New Age Islam
Tue Feb 18 2025, 06:53 PM

Books and Documents ( 1 Jun 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 6, The slavery - Part 31 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، چھٹا باب، غلامی

سید امیر علی

(قسط 31)

1 جون 2021

”جہاں تک تمہارے غلاموں کا تعلق ہے، انہیں وہی کھانا دو جو تم خود کھاتے ہو اور ویسے ہی کپڑے پہناؤ جیسے تم خود پہنتے ہو۔“ (قول رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم)

غلامی کو بعص خصوصیتوں کے اعتبار سے بجا طور پر تعدّد ازدواج سے مشابہ کہا گیا ہے۔تعدّد ازدواج کی طرح وہ بھی ہر قوم میں رائج رہی ہے اور فکر انسانی کی ترقی اور اس کی حّسِ عدل کی نشو ونما کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتی گئی ہے۔ تعدّد ازدواج کی طرح وہ بھی اس نفس پرستی اور رعونت کا نتیجہ تھی جو اجتماعی و انفرادی ارتقاء کے بعض مرحلوں میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے لیکن جہاں تعدّد ازدواج میں کوئی بنیادی بے انصافی نہ تھی وہاں غلامی ابتداہی سے اس لعنت میں مبتلا تھی۔

ابتدائی مراحل میں جب نوع انسانی کو انسانوں کے باہمی حقوق و فرائض کا پورا پورا فہم نہیں ہوتا، جب قوانین محض ایک شخص یا چند اشخاص کے احکام ہوتے ہیں جن کی اطاعت باقی سب لوگوں پر لازم ہوتی ہے، جب زبرستوں کی مرضی سب کے لیے اصول زندگی او ردلیل راہ ہوتی ہے اس وقت وہ عدم مساوات،خواہ وہ معاشرتی ہو یا جسمانی یا دماغی،جوفطرت نے نوع انسانی میں مقدر کی ہے ہمیشہ غلامی کی صورت اختیار کرلیتی ہے او رنتیجتہً ایک ایسا نظام قائم ہوتا ہے جو اعلیٰ کو ادنیٰ پر مطلق اختیار بخش دیتا ہے۱؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ مقابلہ کے لیے دیکھئے:

L' Influence des Croisades sur L,Etat dest Europe, Peuples de L, by Maxime de Cloiseul D' Aillecourt Paris,1809.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کمزوروں کے یو زبردستوں کے حلقہ بگوش ہونے سے مؤخر الذ کرکو یہ توفیق عطا کی ہے کہ انسان پر انجیل کے بیان کے مطابق جو لعنت عائد کی گئی تھی،یعنی یہ کہ ”جب تک تو مٹی میں مل کر مٹی نہیں ہوتا اس وقت تک تو اپنے ماتھے کا پسینہ بہا کر روٹی کھائے گا“ وہ اس لعنت سے اپنے آپ کو مبّرا کرلیں او راس طرح جو فرصت انہیں حاصل ہو اسے مرغوب مشغلوں میں صرف کریں۔ ”قدیم آئین“(Ancient Law) کا مصنف کہتاہے کہ ”کسی اور کی جسمانی طاقت کو اپنے آرام و آسائش یا راحت و مسرت کے لئے استعمال کرنے کی خواہش ہی بلا شک و شبہ غلامی کی بنیاد ہے اور یہ خواہش اتنی ہی قدیم ہے جتنی فطرت انسانی۱؎“۔

غلامی کا دستور نوع انسانی کا ہم عمر ہے۔ تاریخی اعتبار سے اس کے آثار ہر زمانے اور ہر قو م میں پائے جاتے ہیں۔ اس کابیج اس وقت پڑا جب انسانی معاشرہ وحشت کے مرحلے میں تھا اور وہ اس وقت بھی پھلتاپھولتا رہا جب مادّی تہذیب کی ترقی نے اس کی ضرورت کو رفع کردیا تھا۔

یہودی،یونانی، رومی اور قدیم المانی۳؎ قوموں میں جن کے قانونی و معاشرتی اداروں نے جدید زمانے کے رسم و رواج اور شعائر پر سب سے زیادہ اثر ڈالا ہے،دونوں طرح کی غلامی،یعنی زرعی کمین پن بھی اور خانگی خدمت گذاری بھی، قانوناً جائز اور عملاً رائج تھی۔

جب سے عبرانی ایک ملّت کی حیثیت سے وجود میں آئے اسی وقت سے ان کی یہاں دو قسم کی غلامی مروّج تھی۔ ایسے اسرائیلیوں کو جو پاداش جُرم میں غلام بنتے تھے غیر نسل کے غلاموں سے اونچا درجہ دیا جاتا تھا۔ اسرائیلی غلام چھ سال کی خدمت کے بعد قانوناً آزاد ہوجاتاتھا، البتہ اس کو اختیار تھا کہ اس قانونی حق سے فائدہ اٹھائے یا نہ اٹھائے،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ Maine, Ancient law, p. 104

۲؎(De Moribus German. cap. 24,25) And Pothier (De Stat. Serbor apud Germ. Lib, i)

یہ سب حرمن غلامی کی سختی پر شاہد ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن غیر ملکی غلام، چاہے وہ ان قوموں سے تعلق رکھتے ہو ں جنہیں بنی اسرائیل نے بیر حمانہ جنگوں کے ایک باقاعدہ سلسلے کے ذریعے زرعی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا تھا،یا دغابازانہ حملوں میں گرفتار کئے گئے ہوں یا خرید ے گئے ہوں،بہر صورت آزادی حاصل کرنے کے اس حق سے محروم تھے۔ یہ امتیاز قطعاً قومی جانبداری اور یہودیوں کی خصوصی علٰیحدگی پسندی پر مبنی تھا۱؎۔ اس غلامو ں او رلونڈیوں کو سخت سختیاں جھیلنی پڑتی تھیں۔ چاہے وہ زمینوں کے کمیرے ہوں،چاہے گھر وں کے خدمت گزار،ان سے نفرت کی جاتی تھی، انہیں ذلیل سمجھا جاتا تھا اور وہ اپنے رحم آقاؤں کی خدمت میں دائمی محنت و مشقّت کی زندگی بسرکرتے تھے۔

عیسائیت نے نہ ایک معاشرتی نہ ایک مذہبی نظام کی حیثیت سے غلامی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ اس نے اس فتنے کو کم کرنے کے لیے نہ کوئی قاعدہ نافذ کیا نہ کوئی اصول وضع کیا۔ غلاموں کی نافرماں برداری۲؎ کے بارے میں چند جملوں او رآقاؤں کو غلاموں کا معاوضہ ادا کرنے کی نصیحت کے سوا حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات میں، جیسے کہ وہ عیسوی روایات میں پیش کی گئی ہیں،غلامی کی مذمت میں ایک لفظ بھی نہیں پایا جاتا۔ اس کے برعکس عیسائیت نے غلام اور لونڈی کو آقا کی مکمل اطاعت کی تلقین کی۔ اس نے غلامی کو رومی سلطنت کا ایک مسلّمہ ادارہ پایا اور اس کے مُضر اوصاف کو کم کرنے یا اسے تدریجاً ختم کرنے یا غلاموں کی حالت بہتر بنانے کی ذرّہ برابر کوشش کئے بغیر اس نے اس نظام کو اپنا لیا۔ ملکی قانون کی رو سے غلام محض چیز بست کی حیثیت رکھتے تھے۔ عیسائی اقتدار کے تحت بھی ان کی یہی حیثیت رہی۔ رومیوں کے یہاں اولین ایام سے غلامی چلی آرہی تھی۔غلام،خواہ ملکی ہوں یا غیر ملکی،جنگ میں ہاتھ آئے ہوں یا خرید ے گئے ہوں، خالی خولی مال اسباب سمجھے جاتے تھے۔ ان کے آقاؤں کو ان پر زندگی و موت کا اختیار تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ احباء ب25۔44۔45

۲؎ نیا عہد نامہ۔ تیمتھیس اوّل ب4۔2

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہر حال اس تدریجی اصلاح کی بدولت جس نے بارہ تختیوں (The Twelye Tables) کے فرسودہ قوانین کو ہیڈرین (Hadrian) کے جامع ضابطہ قوانین میں تبدیل کیا غلاموں کی حالت قدرے بہتر ہوگئی۔ لیکن ان تبدیلیوں کے باوجود جو رومی شہنشاہوں کی انساں نوازی یا دانشمندی نے پُرانے قوانین میں کیں غلام کا وجود جسمانی کلیتہً مالک کی مرضی کے تابع تھا۔ سلطنت کے ہرذی اقتدار شخص کے یہاں ہزاروں غلام تھے، جنہیں ذرا ذرا سے قصور پر اذیت پہنچائی جاتی تھی او رکوڑے لگائے جاتے تھے۔

یورپ میں انسانوں کو محض چیز بست کی سی جو حیثیت حاصل تھی،عیسائیت کی آمد سے اس میں اگر کوئی تبدیلی ہوئی تو وہ صرف کلیسا ئی منصب داری کے دائرے کے اندر ہوئی۔ ایک غلام راہیبّت کا مسلک اختیار کرکے آزادی حاصل کرسکتا تھا، بشرطیکہ تین سال کے اندر کوئی شخص اس کی ملکیت کا دعویٰ نہ کرے۱؎۔ لیکن اور باتوں کے لحاظ سے غلامی کا دوردورہ اسی طرح برقرار رہا جیسا عہد مشرکیت میں تھا۔ ایک عیسائی شہنشاہ کے زیر حکومت قوانین کا جو خلاصہ مرتب ہوا اس نے اعلان کیا کہ غلامی قانون فطرت ہے اور ضابطہ رومی نے غلاموں کی زیادہ سے زیادہ قیمت ان پیشوں کے مطابق مقرر کی جن کے لئے وہ مطلوب ہوتے تھے۔ غلام او رلونڈی کی باہمی شادی قانوناً تسلیم نہ کی جاتی تھی۔ غلام مرد کی شادی آزاد آزاد عورتوں سے اور غلام کی شادی آزاد مرد سے قطعاً ممنوع تھی اور شدید سزاؤں کی مستوجب سمجھی جاتی تھی۲؎۔ اس کا نتیجہ تھا غیر محدود جاریہ بازی،جس پر کلیسا ئی منصب دار بھی کاربند تھے۳؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ Milman, Latin Christianity, vol.i, p-358

۲؎ اگر کوئی آزاد عورت کسی غلام سے شادی کرلیتی تو اس کے لیے سزاؤں میں ایک سزا یہ تھی کہ وہ قتل کردی جاتی اور غلام کو زندہ جلادیا جاتا۔ Millman, نے Latin Christianlty(V.ii) میں موضوع پر جو شاندار باب لکھا ہے وہ اپنے مدافعانہ اندازکے باوجود قابل ملاحظہ ہے۔

۳؎ Milman, Latin Christianity, vol ii, p. 369, Due Cange, Concubina,

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ تھی صورت حال غلامی کی اس نظام قوانین کے تحت جودنیائے قدیم کا سب سے ترقی یافتہ نظام تھا۔ یہ قانون تیرہ صدیوں کی دانشمندی کے آئینہ دار تھے اوران کے ارتقاء کے آخری دورمیں دنیاکے بزرگ ترین معلّمانِ اخلاق میں سے ایک معلّم کی تعلیمات کاتھوڑا سا پیوند بھی ان پر لگ چکا تھا۔

جب رومی سلطنت کے کھنڈروں پرمغربی اور شمالی وحشیوں کی حکومت کی بناء رکھی گئی تو انفرادی غلامی کے علاوہ علاقائی غلامی بھی، جس سے رومی نا آشنا تھے، نو آباد ملکوں میں عام ہوگئی۔آقاؤں کو اپنی رعایا اور اپنے زرعی غلاموں پرجو مختلف اختیارات تھے وہ اخلاقی زبونی اور پستی کا ایک کراہت انگیز نقشہ پیش کرتے تھے۱؎۔ رومی ضابطے کی طرح بری بری ضابطے بھی غلامی کو نوع انسانی کی ایک معمولی حالت تصور کرتے تھے اور اگر غلام کو کسی طرح کی امان و حفاظت میسر تھی تو محض اپنے آقا کے مملوک کی حیثیت سے،جو حکومت کے علاوہ اس کی زندگی و موت کا واحد مختارہوتا تھا۔

عیسائیت غلامی کو محو کرنے یا اس کی خرابوں کی اصلاح کرنے میں یکسر ناکام رہی تھی۔ اور تو اور خود کلیسا کے قبضے میں غلام تھے اور وہ صریح الفاظ میں اس مُضر دستور کو مطابق قانون تسلیم کرتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ مقابلے کے لیے دیکھئے:De Choiseul نیز ملاحظہ کیجئے اس موضوع پر

Stephan: Commentaries on the Laws of Englland, book, ii part.1, Chapter. II

مالک زمین کو جو قابل نفرت خصوصی حقوق برطانیہ میں حاصل تھے، ان میں سے ایک کانام Culiage تھا، جسے بعد میں جرمانہ میں تبدیل کردیا گیا، جیسا کہ صحیح طور پر خیال کیا گیا ہے۔ انگلستان کے بعض حصوں میں اراضی کی وراثت کا جو قانون رائج ہے، اور جسے، Borough Englishکہتے ہیں، اس کی بنیاد اسی Culiage کے رواج پر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کلیسا کے زیر اثر یورپ کے عظیم ترین مقّننوں ے غلامی کی حمایت تھی او راس پر اصرار کیا تھا کہ وہ ناداری او رچوری کے انسداد کا ایک مفید وسلیہ ہے۱؎ اور کلیسا کے زیر اثر ہی امریکہ کی جنوبی ریاستوں کے اعلیٰ تمدن سے آراستہ عیسائیوں نے ان بدقسمت انسانوں کو جو غلامی کی حیثیت سے ان کے قبضہ اختیار میں تھے (اور جن میں بہت سے ان کے ہم نسل تھے) انسانیت سوز سلوک کاتختہ مشق بنا یا اور غلامی کی لعنت کو برقرار رکھنے کی خاطر لہو کی ندیاں بہائی ہیں۔ اگر کسی شخص میں کسی ادنیٰ نسل کے خون کا شائبہ بھی ہوتا تو چاہے اس کے کوئی آثار بھی نمایاں نہ ہوں وہ اسے غلاموں کی تمام عقوبتوں کامورد بنانے کے لیے کافی تھا۔نیگرد لونڈیوں کے ساتھ سفید رنگ مردوں کے ناجائز تعلقات سے جو بچے پیدا ہوتے ان کے باپ انہیں کبھی قانوناً اپنی اولاد تسلیم نہ کراسکتے تھے۔ کوئی سفید رنگ مرد اپنی نیگردلونڈی سے عقد نہ کرسکتا تھا۔ اس کے ناجائز بچوں کی ماں کو بھی خود بچوں کو بھی اس کی سفید رنگ بیوی جب چاہتی بیچ سکتی تھی۔ خدا کی نگاہوں میں انسانوں کی مساوات سے متعلق داعی عیسائیت کی جو تعلیمات تھیں عیسائیت ان کی روح رواں کو سمجھنے سے قاصررہی۔

اسلام رنگ و نسل کے کسی امتیاز کو تسلیم نہیں کرتا۔ سفید و سیاہ،شہری و فوجی،حاکم و رعایا،سب اس کے نزدیک نہ صرف نظری طور پر بلکہ عملی طور پر بھی کاملاً مساوی ہیں۔ میدان کار زار ہوکہ مہمان خانہ، خیمہ ہوکہ شاہی محل، مسجد ہوکہ بازار،ہر جگہ مسلمان بلاتکلف و بلا اکراہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اسلام کاپہلا موذّن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کاایک باوفا رفیق اور معزّز صحابی، ایک حبشی غلام تھا۔سفید فام عیسائی کے لیے اس کا سیاہ فام ہم مذہب آسمانی بادشاہی میں اس کا ہمسر ہوتو ہو،اس دنیا کی بادشاہی میں ہرگز نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Pufendorff, Law of Nature and Nations, book, vi. C, 3, 5, 10, Ulricus Huberus, Praelect

Jur, Cir. 1.i. tit. 4, 5, 6, Pothier, De statu Servorum, and Grotius, De Jure Bell, 1,ii.c.5,s,

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسیح کی حکومت میں ہوتو ہو، مسیحیت کی حکومت میں مطلقاً نہیں۔ممکن ہے قانون اسے مجبور کرے اور خون کی ندیوں میں بہ کر آیا ہوا ایک وسیع تر تصّور انسانیت اس سے تقاضا کرے کہ اپنے سیاہ فام بھا ئی کو شہری حقوق عطا کرے،لیکن نسل و رنگ کا غرور مساوات کا اعتراف نہیں کرتا۔چنانچہ خدا کے گھر میں بھی سفید فام اور سیاہ فام ایک دوسرے سے علیحدہ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔

اسلامی تعلیمات نے غلامی کے رواج کو ایک ضرب شدید لگائی، اور اگر ہمسایہ قوموں میں اس کی جڑیں اتنی گہری نہ ہوتیں اور انسانی فطرت میں کج روی نہ ہوتی تو اس وقت جولوگ اس رواج پر کار بند تھے ان کے دنیا سے رخصت ہوتے ہی وہ خود بخود معدوم ہوجاتا۔

بجاطور پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ چونکہ اسلام کے قوانین، احکام اور تعلیمات کی اشاعت کو بیس سال لگے، اس لئے قدرتی طور پر زمانہ ما قبل اسلام کے بہت سے دستور جو بعد میں منسوخ ہوگئے شروع شروع میں یا تو خاموشی سے جاری رہنے دیئے گئے یا علانیہ قانوناً تسلیم کرلیے گئے۱؎۔ انہی میں ایک غلامی کا دستور تھا۔ یہ ایک بُرائی تھی جو عربوں کے گہرے سے گہرے باہمی تعلقات کے تار وپو د سے گُندھی ہوئی تھی۔ اسے محو کرنے کا طریقہ یہ نہ تھا کہ جتنے غلام اس وقت موجود تھے ان سب کو فی النفور آزادی دے دی جاتی (جو کہ اخلاقی اور معاشی نقطہ نگاہ سے ناممکن تھا)بلکہ یہ کہ باحکمت اور انسانیت نواز قوانین کے ذریعے اسے آہستہ آہستہ زائل کیا جاتا۔ چنانچہ بہت سے قوانین،سلبی بھی اورایجابی بھی، غلاموں کی آزادی کو رفتہ رفتہ وجود میں لانے کی خاطر وضع کئے گئے۔ اگر اس کے مخالف کوئی طریق عمل اختیار کیا جاتا تو فوزائیدہ جمہوریے کی عمارت زمیں بوس ہوجاتی۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار خدا کے نام پر اپنے تابعین کو تلقین کی کہ وہ غلاموں کو رہائی بخشیں ”جس سے بڑھ کر کوئی عمل اللہ کو قبول نہیں“۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ تہذیب الاخلاق،15/ رجب 1288ھ۔صفحہ 118۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اگرکوئی شخص اپنے غلام سے متعلق بعض فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کرے تو اس کی سزا یہ ہوکہ غلام کو آزادکر دیا جائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم بھی دیا کہ غلاموں کو خدمت کی اُجرت کے طور پر آزادی حاصل کرنے کا حق ہوناچاہئے اور اگر کوئی غلام جس کے پاس فدیہ ادا کرنے کے لئے کافی رقم نہ ہوکسی او رجگہ کام کرکے فدیے کی رقم ادا کرنا چاہے تو آقا کو چاہئے کہ اس کے ساتھ معاہدہ کرکے اسے اس کی اجازت دے دے۱؎۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مزید ہدایت کی کہ غلاموں کو فدیہ اداکرنے کے لیے بیت المال سے قرض دیا جائے۔ بعض بعض صورتوں میں حکم دیا کہ آقا کی مداخلت کے بغیر بلکہ ضرورت ہو تو اس کی مرضی کے خلاف غلام کو آزاد کردیا جائے۔ اگر کسی معاہدے یا پیمان میں ذرا سے شک وشبہ کی بھی گنجائش ہوتی تو اس کی تعبیر غلام کے حق میں کی جاتی اور اگر آقا کی طرف سے آزادی کا تھوڑا سا وعدہ بھی ہوتا تو غلام کو آزاد ی دلانے کی خاطر اس پر عمل کرایا جاتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں سے مہربانی کو وہی درجہ دیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”رشتہ داروں، ہمسایوں، ہم سفیروں اور مسافروں“ کے حقوق ادا کرنے کو دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزادی غلاماں کی تاجدار مکان ہمت افزائی کی اوریہ ہدایت بھی کی کہ آزادی کے علاوہ ”اس دولت کا جو تمہیں خدا نے مرحمت فرمائی ہے ایک حصہ انہیں دو“۔علاوہ بریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آقاؤں کو اس کی ممانعت کی کہ وہ غلاموں او رلونڈیوں پر اپنے اقتدار کو شہوت رانی کی خاطر استعمال کریں اور وعدہ فرمایا کہ جن غلاموں او رلونڈیوں سے یہ زیادتی کی جائے گی خدا ان پر رحم کرے گااور زیادتی کرنے والوں کو سزا دے گا۔ کسی مومن کے لاعلمی میں قتل کرنے کا یا بعض قسم کی دروغ گوئیوں کا کفّارہ ایک غلام کو آزاد کرنا تھا۔ تعلیمات محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا سارا مطلب ومنساء ہی یہ تھا کہ غلاموں کو محض چیز بست سمجھنے کو اور ذات پات کی تفریق کو ناممکن بنا دیا جائے۔ ”Slavery“ غلامی کا لفظ جس معنیٰ میں انگریزی میں استعمال ہوتاہے اس معنی اسلامی قانون کے تحت اس کا اطلاق کسی شخص کی حیثیت پر نہیں ہوسکتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ النور۔33وغیرہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شارع اسلام نے حکم دیا کہ اگر کوئی پنہ گیر اسلامی مملکت میں پناہ لے تو اس میں قدم رکھتے ہی آزاد ہوجائے، لونڈی کی اولاد کو اپنے باپ کی حیثیت عطا کی جائے او رباپ کی موت پر لونڈی کو آزادی حاصل ہوجائے،غلام اپنی آزادی کے لیے آقا سے عہد و پیمان کرسکے اور زکوٰۃ کے محاصل کا ایک حصہ غلاموں کا فدیہ ادا کرنے کی خاطر استعمال کیا جائے۔ آقاؤں کو اپنے غلاموں سے اتنا ہی کام لینے کی اجازت تھی جتنا از روئے انصاف ان سے لیا جانا چاہئے تھا اور جتنا ان کی حدّ مقدور کے اندر تھا۔ انہیں تاکید کی گئی تھی کہ غلاموں سے غلام کہہ کر خطاب نہ کریں، بلکہ ”میرا بچہ“ اور ”میری بچی“ کے شفقت آمیز الفاظ سے پُکاریں۔ او رانہیں اسی طرح لباس پہننے کو دیں جیسا وہ خود پہنتے ہیں۔ سب سے بڑی بات تو یہ تھی کہ کسی حالت میں بھی ماں کوبچے سے، بھائی کو بھائی سے،باپ کوبیٹے سے، میاں کو بیوی سے اور رشتے دار کو دوسرے رشتے دار سے جدا کرنے کی اجازت نہ تھی۱؎۔

معلّم عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں سے سلوک کے بارے میں جو اخلاقی قوانین بنائے ان میں آقا وغلام کے باہمی فرائض اس یک طرفہ طریقے پر مقرر کئے گئے تھے جو اکثر دوسرے مذاہب میں پایا جاتا ہے۲؎۔ انسانی فطرت کے ایک نسبتہً زیادہ عمیق اور زیادہ صحیح علم کی مدد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا کہ طاقت وروں سے متعلق جو فرائض کمزوروں پر عائد ہوتے ہیں ان کی تعیین اتنی ضروری نہیں جتنی ان فرائض کی جو طاقتو ر وں پرکمزوروں کے بارے میں واجب ہیں۔ اسلام کے نزدیک غلام ہونے میں کوئی عار نہیں،غلام ہونا محض ایک اتفاقی حادثہ ہے،نہ کہ فطرت کا ایک انتظام،جیسا کہ ملکی قوانین اور آبائے کلیسا تصور کرتے ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسل کے آزادکردہ غلام حضرت زیدکو اکثر فوجوں کی قیادت پر ماسور کیا جاتا تھا او ربڑے بڑے اشراف بطیب خاطران کے تابع فرمان ہوتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ میں ان مطاقب پر اسناد پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، کیوں کہ یہ مسلمہ امور ہیں۔بہر حال مشتاقان علم ان احادیث سے جو مشکوٰۃ،صحیح بخاری اور بحارا لانوار میں جمع کی گئی ہیں اپنی تشنہ کامی کی تسکین کر سکتے ہیں۔مؤخر الذ کر میں اہل بیت النبی کی فیاضی او رجود وسخاوت کی بے شمار مثالیں جمع کی گئی ہیں۔

۲؎ نیا عہد نامہ کلیسوں کے نام خط ب3۔22۔تمیتھس کے نام پہلا خط ب6۔1،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت زید ؓ کے بیٹے حضرت اسامہؓ اس لشکر کے سپہ سالار تھے جو حضرت ابوبکرؓ نے یونانیوں کے خلاف مہم پر بھیجا۔قطب الدین ایبک،دہلی کا پہلا مسلمان بادشاہ او راس اعتبار سے ہندوستان میں اسلامی حکومت کا اصلی بانی، ایک غلام تھا۔ اسلام میں جس غلامی کی اجازت تھی وہ اس غلامی سے کوئی مشابہت نہ رکھتی تھی جو کل تک دنیائے عیسائیت میں رائج تھی یا جو امریکہ میں 1865ء تک رائج تھی جب کہ ایک مذہبی جنگ نے اس لعنت کا خاتمہ کردیا۔

اسلام میں آج کا غلام کل کاوزیر اعظم ہوتا ہے۔ وہ کسی کی چہ میگوئیوں کے بغیر اپنے آقا کی بیٹی سے شادی کرسکتا ہے اور خاندا ن کا سربراہ بن سکتا ہے۔غلاموں نے سلطنتوں پر حکومت کی ہے اور شاہی خاندانوں کی بناء ڈالی ہے۔محمود غزنوی غلام زادہ تھا۔ کیا عیسائیت اس کی کوئی مثال پیش کرسکتا ہے؟ کیا عیسائیت اپنی تاریخ کے اوراق میں غلاموں کے ساتھ اس قسم کے انسانیت نواز سلوک کی کوئی روداد دکھا سکتی ہے؟

ہم نے جو کچھ اوپر بیان کیا ہے اس میں سے صاف ظاہر ہے کہ شارع اسلام نے غلامی کو ایک عارضی رواج تصور کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین تھا کہ ترقی افکار اور تغیر حالات کی بدولت اس کا ایک دن خاتمہ ہوجائے گا۔ قرآن غلاموں کا تذکرہ ہمیشہ ان الفاظ میں کرتا ہے کہ غلام وہ ہیں ”جنہیں تم نے اپنے دائیں ہاتھ سے حاصل کیا ہے“۔ قرآن کے نزدیک غلام یالونڈیاں حاصل کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ اس کے نزدیک صرف ایک قسم کی غلامی جائز تھی،یعنی جہاد شرعی میں اسیر کئے ہوئے لوگوں سے خدمت وصول کرنا۔ تمام وحشی اقوام میں اسیران جنگ کی جاں بخشی محض خود غرضانہ مقاصد سے کی جاتی ہے۱؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ ملاحظہ کیجئے Milman, Latin Christianity, vol, ii, p. 387

قدیم قانون سازوں کے نزدیک جنگی قیدیوں کوغلام بنانے کا حق انہیں قتل کردینے کے حق پر مبنی تھا۔ اس بارے میں Albericus Gentilis (De Jur).

Gent, cap. de Surnitude, Grotius. اور (باقی حاشیہ صفحہ 414پر ملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی ان کے زرِ فروخت یا ان کی محنت کے ذریعے انفرادی یا قومی دولت میں اضافہ کرنے کی خاطر۱؎۔ دوسری قدیم قوموں کی طرح اعرابِ جاہلیت بھی اپنے قیدیوں کی جاں بخشی صرف نفع اندوزی کے مقصد سے کرتے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رواج کو عربوں میں متدادل پایا اس موضوع پرنظریہ بازی یا حکمت فروشی کرنے کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عربوں کی ہدایت کے لیے سخت قاعدے وضع کئے او رحکم دیاکہ صرف ایسے لوگ غلام بنائے جاسکتے ہیں جو ایک جائز جنگ یعنی جہاد شرعی میں گرفتار کئے گئے ہوں او روہ بھی اس وقت تک جب تک ان کا فدیہ ادانہ کیا جائے یا وہ خود خدمت کی اُجرت کی شکل میں اپنی آزادی کی قیمت ادانہ کریں۔بلکہ جب کبھی یہ طریقے بھی پوری طرح کامیاب ثابت نہ ہوتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانو ں کے جذبہئ اتقاء کو حرکت میں لاتے او رانہیں غلاموں کے مالکوں کے بھاری بھر کم فرائض یاددلاتے تھے، جس کانتیجہ عموماً یہ ہوتا تھا کہ آقا غلاموں کو آزادی عطا کردیتے تھے۔بروہ اندوزی اور بردہ فروشی کو جس کی سرپرستی عیسائیت کرتی تھی۲؎، اور جس کی اجازت یہودیت نے دی تھی،مطقاً مردود و نامحمود قرار دیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ صفحہ 414) Pufendorffنے ان کا تتبع کیا۔ Montesquieuپہلا قانون ساز تھا جس نے جنگی قیدیوں کوہلاک کرنے کے اس فرضی حق سے انکار کیاالّا اس صورت میں کہ یہ قطعاً ناگزیر ہو یا تحفظ نفس کے لیے ضروری ہو۔

Spirit of Laws. کے مصنف نے اس کا انکار اس لیے کیاکہ وہ کلیسا کی غلامی سے آزاد تھا۔

۱؎ Milman: Hist. of the Jews, vol. iii, p.48

۲؎ کرامویل کے ہاتھوں ڈروہیڈا کے قتل عام اورآئر لینڈ کی بغاوت کے فرد کئے جانے کے بعد انگلستان کے پروٹسنٹوں نے آئر لینڈ کے مردوں او رعورتوں کو درجینیا،پینسیلوانیا اور دوسرے مقامات کے نو آباد کاروں کے ہاتھوں فروخت کردیا Monmouthکی بغاوت کے بعد پھر یہی ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غلاموں کی تجارت کرنے والے کو مطعون خلائق کہا گیا: غلاموں کو آزادی دینے کو ایک افضل کار ثواب بیان کیاگیا۱؎۔ کسی مسلمان کو غلام بنانے کی قطعی ممانعت کی گئی، لیکن یہ ایک شرمناک حقیقت ہے کہ بہت سے مدعیان اسلام نے اسلامی قوانین کی ظاہری تعمیل تو کی مگر معلّم اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کی روح سے کامل تغافل برتا اور ان ہدایات کے علی الرّغم غلامی کی گرم بازاری کو خرید و فروخت او ردوسرے ذرائع سے برقرار رکھا۔ قرآنی آئین کے تحت کسی غلام کو قبضے میں لانے کی بنیادی شرط یہ تھی کہ وہ کسی ایسی لڑائی میں ہاتھ آیا ہو جو خلوص نیت سے دفاع ذات کی خاطر کافرو مُشرک جارحین سے لڑی گئی ہو او راس کی اجازت اس مقصد سے دی گئی تھی کہ وہ جنگی قیدیوں کی حفاظت وسلامتی کی ضمانت بنے۔ آس پاس کی قوموں اور قبیلوں کی دشمنی کی بدولت اُمّت مسلمہ ابتداء ً جس حالت جنگ وجدل میں مبتلاتھی، اس حالت کی تبدیلی خود بخود غلامی کا خاتمہ کردیتی، کیونکہ نئے غلام قبضے میں لائے جاتے اور جو موجود تھے وہ رفتہ رفتہ آزاد ہوجاتے، لیکن یا مشرق ومغرب کی اخلاقاً زوال یافتہ قوموں او رشمال کی وحشی نسلوں سے جس کے باعث یا ا س وجہ سے کہ لعنت غلامی کی جڑیں معاشرے کے ہر طبقے میں گہری گڑی ہوئی تھیں،بہت سے مسلمانوں نے عیسائیوں او ریہودیوں کی طرح غلامی کی رسم کو جائز سمجھا او راب بھی سمجھتے ہیں لیکن وحشی ترکمان یا افریقی عرب، جو غلام اندوزی کی فخر یہ مشق کرتے ہیں، اسی قدر اسلام کے نمائندے ہیں جس قدر جنوبی امریکہ کے گیاہستانوں کی بادیہ نوردی کرے والے گواچو Guacho عیسائیت کے نمائندے ہیں ۲؎۔

۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ امام جعفر صادق کی ایک مشہور اور مسلم الثبوت روایت کے مطابق

۲؎ ترکمان (جو متشددسنی تھے) شارعِ اسلام کے حکم کی لفظی خلاف ورزی سے بچنے کی خاطر اپنے قیدیو ں کو (چاہے وہ سنّی ہوں یا شعیہ) اپنے آپ کو کافر کہنے پرمجبور کرتے تھے اسی طرح افریقی عرب کافر حبشیوں کو بستیو ں پر جو چھاپے مارتے ہیں انہیں وہ جہاد کا نام دیتے ہیں۔مشہور افریقی سیاح Mr. Joseph Thompson لنڈن ٹائمز کے شمارہ (باقی حاشیہ صفحہ 416 پر ملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 تعددِ ازدواج کی طرح غلامی کی رسم بھی،جو نوع انسانی کی نشو و نما کے کسی نہ کسی مرحلے میں ہر قوم میں رائج تھی اب کم از کم ان قوموں میں جو تہذیب یا فتہ ہونے کی مدعی ہیں غیر ضروری ہوگئی ہے، کیونکہ جن مقاصد کے لیے وہ وجود میں آئی تھی وہ اب معدوم ہوچکے ہیں، اور یقینی ہے کہ جلد یا بدیردہ غائب ہوجائے گی۔لہٰذاظاہر ہے کہ اسلام نے جیسا کہ ازروئے مخاصمت دعویٰ کیا جاتا ہے،غلامی کو ”تقدس“ نہیں بخشا،بلکہ غلاموں کی ملکیت کو تنگ ترین دائرے کے اندر محصور کرکے اس رسم کے نیت و نابود کرے کا ہر ممکن اہتمام کیا ہے۔ اسلام نے کسی سن مانے حل سے اس اہم مسئلے کو سلجھانے کی کوشش نہیں کی۔ جب اس نے تمام افراد انسانی کی فطری مساوات کاشد و مدّ سے اعلان کیا تو اس نے یہ نہیں کیا کہ اسی وقت،نتائج سے بے نیاز ہوکر، تمام غلاموں او رلونڈیوں کی آزادی کااعلان بھی کردے۔ ابھی دنیا انسان کی اخلاقی و ذہنی آزادی کے اس درجے کے لیے تیار نہ تھی۔ چنانچہ اس قسم کا اعلان بڑی خرابیوں کا باعث ہوتا۔

انسانی جسم کے قطع اعضاء کی بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صریح الفاظ میں ممانعت کی اور اس دستور کی، جو ایرانی او ربازنطینی دونوں سلطنتوں میں رائج تھا، سخت الفاظ میں مذّت کی۔خلفاء راشدین کے زمانے میں غلاموں کی خرید و فروخت کادستور نہ تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ صفحہ 415)مورخہ 14۔نومبر 1887ء میں ایک خط میں مشرقی افریقہ میں غلامی کے موضوع پریوں رقمطراز ہیں: ”میں کسی وپیش کے بغیر کہتا ہوں او رآپ کے تمام نامہ نگاروں کے مقابلے میں مشرقی مرکزی افریقہ کے زیادہ تجربے کی بناء پرکہتا ہو ں کہ اگر ان علاقوں میں غلامو ں کی تجارت جاری ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں اسلام کی اشاعت نہیں ہوئی: اسلام کی اشاعت کے معنی یہ ہوتے کہ غلاموں کی تجارت بالکل بندہوجاتی“۔ جن پرُ امن طریقوں سے اسلام مغربی افریقہ او رمرکزی سوڈان میں پھیلا ہے ان کی جو کیفیت مسٹر تھامپسن نے بیان کی ہے وہ ہر قاری کی توجہ کی مستحق ہے۔ وہ کہتے ہیں۔ ”یہاں اسلام ایک زندہ او رفاعل قوت ہے، جس میں وہی ابتدائی ایام کی توانائی اور تب وتاب ہے او راسے اپنی تبیغ میں اسی طرح کی کامیابی حاصل ہورہی ہے۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 کم از کم اس امر کی کوئی مستند تحریری شہادت موجود نہیں کہ ان کے عہد میں کسی شخص کو خرید کر غلام بنایا گیا ہو، لیکن بنوامیہ کے برسر اقتدار آتے ہی اسلام کی روح میں ایک تغیر واقع ہوگیا۔ حضرت معاویہ ؓ پہلے خلیفہ تھے جنہوں نے لوگوں کو خرید کرغلام بنانے کے دستور سے دنیائے اسلام کو روشناس کرایا۔ اسی طرح وہ پہلے خلیفہ تھے جنہوں نے حرم شاہی کی حفاظت پرخواجہ سرامامور کئے ابتدائی خلفائے عباسی کے عہد میں امام جعفر صادق نے غلامی کے خلاف تبلیغ شروع کی۔

اب آگیا ہے جب نوع انسانی کو بحیثیت مجموعی چاہیے کہ غلامی کے خلاف، چاہے وہ کسی شکل یا نام کے بھیس میں ہو، صدائے احتجاج بلند کرے۔ بالخصوص مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے عظیم پیغمبر کی عزت کی خاطر اپنی تاریخ سے اص صیاہ صفحے کو محو کردیں۔ یہ صفحہ چاہے دوسرے مذاہب کے مدعیوں کے خوفناک نامہ اعمال کے مقابلے میں کتناہی روشن کیو ں نہ دیکھائی دیتا ہو، پھر بھی ایک سیاہ صفحہ ہے او راگر مسلمان اسلامی قوانین کی روح کی خلاف ورزی نہ کرتے تو یہ کبھی نہ لکھا جاتا۔ وہ دن آگیا ہے جب وہ آواز جس نے ساری نوع انسانی کو حُریت،مساوات او راخّوت کااعلان کیا تھا چودہ صدیوں کو روحانی زندگی او رروحانی امور سے حاصل کی ہوئی قوت کے ساتھ دوبارہ سنی جائے۔ یہ مسلمانوں کے کرنے کا کام ہے کہ صریح الفاظ میں یہ اعلان کریں کہ غلامی کو ان کے مذہب نے مطعون او ران کے ضابطہ قانونی نے ممنوع قرار دیا ہے اور اس طرح ان الزامات کو رد کریں جو ان کے عظیم او رخیرالبشر نبی  پر لگائے گئے۔

Related Article:

The Spirit of Islam Authored by Sayed Ameer Ali: An Introduction- Part 1 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: ایک تعارف

The Spirit Of Islam Authored By Sayed Ameer Ali: Preface – Pre Islamic Social And Religious Conditions Of The World- Part 2 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: مقدمہ ، اسلام سے پہلے اقوام عالم کے مذہبی اور معاشرتی حالات

The Spirit Of Islam: Preface- Social And Religious Conditions Of the Aryans- Part 3 روح اسلام: بعثت اسلام کے وقت آریہ قوم کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Sayed Ammer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions Of Iran Before Islam- Part 4 روح اسلام: اسلام سے قبل ایران کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions of the World Before Islam- Part 5 روح اسلام: اسلام سے قبل دنیا کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions of the World Before Islam- Part 6 روح اسلام: اسلام سے قبل دنیا کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Christian World روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی حالت

 Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Christian World-Part 8 روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی اور سماجی حالت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Arabs-Part 9 روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی اور سماجی حالت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Arabs-Part 10 روح اسلام: ماقبل اسلام عرب کی مذہبی اور سماجی حالت 

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Messenger of Allah -Part 11 روح اسلام: پہلا باب پیغمبر اسلام کی ابتدائی زندگی

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Prophet’s Life and Prophet-hood -Part 12 روح اسلام: رسول اللہ کی زندگی اور رسالت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Chapter 1- The Revelation of the Quran and Declaration of Prophethood -Part 13 روح اسلام:نزول وحی کی ابتدا اور اعلان نبوت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Life of The Prophet and His Companions In Early Days of Islam -Part 14 روح اسلام: مکی دور میں رسول اللہ اور صحابہ کی زندگی

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Life of The Prophet and His Companions In Early Days of Islam -Part 15 روح اسلام: مکی دور میں رسول اللہ اور صحابہ کی زندگی

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 2- The Prophet’s Migration Towards Madina Part 16 روح اسلام : دوسرا باب: مدینہ کی طرف رسول اللہ کی ہجرت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 3- The Prophet’s Life in Madina Part 17 روح اسلام : تیسرا باب: رسول اللہ کی زندگی مدینہ میں

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 4- Enmity Between Quraish and Jews-Part 18 روح اسلام : چوتھا باب ،قریش اور یہود کی دشمنی

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 5- The Attack of Quraish on Madina-Part 19 روح اسلام : پانچواں باب ، قریش کا مدینے پر حملہ

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 5- The Attack of Quraish on Madina-Part 20 روح اسلام : پانچواں باب ، قریش کا مدینے پر حملہ

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 6- Mercifulness and Kindness of the Prophet Muhammad pbuh-Part 21 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام : چھٹاباب، آنحضرتؐ کی رحم دلی

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 7, The Spread of Islam - Part 22 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، ساتواں باب ، اشاعت اسلام

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 8, The year of delegates - Part 23 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، آٹھواں باب ، عام الوفود

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 9, The Perfection of Muhammad’s Prophethood - Part 24 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، نواں باب ، رسالت محمدیؐ کی تکمیل

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 1, Final Chapter 10, The Subject of Caliphate - Part 25 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دسواں باب، مسئلہ خلافت

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 1, The ideal goal of Islam - Part 26 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، پہلا باب، اسلام کامثالی نصب العین

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 2, The religious spirit of Islam - Part 27 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، دوسرا باب، اسلام کی مذہبی روح

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 3, The concept of life after death in Islam - Part 28 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، تیسرا باب، اسلام میں حیات بعد الممات کاتصور

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 4, The Preaching jihad of Islam- Part 29 سید امیرعلی کی کتاب روح اسلام، دوسرا حصہ،چوتھا باب، اسلام کا تبلیغی جہاد

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 5, The status of women in Islam - Part 30 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، پانچوا ں باب ،اسلام میں عورتوں کی حیثیت

URL:   https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-31/d/124912

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..