New Age Islam
Fri Dec 13 2024, 07:59 AM

Books and Documents ( 4 Jun 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 8, The Political sectarianism - Part 34 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، آٹھوا باب، سیاسی فرقہ بندیاں

سید امیر علی

(قسط 34)

4 جون 2021

اسلام نے اپنے متبعین سے صرف یہ تقاضا کیا کہ وہ ایک ابدی صداقت کا زبانی اقرار کریں اور چند اخلاقی فرائض پورے کریں۔ باقی سب معاملات میں اس نے پورے آزادی فیصلہ دی۔ اس نے وحدت اللہ کے نام پر تمام مذہبوں اور فرقوں کو جمہوری مساوات کی پیشکش کی۔ نتیجۃً ہر مذہب کے ستم رسیدہ بدعتی علم محمدی کے نیچے آکر جمع ہوگئے،جو ان کے لیے پروہتوں کی غلامی سے چھٹکار ے کا ضامن تھا۔ اوستائی اہل کتاب،آزادخیال زدوشیتوں مانویوں،عیسائیوں،مجوسیوں سب نے اس نئے نظام کا خیر مقدم کیا،جو ان کے مذہبی وحدت کے خواب کی تعبیر تھا۔ غنا سطی فرقوں کے وہ دل جنہوں نے دوسری صدی سے لے کر تیسری صدی تک عیسوی کلیسا کر پریشان کررکھا تھا یا تو دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں مدغم ہوگئے تھے یاخلفا ء کی رواداری کی سایہ عافیت میں تقلید پسند یونانیوں او رکیتھولکوں کو دخل اندازیوں سے مصئون،امن و امان کی زندگی بسر کررہے تھے۔ اوَل الذکر نے دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول تو کرلیا تھا،لیکن اپنے قدیم عقائد کو بھی برقرار رکھا تھا۔ اسی امتزاج نے اسلام کے ان روح پرست (Docetic)۱؎ فرقوں کوجنم دیا جن کا ذکر ہم آگے چل کر کریں گے۔

کسی قوم کی جب کی خصوصیات،جس آب وہوا میں وہ زندگی بسر کرتی ہے،اس کے ماحول کے طبعی نقش و نگار،قدیم تر مذاہب کے اثرات،یہ سب چیزیں مل کر اس کے مذہب اورعقائد کو رنگ روپ بخشتی ہیں۔ کیا عیسائیت اورکیا اسلام،دونوں میں یہی دیکھنے میں آتا ہے۔ایران نے غنا سطلنت کو جنم دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ عیسائیوں کاایک فرقہ جس کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم انسانی نہیں تھا بلکہ کسی آسمانی جوہر سے مرکتب تھا،یعنی خالصۃً روح تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ایران ہی سے وہ روح پرستانہ تصّورات اٹھے جو رومی دنیا میں سرایت کرگئے اور اجنہوں نے یہودی الاصل عیسائیوں کے ابتدئی عقائد پر ایک ایسے خدا کے تصور کا رنگ چڑھا دیا جو دنیا کے لوگوں سے آئے دن کا میل جول رکھتاتھا۔توہمّات او رفلسفے کا وہ عجب وغریب مرکّب جسے مانویّت کہتے ہیں اور جس سے عیسائیت نے کسی اعتراف کے بغیر اتنا کچھ مستعار لیا ہے زروشتیوں اور عیسائیوں کے جبر و تشدد کے باوجودابھی تک جو ں کا توں قائم تھا۔ ایک عجیب الخلقت صاحب فطانت کی یہ تخلیق،ایک قوم کی فطری خصوصیات کی یہ پیداوار غالباً کبھی بھی فنانہ ہوگی۔علمائے دینیات اس کے قلمع قمع کی لاکھ کوشش کریں اور اسے کبھی نیست و نابود نہ کرسکیں گے۔سنّی مذہب کی افسر وہ طبعی ایران کی آب وہوا کے زیر اثر ایک رنگین خیال فلسفے میں تبدیل ہوگئی۔ حضرت علیؓ کی شخصیت نے مانویت کے تخیل کو اُکسادیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کی طرح وہ بھی لوگوں کے تصور میں ایک سمادی جوہر بن گئی۔ انسان کو خدا بنانے کایہ عمل حضرت علیؓ تک ہی محدود تھا۔ ان کے جانشینوں کو بھی خدا ئی کا رتبہ دے دیا گیا۔چنانچہ سنّی مسلک کی طرح شیعہ مسلک بھی دوپہلو ہیں۔ ایک تو وہ سیدھا سادہ اور خالص تشیتع ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی جانشینوں کامسلک تھا اورجس سے ہم تھوڑی دیر بعد بحث کریں گے۔ دوسراوہ روح پرستانہ تشتیع ہے جو تو ہمّات کا ایک مجموعہ ہے اور جن لوگوں میں وہ پھیلاان کے قدیم عقائد کے زیر اثر اصلی تشیتع کی ایک بگڑی ہوئی صورت ہے۔ پھر انتہا پسندانہ تشتیع روح پرستانہ تشتیع سے اتنا ہی مختلف ہے جتنا پسندانہ سنّی مسلک یا نواصبیت روح پرستانہ سنی مسلک سے۔تنگ نظرا نہ خود پسندی کسی ایک دین یا مذہب ہی کی خصوصیت نہیں،اور ایتھنیسیس کا مسلک (The Athanasian Creed) دوسرے مسلکوں کو جو خوف دلاتا ہے کہ ان پر خدا کی برق غضب گرے گی اور عیسائیت تک ہی محدود نہیں۔اسلام کے فرقے بھی (باستثائے معددوے چند) ایک دوسرے کو قہر الٰہی کے سپرد کرتے ہیں، ہمیشہ کے لئے تو نہیں (جیسا کہ کٹّر عیسائی کرتے ہیں)،لیکن پھر بھی اتنی مدّت کے لیے ضرور کہ ان پراختلاف عقیدہ کی خرابیاں پوری طرح واضح ہوجائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ عیسائیوں کا ایک فرقہ جس کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم انسانی نہیں تھا بلکہ کسی آسمانی جوہر سے مرکب تھا، یعنی خالصۃً روح تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہرحال نار جہنم کی ان دھمکیوں کے باوجود جو مختلف فرقے ایک دوسرے کو دیتے ہیں،کسی فلسفی مزاج طالب علم کی نظر سے اسلام کی عالمگیر وسیع المشربی مخفی نہیں رہ سکتی۔

ساتویں صدی کے وسط کے لگ بھگ کونسٹنیٹین سلوانس Constantine Syluanusنے تابعین پال کے مانوی فرقے کی داغ بیل ڈالی تابعین پال مانوی کے لقب کو رد کرتے ہیں لیکن ان کے عقائد ان عقائد سے جن کی تعلیم مانی نے دی قریب کی مشابہت رکھتے ہیں او رملز (Milner) کے سوا سب عیسائی مصنفین یہی کہتے ہیں کہ وہ مانوّیت سے ماخوذ ہیں۔ تابعین پال پوپ کے اصلاح یافتہ کلیساؤں کے حقیقی موجد تھے۔انہیں بُت پرستی اور تبّرک پرستی سے جو نفرت تھی وہ غالباً اسلامی اثرات کانتیجہ تھی۔ مریم پرستی،اولیا، پرستی اور مرئی چیزوں کو معبود بنانے سے وہ جو پرہیز کرتے تھے اس میں وہ مسلمانوں سے مماثلت رکھتے ہیں۔ لیکن مانی کی طرح ان کا بھی یہ عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک روح محض تھے جو اپنی زندگی میں صرف ظاہری طور پر جسم سے مشابہ تھی اور ان کی صلیب کشی محض ایک فریب نظر تھی۔ ان کے نزدیک مادّہ قدیم او رابدی ہے اور ایک ایسے وجود فاعل کامبداء ہے جس نے یہ مرئی دنیا پیدا کی او رجو اس وقت تک اپنی دنیوی حکومت کو قائم رکھے گا جب تک بدی او رموت کا خاتمہ نہیں ہوجاتا۔ عیسوی اناجیل کی تفسیر کے بارے میں وہ کنایہ ومجاز سے کام لیتے ہیں اور مانی کی طرح الفاظ کے مخفی معانی سے واقف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ اس کو جائز قرار دیتے ہیں کہ مصلحۃً کسی دوسرے مذہب کاظاہری اقرار کیا جائے، جوجدید ایران میں کتمان یا تقیہ کے نام سے مشہور ہے۔

یونانی کلیسا او رباز نطینی دربار نے متبعین پال پر سخت جبر کیا او رتقریباً دوصدیوں تک وہ شمالی آرمینیا اورکیپڈوشیا میں بازنطین کے مذہبی دیوانوں اور مستبدجاکموں کاڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے جس میں طرفین نے ایک دوسرے پر ہیبت ناک مظالم کئے۱؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ کہا جاتاہے کہ مینوئل (Manuel) کی ماں (باقی حاشیہ صفحہ 494پر ملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بالآخر انہیں اپنے سے زبردست قوت کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے لیکن اگرچہ اس فرقے کے قلعے اور شہر مسمار کردیئے گئے پھر بھی وہ زندہ رہا۔ اس نے اپنے عقائد بلغار یوں کو منتقل کردیئے، جنہیں تقلید پسند کلیساؤں نے ہمیشہ باپسندی کی نگاہ سے دیکھا ہے ایشیا میں ختم ہوجانے کے بعد متبعین پال تیر ہویں صدی میں ازسر نو جنوبی پرُوانس اور سیوائے میں نمودار ہوئے۔ یورپی تاریخ کے ہرطالب علم کو معلوم ہے کہ ان ملکوں میں ان کا حشر ہو۔انہیں تلوار اور آگ کے ذریعے تباہ کردیا گیا،یہاں تک کہ عورتوں او ربچوں کی بھی جان بخشی نہ کی گئی۔ جو عورتیں او ربچے زندہ بچ گئے انہیں غلام بنالیا گیا۔ اس کے باوجود پالیت کا خاتمہ نہ ہوا۔اس نے انگلستان میں خروج کیا جہاں اس کے پیروؤں نے جنہیں مولرڈ (Lollards) کہتے ہیں،وہی مصیبتیں سہیں جو ان کے پیشروؤں نے ایشیا،سیلوائے اور پرودانس میں سہی تھیں۔ پھر وہ ہس (Huss) کے ماتحت بوہیمیا میں نمودار ہوئی، او ربالآخر لوتھر (Luther) اورکیلون (Calvin)کے علم کے نیچے اپنے متعصب مخالفوں پر ظفریاب ہوئی۔ ہم نے اب تک اس فرقے کی سرگوشت اس لیے بیان کی ہے کہ اسی زمانے میں عالم اسلام کے اندر جو مذہبی وسیاسی تحریکیں بروئے کار تھیں ان پر اس نے اپنے اصلی وطن میں بہت نمایاں اثر مرتب کیا۔

اس طوفانی دور میں، جب کاٹروسیرپالی Chyroseir the Paulician نے بازنطینی قلمر و کے مشرق حصوں میں تباہی مچا رکھی اور ایشیائے کو چک کے شہروں میں بربادی وغارت گری کا بازار گرم رکھا تھا، فارس کے شہر اہواز میں ایک ایسا شخص رہتا تھا جواپنی ہمہ دانی،اپنے کمالات کی ہمہ گیری او راپنے تجّر علمی کے اعتبار سے مانی کا ہم رتبہ تھا او رجسے دینی تاریخ میں مانی کے برابر کا کردار ادا کرنا تھا۔ عبداللہ ابن میمون القّداح کو اس کے دشمن مجوسی النّسب کہتے ہیں او راس کے معتقد اسے حضرت علیؓ کے اخلاف میں شمار کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ صفحہ 493) تھیوڈورا (Theodora) کے حکم سے ایک لاکھ متبعین پال تلوار سولی اور آگ کی نذر کردیئے گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حقیقت الامر چاہے کچھ بھی ہو،یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ محبان اہل بیت میں تھا۔ اس کی تعلیمات سے جو فتنہ انگیز نتائج بلاواسطہ یا بالواسطہ برآمد ہوئے ہیں ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے ابن خلدون جیسے مؤرخوں کے لیے بھی اس شخص کو اور اس کے عقائد کوبری ازتعصّب نگاہوں سے دیکھنا ناممکن تھا۔ ان کا خیال ہے کہ عبداللہ ابن میمون انہی غدّار انہ طریقوں سے جو اس کے میشروؤں نے عیسائیت کے خلاف استعمال کئے تھے قلمر واسلام کو زیر و زبر کرنے کا خواہشمند تھا۔ اسے اس امر کا احساس تھا کہ جب تک لوگوں کا ضمیر اور سیاسی طاقت اسلام کی پشت پناہ ہیں اس وقت تک اس سے کھلّم کھلّا جنگ ایک خطرناک مہم ہے۔ اس لیے اس نے مانی کی طرح خفیہ کارروائیوں کاتہیہ کیا۔ اس نے اپنے نظام کو رموز واسراء کے پردے میں چھپا لیا او رمذہب کے مثبت اقتدار کو ختم کرنے کی خاطر فیشاغورسیوں (Pythagoreans) کی طرح اپنے پیروؤں کی سات درجوں میں تقسیم کیا۔ آخری درجے میں وہ لوگ تھے جو مذہب کو سرے سے ناکارہ کہتے تھے۔ اور انسانی اعمال کو خیر وشر سے بری سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک نہ دنیا میں او رنہ عقبیٰ میں اعمال کی کوئی جزایا سزا تھی۔ اس نے اپنے داعی مقرر کئے او رانہیں اطراف ملک میں بھیجا تا کہ مریدوں کو اس کے حلقے میں داخل کریں اور ہر ایک کی قابلیت کے مطابق اسے کسی نہ کسی درجے کی تربیت دیں۔ ابن اسمٰعیل کے دعووں کو ان لوگوں نے سیاسی عذر کے طور پر استعمال کیا۔ وہ ظاہر میں تو اس کی خاطر کام کررہے تھے لیکن دراصل وہ خفیہ طور پر بے عقیدتی کے مبلّغ تھے۱؎۔

شہرستانی۲؎ نے اس فرقے کے ارکان عقیدہ کو زیادہ فلسفانہ انداز میں بیان کیاہے۔ اس کے برعکس محسن فانی نے دبستان میں ان کی ایک قدرے خوش آئند تصویر پیش کی ہے،  جس کے نقش ونگلراس نے فرقے کے افراد سے اخذ کئے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ نویری۔ژورنال ایشیا ٹیک (Journal Asiartique) جلد اوّل صفحہ 298

۲؎ شہرستانی حصہ اوّل،صفحہ 398

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن اگر دونوں کا بامعان نظر مطالعہ کیا جائے توحقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ عبداللہ ابن میمون مادّہ پرست بھی تھا اور خدا پرست بھی او رمانی کی طرح اس کی یہ دلی آرزو تھی کہ ایک ایسا طبیعی مذہب ایجاد کرے جس میں مختلف مذہبوں کی اچھی باتیں جمع ہوں اور فلسفے اور اثباتی دین کے باہمی تضاد کو مٹادے۔ اس کے پیروؤں کے جو مدارج تھے وہ صوفیوں کے مقامات سے مماثل تھے۔ میر خونداس کے بارے میں جو کچھ کہتا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ مصری فاطمیوں نے اپنے صوفیانہ عقائد زیادہ تر عبداللہ ابن میمون سے اخذ کیے۱؎۔

عبداللہ اہواز سے بصرہ گیا او روہا ں سے ملک شام میں،جہاں اس نے سالمیہ کے مقام پر سکونت اختیار کرلی۔ سیروسفر کے دوران میں اسے تابعین پال سے واسطہ پڑا اور ان سے اس نے بہت سے عقائد اکتساب کئے۔تابعین پال نے باز نطینیوں سے جو سبادلہ مدّتوں تک جاری رکھا او رانہیں اپنی تبلیغی کوششوں میں آخر الامر جو کامیابی ہوئی اسی کی بناء پر اس نے اپنا مذہبی منصوبہ تیار کیا۔ اس نے اپنے نظریوں کو کسی حد تک مانی اور کسی حد تک مسلم صوفیوں کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالا۔مانویت خود بنیادی طور پر ہمہ ادست کی ایک شکل تھی جس کے نقوش فیشا غور سی فلسفے، زرداشتیت اور عیسائیت سے مستعار لیے گئے تھے۔ عبداللہ کے پیروؤں کو اس بناء پرکہ وہ اثبانی دین کے احکام کے اندرونی معافی سے آگاہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں باطنیہ کا نام دیا گیا ہے۔یہی دعویٰ مانویوں او رپالیوں نے کیا ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ عبداللہ ابن میمون نے مادے کو غیر فانی کہا۔مزید بریں اس نے یہ اعلان کیا کہ”خدا اپنے شہود سے علیٰحدہ کوئی وجود نہیں رکھتا۔ اس کے بارے میں وثوق سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ موجود ہے یا غیر موجود،عالم کل ہے یا نہیں،کیونکہ اس کے بارے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ مصری فاطمی عام اسمٰعیلیوں سے ایک بات میں مختلف تھے۔ عام اسمٰعیلیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ ان کے آخری امام حضرت اسمٰعیل پردہ غیب سے چھپ گئے تھے او ران کا ظہور دوبارہ اس وقت ہوگا جب آسمانی بادشاہت جلوہ نما ہوگی۔ اس کے برخلاف مصری فاطمی یہ کہتے تھے کہ امام اسمٰعیل عبیداللہ المھدی او ران کے جانشینوں کی شکل میں ظاہر ہو چکے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں کوئی ایسی بات کہنا یہ کہنے کے مترادف ہے کہ وہ اپنی مخلوقات سے مشابہت رکھتا ہے۔ علّت العلل نے ایک امرواحد سے یعنی محض ایک عمل ارادی سے ایک ایسا اصول اوّل پیدا کیا جو ازل سے بطون میں مضمر تھا او رجس کا نام عقل ہے اور اس اصول اوّل نے ایک اصول ثانوی پیدا کیا جسے نفس کہتے ہیں او رجو پہلے اصول سے وہی رشتہ رکھتا ہے جو بیٹے کا باپ سے ہوتا ہے۔ اس اصول کی لازمی صفت زندگی ہے اسی طرح کہ جس عقل کی لازمی صفت علم ہے۔ دوسرے اصول نے پہلے تو قدیم الوجود مادّے کو شکل بخشی،جس کی لازمی صفت علم ہے۔دوسرے اصول نے پہلے تو قدیم الوجود مادّے کو شکل بخشی جس کی لازمی صفت انفعالیت ہے او راس کے بعد زمان ومکان،عناصر اربعہ،ثوابت وسّیار اور تمام اشیائے کائنات کو پیدا کیا۔ چونکہ اصول ثانی کے اندر اس بات کی ایک لامتناہی خواہش ہے کہ پہلے مکّون اصول کی سطح پر پہنچے،اس لیے اس نے اپنے آپ کو انسان کی شکل میں ہویداکیا۔تمام انسانی نفوس یا روحوں کا مقصد یہی ہے کہ اصول خلاّ ق یعنی عقل کی طرف صعود کریں۔ انبیاء اس اصول خلاّق کے مجسمے یا مظاہرہیں جن کامقصد یہ ہے کہ انسانوں کو مادّے سے مجاہد ہ کرنے میں مدد دیں۔ اس لیے انبیاء کو ناطق کہاجاتاہے۔ انبیاء سیّاروں کی طرح تعداد میں سات ہیں۔ دنیا ایک سلسلہ ادوار میں سے گزررہی ہے اور آخری دور میں قیامت کبریٰ واقع ہوگی، جب اثباتی دین اور قانون کے احکام منسوخ ہوجائیں گے کیونکہ گردش افلاک او راحکام دین کی تعمیل محض اس لیے ہے کہ روح کو کمال حاصل ہو، اور روح کا کمال اس میں ہے کہ عقل کادرجہ حاصل کرے اور واقعتہً اس میں ضم یا مدغم ہوجائے۔ قیامت کبریٰ میں سب چیزیں،کیا آسمان، کیا عناصر،کیا ذی حیات مخلوقات،تحلیل ہوکر وہ جائیں گی، زمین بدل جائے گی، آسمانوں کے طبق ایک کتاب کے اوراق کی طرح بند ہوجائیں گے،نیکی بدی سے علیٰحدہ ہوجائے گی، فرمانبردار بندے نافرما نبرداروں سے جدا ہوجائیں گے، حق نفس کُل میں او رباطل اپنے منبع یعنی شیطان میں ضم ہوجائے گا۔“ چنانچہ یوں (عبداللہ ابن میمون کے عقیدے کے مطابق) حرکت کے آغاز سے لے کہ اس کے اختتام تک پہلا مرحلہ (یعنی مبدأ) ہے او رحرکت یا عمل کے اختیام سے لے کر کمال کا کا درجہ ہے۱؎۔ او رتمام احکام دین وقانون کے لیے پیمانے ہیں جن سے وہ ناپے جاسکتے ہیں۔“۔۔۔۔۔ ”ہر حرف او رلفظ کے دومعانی ہوتے ہیں،کیونکہ ہر تنریل کی تاویل ہوتی ہے اور ہر مرئی چیز کا ایک مثنیٰ عالم غیب میں ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ کما تحرکت الافلاحی نجریک النفس والعقل والطبائع (باقی حاشیہ 498 پر ملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حق کاعلم عقل سے نہیں بلکہ رُشد وہدایت سے حاصل ہوا ہے۔“ عبداللہ ابن میمون کے شاگردوں نے اس کے نظریوں پر یہ اضافہ کیا کہ قیامت کے معنی ہیں امام کا ظہور اور ایک آسمانی سلطنت کاقیام جس میں تمام شرعی تکالیف رفع ہوجائیں گی۔ان کا عقیدہ ہے کہ مذہب میں ریاکاری مباح ہے،تمام احکام قرآنی کے ایک مخفی معنی ہیں،تدّین سنونِ ظاہری کی پابندی پر نہیں بلکہ باطنی جذبات و احساسات پر مشتمل ہے۔ ہر وہ چیز جو مُضر نہیں جائز ہے، روزہ داری امام کے راز کو محفوظ رکھنے کے سوا کچھ نہیں،زنا کاری کی جو ممانعت ہے اس میں یہ معنی مضمر ہیں کہ مرید کو اپنے مذہب کے اسرار فاش نہ کرنے چاہئیں۔زکوٰۃ کامطلب ہے امام معصوم کو اپنی آمدی کاعشر دینا۔ یہ نظام عقائد بہت سے مذاہب او رفلسفوں کی عجیب وغریب معجون ہے او راس کے اثرات قانون او راخلاق کے نقیص ہیں۔

عبداللہ ابن میمون نے شام میں مستقل سکونت اختیار کی جو عیسوی غنا سطیت کامرزبوم تھا۔ وہاں اس نے اپنے نظریوں کے خاکے میں اور رنگ بھرے اور حمدن ان کو اپنا ہم عقیدہ بنایا،جو قرمط کے نام سے اسلام کی تاریخ میں رُسوا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ صفحہ 497) کذ لک تحرکت التفوس والا شخاص بالشرائع تبحرہ یک النبی والرصی فی کل زماں دائراعلی سبعۃ حتی ینتھی الی الدود الاخیر وید خل زمان القیامۃ وتر تفع التکالیف وتضمعل السنن والشرائع۔وانما ھذہ الحرکات الفلکیۃ والسنن الشرعیۃ تبلغ النفس الی حال کما لھا یٰلوعنھا۔۔الی درجۃ العقل واتحاد ھابہ ووصولھا الی مرتبۃ فعداً وذلک ھوالقیامۃ الکبری فتخلّ تراکیب الا فلاک والعناھو والمرکباب وینشق السماء تتناثر الکوکب ونیدل الارض غیر الارض وتطوی السمارات کطی السجل لکتاب الموقوم فیہ ویحاسب الخلق و یتمیز الخیر عن الشر والمطیع عن العاصی ویتصد جزؤیات الحق بالنفس الکل وجزویات الباطل بالشیطان المبطل۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوگوں کو مرید بنانے کا جو طریقہ عبداللہ ابن میمون کے شاگردوں نے اختیار کیا وہ وہی پرانا مانوی طریقہ،یعنی مُبتدی کو شرانگیز سوالوں او رمُبہم جوابوں سے شک و تذبذب کے سمندر میں غوطے دینا۔ محسن فانی کو جس داعی نے مطلع کیا اس کے کہنے کے مطابق اس عمل کا مقصد بُرانہ ہوتا تھا، بلکہ صرف یہ کہ ”جو یائے حق و حکمت کو منزل کمال تک پہنچایا جائے۱؎۔ مختلف اشخاص کے مذہبی نقطہ نگاہ کے مطابق اس عمل میں جزئی تبدیلیاں کی جاتی تھیں،داعی شروع شروع میں تو نومرید کے عقائد کو کسی اعتراض کے بغیر تسلیم کرلیتاتھا،لیکن اس کے بعد ا س کے دل میں شکوک وشبہات ڈال کر رفتہ رفتہ اس کے دماغ کو مذبذب کردیتا تھا او ر بالآخر اسے تمام مسائل کا حل باطنی عقائدکی صورت میں سُجھاتا تھا۔مثلاً اگر داعی کو کسی شیعہ کا مُرید بنانا منظور ہوتا تو وہ اپنے آپ کو اہل بیت کے ایک شیدائی کے روپ میں پیش کرتا۔ ان پرجو مظالم توڑے گئے،ان سے جو انصافیاں کی گئیں، امام حسین علیہ السلام کی شہادت،مقتبل کربلا کے واقعات وہ ان سب کی داستان دُہراتا۔ اس طرح زمین تیار کرکے وہ اپنے متعلم کے ذہن میں باطنیہ کے مخفی عقائد کا بیج بودیتا۔ اگر داعی کو کسی یہودی سے بابقہ پڑتا،تو وہ عیسائیوں او رمسلمانوں کی مذّمت کرتا او راپنے متعلّم سے مسیحائے موعود کے مسئلے پراتّفاق کرکے تبدریج اسے اس بات کا یقین دلاتا کہ یہ مسیحائے موعود امام اسمٰعیل کے سوا اور کوئی نہ ہوسکتا تھا۔ اگر اس کا مقصد کسی عیسائی کو اپنے فرقے میں داخل کرنا ہوتا تو یہ یہودیوں کی ہٹ دھرمی او رمسلمانوں کی جہالت پرلمبی چوڑی تقریریں کرتا اور دین عیسوی کے تمام ایمانیات کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتا، لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ اشارہ کرتا کہ وہ محض مجازی ہیں اور ان کے عمیق تر معافی تک رسائی صرف باطنی نظام کے وسیلے سے ممکن ہے۔ متبدی کو اس طرح شیشے میں اتارنے کے بعد وہ اسے یہ سُجھاتا کہ عیسائیوں نے فارقلیط کے نظریئے کا مطلب غلط سمجھا ہے اور حقیقی فارقلیط اسمٰعیل امام ہے۲؎۔ عبداللہ ابن میمون نے تقّیہ کا مطلب بھی متّعین کیا، یعنی کسی غیر مذہب کے عقائد و سُنن کی ظاہری پابندی۔ یہ نظریہ تمام مانوی فرقوں میں رائج رہا تھا اور تابعین پال بھی اس سے مستثنیٰ نہ تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ دبستان۔صفحہ 356

۲؎ مانی خود فاقلیط ہونے کا مدّعی تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عبداللہ ابن میمون نے اسے دو مقاصد کو پیش نظر رکھ کر ازسرنو رائج کیا: ایک تو مذہبی تشدّد سے بچنے کی خاطر اور دوسرے لوگوں کو باطنیہ فرقے میں داخل کرنے کے کام کو آسان بنانے کی خاطر۔ تقیہ زبردستوں کے خلاف کمزوروں کا قدرتی دفاعی حربہ ہے۔ہرشخص میں شہید بننے کی ہمت نہیں ہوتی،چنانچہ اکثر لوگ جب مقابلے سے عاجز آجاتے ہیں تو اطاعت قبول کرلیتے ہیں۔ ابتدائی عیسائیوں کو تقیہ پرکاربند ہونا پڑا۔ جہاں تک باطنیوں کا تعلق ہے ان کے لیے تو خاص طور پر ضروری تھا کہ عبّاسی خلافت کے زیرنگیں تمام ملکوں میں اپنے اصلی عقائد کو چھپائیں۔چنانچہ یہ پُرانی عادت ہوتے ہوتے فطرتِ ثانیہ بن گئی۔ ان سے شیعوں نے تقیہ کا عقاعدہ سیکھا۔ جب تک ایران اور ترکیہ میں دوستانہ تعلقات قائم نہیں ہوئے کوئی شیعہ سُنّی رسوم کی پابندی کے بغیر حج کرنے کا مجاز نہ تھا۔ چنانچہ جو شیعہ مقدّ س مقامات کی زیارت کا خواہشمند ہوتا اس کے لیے تقیہ ایک امر مجبوری تھا۔ لیکن تقیہ،جوجبرد تشدّد او رخوف کی قدرتی پیداوار ہے،ایرانیوں کی طبیعت میں اس طرح رچ گیا ہے کہ وہ ایسے حالات میں بھی اس پرعمل کرتے ہیں جن میں اس کی ضرورت نہیں ہوتی۔عموماً وہ دوسرے مذاہب کے پیروؤں کے احساسات و جذبات کو صدمہ نہ پہنچانے کی خاطر اس پر عمل کرتے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح آج کل کے پروٹسٹنٹ کیتھولک ملکوں میں رومی رسوم کا ظاہری احترام کرتے ہیں۔

حمدان نے (جس کادوسرا نام،جیسا کہ ہم اوپر کہہ آئے ہیں،قرمط تھا)اپنے پیرومرشد سے علیٰحدہ ہوکر اپنا ایک نیا فرقہ قائم کیا۔ عبداللہ ابن میمون نے تبلیغی کام میں جبراور قوت کے استعمال کو پسند نہ کیا تھا۔ قرمط نے اسے اپنے فرقے کا بنیادی رُکن بنایا۔ ممکن ہے کہ کائروسیر کی طرح وہ بھی متعصب لوگوں کی زیاتیوں کے ہاتھوں ایسا کرنے پر مجبور ہوا۔اس نے العشا او رالبحرین میں بغاوت کھڑی کی۔خلیفہ کی فوجوں کی کمزوری کی بدولت اسے فتح نصیب ہوئی۔ اس پردہ اپنے پیروؤں کی ایک کثیر تعداد جمع کر کے البحرین سے نکل کرکھڑا ہوااور کاٹر وسیر کی طرح قتل و غارت کرتا ہوا آگے بڑھتا چلا گیا۔ قرمطیوں کے البحرین اور العشا میں جو قلعے تھے ان میں قلعہ بند ہوکر انہوں نے ایک صدی تک خلفا ئے بغداد کے ساتھ ایک خونیں جنگ جاری رکھی۔ اور مقامات کا توذکر ہی کیا، انہوں نے مکّہ کوبھی تاخت وتاراج کی او رعہدابراہیمی کی یادگار سنگ اسود کوبھی اٹھاکرلے گئے۔ یہ بے ادبی انہوں نے اپنے ہم مشرب پالیوں (Paulicians) کی تقلید میں کی جنہوں نے ایفیسس میں لوٹ مار مچائی تھی،یوحنّا ولی کے مزار کو مسمار کردیا تھا او ران کے گرِ جا کو گھوڑوں او رگدھوں کا اصطبل بنادیا تھا۔آخر کار خلیفہ معتضد باللہ نے قرامط کاقلع قمع کیا۔

قرامطہ کی بیخ کنی کے بعد اسمٰعیلیت حُکماً ممنوع ہوگئی اور اس کے نام لیوا چُن چُن کر مارے گئے۔جب تک عبیداللہ المہدی نے افریقہ کو عبّاسیوں سے فتح نہ کیا اس وقت تک اسمٰعیلی فرقہ جہاں جہاں بھی تھا روپوش رہا۔

فاطمیان مصر علم وادب اور سائنس کے بڑے سرپرست تھے لیکن اپنی رعایا میں اشاعت علم کے ساتھ ساتھ وہ ان سیاسی فوائد سے بھی غافل نہ رہے جو انہیں عبداللہ میمون کی شروع کی ہوئی تبلیغ سے پہنچ سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے مقاصد کی خاطر اس کے باطنی اورمانوی عقائد کو کسی حد تک اپنا لیا۔ انہوں نے کالج، کتب خانے اور دارالحکمت (سائنس کے دارلعلوم) قائم کئے،انہیں فّیاضیانہ پیمانے پر کتابیں اور آلات ریاضی مہیا کئے اور کثیر التعداد معلّم ان میں درس دینے کے لیے مقّرر کئے۔ کتب خانوں میں جو نادر علمی وادبی کتابیں تھیں ان تک ہر خاص وعام کی رسائی تھی اورہرکوئی کاغذ قلم دوات مفت استعمال کرسکتا تھا۱؎۔ خلیفہ آئے دن مجالس مباحثہ منعقد کرناتھا، جن میں ان درس گاہوں کے مختلف شعبوں کے معلّم،منطقی، ریاضیات دان، مقنّن،طبیب،خلعتیں پہنے ہوئے شامل ہوتے تھے۔ انگلشتان کی یونیورسٹیوں میں آج تک جو گون پہنے جاتے ہیں ان میں عربی خلعت یا کفتان کی وضع قطع باقی ہے۔

معلّموں او دوسرے منصب داروں کی تنخواہ کے لیے،درس وتدریس کے لوازم کے لیے اور سائنسی تعلیم کے آلات او رنمونوں کے لیے ان اداروں کو دولاکھ سنتاون ہزار طلائی سکّے سالانہ عطا ہوتے تھے، جونہایت احتیاط سے لگائے ہوئے محاصل کے ذریعے جمع کئے جاتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ مقریزی Chrestomathie Arabe (De Sacy). vol. I. p. 158

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان اداروں میں علم انسانی کے تمام شعبوں کی تعلیم دی جاتی تھی۔ مرکزی دارالحکمت کے ساتھ ایک بہت بڑی جلسہ گاہ ملحق تھی، جس میں اسمٰعیلی مسلک کے باطنی نظریوں کے طالبان علم کو ارکان عقیدہ کی تعلیم دی جاتی تھی ہفتے میں دوبار یعنی پیر اور بدھ کے دن داعی الدّعاۃ مجلسیں منعقد کرتاتھا، جن میں مرد اور عورتیں سفید لباس پہنے ہوئے اورعلیٰحدہ علیٰحدہ بیٹھے ہوئے شرکت کرتے تھے۔ ان مجلسوں کو مجالس الحکمۃ کہتے تھے۔ رسم داخلہ سے پہلے داعی الدّعاۃ خلیفہ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اسے وہ خطبہ سناتا تھا جو اس نے متبدیوں کے سامنے پڑھنے کے لیے لکھا ہوتا۔ خلیفہ خطبہ سننے کے بعد مسودے کے لفافے پر اپنے دستخط کرتا۱؎۔ خطبے کے بعد شاگرد داعی الدّعاۃ کی ہاتھوں کو بوسہ دیتے اور دستخط شاہی کو پیشانی سے لگاتے۔اس جلسہ گاہ میں محرمی کے مختلف مدارج کی جو کیفیت مقریزی نے بیان کی ہے و فری میسزی کی ایک بیش بہا روداد ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ قاہرہ کی جلسہ گاہ ان تمام لوجوں (Lodges) کا نمونہ بنی جو بعد میں عیسائی ممالک میں قائم کی گئیں۔ عبداللہ ابن میمون نے محرمی کے سات درجے مقرر کئے تھے، وہ اس لیے کے سات ایک مقدس عدد تھا: سیّارے سات تھے، ہفتے میں سات دین تھے اور اماموں کی تعداد سات تھی۔قاہرہ میں یہ ہواکہ مصرقدیم میں جو قاعدہ تھا کہ مندر کا سب سے بڑا پُجاری لوگوں کو مذہب کے اسرار بناتا تھا وہ مانوی رسوم پر عائد ہوگیا۔ چنانچہ وہاں درجوں کی تعداد نوہوگئی۲؎۔ سب سے مشکل درجہ پہلا درجہ تھا اور اس میں مبتدی کے ذہن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ مقّری

۲؎ محرمی کے مختلف مرحلوں کی ایک نہایت عمدہ روداد ساسی (De Sacy) نے Journal Asiatique (جلد اوّل،صفحہ 298) میں دی ہے۔متبدی کو پہلے درجے کا حلف اٹھانے کی ترغیب دلانے کی خاطر اس کے دماغ کو شکوک وشبہات سے مذبذب کردیا جاتا تھا۔اثباتی مذہب اور عقل کے درمیان جو تضادات تھے انہیں بیان کیا جاتاتھا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی جتایا جاتاتھا کہ ظاہری دلغوی مفہوم کے پس پردہ ایک زیادہ گہرا مطلب تھا۔ الفاظ محض چھلکے تھے اور مخفی مطلب اصلی مغز تھا۔ لیکن جب تک متبدی ایک غیر مشروط قسم نہ کھاتا(باقی حاشیہ 503 پر ملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کو سانچے میں ڈھالنے او راسے باطنی نظریئے پر اندھا دھند ایمان اور اس کی غیر مشروط اطاعت کی قسم اٹھانے پر آمادہ کرنے کے لیے بڑی مدت درکار ہوتی تھی۔ اس کے بعد معاملہ سیدھا سادہ ہوجاتاتھا: نومرُید سے رفتہ رفتہ سارے نظریئے تسلیم کر الیے جاتے تھے اور اسے فرقے کابول بالا کرنے کے عزم کا آلہئ کار بننے پر آمادہ کرلیا جاتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ صفحہ 502) اس وقت تک اس کی یہ خواہش کہ اسے مخفی مطلب سمجھا یا جائے پوری نہ کی جاتی تھی۔ جب وہ غیر مشروط قسم کھا لیتا تھا تو اسے دوسرے درجے میں داخل کردیا جاتاتھا۔ اس درجے میں اسے یہ تعلیم دی جاتی تھی کہ وہ خدا کے مقرّر کئے ہوئے اماموں پرایمان لائے،جو ہر قسم کے علم کا منبع تھے۔جب اس کا ایمان ان اماموں پر پختہ ہوجاتا تو تیسرے درجے کی تعلیم شروع ہوجاتی۔ اس میں اسے یہ بتایا جاتاتھا کہ اماموں کی تعداد سات سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔جس طرح خدانے ساتھ آسمان، سات زمینیں،سات سمندر، سات سیّارے،سات رنگ،سات سُر،سات دھاتیں بنائی ہیں، اسی طرح اس نے اپنے سات برگزیدہ ترین بندوں کو اپنے مکثوب امام بنا کر بھیجا ہے، یہ ہیں علیؓ، حسنؓ، حسینؓ، علی ثانیؓ، (زین العابدین)،محمد الباقر، جعفر الصادق او را ن کے بیٹے اسمٰعیل جو ساتویں اور آخری امام ہیں۔چوتھے درجے میں یہ تعلیم دی جاتی تھی کہ ابتدائے آفرینش سے سات ناطق آئے ہیں،جن میں کلام الٰہی مجسم تھا اور جن میں سے ہر ایک نے حکم ربی سے اپنے پیش رد کے نظریوں کو منسوخ کیا۔ ہرناطق کے ساتھ نائب تھے، جو ایک ناطق اور دوسرے ناطق کے درمیان یکے بعد دیگرے آئے۔ چونکہ انہوں نے اپنے آپ کو ظاہر نہ کیا اس لیے انہیں صامت کہا جاتا ہے۔سات ناطق یہ تھے:آدمؑ، نوحؑ، موسیٰؑ،محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اسمٰعیل ابن جعفر الصادق (یاامام زمان) ان کے سات نائب حسب ذیل تھے: شیت،شیم، اسمٰعیل ابن ابراہیم،ہارون،شمعون،علیؓ او رمحمد صلی اللہ علیہ وسلم ابن اسمٰعیل۔ہر ناطق کے ساتھ ایک صامت کو وابستہ کرنے کامقصد یہ تھا کہ ہادیوں او رنیبوں کو اس امر کی آزادی ہوکہ وہ جسے چاہیں اپنے وقت کا صامت نامزد کریں۔ پانچویں درجے کی تعلیم اس پر مشتمل تھی کہ دین حق کی اشاعت کے لیے ہر صامت کے ساتھ بارہ نقیب وابستہ تھے، کیونکہ سات کے بعد بارہ بس سے متبرک عدد ہے،چنانچہ بارہ بُرج ہیں بارہ مہینے ہیں اور بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے ہیں۔ چھٹے درجے میں مافویت کے اصول مبتدی کے دل میں جاگزیں کئے جاتے تھے او رجب تک وہ ان کی حکمت کو پوری طرح تسلیم نہ (باقی حاشیہ صفحہ504پرملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مہدیہ اور اس کے بعد قاہرہ کی مجلس گاہیں اس طرح ایک وسیع اور دور رس سیاسی پروپیگنڈہ کے مرکز بن گئیں۔ لیکن جن نظریوں پر وہ کار بند تھیں ان کاعلم صرف معدودے چند لوگوں کو ہوتاتھا، الیوسس۱؎ (Eleusis) کی پرُ اسرار رسوم ٹیپلروں ۲؎ (The Templars) الیومیناتی۳؎ (The Illuminati) اور فرانس کے انقلابیوں کے مخفی نظریوں کی طرح باطنی نظریئے صرف چیدہ چیدہ اور آزمودہ افراد کو کُلّی یا جزئی طور پر بتائے جاتے تھے:کُلّی طور پر صرف ایسے لوگوں کو جنہیں دشمنوں کی طاقت کو کمزور کرنے کی خاطر استعمال کرنا منظور ہوتا تھا۔ عوام اور نامحرموں کے لیے سرکاری مذہب اسلام تھا، اور اسلام کے اخلاقی احکام او رشرعی حدود کی نہایت سخت گیری سے پابندی کرائی جاتی تھی۔ بیشتر خلفاء جن میں معزخاص طور پر ممتاز تھا، بڑے متدین و متقی اور پابند شریعت تھے۴؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ صفحہ 503) کرتاتھا اس وقت تک اسے ساتویں درجے میں داخل نہ کیا جاتا تھا،جہاں وہ فلسفے سے تجاوز کرکے تصّوف کی اقلیم میں قدم رکھتا تھا۔ ساتویں درجے سے گزرنے کے بعد وہ عارفین کے زُمرے میں شامل ہوجاتا تھا۔ آٹھویں درجے میں وہ اثباتی دین کی تکالیف شرعی کی بیڑیاں اپنے پاؤں پر سے اُتار پھینکتا تھا۔پردہ اس کی آنکھوں کے آگے سے اٹھ جاتا تھا او راس کے بعد وہ چونکہ خود پاک وصاف ہوتا تھا اس لیے ہر چیز اس کے لیے پاک و صاف ہوتاتھی۔ ان نظریوں میں جو رجحان مُضمر ہے وہ بیان کی بہ نسبت تصّود کی مدد سے بہتر سمجھا جاسکتا تھا۔

۱؎ قدیم یونان کا ایک مقام جہاں ویمیتر دیوتا اور پرسیفونی دیوی کے اعزاز میں مخفی مذہبی رسوم ہرسال ادا کی جاتی تھیں۔(مترجم)

۲؎ فری مینسوں کی ایک جماعت

۳؎ عیسائیوں کاایک فرقہ جو خاص دماغی اور روحانی قوتوں کا مدعی ہے۔

۴؎ محسن فانی لکھتا ہے: ”ائمہ اسمٰعیلیہ مغرب ہمہ مقید بامور شرعی بووند“ کہا جاتاہے کہ قاہر ہ کا چھٹا فاطمی خلیفہ حاکم بامراللہ،جسے آج کل بھی دروزی (اسمٰعیلیوں کی ایک شاخ) خداکا اوتار تصّور کرتے ہیں، شقادت کا مجسمہ تھا۔ اس کی سیرت ایک عجیب وغریب اجتماع ضّدین تھی۔(باقی حاشیہ صفحہ 505پرملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ان کے ماتحت جو علمائے قانون اور حکام مملکت تھے وہ بھی دیندار او رپرہیزگار مسلم تھے۔ اس کے باوجوداس امر نے کہ ایک خفیہ جماعت پرُ اسرار طریقوں سے سلطنت کے کاموں میں دخل انداز ہورہی تھی۔ معاشرے کے تمام بند ڈھیلے کردیئے۔ خفیہ کارکنوں کی ریشمہ دوانیوں نے ایک طرف عبّاسیوں کی نگرانی کو توکمزور کردیا اور دوسری طرف نہ فاطمیوں کی گرفت کردائمی طور پر مضبوط بنایا۔ نہ ان کے اقتدار کو کوئی وسعت بخشی۔

فاطمیاں مصر کو مغربی اسمٰعیلیوں کا نام دیا جاتاہے۔ یہ نام انہیں ان اسمٰعیلیوں سے ممتاز کرتاہے جو حسن ابن صبّاح ہمیاری،المعروف بہ حسن صّباح کے پیروتھے۔۔۔ یہ حسن صّباح وہی ہے جو مغربی تاریخ میں فرقہ حشیشئین ۱؎ کے بانی کی حیثیت سے بدنام ہے لیکن جسے اس کے پیرو سیّد نا کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ اس کے پیروؤں کو اسمٰعیلیہ مشرقی یا الموتیہ یا ملاحدہئ کو ہستان کہاجاتاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ صفحہ 504) مقریزی کا خیال ہے۔اور غالباً یہ خیال صحیح ہے کہ اس کا دماغ ماؤف ہوچکا تھا۔ کبھی تو وہ پرلے درجے کا جابروظالم بن جاتاتھا او رکبھی ایک دانا اور خدا رس حکمران۔ اس نے اپنی قلمرد میں نسل ومذہب کے تمام امتیازات مٹادیئے،رہرووں کی حفاظت کی خاطر قاہرہ کے گلی کوچوں میں روشنیاں لگوادیں،پولیس کا نظام قائم کیا اور شدید جرائم کا انسداد کیا۔ حاکم بامراللہ کے بارے میں مزید بیان کے لیے ملاحظہ کیجئے،Short History of the Saracens،صفحہ 602 یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ آئی دن خوفناک (Ivin the Torrible) جو بالکل اسی طرح کا مجسمہ شیطنت تھا، اس کے زمانے کے عام درسی اسے ایک قابل او رمضبوط سیرت کا حکمران تصور کرتے تھے۔حقیقت یہ کہ گالیتسوں ماریا سفوتسا،(Galeazzo Maria Sforza) نے، صقیلہ کے نارمن سردار نے جواپنے مخالفوں کی آنتیں نکلوادیا کرتاتھا،پوپ پال اور پوپ الیگزانڈر ششم نے،انگلستان کے دوبادشاہوں، رچرڈ اور جان نے اور دوسرے لوگوں نے جو ظلم وستم کئے،ان سے ظاہرہوتا ہے کہ جب غیر ذمہ دار قوت او رایک شقی فطرت یکجا ہوجائیں تو ملک ومذہب کے امتیاز کے بغیر نتیجہ ایک ہی سا ہوتا ہے۔

۱؎ سلولیستروساسی (Gyleestre de sacy) کا خیال ہے کہ یہ نام حشیش (بھنگ) ماخوذ ہے جو حسن صبّاح کے پیرونشے (باقی حاشیہ صفحہ 506 پر ملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حسن ایک شیعہ عالم کا بیٹا تھا جو جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے،عربی النسب تھا اور ایران کے شہر خُوے میں رہتاتھا حسن کو بچین میں اس وقت کے تمام علوم متدادلہ کی باقاعدہ تعلیم دی گئی تھی۔کہاجاتاہے کہ وہ نظام الملک (جو بعد میں بلامشرق کے دوعظیم سلجوقی بادشاہوں،یعنی الپ ارسلان او ر ملک شاہ کا مشہور وزیربنا) او رنامور صوفی شاعر عمر خیام کا ہم مکتب تھا۔لیکن یہ روایت اب معتبر نہیں رہی۱؎۔ ملک شاہ کے دربار میں اپنے عزائم ترقی پورے نہ ہوتے دیکھ کرقاہرہ پہنچا او ردربار خلافت میں حاضر ہوا۔قاہرہ میں وہ اسمٰعیلی تعلیم کے سارے مدارج طے کر کے محرمان اسرار میں داخل ہوا۔ایران اس وقت سنی شدید العقیدگی کے نہایت کڑے بندھنوں میں جکڑ ہواتھا۔کیونکہ سلجوقی سلاطین ٹھیٹھ اشعریّت کے پکے حامی تھے۔ حسن افریقہ سے ایشیاواپس آیا اور کسی حد تک زور زبردستی او رکسی حد تک چالاکی و عیاری سے ایک ناقابل تسخیر قلعے کا مالک بن گیا جسے قدیم فارسی یا پہلو ی میں الموت ۲؎ (یعنی عقاب کا نشیمن) کہتے تھے او رجو شمالی ایران کے پہاڑوں کی ایک نہایت دشوار رخل بلندی پر واقع تھا۔ 35سالوں تک وہ اس قلعے پر قابض رہا اوراس ساری مدت کے دوران اس نے تہدید و تخویف کے ایک باضابطہ بند نظام کے ذریعے ایشیا،افریقہ او رمشرقی یورپ میں تہلکہ مچائے رکھا۳؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ صفحہ 505) کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ او ریہ آج کل عموماً تسلیم کیا جاتاہے۔ ملاحظہ کیجئے تاریخ ادبیات ایرین از پروفیسر براؤن،جلد دوم۔محسن فانی حسن صبّاح کا ذکر ذیل کے تمہیدی الفاظ سے شروع کرتا ہے:۔ چوں احوال اور تواریخ باقلام تعصب نگارش یافتہ لاجرم بہ تحریر آن چنانچہ نزد اسمٰعیلیہ است مبادرست می نماید۔

۱؎ پروفیسر براؤن کی تاریخ ادبیات،ایران۔جلد دوم۔

۲؎ ”قلعہ الموت یعنی آن آشیانہ حقابست“۔وصاف۔

۳؎ واز قتل ولتہک ونہک وفتک ملاحدہ امن وامان ازمیان مسلمانان مرفوع شد“۔ وصّاف۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اس کے فدائی تلوار کا جوابن خنجر سے او رظلم کا جواب قتل سے دیتے تھے۔ وہ خود احکام شرعی کا سخت پابند تھا اور اپنی قلمرد کی حدود میں میخواری اور رقص وسرود کی اجازت نہ دیتا تھا۔ اس کی باطنیت مغربی اسمٰعیلیوں کی باطنیت سے مختلف معلوم ہوتی ہے۔شہرستانی او رمحسن فانی نے اس کے عقائد کو تفصیل سے بیان کیاہے لیکن دونوں اس کا ذکر قدرے خوف کے ساتھ کرتے ہیں جس سے نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ وہ اس کے فدائیوں کے خنجروں سے غافل نہ تھے۱؎۔ اس کے نظریوں کے صوفیانہ پہلو سے قطع نظر کرکے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نے محرومی کے صرف چار درجے مقرر کیے۔پہلے تین درجوں کو عبور کرنے والوں کو علی الترتیب فدائی،رفیق اور داعی کہا جاتاتھا۔حسن اس ادارے کا پہلا آقا ئے اعظم تھا،اگرچہ وہ رسمی طور پر خلفائے مصر کا مطیع تھا،الموت کے چوتھے آقا ئے اعظم حسن بن محمد نے اپنے مقاصد کے تکمیل کی خاطر قاہرہ کے خلیفہ مستنصر باللہ کے بیٹے نزار سے اپنا سلسلہ نسب جوڑتا تھا، تمام شرعی احکام کو منسوخ کردیا۔ اس کا دعویٰ یہ تھا کہ قیامت آچکی تھی،امام کا ظہور اس کی ذات میں ہوچکا تھا او رآسمانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ امام فخر الدین رازی کے بارے میں ذیل کی حکایت سے ثابت ہوتاہے کہ ان کا خوف بے سبب نہ تھا۔ امام رازی اپنے آبائی شہر میں اصول فقہ کا درس دیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ انہوں نے درس کے دوران اسمٰعیلیوں کی مذمت کی۔ اس جسارت کی خبرالموت پہنچی۔چنانچہ فی الفورایک فدائی اس غیر محتاط مدرس کی عقل درست کرنے پر مامور کیا گیا۔ فدائی رے آکر امام صاحب کے شاگردوں میں داخل ہوگیا۔ سات مہینوں تک وہ اپنا منصوبہ پورا کرنے کے موقعہ کو منتظر رہا۔آخر کار ایک دن اس نے امام صاحب کو اپنے حُجرے میں تنہا پایا۔ یہ دیکھتے ہی اس نے حجرے میں گھس کر دروازہ بندکردیا او رامام صاحب کو فرش پرپچھاڑ کر خنجر ان کے گلے پر رکھ دیا۔ امام صاحب نے خوف زدہ ہوکر پوچھا”مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہو؟“فدائی نے جوا ب دیا”اس لیے کہ تم نے اسمٰعیلیوں کو بُرا بھلاکہا ہے۔“ امام صاحب نے وعدہ کیا کہ پھر کبھی اسمٰعیلی برادری کو بُرائی نہ کریں گے۔فدائی نے یہ وعدہ اس شرط پرقبول کیا کہ امام صاحب فدائیوں کے آقا ئے اعظم یاکبیرالدّعاۃ Grand Master سے وظیفہ لینامنظور کریں اور ان کے نمک خوار بنیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سلطنت اخلاقی قوانین کے مکمل آزادی کو ساتھ لیے ہوئے نازل ہوچکی تھی۱؎۔ اس فاتر العقل انقلابی کو تاریخ الموت میں علیٰ ذکرہ السلام کے الفاظ سے نوازا گیا ہے(جنہیں بگاڑ کر ذکر السلام بنادیا گیا) اس وقت سے لے کر الموت کی تباہی تک ان حسنین کے مریدوں نے معاشرے سے ایک بے محاباجنت جاری رکھی،جس میں طرفین نے دشمن کو کسی قسم کی امان نہ دی۔ یہ لوگ دنیائے اسلام کے نہلسٹ(Nihilists) یعنی منکران مذہب واخلاق تھے۔ کیا مسلمان اور کیا عیسائی دونوں ان کے خنجروں کاشکارہوئے۔بالآخر ان پرہلاکونے حملہ کیا او ران کے کوہستانی قلعوں کو تباہ کرکے انہیں اطراف ملک میں تّتر بتّر کردیا جہاں چن چن کر نیست ونابود کئے گئے۲؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ حسن کی موت 508ھ میں واقع ہوئی۔ وصّاف ہلاکو کے وزیر اور جہانکشا کے مصنف جو ینی کے حوالے سے ان اسمٰعیلیوں کا تذکرہ ذیل کے تلخ،لیکن پھر بھی منصفانہ الفاظ میں کرتاہے:۔”چون امام غشوم بمنبر برآمد د چون مرغِ شوم بردرخت زقوم نشست وازتحمیدی فراخود معتقد مذموم فارغ شدہ م  ژدہ دار کہ ابواب رحمت بمنقاح ہدایت کشادہ است وقیات موعود منقودشدہ دقبیح بن مذّمم اعنیٰ حسن ابن محمد امام بحق وخلیفہ مطلق است ومولانا فاہاً بفہم ایشا نرا نجدای رسانید وانواع تکلیف برداشت وچون ازمنبر نزول کرد سماطِ عید گتردوآنر عید قیام خواندوبُشرب خمورد نشر لہو سرور اشتعال نموددابن رابا صطلاح بی استصلاح علیٰ ذکرہ السلام گفتذی۔“

۲؎ الموتیوں اور ان کے انسانیت سوز جرائم کی تفصیلی روداد کے لیے فان ہیمبر (Von Hammer) کی کتاب تاریخ حشیثیئسن، (History of the Assassins) دیکھئے جس کا ترجمہ انگریزی میں وڈ (wood) نے کیا ہے۔ اور تو اور،عیسائی حکمران بھی بسا اوقات اپنے دشمنوں کا خاتمہ کرنے کی خاطر الموتی قاتلوں سے کام لیتے تھے۔ انگلستان کے بادشاہ چرڈ نے موں فّراکے کونریڈ (Conrad of Montrerrat) کوالموت کے ایک فدائی کے ہاتھ سے مروایا۔ایک پوپ نے بھی ایک فدائی کو(باقی حاشیہ صفحہ 509 پرملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یورپ میں جو مذہبی اور غیر مذہبی خفیہ سوسائٹیاں قائم ہوئیں ان کا بنیادی تصور صلیبی مجاہدوں نے اسمٰعیلیوں سے اکتساب کیا۔ ٹمپلروں (Temlars) اور ہاشپیٹلروں (Hospitallers) کے ادارے،سوسائٹی آف جیزس (The Society of Jesus) جسے اجگنیشیش لویولا (Ignatius Loyola) نے قائم کیا او رجو ایسے لوگوں پر مشتمل تھی جن کے ایثار نفس اور حب دین پر سبقت لے جانا ہمارے زمانے میں ممکن معلوم نہیں ہوتا۔ خونخوار ڈومنیکین (Dominicans) اور مقابلتہً نرم خو فرانسسکن (Franciscan) ان سب کا ابتدائی نمونہ قاہرہ یا الموت میں ملتا ہے۔بالخصوص ٹائنس ٹمپلر (The Kinghts Templar) جن کے یہاں گرینڈ ماسٹروں، گرینڈ پرائروں،مذہبی شیدائیوں او رمدارج محری کا ایک باقاعدہ نظام پایا جاتاہے، مشرقی اسمٰعیلیوں سے بہت قریب کی مشابہت رکھتے ہیں۔مغربی اسمٰعیلیوں کے چھوٹے چھوٹے گروہ اب بھی یمن،مصر اور بربری میں پائے جاتے ہیں،جہاں ان میں اور عامۃ المسلمین میں تمیز کہلاتی ہے اور جو اصلی مشرقی اسمٰعیلیوں سے براہ راست تعلق رکھتی ہے۔ یہ لوگ دراصل ہندو تھے، لیکن گیارہویں یا بارہویں صدی عیسوی میں انہیں ایک داعی پیر صدرالدین نے فرقہ اسمٰعیلیہ میں داخل کیا۔اس کی تعلیمات کا ان کے اپنے مذہبی تصورات سے بہ آسانی جوڑ لگ گیا۔چنانچہ ہندو دھرم کی کچھ باتیں اسمٰعیلی نظریوں کے ڈھانچے میں جڑدی گئیں ۱؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ صفحہ 508) فریڈرک باربروسا (Frederick Barbarossa) کے قتل پر مامور کیا تھا لیکن وہ ناکام رہا۔الموت،رودبار اور دوسرے قلعوں کی بربادی کے بعد تاتاریوں نے الموتیوں کو بے دریغی سے تہ تیغ کیا۔

۱؎گلگت اور حنزہ کی پہاڑیوں میں بھی اسمٰعیلیوں کی جماعتیں پائی جاتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیسانیہ او رہاشمیہ دونوں نوعیت میں سیاسی تھے۔ لیکن ان پرمجوسیت کا رنگ چڑھا ہوا تھا۔ یہ دونوں فرقے اب معدوم ہوچکے ہیں اس لیے ان کا مزید ذکر غیر ضروری ہے۔

غالیہ یا غلاۃ (یعنی مبالغہ کرنے والے)جنہیں ابن خلدون اور شہرستانی نے شیعوں کا ایک فرقہ تصّور کیا ہے دراصل قدیم غناسطیوں کے جانشین ہیں جن کا اسلام صرف اس پر مشتمل ہے کہ انہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت علیؓ (بالخصوص حضرت علیؓ) کو حضرت عیسیٰ ؑ کا قائم مقام بنا دیا۔ اسلام میں ان کی وہی حیثیت ہے جو عیسائیت میں ڈوسیٹوں (Deocetes) یعنی روح پرستوں کی تھی۔نُصیری،جو حضرت علیؓ کی الوہیت کے معتقد ہیں، اسحاق،نعمانیہ،خطابیہ او رچند دوسرے فرقے جو تشبیہی ہیں یا اوتاروں کایاپلیٹ کو مانتے ہیں۔۔۔ سب کے سب انہی خیالات کی نمائندگی کرتے ہیں جو مارسیونائٹوں (The Marcionites) ”ولنٹینیوں،(The Valentinians) اور دوسرے روح پرست عیسائیوں میں رائج تھے۔ ان میں سے بعض نے عیسوی ثلیث کو تخمیس میں بدل دیا ہے۔ چنانچہ ان کا ایمان ہے کہ حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علیؓ،حضرت فاطمہؓ،حضرت حسن ؑ اور حضرت حسین ؑ (پنج تن پاک) ہے۔ کردستان کے پہاڑوں میں ایک سنی ولی۱؎ کو عقیدہ عوام میں وہی درجہ حاصل ہے جو غناسطیوں نے حضرت عیسیؑ کو دیا۔

روشنیہ جیسا کہ ان سے ظاہر ہے،عیسائیت کے الیومی ناتی (The Illuminati) کے مثنیٰ ہیں اکبر کے تخت ہندوستان پر بیٹھنے سے پہلے شورش،بدامنی او رکُشت وخون کا جو دور تھا اس دور میں اس فرقے کا ظہور افغانستان میں ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎شیخ عبدالقادر گیلانی۔ بعض سنّی ان کا اتنا احترام کرتے ہیں کہ پرستش میں تھوڑی ہی سی کسر رہ جاتی ہے۔وہ انہیں غوث اعظم،محبوب سُبحانی،قطب ربّانی کے القاب سے مُلقب کرتے ہیں۔ شیخ عبدالقادر ایک صوفی اور فاطموی النسب تھے۔ صوفیوں اور درویشوں کے زُمرے میں انہیں نہایت اونچا درجہ حاصل ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کا بانی بایزید ۱؎، جو افغانستان میں پیدا ہوا لیکن نسلاً عرب تھا،معلوم ہوتا ہے کہ بڑی فطرت قابلیت اور اعلیٰ درجے کی فطائیت کا آدمی تھا۔ عنفوان شباب ہی میں اسے ان اسمٰعیلیوں کی ہوالگ گئی جو خُراسان کے پہاڑی علاقوں میں ابھی تک زوروں پر تھے۔ شروع شروع میں اس نے جن عقائد کی تبلیغ کی وہ صوفیوں کے عقائد سے اساساً مختلف نہ تھے، لیکن رفتہ رفتہ وہ اسلامی ایمانیات کے راستے سے بھٹک گیا۔لیکن کسی خائرنگاہ طالب علم سے یہ مخفی نہ رہے گا کہ اس کی تعلیمات و رسوم فقیرو ں کی برادری کے مسلک سے ایک عجیب وغریب مشابہت رکھتے ہیں۔ وہ یہ پرچار کرتا تھا کہ خدا ہر جگہ موجود ہے،تمام اشیائے موجود اس کی مختلف صورتیں ہیں، پیر لوگ اس کی تجلی کے پرتوہین نیکی اور بدی کا واحد معیار یہ ہے کہ پیر کے دکھائے ہوئے راستے پر چلا جائے، شریعت کے تمام احکام میں صوفیانہ معانی مضمر ہیں اور وہ محض دین میں کمال حاصل کرنے کی خاطر صادر کئے گئے ہیں شریعت کے صوفیانہ معانی تک رسائی صرف عبادات و وظائف او رپیر کی ہدایت کے ذریعے ممکن ہے،ان معانی تک رسائی دینی کمال کا سرچشمہ ہے او رجب یہ کمال حاصل ہوئے تو شریعت کی تکالیف ظاہری واجب نہیں رہتیں بلکہ منسوخ ہوجاتی ہیں۔

باطنی،اسمٰعیلی او ران کے تمام متجانس فرقے مسلمانوں کی عام جماعت سے اس امر میں مختلف ہیں کہ ان کے نظریو ں کا بنیادی اصول ایمان ہے۔ اس معاملے میں وہ عیسائیت کے بیشتر اصلاح یافتہ کلیساؤں سے قریب کی مشابہت رکھتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ وہ بعد میں میاں روشن بایزید کے نام سے مشہور ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوتھر کی طرح ان کا عقیدہ یہ ہے کہ ایمان اصلی ذریعہ نجات ہے۔لُوتھر نے شدّو مدّ سے یہ کہا کہ حضرت عیسیٰؑ پرایمان تمام گناہگاروں کو گناہوں کی سزا بچانے کے لیے کافی ہے۔ اسمٰعیلیوں،باطینوں اور ان کی تمام شاخوں نے ایمان کو،یعنی ربانی امام پر پختہ یقین کو،اپنے مذہب کا رُکن رکین بنایا اگر کسی شخص کو ایمان کی سعادت حاصل ہو تو اس کے ظاہری اعمال کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔

اب ہم خالص شیعوں سے،یعنی ائمہ اہل بیت نبوی کے پیروؤں سے بحث کریں گے جنہیں عموماً اثنا عشریہ کا نام دیا جاتا ہے، اس مناسبت سے کہ وہ بارہ اماموں کو مانتے ہیں۔اثنا عشریہ کا عقیدہ ہے کہ منصوب من اللہ ائمہ کا سلسلہ حسب ذیل ہے:

1۔ حضرت علی مرتضیٰ،اسداللہ الغالب (متوفی 40ھ مطابق 661ء)

2۔حضرت حسن مجتبیٰ (متوفی 44ھ مطابق 664ء)

3۔ حضرت حسینؑ،شہیدکربلا(متوفی 60ھ مطابق 679ء)

4۔حضرت علی ثانی زین العابدین (متوفی 94 ھ مطابق 713ء)

5۔ حضرت محمد الباقر،جو ایک عالم فاضل اور زاہد کامل تھے (از 57ھ مطابق 674تا 113 ھ مطابق 731ء)

6۔حضرت جعفر الصّادق،جو امام محمد الباقر کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ ان کی پیدائش 80ھ مطابق 699ء میں بمقام مدینہ میں ہوئی۔ ایک عالم، ادیب اورمقنن کی حیثیت سے وہ مسلمانوں کے تمام فرقوں میں معزرد محترم ہیں۔ ان کا علمی فضیلت ان کے اوصاف حمیدہ اور ان کے صدق وصفا ئے سیرت نے دشمنان اہل بیت سے بھی خراج تحسین وصول کیا۔ انہوں نے بڑی عمر پائی او ران کی وفات مدینے میں 148ھ مطابق 765ء میں ہوئی۔اس وست عباسیوں کا دوسرا خلیفہ ابو جعفر المنصور مسند نشین تھا۔

7۔حضرت ابوالحسن موسی الکاظم،امام جعفر الصادق کے بیٹے۔انہیں زہد واتّقا ء کی بناء پرالعبدا لصالح کا خطاب دیا جاتاہے۔ وہ 129 ھ مطابق 47۔746 ء میں بمقام مدینہ پیدا ہوئے۔ان کی وفات 25رجب 183ھ مطابق یکم ستمبر 799ء میں بغداد کے قید خانے میں ہوئی جہاں انہیں خلیفہ ہارون نے جو اس احترام کی بناء پر جو انہیں حجاز میں حاصل تھا ان سے حسد کرتاتھا، کئی سالو ں سے قید کررکھا تھا۔ وساسی Desacy کہتا ہے کہ امام موسیٰ کو ہارون کے حکم سے خفیہ طور پر مار ڈالا گیا۔ ان کی مصیبتوں او ران کی نیک وپاک سیرت کے باعث تمام مسلمان انہیں عزیز رکھتے تھے۔کاظم کا لقب ان کے صبر تحمل کی طرف اشارہ کرتاہے۔

8۔ حضرت ابوالحسن علی الرضّا۔رضا کا لقب ان کی صفائے سیرت پردلالت کرتا ہے۔وہ صف اوّل کے عالم، شاعر اور فلسفی تھے۔ ان کی ولادت مدینے میں 153ھ مطابق 770ء اور وفات خراسان کے شہر طوس میں 202ھ مطابق 817ء میں ہوئی۔ ان کی بیوی امّ الفضل خلیفہ مامون کی بہن تھی۔

9۔حضرت ابوجعفر محمد الجواد التقی۔ ان کے القاب ان کی فیاضی اور پارسائی کے نشان وہ ہیں۔ وہ خلیفہ مامون کے بھتیجے تھے اور ان کی بیوی اُم الجیب مامون کی بیٹی تھی۔ مامون او ر اس کی جانشین معتصم دونوں ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔ ولادت 195ھ مطابق 811ء اوروفات 220ھ مطابق 835ء میں ہوئی۔

10۔ حضرت علیؓ رابع نقی (متوفی 260ھ مطابق 868ء)

11۔ حضرت ابومحمد الحسن ابن علی العسکری الہاوی۔عسکری انہیں اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ خلیفہ متوکل کے حکم سے سرمن رائی۱؎ کے مقام پر،جسے العسکر بھی کہتے تھے، ایک مدّت مدید تک نظر بندرہے۔ وہ زہدوتقویٰ میں ممتاز فضیلت اخلاقی کی وجہ سے ہر دلعزیز او رایک شاعر اور ادیب کی حیثیت سے نامور تھے۔ ان کی پیدائش 231ھ مطابق 46۔845ء میں بمقام مدینہ اور وفات 260ھ مطابق 874ء میں بمقام العسکر ہوئی۔کہا جاتاہے کہ انہیں متوکّل کے حکم سے زہر دیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ یہ مقام بغداد سے کئی دنوں کی مسافت پر تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

12۔ حضرت محمد المہدی (متوفی 265ھ مطابق 79۔874ء) شیعہ عقیدے کے مطابق یہ آخری امام پانچ برس کی عمر میں سرمن رائی کے ایک غار میں غائب ہوگئے۱؎۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ وہ اب تک زندہ ہیں اور وہ بڑی تمناؤں سے ان کے ظہور ثانی کے لیے چشم براہ ہیں تاکہ وہ آکر عالمی خلافت کو نئے سرے سے قائم اورنوع انسانی کا تزکیہ کریں۔ انہیں امام غائب،امام منتظر او رامام قائم کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۲؎۔

اثنا عشریہ،جنہیں بدرجہ اتم شیعہ یا امامیہ کہا جاتا ہے، دوذیلی فرقوں میں منقسم ہیں، یعنی اصولیہ اور اخباریہ (اصولوں کے پابند اور روایات کے پابند) جہاں تک امامت کے مسئلے کا اور امامت کے امام آخری تک پہنچنے کا تعلق ہے،ان دونوں میں کوئی فرق نہیں لیکن ان میں اس موضوع پر اختلاف ہے کہ مجتہدوں کی تشریحوں کو،جواپنے آپ کو اماموں کے نائب کہتے ہیں، کہاں تک مستند سمجھا جائے۔ اصول شیعہ یہ کہتے ہیں کہ شارحین قانون کو ہر گز یہ حق نہیں پہنچتا کہ انفرادی رائے کو مقید کریں۔ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ قانون شریعت بجائے خود پوری طرح صریح ومبین ہے اور ہر شخص کا فرض ہے کہ عقل وفکر انسانی کی ترقی کی روشنی میں خود اس کی تشریح کرے اور اس معاملے میں ایسے لوگوں کی رائے اپنا رہنما نہ بنائے جو خود اس کی طرح ناقص ہیں اور جن کا ذاتی فائدہ اس میں ہے کہ دنیا کو جہالت میں رکھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ اس المناک واقعے کی رُو داد کے لیے ملاحظہ کیجئے حصہ اوّل اور Short History of the Saracens, vol.I

۲؎  اور اس سے خاص طور پر کرسٹاڈیلفین فرقے(The Christadelphians) کامقابلہ کیجئے جس کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ دنیاوی سلطنت قائم کرنے کے لیے دوبارہ آئیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کی رائے میں آیات قرآنی کا مقصد ایہ نہ تھا کہمنشائے الہٰی کو مشکل الفہم الفاظ کے پردے میں چھپا رکھا جائے۔ ان کا رو ئے سخن پیغمبر کو وساطت سے نوع انسانی کی طرف تھا تاکہ وہ انہیں سمجھے او ران پرعمل کرے۔ جو احکام الہٰی پیغمبر کے ذریعے انسانوں کو دیئے گئے وہ کسی مُلاّ یا قانون دان کی تفسیر وتعبیر کے محتاج نہیں ہوسکتے۔ اس کے برعکس اخباری شیعہ مجتہدوں کی تفسیروں کو بے چوں وچرا مانتے ہیں اور ان پر اندھا دھند عمل کرتے ہیں۔

اصول نظریوں کے مطابق رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زبانی ارشادات احکام قرآنی کے ضمیمے ہیں اور ان کی فرضیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ کہاں تک تعلیمات قرآنی سے ہم آہنگ ہیں۔ چنانچہ ایسی حدیثیں جو قرآن کی ہدایات سے مطابقت نہیں رکھتیں موضوع تصور کی جاتی ہیں۔ ان کی تخریج مسلّمہ اصولوں کے مطابق کی جاتی ہے جو منطقی قاعدوں اور حتمی معلومات پرمبنی ہیں۔ ان قاعدوں نے معتزلہ کے یہاں ایک امتیازی وضع اختیار کر لی ہے اور ان کی مدد سے معتزلہ نے چند ایسی حدیثوں کو حدیث قدسی سے خارج کیا ہے جویوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کی گئی ہیں، لیکن آپ کی پختہ تعلیمات سے جیسے کہ ان کی تفسیروں و توضیح حکماء وفقہائے بیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے موافقت نہیں رکھتیں۔

اصولی شیعہ حدیثوں کو چار عنوانوں کے تحت تسلیم کرتے ہیں،یعنی (الف) صحیح، (ب)حسن،(ج) موثق اور (د) ضعیف حدیث صحیح وہ ہے جس کا سند کا سراغ قطعی طور پر ائمہ معصوم تک لگایا جاسکے، اور وہ بھی ایک امام عادل کی روایت کی بناء پر، جس کی دیانت کے بارے میں ارابا حدیث کا اجماع ہو۔ روایت عادلوں کے الگ لگاتار سلسلے سے ہم تک پہنچی ہو۔حدیث حسن وہ ہے جس کا سلسلہ حدیث صحیح کی طرح ائمہ معصوم تک پہنچتا ہے،لیکن کسی ایسے قابل احترام امام کی وساطت سے جس کے بارے میں مورخین اور ارباب سیرنے اگرچہ ثقہ اور عادل کے الفاظ استعمال نہ کٹے ہوں پھر بھی اسی قسم کے الفاظ میں اس کی تعریف کی ہو۔ حدیث موثق کسی ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کے راویوں کو مورخین نے ثقہ اور عادل تسلیم کیا ہے، لیکن ان میں سے بعض یا سب کے سب غیرامامیہ ہیں (یعنی شیعیان علیؓ میں سے نہیں) حدیث ضعیف کا نام کسی ایسی حدیث کو دیا جاتاہے جو مندرجہ ذیل بالاشرائط میں سے کسی شرط کوبھی پورا نہیں کرتی۔اصول صرف پہلی تین قسم کی حدیثوں کو قبول کرتے ہیں۔

صرف ایسی حدیثیں قابل قبول سمجھی جاتی ہیں جن کا سلسلہ روایت متواتر ہو۔ سلسلہ روایت کے متواتر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ کثیر التعداد لوگ ایک قرن سے لے کر دوسری قرن تک ایک ہی روایت کو دہراتے چلے آئے ہوں حتیٰ کہ کسی ایسے راوی کاسراغ مل جائے جو ائمہ معصوم میں سے ہو لیکن اس میں بھی یہ شرط ہے کہ ہر قرن میں راویوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ لوگوں کے درغگوئی میں اجماع کا احتمال نہ رہے۔ اگر راویوں کی تعداد کسی ایک قرن میں یا تمام قرنوں میں مجموعی طور پر اتنی زیادہ نہ ہوتو حدیث غیر معتبر سمجھی جاتی ہے۔ ایسی حدیثو ں کو علمائے حدیث کی اصطلاح میں اخبار الاحاد کہتے ہیں۔

قانون کی تشریح اور حدیثوں کے قبول،تعمیل اور تفسیر کے معاملے میں اصول اپنی ذاتی رائے پر اعتماد کرتے ہیں۔ اگر ان کی عقل یا ضمیر انہیں یہ بتائے کہ کسی مجتہد کی تفسیر الہامی شریعت یا فطری قانون یا عقل وعدل کے متناقص ہے تو وہ اپنے آپ کو اس کے ماننے پر مجبور نہیں سمجھتے۔اخباریوں نے حدیثوں کو جو کثیر تعداد کسی تنقیح یا اصول تفسیر پرکھنے کے بغیر قبول کرلی ہے وہ اس پر معتزض ہیں۔ یوں کہنا چاہئے کہ عیسائیت میں جو حیثیت براڈچرچ (The Broad Church) کی ہے وہی حیثیت اسلام میں یا کم ازکم شیعہ مذہب میں،اصولیوں کی ہے۔

صاحب دبستان کے قول کے مطابق اخباریوں کو وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ کلّیۃً اخبار یعنی احادیث پر اعتماد کرتے ہیں او راجتہاد کو رَدّکرتے ہیں،کیونکہ وہ اسے سنّت ائمہ کے نقیض سمجھتے ہیں۔رائج حدیثوں میں سے  جو بھی کسی امام یا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہیں وہ ان سب کو مسلم الثبوت تصور کرتے ہیں۔ کسی روایت کا حدیث کہلایا جانا ہی ان کے لیے کافی ہے۔ اس نام سے موسوم ہوتے ہی روایت ان کی نظروں میں فی نفسہ مستند ہوجاتی ہے۱؎۔ اور اس کی ضرورت نہیں رہتی کہ اس کے ماخذوں کی تحقیق وتدقیق کی جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ اسیو اولہ مقطعی سمجھتے ہیں۔یعنی ایسا حتمی فیصلہ جو استفسار (باقی حاشیہ صفحہ 517 پر ملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدیہی ہے کہ اس آسان قاعدے کے طفیل روایات و اقوال کی ایک بہت بڑی تعداد اسلامی تعلیمات میں مخلوط ہوگئی ہے،حالانکہ ان دونوں میں کوئی بات مشترک نہیں۔ قدیم عقائد ابھی تک لوگوں کے دلوں میں زندہ تھے۔ چنانچہ یہ ناممکن تھا کہ ایک قومی مذہب کے قائم ہوتے ہی پُرانے خیالات عود نہ کرآئیں او رنئی وضع قطع کے مقبول لباس پہن کر اپنے آپ کو ظاہر نہ کریں۔ گوبینوں (Gobineau) نے قدرے درشتی سے کام لے کرلیکن پھر بھی بجا طور پرانتہائی قسم کی اخباریت کو یہ الزام دیا ہے کہ اس نے اسلام کے عظیم بانی کو ہر مزد او راس کے اخلاف کو امشاسپند بنا ڈالا۔

اخباریت غیر تعلیم یافتہ لوگوں او رنیم تعلیم یافتہ ملّاؤں کا مرغوب مذہب ہے۔اصولیت ارباب علم ودانش ا ور علمائے دین کے فاضل ترین طبقے میں مقبول ہے۔ماضی قریب کے ان ممتاز ترین علماء میں جواصولیت کے حامی تھے ملّا صدرہ۱؎(محمد بن ابراہیم شیرازی) تھا جو غالباً اپنے زمانے کا فاضل ترین عالم او رمنطقی تھا۔ اس نے ایرانیوں میں فلسفے اور انسانیت سے تعلق رکھنے والے علوم کا احیائکیا۔ آل بویہ کے زوال سے صفویوں کے خروج تک ایران پر ایک نیم تاریکی سی چھائی ہوئی تھی۔ آبائیت نما قدامت پرستی نے فلسفے اور سائنس کو ممنوع قرار دے رکھا تھا۔بوعلی سینا کے نام تک سے لوگوں کو نفرت تھی اور اس کی تصنیفات سرعام نذر آتش کی گئیں۔ تنیجۃً قدرتی طور پر ان صدیوں میں بہت سی مزد کی روایات نے جو اسلامی بھیس میں تھیں غیر تعلیم یافتہ عوام میں مقبولیت حاصل کرلی تھی۔ حقیقی فاطمی ارباب علم زاویہ عزلت میں جا بیٹھے تھے او رملّاؤں کی ایک جماعت جو قومی تعصّبات سے مملو تھی اور جس کامقصد صرف لوگو ں کو جہالت کی تاریکی میں رکھنا تھا وجود میں آگئی تھی۔ چنانچہ ملّا صدرہ کوکٹّر ملاؤں کی ایک ایسی منڈلی کا مقابلہ کرنا پڑا جو اپنے حقوق کے تحفظ میں اتنی ہی مضبوط تھی جنتی عالم عیسائیت میں پادریوں کی جماعت تھی اور جو پادریوں کی طرح اپنے پاسبانی دین کے اجارے پرکسی حملے کی بھنک پاتے ہی چراغ پاہوجاتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ 516) سے بالاتر اورتنقید تنقیح سے بے نیاز ہے۔

۱؎ ملّا صدرہ شاہ عباس ثانی کے عہد حکومت میں تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن ملّا صدرہ کو استقلال او رموقع شناسی کا ملکہ عطا ہوا تھا۔چنانچہ وہ سب مخالفتوں پرغالب آکر فلسفے اور سائنس کے مطالعے کو دوبارہ زندہ کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس طرح اصولیت نے نئے سرے سے عروج پایا۔

اصولیت کا فلسفیانہ ہمزاد اعتزاال یقینا اسلام کا سب سے زیادہ عقلیت پسند اور وسیع الخیال مسلک ہے۔ اس کی فراخدلی او رفکر انسانی کے تمام پہلوؤں کے بارے میں کشادہ نظری،اس کی بلند حوصلہ جائیت اور اس کی عالی ظرفی یہ سب صفات اس امر کا نتیجہ ہیں کہ وہ حکمائے بیت النبی کے خیالات کا آئینہ دار ہے جو خودہادی اسلام کے خیالات کا پرتوتھے۔

وہ سیاسی فرقہ بندیاں جنہوں نے شیعوں میں اب تک پھوٹ ڈال رکھی تھی غائب ہورہی ہیں اور باقی تمام فرقے تیزی سے اثنا عشریہ میں مدغم ہو رہے ہیں۔ ایران،عرب،مغربی افریقہ اور ہندوستان کے بیشتر شیعے اسی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔چنانچہ اثنا عشریت تشیع کی مترادف بن گئی ہے۔

اخباریو ں کی طرح سنی بھی اپنے عقائد کی بنیاد پر حدیثوں کا کُلّیت پررکھتے ہیں لیکن وہ اس سے اس امر میں مختلف ہیں کہ وہ صرف ایسی حدیثوں کو قبول کرتے ہیں جو تنقیح کے چنداصولوں سے مشابہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ متعدد خلفاء اور اجماع اُمّت کے متفق علیہ فیصلے احکام دار شادات قرآنی کے ضمیمے اور تقریباً انہی کے برابر مستند ہیں۔

سنیو ں کے بہت سے ذیلی فرقے ہیں جو ایک دوسرے سے اعتقاد ات ونظریات میں اختلاف رکھتے ہیں۔ یہ اختلاف بسا اوقات باہمی پرخاش اور زیادتیوں کا باعث بنے ہیں۔بہر حال وہ اپنے عقائد ونظریات کے بنیادی اراکین کے بارے میں بڑی حد تک متفق ہیں اور ان اراکین کے چار مآخذ ہیں:۔

1۔ قرآن

2۔حدیث یا سنت (یعنی وہ روائیتں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہیں۔)

3۔ اجماع اُمت (یعنی متبعین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اتفاق رائے)

4۔ قیاس (یعنی انفرادی رائے)

حدیث میں یہ چیزیں شامل ہیں:۔

(الف) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال۔ارشادات وہدایات (سنّت قول)

(ب) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سکوت جس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو صحابہؓ نے جو کا م کئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خاموشی سے پسند یا ناپسند فرمایا(سنّت تقریری)

ان ضمنی ماخذوں سے جو قاعدے مستنبط کئے گئے ہیں ان کی حُجیّت اور سندیت کے مختلف مراتب ہیں۔ اگر یہ قاعدے یا منقول احکام شہرتِ عام رکھتے ہوں (یعنی احادیث متواترہ ہوں) تو وہ قطعی الثّبوت اور فیصلہ کن سمجھے جاتے ہیں۔اگر یہ صورت ہوکہ وہ لوگوں کی ایک بڑی اکثریت میں تو معروف ہیں لیکن شہرت کُلّی نہیں رکھتے تو انہیں احادیث مشہورہ کا نام او راحادیث متواترہ کے بعد کا درجہ دیا جاتاہے۔ ان دو اصناف حدیث کے مقابلے میں اخبار احاد کو،جن کی صحت جُدا جُدا فراد کو سند پر منحصر ہوتی ہے، بہت کم وقعت دی جاتی ہے۔ اس طرح ہر وہ حدیث جو معاصرین وصحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی ایک سے مروی ہو،قطع نظر اس سے کہ راوی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا نسبت تھی، مستند اور صحیح سمجھی جاتی ہے،البتہ ضروری ہے کہ چند شرائط جو شہادت شخصی کے جانچنے کے لیے وضع کی گئی ہیں پوری ہوجائیں۔ امت کی ترکیب میں اتفاق عمومی کا مفہوم مضمر ہے۔ شارع کے بنائے ہوئے تمام قوانین او رممتاز صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم،بالخصوص خلفائے راشدین نے دینی مسائل،امور مدن اور اوامرونواہی کے بارے میں جو تفسیر یں،تشریحیں او رفیصلے کئے وہ سب اس میں شامل ہیں۔

لیکن آٹھویں صدی عیسوی سے قوانین ونظریات کے یہ مآخذ تغافل کی نذر ہوگئے ہیں اور ہر فرقہ شریعت کی تفسیر او رنظریات کی تصریح کے معاملے میں اپنے اپنے اساتذہ فقہ وحدیث کی اندھا دھند اطاعت کرتاہے،اسے تقلید کہتے ہیں۔ جب تک کوئی شخص اکابر اساتذہ میں سے کسی ایک کی پیروی نہ کرے وہ صحیح العقیدہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔

سُنیوں کے چار اہم ترین مسلک یا فرقے ہیں ۱؎ جو اپنے اپنے بانی کے نام کی نسبت سے حنفی، شافعی، مالکی اورحنبلی کہلاتے ہیں۔

امام ابوحنیفہ۱؎ جن کے نام پر پہلے فرقے کا نام رکھا گیا، 80ھ میں، جب کہ عبدالملک ابن مروان مسند نشین خلافت تھا، پیدا ہوئے۔ انہوں نے شیعی دبستان فقہ میں تعلیم پائی،مبادیئ قانون امام جعفر صادق سے اکتساب کئے او رابوعبداللہ ابن المبارک او رحامد ابن سلیمان سے حدیثیں سنیں۔ابو حنفیہ اکثر اوقات امام جعفر صادق سے استفادہ کرتے تھے۔ اپنے آبائی شہرکوفہ میں واپس آکر پہلے کی طرح خاندان علومی کے پرُجوش اور زبردست حامی تو رہے لیکن انہوں نے شیعی دبستان فقہ سے قطع تعلق کرکے اپنا ایک نیادبستان قائم کیا جو شیعی عقائد سے بعض اہم مسائل میں بالکل مختلف ہے۔ لیکن پھر بھی دونوں کی تفسیر قانون اور خیالات و آراء میں اس قدر قریب کی مشابہت ہے کہ ابوحنیفہ کے شیعی دبستان سے کسب فیض کرنے کے بارے میں شبہ کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔انہوں نے قانون کی تشریح میں ذاتی رائے کو جو آزادی دی وہ یقینا فاطمی ائمہ فقہ کی آرا ء کا پرتو ہے۔امام ابوحنیفہ کے متبعین انہیں امام الاعظم کے لقب سے ملّقب کرتے ہیں۔ ان کی وفات 150 ھ میں ہوئی۔ان کی تعلیمات ہندی مسلمانوں،افغانوں،ترکمانوں،تقریباً سارے وسطی ایشیاء کے مسلمانوں،ترکوں اور مصریو ں میں رائج ہیں۔ ان کے پیرو دوسرے فرقوں کے پیروؤں سے تعداد میں کہیں زیادہ ہیں۔

دوسرے مسلک کے بانی امام ابوعبداللہ مالک بن انس تھے جنہوں نے ہارون الرشید کے عہد خلافت میں 179 میں وفات پائی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ انہیں مذاہب اربعہ کہتے ہیں۔

۲؎ ابوحنیفہ النّعمان ابن ثابت (از 699تا 767 ء)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام شافعی تیسرے مسلک کے بانی تھے۔ ان کی ولادت شام کے مقام غزہ پر امام ابو حنیفہ کے سال وفات میں ہوئی اور وفات مصر میں 204ھ میں، جب خلیفہ مامون حکمران تھا۔ وہ امام علی ابن موسیٰ الرّضا کے ہم عصر تھے۔ شافعی عقائد رعموماً شمالی افریقہ مصر کے ایک حصے،جنوبی عرب اور جزیرہ نمائے ملایا میں سیلون کے مسلمانوں میں رائج ہیں۔ بمبئی کو بوہرہ۱؎ جماعت میں بھی ان کے چند پیروپائے جاتے ہیں۔

چوتھے دبستان کی بنیاد امام ابن حنبلی نے رکھی۔ ان کا زمانہ حیات مامون اور معتصم باللہ کا دورِ خلافت تھا۔ یہ دونوں خلیفے معتزلی تھے۔امام ابن حنبل میں جوبے پناہ مذہبی جوش تھااس کے باعث ان کی ان دونوں خلیفوں سے نہ بنی۔ انہوں نے 241ھ میں وفات پائی۔ معتزلی عقائد کے ساری سلطنت میں پھیلانے میں مامون کو جوناکامی ہوئی او ا س کی جھنجھلاہٹ نے مسلمانوں کے خون کی جو ندیاں بہائیں ان کی ایک بڑی وجہ امام ابن حنبل کی مخالفت تھی۔

میں نے ایک اور جگہ ۲؎ مختلف سنّی فرقوں کے قانوی اختلافات تفصیلاً بیان کئے ہیں۔ ان کے نظری اختلافات میں آداب عبادت کی جزئیات بھی شامل ہیں،جن سے تفصیلی بحث اس کتاب میں، جوعام طلباء ک لیے ہے ضروری نہیں۔بہر حال اتنا بتادنیا بے محل نہ ہوگا کہ حنبلی نہایت بیّن طور پر تشبیہی تھے۔ ان کے نزدیک خدا ایک انسان،ناہستی تھا جو آسمان پر تخت نشین تھا۔دوسرے فرقوں کے یہاں یہ تصّور اقتضائے زمانہ اور قومی طبیعت کے مطابق متنوح شکلوں میں پایا جاتاتھا لیکن سب میں عنصر غالب تشبہیت تھا۔ اس میں شک نہیں کہ ان فرقوں میں سب سے زیادہ وسیع الخیال فرقہ حنفیہ تھا۔ اس کے برخلاف شافعیت اور مالکیّت دونوں اپنی ہمدردیوں اور خیالات میں تنگ اور محدود تھیں۔ مرورِ زمانہ کے ساتھ جیسے جیسے آمریت لوگوں کی عادات ورسوم پر مسلّط ہوتی گئی اور خلیفہ یا سلطان مقنّن یا فقیہ کی مداخلت کے بغیر ان کی قسمتوں کا مختار بنتا گیا، ملّا یانہ آبائیت تمام طبقوں کے دلوں پرقبضہ جماتی چلی گئی۔ آبائے کلیسا کے اعلانوں کی طرح آبائے فقہ اسلامی کے احکام نے قوانین کی حیثیت اختیار کرلی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ بمبئی کے بعض جوہرے شافعی ہیں او ربعض مصری قسم کے اسمٰعیلی۔

۲؎ Mubammaddan Law

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حنفی اپنے آپ کو اہل الّرائے والقیاس کہتے تھے اور ان کے حریف فرقو ں نے بھی انہیں یہی خطاب دیا۔ اس کے مقابلے میں دوسرے فرقے اہل الحدیث کہلاتے تھے۔لیکن مدت ہوئی کہ حنفی بھی امور شرعی یا نظری میں ذاتی رائے سے کام لینا ترک کر بیٹھے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ آبائے دین جو فیصلے کرگئے ان میں تصرف یا ان پر بحث کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔اسلام اسکیموؤں کے ملک میں جاتاہے تو جائے لیکن اسے اپنے ساتھ وہ سارے قاعدے قانون لے جانے ہوں گے جو عراقیوں کے لیے بنائے گئے تھے۔

آبا پرستی نے یو ں سنی حلقے کے اندر ترقی کی تمام امیدوں پرپانی پھیر دیاہے لیکن سنّی مذہب نے وحدت عقیدہ وعمل کو قائم رکھنے کی خاطر جو کوششیں کی ہیں وہ گزشتہ سو سالوں میں دو اندرونی بغاوتوں کا باعث ہوئی ہیں۔ وہابیت جس نے اُنیسویں صدی کے آغاز میں خروج کیا، صحرائے عرب سے اٹھی۔غیر مقلدیت،جو برسراقتدار مذہب کی سخت گیر فریسیّت سے راہ فرار ڈھونڈتی ہے،دل انسان کے اندرونی سرچشموں سے نکلی۔غیر مقلدوں کو وہابیوں کے ساتھ خلط کرکے ان سے نا انصافی کی گئی ہے۔ وہ بلاشک وشبہ تمام دوسرے سنی مسلکوں کے پیروؤں کے مقابلے میں زیادہ فلسفی مزاج او رعقلیت پسند ہوتے ہیں۔غیر مقلدیت تنگ نظر او رمحدود ضرور ہے لیکن پھر بھی وہ سنی مذہب کی واحد تحریک ہے جس کے مستقبل سے اُمیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔

وہ مباحثہ و یورپ میں ریفارمیشن (The Reformation) کاپیش خیمہ بنا حنفیوں میں شروع ہوگیا ہے اور یقینی ہے کہ بہت جلد مسلمانوں کے دوسرے فرقوں اور مسلکوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ کیا قرآن کے ترجمے عربی زبان کے قرآن کے مساوی رتبہ رکھتے ہیں؟ اگر کوئی شخص جو عربی سے بابلد ہے اپنی زبان میں نماز ادارکرے تو کیا اس کی نماز اتنی ہی مستحق ثواب ہوگی جتنی حجاز کی زبان میں اداکی ہوئی نماز؟۔۔یہ ہے نوعیت ان سوالوں کی جنہوں نے اس وقت ہندی مسلمانوں کے دلوں میں اضطراب پیدا کررکھا ہے۔ یہ مباحثہ کافی برہمی رنجشوں او رتلخ کلامیوں کا باعث ہوا ہے،یہاں تک کہ اس نے راسخ لعقیدہ علماء سے تکفیر کے فتوے بھی صادر کرائے ہیں۔ موجودہ مفادات کے محافظین ہر جدت پرجو اعتراض ہمیشہ کرتے چلے آئے ہیں اس کا جواب اصلاحی تحریک کے رہنما ذیل کے سوالوں کی صورت میں دیتے ہیں: کیا عربی واحد زبان ہے جسے اللہ تعالیٰ سمجھتا ہے؟ اگر ایسانہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس نماز کی تلقین او رابتداء کی اس کامقصد کیاہے؟ اگر اس کا مقصد عبادت گزار کو خدا کے قریب لانا اور اس میں صفائے قلب پیدا کرنا ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ عبادت گزار ایسے الفاظ کو جن کا مطلب وہ بالکل نہیں سمجھتا اناپ شناپ منمنا کر اپنی طبیعت میں وہ بلندی محسوس کرے جو عبادت سے پیدا ہونی چاہئے؟ استدلال سے آگے بڑھ کر وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال پیش کرتے ہیں جنہوں نے ایرانی نو مسلموں کو اپنی زبان میں نماز ادا کرنے کی اجازت دے دی تھی۱؎۔ یہ تحریک جس سے یورپ کے لوگ بھی ناآشنا ہیں، اپنے اندر نشوونما کے بڑے امکانات رکھتی ہے۔ یہ اسلام میں ریفارمیشن کی ابتداء ہے۔اب تک قرون وسطیٰ کے پادریوں کی طرح اسلام کے علمائے دین ایک ایسی زبان کاعلم رکھنے کی بدولت جس سے جمہور اورحکام دونوں نابلد ہیں چھائے رہے ہیں۔جس دن وہ اصول جس کی خاطر مصلحین سرگرم کار ہیں تسلیم ہوگیا اسی دن یہ ضروری ہوجائے گا کہ جو قوانین نویں اور دسویں صدی عیسوی میں ایسے لوگوں کے لیے بنائے گئے تھے جنہیں آج کل کی تہذیب وتمدن سے دورکا واسطہ بھی نہ تھا وہ ایک ہزار سالوں کی روشنی میں سمجھے اور سمجھائے جائیں۔

خارجیت کو کبھی کبھی سُنّی مذہب کی ایک شاخ سمجھا گیا ہے اگر چہ درحقیقت وہ سنی مذہب کے قیام سے بہت پہلے وجود میں آئی۔ جن سرکش لشکریوں نے حضرت علیؓ کو فتح صفّین کے جان جوکھوں سے کمائے ہوئے ثمر سے دست بردار ہونے پر مجبور کیا اور بعد میں نہردان کے مقام پران کے خلاف بغاوت کردی، خارجی کانام پہلے پہل ان کودیا گیا (خارجی کے معنی ہیں مفروریاباغی)۔شہرستانی نے اس شورش کی سرگزشت بڑی صراحت سے بیان کی ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اس پرمُصر تھے کہ خلیفہ حضرت علیؓ اور امیر معاویہ کے درمیان جو تنازعہ تھا اس کی تحکیم کرائی جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ اس کی تفصل اوپر آچکی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انہوں نے حضرت علیؓ کو اس پربھی مجبور کردیا تھا، کہ ابوموسیٰؑ اشعری کو خانوادہ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا نمائندہ مقرر کریں۔ اگرچہ حضرت علیؓ کادل گواہی نہ دیتا تھا کہ ابوموسیٰ اس کے لیے موزوں ہیں۔تحکیم کی شرائط طے ہوئی ہی تھیں کہ یہ سپاہی پیشہ ماہرین دینیات اسلام کے یہ متعتدین ایک دوسرے کے ساتھ اس بحث میں الجھ گئے کہ آیا کسی امر دیی کو انسانی فیصلے کا موضوع بناناجائز ہے یا نہیں مسلمانوں کو دشمنوں کی آنکھوں کے سامنے ایک دوسرے کا کشت وخون سے روکنے کی خاطر حضرت علیؓ اپنی فوج کے بیشتر حصے کو ساتھ لے کر عازم کوفہ ہوگئے اور تحکیم کے نتیجے کا انتظار کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا دستہ دومۃ لجندل میں چھوڑ گئے۔ باغیوں نے کوفہ پہنچتے ہی بارہ ہزار کی تعداد میں حضرت علیؓ کا ساتھ چھوڑدیا او رنہرو ان جاکر عساکر مملکت کے خلاف ایک خطرناک مورچہ قائم کیا۔ حضرت علیؓ کی طبیعت چونکہ خونریزی سے نفور تھی،اس لیے انہوں نے ان لوگوں کو بار بار تاکید کی جادہئ اطاعت پرلوٹ آئیں۔ اس کاجواب انہوں نے ان کے قتل کی دھمکی سے دیا۔ اب حضرت علیؓ کا پیمانہ تحمل لبریز ہوگیا۔ چنانچہ ان پر حملہ کردیا گیا اور انہیں دو لڑائیوں میں شکست دی گئی۔ شہرستانی کہتا ہے کہ چند باغی بچ بھاگ گئے اور بحرین جاکر،جو اسلام کے تمام شُتران بے مہارکی جائے پناہ تھا،انہوں نے اس خطّے کے غیر متمدن باشندوں میں اپنے فتنہ انگیز نظریئے پھیلائے۔ عبدالملک کے زمانے میں اضوں نے دوبارہ سر اٹھایا لیکن منہ کی کھاکر واپس چلے گئے اور احساء او ربحرین میں ان کے جو قلعے تھے ان میں گھس کر چھپ گئے۔ مردان ثانی کے عہد میں وہ پھر نکلے اور یمن،حجاز اور عراق میں پھیل گئے۔ ان پرحملے کئے گئے او ر انہیں شکست دے کر عمان میں پناہ لینے پر مجبور کیا گیا جہاں وہ آج تک آباد ہیں۔عباسیوں کے دور خلافت میں انہوں نے افریقہ کے بربروں میں اپنے نظریوں کی اشاعت کی او ربربروں سے خلفائے بغداد کے خلاف مکّرر بغاوتیں کرائیں خوارج کو اسلام کے کیلونسٹ (Caluinists) کہنا چاہئے۔ ان کے نظرئیے تاریک درشت،مسرت سے عاری اور تعصب سے مملو ہیں۔ وہ کٹر قسم کے جبریہ ہیں۔ وہ حضرت عمرؓ کے بعد کسی خلیفہ کی امامت کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اپنے سرداروں کو ائمہ برحق تصور کرتے ہیں۔جہاں دوسرے سُنّی امام کے لیے یہ لازمی قرار دیتے ہیں کہ وہ قریشی اور آزاد ہووہاں خارجی اسے ضروری نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک غیر قریشیوں او رغلاموں کو بھی خلیفہ منتخب ہونے کا حق ہے۔ شہرستانی خارجیوں کو چھ گروہوں میں تقسیم کرتاہے جن میں سب سے اہم یہ ہیں: ازارقہ (ابورشید نافع ابن ازرق کے پیرو) اباضیہ (عبداللہ ابن اباض کے پیرو جس کا خروج آخری اُموی خلیفہ مروان کے عہد میں ہوا) نجدۃ العاذویہ (نجدۃ ابن عامر کے پیرو عجاردہ (عبدالکریم بن عجرد کے پیرو) اور صفر بتہ الزّیا دیہ۔

ان فرقوں میں ازارِ قہ سرب سے بڑھ کر کٹّر،اکل کُھرے اور تنگ نظر ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ان کے سوا سب فرقے واصل بجہنم ہوں گے۔ اس لیے انہیں یا تو جبراً راہ راست پرلانا چاہئے یا نیست ونابود کردینا چاہئے۔ کسی مشرک کو زندہ نہ رہنے دینا چاہئے (مشرک کی اصلاح کو وہ بڑے وسیع معنوں میں استعمال کرتے ہیں او راس میں مسلمانوں،عیسائیوں اور یہودیوں سب کو شامل کرلیتے ہیں)۔تمام گناہوں کا ان کے نزدیک ایک ہی درجہ ہے۔ قتل، زنا،خمر،تماکو نوشی سب ان کے مذہب میں مستوجب عذاب ہیں۔جہاں دوسرے مسلمانوں کاعام اس سے کہ وہ سنی ہوں یا شیعہ،یہ عقیدہ ہے کہ ہر بچہ مسلمان بن کر دنیا میں آتا ہے۱؎۔ اور جب تک تعلیم اسے بگاڑ نہیں دیتی مسلمان ہی رہتا ہے وہاں ازرقی یہ کہتے ہیں کہ کافر کا بچہ کافر ہوتاہے۔جس طرح راسخ العقیدہ عیسائیوں کا یہ ایمان ہے کہ جس بچے کو بپتسمہ نہ دیا گیا ہووہ دوزخ میں جائے گا،اسی طرح خارجی یہ رائے رکھتے ہیں کہ جس بچے کو کلمہ نہ پڑھایا گیا ہو اس نجات نہیں ہوسکتی۔حجاج بن یوسف نے ازرقیوں کا قلع قمع تو کردیا لیکن ان کے سنگدلانہ نظریوں نے نوصدیوں کے بعد وہابیت کی صورت میں عود کیا۔

اباضیہ ازارقہ سے یقینا کم متعصب ہیں۔وہ زیادہ ترعمّان میں آباد ہوئے او رابھی تک مسقط میں پائے جاتے ہیں۔ازارقہ او ران کے بعد وہابی اباضیہ کے ساتھ برسرجدال رہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ کُلّ مولودیولدعلیٰ فطرۃ الاسلام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اباضیہ کے نزدیک حامۃ المسلمین مُلحد تو ہیں لیکن مشرک نہیں۔ اس لیے ان کے بیٹے بیٹیوں کے ساتھ نکاح جائز ہے۔اس امر میں اوربہت سے دوسرے امور میں ازارقہ سے اختلاف رکھتے ہیں۔ وہ اپنے فرقے کے لوگوں کے خلاف دوسرے مسلمانوں کی گواہی قبول کرتے ہیں او رحالت جنگ کے سوا دوسرے مسلمانوں کے مال پر قبضہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔جہاں تک کافروں کے بچوں کے کافر ہونے کا سوال ہے شہرستانی کہتا ہے کہ وہ اس بارے میں کوئی رائے ظاہر نہیں کرتے لیکن اصحاب کبار پر تبّرا بھیجنے کے معاملے میں و ہ ازارقہ سے متفق ہیں۔

اباضیہ اب تک عمّان پر قابض رہے ہیں۔ وہابیوں نے ان پر جورزبردست دباؤ ڈالا اس کے باوجود وہ مشرقی عرب کے ساحل پر اپنا اقتدار قائم رکھنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن وہ بڑی سرعت سے مسلمانوں کی عام جماعت میں مدغم ہوتے جارہے ہیں۔

مسٹر پیلگریو  Mr. Palgrave, in Central Arabia نے اپنی کتاب Travels میں وہابیوں کا نقشہ قدرے خوش آئند رنگوں میں کھینچا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ بلا واسطہ ان ازرقیوں کے جانشین ہیں جنہوں نے حجاز بن یوسف کے ہاتھوں شکست کھاکر وسطیٰ عرب میں پناہ لی۔محمد بن عبدالوہاب کے عقائد ونظریات نافع بن ازرق کے پیروؤں کے عقائد ونظریات سے نہایت قریب کی مشابہت رکھتے ہیں۔ ازرقیوں کی طرح وہابی بھی تمام دوسرے مسلمانو ں کو مشرک کہتے ہیں او ران کا مال لوٹنے اور انہیں غلام بنا لیتے ہیں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔آج کل کے مسلمانوں میں جو تشبیہہ پرستانہ رسوم رائج ہیں ان کے خلاف وہابیوں کی بغاوت چاہے کتنی ہے قابل تحسین ہوحقیقت یہ ہے کہ نجد ک اخوان کی طرح دین اور خدا کی حاکمیت کے بارے میں وہ جو عقائد رکھتے ہیں ان میں کیلون (Caluin) کے پیروؤں کے خیالات کی سی سختی ہے اور ترقی او رنشو ونما سے متصادم ہیں۔

بابیت انیسویں صدی کے اوائل میں ایران میں نمودار ہوئی۔ اسے بہت خوشگوار رنگوں میں بھی اور بہت ناخوشگوار رنگوں میں بھی پیش کیا گیا ہے۔ مسلم اہل الرائے کے نزدیک وہ مزدکیت یعنی ایک قسم کی مشرقی اجماعیت و اشتراکیت کے سوا کچھ بھی نہیں۔بابیوں کے یہاں مردوں اور عورتوں کی جو ملی جلی مجلسیں ہوتی ہیں انہیں انہی نگاہوں سے دیکھا گیاہے جن نگاہوں سے ابتدائی عیسائیوں کی عشقیہ ضیافتوں (Agapae) کو پرانے مذہبوں کے لوگ دیکھتے تھے۔ دوسری طرف ایک یورپی۱؎ عالم جو تحقیق او رفضیلت میں اونچا پایہ رکھتاہے اور جس نیبابیوں کی مذہبی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے او ران کے ساتھ دوستانہ میل جول رکھا ہے بابیت کے بارے میں کہتاہے کہ ایرانیوں کی سرشت میں جو وحدت الوجودی میلانات مضمر ہیں ان کے اندر سے خذماصفاودع ماکدر کا جو انقلاب ا بھر رہا ہے یہ اس کے تازہ ترین مظاہر میں سے ہے۔

یہی مصنف کہتا ہے کہ محمد شاہ۲؎ کے زمانہ حکومت میں ملاّؤں او رمذہبی عمال کی ریائی پارسائی او ربدکرداری اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ تغیّر ناگریز ہوگیا تھا۔ لوگوں کی سیاسی او رمعاشرتی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ ان حالات میں شیراز کے ایک ملّا،مرزاعلی محمد نے جو فاطمی خیال کیا جاتاہے او رجو بہت سا مطالعہ او ربہت سی سیروسیاحت کرچکاتھا، حج سے بھی مشرف ہوچکا تھا او رکافی مدت تک عرب او رشام میں بودوباش بھی کرچکا تھا، ایران میں معاشرتی اور اخلاقی اصلاح کی ایک تحریک شروع کی۔ اس نے عام ملّاؤں کے نمائشی زُہد کی مذّمت کی او رانہیں اس پر زجودتوبیخ کی کہ وہ نواہی ومکروہات کو مباح بنانے کی خاطر مشتبہ حدیثوں کو قبول کرتے ہیں۔ اس کی باتیں لوگوں کے دل کو لگیں او رانہوں نے جوش وخروش سے اس کے خیالات کاخیر مقدم کیا۔ بہت سے لوگ آکر اس کے مُرید ہوگئے جن میں قزدین کی ایک نوجوان عورت بھی تھی جس کی علمیت اور فصاحت و بلاغت اس کی تحریک کے حق میں ایک قومی پُشت پناہ ثابت ہوئی۔ اس نوجوان عورت کا نام قرۃ العین تھا۔ نہ جانے مُرید وں کی خوشامد نے مرزاعلی محمد کا دماغ خراب کردیا یا خود بخود اس کے دل میں تکبر پیدا ہوگیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎گوبینو (Gobineau)

۲؎ ایران کا تیسرا تا چار بادشاہ جو اپنے دادا فتح علی شاہ کی وفات پر تخت نشین ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہر حال ہوا یہ کہ اس پر ہمہ اوست کی دیوانگی کادورہ پڑا اور اس نے اپنے آپ کو باب حضرت علیٰ کے لقب سے ملقب کرکے جزوخدائی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کے پیروؤں نے دینی او رملکی ادنیٰ الامر کے خلاف مسلّح بغاوت کردی لیکن شکست کھائی۔ ملّاؤں کے تعصب اور سیاسی مصلحتوں نے مل کر بیخ کنی اور تشدد کی ایک ایسی مہم شروع کی جس کے لیے اور تو اور گربینو وبھی خود بابیوں کو قابل الزام ٹھہراتا ہے۔ باب اپنے بیشتر ممتاز مریدوں کے ہمراہ قتل کردیا گیا۔ لیکن اس کی تعلیمات زندہ رہیں۔ اس کے معاشرتی احکام گوبینوں کی رائے میں اس وقت کے مسلّمہ نظریوں سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ وہ نکاح کے رشتے کوبہت اہم سمجھتا تھا۔ چنانچہ جب تک پہلا نکاح قائم رہے اس وقت تک دوسری بیوی کی اجازت صرف چندشرائط کے ماتحت دیتاتھا۔ جاریہ بازی کو اس نے ایک قلم حرام قرار دیا،طلاق کی ممانعت کی او رعورتوں کو بے پردہ سرعام آنے جانے کی اجازت دی۔ پردے کی رسم، جیسا کہ گوبینوں منصفانہ طور پر کہتاہے، بڑی خرابیاں پیدا کرتی ہے او ربچوں کی ابتدائی تعلیم پر بہت مُضر اثر ڈالتی ہے یہ رسم کسی حکم دینی پرمبنی نہیں،بلکہ محض بغرض سہولت وجود میں آگئی ہے۔ایران پاستان کے بادشاہ اسے رعب جواب کی ایک نشانی سمجھ کر اس پر عمل کرتے تھے۔ مسلم بادشاہوں او رامیروں نے اسے ان کی تقلید میں اختیار کیا۔ عربوں کے یہاں قبائلی عورتیں پوری آزادی سے اندرباہر آتی جاتی ہیں۔ بیت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خواتین مطہرات صحابہ ؓ کے ساتھ ہمکلام ہوتی تھیں او ران سے گھر پر ملاقات کرتی تھیں،بلکہ بسااوقات مردو ں کے ساتھ کھانا کھاتی تھیں۔لہٰذا گوبینو کی رائے میں مرزا علی محمد نے عورتوں کو اس نقصان دہ دستور کے بندھنوں سے آزاد کرنے کی جو کوشش کی اس میں کوئی بدعت نہ تھی۔ اس کے مذہبی نظریئے اساسی طور پر وحدت الوجودی ہیں۔

جہاں تک اس کے اخلاقی ضابطے کاتعلق ہے،وہ ڈھیلا نہیں بلکہ بے حد کڑا ہے۱؎

بعض مسلم مصنفّین نے اسلامی فرقوں کو دو جامع گروہوں میں تقسیم کیا ہے،یعنی اہل باطن،جو احکام شریعت کے معنی کو دیکھتے ہیں او راہل ظاہر،جو محض ان کے لغوی معنوں پر انحصار کرتے ہیں۔ لیکن اہل باطن کوباطنیہ کے ساتھ خلط نہیں کرناچاہئے۔ اہل باطن کے گروہ میں صوفیہ منکلّین اور ارب فکر شامل ہیں، یعنی زمخشری کے الفاظ میں ”وہ ایسے لوگ جو انسانی محاسن کے بلند ترین درجے حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں،وہ لوگ جو احکام شریعت پرکار بند رہتے ہوئے ان کے اندر یہ منشائے ربی دیکھتے ہیں کہ دنیا کی قوموں میں اتفاق ہم آہنگی،امن و آشتی اور باہمی خیر خواہی کو فروغ دیا جائے۲؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ اس قابل ملاحظ مذہبی تحریک سے تازہ ترین بحث: بابی لفظ نقطہ نگاہ سے پروفیسر ای،جی براؤن (Professor E.G. Browne) نے اپنی کتاب (New History of the Bab) میں کی ہے۔یہ کتاب بابی تصنیف ”تاریخ جدید“ کا ترجمہ ہے۔ پروفیسر براؤن نے جو مقدمہ لکھا ہے،وہ نہایت دلچسپ ہے۔”تاریخ جدید“ میں قرۃ العین کی دلفریب شخصیت کا نہایت عمدہ نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس عظیم مستشرق نے اپنی کتاب Materials for the Study of the Babl Religion میں بابی مذہب کی نشوونما او راشاعت کے بارے میں بہت سامزید مواد مہیا کیاہے۔ بہانیت،جو اس کی تازہ ترین صورت ہے، زیادہ تر ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں رائج ہے۔ اس نے بڑی حد تک کرسچئن سائنس (Christian Scince) کے نظریوں کو اپنا لیا ہے۔

۱؎ ملاحظہ کیجئے حصہ دوم۔گیارہواں باب۔

(تعلقات متعلقہ صفحہ 452،453)

دائی مصر کا نام عبداللہ ب ابی سرح تھا (ملاحظہ ہوا لبدایہ والنہایہ مؤلفہ ابن کثیر جلد17، صفحہ 170 طبع مصر) یہ خط اسی دائی مصر کی طرف سے لکھا گیا تھا(ایضاً 175) نہ کہ حضرت معاویہؓ کی طرف مروان بن حکم نے حضرت عثمانؓ کے علم و اطلاع کے بغیر اس پر مہر خلافت ثبت کردی تھی (ایضاً 186 تفصیلات کے لیے دیکھے ص166تا 222) ادارہ

حضرت علیؓ نے جنگ جمل کے موقع پر میدان جنگ میں حضرت طلحہؓ اورحضرت زبیر ؓ سے الگ الگ گفتگو کی جس سے متاث ہوکر یہ دونوں حضرات جنگ سے کنارہ کش ہوگئے،لیکن اتنے میں حضرت طلحہؓ کوتیر ماراگیا جس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوئی(ایضاً ص 246،247) حضرت زبیر ؓ جنگ سے دستبردار ہوکر واپس جارہے تھے کہ ایک شخص نے نماز کی حالت میں ان پر تلوار کا اس قدر شدید وار کیا کہ ان کا سر تن سے جدا ہوگیا۔ حضرت علیؓ نے اس سانحہ پر سخت افسوس اورخفگی کا اظہار فرمایا۔(ایضاً 248،249)  (ادارہ)

Related Article:

The Spirit of Islam Authored by Sayed Ameer Ali: An Introduction- Part 1 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: ایک تعارف

The Spirit Of Islam Authored By Sayed Ameer Ali: Preface – Pre Islamic Social And Religious Conditions Of The World- Part 2 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: مقدمہ ، اسلام سے پہلے اقوام عالم کے مذہبی اور معاشرتی حالات

The Spirit Of Islam: Preface- Social And Religious Conditions Of the Aryans- Part 3 روح اسلام: بعثت اسلام کے وقت آریہ قوم کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Sayed Ammer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions Of Iran Before Islam- Part 4 روح اسلام: اسلام سے قبل ایران کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions of the World Before Islam- Part 5 روح اسلام: اسلام سے قبل دنیا کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions of the World Before Islam- Part 6 روح اسلام: اسلام سے قبل دنیا کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Christian World روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی حالت

 Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Christian World-Part 8 روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی اور سماجی حالت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Arabs-Part 9 روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی اور سماجی حالت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Arabs-Part 10 روح اسلام: ماقبل اسلام عرب کی مذہبی اور سماجی حالت 

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Messenger of Allah -Part 11 روح اسلام: پہلا باب پیغمبر اسلام کی ابتدائی زندگی

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Prophet’s Life and Prophet-hood -Part 12 روح اسلام: رسول اللہ کی زندگی اور رسالت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Chapter 1- The Revelation of the Quran and Declaration of Prophethood -Part 13 روح اسلام:نزول وحی کی ابتدا اور اعلان نبوت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Life of The Prophet and His Companions In Early Days of Islam -Part 14 روح اسلام: مکی دور میں رسول اللہ اور صحابہ کی زندگی

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Life of The Prophet and His Companions In Early Days of Islam -Part 15 روح اسلام: مکی دور میں رسول اللہ اور صحابہ کی زندگی

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 2- The Prophet’s Migration Towards Madina Part 16 روح اسلام : دوسرا باب: مدینہ کی طرف رسول اللہ کی ہجرت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 3- The Prophet’s Life in Madina Part 17 روح اسلام : تیسرا باب: رسول اللہ کی زندگی مدینہ میں

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 4- Enmity Between Quraish and Jews-Part 18 روح اسلام : چوتھا باب ،قریش اور یہود کی دشمنی

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 5- The Attack of Quraish on Madina-Part 19 روح اسلام : پانچواں باب ، قریش کا مدینے پر حملہ

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 5- The Attack of Quraish on Madina-Part 20 روح اسلام : پانچواں باب ، قریش کا مدینے پر حملہ

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 6- Mercifulness and Kindness of the Prophet Muhammad pbuh-Part 21 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام : چھٹاباب، آنحضرتؐ کی رحم دلی

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 7, The Spread of Islam - Part 22 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، ساتواں باب ، اشاعت اسلام

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 8, The year of delegates - Part 23 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، آٹھواں باب ، عام الوفود

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 9, The Perfection of Muhammad’s Prophethood - Part 24 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، نواں باب ، رسالت محمدیؐ کی تکمیل

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 1, Final Chapter 10, The Subject of Caliphate - Part 25 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دسواں باب، مسئلہ خلافت

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 1, The ideal goal of Islam - Part 26 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، پہلا باب، اسلام کامثالی نصب العین

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 2, The religious spirit of Islam - Part 27 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، دوسرا باب، اسلام کی مذہبی روح

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 3, The concept of life after death in Islam - Part 28 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، تیسرا باب، اسلام میں حیات بعد الممات کاتصور

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 4, The Preaching jihad of Islam- Part 29 سید امیرعلی کی کتاب روح اسلام، دوسرا حصہ،چوتھا باب، اسلام کا تبلیغی جہاد

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 5, The status of women in Islam - Part 30 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، پانچوا ں باب ،اسلام میں عورتوں کی حیثیت

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 6, The slavery - Part 31 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، چھٹا باب، غلامی

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 7, The Political Spirit of Islam - Part 32 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، ساتواں باب، اسلام کی سیاسی روح

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 8, The Political sectarianism - Part 33 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، آٹھوا باب، سیاسی فرقہ بندیاں

URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-34/d/124928

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..