سید امیر علی
(قسط 36)
7 جون 2021
صلیبی جنگجوؤں نے جو
آفتیں ڈھائیں ان کے اثرات بہت دیر پا ثابت ہوئے۔چنانچہ صلاح الدین ایوبی او راس کے
بیٹوں نے شام کی علمی وادبی زندگی بحال کرنے کی جو کوششیں کیں ان کے باوجود وہ آج
تک بحال نہیں ہوسکی۔
محمود کے عروج اور بغداد
کے زوال کے درمیان جو وقفہ گزرا اس میں بہت سے فلسفی اور سائنس داں ہوئے، جن میں
سب سے درخشاں نام ابوعلی حسین ابن سینا ۱؎،فتح ابن نابغہ خاقانی،مبّشر ابن احمد اور
اس کے بیٹے محمد کے ہیں ۳؎۔
منگولوں کا جو فتنہ
اسلامی دنیا میں اٹھا وہ روم پرشمالی وحشیوں کے حملے سے مماثل نہ تھا۔ روم پر جو
وحشی حملہ آور ہوئے وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھے تھے۔ چنانچہ سلطنت کی حدود کے اندر
داخل ہونے کے بعد اس کے مرکز کی طرف قدم بڑھے تھے۔ چنانچہ سلطنت کی حدود کے اندر
داخل ہونے کے بعد اس کے مرکز کی طرف قدم بڑھانے کے عمل میں ان کی اصلی وحشت کسی حد
تک زائل ہوچکی تھی او ران کی طبیعتوں میں قدرے نرمی پیدا ہوگئی تھی۔ غارتگر چنگیز
کے لشکر کا معاہدہ جدا تھا۔ وہ ایک پہاڑی ندی کی طرح طوفان برپا کرتا ہوا مغربی
ایشیا پر چڑھ آیا۔ جدھر سے وہ گزرا ادھرتباہی وبربادی اپنے پیچھے چھوڑ گیا۴؎۔اس کی وحشیانہ تاخت و
تاراج اورسفّاکا نہ کُشت و خون نے ایشیا کے ذہنی ارتقاء کو کچھ مدت کے لیے بند
کردیا۔ لیکن ان وحشیوں کااسلام قبول کرناتھا کہ ان میں ایک تبدیلی واقع ہوگئی۔ یہی
علم وفن کے مرکزوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے مدرسوں اور جامعوں کے بانی اور
اربابِ علم کے سرپرست بن گئے۔ سلطان خدابندہ (اُلیاتوخاں) جو چھٹی پشت میں چنگیز
کا وارث تھا، صاحب کمال بھی تھا او راہل کمال کا مربّی بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
متوفّی 1037ء
۲؎متوفّی
1082ء
۳متوفّی
1135ء
۴؎
تاتاریوں کے تفصیلی حالات کے لیے ملاحظہ کیجئے۔ Short
History of the Saracens
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن چنگیز کے لشکر نے
شہریوں کے جو قتل عام کئے تھے ان میں علم پیشہ طبقے کے بیشتر لوگ تہ تیغ ہوگئے
تھے۔ اس کانتیجہ یہ ہوا کہ اگرچہ سمر قند او ربخارا جیسے شہروں نے ازسر نوعروج
پایا،لیکن وہاں جو علمی اور ثقافتی روایات قائم ہوئیں وہ کچھ محدود قسم کی تھیں او
ر ان میں دینیاتی مسائل اور سو فسطائی بحث وتکرار کا عنصر غالب تھا۔ اس کے باوجود
منگولوں نے ناصرالدین طوسی،مؤیدالدین الغرضی دمشقی،فخر الدین المراغی،محی الدین
المغربی،علی شاہ بخاری او راسی قبیل کے اور فلسفیوں کی پشت پناہی کی۔ اس طرح ہلاکو
کے جانشینوں نے اسلام کو وہ چیزیں واپس دلانے کی کوشش کی جو ان کے اسلاف نے برباد
کردی تھیں۔ ادھر منگول ایران میں تہذیب کی خدمت کرکے تلافی مافات کررہے تھے ادھر
قبلائی خان عربوں کے علوم کو چین لے گیا۔
کوچیوکنگ نے 1280ء میں
جمال الدین سے ابن یونس کے زیج وصول کی او راسے چینیوں کے مقاصد کے لیے استعمال
کرنا شروع کردیا۔ ابن شاطر نے، جو مصر کے مملوک سلطان محمد ابن قلاؤن کے عہد حکومت
میں ہوا ہے،ریاضیات و فلکیات کو مزید ترقی دی۔ ایسے میں مشرق کے اُفق پر دہ شہاب
ثاقب طلوع ہوا جو تاریخ میں تیمور کے نام سے مشہور ہے۔”چودھویں صدی کی اس عظیم
شخصیت نے سمر قند سے اٹھ کر ایک ایسی سلطنت قائم کی جس کی سی وسعت اس سے پہلے
ایشیا کی کسی سلطنت کونصیب نہ ہوئی تھی۔ ایران وتُور ان کی قدیم دشمنی اس کے
ناقابل مزاحمت ارادے کے سامنے ایک قلم مٹ گئی۔“ وہ سائنس اور شاعری کا مربّی ارباب
علم دفن کی صحبت کادلدادہ اور اعلیٰ پائے کا مصنّف ومقّنن تھا۱؎۔ اس محّیر العقول انسان
نے جو شاندار دارالعلوم،پرُسطوت مسجدیں اور وسیع کتب خانے قائم کئے وہ اس کے ذوق
علم کے شاہد ہیں۔ اس نے نوآبادیوں کا ایک نظام نافذ کرکے مشرقی ایشیا کے شہروں او
ربالخصوص میں سمر قند کو مغرب کے تمام علوم وفنون متعارفہ کے گنجنیوں سے مالا مال
کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
”ملفوظات تیموری“ کااسلوب بیان وہی ہے جو آشوری اور کیانی بادشاہوں کی تحریروں
کاتھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
”بنی اُمّیہ نے اندلس میں اور شروع کے عبّاسی خلفاء نے عربستان میں
جو سلطنتیں قائم کیں ان کے بعد تاریخ اسلام کی سب سے بڑی سلطنت وہ تھی جس کابانی
تیمور تھا۔“زبدہ علوم جامی، Pilpay کا مترجم سہیلی اور
علی شیر امیر ان لوگوں میں ممتاز تھے جنہوں نے تیمور کے جانشینوں کی حکومتوں کی
رونق بخشی۔ تیمور کی ملکہ بی بی خانم نے جس دارالعلوم کی بنیاد رکھی اور جو اسی کے
نام سے موسوم ہوا، اس کی عمارت اسلامی فن تعمیر کی سب سے جاذبِ نظر او رمرعوب کن
تخلیقو میں شمار ہوتی ہے۔تیمور کے بیٹے شاہ رُخ مرزا نے فن وادب کے اکتساب اور
سرپرستی میں اپنے باپ کی تقلید کی۔ اس کا پُر امن عہد حکومت، جسے تقریباً نصف صدی
کی طویل مدت نصیب ہوئی،اعلیٰ ادبی کارناموں اور سائنسی مطالعوں کی بدولت شہرت
رکھتا ہے۔ جب اس نے اپنا پایہ تخت سمرقند سے ہرات منتقل کرلیا تو اس کے بعد بھی
سمر قند کی شان وشوکت میں کوئی کمی نہ ہوئی۔ اس کے بیٹے اُلغ بیگ نے جسے ماوراء
لنّہر کا نظم ونسق سپرد کیاگیا،سمر قند کے علمی وادبی مرتبے کو برقرار رکھا۔ وہ
ایک علیٰ درجے کی ہیئت دان تھا اور جن فلکیاتی مشاہدوں نے اس کے نام کو زندہ جاوید
کردیا ہے ان کی نگرانی خود کیا کرتاتھا۔ جن زیجوں میں ان مشاہدوں کو مجّسم کیا گیا
وہ فکر عربی کے تتّمے تکملے ہیں۔اُلغ بیگ اور جدید فلکیات کے بانی کپلر (Kepler) کے درمیان صرف ڈیڑھ
صدیوں کا فاصلہ تھا۔
مسلمانوں نے صرف فلکیات
ہی کی تہذیب واصلاح نہیں کی، بلکہ ریاضیات عالیہ کے ہر شعبے پر بھی ان کے اختراعی
و تحقیقی بنوع کی مُہر ثبت نظر آتی ہے۔کہا جاتاہے کہ یونانی جبرو مقابلہ کے مُوجد
تھے لیکن جیسا کہ اولسز (Oelsner) نے عادلانہ کہا ہے
انہوں نے اس سے صرف گردش جام کی پیمائشوں میں تفریحاً کام لیا مسلمانوں نے اسے
اعلیٰ مقاصد کے لیے استعمال کیا اور اسے ایک نئی قدر وقیمت بخش دی۔ دوسرے درجے کی
مساوات وہ مامون کے عہد میں دریافت کرچکے تھے۔تھوڑی ہی مدت کے بعد انہوں نے دو
درجی مساوات کا نظریہ اور دو عدوی مسئلہ بھی اختراع کرلیا۔ صرف جبر ومقابلہ ہندسہ
اور حساب ہی نے نہیں بلکہ مناظر ومرایا اور علم جرّ ثقیل نے بھی مسلمانو ں کی
بدولت ترقی پائی۔ انہوں نے کُردی مثلثاث ایجاد کی، وہ پہلے لوگ تھے جنہوں نے جبرو
مقابلہ کااطلاق ہندسہ پر کیا،مماس کو متعارف کرایا او رمثلّثاتی حسابوں میں قوس کی
جگہ جیب کو داخل کیا۔ انہوں نے ریاضیاتی جغرافیہ میں جو ترقی کی وہ بھی کچھ کم
نمایاں نہ تھی۔ابن حوقل،مقریزی،لاصطخری مسعودی،البیرونی،الکومی،الادریسی،قزدینی،
الوردی اور ابوالفداء کی تصنیفات سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں نے اس شعبہ علم
میں،جسے انہوں نے رسم الارض کا نام دیا، کیسے کیسے معرکے کے کام کئے۔ایک ایسے
زمانے میں جب یورپ کایہ راسخ عقیدہ تھا کہ زمین سپاٹ ہے اور وہ اس عقیدے کے
مخالفوں کو زندہ جلادینے سے دریغ نہ کرتا تھا عرب جغرافیے کی تعلیم کُروں کے ذریعے
دیتے تھے۔طبیعی سائنسوں کی نشو ونما بھی ایسی ہی تن دہی سے کی گئی۔ نظریوں کی جگہ
تجربوں سے کا م لیا گیا او راس طرح قدماء کے ناتر اشیدہ علوم کو مثبت علوم کی شکل
دی گئی۱؎۔
کیمیائیات،نباتیات، ارضیات(علم طبقات الارض) طبیعی تاریخ او ران کے متجانس علوم
قابل ترین لوگوں کی توجہ کے مرکز اور ان کی دماغی کاوشوں کے موضوع رہے۔
کیمیائیات ایک مدّون علم
کی حیثیت سے قطعی طور پر مسلمانوں کی ایجاد ہے۔ ابوموسیٰ جابر(جسے عیسائی مصنّفین Geber کہتے ہیں ۲؎) جدید کیمیائیات کا
حقیقی بانی مبانی ہے۔“ اس کا نام علم کیمیا کی تاریخ میں یاد گار ہے،کیونکہ اس سے
اس علم کے ارتقاء کا ایک ایسا دور منسوب ہے جو پریسٹلی (Priestley) اور لاووازیے(Lavoisier) کے ادوار کے برابر
اہمت رکھتا ہے۔“ اس کے بعد چند دوسرے عالم آئے جن کی جدّت طبع محنت وکاوش،تجّر
علمی اور ذکاوت مشاہدہ سے پڑھنے والا محو حیرت ہوجاتاہے او ردور حاضر کے مسلمانوں
کے ذہنی جمود پر افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
ہمبولٹ (Humboldt) عربوں کو طبیعی سائنسوں کا حقیقی موجد کہتا ہے۔
۲؎
ابوموسیٰ جابر ابن حیان۔ طرطوس کا باشندہ تھا۔ ابن خلّکان اس کا بابت لکھتا
ہے:”جابر نے دوہزار صفحوں کی ایک کتاب تالیف کی جس میں اس نے اپنے استاد امام جعفر
صاد ق کے مسائل یکجا کئے جو پانچ سو رسالوں پر مشتمل تھے۔“ مزید ملاحظہ کیجئے ”تاریخ
الحکماء“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علم طب اور فن جّراحی کو
بھی جو کسی قوم کی فطری استعداد کی بہترین کسوٹی او رکسی مذہب کے عقلیب پسندانہ
مزاج کا ایک کڑا امتحان ہیں، درجہ کمال تک ترقی دی گئی۔ یہ درست ہے کہ یونانیوں نے
طب میں اعلیٰ درجے کی مہارت حاصل کرلی تھی لیکن انہوں نے طب کو جس مرحلے تک
پہنچایا تھا عرب اسے اس مرحلے سے بہت آگے بڑھا کر جدید زمانے کے معیاروں کے قریب
لے آئے۔عربوں نے کئی صدیوں تک علم انسانی کے اس شعبے کی جو خدمت کی اورطبیعی سائنس
کی ترقی کے سلسلے میں جو کارنامے کئے ہم یہاں ان کی محض اجمالی تذکرہ کر سکتے ہیں۔
دواؤں کی خاصتیوں
کامطالعہ، جس کا خیال دبستان اسکندریہ کے حکیم دیوسکورائدیز (Dioscorides) کے ذہن میں پیدا
ہوا، اپنی سائنسی شکل میں عربوں کی تخلیق ہے۔و ہ کیمیائی دواسازی کے مُوجد اور ان
کے اداروں کے پہلے بانی تھے جنہیں ہم آ ج کل ڈسپنسریاں یعنی دواخانے کہتے ہیں ۱؎۔ انہوں نے ہر شہر میں
وارالشّفایا ”مارستان“ (بیارستان کامخفف) قائم کئے جن کے خرچ کی سرکار متحمل ہوتی
تھی۔
ابواصیبیہ کی ”طبقات
الاطبا“ کی پوری ایک جلد عرب طبیبوں کے ناموں پر مشتمل ہے۔ابوبکر محمد ابن زکریا
الّرای(جو قرون وسطیٰ کے یورپ میں (Rhazes) کے نام سے معروف
تھا اور جو دسویں صدی عیسوی کے آغاز میں ہوا۲؎۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
جو لوگ دواخانوں میں دوائیں تیار کرکے مریضوں کو دیتے تھے ان پر حکومت کی طرف سے
نگرانی ہوتی تھی۔ دواؤں کی مقداریں اور قیمتیں باضابطہ پر مقرر کی جاتی تھیں۔بہت
سے سرکاری دواخانے بھی تھے۔ طبیبوں اور دواسازوں کے باقاعدہ امتحان ہوتے تھے اور
امیدوار ان میں کامیاب ہوتے تھے انہیں سندیں دی جاتی تھیں۔صرف سندیا فتہ لوگوں کو
طبابت کاپیشہ اختیار کرنے کی اجازت تھی۔ اس ضمن میں کریمر (Kremer) اور سیدیو (Sediliot) کی تصنیفات ملاحظہ
کیجئے۔
۲؎
یہ عظیم طبیب،جو ایران کے شہر میں پیدا ہوا یکے بعد دیگر ے رے جند نثیاپور او
ربغداد کے شفاخانوں کا سربراء تھا۔ اس کی تصنیف ”حاوی“ کو سید یو (باقی حاشیہ صفحہ
563 پر ملا حظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔
علی ابن عباسؓ،ابوعلی
حسین،ابن سینا،ابو القاسم خلف،ابن عباسؓ،ابومردان،ابن عبدالملک ابن زہر۲؎ ابولولید محمد ابن رُشد۳؎ اور عبداللہ ابن احمد
ابن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 562) ”طبعی معلومات کا ایک نہایت مؤخر ذخیرہ
کہتاہے۔ اس نے چیچک اور خسرے پر جوجو رسالے لکھے ان سے تمام ملکوں کے طبیب استفادہ
کرتے رہے ہیں۔ اس نے mino--ratives کے استعمال کی ابتدا کی۔زخم کُشاڈورا ایجاد کیا اور عصبِ حجزہ
دریافت کیا۔اس نے دوسوطبی رسالے لکھے جن میں سے بعض کی اشاعت 1510 ء میں وینس میں
ہوئی۔الّرازی نے 311 ھ مطابق 24۔923ء وفات پائی۔
۱؎
علی ابن عباس کا زمانہ رازی کے زمانے کے نصف صدی بعد ہے۔ اس نے طب کے نظری وعملی
پہلوؤں پرایک کتاب لکھی جو بیس جلدوں پر تھی اورجسے اس نے بویدامیر عضدالدّولہ کے
نام پر معنون کیا۔ اس کتاب کالاطینی ترجمہ 1227 ء میں ہوا اور اسے لیوں Lyons میں مشل کپیلا (Michel
Capella)
نے 1523 ء میں شائع کیا۔ علی ابن عباس نے بقراط اور جالنیوں کی بہت سی غلطیوں کی
اصلاح کی۔
۲؎
ابن زہر(جویورپ میں Aven Zoar کے نام سے معروف تھا) اپنے زمانے کے ممتاز ترین اطبا میں تھا۔اس
کی پیدائش پینافلور Penaflor میں ہوئی۔طبی اور سائنسی علوم سے فارغ التحصیل ہوکر وہ افریقہ کے
مشہور المرابطی سلطان یوسف ابن تاشقین کی ملازمت میں داخل ہوا۔ ابن تاشقین نے اس
کی بہت عزت وتوقیر کی۔ابولقاسم کی طرح ابن زُہر نے بھی طباعت اور جرّاحی دونوں
پیشے بہ یک وقت اختیار کئے۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے نرخرے کو چپرا اور اس عمل میں
جو ہڈیاں اترگئیں یا ٹوٹیں ان کا صحیح صحیح نقشہ ذہن میں رکھا۔ اس عمل کے ذریعے اس
نے بہت سی اہم بیماریاں اور ان کے علاج وریافت کئے۔ اس کا بیٹا اس کے بقش قدم
پرچلا او ریوسف ابن تاشقین کی فوج کا اعلیٰ جرّاح اورطبیب بنا۔
۳؎
ابن رشد (Averroes) مغرب کا ابن سینا تھا۔ اس کی سیرت اور تصنیفات کو رنان (Renan) نے دنیا کے آگے پیش
کیا۔(باقی حاشیہ صفحہ 564پر ملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔
علی البیطار۱؎،یہ ہیں چند صاحب کمال
او رنامور طبیب جنہوں نے جریدہ علم وفکر پر ایک نقش دائم چھوڑا۔ابوالقاسم نہ صرف
صفِ اوّل کاطبیب بلکہ صف اوّل کا جرّاح بھی تھا۔ اس نے نہ صرف اپنے شعبہ طب میں
بلکہ وایہ گری کے شعبے میں بھی بہت سے عمل جرّاحی کئے۔ وہ بیان کرتا ہے کہ چونکہ
عورتو ں کی جرّاحی میں شرم وحیا کالحا ظ رکھنا پڑتا تھا اس لیے باقاعدہ طور پر
تربیت یافتہ عورتیں اس کی معاون ہوتی تھیں۔ اس کے زمانے میں جو آلات جراحت استعمال
ہوتے تھے اس نے تفصیلاً بیان کیا ہے۔ ان سے اس امر کا کچھ اندازہ ہوتاہے کہ فنِّ
جرّاحی نے عربوں کے یہاں کتنی ترقی کرلی۲؎۔ ابن سینا بلاشک وشبہ اپنے زمانے کا سب
سے بڑا صاحب کمال تھا۔ وہ خود بھی جامع العلوم تھا او راس کی تصنیفات بھی ایک
قاموس المعارف ہیں، وہ فلسفی بھی تھا، ریاضیات دان بھی،ماہر فلکیات بھی، شاعر بھی،
طبیب بھی۔ اس کے اثرات دوبرّاعظموں کی تاریخ پر مرتسم ہیں اور وہ مشرق کا ارسطو
کہلائے جانے کا بہمہ وجوہ مستحق ہے۔ قدماء پرستوں کے رشک ورقابت کے باوجود اس کے
فلسفیانہ خیالات کئی صدیوں تک مشرق ومغرب دونوں کے دبستانوں پر مستولی رہے۔ ابن
سینا مشرق میں شیخ الرئیس کے لقب سے مشہور ہے۔ اس کا باپ ماوراء النّہر کاگورنر
تھا اور وہ اس صوبے کے ایک گاؤں میں جس کانام انشانہ تھا 910 ء میں پیدا ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 563) وہ ابن زہر،ابن باجہ اور ابن طفیل کاہمعصر
تھا۔ ابن رشد اور اس کے معاصرین کامزید تذکرہ ہم آئندہ باب میں کریں گے۔
ان کے علاوہ چند او رنام
قابل ذکر ہیں۔ یعنی ابوالحسن ابن تلمیذ مصنّف ”الامانی“ ابوجعفر احمد ابن محمد
الطّالب جس نے ذات الجنب پر رسالے لکھے۔ اور ہیبت اللہ
۱؎
البیطار نے جڑی بوٹیوں کی تلاش میں سارے مشرق کا سفر کیا اور ان پر ایک جامع رسالہ
لکھا۔عرب طبیبوں نے ریوند،تیزپات، سناء مکیّ،کانور،تمرہندوغیرہ کے استعمال کورائج
کیا۔
۲؎
مثانے کی پتھری نکالنے کے عمل جرّاحی میں وہ آج کل کے بہترین سرجنوں کا ہم پایہ
تھا۔
اٹھارہ برس کی عمر میں
طبی تعلیم سے فارغ التحصیل ہوکر اس نے اپنی غیر معمولی سیاسی او رفلسفیانہ زندگی
شروع کردی۔محمود فاتح کی ملازمت قبول کرنے سے متواتر انکار کی بدولت اسے عزنوی
قلمر و سے دیس نکالا ملا۔ لیکن تھوڑی ہی مدت کے بعد شمس الدّولہ امیر ہمدان نے اسے
اپنی وزارت پر مامور کیا۔اس کے بعد علاؤ الدّولہ امیر اصفہان کا وزیر بنا۔ اصفہان
میں اس نے اپنے سائنسی اور فلسفیانہ کارنامے انجام دئیے اور اپنی معرکۃ الآرا ء
تصانیف قانون اور جوزہ لکھیں جو آتے چل کر علم طب کی اساس بنیں۔
یونانیوں کی تشریح
الاعضاء سے بہت کم واقفیت تھی اور انہیں دواسازی کا جو علم تھا وہ بھی بہت محدود
تھا۔ مسلمانوں نے تشریح الاعضاء کو بھی اور دو اسازی کو بھی ترقی دے کر مستقل علوم
کی حیثیت بخش دی۔ اسلامی سلطنت کی وسعت کی بدولت مسلمانوں کو کرہئ ارض کے ہر گوشے
میں تحقیق و تجّسس کرنے کا موقع ملاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اپنے وقت کے
ذخیرہ ادویہ کو بے شمار گراں قدر اضافوں سے مالا مال کردیا۔ نباتیات کو
دیوسکوریدیز (Dioscorides) نے جہاں پہنچایا تھا اسے وہ اس سے بہت آگے لے گئے او ریونانیوں
کو جو جڑی بوٹیاں معلوم تھیں ان کی تعداد میں انہوں نے دوہزار کااضافہ کیا۔طالب
علموں کی تعلیم کے لیے قرطبہ او ربغداد،قاہرہ اور فاس میں باقاعدہ باغات تھے۔ جہاں
نباتات اور دواسازی کے ماہر درس دیتے تھے۔
محمد الدّمیری نے جانوروں
کی جو تاریخ لکھی اس کی بدولت وہ سارے علم اسلام میں مشہور ہے۔ اس تصنیف کوبُفّان
(Buffan)کی تصنیفات پر سات صدیوں کا تقّدم حاصل ہے۔
ارضیات کو عرب علم تشریح
الارض کہتے تھے۔ اسے بھی انہوں نے پروان چڑھایا۔
فن تعمیر میں مسلمانوں کو
جو تفّوق حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں،کیونکہ مشرق و مغرب میں جو مسلم عمارات یا ان
کی باقیات ہیں وہ آج بھی دنیائے جدید سے خراج تحسین وصول کررہی ہیں۔ مصّوری او
رمجسمہ سازی میں مسلمانوں کی پسماندگی اسلام سے منسوب کی گئی ہے، لیکن یاد رکھنا
چاہئے کہ قرآن نے اس بارے میں جو ممانعت کی وہ اس ممانعت سے مشابہ ہے جو عہد نامہ
عتیق کی کتاب اجار میں کی گئی تھی۔ یہ کوئی نئی ممانعت نہ تھی بلکہ آئین موسوی کی
تکرار تھی جس نے یہودیوں کے یہاں ”تراشیدہ بتوں“ کا بنانا مؤثر طریقے سے مسدور
کردیا تھا او راس کا جواز،اعرابِ جاہلیت کی پُرانی رسم بُت پرستی سے واضح
ہے۔چنانچہ ابتدائی مسلمان مصّوری او رمجسمہ سازی کو کُفر وشرک کی علامت تصور کرکے
انہیں قابل نفرت اور حرام سمجھتے تھے اور اس بت شکنی نے جو ان کی طبیعت میں رچ گئی
تھی انہیں دوسری قوموں کی طرح بُت پرستی میں مبتلا ہونے سے محفوظ رکھا۔ لیکن جب
مسلمانوں کا سیدھا سادہ ابتدائی معاشرہ ایک مہذّب و متمدن سلطنت میں تبدیلی ہوگیا
اور ان کے یہاں علم وحکمت اور سائنس کو عروج حاصل ہوا تو انہوں نے اس ممانعت کے
حقیقی منشاء کو سمجھ لیا او رلغوی تقلید کے بندھن توڑ دیئے۔ اس میں کوئی شک نہیں
کہ شروع کے عبّاسیوں اوراُندلسی خلیفوں نے فنون لطیفہ کی جو ہمت افزائی کی اس کی
حقیقی وجہ عقلیت کی وہ روح تھی جس نے ان پر اتنا گہرا اثر ڈالا۔ چنانچہ ساری
اسلامی دنیا میں ادب اور سائنس کی ترقی کے پہلو بہ پہلو مصّوری او رمجسمہ سازی کا
ذوق بھی عام ہوتا گیا۔ خلیفوں کے محل، ان بادشاہوں کے محل جو ان کے نقش قدم پر چلے
او روزراء واُمراء کے مکان تصویروں او رمجسموں سے مزّین ہوتے تھے۔پیغمبر اسلام صلی
اللہ علیہ وسلم نے مسجدوں میں بتُوں او رتصویروں کی جو ممانعت کی ہم عربو ں کے فنّ
نقاشی کے لیے اس کے ممنون ہیں، جو مشرقی عمارتوں کو عجیب وغریب دلکشی بخشتا ہے
اورجس کا یورپ نے بڑی حد تک چربہ اتارا ہے۔ جب عربو ں کو دوسری قوموں کے فنون سے
آشنائی حاصل ہوئی تو انہوں نے جانور، پرندے او رپھل پھول بھی اپنی نقّاشی میں داخل
کردیئے۔ پھر بھی مسجد وں کی زیب وزینت میں انسانوں اور حیوانوں کی شکلیں قطعاً
ممنوع رہیں۔ ہئیت کی پاکیزگی خاکے کی سادگی، وضع وقطع کی لطافت او ر تناسب کی بے
عیبی میں، تمام جزئیات کی ہم آہنگی میں، دستگاری کی عمدگی میں او ر تخیل کی بلندی
میں مسلمانوں کا فن تعمیرکسی ملک کے فن تعمیر سے کم پایہ نہیں۔ بالخصوص جس نزاکت
او رخوش اسلوبی سے مسلمانوں کی سب سے شاندار عمارتوں کی آرائش کی گئی ہے وہ ایک
ایسے نکھرے ہوئے ذوق اور نفاست طبع کی دلیل ہے جس کی نظیر یونان قدیم کی یادگار یں
یا جدید یورپ کی عمارتیں پیش نہیں کرسکتیں۔مسلمانوں کے فن تزئین کی ایک اور شاخ
خطہ طغرا ہے جو مسجدوں،مقبروں او رمحلوں کی آرائش میں استعمال کیا جاتاہے۔ قرآن کی
پوری پوری سورتیں گنبدوں اور منبت کاری کا سرچشمہ رہی مذہبی جوش ہوتا ہے جو عیسوی
کلیساؤں کے اندر اولیاء شہداء کی تصویروں میں جلوہ گر دکھائی دیتاہے، لیکن اس
کامزاج خالصتہً موحدّانہ ہوتاہے۔
اشاعت اسلام سے پہلے
عربوں کے یہاں گانے بجانے کاپیشہ یا تو ان غلاموں او رلونڈیوں سے مخصوص تھا جو شام
یا ایران سے لائی جاتی تھیں یا طوائفوں سے جنہیں قیان کہتے تھے۔ پیغمبر صلعم نے
بدیہی اخلاقی وجوہ کی بناء پر ان رذیل طبقوں کے رقص دسرود کو ناپسند فرمایا تھا۔
لیکن عبّاسیوں او راُندلسی خلیفوں کے زمانے میں،جب موسیقی کو ایک علم کا درجہ حاصل
ہوگیا او ر اس کی مشق کو ایک فن تسلیم کیا گیا تو معاشرے کے تمام طبقوں میں اس کا
شوق پیدا ہوگیا۔ اس موضوع پر بہت سی کتابیں لکھیں گئیں،گیت جمع کئے گئے او رراگوں
اورسُروں کے مطابق ان کو مرتب کیا گیا۔ قدماء کے آلات موسیقی کی اصلاح کی گئی اور
نئے آلات ایجاد کئے گئے لیکن عقلیت او رملائیت،معنویت او رلفظ پرستی کے درمیان جو
آویزش بارہویں صدی عیسوی کے وسط میں پیدا ہوئی اس نے اس شیریں ترین فنون کو پھر
ارباب نشاط کاذریعہ معاش یادرگاہوں کا مجرائی بنادیا۔
تجارت،زراعت،دستکاری اور
صنعت پربہت کچھ لکھا گیا۔دستکاری اور صنعت میں چینی کے برتنوں سے لے کر آلات حرب
تک بیشمار چیزیں شامل تھیں۔
تاریخی تحقیق میں بھی
مسلمان زمانہ قدیم یازمانہ جدید کی کسی قوم سے پیچھے نہیں رہے شروع شروع میں زیادہ
تر سیرت نبوی پر توجہ دی گئی لیکن بہت جلد تاریخ کا تصور وسیع ترہوگیا۔
آثاریات۱؎،جغرافیہ،علم الاقوام۲؎ تینوں کو تاریخ میں
شامل سمجھا جاتاتھا او ربہترین دماغ ان کے مطالعے میں مصروف رہتے تھے۔ ابن اسحاق
کی سیدھی سادی تصنیف اور ابن خلدون کی عالمی تاریخ میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن
ان دونوں کے درمیان لاتعداد مصنف ہوئے جن کی تصنیفات سے اس امر کاکچھ اندازہ لگا
یا جاسکتا ہے کہ اسلام کے فیضان اثر کی بدولت مسلمانوں نے کیسے کیسے ذہنی کارنامے
انجام دیئے۔
بلاذُریٰ جس کی وفات 279ھ
(مطابق 802ء) میں ہوئی،بغداد میں پیدا ہوا او رساری عمر وہیں رہا۔ اس کی ”فتوح
ُالبُدان“ نہایت دلکش پیرائے میں لکھی گئی ہے اور اس سے پتہ چلتاہے کہ اس وقت تک
مسلمانوں کے تاریخی مذاق میں کتنی ترقی ہوگئی تھی۔
ہمدانی نے جس کازمانہ
تیسری صدی ہجری کااختتام او رچوتھی صدی کا آغاز تھا، دنیا کو جنوبی عرب کی ایک جامع
تاریخ دی جس میں اس نے اس خطے کو قوموں کے احوال بیان کئے،ان کے دلچسپ آثارِ قدیمہ
کی تفصیلات (ان کے کتبوں کی شرحوں کے ساتھ) دیں، او ربالخصوص یمن کے جغرافیہ اور
اس کے لوگوں کی نسلی خصوصیات سے بحث کی۔ لیکن جن تصنیفات میں مسلمانوں کی قدرت
تاریخ نویسی پورے عروج پر دکھائی دیتی ہے وہ مسعودی، (Montesquieu) کہتاہے
مقریزی،مقری، ابولفدا،نُویری، سیر خوند کی تصنیفات ہیں۔ یہ لوگ اپنے فن کے خصوصی
ماہرہی نہ تھے،بلکہ جامع العلوم تھے،یعنی فلسفی، ریاضیات دان اور ساتھ ہی ساتھ
مؤرخ۔مسعودی باشندہ تو بغداد کا تھا، لیکن نسلاً شمال عرب تھا اور اس نے عنفوان
شباب میں دنیائے اسلامی کے بیشتر حصے کی سیاحت کی تھی۔ سب سے پہلے وہ ہندوستان
گیا،جہاں اس نے ملتان اور منصورہ کی سیر کی۔ پھر وہ ایران اوررکرمان گیا، وہاں سے
ہندوستان لوٹا اور کچھ مدّت کمباجہ (Kombaja)اور دکن میں رہا،پھر
سیون گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
آثار قدیمہ کا مطالعہ (Archaeology)
۲؎
(Ethnolgy) نوع انسانی کا مختلف نسلوں اور قوموں کا مطالعہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہاں سے جہاز پر سوار
ہوکر کمبالو ر مدغسقر (Madagascar) پہنچا۔ وہاں سے عازم عمان ہوا اور غالباً جزیرہ نمائے ہندوچین
اور چین کی سیر بھی کرآیا۔ وسطی ایشیا میں سفر کرتاہوا وہ بحیرہ نوز تک
پہنچا۔سیاحت ختم کرکے وہ کچھ مدت طبریہ او رانطاکیہ میں مقیم رہااور بعد میں بصرے
کاشہری بناء جہاں اس نے سب سے پہلے اپنی عظیم تصنیف ”مروج الذہب“ شائع کی۔ بعدازاں
اس نے فسطاط میں سکونت اختیار کی اور وہاں اس نے پہلے ”کتاب التبنیہ“اور پھر ”مرآۃ
الزّمان“ شائع کی۔مؤخرالذّ کر ایک ضخیم تصنیف ہے جس کا محض ایک حصہ باقی رہ گیا ہے۱؎ ”مرُوج الذّہب“ میں وہ
اپنی زندگی کے گوناگوں تجربات کو ایک ایسے شخص کے شگفتہ اور دلنشین انداز میں بیان
کرتاہے جس نے ملک کی سیاحت کی ہے اور زندگی کے سب رنگ دیکھے ہیں اور جو پڑھنے والے
کو صرف سبق ہی نہیں دینا چاہتابلکہ اس کے لیے تفریح طبع کا سامان بھی بہم پہنچانا
چاہتا ہے۔ ہمارے دماغ پرسندوں کی لمبی لمبی فہرستوں کا بوجھ ڈالے بغیر،ہمیں طولانی
تمہید وں میں الجھا ئے بغیر وہ لطف لے لے کر اسی چیزوں کو نمایاں کرتاہے جو اسے
عجیب وغریب نادرابوجود اور دلچسپ معلوم ہوتی ہیں اور بڑے اجمال او رمحا کاتی
چابکدستی کے ساتھ لوگوں اور ان کے طور طریقوں کے نقشے کھینچتا ہے۔“
طبری (ابو جعفر محمد ابن
جریر) کو عربوں کے لوی Livy کاخطاب دیا گیا ہے۔ اس نے 922ء میں بغداد میں وفات پائی۔ اس نے جو
تاریخ لکھی وہ 302 ھ (مطابق 914 ء)پر ختم ہوتی ہے۔ اس کے بعد المکین (Elmacin) نے اس کا تّتمہ
لکھا جو بارھویں صدی عیسوی کے اختتام تک کے واقعات پر حاوی ہے۔
۔۔۔۔۔۔
۱؎مجھے
بتایا گیا ہے کہ دنیا کی لائبریری میں اسی مصنف کی ایک تاریخی تصنیف ہے جو تقریباً
تیس جلدوں پر مشتمل ہے اور جس کا نام ”اخبارالزّمان“ ہے۔ غالباً یہ وہی تصنیف ہے
جو”مرآۃ الزّمان“ بھی کہلاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن الاثیر،ملقّب بہ
عزّالدّین،عراق کے جزیرہئ بنی عمر کا رہنے والا تھا،لیکن زیادہ تر موصل میں مقیم
رہا،جہاں اس کا مکان ممتاز ترین علماء وفضلائے عصر کا مرجع تھا۔ اس کی تاریخ
عالم،جس کانام ”الکامل“ ہے اور جو 1231ء پرختم ہوتی ہے، جدید یورپ کی بہترین
تصانیف کامقابلہ کرتی ہے۔
مقریزی (تقی الدّین احمد)
ابن خلدون کاہم عصر تھا۔ اس نے مصر پر جوکتاب لکھی وہ اس ملک کے
سیاسی،مذہبی،معاشرتی،تجارتی،آثار یاتی اور انتظامی حالات کا ایک واضح نقشہ پیش
کرتی ہے۔
ابولفدا جس کاذکر ہم ایک
جغرافیہ داں کی حیثیت سے کرچکے ہیں، چودہویں صدی عیسوی کے آغاز میں حماۃ کاشہزادہ
تھا۔ وہ فنون حرب میں اتنا ہی ممتاز تھا جتنا علم ادب میں۔ اپنے بیشمار اوصاف
حمیدہ کی بدولت وہ مشرق کے علما اور سائنس دانوں میں اونچا درجہ رکھتا ہے۔ اس کی
عظیم تصنیف کا وہ حصہ جو اسلام کی سیاسی وادبی تاریخ سے اور اسلام کے بازنطین کے
ساتھ مراسم سے تعلق رکھتا ہے بڑا بیش بہا ہے۔
ابن خلدون کا زمانہ
چودھویں صدی عیسوی تھا۔ وہ تونس میں 1322ء میں پیدا ہوا۔ چنانچہ چودھویں صدی عیسوی
میں جن انقلابات نے افریقہ کو ایک ہنگامہ زار بنا رکھا تھا اس نے ان کے درمیان
زندگی بسر کی۔اس کی مہتم بالشّان تاریخ کا مقدمہ بجائے خود معلومات اور فلسفانہ
بخشوں کا ایک گریں قدر ذخیرہ ہے مقّدمے میں وہ معاشرے کی ابتداء کا سراغ لگاتاہے،
تہذیب کی نشوونما کے مدارج بیان کرتا ہے او ر سلطنتوں اور خاندانوں کے عروج وزوال
کے اسباب کو زیربحث لاتاہے۔ دوسرے مسائل کے ضمن میں وہ اس کا بھی تجزیہ کرتاہے کہ
قوموں کے شمائل وخصائل پرآب وہوا کاکیا اثر ہوتاہے۔ ابن خلدون نے 1406ء میں وفات
پائی۔
عربوں نے قطب نما ایجاد
کیا اور علم کی تلاش میں یا تجارت کے سلسلے میں دنیا کے تمام حصوں کی سیاحت
کی۔انہوں نے افریقہ میں،مجمع الجزائرہند میں ہندوستان کے ساحل پر او رجزیرہ نمائے
ملایا میں نوآبادیاں قائم کیں۔اور تو اور چین نے بھی اپنے ہمیشہ بند رہنے والے
دروازے مسلم نوآبادکاروں اور تاجروں کے لیے کھول دیئے۔ انہوں نے پرتگال کے مغرب
میں جزائر زور دریافت کئے اور قیاس کی جاتاہے کہ غالباً ساحل امریکہ تک
جاپہنچے۔قدیم برّاعظموں کو سرحدوں کے اندر انہوں نے ہر طرح کی انسانی محنت و مشقّت
کو ایک ایسے طریقے سے پروان چڑھایا اس کی نظیر نہان سے پہلے تھی نہ ان کے بعد ملتی
ہے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے محنت کو ایک فرض قرار دے کر اس کی تاکید کی
تھی، صنعت وحرفت کو ایک مقدس مشغلہ کہا تھا،تجارت او رزراعت کی یہ کہہ کرتلقین کی
تھی کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ مستحق ثواب کام ہیں۔ان ہدایات کا نتیجہ نکلنا
تھا اور نکلا۔ تاجر، دکاندار اور حرفت پیشہ لوگ اسلامی معاشرے میں عزّت پاتے تھے۔
صوبوں کے عمّان،فوج کے اعلیٰ منصب داروں اور ارباب علم وفضل اپنی کنیتوں یا خطابوں
میں اپنے آبائی پیشوں کااعلان کرنے میں کوئی ننگ وغار محسوس نہ کرتے تھے۔ وہ امن وامان
جس سے سلطنت کے طول عرض میں کاروان آمد ورفت کرتے تھے۔ سڑکوں کی مکمل سلامتی او
ربے خطری،وہ حوض،تالاب اور سرائیں جو سڑکوں کے کنارے ہرجگہ موجو دتھیں۔ ان سب
چیزوں نے مل کر تجارت اور صنعت وحرفت کو سریع ترقی دی۔
جن جن ملکوں میں عرب آباد
ہوئے وہاں انہو ں نے جابجا نہریں بنائیں۔ہسپانیہ کو انہوں نے آبپاشی کا ایک ایسا
نظام بخشا جو بندوں،پانی روکنے والے تختوں، پّیوں او رپمپوں پر مشتمل تھا۔ بڑے بڑے
علاقے جو اب غیر آباد او ربنجر پڑے ہیں زیتون کے جھُنڈوں سے سرسبز وشاداب تھے۔
دوسرے شہروں سے قطع نظر اکیلے اشبیلیہ کے گردونواح میں روغن زیتون نکالنے کے
ہزاروں کولھو تھے۔ چاول شکراورکپاس تینوں عربوں ہی کے طفیل ہسپانیہ میں آئے۔ جتنے
پھل اس وقت اس ملک میں ہیں ان کے باغات پہلے پہل انہی نے لگوائے۔ ان کے علاوہ
انہوں نے کئی نئی قسموں کے پودے مثلاً ادرک، زعفران، مُرِّمکّی متعارف کرائے۔انہوں
نے تانبے،گندھک، پارے او رلوہے کی کانیں کھولیں، ریشم کی پیداوار شروع کی، کاغذ
سازی اور پارچہ بانی کو رواج دیا، چینی او رمٹی کی ظروف سازی، لوہے،فولاد اور چمڑے
کی صنعتیں قائم کیں۔ قرطبہ کا مشتجر قالین نما کپڑا،مرسیہ کااُونی
کپڑا،غرناطہ،المّریہ اور اشبیلیہ کا ریشمی کپڑا،طلیطلہ کی فولاد اورسونے کی بنی
ہوئی چیزیں،شاطبہ کا کاغذ۔۔۔ ان سب چیزوں کی ساری دنیا میں مانگ تھی۔مالقہ
قرطاجنتہ الحلفاء، برشلونہ اور قادس کی بندرگاہیں درآمد برآمد کی بڑی بڑی منڈیاں
تھیں۔ اُندلس عربوں کے پاس ان کے زمانہ عروج میں ایک ہزار سے زائد تجارتی جہازوں
کا بیڑا تھا۔ڈینیوب کے کناروں پر ان کے کارخانے اور تجارتی نمائندے تھے۔ قسطنطنیہ
کے ساتھ ان کا ایک وسیع سلسلہ تجارت تھا جو بحرہ سود اور بحرہ روم کے مشرقی ساحل
سے لے کر اندردن ایشیا تک پھیلا ہوا تھا اور جو ایک طرف ہندوستان اور چین کی بندرگاہوں
تک اور دوسری طرف ساحل افریقہ کے ساتھ ساتھ بدغسقر تک پہنچتا تھا۔ ”دسویں صدی
عیسوی کے وسط میں، جب کہ یورپ کی وہی حالت تھی جو اب کیفر یریا (Caffraria) کی ہے،ابولقاسم
جیسے روشن ضمیر مور تجارت او رسودا گری کے اصولوں پررسالے لکھ رہے تھے۔“ تجارتی
مہم آزمائیوں کی حوصلہ افزائی کی خاطر اور سیر وسیاحت کے شوق کو ترقی دینے کی خاطر
جغرافیائی رجسٹر،فرہنگین او ررہنمائے مسافران کتابچے سرکاری طور پر شائع کئے جاتے
تھے، او ران میں مختلف مقامات کی جزُئی تفصیلات،راستوں کے کوائف اور دوسرے ضروری
امور درج کئے جاتے تھے۔ابن بطوطہ جیسے جہاں گرد معلومات کی جستجو میں غیر ملکوں کی
سیاحت کرتے تھے او رجن جن ملکوں میں جاتے تھے وہاں کے لوگوں پروہاں کے جانوروں اور
پودوں پر وہاں کی معدنی پیداوار پر،ان کی اب وہوا اور طبیعی خصوصحات پرضخیم کتابیں
لکھتے تھے جو فراست وکیاست اور صحت مشاہدہ کے حیرت انگیز نمونے ہوتی تھیں۔
علم وفن کا شوق صرف مردوں
کی خصوصی ملکیت نہ تھا۔عورتیں بھی مردوں کے برابر علمی اور ثقافتی سرگرمیوں میں
مصروف رہتی تھیں اور ادب و سائنس سے شغف رکھتی تھیں۔ ان کے علٰیحدہ دارلعلوم تھے۱؎۔ وہ طب اور فقہ کا
مطالعہ کرتی تھیں،بلاغت و بیان،اخلاقیات او رادب لطیف کے درس دیتی تھیں او رمردوں
کے دوش بدوش ایک شاندار تہذیب کے کارناموں میں شریک ہوتی تھیں۔ سلاطین اور وزراء
واُمراء کی بیویاں او ربیٹیاں اپنی جائداد یں دارالعلوم قائم کرنے،یونیورسٹیوں کو
مالی عطیات دینے، بیماریوں کے لئے شفا خانے کھلوانے اور مسکینوں،تیمیوں او ربیواؤں
کے لئے دارالامانوں کے بنوانے میں خرچ کرتی تھیں ۲؎۔
عرب قبیلوں کی باہمی
مخالفتوں اور رقابتوں نے اگرچہ مقامی زبانوں کو ایک دوسرے میں آمیز ہوکر ایک واحد
زبان نہ بننے دیا،لیکن اس قومی زبان کو جوحجاز میں بولی جاتی تھی الفاظ کے گجینے
سے مالا مال کردیا۔ عکاظ میں جو سالانہ میلہ ہوتا تھا او رجس میں شاعر ایک دوسرے
سے مقابلہ کرتے تھے اس نے بھی حجاز کی زبان کو صرنی ونحوی باضابطگی اور شُستگی
ورُفتگی بخشی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
اس قسم کا ایک مشہور ادارہ قاہرہ میں مملوک سلطا ن ملک طاہر کی بیٹی نے 684ھ میں
قائم کیا۔
۲؎
ہارون الرشید کی بیوی زبیدہ نے اس قبیل کے بہت سے دارالامان قائم کئے۔ عضد الدّولہ
کی بیوی نے جو شفاخانہ بنوایا وہ اس کے شوہر کے شفاخانے سے کسی طرح ہیٹا نہ
تھا۔ملک اشرف کی بیٹی خاتون نے دمشق میں ایک عظیم الشان کالج کی بنیاد رکھیں۔حمص
کے سلطان ناصر الدّولہ کی بیوی زمّروخاتون نے بھی حمص میں ایک کالج قائم کیا۔ کئی
مسلمان عورتوں نے شعروشاعر ی میں امتیاز حاصل کیا۔ حضرت فاطمہ بنت رسول صلی اللہ
علیہ وسلم شعرائے عرب میں اونچا پایہ رکھتی ہیں۔ اورنگ زیب کی بیٹی زیب النساء
(المتخلص بہ مخفی) بھی اس زُمرے میں ہے۔ جب ارکرٹ (Urquhart) نے ترکی کا سفر
کیا(باقی حاشیہ صفحہ 574 پرملاحظ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن حقیقت میں وہ قرآن
تھا جس نے عربی زبان کو اپنی اصلی اور خالص صورت میں برقرار رکھا۔”قرآن ہی وہ کتا
ب ہے جس کی مدد سے عربوں نے سکندراعظم کی فتوحات سے بھی زیادہ وسیع فتوحات کیں اور
روم کی سلطنت اپنی فتوحات مکمل کرنے میں صرف کی۔ قرآن ہی کے فیض سے انہیں یہ شرف
حاصل ہواکہ وہ تمام سامی اقوام میں پہلے لوگ تھے جو یورپ میں حکمران بن کر داخل
ہوئے،جہاں فینیقی تاجر بن کر آئے تھے او ریہودی پناہ گیر یا قیدی بن کر۔ یہ قرآن
ہی کی برکت تھی کہ انہو ں نے ایسے وقت میں جب چاروں طرف تاریکی چھائی ہوئی
تھی،یونان کے علم و حکمت کو دوبارہ زندہ کیا،مغرب کو فلسفہ،طب،ہیئت اور موسیقی کا
زرّیں فن سکھایا جیسے انہوں نے یہ چیزیں مشرق کو سکھائی تھیں،تہذیب کے گہوارے کی
نگہبانی کی اور ہم بعد میں آنے والوں سے اس دن کا ماتم کرایا جب غرناطہ ان کے قبضے
سے نکل گیا۱؎“۔قرآن
کی زبان کے بے تصنّع عظمت،اس کے انداز بیان کی بیساختہ دلکشی،اس کی تشبیہوں اور
استعاروں کا تنّوع اس کی کیفیات مزاج کی بجلی کے کوندوں سی تبدیلیاں،جن میں کہیں
معلّم اخلاق ہدایات دے رہا ہے،کہیں فلسفی نظریئے پیش کررہاہے،کہیں آزردہ محب وطن
اپنے ہم قوموں کی اخلاق سوزی اور ذلّت کی پرُجوش مذّمت کررہاہے او رکہیں خود خدائے
غفور الّرحیم اپنے نبی کے ذریعے اپنے بھٹکے ہوئے بندوں کو راہِ راست کی طرف بلا
رہا ہے۔۔ ان سب چیزوں نے مل کر قرآن کو صحائف دینی میں ایک امتیازی شان بخشی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 573) قواس وقت وہاں تین خواتین صف اوّل کے شعراء
میں شمار ہوتی تھیں اور ان میں سے ایک سلطان مصطفی کی پرائیویٹ سکرٹری تھی۔
۱؎
ڈوئچ (Deutsch)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کلا م کو سن کر شعرائے
وقت پرجو ہیئت طاری ہوگئی اور ان کے دلوں میں جو جذبہ تعظیم وتکریم پیدا ہوا اس سے
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام لوگوں کے دلوں پر اس نے کتناگہرا اثر کیا ہوگا۔یہ
کلام مختلف وقتو ں میں نازل ہواکبھی ستم رسیدگی اوررنج والم کے لمحوں میں،کبھی
مستعدانہ سرگرمیوں کے دوران کبھی لوگوں کو عملی ہدایات دینے کی ضرورت پیش آنے
پر۔لیکن وہ چاہے کسی کیفیت میں نازل ہوا،شروع سے لے کر اخیر تک اس کے ہر لفظ میں
ایسی تاثیر،ایسی سنجیدگی،ایسی توانائی کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی ہے جو کسی او رمذہبی
کتاب میں ہیں ملتی:۔
مبادا یہ سمجھا جائے کہ
ہماری رائے طرف داری پر مبنی ہے۔ ہم اس عظیم مستشرق کی رائے سے جس کاہم پہلے بھی
حوالہ دے چکے ہیں ایک اور اقتباس پیش کرتے ہیں:۔
”عربی کی خطیبا نہ شوکت،آواز کے یروبم سے خوشی وغم،محبت و شجاعت
اور ولولہ وجوش کااظہار کرنے کی قوت جس کی صرف ایک مدھم سی گونج ہمارے کانوں تک
پہنچتی ہے،نزول قرآن کے وقت اپنی بلند آہنگی کے پورے عروج پر تھی۔ ضروری تھاکہ
قرآن نہ صرف اپنے زمانے کے بہترین خطیبوں اور شاعروں کی برابری کرے،بلکہ ان پر
سبقت لے جائے تاکہ اس کے کلام او رلحن کی فوقیت بجائے خود اس کے پیغام کی سچّائی
کی علامت وشہادت ہو۔۔۔ اس سے پہلے کے شاعروں نے عشق و محبت کے نغمے گائے تھے۔۔
غترہ،جو خود عرب کی مشہور ترین داستان کاہیرو ہے،اپنی محبوبہ عَبلہ کے مکان کی
بربادی کے مرثیے گاتا ہے۔ اس کے خیالات ان کھنڈروں کے ارد گرد منڈلاتے رہتے ہیں
لیکن عَبلہ ان سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوچکی ہے۔قرآن میں اس قسم کی داستانیں نہیں
ملتیں۔ اس کاکلام عشقیہ شاعری نہیں۔ اس دنیا کی خوشیاں،تیغ آزمائی، ناقہ سواری،رشک
ورقابت،انتقام ودشمنی،قبیلوں کی بڑائیاں، اگلوں کی تعریفیں،انسان کی بے معنی
اورچند روزہ زندگی۔۔۔یہ چیزیں قرآن کے موضوع نہیں۔ اس کا موضوع ہے اسلام اور اسلام
کی تعلیم قرآن نے آسمان کے پردے پھاڑ کر او رزمین کے طبق اُلٹ کردی، آسمان اور
زمین سے شہادت پیش کرکے دی، زندوں اور مردوں کو گواہ بنا کردی۔“
ایک اور بڑا مصنف قرآن کے
بارے میں یہ کہتاہے:۔
”اگر قرآ ن کاکلام شاعری نہیں، او ریہ کہنا مشکل ہے کہ وہ شاعری ہے
یانہیں، تو وہ شاعری سے کوئی بڑی چیز ہے۔ وہ تاریخ نہیں سیرت نگاری نہیں۔ حضرت
عیسیٰ ؑ کے پہاڑ ی وعظ کی طرح وہ مقولہ اور کہاوتوں کا ایک گلدستہ نہیں،بدھ مت کے
سُوتروں کی طرح ایک فلسفیانہ بحث نہیں۔ افلاطون نے دانا اور نادان استادوں سے
جومذاکرے کئے ان کی طرح دانشمندانہ نصیحتوں کا ایک مجموعہ نہیں۔ وہ ایک پیغمبر کی
پکار ہے، ایک سامی پیغمبر کی پکار،سامیت کی تمام خصوصیتیں لیے ہوئے لیکن اس کی
پکار کے معنی اتنے عالمگیر ہیں اور اتنی بروقت ہے کہ اس زمانے کی تمام آوازیں
چاہے، بخوشی چاہے مجبوراً،اسے دہراتی ہیں،تا کہ محل اور صحرا، شہر او رملک اس سے
گونج اٹھتے ہیں۔ پہلے تو وہ اپنے خاص مخاطبوں کے سینوں میں دنیا کی تسخیر کاولولہ
پیداکرتی ہے،پھر وہ ایک تعمیر قوت بن جاتی ہے تاکہ اس کے ذریعے یونان اور ایشیا کی
ساری تخلیق روشنی عیسوی یورپ کی گہری تاریکی کا پردہ چاک کرکے اس کے اندر داخل
ہوجائے، کیونکہ عیسائیت اس وقت رات کی ملکہ تھی۱؎۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
جانسن (Johnson)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادب وانشاء کی تمام بڑی
بڑی اصناف میں جو انسان کی ذہنی کار پروازیوں کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہیں،مثلاً
اخلاقیات،مابعد الطبیعیات،منطق او ربلاغت وبیان مسلم مصنفین سینکڑو ں کی تعداد میں
ہیں۔ شاعری میں مسلمانوں پرکوئی سبقت نہیں لے گیا۔عربوں کے شاعر متنبی سے لے کر
(قطع نظران شعراء کے جو پیغمبر اسلام کے ہم عصر تھے) حال تک شاعروں کا ایک
لامتناہی سلسلہ چلاآرہاہے۔ متنبی نویں صدی عیسوی میں ہوا او راسے امیر سیف الدّولہ
(ابوالحسن علی بن حمدان) کی سرپرستی نصیب ہوئی۔ اس کے بعد ابن ورید۱؎،ابولعلاء۲؎، ابن فارض ۳؎، طنطرانی۴؎ اور بیشمار دوسرے شاعر
آئے۔اُندلسی عرب وہبی شاعر تھے: انہوں نے شاعری کی مختلف اصناف ایجاد کیں جن کا
تتبع بعد میں مغربی یورپ کے عیسائی شعرا ء نے کیا۔ اُندلس کے عرب شاعروں میں
مشہورترین نام احمد ابن محمد(ابوعمر۵؎)
کا ہے۔محمود کے دربار میں جو شعراء ہوئے ا ن کا تذکرہ ہم اوپر کرچکے ہیں۔ ان میں
فردوسی،جس نے ایران کے بادشاہوں اور بہادروں کو حیات ثانیہ بخشی،شہرت میں محمود
کاحریف ہے، جس کی اس نے پہلے تعریف او ربعد میں ہجو کی۔ بعد کے غزنوی بادشاہوں کے
عہد میں چندبہت بڑے شاعر ہوئے۔مثلا عوزنی ۶؎،جو فارسی عروض کا موجد تھا، رشید
وطواط،قصیدے کے استاد انوری۷؎،
خاقانی ۸؎
اور ظہیر فاریابی۹؎۔صوفی
شعراء سنائی۰۱؎،
جس کا ”حدیقہ“ فارسی شاعری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
متوفی 933ء
۲؎
متوفی 1057ء
۳؎متوفی
1255ء
۴؎
متوفی 1092ء
۵؎
1175ء،596ھ
۶؎
1177ء،573ھ
۷؎
انوری نے سلطان سنجر پرجو قصیدہ کہا وہ فارسی زبان کے بہترین قصیدوں میں شمار
ہوتاہے۔ سودا نے اپنے اس قصیدے میں جو اس نے نواب آصف الدّولہ کی شان میں کہا بڑی
کامیابی سے انوری کا تتبع کیا۔
۸؎
1886ء،586ھ
۹؎
1202ء،598ھ
۰۱؎
1186ء،576ھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کا مایہ ناز ہے اورفرید
الدین عطّار ۱؎۔اور
مثنوی گونظامی جس نے خسرو اور شیریں کی داستان محبت اورسکندر کی کارگزاریاں بیان
کیں۔ اتابکوں کے عہد میں،جو سلجوقیوں کے زوال کے بعد برسراقتدار آئے،اخلاقی شاعر
سعدی اور صوفی شاعر جلالدین رومی ہوئے۔ تیمور کے زمانے میں حافظ نغزگوہوا،جسے
ایران کااینکریون (Anacreon) کہتے ہیں۔اقلیم شاعری کے ناموروں میں سے یہ محض چند ایک کے نام
ہیں۔مسلمانوں نے شاعری میں جو کمال کر دکھائی انہیں ابن خلکا ن او رلطف علی آذر۲؎ اس سے زیادہ بلیغ
پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔
یہ تھے مسلمانوں کے
کارنامے علم و ادب کے میدان میں،اور یہ سب کچھ معلّم اسلام کے فیضان سے ہوا۔ اس کی
آواز نے انہیں اس قعرِوحشت وجہالت سے نکالا جس میں وہ حال ومستقبل کی کسی امید کے
بغیر پڑے ہوئے تھے اور اب وہ نکلے تو انہوں نے دنیا میں اجالا کردیا۔ پسماندہ اور
ستم رسید ہ انسانیت کو ایک نئی زندگی اور تہذیب و تمدن کی دولت مل گئی۔ ادھر یورپ
کے وحشی،جنہوں نے ایک ناتوان ونزارسلطنت کا تختہ اُلٹ دیا تھا،جہالت اور بہمیت کی
تاریکی میں بھٹک رہے تھے او رادھر مسلمان ایک عظیم الشان تہذیب کی عمارت کھڑی
کررہے تھے۔ یورپ کی اخلاقی وذہنی ویرانی وخراب حالی کی طویل صدیوں میں اسلام ترقی
کاہر ادل تھا۔ عیسائیت نے اپنے آپ کو قیصروں کے تخت پر تومتمکن کرلیا تھا،لیکن وہ
اقوام عالم کو نئی زندگی نہ بخش سکی تھی۔ چوتھی عیسوی سے لے کر بارھویں صدی تک
یورپ کی تاریکی بڑھتی ہی چلی جارہی تھی۔ شدید تعصب کے اس دور میں کلیسائیت نے تمام
وہ روزن بند کررکھے تھے جن میں سے علم، انسانیت یا تہذیب کی روشنی داخل ہوسکتی
تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎1190ء
586ھ
۲؎
لطف علی آذرکا ”آتشکدہ“ فارسی شعراء کاتذکرہ ہے جس میں ان کے سوانج حیات اور کلام
کے نمونے دیئے گئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چنانچہ جہالت کے اس حصن
حصین میں اسلام کی باریابی کے تمام رستے مسدور تھے۔ اس کے باوجود اسلامی تمدن کے
فیض رساں اثرات رفتہ رفتہ عیسوی دنیا کے ہر گوشے میں سرایت کرگئے۔
سلونو،بغداد،دمشق، قرطبہ،غرناطہ او رمالقہ کی درسگاہوں سے فلسفے کی مشفقانہ
تعلیمات اور سائنس کی مقابلۃً سخت عملی ہدایات دنیا کو تہذیب کے سبق دیتی رہیں ۱؎۔
عقلیت کے پہلے مظاہر مغرب
کے اس حصے میں نمودار ہوئے جو سب سے بڑھ کر اسلامی دنیا کے زیر اثر آیا۔کلیسائیت
نے اس نورس کلی کو مسل ڈالا اور دنیاکی ترقی کو تین صدیاں پیچھے دھکیل دیا۔لیکن
آزادیئ فکر کے اصول جو اسلام کی اصل و اساس ہیں، مسیحی یورپ میں نئی روح پھونک چکے
تھے۔ایبیلادو (Abelard) ۲؎
ابن رشد کی تعلیمات سے جو مغربی دنیامیں روشنی پھیلارہی تھیں کسب صو کرچکا تھا۔ اس
نے فکر آزاد کے حق میں اعلان جنگ کیا جس کی بدولت عیسائی دنیا کو بالآخر عیسائیت
کی حلقہ بگوشی سے رہائی ملی، ابن باجہ اور ابن رشد دیکارت۳؎ (Descartes) ہابز۴؎ (Hobbes)اور لاک ۵؎(Locke) کے پیش رو تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
اسلام نے ذہنی ارتقاء کو جو محّرک مہیا کیا اس کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ اس کے فیض
اثر سے ترقی کی دوڑ میں ایسی قوموں نے بھی حصہ لیا جو اس وقت تک بے خبری کی نیند
سو رہی تھیں۔اسلام نے انسانیت کی نبض میں تیزی پیدا کی او رمری ہوئی مرتی ہوئی
قوموں میں زندگی کی لہر دوڑادی۔
۲؎
plerre
Abelard 1079ء
تا 1142ء۔فرانسیسی فلسفی اور عالم دینیات
۳؎
Rene
Descartes 1596ء
تا 1650ء فرانسیسی فلسفی اور ریاضی داں
۴؎
Thomas
Hobbes 1588ء
1679ء انگریز فلسفی
۵؎
John
Locke 1623ء
تا 1704 ء انگریز تجربی فلسفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایبیلا رد اور اس کے مکتب
کے خیالات جلد ہی انگلستان میں نفوذ کرگئے۔ وِکلف۱؎ (Wycliffite)کی جدت فکر اور
آزادی روح اس کے پیش روؤں کے جرأت آمیز خیالات کی مرہون منّت تھی۔ بعد کے جرمن
مصلحین نے اپنے خیالات ایک طرف تو قسطنطنیہ کے بُت شکنوں سے اور دوسری طرف
البیجنیوں ۲؎
(The Albigenses) اور وکلفیوں (The Whcllffites) سے مستعار لے کر اس
اصلاحی کام کو جو دوسروں نے غیر ملی عقلیاتی اثرات کے تحت شروع کیا تھا پایہ تکمیل
کو پہنچایا۔
جب مسیحی یورپ نے علم و
دانش کو جبر و تشّدد کلاتختہ مشق بنا رکھا تھا، جب خلیفۃ المسیح نے خود اپنے
ہاتھوں سے فکر آزاد کے طفل شیر خوار کا گلا گھونٹا او راس کی ابتدائی تتلاہٹوں کو
خاموش کردیا، جب پادری لوگ ہزاروں بے ضرر انسانوں کو محض عقلی بے راہ روی کی بناء
پر آگ کا ایندھن بنانے میں پیش پید تھے، جب مسیحی یورپ لوگوں کے سروں پر سے خبیث
روحوں کا سایہ اتارنے او رمقدّس ہڈیوں اور چیتھڑوں کی پوجا کرنے میں مصروف تھا،ایک
ایسے زمانے میں مسلمان بادشاہوں کے زیرسایہ علم کا بول بالا تھا اور وہ یوں پھل
پھول رہا تھا کہ جیسا پہلے کبھی نہ پھلا پھولا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے
خلیفوں نے ترقی تہذیب کو فریضہئ منصبی بنا لیا او رآزادیئ فکر ورتحقیق کو جس کی
ابتدا ء خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کی اور جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے اپنے قول وفعل کے ذریعے تقّدس بخشا تھا،فروغ دیا۔انہوں نے مذہب کے خاطر جبرنہ
کیا اور چاہے ان کا سیاسی کردار کیسا ہی تھا،جیسی رواداری اور غیر جنیہ داری انہو
ں نے تمام مذہبو ں سے برتی اس کی نظیر ان سے پہلے دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
طبیعی علوم کی تحصیل او رپرورش جو کسی قوم کی ذہنی آزادی کی سب سے بڑی نشانی
ہے،مسلمانوں کا ایک مرغوب مشغلہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
John
wycliffe 1320ء
تا 1384ء انگریز مذہبی مُصلح جس نے انجیل کا ترجمہ انگریزی میں کیا۔
۲؎
The
Abbigenses
جنوبی فرانس کے شرآلبی کا ایک مذہبی فرقہ جو 1020ء سے 1250ء تک قائم رہا جسے الحاد
کی بناء پر ختم کردیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عربوں کو جو دو ناکامیاں
ہوئیں، ایک تو قسطنیطیہ کے محاذ پر اور دوسری فرانس میں، انہوں نے دنیا کی ترقی کو
صدیوں کے لیے روک دیا۔اگر عربوں کو مال غنیمت سمیٹنے کی نہ پڑگئی ہوتی اور ان کا
آپس میں اتفاق رہتا اور اگر وہ شارلزمارتل (Charles
Martel)
کے وحشی لشکر کو مار بھگاتے تو دنیا کی تاریخ کے تاریک ترین دور کی داستان کبھی نہ
لکھی جاتی۔ تحریک احیاء العلوم،تہذیب کی بحال،عقل وفکر کی آزادی،یہ سب چیزیں جس
وقت ظہور میں آئیں اس سے کئی صدیاں پہلے آگئی ہوتیں ایلبی جینیوں (The
Albigenses)
اور ہوگناٹوں (The Huguenots) کے زمانے میں انگریز پروٹسٹنٹوں کے ہاتھوں آئرلینڈ کے کیتھولکوں
کے کُشت و خون کی رونگٹے کھڑے کردینے والی سرگزشتیں پڑھ کر ہمیں اپنے دل کو رنج نہ
پہنچانا پڑتا۔ ہمیں برونو ۲؎
(Bruno) اور سروتیس۳؎(Servetus) کا ماتم نہ کرنا
پڑتا،جنہیں ایسے لوگوں نے جنہوں نے مادرِ کلیسا کے خلاف بغاوت کردی تھی، موت کے
گھاٹ اتاردیا۔اوتودا نے۴؎
(auto-da-fe) کی جگر خراش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
فرنگیو ں یعنی Franks کا بادشاہ جس نے مسلمانوں کو تُور Tours کے مقام پر 732ء میں
شکست دی اور ان کی فتح یورپ کو روک دیا۔715ء تا 741ء۔
۲؎
جو روانوبرونو 1548 ء تا 1600ء۔اطالوی فلسفی جس نے کوپرنیکس کے نظریہ فلکیات کی
تائید کی اور اس جرم کے لئے ”انکوئی زیشن“(The Inquisition) کے حکم سے زندہ جلا
دیا گیا۔
۳؎
ہسپانوی طبیب اور طبیعیات دان (1511ء تا 1553ء) جسے الحاد کے الزام پرنذر آتش
کردیا گیا۔
۴؎
Auto-Da-Fa پرتگال زبان کی ایک
(باقی حاشیہ صفحہ 582 پرملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داستان،انکوئی زیشن کے
بہیمانہ قتلوں کی روئداد،ازٹکوں ۱؎
(The Aztecs) اور اِنکول۲؎
(The Incas) کے قتل عام کے روح فرسا قصے ہی سالہ جنگ (The
Thirty Years War)
او راس کی نازل کی ہوئی مصیبتوں کی دل دہلادینے والی کہانی۔۔۔ ان سے کسی کے لکھنے
جانے کی نوبت نہ آتی۔سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ ہسپانیہ، جو کسی زمانے میں علم و
فن کا ملجا وماویٰ تھا، صدیوں کی گراں بہا میراث کھو کر ذہنی اعتبار سے ایسا ویران
نہ ہوجاتا جیسا و ہ اب ہے۔ کون ہے جسے اس عالی ظرف قوم کے انجام کاحال پڑھ کر قلق
نہ ہوا ہو جسے عیسائی بادشاہوں کے مجنونانہ تعصب نے اس وطن مالوف سے دیس نکالا دیا
جسے اس نے اقوام عالم میں ممتاز کردیا تھا۔ کسی نے کیسے منصفانہ طور پرکہا ہے:۔
”وہ ایک منحوس گھڑی تھی جب غرناطہ کے میناروں پر صلیب نے ہلال کی
جگہ ل لی۔“
ابن رُشد اور ابن باجہ Waladch اور عائشہ اور دوسری
رفتگان بزرگ کی روحیں اپنی قوم کی بنائی ہوئی عالیشان عمارتوں کے کھنڈروں میں
بیٹھی رورہی ہوں گی، جہاں اب نہ وہ اگلی سی شاعری او رموسیقی کی محفلیں ہیں، نہ وہ
سپاہ گری کے کرتب،نہ وہ علم و دانش کی درس و تدریس او رجہاں اگر اب کوئی آواز
سنائی دیتی ہے تو صرف مذہبی مناظروں اور سیاسی مجادلوں کے شور وغل کی گونج۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 521) ترکیب ہے جس کے معنی ہیں ”عمل ایمان“اِنکوئی
زیشن کے زیر فرماں اہل بدعت پر مقدمہ چلانے،انہیں سزا کا حکم سنانے اور پھر انہیں
زندہ جلادینے کے سارے عمل پر اس ترکیب کا اصطلاعاً اطلاق ہوتا تھا۔
۱؎
ازٹک میکسیکو کے قدیم باشندے تھے جنہوں نے ایک قدیم اور ترقی یافتہ تہذیب قائم کی
تھی او رجو ہسپانیو ں کے آنے سے پہلے میکسیکو میں حکمران تھے۔
۲؎
اِنکہ پیرو کے قدیم باشندے تھے جو ہسپانوی فتح سے پہلے وہاں آباد تھے اور جو ایک
اعلیٰ تہذین کے مالک تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عیسائیت نے ان مسلم
اندلوسیوں کے نام لیواؤں کو نکال کر صحرا میں دھکیل دیا اور جوخوبصورت سرزمین ان سے
چھینی اس کا تمام عرق زندی نچوڑ کر اسے ایک ذہنی واخلاقی صحرا بنا دیا ۱؎۔
اگر مسلمہ قسطنطنیہ کو
فتح کرنے میں کامیاب ہوجاتا،جو صحیح العقیدگی کی پرُ جوش حامی او راپنے سگے بیٹے
کی قاتلہ ملکہ آئرین (Irene) کا دارالحکومت تھا تو وہ سیاہ کارنامے جن سے اسوریوں (The
Issurians)
کو منینیوں (The Comneni) ۲؎
اور پیلییو لوگیوں (The Palaeologi) کی تاریخ کے صفحات داغدار ہیں، وہ دہشت ناک نتائج جو لاطینیوں کی
تسخیر ناز نطین سے پیدا ہوئے اور ان سے بھی بڑھ کر وہ ناپاک محاربے جن میں عیسوی
یورپ نے ایشیائی قوموں کا گھلاگھونٹنے کی کوشش کی غالباً کبھی معرض وقوع میں نہ
آتے۔بہر حال ایک بات یقینی ہے وہ یہ کہ اگر قسطنطنیہ پر مسلمانو ں کا قبضہ ہوجاتا
تو بُت شکنی کی تحریک ناکام ثابت نہ ہوتی اور عیسوی کلیسا کی اصلاح بہت پہلے
ہوچکتی۔لیکن مشیت ایزدی کو کچھ اور منظور تھا۔ فکر آزاد کی وہ لہریں جو اسلامی
علاقوں سے اٹھ کر اِسَوری شہنشاہوں کی مملکت میں پہنچیں جہالت،قوم پرستی اور تعصّب
کی چٹانوں پر سرپٹک کر رہ گئیں۔ فکر آزاد کی قوّت اس وقت تک محسوس نہ کی گئی جب تک
سیلرنر اورقرطبہ کے مکاتب کے شترک عمل نے یعنی ابن رُشد او غالباً چند سرچشمہ
اسلام سے فیض یافتہ یونانیو ں کے مجموعی اثر نے کلیسائیت کی فصیل کو توڑ نہ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
مسلمانوں کے عہد حکومت میں اسپین کی جو اقتصادی حالت تھی اورعلوم وفنون نے جو ترقی
وہاں کی اس کے تفصیلی حالات کے لیے ملاحظہ کیجئے۔
A Short History of the
Saracens
۲؎
بازنطینی سلطنت کے تین حکمران خاندان۔(مترجم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام نے ذہنی آزادی کی
حکومت قائم کی۔صحیح طور پر کہا گیا ہے کہ جب تک اسلام نے اپنے شمائل کو برقرار
رکھا اس وقت تک وہ علم و تہذیب کا پرجوش حامی او رسرپرست،ذہنی آزادی کا محب ومعاون
رہا۔لیکن جب خارجی اثرات نے اس میں نفوذ شروع کیا اسی وقت سے وہ ترقی کی دوڑ میں
پیچھے رہنے لگا۔
لیکن مسلمانو ں پر دورِ
حاضر میں جو جمود طاری ہے اس کی توجیہ کے لیے ضروری ہے کہ بارہویں اور سترہویں صدی
عیسوی کے درمیان ہسپانیہ،افریقہ اور ایشیا میں جو واقعات ظہور پذیر ہوئے ہم ان پر
دوبارہ نگاہ ڈالیں۔ہسپانیہ میں عیسائیت نے لوگو ں کی ذہنی زندگی تلف کر دی۔
مسلمانوں نے ہسپانیہ کو ایک باغ بنادیا تھا۔ عیسائیوں نے اس ایک صحرا میں تبدیل
کردیا۔ مسلمانوں نے ملک کے چپے چپے پر مدرسے اور دارلعلوم قائم کئے تھے عیسائیوں
نے انہیں مقدس شخصیتوں اور بتوں کی پوجا کے لیے گرجوں میں تبدیل کردیا۔ مسلمان
بادشاہوں نے علم وسائنس کے جو ذخیرے جمع کئے تھے عیسائیوں نے انہیں جلا کر راکھ
کردیا۔مسلمان مرد،عورتیں اور بچے چن چن کر ذبح کئے گئے یا زندہ جلادیئے گئے۔جو
تھوڑے سے بچ گئے انہیں غلام بنالیا گیا، جو بچ کر بھاگ نکلے وہ افریقہ کے ساحلوں
پرجاجاکر بے خانماں فقیروں کی زندگی بسر کرنے لگے۔ہسپانیہ کے عیسائیو ں نے اندلسی
مسلمانوں پر جو مظالم توڑے انہیں فراموش یا معاف کرانے کے لئے حضرت عیسیٰؑ اور
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کا مشترک عفور رحیم درکار ہوگا۔بہر حال سزا
میں دیر نہ لگی۔ایک صدی بھی نہ گزرنے پائی تھی کہ ہسپانیہ کا آتشکدہ ٹھنڈا پڑگیا۱؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
مغربی افریقہ میں فاطمی حکومتوں کے زوال کے بعد ایک خاندان جس کا جدّامجد مقابی
”مربوط“ (دلی) تھا برسراقتدار آئی، جسے اپنے بانی کی مناسبت سے المرابطہ کہا
جاتاہے۔ ابن زُہر کا مربیّ یوسف ابن تاشقین اسی خاندان سے تھا۔ کاس کا بیٹا
المرعدّین کے بانی عبدالمومن کے ہاتھوں مارا گیا۔ عبدالمومن نے مراکش اور فاس کو
تاخت وتاراج کیا۔ موحدّین وسطی عرب کے وہابیوں اور اخوان سے قریب کا رشتہ رکھتے
تھے اور غالباً لیبیا کے مہدیوں سے بھی کچھ بہت مختلف نہیں تھے۔ اس خاندان کے پہلے
دو بادشاہوں،عبدالمومن اور یوسف نے علوم وفنون کی پرورش کی لیکن(باقی حاشیہ صفحہ
585پر ملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مغربی افریقہ میں تیسرے
الموحّد حکمران کے دورِ حکومت میں ملاُئیت نے جو زور پکڑا او ربربروں نے جو مذہبی
جوش دکھایا ان دونوں نے مل کر ترقی کے دھارے کارُخ پلٹ دیا،صدیوں سے آگے بڑھتی
ہوئی تہذیب کے قدم روک لے اور علوم وفنون کے مرکزوں کا تعصب اورجہالت کے مرکز
بنادیا۔ بربری کے ساحل پرکورسئیروں (The Crsairs) کے آباد ہونے اور
آخری مملوک سلاطین کے تخت جو نراج پھیلا اس نے پرامن علمی کارروائیوں کی حوصلہ
شکنی کی۔ ایشیا میں خاندان تیموری کے زوال اور غیر متمدن او رمتعصب اُزیحوں کے
تیموری دارالحکومت پر قابض ہونے لوگوں کی ذہنی طاقتوں کو تلف کردیا۔ ایران میں
صفویوں کے تحت سائنس اور ادب میں نئے سرے سے جان پڑ گئی۔لیکن یہ نشاۃ الثانیہ محض
عارضی ثابت ہوئی۔ وحشی غزیوں Ghihzais کے فتنے نے بہت جلد
اس کا خاتمہ کردیا۔ وسطیٰ ایشیاء کے ان بدقسمت ملکوں پرایک مُردنی سی چھا ئی ہوئی
ہے،البتہ افغانستان میں یہ آہستہ آہستہ رفع ہورہی ہے۔
عثمانی قلمرو میں سلیم
اوّل،سلیمان اور مُرادین کے ماتحت علم کی قدرہوئی لیکن عثمانی بحیثیت مجموعی فوجی
لوگ تھے۔پہلے تو اپنے فاتحانہ عزم پورے کرنے کے لیے لیکن بعد میں مجبوراً اور اپنی
حکومت برقرار رکھنے کے لیے وہ ایک بے پناہ دشمن سے برسر پیکار تھے جس کی فتنہ
پروازی کی کوئی حد نہ تھی اور جس کے ارادوں کا کچھ پتہ نہ لگ سکتا تھا۔ وہ دشمن اب
نیست ونابود ہوچکا ہے لیکن ترک قوم کو ابھی اپنی بقا کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔ایسے
حالات میں ادب وفن کا پنپنا معلوم۔ اسلام پررجعت پسندی کا جو بہتان باندھا جاتاہے
اس سے بحث کرتے ہوئے موسیو گوبینو(Gobineau) یہ لکھتا ہے کہ:۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقیہ حاشیہ صفحہ 584)
تیسرے بادشاہہ یعقوب المنصور کے عہد حکومت میں تعصب کو عروج ملا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”یورپ کے کسی ملک میں ڈھائی سوسال تک اس قسم کی فوجی اور سیاسی
آمریت تصورکیجئے جیسی کہ ترکی میں رہی ہے،اس طرح کا جنگی مزاج خیال میں لائیے جیسا
کہ غیر ملکی غلامو ں،سرکیشنیوں،گُرجستانیوں،ترکیوں او رالبانیوں کے زیر اقتدار مصر
میں رہا ہے،وہ حملے جو افغانوں نے 1730ء کے بعد ایران پر کئے ان کا نقشہ ذہن میں
جمائیے،نادرشاہ کے جبر واستبداد کی او راس ظلم وستم اور تاخت و تاراج کی خیالی
تصویر کھینچئے جوقاچاریوں کے تخت نشین ہوتے وقت ظہور میں آئی۔ ان سب واقعات کو ان
کے اسباب و عوارض کے ساتھ یکجا کیجئے تو پھرآپ کی سمجھ میں آئے گا کہ اگر کسی
یورپی ملک میں یہ سب کچھ ہوا ہوتا تو ایک یورپی ملک ہونے کے باوجود اس کا کیا حشر
ہوتا اور آپ کو مشرقی ملکوں کی تباہی وبربادی کے اسباب معلوم کرنے کے لئے کوئی
مزید تجسس نہ کرناپڑے گا نہ آپ کو اس امر کی ضرورت پیش آئے گا کہ اسلام پر کوئی
بھی غیر منصفانہ الزام عائد کریں۔“
ساتویں صدی عیسوی سے لے
کر جب کہ اسلام کا ظہور ہوا۔سترہویں صدی عیسوی تک (بعد کی صدیوں سے قطع نظر) اسلام
میں ایک سائنسی اور ادبی روح کا ر فرما تھی جو اتنی ہی قوی تھی جتنی وہ روح جس کا
مظاہرہ جدید یورپ کررہا ہے۔ اس نے مسلمانوں کو ترقی کی ایک لہر پڑ اٹھا کر آگے
بڑھا دیا او رانہیں اعلیٰ درجے کی مادّی خوشحالی او رذہنی نشوونما حاصل کرنے کی
توفیق بخشی۔گاتھوں (The Goths) اور وینڈلوں (The Vandals) کے فتنے کے بعد سے
یورپ کی ترقی کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا۔ جب ایٹلا (Attila) فرانس سے واپس گیا۔
اس وقت سے لے کر اب تک یورپ کو ایسی کسی آفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا جیسی تاتاریوں
او راُزبکوں کی صورت میں ایشیا پرنازل ہوئی۔ اس نے جو جنگیں لڑیں وہ ضرور شدید
تھیں، خونریز تھیں،انسانیت سوز تھیں،لیکن وہ انسانیت یا عدم انسانیت کی مساوی
شرائط پرلڑی گئیں۔کیتھولکوں او رپروٹسٹنٹوں نے بیشک ایک دوسرے کو زندہ جلایا
ہے،لیکن غریب اُندلسی مسلمانوں کے قتل عام سے لے کر اب تک یورپ کو کوئی ایسا حادثہ
پیش نہیں آیا جس کا مقابلہ اس جلاّد انہ کُشت وخو ن سے کیا جاسکتا ہو جو تاتاریوں
نے تہذیب و ثقافت کے تمام مرکزوں میں کیا اور جس نے وہ تمام صاحب کمال طبقے تباہ
کردیئے جو اُمّت مسلمہ کی ریڑھ کی ہڈی تھے۱؎ او راب
پردہ داری می کند درقصر
قصیر عنکبوت بوم
نوبت می زندگرگُبند افراسیاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
منگولوں نے بغداد میں جو ہنگامہ تاخت وتاراج برپا کیا وہ اس ہنگامے کا نمونہ تھا
جو انہوں نے دوسرے شہروں میں برپا کیا۔ لیکن ان وحشیوں نے جو دہشت ناک مظالم توڑے
ان کا خاطر خواہ نقشہ کھینچنے کے لئے کسی گبّن ثانی کی ضرورت ہے۔ تین دن تک کوچہ
وبازار میں لہو کی ندیاں بہتی رہیں،یہاں تک کہ کئی میلوں تک دریائے دجلہ کا پانی
سرخ ہوگیا۔ لوٹ مار،کُشت وخون، حُرمت شکنی،عصمت دری اور انسانیت سوز افعال کاسلسلہ
چھ ہفتوں تک جاری رہا۔ محل، مسجدیں او رمقبرے جلا دیئے گئے یا منہدم کردیئے گئے
تاکہ ان کے گنبدوں پر جو سونا تھا وہ اتار لیا جائے۔شفاخانوں میں مریضوں کو اور
مدرسوں اور مکتبوں میں استادوں اور طالب علموں کو تہ تیغ کردیاگیا۔ مقبروں میں سے
مشائخ دائمہ کے فانی باقیات اور جامعوں میں سے علماء وفضلاء کی غیر فانی تصنیفات
نکال نکال کر راکھ کے ڈھیر کردی گئیں۔ کتابوں کو یا تو آگ میں پھینک دیا گیا یا
اگر آگ نزدیک نہ تھی او ردجلہ قریب تھا تو انہیں دریا کے سپرد کردیا گیا۔ اس طرح
پانچ صدیوں کا جمع شدہ خزانہ علم وحکمت ہمیشہ کے لیے نوع انسانیت کے ہاتھوں سے
جاتا رہا۔ قوم کے برگزیدہ اشخاص کو چن چن کر مارا گیا لیکن ان میں سے دواہم اشخاص
بچ گئے۔ ہلاکو کا قاعدہ تھا کہ وہ جس ملک میں سے گزرتا مصلحتہً وہاں کے چند
شہزادوں او رعمائد سلطنت کو اپنے ساتھ لے جاتا۔ ان میں سے ایک سعد بن زنگی تھا جو
فارس کا اتابک تھا معلوم ہوتا ہے کہ سعدی بھی اپنے دوست اور مربّی کے ساتھ ہولیا
چنانچہ اس نے بغداد کی تباہی اور اس کے باشندوں کو جگر خراش مصیبتوں کا نظّارہ
اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ ذیل کے دو دردناک ابیات میں (جو اس کے مشہور شہر آشوب سے
مقتبس ہیں۔ مترجم) اپنے جذبات کو بیان کرتاہے:۔
آسماں راحق بود گرخوں
ببار وبرز میں
برزوال ملک مستعصم امیرالمومنین
اے محمدؐ گوقیامت صربروں
آری زخاک سربروں آر
وقیادت درمیان خلق ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Related Article:
URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-36/d/124945
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism