سید امیر علی
(قسط 30)
29 مئی 2021
الجنۃ تحت اقدام الامّھات۱؎
معاشرتی نشو و نما کے ایک
مرحلے میں تعدّدازدواج (Polygamy)،بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں تعددّ ازدواج (Polygamy) یعنی ایک مرد کا
بیک وقت ایک سے زیادہ عورتوں کا شوہر ہونا،ایک ناگریز امر ہوتا ہے۔ قدیم زمانوں
میں آئے دن کی قبائلی جنگوں کے باعث مردو ں کی آبادی میں جو کمی واقع ہو جایا کرتی
تھی جس کے عورتوں کے عدوی تناسب کا پلہ بھاری ہوجایا کرتا تھا،کچھ اس کی بدولت او
رکچھ اس کی وجہ سے کہ قبالی سرداروں کو جو مردہوتے تھے،مطلق اختیار حاصل تھا یہ
دستور وجود میں آیا، جسے ہمارے ترقی یافتہ زمانے میں بجا طور پر ایک ناقابل برداشت
خرابی سمجھا جاتا ہے۔
پُرانے وقتوں کی تمام
مشرقی اقوام کے یہاں تعددّ ازدواج ایک مانا ہوا ادارہ تھا۔ چونکہ بادشاہ،جو صفت
الہٰیت سے متّصف سمجھے جاتے تھے،اس پر عمل کرتے تھے، لہٰذی یہ رواج عام لوگوں کی
نظروں میں مقدس ہوگیا۔ ہندوؤں کے یہاں تعددِ ازدواج چند زنی اور چند شوئی دونوں
صورتوں میں قدیم ترین زمانوں سے رائج تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ قدیم مادیوں،بابلیوں،
اسوریوں اور ایرانیوں کی طرح ہندوؤں میں بھی ایک مردبیک وقت لاتعداد عورتوں کا
شوہر ہوسکتا تھا۔اونچی ذات کے برہمن کہ آج کل کے زمانے میں بھی جتنی بیویاں وہ
چاہے اتنی بیویوں کی اجازت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
جنت ماؤں کے قدموں میں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت موسیٰؑ کے وقت سے
پہلے بنی اسرائیل کے یہاں بھی تعددّ ازدواج کادستور تھا۔ حضرت موسیٰؑ نے اسے قائم
رہنے دیا، یہاں تک کہ انہوں نے اس کی کوئی حد بھی مقرر نہ کی کہ ایک یہودی مرد بیک
وقت کتنی عورتو ں کو اپنے نکاح میں رکھ سکتا تھا۔ بعد کے زمانے میں تلمود یروشلم
نے یہ پابندی عائد کی کہ ایک مرد صرف اتنی عورتوں کو اپنے نکا ح میں رکھ سکتا ہے
جتنی عورتوں کو نان و نفقہ مہیا کرنے کی اس میں استطاعت ہو، اگرچہ ربیوں کی یہ
ہدایت تھی کہ کسی مرد کے چار سے زیادہ بیویاں نہ ہونی چاہئے،لیکن قرائین Karaites کو ان سے اختلاف
رائے تھا او روہ تعیین حد کے قائل نہ تھے۔
ایرانیوں کے مذہب نے
بیویوں کی کثرت کو قابل انعام قرار دیا۱؎۔
سوری فینیقی قوموں میں
جنہیں بنی اسرائیل نے جلاوطن مسخر یا تباہ کیا،تعدّدِازواج بہیمیت کی حد تک گرگیا
تھا۲؎۔
تھریس Thrace،لیڈیا Lydians اور پیلا سگیا Pelasgian کی قوموں کے یہاں،
جویورپ او رمغربی ایشیا کے مختلف حصوں میں آباد تھیں، تعدّد ازواج حَدِاعتدال سے
اس قدر متجاوز ہوگیا تھا کہ کوئی دوسری قوم اس امر میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی۳؎۔
اہل ایتھنز کے یہاں،جو
ازمنہئ قدیم کی تمام قوموں سے زیادہ مہذّب اور شائستہ تھے، بیوی محض ایک اثاثہ تھی
جو خرید و فروخت کیا جاسکتا تھا، بلکہ وصیتہً منتقل بھی کیا جاسکتا تھا۔ سچ تو یہ
ہے کہ وہ ایک بُڑی چیز سمجھی جاتی تھی،جو محض گھر بار چلانے اور بچے جننے کے لیے
ضروری تھی۔ ایتھنز کے شہر یوں کو بے حد حساب بیویوں کی اجازت تھی،چنانچہ ڈیمو
سیتھینز (Demosthenes) فخر بیان کرتا ہے کہ اس کی قوم میں عورتوں کے تین طبقے تھے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
Dollinger,
The Gentile the Jew, pp. 405,406
۲؎
احبا،ب 18۔84۔Encyclopedia Universal, Art.
۳؎
Mitiage,
Dollinger, The Gentile and the Jew, vo, ii,333
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جن میں سے دو طبقے نکاحی
بیاہی او رنیم نکاحی بیاہی عورتیں مہیا کرتے تھے۱؎۔
اہل سپارٹا (The
Spartans)
کے یہاں مردوں کوخاص حالات کے سوا ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت نہ تھی،لیکن
عورتوں کو بہ یک وقت متعدد شوہر وں کی اجازت تھی اور اس اجازت سے تقریباً ہمیشہ
فائدہ اٹھایا جاتاتھا۲؎۔
جن مخصوص حالات میں ر ومی
مملکت قائم ہوئی انہوں نے غالباً اس امر کی اجازت نہ دی کی شروع شروع میں تعدّدِ
ازواج کو قانوناً جائز قرار دیا جائے۔سابی (Sabine) عورتوں کے استحصال
بالجبر کے قصے کی تاریخی صداقت چاہے کچھ بھی ہو اس قصے کا موجود ہونا ہی ان اسباب
کاشاہد ہے جن کی بنا پر رومیوں نے شادی سے متعلق اپنے غیر مہذّب قوانین وضع کئے۔
آس پاس کی مملکتوں اور بالخصوص ایئرسکنوں (The Ertuscans) کے یہاں تعدّد
ازدوا ج ایک ایسا رواج تھا جس کے ساتھ چند رعایات وابستہ تھیں۔ رومیوں کو اٹلی کی
دوسری قوموں سے جو سابقہ پڑا اور جن جنگوں اور فتوحات میں وہ صدیوں تک مشغول رہے
انہوں نے عیش و عشرت کی ان عادتوں سے مل کر جو کامیابی اور خوشحالی نے پیدا کی
تھیں بالآخر جائز نہ تھا، لیکن ”پیونک (Punic) جنگوں میں ظفر مندی
کے بعدرومہ کی خواتین کے دلوں میں ایک آزاد اور خوشحال مملکت کی منفعتوں سے تمتّع
اندوز ہونے کی اُمنگیں پیدا ہوئیں، اور ان کی اُمنگیں ان کے خاوند وں اور عاشقوں
کی نفس پرستیو نے پوری کردیں ۳؎۔“تھوڑی
ہی مدّت کے بعد شادی بے محا بل جاشتہ بازی کی ایک صورت بن گئی۔ قوانین مملکت کی
تائید حاصل کرکے داشتہ بازی ایک ایسا ادارہ بن گئی جو مراعات خاص کا مستحق
تھا۔عورتوں کی کھلم کھلا آزادی،مردوں کے ساتھ ان کا ڈھیلا ڈھالا رشتہ، بیویوں کے
کثیر الوقوع تبادلے یہ سب چیزیں تعدّدِ ازوا ج پر دلالت کرتی ہیں، البتہ انہیں یہ
نام نہیں دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
Dollinger,
The Gentile and the Jew, vol. ii, p. 233-238
۲؎Grote,
History of Greek, vol vi, p. 136
۳؎Gibbon
Decline and Fall the Raman Emplre, ii. p. 206
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دریں اثنا ء جس ابتدائی
عیسائیت کی تبلیغ گلیلی کے ساحل پر ہوئی تھی اس نے ساری رومی دنیا کو متاثر
کرناشروع کردیا۔ اسینیوں (Essenes) کے اثرات نے، جن کا
واضح ثبوت حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات میں ملتا ہے،ان کی اس قوی امید سے مل کر کہ
آسمانی بادشاہی قائم ہونے والی تھی، انہیں اس پر آمادہ کیا کہ ازدواجی زندگی کو
مذموم قرار دیں، اگرچہ انہوں نے کبھی اسے صراحتہً منع نہیں کیا۔
جب تک جسٹینین (Justinian) کے قوانین تعدّد
ازواج کو ممنوع قرار نہ دیا اس وقت تک وہ ایک نمایاں صورت میں رائج رہا۔ بلکہ
قانونی ممانعت نے بھی لوگوں کے اخلاقی خیالات میں کوئی تبدیلی پیدا نہ کی۔ چنانچہ
تعدّد ازدواج پر اس وقت تک عمل ہوتا رہا جب تک کہ جدید معاشرے کی رائے نے اسے
معیوب قرار نہ دیا۔ پہلی بیوی کے سوا کسی بیوی کو کوئی قانونی حقوق حاصل نہ تھے۔
ان حقوق او رمراعات سے محروم رہ کر جو پہلی بیوی کو حاصل تھے، دوسری بیویاں اپنے
خاوند وں کی من کی موج کی غلام ہوتی تھیں، ان کے بچوں پر حر امزدگی کا کلینک کا
ٹیکہ لگا ہوتا تھا، وہ باپ کی جائداد میں سے ایک حصے کے بعد حقدار نہ ہوتے تھے اور
سماج میں ذات پات سے خارج شمار کئے جاتے تھے۔
اونچے طبقے کے مردوں کی
نیچے طبقے کی عورتوں سے شادیاں جن میں ایک شرط نکاح یہ ہوتی تھی کہ اولاد کو کوئی
حق وراثت نہ پہنچے گا او رایسی شادیاں جن میں اس امر کی علامت کے طور پر بیوی کو
اور اس کی اولاد کو کوئی حقوق وراثت نہیں، دولہا اپنا بایاں ہاتھ دلہن کو تھما
دیتاتھا،دونوں طرح کی شادیاں صرف اعلیٰ طبقے ہی تک محدود نہ تھیں بلکہ عام تھیں۔
اور تو اور،پادری لوگ بھی اپنے عہد تجرد کوبھول کر ایک سے زیادہ شرعی یا غیر شرعی
شادیاں کیا کرتے تھے۔ تاریخ حتمی طور پر ثابت کرتی ہے کہ پچھلے چند سالوں سے پیشتر
تعدّد ازواج کو اتنا معیوب نہ سمجھا جاتا تھا۔ جتنا اب سمجھا جاتا ہے۔ اودوں کا
توتذکرہ ہی کیا،خود سینٹ آگسٹین۱؎
(St. Augustine) کواس میں کوئی بنیادی خرابی اخلاقی یا معصیت نظر نہ آتی
تھی،چنانچہ انہوں نے اعلان کیا کہ اگر وہ کسی ملک میں قانوناً جائز تھی تو اسے
شرعی نوا ہی میں شمار نہ کرناچاہئے۔ہیلم (Hallam) کے قول کے مطابق
جرمن مصلحین نے ابھی سولہویں صدی میں یہ رائے ظاہر کی تھی کہ پہلی شادی سے کوئی
اولاد نہ ہونے کی صورت میں یا اسی طرح کے اور اسباب کی بناء پر دوسری شادی بلکہ
تیسری بھی جائز ہے۔
بعض محققین،اگرچہ وہ یہ
تسلیم کرتے ہیں کہ تعدد ازدواج میں کوئی بنیادی خرابی اخلاقی نہیں اور حضرت عیسیٰؑ
نے قطعاً یا صراحتہً اس کی ممانعت نہیں کی،تاہم یہ رائے رکھتے ہیں کہ یک زدجگی کا
جو دستور یورپ میں آج کل عام ہے وہ عیسائیت پرجرسن اور یونانی و رومی خیالات کا
پیوند لگ جانے کا نتیجہ ہے۲؎۔
یہ رائے تاریخی واقعات کے منافی ہے اور قابل تسلیم نہیں۔ جہاں تک جرمنوں کا تعلق
ہے، اس دعوے کی تائید کہ ان کے یہاں ہمیشہ سے یک زدجگی کا دستور تھا صرف دو ایک
رومیوں کی غیر مصّدقہ شہادت سے ہوتی ہے،جس کا اعتبار اس لیے نہیں کیا جاسکتا کہ
واقعات کے معاملے میں رومی بالکل غیر معتمد گواہ تھے اور اگر اخفائے حقیقت سے انہیں
کوئی ذاتی فائدہ متوقع ہوتا تو کبھی اس سے گریز نہ کرتے تھے۔ علاوہ بریں ہمیں یاد
رکھنا چاہئے کہ جس مقصد کو پیش نظر رکھ کر ٹیسی ٹس (Tacitus) نے اپنی کتاب
”جرمنوں کے طور طریقے“ (The manners of the Germans) لکھی وہ کیا تھا۔
یہ کتاب خرد رومیوں کی شہوت پرستی پر ایک حملہ تھی، جس کا مقصد یہ تھاکہ بربرقومو
ں کے فرضی محاسن سے رومیوں کے پست اخلاق کاموازنہ کر کے روم کے معاشرے کہ بہتر
خیالات سے روشناس کرایا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
St,
Augustine, lib.ii cont, Faust ch,xvil
۲؎
M.
Barthelemy, St Hilaireکا خیال یہ معلوم ہوتا ہے
کہ یک زدجگی کادستور عیسائیت نے یونانیوں اور رومیوں سے اخذ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر یہ فرض بھی کر لیا
جائے کہ ٹیسی ٹس کی رائے درست تھی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جرمنوں کے اعلیٰ طبقوں
میں انیسویں صدی تک تعدّد ازدواج کا جو عام رواج تھا اس کی توجیہہ کیونکر کی جاسکتی
ہے۱؎؟
ابتدائی زمانے میں رومیوں
کے یہاں جورواج بھی رہا ہو یہ واضح ہے کہ جمہوریت روا کے آخر ی ایّام میں او
رسلطنت روما کے آغاز میں تعدّد ازدواج یقینا ایک تسلیم شدہ رواج تھا یا کم از کم
خلاف قانون نہ سمجھا جاتاتھا۔ جس فرمان نے اس رواج کی عمومیت کو محدود کیا اس میں
اس کا وجود اور اس کی مشق دونوں مفروض ہیں۔ یہ فرمان اس خرابی کو رفع کرنے میں
رائے عامہ کی روکا رخ بدلنے میں کہاں تک کامیاب ہوا۔ ایک طرف تو اس سے ظاہر ہے کہ
شہنشاہان اونوریس (Honorius) اور آرکیڈیس (Arcadius) نے چوتھی صدی عیسوی
کے اخیر میں اسے از سر نو جاری کیا اور دوسری طرف اس سے کہ قسطنطین اور اس کے بیٹے
دونوں کے متعدد بیویاں تھیں۔ شہنشاویلنیٹین ثانی (Valentinian) نے ایک نئے فرمان
کے ذریعے سلطنت کے تمام مردوں کو متعد بیویاں رکھنے کی عام اجازت دی۔ اس زمانے کی
تاریخ کلیسا سے اس امر کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملتی کہ بشپو ں اور عیسائی
گرجاؤں کے سربراہوں نے اس قانون پر کوئی اعتراض کیا۲؎۔ کلیسا کا اعتراض کرنا
تو بجائے خود رہا،ویلنٹین کے بعد جتنے شہنشاہ آئے سب نے تعددّ ازواج پر عمل کیا
اور لوگوں نے اس کی مثال کی تقلید میں کوتاہی نہ کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
مقابلہ کے لئے دیکھئے:۔ Encyclopedie Universelle. art,
Mariage
۲؎
Enc
univ, Art, Marriage and Devenport Apology for Mhomet
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قانون کی یہ صورت حال
شہنشاہ جٹینین (Justinian) کے وقت تک برقرار رہی، جب اس دانشمندی اور تجربہ کاری نے جو ترقی
اور نشو و نما کی تیرہ صدیوں کا جمع شدہ ماحصل تھی اپنے آپ کو ان قوانین کی صورت
میں ظاہر کیا جنہوں نے اس شہنشاہ کے بدنام دورحکومت پر ایک جھوٹا ملمع چڑھا دیا۔
لیکن یہ قوانین کم از کم براہ راست عیسائیت کے مرہون منّت نہ تھے۔ جسٹینین کا سب
سے نمایاں مشیرایک ملحد تھا۔ جسٹیٹین نے تعدّد ازدواج کو قانوناً تو منع کردیا،
لیکن اس کی طرف لوگوں کا جو عام رجحان تھا اس کی روک تھام نہ کرسکا۔قانون فکری
ترقی کا آئینہ دار تھا۔ اس کا اثر چند ارباب فکر تک محدود رہا۔ جہاں تک عوام کا
تعلق تھا ان کے لیے وہ محض ایک تقویم پارینہ تھا۔
یورپ کے مغربی حصے میں
بربریوں کے زبردست ہنگامے اور ان کے اخلاقی خیالات کے مقامی لوگوں میں نفوذ کرجانے
کانتیجہ یہ ہواکہ مردوں اور عورتوں کے باہمی تعلقات ناگفتہ بہ ہوگئے۔بعض بربریوں
کے قانون ضابطوں میں تعدّدِ ازدواج۱؎
سے متعلق پابندیاں تھیں۔ لیکن قول کی بہ نسبت عمل زیادہ مؤثر ثابت ہوا۔ چنانچہ ان
کے بادشاہوں نے بہت سی بیویاں کرنے کی جو مثال پیش کی عوام النّاس نے فوراً اس کے
تقلید کی۲؎۔
اور تو اور پادری لوگ بھی اس کے باوجود کہ کلیسا انہیں تجرد کی تلقین کرتاتھا،
متعدد نیم منکوحہ بیویوں کے رواج سے مستفید ہونے لگے۔ اس کے لئے مقامی بشپ یا
مقامی (Diocese) کے سربراہ کی اجازت کافی ہوتی تھی۳؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
تھیوڈورک کے قوانین کی طرح لیکن یہ ضابطے باز نطینی تصّورات پر مبنی تھے۔
۲؎
میردونگین اور کار لوونگین سلاطین میں جو تعدّد ازدواج رائج تھا اس کا تذکرہ A
Short Hist of the Saracens. (p.626) میں دیکھئے۔
۳؎
Hallam.
Cone. Hist of England vol. i, p. 87 and note, Middle Ages, p. 353 (vol.ed)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عیسائی مصنفّین کو اسلام
کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہوئی ہیں ان میں سب سے زیادہ تشنیع طلب یہ ہے کہ حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تعدّد ازدواج کی داغ بیل ڈالی یا اسے قانونی حیثیت دی۔
یہ خیال کہ وہ اس کے موجد تھے محض جہالت کا نتیجہ اور ثبوت تھا اور تحقیق نے اس کی
دھجیاں اُڑادی ہیں،لیکن یہ خیال اب بھی نہ صرف عیسائی دنیا کے عوام میں بلکہ بہت
سے ارباب علم میں رائج ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دستور کو اختیار کیا
اور اسے قانونی جواز بخشا۔ اس سے بڑھ کر باطل کوئی عقیدہ نہیں ہوسکتا۔
تعدّد ازدواج نہ صرف
عربوں کے یہاں بلکہ ہمسایہ ملکوں کے لوگوں کے یہاں رائج تھا اور مؤخر الذ کر کے
یہاں تو اس نے نہایت کریہہ شکلیں اختیار کررکھی تھیں۔ یہ بجاہے کہ عیسائی مملکت کے
قوانین نے اس خرابی کے رفع کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوئے
تھے۔تعدّد ازدواج کی رسم روک ٹوک کے بغیر جارہی رہی۔ پہلی بیوی کے سوا، جسے محض
تقّدم زمانی کے طفیل ایک امتیازی حیثیت حاصل ہوی تھی،باقی سب بیویوں کو عدِم حقوق
کی سختیاں جھیلنی پڑتی تھیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم کے ظہور کے وقت ایران میں خرابی اخلاق نہایت افسوسناک صورت اختیار کرچکی تھی۔
ازدواج کے بارے میں کوئی مسلّم قانون نہ تھا اور اگر تھا بھی تو اس پر مطلق عمل نہ
کیا جاتا تھا۔ چونکہ ژندادستامیں بیویوں کی کوئی حد مقرر نہ کی گئی تھی لہٰذا
ایرانیوں کے نہ صرف بہ یک وقت متعدد بیویاں ہوتی تھیں بلکہ ان کے علاوہ لاتعداد
داشتہ عورتیں بھی۱؎۔
قدیم عربوں او ریہودیوں
کے یہاں متعّدد بیویوں کے علاوہ مشروط اور عارضی عقد بھی ہوتے تھے۔حائکی اخلاق کے
بارے میں اس ڈھیل نے معاشرے کے نظام پر نہایت مضر اثر ڈالا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم نے جو اصلاحات کیں ان سے عورتوں کی حیثیت بدر جہاں بہتر ہوگئی۔کیا یہودی اور
کیا بدوی عرب دونوں کے یہاں عورتوں کی حالت نہایت خستہ وخراب تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
Dollinger,
The Gentile the Jew, vol. i, p 406
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک یہودی بدوی لڑکی اپنے
والد کے گھر میں بھی ایک نوکرانی کی حیثیت رکھتی۔سّن بلوغ سے پہلے اس کے والد کو
اختیار ہوتا تھا کہ جی چاہے تو اسے بیچ ڈالے۔ باپ کی وفات کی صورت میں بھائیوں کو
یہ اختیار حاصل ہوجاتا تھا۔ بیٹی کو ورثے میں ایک حَبہ نہ جڑتا تھا، الاّ اس صورت
کے کہ کوئی مردوارث ہی نہ ہو۱؎۔
شہری عرب کفّار کے یہاں، پرارد گرد کی مملکتوں کے فاسد اور انحطاط یا فتہ تمدّن
کااثر ہو چکا تھا، عورت محض ایک چیز بست سمجھی جاتی تھی، او راپنے خاوند یا باپ کی
جائداد کا احک حصہ شمار کی جاتی تھی۔ چنانچہ ایک متوفی مرد کی بیوائیں دوسرے املاک
کی طرح اس کے بیٹوں کو ورثے میں ملتی تھیں۔ اسی کا نتیجہ تھیں وہ سوتیلے ماؤں کی
آپس میں شادیاں جنہیں اسلام نے نکاح المقت (شرمناک یا مکروہ نکاح) کے نام سے مطعون
کرکے منع کردیا۔ یمن کے نیم یہودی اور نیم صابی قبیلوں کے یہاں تو ایک عورت کے بیک
وقت بہت سے مردوں کی بیوی ہونے کا دستور بھی تھا۲؎۔
اعراب جاہلیت کو عورتوں
سے اس درجہ نفرت تھی کہ وہ اکثر اپنی بیٹیوں کو زندہ گاڑ دیا کرتے تھے۔ یہ خوفناک
دستور قریش اور کندہ کے قبیلوں میں سب سے بڑھ کر رائج تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ
علیہ وسلم نے غضب آمیز الفاظ میں اس کی مذّمت کی اور سخت سزائیں مقرر کر کے اس کا
اسی طرح انسداد کیا جس طرح انہوں نے بچوں کو بتوں کی بھینٹ چڑھانے کی رسم کا قلع
قمع کیا، جس پر قریش و کندہ کے قبیلے قدیم زمانے کی اکثر قوموں کی طرح عمل کرتے
تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
گنتی۔ب30؎۔17
۲؎
Lenormont,
Ancient Hist. of the East, vil. ii, p. 318
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایرانی اور بازنطینی
مملکتوں میں عورتوں کا معاشرتی درجہ بے حد پست تھا۔ بہت سے مذہبی دیوانے جنہیں بعد
کے زمانوں میں کلیسا نے ولایت کا رُتبہ بخشا، ان کے خلاف وعظ کرتے تھے او ران کی
خباثتیں بیان کرتے تھے کہ انہیں عورتوں میں جو بُرائیاں دکھائی دیتی تھیں وہ ان کے
متعصّب دماغوں کی پیداوار تھیں۔ ایسے وقت میں، جب معاشرے کا شیرازہ درہم برہم
ہورہا تھا، جب وہ تمام رشتے جنہوں نے معاشرے کو اُستواری بخش رکھی تھی ٹوٹ رہے
تھے،جب ہر طرف سے یہ شور اٹھ رہا تھا کہ تمام پُرانے نظاموں کو تجربے کی ترازو میں
تول کر دیکھا گیا اور سب کے سب ناقص پائے گئے۔ ایسے وقت میں پیغمبراسلام صلی اللہ
علیہ وسلم کی اصلاحات عورتوں کے حق میں ایک آیہئ رحمت بن کر آئیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ
علیہ وسلم کی مذہبی تعلیمات کا ایک بنیادی عنصر عورتوں کا احترام تھا۔آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کے متبعین کے دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دختر نیک اختر کی جو
عزت تھی اس کی بناء پر انہوں نے اسے ”خاتون جنت“ کا لقب دیا، جو صنف اناث کی خدمت
میں ایک خراج عقیدت تھا۔ ”فاطمہ الزہرا“ ان تمام قدسی صفات کا مجسمہ تھیں جو خدانے
عورت کی ذات میں ودیعت کی ہیں،یعنی خلوص،صداقت اور پاکیزگی اور تمام وہ صفات
محمودہ جو انسان کے مثال کمال کی آئینہ دار ہیں۔ ان سے ایسی خواتین کا ایک طویل
سلسلہ شروع ہوا جن کے محاسن و فضائل نے صنف اناث کو چار چاند لگا دیئے۔ کون ہوگا
جس نے دلیہئ رابعہ اور ان کی قبیل کی ہزاروں نیک بی بیوں کا نام نہ سنا ہو؟
جو قوانین رسول عربی صلی
اللہ علیہ وسلم نے نافذ کئے ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشروط نکاحوں کا
قاعدہ قطعاً ممنوع قرار دیا۔ جہاں تک عارضی نکاحوں کا تعلق تھا، اگر چہ شروع شروع
میں علانیہ ممانعت نہ کی گئی،لیکن تیسرے سنہ ہجری میں یہ بھی حرام کردی گئیں ۱؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
شیعوں کا ایک گروہ عارضی نکاحوں کو اب بھی مباح قرار دیتاہے،لیکن جن مجتہد ین نے
اس رائے کا اظہار کیا ہے، اگر چہ میں ان کا احترام کرتا ہوں،تاہم میں یہ خیال کرنے
پر مجبور ہوں کہ یہ رائے وقتی مذاق کی تسکین یا سلاطین وقت کو خوش کرنے کی خاطر
ظاہر کی گئی تھی۔ ان مجتہدین کی آراء میں جا بجا ذاتی میلانات کے آثار پائے جاتے
ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم نے اپنے آئینی نظام میں عورتوں کو ایسے حقوق عطا کئے جو اس سے پہلے انہیں
کبھی نصیب نہ ہوئے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایسی ایسی خصوصی مراعات
بخشیں جن کی قدر شناسی زمانہ کچھ اور ترقی کرنے کے بعد کرے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے تمام قانونی اختیارات و وظائف میں عورتوں کو مردوں کے برابر مرتبہ بخشا۔
انہوں نے بیویوں کی تعداد کی شرعی حد مقرر کر کے او رسب بیویوں سے مسافی سلوک کی
شرط شوہروں پر عائد کر کے تعدّد ازدواج پر پابندی لگادیں۔یہ قابل ملاحظہ ہے کہ
قرآن کی جو آیت بیک وقت چار بیویوں کی اجازت دیتی ہے اس کے فوراً بعد ایک ایسا
جملہ ہے جو اس آیت کے دائرہ اطلاق کو مناسب طور پر محدود کردیتا ہے۔ آیت یہ
ہے:”اور عورتوں میں جو تمہیں بھائیں دو، تین یا چار بیویاں کرسکتے ہو“،اس کے بعد
کا جملہ یہ ہے:”لیکن اگرتم سب کے ساتھ عدل و انصاف کاسلوک نہیں کرسکتے تو تمہیں
صرف ایک ہی عورت پر اکتفاکرنا چاہئے۔“دنیائے اسلام کے اکابر فکرین نے بالخصوص اس
امر کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ لفظ ”عدل“ کے معنی محاورہ قرآن میں کیا ہیں اس جملہ
شرطیہ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا۔”عدل“ سے عبارت صرف مکان، شفقت اور عزت کے
معاملے میں بھی مکمل مساوات۔چونکہ جذبات کے معاملے میں کامل عدل و انصاف ناممکن ہے
لہٰذا قرآن کا یہ حکم فی نفسہٖ ایک ممانعت ہے۔ یہ تفسیر زمانہ حال کی نہیں،
بلکہ،تیسری صدی ہجری میں کی گئی۱؎۔
حنفیہ المامون کے عہد میں اولین حکمائے معتزلہ نے یہ رائے ظاہر کی کہ تکمیل یافتہ
شریعت قرآنی وحدت ازدواج کا تقاضہ کرتی ہے۔ اگرچہ خلیفہ متوکل کے مجنونانہ تعصب نے
اس سے جو مظالم کروائے انہوں نے اس تعلیم کی اشاعت کر روک دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
روالمحتار میں صراحتہً لکھا ہے:”بعض حکما ء (معتزلہ) یہ رائے رکھتے ہیں کہ عدل میں
محبت و شفقت کی مساوات شامل ہے، لیکن ہمارے ائمہ اس رائے سے اختلاف رکھتے ہیں اور
عدل کو نفقہ کے معاملے میں مساری سلوک تک محدود خیال کرتے ہیں جس سے قانون زبان
میں کھانا،کپڑا او رمکان مراد ہے“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ترقی یافتہ مسلم جماعتوں
میں یہ یقین رفتہ رفتہ پختہ ہوتا چلا جاتا ہے تعدّد ازدواج تعلیمات محمدی صلی اللہ
علیہ وسلم کے اسی قدر منافی ہے جس قدر وہ تہذیب و تمدن کی عمومی ترقی کے منافی ہے۱؎۔
یہ امریاد رکھنے کے قابل
ہے کہ تعدّ ازدواج کا وجود حالات پر منحصر ہے بعض بعض اوقات اور بعض بعض حالات میں
یہ عورتوں کو بھوک ننگ اور ناداری سے بچانے کی خاطر بالکل ناگزیر ہوتا ہے۔ اگر
اخبار واطلاعات اور اعداد وشمار واقعات کی سچی آئینہ داری کرتے ہیں تو مغرب کے
تہذیبی مرکزوں میں جو فسق و فجور پایا جاتاہے اس کا بیشتر حصہ انتہائی افلاس و
ناداری کا نتیجہ ہے۔ ایبے ہُک (Abbe Huc) اور لیڈی ڈف گورڈن Lady
Duff Gordon
دونوں کا کہنا ہے کہ مشرق میں محض حالات کا دباؤ لوگوں کو تعدد ازدواج کی مشق پر
مجبور کرردیتا ہے۔
ضرورت نا پید ہوتی جاتی
ہے او راس کی مشق یا خود بخود متروک ہوجاتی ہے یا علی الاعلان ممنوع قرار پاتی ہے۔
چنانچہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس مسلم ممالک میں جہاں و ہ حالات جنہوں نے اس کے وجود
کو لازمی بنا یا تھا معدوم ہوتے جاتے ہیں۔ تعدّد ازدواج کو مذموم اورتعلیمات قرآنی
کے نقیض سمجھا جانے لگا ہے، لیکن جن ممالک میں معاشرے کے حالات مختلف ہیں اور جہاں
عورتوں کو یہ وسائل مہیا نہیں جو ترقی یافتہ جماعتوں میں انہیں اپنی مدد آپ کرنے
کی قابلیت بخشتے ہیں، وہاں ناگزیر ہے کہ تعدّد ازدواج کا وجود برقرار رہے۔ ممکن ہے
یہ اعتراض کیا جائے کہ چونکہ یہ آزادیئ تاویل سوفسطائی دقیقہ سنجیوں کی گنجائش
چھوڑتی ہے، اس لیے تعدّد ازدواج کے مطلق ممانعت ایک مشکل کام ثابت ہوگی۔ ہم مانتے
ہیں کہ یہ ایک زور دار بری کرناچاہتے ہیں جو ان پر کیا گیا ہے اور ترقی تہذیب کے
دوش بدوش قدم آگے بڑھانا چاہتے ہیں،لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ
قوانین میں لوچ اور لچک کا ہونا ان کی منفعت و افادیت کا سب سے بڑا معیار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
اس موضوع پرمولوی چراغ علی کا فاضلانہ مقالہ قابل ملاحظہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی تعدّد ازدواج کے موضوع
پر قرآن کے حکم کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ یہ حکم متمدن سے متمدن معاشرے کے لیے بھی
اور کم سے کم متمدن معاشرے کے لیے بھی موزوں ہے۔ یہ نہ ترقی پذیر جماعتوں کی
ضروریات کونظر انداز کرتاہے،نہ اس امر کو فراموش کردیتا ہے کہ دنیا میں ایسی
جماعتیں بھی موجود ہیں جن کے لیے یک زدجگی ایک بہت بڑی خرابی ثابت ہوسکتی ہے۔ بہر
حال تعدّد ازدواج کا استیصال اتنامشکل نہیں جتنا تصّور کیا جاتاہے۔ مسلمان جس لعنت
میں گرفتار ہوگئے ہیں وہ محض اس قدماء پرستی کا نتیجہ ہے جس نے اجتہاد کو مسدور
کردیا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب معلّم اسلام کے اپنے ارشادات سے رجوع اس مسئلے کا
فیصلہ کردے گا کہ آیا مسلمان ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کریں گے یا
متقدمین فقہا کی تفسیروں پر جنہوں نے اپنے من مانے خیالات منوانے کی خاطر یا جن
خلفا ء و سلاطین کے وہ بندگان فرمان تھے ان کی خود سرانہ آراء کی تائید کے لیے
شارع کے الفاظ کا مطلب عمداً ماؤف کیاہے۔ یورپ اس عمل میں سے گزر چکا ہے۔ اسے
چاہئے کہ دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی تبراؤں کا تختہ مشق بنانے کی بجائے
تجدید یافتہ اسلام کی ان کوششوں کا تحمل و ہمدردی سے مشاہدہ کرے جو وہ قد ماء
پرستی کے بندھنوں سے چھٹکاراپانے کے لئے کررہا ہے۔جب پرانے خیالات کی غلامی سے
آزادی حاصل ہوگئی تو ہر مسلم مملکت کے ارباب فقہ کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ ایک
مستند فتوے کے ذریعے اپنی اپنی مملکت میں تعدّد ازدواج کو ممنوع قرار دے دیں۔ لیکن
یہ اس وقت ممکن ہوگا جب حالات و واقعات اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی
تعلیمات کے سمجھنے میں عام ترقی ہوگی۔ جس نئی روشنی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
ارشادات کا مطالبہ کیا جارہا ہے وہ تعدّد ازدواج کو تاریکی کی طرح دور کررہی ہے۔
جیسا کہ ہم اوپرکہہ آئے
ہیں۔ یہ امر کہ تعلیمات محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ترقی کے ہر مرحلے سے مطابقت
رکھتی ہیں ان کے معلّم کی حکمت بالغہ پر دلالت کرتاہے۔غیر ترقی یافتہ جماعتوں میں
تعدّد ازدواج بشر طیکہ ان پابندیوں کو ملحوظ رکھا جائے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ
علیہ وسلم نے حائد کی ہیں، کسی طرح بھی ایک تاشقف انگیز خوابی نہیں۔ بہر کیف وہ
چند شوہری (Polygamy) کے رواج پر، جو ہر طرح کے اخلاقی ضبط نفس کو ترک کردینے کی نشانی
ہے۔قابل ترجیح ہے۔ جیسے جیسے تمدن میں ترقی ہوتی جاتی ہے تعدّد ازدواج میں جو
قباحتیں ہیں ان کی حقیقت اور اس کی ممانعت کی حکمت زیادہ واضح ہوتی چلی جاتی ہے۔ہم
یہ کہنے کو تیار نہیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے برہمنی قوموں کے ساتھ جن کے یہاں
قحبہ پیشگی عام تھی، اختلاط کرکے کوئی اچھا سبق سیکھا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس
اختلاط کی بدولت ان کے اخلاقی خیالات میں رکاوٹ آگئی ہے۔ ان کے یہاں انسانی وقار
اور روحانی پاکیزگی کا جو تصوّر تھا وہ پست ہوگیا ہے اور طوائفوں کا طبقہ ان کے یہاں
اتناہی مقبول ہوگیا ہے جتنا وہ ان کے غیر مسلم ہمسایوں کے یہاں تھا۔ اس کے باوجود
ایسے آثار نمایاں ہیں جن سے اُمید ہوتی ہے کہ جس نور حق نے ساتویں صدی عیسوی میں
عرب کو منّور کیا تھا وہ ایک دن ان کے دلوں پر بھی جلوہ افگن ہوگا اور جس تاریکی
میں وہ گھر ے ہوئے ہیں اس سے انہیں نجات بخشے گا۔ معتزلہ عقیدہ یک زدجگی کے حامی
تھے۔ ان کے خیال کے مطابق ایک عورت کے ساتھ عقد برقرار ہونے کی صورت میں کسی دوسری
عورت کے ساتھ عقد شرعاً ناجائز تھا، دوسرے الفاظ میں جو عقد معتزلہ کے قوانین کے
مطابق کیاجائے وہ بہمہ وجوہ ایک مرد کا ایک عورت کے ساتھ عقد ہے،تاحین حیات اور
باخراج ہمہ دیگراں۔
اور تو اور قدامت پرست
فرقوں کے یہاں بھی ایک اکثیر التعداد او رصاحب اثر طبقہ ایساہے جو تعدّد ازدواج کو
منافی شرع خیال کرتاہے،کیونکہ جن حالات نے اسے اگلے زمانے میں جواز بخشا تھا وہ اب
بدل گئے ہیں یایکسر ناپید ہوگئے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ تعدّد
ازدواج کی مخالفت ایک زبردست اخلاقی جذبہ نہیں بنی تو کم از کم قوی اجتماعی جذبہ
ضرو ر بن گئی ہے اور یہ جذبہ بہت سے خارجی حالات سے مل کر ہندوستان کے مسلمانوں
میں سے اس رواج کا ازالہ کررہا ہے۔ مسلمانوں کے تمام طبقوں میں یہ دستور ہو چلا ہے
کہ نکاح نامے میں ایک شرط شامل کی جاتی ہے جس کے مطابق خاوند اپنے اس مفروض حق سے
کہ وہ اپنی پہلی شادی کے قیام کے دوران دوسری شادی کرسکتا ہے دست بردار ہوجاتا ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں میں اس وقت پنچانوے فیصد مرد خواہ روئے عقیدہ یا تبقاضائے مجبوری،ایک
ہی بیوی کے شوہر ہیں۔ تعلیم یافتہ مسلمانوں میں، جو اپنے اسلاف کی تاریخ سے واقف
ہیں، اور دوسری ملتوی کی تاریخ سے اس کا مقابلہ کرسکتے ہیں،تعدّد ازدواج کو
ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ ایران میں آبادی کا محض ایک چھوٹاسا حصہ
متعدّ د بیویوں کی مشتبہ عشرت سے متمتع ہوتا ہے۱؎۔ امید واثق ہے کہ بہت
جلد علمائے اسلام کی ایک مجلس افتتا ء اس امر کا اعلان کردے گی کہ غلامی کی طرح
تعدّد ازدواج بھی شریعت اسلامیہ میں مکروہ ہے۔
آئیے اب ہم حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کی شادیوں پر ایک نظر ڈالیں،جنہیں بہت سے ایسے لوگوں ے جو یا
توحقیقت حال سے ناواقف تھے یا واقعات کا دیانت دارانہ جائزہ لینے کی صلاحیت نہ
رکھتے تھے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف وجہ الزام ٹھہرایا ہے۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے عیسائی مخالفین کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ذاتی طور پر ایسی خصوصی روایات سے فائدہ اٹھایا جو شرعاً مباح نہ تھیں،
اور یوں ایک ایسی کمزوری کا ثبوت دیا جو منصب نبوت کے شایان شان نہ تھی لیکن اگر
تاریخ کا صحیح مطالعہ کیا جائے اور واقعات کا بے تعصبانہ جائزہ لیا جائے تو حتمی
طور پر ثابت ہوجائے گا کہ عیش پرست ہونا تو کُجا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غریبی
او ربے مائگی کی حالت میں ایک قدیم آبائی رواج کے مطابق بے آسرا عورتوں سے شادی
کرکے اور اپنے آپ کو ان کے نان و نفقہ کا کفیل بنا کر ایک ایثار عظیم کا ثبوت دیا۔
ہمیں یقین ہے کہ اگر انسانی نقطہ نگاہ سے اغراض و محرکات کا تجزیہ کیا جائے تو
اس”عظیم الشان عرب“ پر جو الزام لگائے گئے ہیں ان کی بے بنیادی اور بدنیتی ظاہر
ہوجائے گی۔ جب محمد صلعم پچیس سال کے جوان تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت
خدیجہ رضی اللہ عنہ سے شادی کی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر میں بہت بڑی تھیں۔
پچیس سال تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی
زندگی مہرووفا اور راحت و مسّرت کا ایک سلسلہ شبانہ روز تھی۔ کفّار نے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کی شان میں جو گستاخیاں کیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو مظالم توڑے
ان کے دوران حضرات خدیجہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی واحدغمگسار و
مددگار تھیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کی عمر پچپن برس کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن اس سے انکار نہیں کرسکتے
بلکہ اس کا اقرار کرنے پر مجبور ہیں کہ اس طویل مدّت میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا
جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پر معاذ اللہ کوئی دھبہّ لگتا ہو۔ حضرت
خدیجہؓ کی زندگی میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی شادی نہیں کی،اس امرکے
باوجود کہ اگر وہ ایسا کرناچاہتے تو رائے جمہور اسے جائز قرار دیتی۔
۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
Col.
Macgregorکے تول کے مطابق صرف دو فیصد۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت خدیجہؓ کی وفات کے
چند ماہ بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیکسی و مظلومی کے عالم میں طائف سے واپس
آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ کو اپنی زوجیت میں قبول کیا۔ حضرت سورہ
سکران کی بیوہ تھیں،جو قبول اسلام کے بعد کفّار کے ظلم و ستم سے بچنے کی خاطر ہجرت
کرکے حبشہ چلے گئے تھے او روہاں اپنی بیوی کو بے وسیلہ و نادار چھوڑ کر غریب
الوطنی کی حالت میں جاس بحق ہوگئے تھے۔ ملک کے رواج کے مطابق شادی ہی ایک طریقہ ہے
جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وفا شعار صحابی کی بیوہ کو اپنی پناہ میں لے
سکتے تھے۔ عطا ء و احسان اور انسانیت کا تقاضا یہی تھا کہ وہ انہیں اپنے سایہ
عاطفت میں جگہ دیں۔ حضرت سودہؓ کے پہلے خاوند نے دین حق کی خاطر ترک وطن کیا تھا
او راس پر اپنی جاں نثار کردی تھی۔ ان کی بیوی مصائب غریب الوطنی میں ان کی شریک
رہی تھیں او راب بے کس و بے نوا اپنے وطن واپس آئی تھیں محض انہیں آسرا دینے کی
خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی زوجیت میں لے لیا، اگرچہ اس وقت آپ صلی
اللہ علیہ وسلم خود نان شبینہ کو محتاج تھے۔
عبداللہ بن ابوقحافہ،جو
بعد تاریخ میں ابوبکر ؓ کے اسم مبارک سے مشہور ہوئے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ
وسلم میں بہت اونچا درجہ رکھتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں میں تھے جنہوں
نے سب سے پہلے داعی اسلام کو لبّیک کہا۔ انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو
مخلصانہ عقیدت او رجاں نثار انہ محبت تھی اس میں وہ حضرت علی ؓ کے حریف مساوی شمار
کئے جاسکتے ہیں۔
حضرت ابوبکر ؓ کی ایک نو
عمربیٹی تھی، جس کانام عائشہ تھا اور ان کی دلی تمنا تھی کہ انہیں پیغمبر اسلام
صلی اللہ علیہ وسلم سے،جنہوں نے انہیں کفر کی تاریکی سے نکالا تھا، جو محبت و
عقیدت تھی اپنی بیٹی کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں دے کر اس کا رشتہ
او ربھی استوار کریں۔ حضرت عائشہ ؓ کی عمر اس وقت صرف سات سال کی تھی لیکن ملک کا
رواج اس نو عمری میں شادی کی اجازت دیتا تھا۔چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ کے اصرار پر
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کمسن لڑکی کو اپنی زوجیت میں لے لیا۔
مہاجرین کے درود مکہ کے
کچھ عرصہ بعد ایک واقعہ رونما ہوا جس سے عربوں کے اس وقت کے حالات زندگی پر بہت سی
روشنی پڑتی ہے۔ جو لوگ عربوں کے خصائل و عادات سے واقف ہیں (”غرور، عربدہ جوئی،
حمّیت جاہلیت او رانتقام لینے میں انتہا درجے کی غضب ناکی بھی اور صبر بھی۔“)وہ
لوگ اس واقعے کے معنی پوری طرح سمجھ سکیں گے۔برٹن (Burton) عربوں کے بارے میں
کہتا ہے کہ:”اب بھی ذرا سی بات پر بدوی قبیلوں کے درمیان پشتینی عداوتیں شروع
ہوجاتی ہیں۔“ حضرت عمر ابن الخطاب، جو بعد میں خلیفہ ثانی ہوئے کی ایک بیٹی تھی،حفصہ
نام۔ اس نیک بی بی کا خاوند غزوہ بدر میں شہید ہوگیا تھا اور چونکہ وہ اپنے باپ کی
طرح شعلہ مزاج تھی، اس لیے کسی کواس سے شادی کرنے کی ہمت نہ ہوئی تھی،یہ امر حضرت
عمر ؓ کے لیے بہت رنج کا باعث تھا۔ چنانچہ انہوں نے پہلے حضرت ابوبکرؓ کو یہ
ناگوار گزرا۔ چنانچہ وہ غم و غصہ کے عالم میں آستانہ نبوی پر نالش لے کر پہنچے،
کیونکہ اس میں ان کی عزت کاسوال تھا لیکن نہ حضرت ابوبکرؓ نے اور نہ حضرت عثمانؓ
نے ہامی بھری۔ یاوہ قضیہ ہمیں چاہے کتنا ہی مضحکہ خیز دکھائی دیتا ہو،لیکن مومنین
کی چھوٹی سی جماعت میں ہل چل پیدا کرنے کے لیے کافی تھا۔ ان حالات میں سردار
مومنین نے حضرت حفصہؓ کو اپنے نکاح میں لاکر حضرت عمرؓ کا غصہ فرد کیا اور رائے
عامہ نے نہ صرف اس کو سراہا بلکہ اس پر خوشی کااظہار کیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کی تین اور بیویاں یعنی حضرت ہند امّ سلمہؓ،حضرت اُم حبیبہ ؓ اور حضرت زینب
اُمّ المساکینؓ بھی کفّار کے ہاتھوں بیوہ ہوئی تھیں اور ان کے اقربا ء ان کا بار
کفالت قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام زید کی شادی ایک عالی نسب خاتون،زینب نامی سے کی
تھی،جو قریش کے دو ممتاز ترین خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ فخر نسب کی وجہ سے اور
غالباً غرور حسن کی وجہ ہے بھی حضرت زینب ایک آزاد کردہ غلام کی زوجیت میں خوش نہ
تھیں۔ میاں بیوی کے تعلقات بگڑتے بگڑتے باہمی نفرت کی حد تک پہنچ گئے۔ ممکن ہے کہ
جہاں تک حضرت زیدؓ کا تعلق تھا، انہیں حضرت زینب سے جو رنجیدگی تھی اس میں اس امر
نے اضافہ کردیا کہ حضرت زینبؓ زراہ فخر چند ایسے الفاظ کو جو ایک بار نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کے منہ سے انہیں دیکھ کر نکلے تھے،آئے دن دہرایا کرتی تھیں۔ ہوا یہ
تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن زیدؓ کے گھر گئے تھے اور وہاں حضرت زینب
ؓ کو بے نقاب دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
”سبحان اللہ مقلّب القلوب“ یہ الفاظ ایسے ہی تھے جیسے کوئی خوبصورت
تصویر یا مجسمہ دیکھ کر آج کل کے کسی مسلمان کے منہ سے نکلیں گے۔
حضرت زینبؓ ان الفاظ کو،
جو بطریق استحسان قدرتی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلے تھے، بار
بار یہ جتانے کی خاطر کہ خودپیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم خدا نے ان کے حسن و جمال کی
تعریف کی تھی دہرایا کرتی تھیں، جس سے حضرت زیدؓ کو مزید رنج ہوتا تھا۔بالآخر حضرت
زیدؓ نے ان سے علٰیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
کی خدمت میں طلاق کی اجازت لینے کے لئے حاضر ہوئے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے
پوچھا ”کیوں کیا تمہیں اس میں کوئی نقص دکھائی دیا ہے۔“؟ حضرت زیدؓ نے جواب دیا
”نہیں،مجھے اس میں کوئی نقص دکھائی نہیں دیا،پھر بھی میں اس کے ساتھ رہنے پر راضی
نہیں ہوں“۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ارشاد کیا۔”جاؤ او راپنی بیوی کی
حفاظت کرو، اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور خدا سے ڈرو، کیونکہ خدا نے فرمایا
ہے:”اپنی بیویوں کو دیکھ بھال کرو اور خدا سے ڈرو“، لیکن زیدؓ اپنے ارادے سے بازنہ
آئے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت کے باوجود انہوں نے حضرت زینبؓ
کو طلاق دے دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا بہت ملا ل ہوا،خصوصاً اس لیے
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبفس نفیس ان دونوں کو ایک دورسرے سے وابستہ داماں
کیا تھا۔
حضرت زینبؓ نے حضرت زیدؓ
سے طلاق لینے کے بعد متعدد مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کی التجا کی
تا آنکہ ان کی آرزو پوری ہوگی۱؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
طبری (زوٹن برگ کا ترجمہ،جلد سوم صفحہ 58) اس شادی پر بُت پرستو ں نے بہت لے دے
کی۔ وہ لوگ اپنی سوتیلی ماؤں اور ساسوں سے تو شادی کر لیتے تھے،لیکن متبنٰی کی
مطلقہ بیوی سے شادی کو ناجائز سمجھتے (زیدؓ ایک وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کا منتبنیٰ تھا) لوگوں کے دلوں میں اس خیال کو دور کرنے کی خاطر کہ تنبیت سے خون
کے رشتے کی طرح کا تعلق پیدا ہوجاتا ہے۔سورہ الاحزاب کی چند آیات نازل ہوئیں، جس کی
روسے کسی کو منہ بولی بہن یا ماں یا منہ بولا بھائی یا باپ بنا کر اس سے تعلقات
زناشوئی کو ہمیشہ کے لئے حرام کردینے کا جو جاہلانہ دستور تھا وہ ختم کردیا گیا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر میں جس پاکیزگی سیرت کا ثبوت دیا اس کی سب
سے بڑی دلیل یہ ہے کہ حضرت زیدؓ (باقی حاشیہ صفحہ 376پر ملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم کی ایک اور بیوی کا نام جویریہؓ تھا وہ بنی مصطلق کے سردار حارث کی بیٹی
تھیں، اور ایک لڑائی میں جو بنی مصطلق کی بغاوت فرد کرنے کی خاطر لڑی گئی تھی
گرفتار ہوئی تھیں۔ لیکن انہوں نے اپنے گرفتار کرنے والے سے یہ عہد لے لیا تھا کہ
وہ ایک مقررہ فدیہ لے کر انہیں رہا کردے گا۔ چنانچہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم سے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا فدیہ ادا کریں۔ آنحضرت صلی
اللہ علیہ وسلم نے فوراً فدیہ ادا کردیا۔ حضرت جویریہ ؓ نے اس احسان کا معاوضہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت کی صورت میں ادا کیا۔ مسلمانوں نے جب اس شادی
کی خبر سنی تو سب نے یک زبان ہوکر کہ کہ بنو مصطلق اب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم
کے قرابت دار ہیں او راب ہمیں ان سے اس کے مطابق سلوک کرناچاہئے۔چنانچہ ہر فتح مند
مسلمان نے ان لوگوں کو رہا کردیا جنہیں انہوں نے لڑائی میں گرفتار کیا تھااس طرح
ایک سو خاندانوں نے آزادی پاکر اس نئے عقد کے حق میں دعائے خیر کی۱؎۔
حضرت صفیہؓ بھی جو یہودی
النسل تھیں، جنگ خیبر میں ایک مسلمان کے ہاتھوں گرفتار ہوئی تھیں۔ انہیں بھی رسول
خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فدیہ دے کر آزادی دلائی اور ان کی درخواست پر انہیں
اپنی ازدواج مطّہرات کے زُمرے میں شامل کرلیا۔
حضرت میمونہؓ،جن سے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں شادی کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی
رشتہ دارو ں میں سے تھیں اور جب ان کی شادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو ان
کی عمر پچاس برس سے اوپر تھی۔ اس شادی سے صرف یہی نہیں ہوا کہ رسول خدا صلی اللہ
علیہ وسلم نے اپنی غریب رشتہ دار کی گذرِ معاش مہیا کرنے کا ذمہ اپنے سر لے لیا،
بلکہ دو مشہور و معروف ہستیاں دائرہ اسلام میں آگئیں یعنی حضرت ابن عباسؓ اور حضرت
خالدؓ بن ولیدؓ۔مؤخر الذ کر جنگ اُحد میں قریش کی سوار فوج کے امیر لشکر تھے اور
بعد میں یونان کے فاتح بنے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 375) کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو محبت
وعقیدت تھی اس میں سرِ ہوفرق نہ آیا۔
۱؎
ابن ہشام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تھی آنحضرت صلی اللہ
علیہ وسلم کے نکاحوں کی نوعیت۔ممکن ہے کہ ان میں سے بعض کی محّرک اولاد نرینہ کی
آرزو ہوا ور کیوں نہ ہوتی؟آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بشر ہی تو تھے او رایک
بیٹے کو اپنا نام لیوا چھوڑنے کی خواہش ایک تقاضا ئے بشری ہی تو تھی۔ اس پر یہ بھی
ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس توہین آمیز لقب سے مبّرا ہونے کے خواہشمند
تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدترین دشمنوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا
تھا۱؎۔
بہر کیف،واقعات کو سطحی نظر سے بھی دیکھا جائے تو واضح ہوجاتاہے کہ ان شادیوں نے
ایسے قبیلوں کو جو ایک دوسرے برسرپیکار تھے باہم شیر و شکر اور ملّت کے شیرازے کو
مربوط کردیا۔
ثار یعنی انتقام کا رواج
کفّّار عرب میں عام تھا۔ خاندانی دشمنیوں کے ہاتھوں اکثر قبیلے کے قبیلے تباہ
ہوجایاکرتے تھے۔کوئی خاندان ایسا نہ تھا جس کا کسی اور خاندان سے پشتینی عناد نہ
تھا۔ خانہ جنگیوں میں اکثر مرد قتل اور عورتیں او ربچے غلامی کے پھندے میں گرفتار
ہوجایا کرتے تھے۔حضرت موسیٰؑ کے زمانے میں بنی اسرائیل اس لعنت میں مبتلا تھے(جیسا
کہ تمام قومیں اپنے ارتقا ء کے بعض مراحل میں ہوا کرتی ہیں) لیکن وہ اس کا قلع قمع
نہ کرسکے۔ چنانچہ انہوں نے پناہ گاہوں (حرم المقدس) کا قاعدہ رائج کر کے اسے ایک
قانونی شکل دے دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند کی وفات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ”الابتر“ کا گستاخانہ لفظ استعمال کرتے تھے۔ ”الابتر“
کے لفظی معنی ہیں ”دم کٹا“ یعنی ”وہ جس کا پیچھا یا نام لیوا کوئی نہ ہو۔“ ہندوؤں
کی طرح قدیم عربوں میں بھی بیٹے کے متعلق یہ تصور تھا کہ اس کی بدولت دیوتاؤں کی
برکتیں جاری رہیں گی۔ اور جو شخص کوئی بیٹا نہ چھوڑ جاتا تھا، اسے انتہا درجے کا
بدنصیب سمجھا جاتا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں جو ناموزوں کلمہ
کفّار استعمال کرتے تھے اس کا یہی مفہوم تھا۔ ملاحظہ کیجئے قرآن۔سورہ کوثر (نیز
کشّاف) یہی وجہ تھی کہ بُت پرست عرب اپنی بیٹیوں کو زندہ گاڑدیا کرتے تھے،جس کی
مذمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت الفاظ میں کی۔ دیکھئے قرآن۔ سورہ بنی
اسرائیل۔آیت 34وغیرہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ
علیہ وسلم کے پاس اس مرض کا ایک بہتر نسخہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
مخالفخاندانوں اور قبیلوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اور اپنی ذات کے ساتھ نکاح کے رشتے
میں منسلک کردیا۔ اپنی دعوت حق کے اخیر میں، کوہ عرفات پرکھڑے ہوکر آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ اس وقت کے بعد تمام دشمنیاں ختم ہوجانی چاہئیں۔
-----------
Related Article:
URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-30/d/124899
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism