سید امیر علی
(قسط 32)
2 جون 2021
”ذمی کاخون اورمسلمن کا خون دونوں ایک جیسے ہیں“۔ حضرت علیؓ
اب تک ہم نے رسول عربی
صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کاامتحان صرف ایک نقطہ نگاہ سے کیا ہے، یعنی اس
نقطہ نگاہ سے کہ وہ انسانی کردار کے لیے کہاں تک قواعد او رانسان کے جوفرائض اپنے
خالق اوراپنے ہم جنسو ں کی نسبت ہیں، ان کے بارے میں کہاتک ہدایت مہیا کرتی ہیں۔
اب ہم اس امر کا جائزہ لیں گے کہ اسلام نے انسانیت پرمن حیث المجموع کیااثر مرتب
کیا،یعنی صرف افراد ہی پرنہیں،بلکہ قوموں پر اور من حیث الکل نوع انسانی کی تقدیر
پر۔
اس بات کو سات صدیاں
گزرچکی تھیں کہ پیغمبر ناصری غریبوں او رزیر دستوں کے لیے آسمانی بادشاہی کاپیغام
لے کر آیا۔ دعوتِ نبوت ابھی شروع ہی ہوئی تھی کہ ایک حسین و جمیل زندگی کا خاتمہ
ہوگیا۔ اب کرہئ ارض کی سلطنتوں اور بادشاہوں پر مکمل مایوسی چھائی ہوئی تھی اور
خدا کے بندے، رنج و تعصب میں ڈوبے ہوئے، اس نجات معمور کابیتابی سے انتظار کررہے
تھے جوآنے میں اتنی دیر لگارہی تھی۔
کیا مشرق اور کیا
مغرب،دونوں میں عوام الناس کی حالت اتنی خستہ و خراب تھی کہ بیان سے باہر ہے۔
انہیں نہ کوئی ملکی حقوق حاصل تھے، نہ کوئی سیاسی رعایات،دونوں یا تو دولت مند وں
اور طاقت وروں کی بلاشرکت غیر سے ملکیت تھے یا مذہبی تقدس رکھنے والے طبقو ں
کی۔امیر و غریب،قویّ و ضعیف،اعلیٰ وادنیٰ کے لیے ایک ہی قانون نہ تھا۔
ساسانی ایران میں کشیش
اورزمینوں کے مالک،جنہیں دہقان کالقب دیاجاتا تھا، تمام اقتدار واختیار پر قابض
تھے او رملک کی ساری دولت ان کی مٹھی میں تھی۔ کسان اور غریب لوگ ایک لاقانون
آمریت کی چکی میں پسے جاتے تھے۔ باز نطینی سلطنت میں کلیسا کے منصب دار اکابر
اعاظم،ارباب نشاط اورقیصر و حکام کی عیش پرستیوں کی حاجت برآری کرنے والے دولت،قوت
اورنفوذ کے مالک تھے۔ عام لوگ انتہائی خستہ حالی میں بسر کرتے تھے۔ بربری مملکتوں
میں، سچ تو یہ ہے کہ جہاں جہاں بھی نظام جاگیرداری رائج تھا،آبادی کابیشتر ین حصہ
زرعی اور خانگی غلاموں پر مشتمل تھا۔
کسانوں کی عام حیثیت
غلاموں کی سی تھی۔ شروع شروع میں زرعی اور خانگی غلامی میں بہت کم فرق تھا۔ دونوں
قسم کے غلام اپنے بیوی بچو ں اور سازو سامان سمیت مالک یا تو جاگیر دار کی جاگیر
سے متعلق ہوگئے اور جس حصہ جاگیر سے وہ متعلق ہوتے تھے اسی کے ساتھ خرید و فروخت
ہونے لگے یا جاگیر دار کے ذاتی ملازم بن گئے اور ایک جاگیر سے دوسری جاگیر کو
منتقل ہونے لگے۔وہ آقا کے اجازت کے بغیر اس کی ملازمت سے علٰیحدہ نہ ہوسکتے تھے،
اور اگر وہ اس کی ملازمت چھوڑ کر بھاگ جاتے یا اغوا کرلیے جاتے تو ڈھورڈنگراور مال
بست کی طرح قانون کی مدد سے واپس لائے جاسکتے تھے۔ یہ درست ہے کہ انہیں اپنے
اوراپنے بال بچوں کے گزارے کے لئے تھوڑی سے زمین ملتی تھی، لیکن یہ زمین آقا کی
مرضی پر منحصر ہوتی تھی اور وہ جب چاہتا غلام کو اس سے نکال سکتا تھا۔زرعی غلام نہ
زمین نہ اشیاء منقولہ کی ملکیت حاصل کرسکتا تھا او راگر زمین یا اشیاء منقولہ
خریدتا بھی تو آقا اسے بے دخل کرکے خود قبضہ لینے کاحق رکھتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
کلیسا اپنے غلامو ں کو سب سے زیادہ مدّت تک اپنے قبضے میں رکھتا تھا، Sir
Thomas Smithنے اپنی کتاب Commonwealthمیں
بڑے تلخ الفاظ میں بادریوں کی ریاکاری کاتذکرہ کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زرعی اور خانگی دونوں طرح
کے غلامو ں کا امتیازی نشان لوہے کا طوق تھا۔ غلام جتھوں کے صورت میں مویشیوں کے
ریوڑوں کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ ہانکے جاتے تھے، انہیں جانوروں کی طرح کھانا
کھلایا جاتا تھا، رہنے سہنے کے لیے ایسی جگہیں دی جاتی تھیں جو جانوروں کے لیے بھی
موزوں نہ ہوتی تھیں او رہاتھوں میں ہتھکڑیا، پاؤں میں بیڑیاں اور گلے میں طو ق ڈال
کر انہیں ایک زنجیرسے ایک دوسرے کے ساتھ باندھ دیا جاتاتھا۔
انسانی گوشت و پوشت کا
تاجر ایک موٹا سا گٹھیلا کوڑا ہاتھ میں لیے گھوڑے پر سوار غلامو ں کی قطار کے ساتھ
ساتھ چلتا تھا اورکوڑے کی ضربوں سے تھکے ماندے غلاموں کو چلتے رہنے پر آمادہ کرتا
تھا۔ جب کبھی یہ کوڑا لگتا اور جس کو لگتا اس کی کھال کی ایک بوٹی اُڑا
دیتا۔مرد،عورتیں او ربچے اس طرح لٹکتے ہوئے چیتھڑے پہنے، لہولہان ٹخنے اور آہلو ں
سے چھلنی ننگے پاؤں گھسیٹتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ ہنکا کر لے جائے جاتے تھے۔
اگر کوئی بدقسمت تھک کر گرپڑتا تو اسے زمین پر لٹا کر اتنے کوڑے رسید کئے جاتے کہ
اس کی کھال اُدھیڑ جاتی اور وہ ادھ مواہوجاتا۔مڈل پیسج The
Middle Passage
کے ہولناک واقعات جنگ آزادی سے پہلے امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں غریب نیگروؤں نے
جو سختیاں جھیلیں،سوڈانی بردہ فروشوں نے جو مظالم توڑے،ان سب سے ہم ان مصائب کا
قدرے اندازہ لگاسکتے ہیں جو غلاموں کو عیسائی اقتدار کے تحت بعثت اسلام سے لے کر
پندرھویں صدی کے اخیر تک برداشت کرنے پڑے۱؎،اب بھی جب کہ حضرت عیسیٰؑ کی بادشاہی کو
تقریباً دو ہزار سال گزر چکے ہیں،مہذب دنیا کی قوی ترین سلطنتوں میں سے ایک سلطنت
میں عیسائی بیکس عورتوں کو کوڑے مارکر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
برطانیہ کی پارلیمانی جنگ میں طرفین نے اپنے دشمنوں کو غلام بنا کر نوآبادکاروں کے
ہاتھ فروخت کردیا۔ جب ڈیوک آف مانمتھ کی بغاوت فرد کی گئی،تو اس کے تمام پیرو غلام
بنا کر بیچ دیئے گئے۔نئی آبادی میں پلگرم فادرز (Pilgrim
Fathers)
اور ان کی اولاد نے غلاموں سے جو سلوک روا رکھا وہ ناگفتہ بہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہلاک کرتے ہیں اور واقعی
یا فرضی سیاسی جرائم کی بناء پر قید میں ڈالتے ہیں ۱؎۔
نام نہاد آزاد کردہ
غلاموں کی حالت کسی طرح بھی عام زرعی غلاموں کی حالت سے بہتر نہ تھی۔ اگر وہ اپنی
زمینیں بیچنا چاہتے تواس صورت میں بھی نہیں جرمانہ دینا پڑتا تھا۔ ایک بھاری محصول
اداکئے بغیر وہ اثتاً بھی کچھ حاصل نہ کرسکتے تھے۔ انہیں غلّہ پیسنا ہوتا تھا یا
روٹی پکانی ہوتی تو اس صورت میں بھی انہیں مالک کو حصہ دینا پڑتا تھا۔ وہ اپنی
فصلیں بھی نہ کاٹ سکتے تھے جب تک گرجا کو دسواں،بادشاہ کو بیسواں اور باشاہ کے
درباریوں کو اس سے چھوٹاحصہ نہ دے چکتے۔آقا کی اجازت کے بغیر وہ گھر بھی نہ
بناسکتے تھے اور آقا کو اختیار تھا کہ جب چاہے انہیں بیگار میں جوت دے۔آقا کے بیٹے
بیٹی کی شادی پر انہیں نذرانے دینے پڑتے تھے۔ لیکن جب کسی آزاد کردہ غلام کی بیٹی
کی شادی ہوتی تھی تو اسے انتہا درجے کی شرمناک بے حرمتی کا تختہ مشق بننا پڑتا تھا
اور اگر خود بشپ یا کوئی او رکلیسائی منصب دار جاگیر کا مالک ہوتا تو وہ بھی اس
وحشیانہ حق سے دست کش نہ ہوتا تھا۔ وحشی رسموں کے اس ستم کشوں کا موت بھی مداوانہ
بن سکتی تھی۔ جیتے جی تو وہ انسانوں کی انسانیت سوزی کے مورد بنتے ہی تھے، مرکر بھی
ان کے نصیبوں میں ابدی عذاب ہوتا تھا۔کیونکہ جس شخص نے خود کشی کی ہووہ ملعون ترین
گناہگار وں میں شمار کیا جاتاتھا اور اسے گزبھر زمین کا حق بھی نہ پہنچتا تھا۔
اتنا بھی بہت تھا کہ آدھی رات کے اندھیرے میں اس کی لاش چوری چھپے کسی ناپاک زمین
میں داب دی جاتی تھی اور اس کے سینے میں ایک کھونٹاگاڑدیاجاتا تھا، تاکہ دوسروں کو
تنبیہہ ہو۔
یہ تھی اس زمانے میں عام
لوگوں کی زبون و خوار حالت۔لیکن جاگیر دار کو اپنے ایوان میں،بشپ کواپنے محل میں
اور راہب کو اپنے حُجرے میں عوا م کے آلام و مصائب کی کیاپردا تھی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
یہ عیارت روس کے رو مناف (Romanoff) خاندان کے ہبوط سے
پیشتر لکھی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یورپ اور افریقہ کے حسین
ترین خطوں پر تاریکی کی بدلیاں چھائی ہوئی تھیں۔ ہر جگہ زبردستوں کو مرضی ملک کا
قانون اور حق کا معیار تھی۔ معیار تھی۔ کلیسا روندے ہوؤں او رکچلے ہوؤں کی کوئی
مدد نہ کرتا تھا۔اس کی تعلیمات ہی نسل انسانی کو بہیمانہ طاقت کے پنجے سے نجات
دلانے کے منافی تھیں۔ متقدمین آبائے کلیسا نے اولو الامر کی مخالفت کو ایک گناہ
کبیرہ قرار دیا تھا۔ان کے نزدیک کوئی تشدد،کوئی جبر، کوئی انسانیت سوز زیادتی اس
امر کا جوا ز مہیا نہ کرتی تھی کہ رعایا کی نا انصافیوں سے اپنے آپ کو بچانے کی
خاطر طاقت کا استعمال کرے۔ مسیح کے خادموں نے ان لوگوں کے گٹھ جوڑ کرلیا تھا جن کی
اس معلّم انسانیت نے مذمت کی تھی، یعنی دولت مند اور طاقتور جابروں سے انہوں نے
جاگیر داری کو اپنا لیا تھا اور زمینوں کے مالکوں،جاگیرداروں اور شہزادوں کی حیثیت
میں اس کی عطا کرد ہ رعایات خصوصی سے متمتع ہوتے تھے۔
غیر عیسائی،یعنی
یہودی،مشرکین او رکفّار،عیسائی اقتدار کے تحت تذبذب و تشویش کی زندگی بسر کرتے
تھے۔ ان کا ہلاک کیا جانا یا نہ کیا جانا،غلام بنایا جانا یا نہ بنایا جانا، محض
اتفاق پر منحصر تھا، انہیں کسی قسم کے حقوق حاصل نہ تھے۔زندہ رہنے کی اجازت ہی ان
کے لیے بہت تھی۔اگر کوئی عیسائی کسی غیر عیسائی سے ناجائز طور پر عقد کرتا(جائز
عقد کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا) تو اسے زندہ جلا دیا جاتا تھا۔یہودیوں کو
اجازت نہ تھی کہ عیسائیوں کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں یا ایک ہی دسترخوان پر کھانا
کھائیں یا ان کا سالباس پہنیں۔ہر وقت ممکن تھا کہ جاگیر دار یا بشپ یا ایک مشتعل
ہجوم کی مرضی سے ان کے بچے چھین لیے جائیں اور ان کا مال متاع لوٹ لیا جائے۔یہ
حالات سترہویں صدی کے اخیر تک قائم رہے۔
جب تک معتکف حرانے بانگ
حویت بلند نہ کی، جب تک اس نے نوع انسانی کی عملی مساوات کا اعلان نہ کیا۔ جب تک
اس نے اونچی ذات کی تمام خصوصی مراعات کو نہ مٹایا او رمحنت کاروں کو آزادی ہ دی،
اس وقت تک ا س زنجیر کے حلقے درہم برہم نہ ہوئے جس نے اقوام عالم کو اسیر کر رکھا
تھا۔ وہ وہی پیغام لے کر آیا جو اس کے پیش رولائے تھے اور اس نے اس پیغام کو عملی
جامہ پہنایا۔
اسلام کے سیاسی فلسفے کا
جو ہر اس منشور حقوق میں پایا جاتاہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے
درود مدینہ کے بعد یہودیوں کو عطا کیا او ران قابل یادگار پیغاموں میں جو نجران او
راس کے نواحی کے عیسائیوں کے نام اس وقت بھیجے گئے جب اسلام جزیرہ نمائے عرب پر
اپنا تسلط قائم کرچکا تھا۔ مؤخر الذّ کر دستاویز تمام مسلم فرمانرواؤں کے لیے غیر
مسلم رعایا کے ساتھ سلوک کے بارے میں ایک ہدایت نامہ رہی ہے اوراگر کسی فرمانروا
نے اس سے انحراف کیا ہے تو اس کا سبب اس فرمانروا کی شخصی سیرت میں پایا جاتا
ہے۔اگر ہم اس سیاسی ضرورت سے قطع نظر کرلیں جس نے اکثر اپنے آپ کو مذہب کے لباس
میں پیش کیا ہے تو اسلام سے بڑھ کر کوئی مذاہب کے پیروؤں سے رواداری نہیں برتتا۱؎۔ گاہے گاہے ایساہوا ہے
کہ ملکی مقتضیات نے کسی مسلم حکمران کو قدرے نارواداری کا اظہار کرنے یا دین کے
معاملے میں وحدت کا مطالبہ کرنے پر مجبور کیا ہے،لیکن اسلامی نظا م نے فی نفسہٖ
ہمیشہ پوری پوری رواداری کو قائم رکھا ہے۔ عیسائیوں او ریہودیوں سے اپنے مذہب پر
عمل پیرا ہونے کے بارے میں کبھی مزاحمت نہیں کی گئی اورانہیں کبھی تبدیلی مذہب پر
مجبور نہیں کیا گیا۔ اگر ان سے جزیہ لیا جاتاہے تو وہ عسکری خدمت سے برّیت کے
معاوضے کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اور یہ ہے بھی واجب کہ جو لوگ مملکت کی امان سے
مستفید ہوتے ہیں وہ مملکت کا مالی بار اٹھانے میں کسی حد تک شریک ہوں۔بت پرستوں کے
بارے میں نظریاتی طور پر ذرا زیادہ سختی مطلوب تھی، لیکن عملی طور پر قانون ان کے
ساتھ اتنی ہی فیاضی برتتا تھا جتنی دوسرے غیر مسلمو ں یعنی اہل کتاب کے ساتھ۔ اگر
کبھی ایساہوا ہے کہ ان کے ساتھ سختی کا سلوک کیاگیا ہے تو اس کا سبب تلاش کرنے پر
حکمران کے ذاتی جذبات یا جمہور مسلمین کے وقتی جذبات میں پایاجائے گا۔ مذہب کی آڑ
تومحض ایک بہانے کے طور پرلی گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎Gobine,
Les Religions et les Philospphies dansl, Asie Centrale
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس فرسودہ دعوے کی تائید
میں کہ اسلامی مملکتوں کی غیر مسلم رعایا شدید قانونی محرومیوں سے دو چار ہوتی ہے
نہ صرف متاخوین علماء وفقہا ء کی تنگ نظرانہ آراء کا حوالہ دیا جاتاہے، بلکہ قرآن
کی چندآیتیں بھی پیش کی جاتی ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ شارعِ
اسلام صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسلموں کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہ دیکھتے تھے اور آپ
کو یہ منظور نہ تھا کہ آپ کے متبعین ان کے ساتھ دوستانہ مراسم رکھیں ۱؎۔ اس موضوع پر بحث کرتے
وقت ہمیں یہ فراموش نہ کرنا چاہئے کہ وہ آئیتں جب نازل ہوئیں تو اسلام کس زندگی
وموت کی کش مکش میں مبتلا تھااور یہ بھی نہ بھولنا چاہئے کے کیا کُفّار او رکیا
یہودی وعیسائی مسلمانو ں کو ورغلانے اور دین حق سے منحرف کرنے کی خاطر کیسے کیسے
دغابازانہ طریقے استعمال کرتے تھے۔ ایسے میں معلّم دین کے لیے لازمی تھی کہ آپ
اپنے تابعین کی مخالفوں کی چالبازیوں اورمکّاریوں سے آگاہ کردیں۔ تقابلی تاریخ کا
کوئی معلّم آپ کو اپنی چھوٹی سی مملکت کے تحفظ کے لیے قابل الزام نہیں ٹھہرا
سکتا۔بہر حال جب ہم آپ کے اس سلوک کو دیکھتے ہیں جو آپ نے اپنی غیر مسلم رعایا سے
بحیثیت عمومی روارکھا تو ہمیں اس میں ایک وسیع المشرب رواداری اور ہمدردی کی وافر
شہادت ملتی ہے۔
کیا کسی فاتح قوم یا مذہب
نے محکوم قومو ں کو حسن سلوک کی اس سے بہتہ ضمانت دی ہے جو رسول عربی صلی اللہ
علیہ وسلم کے مندرجہ ذیل الفاظ میں پائی جاتی ہے؟ ”نجران او راس کے نواحی کے
عیسائیوں کو ان کی زندگی ان کے دین اور ان کی املاک کے بارے میں خدا کی امان
اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ِضمانت دی جاتی ہے، ان کوبھی جوموجود ہیں اور ان
کوبھی جو آنے والے ہیں نہ ان کے فرائض مذہبی کی بجا آوری میں کسی قسم کی مزاحمت او
رنہ ان کے حقوق و مراعات میں کسی قسم کی تبدیلی کی جائے گی۔ کوئی اسقف اپنے منصف
سے برطرف نہ کیا جائے گا، کوئی راہب اپنے راہب خانے سے نہ نکالاجائے گا،اورکوئی
پادری اپنے عہدے سے علٰیحدہ نہ کیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
ملاحظہ کیجئے۔Sell's Essays on Islam
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ لوگ ہر بڑی اورچھوٹی
چیز سے اسی طرح متمتع رہیں گے جس طرح اب ہیں۔ کسی مجسمے یاصلیب کو تباہ نہ کیا
جائے گا۔ نہ انہیں کسی پر ظلم کرنے دیا جائے گا اور نہ کوئی ان پر ظلم کرے گا۔ ان
کے لیے ممنوع ہے کہ زمانہ جاہلیت کی طرح قصاص خون کی رسم پر عمل کریں،ان سے کوئی
محصول وصول نہ کیا جائے گا اورنہ ان سے یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ اسلامی سپاہ کے
لیے رسید مہیا کریں ۱؎۔“
تسخیر حیرہ کے بعد جب
وہاں کے باشندے بیعت کاحلف اٹھا چکے تو حضرت خالدؓبن ولید نے ایک اعلان شائع کیا
جس کی رُو سے انہوں نے مسلمانوں کو عیسائیوں کی جان و مال اور آزادی کا کفیل
ٹھہرایا او ریہ حکم دیا کہ”انہیں ناقوس بجانے سے نہ روکا جائے گا“ اور اس امر کی
اجازت دی جائے گی کہ مذہبی تقریبوں پر صلیبوں کو اٹھا کر جلوس نکالیں۔امامابویوسفؓ۲؎ کاارشاد ہے کہ ”اس اعلا
ن کو خلیفہ۳؎
اور ان کی مجلس شوریٰ۴؎
کی منظوری دی گئی۔“
غیر مسلموں کو نئے گرجا
اور معبد بنانے سے نہ روکا گیا۔ صرف ایسے علاقوں میں جہاں صرف مسلمان آباد تھے ذرا
سی نظریاتی پابندی تھی۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ ”کسی ایسے شہر میں
جہاں صرف مسلمان بستے ہیں،کوئی نیا گرجا یا معبد نہیں بنا یا جاسکتا،لیکن ایسے
علاقوں میں جہا ں ذمی پہلے سے آباد ہیں ہمیں اپنے عہد کو پورا کرنا چاہئے۵؎۔”لیکن عملاً یہ ممانعت
مطلقاً نظرانداز کردی گئی۔ خلیفہ المامو ن کے عہد میں مملکت اسلامیہ میں عیسائیو ں
کے گیارہ سو کلیساؤں کے علاوہ یہودیوں کے سیکڑوں صومعے اورزردشتیوں کے بے شمار آتش
کدے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
او رنہ فوجیوں کو ان کے گھروں یا بستیوں میں مقیم کیا جائے گا(فتوح البلدان
ازبلاذری صفحہ 65۔ کتاب الخراج ازامام ابویوسف)میور (Muir) آنحضرت صلی اللہ
علیہ وسلم کی اس ضمانت کا اجمال پیش کرتا ہے۔ جلد دوم صفحہ 299۔
۲؎
خلیفہ ہارون الرشید کے قاصی القضاۃ
۳؎
حضرت ابوبکرؓ
۴؎
حضرت عمرؓ،حضرت عثمانؓ،حضرت علیؓ اور چند دیگر ممتاز صحابہ۔ملاحظہ کیجئے ”کتاب
الخراج“ صفحہ 84۔
۵؎
کتاب الخراج۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس روشن خیال حکمران
نے،جسے عیسائیوں کا دشمن جانی کہا گیا ے،اپنی مجلس شوریٰ میں اپنی تمام محکوم
جماعتوں کے نمائندے شامل کئے تھے۔مسلمان،یہودی، عیسائی،زردستی اور صابی۔ اور اس نے
عیسوی کلیسا کے منصب داروں کے تمام حقوق و مراعات کا باحتیاط تمام تحفظ کیا۔
یہ ایک قابل ملاحظہ امر
ہے جس کی نظرجدید تاریخ میں بھی نہیں ملتی،کہ فتح مصر کے بعد حضرت عمرؓ نے عیسائی
کلیسا کے اوقاف کی حفاظت ایک امانت کے طور پر کی اور سابقہ حکومت کی طرف سے
پادریوں کے لیے جو وظیفے مقرر تھے وہ جاری رکھے۱؎۔
ابتدائی مسلم حکومتوں نے
جس رواداری کا ثبوت دیا اس کی بہترین شہادیت خود عیسائیوں نے مہیا کی ہے۔تیسرے
خلیفہ حضرت عثمانؓ کے عہد میں میری (MERY) کے عیسائیوں بطریق
نے فارس کے اسقف شمعون نامی کے نام ایک خط میں ذیل کی عبارت لکھی:”عرب جنہیں خدا
نے دنیا کی حکومت عطا کی ہے دین عیسوی پر حملہ نہیں کرتے، اس کے برعکس وہ ہمارے
مُمد ہوتے ہیں: وہ ہمارے خدا اور ہمارے اولیاء کا احترام کرتے ہیں اور ہمارے گرجا
ؤں اور راہب خانوں کو مالی عطیے دیتے ہیں“۔ مبادازو زبردستی کا شائبہ تک بھی
دکھائی دے،کسی مسلمان کو اجازت نہ تھی کہ وہ کسی ذمی کی زمین کی قیمت ادا کرکے بھی
حاصل کرسکے“۔ نہ امام،نہ سلطان کو اختیار تھا کہ کسی ذمی کی املاک پر قابض ہوں۔“
قانون کی نگاہو ں میں
مسلمان اور ذمّی برابر کا درجہ رکھتے تھے۔ حضرت علیؓ نے ارشاد فرمایا: ”ان کا خون
بھی ہمارے ہی خون ساہے۔“ مسلمانوں کا نظم و نسق بہت سی جدید حکومتوں کے لیے، جن کے
بعض مہذّب ترین حکومتیں بھی مستنثنیٰ نہیں،ایک قابل تقلید نمونہ تھا۔ جرائم کی سزا
کے معاملے میں حاکم و محکوم کے درمیان کوئی تمیز نہ کی جاتی تھی۔ اسلام کا قانون
یہ ہے کہ اگر ایک ذمّی ایک مسلمان کے ہاتھ سے ماراجائے تو موخرالذکر کو بھی وہی
سزا ملے گی جو صورت معکوس میں مقدم الذّکرکو دی جاتی ہے۲؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
مقریزی
۲؎
زیلعی تخریج الہدایہ میں ایک مقدمہ کاذکر کرتاہے (باقی حاشیہ صفحہ 427پر ملاحظہ
فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلفائے بغداد کو،اپنے
حریف خلفائے قرطبہ کی طرح،غیر مسلموں کی فلاح کا اتنا خیال تھا کہ انہوں نے ذمیوں
کی سلامتی اوران کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک خاص شعبہ قائم کیا۔ اس شعبے کے سربراہ
کالقب بغداد میں کاتب الجہبذہ اور ہسپانیہ میں کاتب الذّام تھا۔
خلیفہ متوکّل نے، جس نے
امام الشّہید اء حضرت امام حسینؓ کے روضہ مبارک کو مسمار کیا اور اس کی زیارت کی
ممانعت کردی، مسلم معتزلہ کی طرح غیر مسلموں کو بھی سرکاری ملازمتوں سے خارج او
ربہت سے حقوق سے محروم کردیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ متاخرین کی کتب فقہ میں،جو
ایک ایسے زمانے میں لکھی گئیں جب مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان،ایک طرف بقائے
محض کی خاطر اوردوسری طرف اقتدار محض کی خاطر، جنگ و جدل جاری تھی،ایسی عبارتیں
نظر آتی ہیں جن سے سطحی طور پر اس الزام کی تائید ہوتی ہے کہ اسلام نے ذمیوں سے
ذلت کا سلوک کیا۔لیکن شارع اسلام یا خلفائے راشدین کے وضع کردہ قوانین میں کوئی
ایسی بات نہیں پائی جاتی جس سے اس الزام کی توثیق ہو۔ اس پر یہ اضافہ کرنا ضروری
ہے کہ متاخرین فقہاء کی تعصّب آمیز آراء پر کبھی عمل نہیں کیا گیا۔ رواداری نہ
فیاضی کا جو سلوک غیر مسلموں سے کیا گیا اس کی شہادت اس امر سے ملتی ہے کہ ذمّی
اکثر مسلمانوں کے اوقات کے مہتمم بنائے جاتے تھے۔ صرف ایک شرط پر کہ انہیں کوئی
مذہبی فرائض تفویض نہ کئے جائیں۔ جب کبھی کوئی قابل وقعت اور ممتاز غیر مسلم وفات
پاتاتو مسلمان انبوہ در انبوہ اس کے جنازے میں شریک ہوتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 426) جو حضرت عمر ؓ کی عدالت میں پیش ہوا۔ بکر بن
وائل نامی ایک مسلمان نے حیروت نامی ایک عیسائی کو قتل کردیا۔ خلیفہ نے حکم دیا کہ
قاتل کہ مقتول کے وارثین کے حوالے کیا جائے۔چنانچہ ملزم حیروت کے وارث حنین کے
حوالے کردیا گیا۔ حنین نے اسے قتل کردیاا (دہلی ایڈیشن صفحہ 338) اسی طرح کا ایک
مقدمہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عہد خلافت سے متعلق بھی بیان کیا جاتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شروع شروع میں،بدیہی
اسباب کی بناء پر فوج کی قیادت غیر مسلموں کو نہ سونپی جاتی تھی، لیکن مشاہرہ
داراور ذمہ دار مناصب پردہ مسلمانوں کی طرح مامور ہوسکتے تھے۔ یہ مساوات محض
نظریاتی نہ تھی۔ پہلی صدی ہجری ہی سے عیسائی،یہودی او رمجوسی اہم سرکاری عہدوں پر
فائز دکھائی دیتے ہیں۔ عباسی خلفاء باستثنائے معددد ے چند، مذہب کی بناء پر اپنے
محکوموں میں کوئی امتیاز نہ کرتے تھے او ران کے بعد جو خاندان برسراقتدار آئے
انہوں نے دیانت داری سے ان کی مثال کی تقلید کی۔
غیر مسلموں سے اسلامی
ممالک میں جو سلوک کیاجاتاہے اگر اس کا مقابلہ اس سلوک سے کیا جائے جو یورپی
حکومتوں کے تحت مسلمانوں کے ساتھ روارکھا جاتاہے تو انسان دوستی اور فیاضی کے
معاملے میں اس کا پلّہ بحیثیت عمومی بھاری پایا جائے گا۔ دہلی کے مغل شہنشاہوں کی حکومت
میں ہندو فوجوں کے کماندار صوبوں کے حاکم اور شہنشاہ کی مجلس شوریٰ کے رُکن بنتے
تھے۔اگلے وقتو ں سے قطع نظر کیا موجودہ دور میں بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی یورپی
سلطنت میں، جس کی رعایا مختلف نسلوں اور مختلف مذہبوں کے لوگوں پر مشتمل ہے۔مذہب
رنگ او رنسل کا کوئی امتیاز نہیں کیا جاتا۔؟
اسلام کا واحد مقصد یہ
تھا کہ اس کے بانی نے وحدت اللہ اور انسانی مساوات کے جس اصول کی تعلیم دی تھی اسے
نوع انسانی میں نافذ کیا جائے۔ وحدت اللہ او رنبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر
ایمان کی حد کے اندر اسلام انسانی ضمیر کو پوری آزادی دیتاہے۔ یہ اس کا نتیجہ ہے
کہ جس سرزمین میں بھی اسلام کے مبلّغ و مجاہدنے قدم رکھا پامال عوام اور تکفیر کے
فتوؤں کے ستم رسیدہ لوگوں نے اسے آزادی اور غلامی سے نجات کا نقیب سمجھ کر اس کا
خیر مقدم کیا۔ اسلام ان کے لیے قانونی مساوات اور بااصول ٹیکسوں کی نوید لے کر
آیا۔
جس طرح یرموک اور اجنادین
کے عزدے شامیوں،یونانیوں اور مصریوں کے لیے نجات کاپیغام تھے۔ اسی طرح قادسیہ کی
لڑائی،جس سے مسلمان ایران پرقابض ہوئے، ایرانیوں کے لیے ایک مبارک واقعہ تھی۔
یہودیوں نے جنہیں زردشتیوں نے وقتاً فوقتاً تہہ تیغ کیا تھا، اور عیسائیوں نے
جنہیں وہ در بدر پھراتے تھے، اس پیغمبر کے زیر سایہ اطمینان سانس لیا جس کے دین کا
اصل الاصول اخوت انسانی تھا۔ ہر ملک میں لوگوں نے مسلمانوں کواپنے نجات دہندہ سمجھ
کر ان کا استقبال کیا۔ اگر کہیں مزاحمت ہوئی تو وہ صرف مذہب پیشہ لوگوں او رطبقہ
اُمراء کی طرف سے جوئی۔ عوام او رمحنت پیشہ لوگوں نے جنہیں زردشتی مذہب نے راندہ
درگاہ گردانا تھا،مسلم فاتحین کی حمایت کی۔محض کلمہئ حق کا زبان پر لانا انہیں
اپنے فاتحین سے برابری بخشنے کے لیے کافی تھا۔
جاگیر دارانہ نظام کے تحت
قبیلوں اور گاؤں کے جو سردار تھے ان کے حقوق، اعزازات او رمقامی اثر کو برقرار
رکھا گیا۔ گوبینو(Gobineau)کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے ظلم و تعدّی کے بارے میں مبالغہ آمیز
باتیں کہی گئی ہیں۔“
افریقہ اور ہسپانیہ کی
فتح کے بعد بھی یہی ہو،ایرین (Arian)،بلاجی (Pelagians) اور دوسرے بدعت
پسند طبقے،جواب تک تقلید پسندوں کے موردِ غضب تھے، اور عوام الناس،جنہیں لاقانون
فوجیوں اور ان سے بھی بڑھ کر لاقانون مذہبی منصب داروں نے ظلم و ستم کاتختہ مشق
بنارکھا تھا،اسلام کے زیر سایہ امن و امان کی زندگی بسر کرنے لگے۔ حالات کی بو
العجبی دیکھئے (اور یہ ابوالعجبی ایسی ہے کہ اسے دیکھ کر قدیم یونانیوں کے نظریہ
مکافات (Nemesis) پر یقین آنے لگتا ہے) کہ مسلمان یہودیوں کے بہترین محافظ ثابت
ہوئے،حالانکہ یہودیوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے کینے کی بنا پر
اسلامی مملکت کی تباہی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔ تمام عیسائی قوموں نے تو
انہیں توہین،تاخت و تاراج او رنفرت و حقارت کا مورد بنایا،لیکن اسلام نے انہیں
مردم آزادی سے وہ امان دی جو عیسائیت نے ان کے حق میں روانہ رکھی تھی۔
اسلام نے لوگوں کو ایک
ایسا ضابطہ قوانین عطا کیا جس کی ظاہری سادگی پر قدامت پسندی کا دھوکا ہوتا
تھا،لیکن جس میں یہ صلاحیت تھی کہ مادّی تہذیب کی ترقی کے پہلو بہ پہلو پوری پوری
نشو و نما پاتارہے۔ اس نے مملکت کو ایک ایسا لچک دار دستور بخشا جو انسانی حقوق
اور انسانی فرائض کی صحیح پرکھ پر مبنی تھا۔ اس ے سرکاری محصولوں کوواجب حدود کے
اندر رکھا،افراد کو قانون کی نگاہوں میں مساوات کی حیثیت دی اور خود اختیار حکومت
کے اصولوں کوپروان چڑھایا۔ اس نے انتظامیہ کو قانون کا تابع بنا کر سلطانی
اختیارات پر پابندیاں عائد کیں اور یہ قانون بھی ایسا قانون تھا جس کی اساس احکام
دین اور اخلاقی فرائض پر قائم تھی۔ ارکرٹ(Uroquhart) کے قول کے مطابق
”یہ دونوں اصول ایسے تھے کہ ان میں سے ہر ایک بجائے خود اپنے بانی کو شہرت دوام
دینے کے لیے کافی تھا۔ ان کی عمدگی او رمؤثریت نے باقی قوانین کو توقیر بخشی، اور
سب قوانین نے مل کر اس نظام کو جو ان پر مشتمل تھا ایسی قوت اور توانائی سے
مالامال کردیا جو کسی اور سیاسی نظام میں نہیں پائی جاتی۔ اگر چہ یہ قانون ایسے
لوگوں میں رائج کیا گیا جو وحشی،جاہل او رہیچ وپوچ تھے،لیکن ایک ہی شخص کی میعادِ
حیات کے اندر وہ قلمردروم سے بھی وسیع ترعلاقے میں پھیل گیا۔ جب تک اس کی ابتدائی
خصوصیات قائم رہیں وہ ایک ناقابل مدافعت قوت سے مملورہا۱؎۔“
حضرت ابوبکرؓ کا مختصر
دور خلافت ریگستانی قبیلوں میں امن و امان قائم کرنے ہی میں صر ف ہوگیا۔چنانچہ
انہیں صوبوں کی باقاعدہ تنظیم کی مہلت نہ ملی، لیکن جب حضرت عمرؓ جو صحیح معنوں
میں ایک عظیم انسان تھے، مسند خلافت پر بیٹھے تو اس وقت محکوم قوموں کی فلاح و
بہبود کے بارے میں اَن تھک کوششوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو ابتدائی مسلم حکومتوں
کا طُرّہ امتیاز ہے۔
خلفائے راشدین کے زمانے
میں مسلمانوں کی جو سیاسی حالت تھی اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو جو منظر آنکھوں کے
سامنے آتا ہے وہ ایک عوامی حکومت کا ہے، جس کا سربراہ ایک منتخب شدہ امیر تھا جو
محدود اقتدار کا مالک تھا۔ رئیس مملکت کے خصوصی اختیارات انتطامی اوراہتمامی امور
کے دائرے کے اندر محصور تھے۔ مثلاً محکمہ احداث یعنی پولیس کی نگرانی، فوج کا نظم
ونسق،امور خارجہ کاانصرام،مالیات کی تقسیم وغیرہم۔لیکن وہ کسی حالت میں بھی اس کا
مجاز نہ تھا کہ مسلّمہ قوانین سے سردِ وانحرف کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎Urauhart,
Spirit of the East, vol. I. Introduction, Page xxviii
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عدالتیں حکومت کی مطیع نہ
تھیں۔حکومت ان کے فیصلوں میں دخل اندازی نہ کرسکتی تھی، یہاں تک کہ ابتدائی خلیفوں
کے ہاتھ میں اتنا اختیار بھی نہ تھا کہ ایسے لوگوں کو جنہیں عدالتوں نے مستوجب سزا
قرار دیا ہو معافی بخش سکیں۔قانون سب کے لیے ایک تھا، امیر کے لیے بھی او رغریب کے
لیے بھی،صاحب اقتدار کے لیے بھی اور کھیت میں محنت و مشقّت کرنے والے کے لیے بھی۔
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا
اس نظام کی سختی میں ڈھیل آتی گئی۔ پھر بھی اس کا ہئیتی ڈھانچہ برقرار رہا۔ یہاں
تک کہ جن غاصبوں نے کسی حق کے بغیر،وخابازی اور کُشت وخون کی مدد سے زمامِ حکومت
اپنے ہاتھوں میں لے لی، اور جو ایّام کفر کے اس عدیدی اقتدار کے نمائندے تھے جسے
اسلامی تعلیمات نے برطرف کیا تھا، انہوں نے بھی ایک نمائندہ حکومت کے تابع قانون
سربراہا انتظامیہ کی ظاہری صورت قائم رکھی۔ جب بعد میں آنے والے خاندانوں کے
حکمرانوں نے من مانے اختیارات کی حدود سے تجاوز کرنے کی کوشش کی تو اجماع فقہاء کے
ان فیصلوں نے جو تمام مسلم مملکتوں میں حکمرانوں کی منہ زوری پر ایک قانونی لگام
کا کام کرتے ہیں انہیں اس سے روک دیا۔بہر کیف ابتدائی دور میں صحابہؓ کی جماعت
گویا پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس شوریٰ تھی۔ کیا لشکر گاہ میں او رکیا
شہر میں،”صحابیؓ رسول صلی اللہ علیہ وسلم“ کے لقب کا بڑا احترام کیا جاتا
تھا۔صحابہؓ کو جو اثر ونفوذ حاصل تھا وہ اسلامی فتوحات کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلاگیا۔
صحابیؓ ہونے کے معنی تھے صاحب تقدس اور صاحب فضیلت سمجھا جاتا۔ جس شخص کو یہ لقب
نصیب ہوتا تھا وہ اگر کوئی کام شروع کرتا تو عامۃ المسلمین جوق در جوق آکر اس کے مقتدی
بن جاتے۔سب سے اونچا رتبہ ان صحابیوں کا تھا جنہوں نے پیغمبر صلعم کے ہمراہ مکّہ
سے ہجرت کی تھی، یعنی مہاجرین کا،پھر ان انصار کا جنہوں نے بصد عقیدت آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کا خیر مقدم کیا تھا او ربدرو اُحد کے میدانوں میں جہاد فی سبیل اللہ
کیا تھا، پھر ان کا جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کام تفویض کرتے تھے اوران کا
جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی تھی،جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم
کلام ہوئے تھے،جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سنے تھے۔ سب سے آخوی
رتبہ ان کا تھا جنہوں نے صحابہؓ کی متابعت کی تھی اور یو ں بالواسطہ حلقہ نبوی صلی
اللہ علیہ وسلم کے حاشیہ نشین رہے تھے۔
حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت
میں ایک واقعہ پیش آیا جس سے ظاہر ہوتاہے کہ اسلام کے نزدیک انسانوں میں کس قسم کی
مطلق مساوات تھی۔ غسّانی بادشاہ جبلہ(Jabala) جو مشّرف بہ اسلام
ہوچکا تھا، خلیفۃالمسلمین کے دربار میں حاضری کی خاطر مدینے آیا۔ وہ بڑی شان و
شوکت کے ساتھ شہر میں داخل ہوا،اور ہر طرح کی تکریم کے ساتھ اس کاخیر مقدم کیا
گیا۔ جب وہ کعبے کا طواف کررہا تھا تو معمولی حیثیت کے کسی اور حاجی کے احرام کا
ایک گوشہ اس کے شانو ں پر گرپڑا جبلہ نے فرطِ غضب سے مُڑ کر حاجی کے منہ پر اس زور
سے طمانچہ رسید کیا کہ بیچارے کے دانت ٹوٹ کر منہ سے نکل گئے۔ واقعے کا باقی ماندہ
حصہ ہم ان قابل یادگار الفاظ میں بیان کرتے ہیں،جن میں حضرت عمرؓ نے اس کی روئدا د
حضرت ابوعبیدہؓ کو جو شام میں عساکر اسلامی کے سپہ سالار تھے،لکھی۔”غریب حاجی میرے
پاس آکر داد وہ خواہ ہوا۔ میں نے جبلہ کو بلا بھیجا اور جب وہ آیا تو میں نے اس سے
پوچھا کہ اس نے ایک مسلمان بھائی کے ساتھ ایسی بدسلوکی کیوں کی تھی۔ اس نے جواب
دیا ’اس آدمی نے میری توہین کی ہے، اور اگرکعبے کا احترام ملحوظ نہ ہوتا تو میں
اسے وہیں ڈھیر کردیتا۔، میں نے کہا تمہارے ان الفاظ نے تمہارے جرم کو اور بھی
سنگین بنادیا ہے اور اگر تم نے اس آدمی سے معافی نہ مانگی اور اس نے تمہیں معاف نہ
کیا تو تمہیں قانونی سزا بھگتنی پڑے گی۔جبلہ نے جواب دیا ’میں ایک بادشاہ ہوں اور
وہ ایک معمولی آدمی ہے۔‘ میں نے کہا ’تم بادشاہ ہو یا نہیں ہو، تم دونوں مسلمان ہو
او رقانون کی نگاہوں میں تم دونوں کی ایک حیثیت ہے۔ اس نے درخواست کی کہ سزا کو
کلتک ملتوی رکھا جائے چنانچہ مظلوم کی مرضی دریافت کرکے میں نے سزا کو ملتوی رکھنا
منظور کرلیا۔ جبلہ راتوں رات بھاگ کھڑا ہوا، اوراب سگِ نصرانی سے جا ملا ہے۱؎۔ لیکن اللہ تعالیٰ
تمہیں اس پر اور اس جیسے مردودوں پرفتح عطا فرمائے گا۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
ابتدائی مسلمان بازنطینی شہنشاہ کو اسی لقب سے یاد کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ خط ابوعبیدہؓ نے لشکر
کو پڑھ کر سنایا۔معلوم ہوتاہے کہ ابتدائی خلیفوں کے زمانے میں اس قسم کے مراسلے
اکثر بھیجے جاتے تھے۔کیا لشکر گاہ میں او رکیا شہر میں،کوئی شخص امور مملکت سے
ناواقف نہ رکھا جاتا تھا۔ ہر جمعہ کو نماز کے بعد امیر المومنین جماعت کو روزمرہ
کے اہم واقعات سے آگا ہ کرتا تھا۔ صوبوں کے حاکم اپنے اپنے علاقوں میں اس کی مثال
کی تقلید کرتے تھے۔ ان عام مجمعوں میں ہر مسلمان شامل ہونے کا مجاز تھا۔ جمہوریت
اپنی بہترین صورت میں حکمراں تھی۔ خلیفہ اسلام امیر المومنین الوہیت کے ہالے میں
گھرا ہوانہ تھا۔ وہ اپنی مملکت کے نظم و نسق کے معاملے میں اپنی رعایا کے سامنے
جواب دہ تھا۔ خلفاء راشدین نے جس سخت گیری سے اپنے آپ کو عو ام کی بہبود کے لیے
وقف کر رکھا تھا اور جس انتہائی سادگی سے وہ زندگی بسرکرتے تھے وہ ہادیئ اسلام کی
مثال کی پوری پوری تقلید تھی۔وہ اپنے آقا کی طرح مسجد میں جاکر شریک نماز ہوتے تھے
اورجماعت سے خطاب کرتے تھے، اپنے مکان پرغریبوں او رمظلوموں سے ملتے تھے اور ادنیٰ
سے ادنیٰ شخص کی فریاد پرکان دھرتے تھے۔انہوں نے غدم وحشم اور ظاہری شان و شوکت کے بغیر محض اپنے حسن
کردا وسیرت کی مدد سے لوگوں کے دلوں پرحکومت کی۔ حضرت عمرؓ نے جب بیت المقدس کی
اطاعت قبول کرنے کے لیے شام کا سفر کیا تو ان کے ہمراہ صرف ایک غلام تھا۔ حضرت
ابوبکرؓ نے اپنے ورثے میں کپڑوں کاایک جوڑا،ایک اونٹ اور ایک غلام چھوڑا۔حضرت علیؓ
کو بیت المال سے جووظیفہ ملتا تھا وہ ہر جمعے اسے غریبوں اور دُکھیاروں میں تقسیم
کردیتے تھے اور قاضیوں کے فیصلوں کا پورا پورا احترام کرکے انہوں نے لوگوں کو ایک
اعلیٰ مثال پیش کی۔ جب تک اسلامی جمہوریت قائم رہی،کسی خلیفہ کو مجال نہ ہوئی کہ
معیّنہ عدالتوں کے فیصلوں میں تصّرف یا ان کی خلاف ورزی کرے۱؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
یہ حضرت معاویہؓ کے عہد میں پہلی بار ہوا کہ ایک عدالت کے فیصلے کو عملی جامہ
پہنایا گیا۔ وہ یوں ہوا کہ انہوں نے ایک شخض کو جسے قاضی نے مجرم قرار دیا تھا
اتنی سی بات پر معاف کردیا کہ اس نے خلیفہ کی شان میں ایک قصید ہ پڑھ کر سنایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی نئی حکومت کے لیے، جس
نے بزورشمشراقتدار حاصل کیا ہو، یہ قدرتی طور پرمشکل ہوتاہے کہ محکوموں کو فوراً
اپنا گرویدہ بنالے۔ لیکن ابتدائی مسلمانوں نے مفتوحہ قوموں کو انتہائی اعتماد اور
وابستگی کے محرکات مہیا کئے۔حضرت ابوعبیدہؓ جیسے معتدل مزاج او رنرم طبع حاکموں کی
سرداری میں، جنہوں نے خالد بن ولیدؓ جسے سپاہیوں کی سختی و درشتی کو حدود کے اندر
رکھا،انہوں نے اپنے محکوموں کے شہری حقوق کا مکمل تحفظ کیا۔ انہوں نے تمام مفتوحہ
قوموں کو پوری پوری مذہبی آزادی دی۔ اس معاملے میں ان کا کردار موجودہ زمانے کی
بہت سی مہذب حکومتوں کے لیے قانونی او رمذہبی رواداری کی افضل ترین مثال ہے۔ نہ تو
انہوں نے کوڑے مار کر عورتوں کو ہلاک کیا او رنہ انہیں جلا وطن کر کے سائبیر یا
بھیجا، تاکہ وہاں کا فوں میں محنت ثاقہ کریں اور اپنے محافظوں کی زیادتیاں اور دست
درازیاں سہیں۔ ان میں اتنی دانشمندی تھی کہ انہوں نے کسی مفید خلائق معاشرتی ادارے
میں دخل اندازی نہیں کی جو کسی مفتوحہ ملک میں موجود تھا او رجو ان کے دین کے
منافی تھا۔
حضرت عمرؓ نے زرعی خوشحالی
کو فروغ دینے کی خاطر جو اقدامات کئے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں لوگوں کی فلاح
اور ان کے مفادات کو ترقی دینے کاکتنا خیال تھا۔ زمین پرجو لگان لگایا گیا وہ ایک
معتدل اور منصفانہ بناء مقرر کیا گیا۔مملکت کے ہر حصے میں نہریں کھُدوائی گئیں۔
جاگیرداری کے زمانے سے جو محاصل اور خراج کا شت کاروں کے لیے عذاب ِ جان بنے ہوئے
تھے وہ سب کے سب منسوخ کردیئے گئے۔ چنانچہ صدیوں کا بوجھ ان کے سر پر سے اُتر گیا۔
ایک قاتل کے ہاتھوں اس عادل او ربیدار مغز حکمران کی شہادت اسلامی مملکت کے لیے
ایک بہت بڑا حادثہ تھی۔ ان کی سیرت،جس میں سختی کے ساتھ عدل کا عنصر بھی تھا، ان
کی عملی دانشمندی اور ان کی مردم شناسی،ان صفات کی بدولت وہ اس کام کے لیے خاص طور
پر موزوں تھے کہ بنو امّیہ کے اقتدار اندوزانہ منصوبوں کو روک تھا م کرسکیں۔ انہوں
نے اپنے بستر مرگ پر چھ ممتاز افراد کو یہ فرض سونپا کہ ان کے جانشین کا انتخاب
کریں۔ ان حضرات نے حضرت علیؓ بن ابوطالب کو انتخاب کرکے انہیں منصب خلافت پیش کیا،
لیکن بنو اُمیہ کی سازشوں کے باعث اس کے ساتھ ایک ایسی شرط لگادی گئی جس کے بارے
میں انہیں یقین تھا کہ حضرت علیؓ اسے قبول کریں گے۔ وہ شرط یہ تھی کہ وہ امور
مملکت میں صرف شریعت الہٰی اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی عمل نہ کریں
گے،بلکہ اپنے دو پیشروؤں کے احکام و اعمال کا بھی اتباع کریں گے۔ حضرت علیؓ کی
آزادہ رو اور غیور طبیعت نے گوارانہ کیا کہ وہ پابندی اپنے اوپر عائد کرلیں۔
چنانچہ،جیسی کہ بنو امّیہ کو توقع تھی،منصب خلافت ان کے قرابت دار حضرت عثمانؓ کو
پیش کیا گیا۔ حضرت عثمانؓ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے کہ جسے اولاد ہاشم کے
ساتھ پرُانی اور دلی دشمنی تھی اس خاندان کے لوگوں نے ہادیئ اسلام کو اس حد تک
اپنے بُغض و کینہ کا موردِ ستم بنایا تھا کہ آپ ہجرت پر مجبور ہوگئے تھے۔ انہوں نے
دین حق کی ابتدائے طفولیت ہی میں تباہ کرنے کے لیے سب جتن کئے تھے اور آخری وقت تک
اس کی بربادی پر تلے رہے تھے۔ ان کا آپس میں زبردست گٹھ جور تھااور قبائل مُضر پر
جن میں وہ ایک ممتاز حیثیت رکھتے تھے، ان کا بہت اثر ونفوذ تھا۔ قوت و اقتدار کو
اپنے ہاتھوں سے جاتے دیکھ کر ان کے دلوں میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی تھی فتح مکّہ کے
بعد انہیں ناگریز حالات کے سامنے سیر انداز ہونا پڑا تھا، لیکن محمد صلی اللہ علیہ
وسلم بن عبداللہ نے جس طرح ان کی سطوت کے طلسم کو توڑا تھا اس کے لیے انہوں نے
خاندان ہاشم کو معاف نہ کیا تھا۔ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہے یہ
غّدار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم شخصیت سے مرحوب ہوکر دبکے بیٹھے رہے۔ ان میں
سے بہت سوں نے ذاتی۱؎
مفاد کو پیش نظر رکھ کر او رمسلم فتوحات کی بدولت جو مال غنیمت ملک میں آرہا تھا
اس میں شریک ہونے کی غرض سے اسلام کا اقرار باللّسان توکر لیاتھا،لیکن پیغمبر نے
جس جمہوریت کا اعلان کیا اس سے انہوں نے نفرت کرنا ترک نہ کیا تھا۔ یہ لوگ شہوت
پرست،مُسرف،بے اصولے،ظالم او رباطنی طور پر کافر تھے۔ چنانچہ انہیں ایک ایسے مذہب
سے جو مساوی حقوق انسانی کا اعلان کرتاتھا او رجو اخلاقی فرائض اور عفت ذاتی کی
سخت گیرانہ تاکید کرتاتھا قدرتی طور پر چڑتھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
اسی لیے انہیں ”مؤلفتہ القلوب“ کہتے تھے۔(ادارہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے جس حکومت کی اطاعت
کا حلف اٹھایا تھا اس کی بربادی کی اور جن لوگوں پر اس حکومت کادارو مدار تھا ان
کی تباہی کی وہ شروع ہی سے تدبیریں کررہے تھے۔پہلے دو خلفاء راشدین نے ان کی حبِّ
جاہ کو حدود کے اندر محدودرکھا اور ان کی ریشہ دوانیوں اورغّدارانہ سازشوں کو
سراٹھانے کا موقع نہ دیا تھا۔ حضرت عثمانؓ کے مسند نشین ہوتے ہی وہ سب کے سب مدینے
میں آکر جمع ہوگئے۔ ان کا خلیفہ بننا تھا کہ نفرت کا وہ آتش فشاں پہاڑ پھٹ پڑا اور
ہوس رانی وفسق پرستی کا وہ فاسد مادّہ بہ نکا جس نے اسلامی دنیا کا سینہ دہلا دیا
اور اس کے بہترین اور اشرف ترین نفوس کو لقمہ اجل بنادیا۔
حضرت عثمانؓ کے دورِ
خلافت میں شیخین کے قائم کئے ہوئے نظام حکومت کا رُخ بدل گیا۔ سب پُرانے والیان
صوبجات اور فوجی سردار جو مقررین رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے انتخاب کئے گئے
تھے معزول کردئیے گئے۔یہی نہیں بلکہ حق خدمت اور جاں نثاری کا کوئی لحاظ نہ کیا
گیا۔ اعتبار اور منفعت والے تمام عہدسے بنو اُمیہ نے سنبھال لیے۔صوبوں کی ولایت
ایسے ایسے لوگوں کو عطا کی گئی جو اپنی اسلام دشمنی کا ثبوت دے چکے تھے اورانہیں
بیت المال سے بے اندازہ فائدے پہنچائے گئے۔ اس کے بعد جو واقعات رونما ہوئے ہم
انہیں قدرے تفصیل کے ساتھ دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرقوں سے بحث کے ضمن
میں بیان کریں گے۔ یہاں اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ حکام کی بدعنوانیاں،روایات ماسبق
سے بے اعتنائی، پیرانہ سال خلیفہ کی اقرباء پروری اور شکائتوں سے لا پروائی،یہ سب
چیزیں مل کر صحابہ نبی اور جمہور مسلمین کے دلوں میں رنجیدگی اور برگشتگی پیدا
کرنے کا باعث ہوئیں،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بغاوت ہوئی اور اس میں حضرت عثمانؓ نے
شہادت پائی۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت پر اجماع ِ اُمت نے حضرت علیؓ کو خلیفہ منتخب
کیا۔ اس کے بعد جو فتنہ بغاوت برپاہوا وہ اسلامی تاریخ کی المناک داستانوں میں ہے۔
اوسز(Oelsner) کہتا ہے کہ ”اگر حضرت علیؓ کو امن واطمینان سے حکومت کرنے کا
موقع دیا جاتا تو ان کے محاسن ذاتی ان کی ثابت قدمی اور ان کی اخلاقی فضیلت کی
بدولت پرانی جمہوریت کو اور اس کے سیدھے سادے طریقوں کو ودام حاصل ہوجاتا۱؎۔“ایک قاتل کے خنجر نے
اسلام کی امیدوں کا خاتمہ کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎Oelsner,
Des Effects de la Religion de Muhammad
۔۔۔۔۔۔۔۔
میجر اوزبرن (Major
Osborn)
کاقول ہے کہ ”حضرت علیؓ کی موت ایک ایسے شخص کی موت تھی جو ان تمام افراد میں جن
کی یاد تاریخ اسلامی نے محفوظ رکھی ہے سب سے صادق القلب اور افضل ترین مسلمان
تھا۔“ اگر حضرت علیؓ سات صدیوں پہلے دنیا میں آئے ہوتے تو انہیں عیسوی کلیسا کی
طرف سے ولایت کا درجہ عطا ہوتا اور اگر تیرہ صدیاں بعد آتے تو ان کی فطنت و قابلیت
ان کی نیک سیرتی و شجاعت مہذّب دنیا سے خراج تحسین حاصل کرتی۔ایک حکمران کی حیثیت
سے وہ اپنے وقت سے پہلے پیداہوئے۔ان میں صداقت پسندی حلم وتواضع اوررحمدلی کی جو
صفات تھیں ان کے ہوتے ہوئے نبوامیہ کی غّداریوں اوع دروغ بافیوں سے نبٹنا ان کے بس
کا کام نہ تھا۔
امیر معاویہؓ کے آمرانہ
نظام کے قائم ہوتے ہی اسلام کی سیاست میں ایک انقلاب عظیم پیدا ہوگیا۔ اب پہلے کی
طرح حکمران ایک جمہوریہ کا سربراہ نہ تھا۔ جو عوام کی مرضی سے منتخب ہوتا تھا او
رجو محض رعایا کی فلاح و بہبود اور دین کی عظمت و شوکت کی خاطر حکومت کرتاتھا۔
امیر معاویہ کے عہد سے یہ دستور ہوگیا کہ خلیفہ وقت اپنا جانشین خود نامزد کرتا
تھا اور خواص و عوام خلیفہ کے حضور میں یا اس کے نمائندے کے سامنے وفاداری کاحلف
اٹھا کر اس نامزدگی پر مہر توثیق ثبت کردیتے تھے۔ اس نظام میں جمہوریت اور آمریت
دونوں کی خرابیاں تھیں، لیکن ان میں سے کسی ایک کی بھی خوبیاں نہ تھیں۔ جمہوریت کے
زمانے میں نہ صرف خلیفہ کی معاونت کے لیے صحابہ بنی پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ تھی،
بلکہ اس قسم کی مجلس شوریٰ ہر دالیئ صوبہ کی بھی رہنمائی کرتی تھی۔ خلافت اموی کے
دور میں حکومت محض شخصی حکومت تھی جس پر اعتدال عائد کرنے والی صرف ایک قوّت تھی،
یعنی بادیہ نشین عربوں او رعلماء و اتقیا کی آزادی گفتار جس کی بدولت وہ اکثر قرآن
کے کلمات یا شعراء کے اشعار پڑھ کر خلیفہ کی کیفیت مزاج کو بدل دیتے تھے۔ پہلے
پانچ خلفائے عباسی کے زمانے میں بھی حکومت شخصی سلطنت رہی ہے، اگرچہ محکموں کے
وزراء اکابر بنو عباس مشیروں کی ایک غیر رسمی جماعت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ ایک
ایسی باقاعدہ مجلس شوریٰ جو ان تمام جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل تھی جنہوں نے
خلیفہ کی وفاداری کا حلف اٹھا یا تھا پہلی بار امون عظم کے عہد میں قائم ہوئی۔
بویدوں، سامانیوں،سلجوقوں او رایوبیوں کے زمانے میں بھی ایسی مجلسیں تھیں جو عوام
کی کم وبیش نمائندگی کرتی تھیں۔
لیکن ابتدائی عباسیوں کے
عہد میں مطلق العنان حکومت مسلمان قوموں کی ذہنی نشو ونما اورمادّی ترقی میں
ممدہوئی۔ ان کے اسلوب حکمرانی میں جو توانائی تھی اور جس مضبوطی سے انہوں نے عنان
اقتدار کو تھامے رکھا اس کے اعتبار سے وہ انگلستان کے ٹیوڈر (Tudor) خاندان کا مقابلہ
کرتے ہیں۔ خلافت عباسیہ کا سیاسی اور انتظامی سازو سامان جو بعد میں آنے والے
خاندانوں نے ان سے مستعار لیا، بانی بغداد خلیفہ منصور کی اختراعی فطانت کی تخلیق
تھا۔ تقسیم کار کی مؤثریت اور جزئیات پر نگرانی کے اعتبار سے وہ جدید زمانے کے
کامل ترین نظاموں کاہم پلّہ تھا۔
عباسیوں نے اپنی خلافت کے
آغاز ہی میں، جو چند صدیوں تک رہی،ایک بیت المال اور ایک دیوان الخاتم قائم کیا۔
اوّل الذّکرکا کام تھا محاصل کا وصول کرنا اورانہیں اخراجات مملکت کے لیے تقسیم
کرنا اور ثانی الذکر کا کام تھا فرامین شاہی کو مستند قانونی حیثیت دینا۔ امور
سلطنت کے بہتر تفصیلی انصرام کی خاطر مزید سرکاری محکمے جنہیں دیوان کے نام سے
موسوم کیا جاتا تھا قائم کیے گئے۔ ان میں بڑے بڑے یہ تھے:۔ دیوان الخراج (یعنی
محاصل کا مرکزی دفتریامالیات کا محکمہ)،دیوان الجُند (یعنی دفتر جنگ) دیوان
الموالی و الغلمان (یعنی مملوکوں اور غلاموں کا محکمہ) جہاں خلیفہ کے غلاموں اور
آزاد کردہ غلاموں کا ایک رجسٹر رکھا جاتا تھااوران کے نان نفقہ کا انتظام کیا
جاتاتھا۔ دیوان البرید دیوان الزمام و النّفقات (یعنی محلسرائے شاہی کے اخراجات کا
دفتر) دیوان الّرسائل (یعنی دفتر خط وکتابت) دیوان التّوقیع (یعنی درخواستوں کا
دفتر) دیوان النظرنی المظالم (یعنی شکائتوں کی تفتیش کا دفتر) دیوان الاحداث
والشّرطہ (یعنی رضاکار فوج اور پولیس کا محکمہ) اور دیوان العطاء (جس کا کام تھا
فوجیوں کی تنخواہیں تقسیم کرنا) غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ ایک خاص دفتر کو سونپا
گیا تھا، جس کے سربراہ کالقب کا تب الجہبذہ تھا۔
ہر سرکاری دفتر کے انتظام
پر ایک صدریارئیس مامور تھا اور اس کی نگرانی کے لیے مُشرف یا ناظر مقرر تھے۱؎۔
اس کے علاوہ ایک اور
عہدیدار تھا جس کا لقب حاجب تھا اورجس کا کام تھا دوسرے ممالک کے سفیروں کا تعارف
اور قاضیوں کے فیصلوں کے خلاف مرافعے کی درخواستو ں کی شنوائی۔ عباسیوں نے ایک
وزیر (یعنی وزیراعظم) بھی مقرر کیا،جس کے ذّمے یہ کام تفویض تھا کہ جن امور مملکت
میں خلیفہ کے احکام لازمی ہوں انہیں خلیفہ کے سامنے پیش کرے۔انہوں نے صوبائی نظم و
نسق میں باقاعدگی پیدا کی اور صوبوں سے جو خواج لیا جاتا تھا اس کی پکّی رقوم مقرر
کیں۔ انہوں نے کاروانوں کے لیے سرائیں تعمیر کیں،بغداد سے لے کر مکّہ تک سڑک کے
کنارے حوض او رنہریں کھُدوائیں، دوردیہ درخت لگوائے او رہر جگہ مسافروں اور حاجیوں
کے لیے سراہِ آرام گاہ ہیں بنوائیں۔انہوں نے مکہ او رمدینہ کے درمیان سڑک تیار
کرائی اور حجاز ویمن کے درمیان آمد و رفت میں سہولت پیدا کرنے کی خاطر گھوڑوں اور
اونٹوں کی ڈاک چوکیاں بٹھائیں۔ایک شہر سے دوسرے شہر کو ڈاک لے جانے کے لیے انہوں
نے ڈاکئے مقرر کئے۔ دارالخلافہ میں انہوں نے ایک مرکزی دفتر قائم کیا جس میں مملکت
کی قدیم دستاویزایت محفوظ رکھی جاتی تھیں اور اپنی قلمرد کے ہر حصے میں پولیس عمدہ
انتظام کیا۔ تجارتی کاروبارکی نگرانی،تاجر وں کے درمیان تنازعوں کے تصیفے اور
دھوکے بازی کی روک تھام کی خاطر انہوں نے ایک شرکت تجار قائم کی۔ نہ صرف ہر تجارتی
مرکز میں سوداگروں کی ایک باقاعدہ انجمن تھی، بلکہ ہر اہم شہر اور قصبہ میں ایک
مجلس بلدیہ بھی تھی۔ انہوں نے ایک محتسب بھی مقرر کیا جو ہر روز بازار کا دورہ
کرتا تھا اور تاجر پیشہ لوگوں اور دکانداروں کے آلا ت وزن پیمائش کی جانچ پڑتال
کرتا تھا۔ انہوں نے مقامی خود اختیاری حکومت کو فروغ دیا اور شہری اداروں کی حوصلہ
افزائی کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
عباسیوں کے سیاسی و ملکی بندوبست کے تفصیلی بیان کے لیے The
Short History of the Saracens, (p[.402-443)ملاحظہ کیجئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاشتکاروں کو قرضے دے کر
زراعت کو ترقی دی گئی۔ عوام کی خوشحالی اور ملک کی حالت کے بارے میں صوبائی عمّال
سے میعاد ی کیفیت نامے طلب کئے جاتے تھے۔ اگرچہ تمام عبّاسی خلفاء کو شان وشوکت
پسند نہیں،لیکن اس کے باوجود ان میں سے بہت سو ں نے جمہوریت کے ظاہری محاسن کو
برقرار رکھا۔ ان کی لکھی ہوئی کتابیں اور ان کے ہاتھوں کی بنی ہوئی ٹوکریاں
بازاروں میں بکتی تھیں اور ان کے جو دام وصول ہوتے تھے ان سے خلیفے اپنی ذاتی
احتیاجات پوری کرتے تھے۔ انہوں نے رعایا کی فلاح وبہبود کے معاملے میں جو سرگرمی
دکھائی اس نے ان مظالم کی جو انہوں نے خانوادہ علومی پر توڑے کسی حد تک تلافی
ہوجاتی ہے۔ مامون اور اس کے پہلے دو جانشنیوں کے عہد میں مملکت اپنے نقطہ عروج پر
پہنچ گئی۔
اسلام کا سیاسی مزاج کتنا
وسیع المشرب ہے اور وہ کس طرح اپنے آپ کو ہر نوعیت اور ہرہئیت کے معاشرے سے ہم
آہنگ بنا سکتا ہے،اس کی بہترین مثال خلافت ہسپانیہ ہے۔ وحشی لشکروں نے اس ملک پر
بڑی شدید مصیبتیں نازل کی تھیں۔ ملک کے طول و عرض میں انہیں جہاں کہیں کوئی ادارہ
نظر آیا،انہوں نے اسے ملیا میٹ کردیا تھا۔ انہوں نے رومی حکومت کے کھنڈروں پرجو
بادشاہتیں قائم کی تھیں وہ کچھ ایسے کینڈے کی تھیں کہ سیاسی نشو و نما کے تمام
امکانات ان کی بدولت ختم ہوگئے تھے۔ انہوں نے رعایا پر جاگیردارانہ مطالبات کا
اتنا بھاری بھرکم بوجھ لاددیا تھا کہ رعایا اس کے نیچے پِس کر دہ گئی تھی۔ بہت سے
بڑے بڑے علاقے آبادی سے خالی ہوگئے تھے۔ ضابطہ اسلامی کے نفاذ نے لوگوں کو بھی اور
زمینوں کو بھی جاگیردارانہ نظام و ضبط نے بے آئینی کی جگہ لے لی۔ ہسپانیہ کی
سرزمین پر قدم رکھتے ہی عربوں نے ایک منشور جاری کیا جس میں انہوں نے محکوم قوموں
کو، نسل و مذہب کے امتیاز کے بغیر، و افرآزادی کا یقین دلایا۔ سُویُوی Suevi گوتھ (Goth) وندال (Vandal) رومی،یہودی غرض سب
کو مسلمانوں کے برابر حیثیت بخشی گئی۔ عیسائیوں او ریہودیوں دونوں کو اپنے مذہب پر
عمل کرنے کی پوری آزادی،اپنی عبادت گاہوں کو آزاد انہ استعمال کرنے کی اجازت اور
جان و مال کی امان کی مکمل ضمانت دی گئی۔ یہ قویہ انہیں اس کی اجازت بھی دی گئی کہ
مقرر حدود کے اندر اپنے قوانین پر عمل در آمد کریں۔ ان کی عورتوں کو فاتحوں کے
ساتھ شادی کرنے کی دعوت دی گئی۔ عربوں کا ہسپانیہ میں جو رویہ رہا، اگر اس
کامقابلہ اس سلوک سے کیا جائے جو اکثر یورپین قوموں نے،قدیم زمانے میں نہیں بلکہ
جدید زمانے میں، محکوم قوموں سے روارکھا،تو کیا ایک حیرت انگیز اختلاف دکھائی نہیں
دیتا؟ جہاں تک قدیم زمانوں کا تعلق ہے، جس طرح نارسنوں نے انگلستان پر یا عیسائیوں
نے صلیبی محاربو ں کے دوران شام پر حکومت کی،اس کا مقابلہ عربوں کی حکومت سے
کرناعقل سلیم اور انسانیت کی توہین ہے۔ عربوں نے ایفائے عہد میں جو استواری دکھائی
اورہر طبقے سے، کسی قسم کے امتیاز کے بغیر، جو مساویانہ انصاف کیا، اس کی بدولت
لوگوں کو ان پر اعتماد ہوگیا۔ انہی باتوں میں نہیں،بلکہ فراخدلی میں، حسن اخلاق
میں اور مہمان نوازی میں بھی، عرب اس زمانے کی تمام دوسری قوموں پر فضیلت رکھتے تھے۱؎ یہودیوں نے وحشیوں کی
حکومت میں عیسائی پادریوں کے اثر ورسوخ کی بدولت بڑے ستم اٹھائے تھے۔ عربوں کا آنا
ان کے لیے سب سے زیادہ سود مند ثابت ہوا۔ اعلیٰ سے اعلیٰ طبقوں کی ہسپانوی خواتین
نے جن میں پلاحیس (Pelagius) کی بہن اور روڈرک (Roderick) کی بیٹی کابھی شمار
ہوتاہے،”مُلحدوں“کے ساتھ (جس لقب سے جاں ماریانا (Jean
Mariana
مسلمانوں کو مُلقّب کرتا ہے) شادیاں کیں۔ ان کے مرتبے سے جو حقوق و مراعات متعلق
تھے وہ انہیں پوری طرح حاصل تھے، ساتھ ہی ساتھ انہیں پوری آزادی ضمیر بھی نصیب
تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
Conde's
History of the Spanish Moops
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جن جاگیرداروں نے روڈرک
کی چیرہ دستیوں سے بچنے کی خاطر پہاڑوں میں پناہ لے رکھی تھی مسلمانوں نے ان سب کو
واپس آنے کی دعوت دی۔ بدقسمتی سے ان کے علاقوں سے اتنے زیادہ لو گ فرار ہوگئے تھے
کہ وہ انہیں دوبارہ آباد کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ چنانچہ مسلمانوں نے ایسے غیر
ملکی کاشتکاروں کو جو جزیرہ نمائے ہسپانیہ میں آباد ہونے کو تیار تھے نہایت
فراخدلانہ ترغیبیں دیں ان ترغیبوں کی بدولت افریقہ اور ایشیاسے محنت پیشہ آباد کار
بڑی تعداد میں ہسپانیہ آگئے۔ پچاس ہزار یہودی بہ یک وقت اپنے بیوی بچوں سمیت
اُندلس آکر آباد ہوگئے۔
ہسپانیہ سات صدیوں تک
مسلمانوں کے زیر نگیں رہا۔ اندرونی جھگڑوں اور خاندانی لڑائیوں کے باوجود ان کے
دشمن بھی اس امر کے شاہد ہیں کہ ان کی حکومت ہسپانیہ کے لیے ایک رحمت تھی۔ ہسپانوی
عرب ثقافت کی جس بلند سطح پرجا پہنچے تھے اسے کبھی کبھی مسلمانوں اور عیسائیوں کی
باہمی شادیوں کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان شادیوں نے
ہسپانوی مسلمانوں کی نشو ونما پر بہت سا اثر ڈالا اور ان کی وہ حیرت انگیز تہذیب
جس سے جدید یورپ نے علوم و فنون کی ترقی میں کسب فیض کیا بڑی حد تک اس کی مرہون
منّت تھی۱؎۔
جو کچھ ہسپانیہ میں ہوا وہی او رملکوں میں بھی ہوا۔جس جس ملک میں مسلمان گئے اس اس
ملک کی حالت بدل گئی، نظم و ضبط نے بے آئینی کی جگہ لے لی اور امن و امان اور
خوشحالی کی چہل پہل ہر طرف نظر آنے لگی۔جس طرح سپاہگری کسی ایک طبقے کا مخصوص پیشہ
نہ تھی، اسی طرح حرفت و دستکاری میں کسی قسم کی ذلّت تصورنہ کی جاتی تھی۔ کاشت
کاری ہر طبقے میں انتی ہی مقبول تھی جنتی جنگ آزمائی۲؎۔
بادشاہوں پر رعایا سے
متعلق جو فرائض عاید ہوتے ہیں انہیں اسلام کتنی اہمیت دیتاہے اور وہ کس رعایا کی
آزادی و مساوات کو فروغ دیتا ہے او راسے کس طرح حاکموں کے ظلم و ستم سے امان بخشتا
ہے، اس کی کیفیت حاکم و محکوم کے باہمی حقوق کے موضوع پر ایک نمایاں تصنیف میں
بیان کی گئی ہے جس کا مصنف صفی الدین محمد بن علی بن طباطبائی (المعروف بہ ابن
الطقطقی) ہے۔ یہ کتاب 701ھجری 2۔1301 عیسوی) میں تالیف ہوئی اور فخرالدین عیسیٰ
ابن ابراہیم امیر موصل سے معنون ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
ریناں verries et Averroisme,
۲؎Oelsner
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے حصے میں اس سے بحث
کی گئی ہے کہ رعایا کے معاملے میں بادشاہوں کے کیاکیا فرائض ہیں اور امور عامہ کے
انصرام او رمعاشی مسائل کے حل کے کیا کیا اصول و قواعد ہیں۔ مصنّف کے نزدیک بادشاہ
میں یہ یہ اوصاف ہونے چاہئیں: دانشمندی، عدل، رعایا کی ضرورتوں اور خواہشوں کا علم
اور خوف خدا کے بارے میں وہ نہایت شّد و مدّ سے کہتا ہے کہ یہ تمام اوصاف حمیدہ کی
بیخ و بُن اور تمام برکات کی کلیدباب ہے۔ ”وھذہ الخصلۃُ ھی اصلُ کّل۔خیر و مفتاح ُ
کُل برکۃ اِن الملک من خاف اللہ آمنہُ عباداللہ۔“ ”جب بادشاہ کو خدا کے حاضر و
ناظر ہونے کا شعور ہوگا تو اس کے ملازموں کو امن امان کی برکتیں نصیب ہوں گی۔“
بادشاہ میں رحم (العفو عن الذّنوب) کی صفت بھی ہونی چاہئے،جو خصائل حسنہ میں سب سے
احسن خصلت ہے۔“ اس کے دل میں اپنی رعایاب کی بہتری کی ایک ہمیشہ موجود رہنے والی
خواہش ہونی چاہئے اور اسے چاہئے کہ رعایا سے اس کی خواہشیں دریافت کرتا رہے کیونکہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے مشورہ کیا کرتے تھے اور خدا نے ارشاد
فرمایا ہے: ”ہر معاملے میں ان سے مشورہ کرو۔“ امور مملکت کے انتظام میں بادشاہ کا
فرض ہے کہ سرکاری آمدنی پرنگاہ رکھے،رعیت کے جان و مال کی حفاظت کرے، امن و امان
قائم رکھے،جرائم کی روک تھام کرے اور رعایا کو ہر طرح کے گزمذ سے بچائے۔ اسے ہمیشہ
اپنا وعدہ پورا کرنا چاہئے۔ اس پر مصنف نہایت معنی خیز الفاظ میں اضافہ کرتاہے کہ
”رعایا کا فرض فرمانبرداری ہے، لیکن ظالم حاکم کی فرمانبرداری رعایا کافرض نہیں۔“
ابن رُشد کا قول ہے کہ ”امر جابردہ ہے جو رعایا کی خاطر نہیں بلکہ اپنی خاطر حکومت
کرتا ہے۔“
مسلمانوں کے قوانین، جو
انصاف کے اصولوں پر مبنی ہیں اور جن کی امتیازی خصوصیت سادگی اور وضاحت ہے، کسی
ایسی قسم کی فرمانبرداری کا تقاضا نہ کرتے تھے جو دشوار اور دوبھر تھی یا انسانی
فہم و ذکاء کے منافی تھی جن جن ملکوں میں مسلمانوں نے اپنی حکومت قائم کی وہ
جاگیردارانہ نظام اورجاگیردارانہ ضابطہ قوانین کے تباہ کن نتائج سے مصون رہے۱؎۔ ”ان کے قوانین نے جو
خصوصی مراعات اور ذات پات کو تسلیم نہ کرتے تھے، دوشاندار نتائج پیدا کئے۔ ایک تو
یہ کہ وحشیانہ قوانین نے زمینوں پر جعلی مطالبات کا جو بوجھ لاد دیا تھا وہ ان سے
رہا ہوگئیں،دوسرا یہ کہ افراد کوکامل مساوات حقوق حاصل ہوگئی۲؎۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
کورسیکا،سارڈینیا،صقلیہ او رجنوبی اٹلی میں جاگیردارانہ نظام عربوں کے اخراج کے
بعد رائج ہوا۔
۲؎
Oelaner
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Related Article:
URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-32/d/124919
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism