئے اور دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر پکارے:۔ ”یا
اللہ میں خالد کے اس فعل سے بری الزمہ ہوں!“ آپؐ نے فوراً حضرت علیؓ کو بنی جذیمہ
کے پاس بھیجا تاکہ ہر ممکن طریقہ سے انہیں اس زیادتی کامعاوضہ ادا کیا جائے۔یہ کار
خیر حضرت علیؓ کی طبیعت سے مواقفت رکھتا تھا اور آپؐ نے ہدایات نبوی کے عین مطابق
اس کو انجام دیا۔ انہوں نے مقتولین کی تعداد، ان کی حیثیت او ران کے ورثاء کو جو
نقصان پہنچا تھا ان سب ی بکمالی احتیاط تحقیقات کی او رہر کسی کے حق کے مطابق اسے
ویت عطا کی۔ نقصانات کی تلافی کے بعد جو رقم بچی وہ انہوں نے مقتولین کے رشتہ
داروں اور قبیلے کے لوگوں میں تقسیم کردی۔واقعہ نگار لکھتا ہے کہ ان کی اس خیاضی
اور رحم دلی سے لوگوں کے دل خوش ہوگئے۔ لوگوں کی دعائیں لیتے ہوئے آپؓ رسولؐاللہ کی
خدمت میں حاضر ہوئے۔ آنحضرتؐ نے جی کھول کر آپؓ کی تعریف کی۲؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
سورہ نصر
۲؎ ابن ہشام، ابن الاثیر،طبری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوازن،ثقیف او ربہت سے
دوسرے جنگجو بدوی قبیلے جن کی چراگاہیں ہیں مکّے کے قرب وجوار میں تھیں او رجن میں
سے بعض طائف سے مضبوط قلعہ بند قصبوں میں رہتے تھے مقابلہ کئے بغیر مسلمانوں کی
اطاعت قبول کرنے پر راضی نہ تھے۔ چنانچہ انہوں نے اس نیت سے ایک اتحاد قائم کیا کہ
مسلمانوں پر اچانک حملہ کردیں او رانہیں مدافعت کاموقع نہ دیں۔ لیکن آنحضرتؐ کی
مستعدی نے اس کی سازش کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ حنین کے قریب جو مکے۱؎ سے دس میل دور شمال
مشرق کی جانب ایک گہری اور تنگ گھاٹی ہے، گھمسان کی لڑائی ہوئی، جس میں کفّار کو
نقصان عظیم کے ساتھ شکست ہوئی۲؎۔
دشمن کی فوجیں دو گروہوں میں بٹ گئیں۔ ایک گروہ نے، جس میں زیادہ تر بنی ثقیف کے
لوگ تھے، شہر طائف میں پناہ لی، جس کے حدود سے آٹھ نوسال پہلے آنحضرتؐ کو اہانت کے
ساتھ نکال دیا گیا تھا۔ دوسرا گروہ بھاگ کر وادیئ اوطاس کے ایک محفوظ مقام پرپناہ گزین
ہوا۔ یہ مقام تسخیر کرلیا گیا او رہوازن کے اہل و عیال اپنے تمام مال و متاع ریوڑوں
اور گلّوں سمیت مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ پھر طائف کا محاصرہ کیا گیا لیکن کچھ دنوں
کے بعد آنحضرتؐ نے محاصرہ اُٹھا لیا۔آپؐ کو خوب معلوم تھاکہ حالات اہل طائف کو کسی
خوں ریزی کے بغیر خود بخود ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیں گے۔ جب آپؐ اس مقام کو
لَوٹے جہاں ہوازن کے قیدی بغرض حفاظت رکھے گئے تھے تو آپؐ نے اس طاقتور قبیلے کا ایک
وفد آپؐکا منتظر پایا تاکہ آپؐ سے اپنے اہل وعیال کی واپسی کی درخواست کرے۔آپؐ
جانتے تھے کہ عرب اپنے حقوق کے معاملے میں کس قدر حسّاس ہیں، اس لیے آپؐ نے بدوی
مندوبین کویہ جواب دیا کہ آپؐ اپنی قوم کو ثمرات فتح سے دست بردار ہونے پر مجبور
نہ کرسکتے تھے او راگر ہوازن اپنے اہل وعیال کو واپس لیناچاہتے تھے تو انہیں کم از
کم اپنے مال و اسباب سے دست کش ہوجانا چاہئے۔ہوازن اس بات پر راضی ہوگئے۔چنانچہ
دوسرے دن جب مسلمان آپؐ کی امامت میں نماز ظہر۳؎ ادا کررہے تھے تو ہوازن
نے آکر اپنی درخواست کو دہرایا، ”ہم رسولؐاللہ سے التجا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
کوسین۔دی۔پرسیوال۔قاموس میں محض اتنا ذکر ہے کہ حنین مکے سے طائف جانے والی سڑک
واقع ہے۔ معجم البلدان میں یہ کہا گیا ہے کہ حنین ذوالمجاز کے جنوب میں اور مکّے
سے تین رات کی مسافت پر واقع ہے۔
۲؎ سورہ توبہ (آیات 25۔26) میں اس جنگ کی طرف
اشارہ کیا گیا ہے۔ ابن ہشام۔ابن الاثیر
۳؎ بقول طبری نماز فجر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرتے ہیں کہ مسلمانو ں سے
سفارش کریں اور مسلمانوں سے التجا کرتے ہیں کہ وہ رسولؐاللہ سے سفارش کریں کہ
ہمارے بیوی بچے ہمیں واپس دے دیئے جائیں۔“ آنحضرتؐ نے جواب دیا۔”میں اپنا اور بنو
عبدالمطلب کا حصہ فوراً تم لوگوں کو واپس کرتا ہوں“۔آپؐ کی فیاضی سے متاثر ہوکر آپؐ
کے متبعین نے فوراً آپؐ کی مثال کی تقلید کی۔ چنانچہ ایک لمحے میں چھ ہزار قیدی
رہا کر دیئے گئے۱؎۔
اس دریادلی نے بنی ثقیف کے دل جیت لیے اور وہ بیعت کر کے سچے دل سے مسلمان
ہوگئے۔ہوازن کے گلّوں اور ریوڑوں کی تقسیم کے بعد جو واقعہ پیش آیا اس سے صرف یہی
ظاہر نہیں ہوتا کہ آنحضرتؐ کو اہل مدینہ کے دلوں پر کیسا تسلّط تھا اور انہیں آپؐ
سے کیسی گہری عقیدت تھی، بلکہ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ کی زندگی کے کسی
دور میں بھی آپؐ کے پاس اپنے متبعین کو دینے کے لیے کوئی مادی انعامات نہ تھے۔ مال
غنیمت کی تقسیم میں نو مسلم اہل مکہ مدینہ کی بہ نسبت زیادہ حصہ ملا۔ بعض انصار نے
اسے جانب داری سے تعبیر کیا۔ جب اس کی اطلاع آپؐ کو ملی تو آپؐ نے جمع ہونے کا حکم
دیا۔ پھر آپؐ نے ان سے مخاطب ہوکر ذیل کے الفاظ فرمائے:۔ ”اے انصار! تم لوگو کی
باتیں میرے کانوں تک پہنچی ہیں۔ جب میں تم لوگوں کے پاس آیا تو تم تاریکی میں
بھٹکتے پھر رہے تھے۔ خدا نے میرے ذریعے سے تمہیں سیدھا راستہ دکھایا، تم غمزدہ
تھے، اس نے تمہیں راحت بخشی، تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمہارے دلوں میں
باہمی الفت پیدا کی۔ مجھے بتاؤ کیا یہ درست نہیں؟“۔انہوں نے جواب دیا۔”واقعی ایسا
ہی ہے، بے شک خدا اور رسولؐ کے ہم پر بے حد احسان ہیں۔“ آپؐ نے سلسلہئ کلام کو جاری
رکھتے ہوئے فرمایا: بخدا! تم یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ اگر تم ایسا کہتے تو سچ کہتے
اور میں اس کی سچائی کی گواہی دیتا کہ ’ساری دنیا نے تجھ کو جھٹلایا اور ہم نے تیری
تصدیق کی، تو ہمارے پاس بے یارومددگار آیا اور ہم نے تیری مدد کی، تو غریب و بے
خانماں تھا، ہم نے تجھے پناہ دی، تو مضطرب و پریشان تھا، ہم نے تیری ڈھارس بندھائی“۔
اے انصار! متاع دنیا کے لیے کیوں اپنے دلوں کو پریشان کرتے ہو؟ کیاتمہیں یہ پسند
نہیں کہ دوسرے لوگ یہاں سے لوٹیں تو اونٹ او ربکریاں ہمراہ کرجائیں اور تم اپنے
گھروں میں خدا کے رسولؐ کو ہمراہ لے کر جاؤ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
ابن ہشام،ابن الاثیر،طبری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسم ہے اس خدا کی جس کے
قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ میں تمہارا ساتھ کبھی نہ چھوڑو ں گا۔ اگر ساری دنیا
اکٹھی ہوکر ایک راستے پرچلے ا ور انصار دوسرے راستے پر چلیں تو میں انصار کے ہم
راہ چلوں گا۔ اے اللہ انصار اورانصار کے لڑکوں او ران کے لڑکوں کے لڑکوں پر رحم کر“۔
واقعہ نگار کہتاہے کہ یہ الفاظ سن کر سب انصار اس قدر روئے کہ ان کی داڑھیاں
آنسوؤں سے تر ہوگئیں او رسب ایک زبان ہوکر پکار اُٹھے:”ہم سب اپنے اپنے حصہ پر
مطمئن ہیں۔“ اس کے بعد مسرور ودلشاد سب لوگ رخصت ہوگئے۔
تھوڑی مدت کے بعد آنحضرتؐ
نے مدینے مراجعت فرمائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Related Article:
URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-22/d/124850
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism