سید امیر علی
(قسط 34)
5 جون 2021
تعلموالعلم نان تعلمہ
اللہ حسنتہ ودراستہ تسبیح والبحث عنہ جہاد طلبہ عبادۃ و تعلیمہ صدقۃ وبذ لہ الاھلہ
قربہ۱؎
رسول عربی صلی اللہ علیہ
وسلم کو علم اور سائنس سے جو محبت تھی اور جو محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام
دوسرے معلمین دین سے امتیاز بخشتی اور جدید دنیائے فکر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کو ایک نہایت قریبی رشتہ موانست میں منسلک کرتی ہے ہم اس کا تذکرہ اوپر کرآئے ہیں۔
مکہ پر کُفّار کا قبضہ ہوجانے کے بعد اسلام کی جمہوری حکومت الہٰیہ کا
مستقر،مدینہ، مرجع خلائق بن گیا جہاں نہ صرف عرب کے مختلف حصوں سے بلکہ دور دراز
ملکوں سے بھی طالبان حق جوق درجوق آنے لگے۔ مدینے کی شہرت ایرانیوں، یونانیوں،
شامیوں، عراقیوں،افریقیوں،غرض مختلف رنگوں او رنسلوں کے لوگوں کو دیار شمال ومغرب
سے کھینچ کھینچ کرلانے لگی۔بعض لوگ غالباً محض یہ دریافت کرنے کے لیے آئے کہ مدینے
میں کیا ہورہاہے۔لیکن بیشتر لوگ تحصیل علم اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی
باتیں سننے کے لیے عازم مدینہ ہوئے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک محبوب
موضوع علم کی قدر ومنزلت تھا۔”علم حاصل کرو،کیونکہ جو شخص راہ حق میں علم حاصل
کرتاہے وہ ایک کار تقویٰ بجام دیتاہے، جو شخص اس کا ذکر کرتاہے وہ خدا کی حمدو ثنا
کرتاہے، جو شخص اس کی جستجو کرتا ہے وہ خدا کی عبادت کرتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
اس حدیث کا ترجمہ متن میں دیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو شخص علم کو دوسروں تک
پہنچاتا ہے وہ خیرات تقسیم کرتاہے جو شخص ایسے لوگوں کو جو علم کے اہل ہیں علم
بخشتا ہے وہ ایک عمل صالح کرتاہے۔ علم جس کے پاس ہو اس کو اس امر کی استعداد عطا
کرتاہے کہ ممنوعہ اورغیر ممنوعہ چیزوں میں امتیاز کرسکے۔ وہ ہمارے لیے آسمان کی
شمع راہ ہے، وہ صحرا میں ہمارا رہبر،خلوت میں ہمارا انیس اور بے یاری کے عالم میں
ہمرا یار ہے۔ وہ خوشی میں ہمیں راہ راست پررکھتا ہے او رغم میں ہماری ڈھارس
بندھاتا ہے،وہ دوستوں کی بزم میں ہماری زنیت ہے اور عرصہ رزم میں ہمارا حربہ
دفاع۔علم کی مدد سے خدا کا بندہ نیکی کی بلندیوں کو پالیتاہے، شرف کے مدارج حاصل
کرتا ہے،اس دنیا میں بادشاہوں کا ہم صحبت بنتاہے اور دوسری دنیا میں سعادت ابدی سے
بہرہ ور ہوتا ہے۱؎۔“
آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے:۔
اکثر اپنے صحابہؓ کو
تاکید کرتے تھے کہ ”علم چین میں ہو تو وہاں سے بھی اسے حاصل کرو۲؎۔“ وہ شخص جو علم کی
تلاش میں گھر سے نکلتا ہے خدا کی راہ پر گامزن ہوتاہے“۔ جو شخص علم کی جستجو میں
سفر کرتاہے اسے خدا جنت کا راستہ دکھاتا ہے۳؎“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
یہ حدیث ماخوذ ہے للہ باقربن محمد تقی المجلسی کی ”بحارا لانوار“ (جلد اوّل۔باب
علم) سے بحوالہ امام جعفر صادق۔یہ ”مستطرف“(باب چہارم) میں بھی معزّابن جبال کے
مروی ہے۔نیز حاجی خلیفہ کی ”کشف الظنون“ میں (فلر گل کا ایڈیشن صفحہ 44)
۲؎
”مصباح الشریعت“
۳؎
”جامع لاخبار“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرآن خود علم اور سائنس
کی فضلیت پر شاہد ہے۔زمخشری سورہ العلق کی تفسیر میں قرآن کے الفاظ کامنشاء یوں
واضح کرتاہے۔”خدا نے انسانوں کو وہ کچھ سکھا یا جو وہ نہ جانتے تھے او ریہ اس کی
رحمت کی ایک بڑی نشانی ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو ان چیزوں کاعلم بخشا جن سے وہ
ناواقف تھے۔اس نے انہیں جہالت کی تاریکی سے نکال کر علم کی روشنی عطا کی او رانہیں
فن تحریر کی بیش بہا برکات سے آگاہ کیا کیونکہ اس کی بدولت ایسے بڑے بڑے فائدے
حاصل ہوتے ہیں جن کا حال صرف خدا کو معلوم ہے۔تحریر کے علم کے بغیر نہ دوسرے علوم
پر عبور حاصل ہوسکتا،نہ سائنس کے مختلف شعبے احاطہ علم میں لائے جاسکتے،نہ قدماء
کی تاریخ سے واقفیت بہم پہنچائی جاسکتی، نہ ان کے اقوال محفوظ رکھے جاسکتے،نہ کتب
آسمانی قلمبند کی جاسکتیں۔اگر یہ سارے علوم موجود نہ ہوتے تو امور دین ودنیا کا
انتظام ممکن نہ ہوتا“۔
ظہور اسلام کے وقت تک اس
خطّے میں جو صحیح معنوں میں دنیائے عرب کہلاتاہے یعنی جزیرہ نمائے عرب او راس کے
شمال مغرب او رشمال مشرق میں چند علاقے علم ودانش کی نشوونما کے کوئی آثار ہویدانہ
ہوئے تھے۔شاعری،خطابت اورنجوم محض عدالتی فیصلوں کے لیے) ماقبل اسلام کے عربوں کے
مرغوب مشغلے تھے لیکن سائنس اور ادب کے دلدادہ مققود تھے۔ ہادیئ اسلام کی تلقین نے
عرب قوم کی سوئی ہوئی قوتو ں کو جگا کر ان میں ایک نئی حرکت پیدا کردی۔ آپ کی مدّت
حیات کے اندر ہی ایک تعلیمی ادارے کی داغ بیل پڑگئی جس کی بنیاد پرآئندہ سالوں میں
بغداد،سالرنو،قاہرہ اور قرطبہ کی یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔یہاں معلّم اسلام نبفس
نفیس صفائے قلب اور پاکیزگی روح پیدا کرنے کی تعلیم دیتے تھے۔”صانع حقیقی کے کاموں
پرایک گھنٹے کا غورو تامّل ستّر سالوں کی عبادت سے بہتر ہے۱؎۔“علم و حکمت کا سبق
سننے میں ہزار شہیدوں کی نماز جنازہ پڑھنے یا ہزار راتیں قائم الصّلوٰۃ رہنے سے
زیادہ ثواب ہے۔“ جو طالب علم تلاش علم میں نکلے گا،خدا اسے جنت الماویٰ میں اونچا
مقام دے گا۔، اس کا ہرقدم مبارک ہے اور اس کے ہرسبق کا اسے ثواب ملے گا۔“ ”فرشتے
جنت کے دروازے پر جویائے علم کا خیر مقدم کریں گے۔“
۔۔۔۔۔۔
۱؎
ایضاً
۔۔۔۔۔۔
”اہل علم کی باتوں کا سننا اور سائنس کے سبقوں کا دل پرنقش کرنا
مذہبی ریاضتوں سے بہتر ہے۔۔۔۔“ ایک سو غلاموں کے آزاد کرنے سے بھی بہتر ہے“۔ ”جو
شخص علم اور عالموں کی حمایت کرے گا خدا اس پر عقبیٰ میں مہربان ہوگا۔“”جو شخص
عالموں کی عزت کرتاہے وہ میری عزت کرتاہے۔“ حضرت علیؓ علم کے ایسے شعبوں کادرس
دیتے تھے جو اس نوخیز جمہوریہ کی ضرورتوں کے لیے سب سے موزوں تھے۔ ان کے منقول
ارشادات میں ذیل کے ارشادات ہیں۔”علم و حکمت میں ناموری سب سے بڑی عزت ہے۔“ جو شخص
علم کو زندگی بخشتا ہے وہ کبھی نہیں مرتا۔“ ”کسی آدمی کا سب سے اچھا زیور علم ہے“۔
ہادیئ اسلام اور ان کے
رئیس التلاندہ کی زبان سے اس قبیل کے خیالات کے اظہار کا قدرتی نتیجہ یہ ہوا کہ
ایک وسیع مشرب قائم ہوگیا اورمسلمانوں کے تمام طبقوں میں علم کا ذوق وشوق پیدا
ہوگیا۔کوئی فن خطّاطی نے جو ایک صحابی نے حیرہ میں سیکھا،مسلمانوں کی ابتدائی
نشوونما کو او ربھی پروان چڑھا یا۔ لیکن وہ زمانہ بدرجہئ افضل سنجیدہ طبعی اور
ترقی ایمان کا زمانہ تھا، جب کہ روح انسانی نے مقصد،مردہ اور جامد فلسفے کے خلاف
بغاوت کررہی تھی۔مذہب پر کاربندی ایمان وتقویٰ کی روح کو برقرار رکھنا اور علم کے
ایسے شعبوں کی ترقی جو زندگی کے جہاد شانہ روز میں عملی طور پر مفید تھے۔ یہ تھے
وہ معاملات جن پر اس وقت مسلمانو ں کی توجہ اور سب چیزوں سے بڑھ چڑھ کر مرکوز تھی۔
فلسفیانہ قیاس کادور شروع
ہونے ہی والا تھا۔ اس کا ہیو علیٰ معلم اسلام کے مثبت ارشادات نے مہیا کردیا تھا۔
ادھر آپ مصروف کار تھے،ادھر آ پ کا شاگرد رشید محوفکر تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم نے خود اعلان کیا تھاکہ جو شخص آپ کی تعلیمات کو سمجھنا چاہتاہو اسے علی
مرتضیٰ سے رجوع کرناچاہئے۱؎۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا مطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق شفیق،آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد معتمد،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار چچیرے بھائی
سے بہتر کون سمجھ سکتا تھا؟ وہ تعلیم جو نرمی اور آہستگی سے بچپن میں دی گئی تھی
بالآخر بار آور ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
انا مدنیتہ العلم وعلی بابہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلفائے متقّدین کے تحت
عرب و قوم میں جو شورش وبدامنی رہی اس کے باوجود ابتدائی اسلام کے دارالخلافہ میں
ادب وفن سے تغافل نہیں برتا گیا۔حضرت علیؓ او ران کے چچیرے بھائی حضرت ابن عبّاس ؓ
شعر وشاعری،صرف ونحو،تاریخ اورریاضی کا درس دیتے تھے۔ دوسرے صحابہ شعر خوانی اور
خطابت سکھاتے تھے اور چند اور صحابہؓ فن کتابت کی ترویج کرتے تھے جو زمانہ سلف میں
ایک بے بہا شعبہ علم تھا۔
حضرت عثمانؓ کی المناک
وفات پر جیسا کہ ہم اوپر بیان کرآئے ہیں آوازہئ خلق نے حضرت علیؓ کو خلافت کی ذمہ
داری سونپی۔اپنی گوشہ نشینی کے دوران وہ عقل کی روشنی میں ارشادات نبوی کامطالعہ
کرنے میں مصروف رہے تھے۔ایک فرانسیسی مؤرخ ان کے بارے میں لکھتاہے:”اگروہ قتل نہ
کردیئے جاتے تو دنیائے اسلام پیغمبر کی تعلیمات کو عقل و شریعت کے وصال کی صورت
میں اور حقیقی فلسفے کے بنیادی اصولوں کی مثبت عمل کی صورت میں مجسم دیکھ پاتی۔“
علم وحکمت سے جو والہانہ محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امتیازی صفت تھی وہ
محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد کے ہر لفظ سے ٹپکتی ہے۔ ان میں جہاں ایک ایسی
وسیع المشربی تھی جو اپنے وقت سے بہت آگے بڑھی ہوئی تھی وہاں ایک پرُ خلوص جذبہئ
دینداری اور رسوخ ایمان بھی تھا۔ ان کے مواعظ وخطبات،جو ان کے ایک جانشین نے پوری
امانت داری کے ساتھ قلمبند کئے او ران کی دعائیں منبع خیر کل سے جیتی جاگتی التجا
ئیں اور انسان کی خیر کوشی اور سعادت طلبی پر ایک بے پایاں ایمان کے اعلان ہیں۔بنی
اُمّیہ کا تخت سلطنت پر متمکن ہوا دنیائے اسلام کی ترقی علم اور آزادیئ فکر کے حق
میں ایک صدمہ تھا۔ ان کے طوفانی ادوار حکومت نے قوم کو سائنس کے درس و تدریس جیسے
پرُ امن مشاغل مہلت ہی نہ دی۔اس پر آفت یہ ہوئی کہ اُموی حکمران سب ماضی کے پرستار
تھے۔سچ تو یہ ہے کہ انہیں جنگ اور سیاست کے سوا کسی چیز سے دلچسپی نہ تھی۔ ایک صدی
کی طویل مدّت حکومت میں خاندان اُموی نے صرف ایک ایسا شخص پیدا کیا جسے علم وادب
سے شغف تھا۔ یہ شخص ابوہاشم خالد ابن یزید ”حکیم بنی مروان“ تھا۱؎“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
”مآخذ علوم“ ازمولوی سید کرامت علی بہ
صاحب فضیلت عالم (باقی حاشیہ صفحہ 636 پرملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جسے اس کی علمیت و فضیلت
کے باعث جانشینی کے معاملے میں نظر انداز کردیا گیا۔
اولاد ابوسفیان وہند کے
اتھاہ رشک وحسد او رانتھک دشمنی نے اہل بیت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو مسکینی اور
گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر رکھا تھا۔ انہوں نے اپنے جدّ امجد کے
ارشادات پرخلوص اور دیانت داری سے عمل کیا اور ذہنی مشاغل کو اپنے لیے ذریعہ تسکین
بنایا۔ انہیں علم سے جو عاشقانہ لگاؤ تھا اورحبّ انسانیت کاجو بیتاب جذبہ ان کے
اندر کار فرما تھا(کیونکہ ان کی نگاہیں شریعت کی لغوی تفسیروں سے بلند ترحقائق
پرجمی ہوئی تھیں)اس سے اسلام کی روحانیت اور وسعت قلب آشکار ہوتی ہے۱؎۔ امام جعفر صادق نے علم
کی جو تعریف کی ہے اس سے کسی حد تک پتہ چلتاہے کہ حکمائے اہل بیت کو انسان کی ترقی
پر کتنا گہرا اثر ایمان تھا۔”قلب کی تنویر اس کا جوہر ہے حق اس کا سب سے بڑا
مقصد،الہام اس کا رہبر،عقل اس کی قائل،خدا اس کا مصدرِ الہام ونطق انسانی اس کا
متکلّم ۲۔“
ابتدائی اہل بیت کے گردجن
لوگوں کو محبت،عقیدت اور ہمدردی نے جمع کررکھا تھا قدرتی بات تھی کہ وہ ان لوگوں
کے گوناگوں خیالات سے اثر پذیر ہوتے۔ اس کے باوجود ان کافلسفہ کبھی وہ زندگی اور
ذوق وشوق سے معّر الفظی مجادلہ بن کر نہیں رہ جاتا جو ایتھنز اور خاندان بطلیموسی
کے تحت اسکندریہ کے مکاتب فلسفہ بن کر رہ گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 535) چالیس سال تک ہگلی کے امام باڑے کا مہتمم
تھا۔
۱؎
ملاحظہ کیجئے ”حدیث اہلاج“از امام علی ابن موسیٰ الّرضا،مروی از مفضل بن عمر جونی
(بحارالانوار)
۲؎
”تاریخ الحکماء“ ازجمال الدین ابن القطی،جو اسی نام کی ایک او رکتاب پرمنبی ہے جس
کا مصنف شہاب الدین سہروردی تھا۔ شہاب الدین ایک افلاطونی (یعنی اشراقی) تھا اور
اس لیے صلاح الدین ایّوبی کے بیٹے کے دور حکومت میں علماء کے ایک مجمع کے حکم سے
قتل کردیا گیا۔ تقابلی مقابلے کے لیے دیکھئے ”نہج البلاغۃ“ کا پہلا خطبہ اور
”بحارا لانوار“ میں علم پرجو حدیثیں منقول ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ حکمران ادب اور
فلسفے سے غافل بلکہ ان کے مخالف تھے،پھر بھی ائمہ اہل بیت نے جو مثال قائم کی اس
نے عربوں او رمحکوم قوموں کی دماغی سرگرمیوں کو بڑی حد تک متاثر کیا جہاں بنی
اُمّیہ نے پر امن ذہنی مشاغل کی ہمت شکنی کی وہاں نبی فاطمہ نے نمایاں فراخدلی سے
علم وفضل کی سرپرستی کی۔ وہ ماضی کے غلام نہ تھے سلف ان کا واحد رہنما نہ تھا۔
ارشادات نبوی کو مشعل راہ بنا کر انہوں نے انسانی ارتقاء کو پیش نظر رکھا اور اپنے
آپ کو سائنس اور علم و ادب کے تمام شعبوں کی ترقی کے لیے وقف کردیا۔ پیغمبر اسلام
صلی اللہ علیہ وسلم اورخلفائے راشدین کی طرح انہوں نے ان ارباب علم و فضل کا
خیرمقدم کیا جنہیں قیصر جسٹینین (Justinian) کے جانشینوں کے
متعصبانہ جبر وتشدد نے غیر ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور کردیا تھا۔ فلسفے او رطب
کے جو دارالعلوم نسطوریوں نے ادیسہ اور نسیبس میں قائم کئے تھے وہ ٹوٹ چکے تھے اور
ان کے مدرس اور طلبا ایران اور عرب میں پناہ گزین تھے۔ ان میں سے بہت سوں نے جیسا
کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں ان پیش روؤں نے
کیا تھا، مدینے کا رخ کیا جو اُمویوں کی تاخت وتاراج کے بعد ازسرنو علم کا مرکز بن
گیا تھا او رجسے امام جعفر صادق اور ان کے حاشیہ نشین علماء و فضلاء کے مجمع
النّجوم نے منُور کر رکھا تھا۔ مدینیۃ النبی میں مختلف او رمتنوع علوم وفنون کے
ارباب کمال کے جمع ہونے میں مسلمانوں میں سائنس او رادب کو فروغ دیا۔ مدینے سے غیر
معمولی ذہنی سرگرمیوں کا ایک دریا دمشق کی طرف بہنے لگا۔ دمشق،جو صحرائے عرب کی
شمالی حدود پر او رمکہ ومدینہ سے شام جانے والے تجارتی راستے کے کنارے واقع
ہے،قدیم زمانے سے اُمویوں کے ساتھ وابستہ رہاہے اور شام کے عرب اس خاندان کے ساتھ
جسے ان کی مدد نے تخت خلافت پر متمکن کیا تھا مفادات اور قرابت داری کے رشتوں میں
مربوط تھے چنانچہ بنی اُمیّہ نے قدرتی طور پر دمشق ہی کو اپنا دارالخلافہ بنایا۔
اگرچہ صحیح العقیدہ مسلمان اس سے دور ہی رہنا پسند کرتے تھے پھر بھی دارالخلافہ کی
حیثیت سے یہ شہر ان مختلف قوموں کے نمائندوں کا مرکز بن گیا جو اسلام کے دائرہ
حکومت میں آچکی تھیں۔ یونانیوں اور عربوں میں جو مذہبی مناظر سے ہونے لگے وہ منطق
اور فلسفہ یونان کے مطالعے کا ایک زبردست محرک ثابت ہوئے اور اعراب کی ایجاد نے
صرف ونحواورلسانیات کو ترقی دی۔ اس زمانے میں وہ سربرآور وہ عیسائی مصنف تھے جنہوں
نے اپنے ہم مذہبوں کے تشدد سے نجات پانے کی خاطر دمشق کو اپنا امن بنالیا۔ ان کے
نام تھے جو ہینیز ومیسنیس (Johannes Damascenus) اور تھیوڈورس
ابوکرہ (Theodorus Abucara) ان مصنفین نے مسلمانو ں کے خلاف جو مناظراتی کتابیں لکھیں اور
اپنے قدامت پرست ہم مذہبوں کے ساتھ جو عقلیاتی اور فلسفیانہ مباحثے کئے انہوں نے
مدنی دبستان کے اثرات کے ساتھ مل کر جو اس وقت امام محمد الباقر اور امام جعفر
صادق کے زیر سرپرستی عروج پر تھا، بہت جلد عربوں، کے یہاں فلسفیانہ رحجانات پیدا
کردیئے۔ صدیوں سے ایرانی یونانی فلسفے سے واقف چلے آرہے تھے۔ نسطوریوں نے جسٹینین
کی حکومت کے آغاز ہی سے کشور خسرواں میں پھیلنا شروع کردیا تھا لیکن جب تک اسلام
نے متفرق اجزا کو ملا کر ایک نامیاتی کلّیت پیدا نہ کی اس وقت تک یونانی سائنس اور
ثقافت نے مغربی ایشیا کی ذہنی نشوونما پر کوئی حقیقی اثر مرتب نہ کیا۔ بہر حال
اُموی خلافت کے اختتام کے قریب چند مسلم مفکّرین منظر عام پرآئے جنہوں نے ایسے
مسائل کو موضوع بحث بنایا جو اس وقت لوگوں کے ذہنوں کو دعوت حل دے رہے تھے۔ ان
مفکّرین کے افکار و تصّورات نے آنے والی نسلوں کے خیالات پر بڑا گہرا اثر کیا۔
لیکن مسلمانوں کی ادبی
اور سائنسی سرگرمیاں صحیح معنوں میں دوسری صدی ہجری میں شروع ہوئیں۔ ان کا سب سے
بڑا محّرک عربوں کا شہر وں میں آباد ہونا تھا۔ اس وقت تک وہ چھاونیوں میں رہتے چلے
آئے تھے، جو محکوم قوموں کی بستیوں سے علٰیحدہ ہوتی تھیں۔ حضرت عثمانؓ نے عربوں کی
مفتوحہ ملکوں میں زمینیں حاصل کرنے یا محکوم قوموں کے ساتھ شادی بیاہ کرنے کی
ممانعت کردی تھی۔ اس ممانعت کا مقصد ظاہر تھا: کیا قدیم زمانوں میں او رکیا جدید
زمانوں میں ہر فاتح قوم نے یہی وتیرہ اختیار کیا تھا۔ برطانوی ہندوستان اور
فرانسیسی الجزائر میں اسی پر عمل ہوتارہا ہے۔بنی اُمیّہ کی ساری مدت حکومت کے
دوران عرب لوگ معاشرے کا مقتّدر طبقہ رہے تھے یعنی محکوم قوموں کے درمیان فوجی
اعیان و اشراف کا ایک گروہ۔ ان کی اکثریت فنون حرب میں مشغول تھی۔ علم و ادب اور
سائنس کے پرُامن مشاغل ہاشمیوں اور انصار کی اولاد پر چھوڑ دیئے گئے تھے،یعنی حضرت
علیؓ،حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے اخلاف پر۔ عربوں کے یہاں رومیوں کی طرح
متعلقین کا جو قاعدہ زمانہ قدیم سے چلا آرہا تھا عرب اسے اپنے ساتھ لے آئے تھے۔ اس
قاعدے میں یہ فائدہ تھا کہ محکوموں کو حفاظت اور رعایات مل جاتی تھیں او رفاتحوں
کو زراعت میں مدد کے لئے مزید آدمی مل جاتے تھے۔ چنانچہ مشرق میں بھی او رمغرب میں
بھی سربرآوردہ مقامی خاندانوں نے چیدہ چیدہ صحرائی قبیلوں سے تعلق قائم کیا اوراس
طرح فاتحوں کے ”مولا“یا متعلقین (نہ کہ ان کے آزاد کردہ غلام،جیساکہ بعض لوگوں نے
سہواً خیال کیا ہے) بن گئے۔ ہاشمیوں میں سے او رانصار ومہاجرین کی اولاد میں سے جو
لوگ مدینے کے تاخت وتاراج کے بعد بچ گئے تھے ان کے علاوہ ان متعلقین کے حصے میں
اُموی حکومت کے دوران فضل وکمال اور علم وفنون آئے۔ عباسیوں کے برسراقتدار آتے ہی
ایک نیا دور شروع ہو گیا۔ عبّاسیوں نے ایرانیوں کی مدد سے اقتدار حاصل کیا تھا۔ اس
لیے وہ اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لئے عرب سے آئے ہوئے فوجی نو آبادوں کی ناقابل
اعتبار دوستی کی بہ نسبت جمہور رعایا کی وفاداری اور خیر خواہی پر زیادہ بھروسہ
کرتے تھے۔ ابوالعباس سفّاح کے ہاتھوں میں صرف دوسال عنان حکومت رہی۔ اس کے بھائی
اورجانشین المنصور نے اگرچہ فاطمیوں پر بڑے ستم ڈھائے،لیکن وہ ایک اونچے پائے کا
سیاسی مُدبر تھا۔ اس نے مملکت کی باقاعدہ تنظیم کی ایک مستقل فوج اور پولیس قائم
کی اورنظم ونسق میں مضبوطی اور باضابطگی پیداکی۔ عرب اب تک پیشہ سپاہگری میں ہمہ
تن منہمک رہے تھے۔ المنصور نے جو اسلوب حکومت اختیار کیا اس نے عربوں کے طبعی جوہر
کو ایک نیا رجحان بخشا۔انہوں نے شہر وں میں سکونت اختیار کی، جاگیریں خریدیں او
رجس ذوق وشوق سے وہ پہلے جنگی سرگرمیوں میں مصروف رہا کرتے تھے اسی ذوق و شوق سے
وہ علم وادب کو فروغ دینے میں مصروف ہوگئے۔
فرات کی زرخیرداری،جسے
مغربی ایشیا کے دو بڑے دریا سیراب کرتے ہیں قدیم ترین زمانوں سے سامراجی حکومتوں
کا مرکز او رتہذیب کا گہوارہ رہی ہے۔ یہی وہ اقلیم ہے جہاں بابل،طیسفون (Ctesiphon) اور سلوشیہ (Seleucia) کی تہذیبیں منصہ
شہود پر آئیں۔ جس زمانے کا ہم ذکرکررہے ہیں،اس زمانے میں یہاں بصرہ او رکوفہ کے
شہر تھے جن کے باشندے شورش پسند اور تیز طبع تھے۔ اسلامی فتوحات کی ابتداء ہی سے
یہ شہر تجارتی کاروبار کے اہم مرکز تھے۔کوفہ کچھ مدّت تک دارالخلافہ بھی رہ چکا
تھا۔بصرہ او رکوفہ میں بلاد مشرق کے تمام منچلے آکر جمع ہوگئے تھے جو بنی اُمیّہ
کے دارالخلافے میں یا توجانہ سکتے تھے یا جانا نہ چاہتے تھے۔عباسیوں کے لیے دمشق
نہ صرف کشش سے خالی بلکہ خطروں سے پُر تھا۔ رہے بصرہ او رکوفہ،سودہ اپنے سیماب
فطرت او رناقابل اعتبار باشندوں کی بدولت دارالخلافہ بننے کے قابل نہ تھے۔ المنصور
نے چاروں طرف نظر دوڑ ائی۔ بالآخر اس نے وہ مقام انتخاب کیا جہاں آج کل بغداد
ہے۔یہ مقام بصرے سے چھ دن کی مسافت پر تھا۔
کہتے ہیں کہ بغداد ایران
کے مشہور بادشاہ کسریٰ انوشیروان کی زمستانی آرامگاہ تھااور اس کا نام ”باغ داد“
(انصاف کاباغ) اسی عادل فرمانروا کے نام نیک کی یادگار ہے۔ ایرانی بادشاہی کے
خاتمے کے ساتھ ہی اس باغ کابھی خاتمہ ہوگیا جہاں ایشیا کا شہنشاہ اپنی کثیر التعداد
رعایا کی داد رسی کیا کرتاتھا۔ پھر بھی روایت نے اس کے نام کو زندہ رکھا ہے۔ یہ
خوبصورت مقام پرمرکزی بھی تھا۔اور صحت بخشی بھی، منصور کو بھاگیا،چنانچہ اپنے وقت
کے بہترین ماہر تعمیرات کے عصائے جادو کی ایک جنبش سے خلیفوں کاشاندار شہر اس طرح نمودار ہوا جس طرح سمندر
کی دیوی ونیس چوپٹیردیوتا کے حکم سے یکایک سمندر کی لہروں کے اندر سے جلوہ گر
ہوگئی تھی۔
منصور کے بغداد کی بنیاد
145ھ میں دریائے دجلہ کے کنارے پررکھی گئی۔تھوڑی ہی مدّت میں ایک اورشہر (ایک نیا
بغداد) ولی عہد خلافت کی نگرانی میں،جس نے خلیفہ بن کر المہدی کالقب اختیار کیا،
دریا کے مشرق کنارے پر پدیدار ہوگیا۔یہ نیا شہر اپنی عمارتوں کی شان و شوکت کے
اعتبار سے منصوریہ کی خوبصورتی اور عظمت کاجواب تھا۔ بغدادجس کے قسمت میں یہ لکھا
تھا کہ چنگیزی لشکروں کا وہ سیلاب جس نے مغربی ایشیا میں عربی تہذیب کے تمام آثار
ملیامیٹ کردیئے اسے بھی ان کے ساتھ برباد کردے، اپنے عروج کے زمانے میں ایک نظر
فریب اور پرُشکوہ شہراور خلفائے اسلام کے شایان شان پایہ تخت تھا۱؎۔
مغلوں کی تاخت وتاراج سے
پہلے بغداد کی جو خوبصورتی اور شان وشوکت تھی اسے انوری نے،جو شوکتِ الفاظ کے
اعتبار سے نارسی قصیدہ گویوں کا بادشاہ ہے،ذیل کے اشعار میں زندہ جاوید کردیا:۔
خوشا نواحیئ بغداد جائے
فضل وہُنر
کہ کس نشان ندہد درجہان چنان کشور
سوادِ وابمثل چوں سپہر
مینارنگ ہوای اوبصقت
چون نسیم جان پرور
نجاصیت ہمہ سنگین عقیق لُولُو
بار بمنفعت ہمہ خاکش
عبیر غالیہ کوثر
کنار دجلہ زترکان سیمتن
خلّخ
میان رحبہ زخوبان ماہُرخ کشمر
ہزار زورق خورشید شکل
برسرآب بداں صفت کہ
پراگندہ برسپہرہ شرر
بغداد کو دارالسّلام کا
جو نام دیا گیا وہ منجم شاہی نوبخت کی ایک پیشگوئی پر مبنی تھا کہ اس شہر کی
چاردیواری کے اندر کسی خلیفہ کی وفات نہ ہوگی جو حیرت انگیز طور پر سیتیس خلیفوں
کے بارے میں ٹھیک نکلی۔ اس کی چار دیواری کے اندر یا اس کے ارد گرد اولیاء واصفیاء
کے اتنے مزارہیں جن کا سب مسلمان احترام کرتے ہیں کہ اسے۔Bulwark
of the Holy
حصن الاولیاء کالقب مل گیا ہے۔ یہاں بہت سے کابر ائمہ اور مشائخ اصفیا کے روضے
ہیں۔ یہاں امام موسیٰ کاظم کی ابدی آرامگاہ ہے۔ یہاں امام ابوحنیفہ،شیخ جنید،شیخ
شبلی اور شیخ عبدالقادر گیلانی جیسے کالمین دعارفین کے مرقد ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
بغداد کے بارے میں تفصیلی بیان Short History of the
Saracensمیں دیکھئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ائمہ او رمشائخ کے مزاروں
کے درمیان خلفاء او ران کی بیویوں کے مقبرے تھے۔شہر میں جوبے شمار مکتب،مدرسے اور
دارالعلوم تھے ان میں دو اپنے طلبہ کی تعداد درجہئ علمیت کے اعتبار سے سب سے اہم
تھے۔ یہ تھے مدرسہ نظامیہ او رمدرسہ مستنصریہ اوّل الذکرپانچویں صدی ہجری کے نصف
اوّل میں سلطان ملک شاہ سلجوقی کے مشہور وزیر نظام الملک نے قائم کیا تھا او ر
مؤخر الذکر دوصدیاں بعد خلیفہ مستنصر باللہ نے۔
خلفاء کے زمانے میں ترقی
تمدن کا ایک مورخ۱؎
لکھتا ہے: ”یہ ایک ملاحظہ طلب بات ہے کہ جس حکمران کے اخلاقی اوردماغی اوصاف نے اس
کی فطرت کے تاریک پہلو پر پردہ ڈال دیا اسی نے اس عملی وفکری تحریک میں جان ڈالی
جس کا آغاز اس وقت دنیائے اسلام میں ہوا۔“
منصور ایک مؤخر عالم او
رماہر ریاضی بھی تھا او رعلم و ادب کا مربیّ بھی تھا۔ اس کے حکم سے غیر ملکوں کی
ادبی سائنسی تصنیفوں کے ترجمے عربی زبان میں کئے گئے۔ہندوستانی کہانیوں کا مشہور
مجموعہ ”ہت اُپدیش“ فلکیات پرہندوستان کی مشہور تصنیف ”سدھانت“ ارسطو کی بہت سی
کتابیں،کلاڈیس بطلیموس کی ”المجسطی“ (The
Alamgest)
اقلیدس (Euclid) کی تصنیفات اور متعدد یونانی،بازنطینی،ایرانی اور شامی کتابیں
عربوں کی زبان میں منتقل کی گئیں۔ مسعودی کہتا ہے کہ ان ترجموں کے شائع ہوتے ہی
لوگوں نے انہیں ذوق وشوق سے پڑھنا شروع کردیا۔ منصور کے جانشین نہ صرف علما ء
وفضلاء کے سرپرست تھے،جنہوں نے ہجوم درہجوم ملک کے گوشے گوشے سے دارالخلافہ کا رُخ
کیا،بلکہ خود بھی ہر شعبہ علم میں کسب کمال کے ساعی تھے چنانچہ ان کے زیر سایہ
مسلمانوں نے یاد وسرے الفاظ میں مختلف قوموں نے جو خلافت کی وسیع قلمر و میں آباد
تھیں، حیرت انگیز سرعت سے علم وفکر میں ترقی کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
I
kremer, Culturgeschichte des Orients Unter des Chalifen, vol. 2, p, 412
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر بڑی قوم کی تاریخ میں
ایک عہد زرّیں ہوگزرا ہے۔ ایتھینز کی تاریخ میں وہ پیریکلیز(Periclean) کازمانہ تھا اور
روم کی تاریخ میں آگسٹس (Augustus) کا دنیائے اسلام کا
بھی ایک دورعظمت تھا۔ لیکن ہم عادلانہ طور پرکہہ سکتے ہیں کہ جو زمانہ منصور کی
تخت نشینی سے لے کر معتضد باللہ کی وفات تک گزرا وہ متوکل کی خلافت کے مختصر سے
وقفے کو نظرانداز کرکے،اس پہلے دور عظمت کا ثانی تھا بلکہ شوکت وسطوت میں اس سے بھی
آگے نکل گیا۔ پہلے چھ عباسی خلفاء اور بالخصوص مامون کے عہد حکومت میں مسلمان
تہذیب کا مقدمۃالجیش تھے۔ ایک تو عرب قوم کی سرشت میں مادہ قبول تھا جس کی بدولت
وہ اپنے آپ کو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق بدل سکتی تھی۔ دوسرے اسے ایک ا مرکی
جغرافیائی حیثیت حاصل تھی۔ ایک طرف قریب مرگ یونان او رروم کا بیش بہا ورثہ
تھا،دوسری طرف ایران کا گنج شائیگان اور تیسری طرف صدیوں کی نیند کے ماتے چین او
رہندوستان تھے۔ چنانچہ عرب قوم معلّم انسانیت بننے کے لیے بدرجہ اتم مو زوں تھی۔
اس کے پیغمبر کی الہامی ہدایت نے اسے ایک ضابطبطہ اخلاقی اور ایک ضابطہ ملّی تو
عطا کررہی رکھا تھا۔ اس پر جب اس کے حکمرانوں کی سرپرستی کااضافہ ہوا تو اس نے
مشرق ومغرب کی دولت سمیٹ لی اور اسے اپنے پیغمبر کی تعلیمات کے ساتھ شامل کرکے
سپاہیوں کی ایک قوم سے عالموں کی ایک قوم بن گئی۔ ہمبولٹ (Humboldt) کہتاہے: ”عربوں کو
ایک ایسا کردادئی الکبیر او روسط افریقہ تک تمام قوموں پر اثر انداز ہونا ایک
قدرتی امر تھا۔ ان کی عدیم النظر ذہنی سرگرمیوں نے دنیا کی تاریخ میں ایک مستقل
باب کا اضافہ کیا۔“
اُموی خلافت کا زمانہ
مسلمانوں کے لیے آموزش وآزمائش کادور تھا،جس میں وہ اس عظیم کام کے لیے جو انہیں
تفویض ہوا تھا اپنے آپ کو تیار کررہے تھے۔عباسیوں کے زمانے میں وہ ساری دنیا کے
علم وفضل کے خزانہ دار بن گئے۔خلیفوں کے عاملوں نے سلف کی جمع شدہ دولت حاصل کرنے
کی خاطر کرہئ ارض کا چپہ چپہ چھان ڈالا۔جو کچھ جہاں بھی ملا وہ اسے اٹھا لائے اور
لاکر مشتاقان علم کے سامنے بکھیردیا۔ ہر طرف مدرسے اور دارالعلوم بن گئے، ہر شہر
میں کتب خانے قائم ہوگئے جن تک ہر کس وناکس کی رسائی تھی۔ قرآن کے ساتھ ساتھ قدیم
دنیا کے اکابر فلاسفہ کی کتابوں کا مطالعہ ہونے لگا۔ جالینوس (Galen) ڈیوسکورائیڈیز (Dioscorides) تمستیس (Themistius)،ارسطو،افلاطون،یوکلڈبطلیموس،اپولونیس
(Appollonius) سب کو خراج تحسین ادا کیا گیا۔خلیفے خود ادبی محفلو ں اور
فلسفیانہ مباحثوں میں شریک ہوتے تھے۔ تاریخ انسانیت میں پہلی مرتبہ ایک دینی اور
آمرانہ حکومت فلسفے کی مؤید وحامی بنی او را س کا بول بالا کرنے میں کوشاں ہوئی۔
سلطنت کے تمام شہر علم
وفن کی ترقی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف رہتے تھے۔ صوبوں
کے عمّال و حکّام بادشاہ کی مثال کی تقلید کرتے تھے۔علم کی تلاش میں سفر کرناہادیئ
اسلام کی تعلیم کے مطابق یک مقدس فریضہ تھا۔ چنانچہ چار دانگ عالم سے طلبہ،بغداد
اورقاہرہ جاتے تھے تاکہ دانشوران اسلام کے وعظ سن سکیں۔ اورتو اور،یورپ کے دور
افتادہ گوشوں سے عیسائی طلبہ بھی مسلمانوں کی درسگاہوں میں آکر زانوئے ادب تہ کرتے
تھے۔ چنانچہ بہت سے ایسے لوگ جو بعد میں عیسوی کلیسا کے سربراہ بنے مسلم اساتذہ کے
شاگرد تھے۱؎۔
جب المعزّالدّین اللہ کے عہد میں قاہرہ کو عروج نصیب ہوا تو عباسی اور فاطمی خلفاء
کی سرپرستی علم میں رقابت کی روح پیدا ہوگئی۔ المعز گویا مغرب کا مامون تھا یا یوں
کہئے کہ مسلم افریقہ کا میسیناس۲؎
Maecenas تھا۔ مسلم افریقہ اس
وقت مصر کی مشرقی حدود سے لے کر بحرادقیانوس کے ساحل اور صحرا کے کنارے تک پھیلا
ہوا تھا۔ المعّز اور اس کے پہلے تین جانشینوں کے زمانے میں علوم وفنون نے بادشاہ
وقت کی خاص سرپرستی کے طفیل خوب ترقی کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
مثلاً گربرٹ (Gerbert) جو بعد میں پوپ سلو سترثانی۔ Pope
Sylvester II بنا،
قرطبہ سے فارغ التحصیل ہوا۔
۲؎
میسیناس روم کا ایک سیاسی مدّبر تھا جس کا نام یورپ میں سرپرستی علم کے لیے ضرب
المثل ہے۔مترجم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معزّ نے جودارالحکمت
(سائنسی ادارہ) قاہرہ میں قائم کیا وہ ایک ایسا ادارہ تھا جس کا تصور بھی یورپ کے
ذہن میں اس وقت تک پیدا نہ ہوا جب تک بیکن نے کئی صدیاں بعد ایک مثال یونیورسٹی
کاخاکہ پیش نہ کیا۔ فارس کے ادریسی اور ہسپانیہ کے موری حکمران ادب وفن کی سرپرستی
میں ایک دوسرے کے حریف تھے۔ بحراوقیانوس کے ساحل سے لے کر بحرالہند تک،بلکہ او
ربھی مشرق کی طرف بحرالکاہل تک مسلمانوں کی حمایت او رہدایت کے طفیل فلسفہ وحکمت
کا آواز بلند تھا۔ جب مشرقی سلطنت بنی عباس کے ہاتھوں سے نکل گئی تواس کے مختلف
خطّوں میں جن سرداروں نے حکومتیں قائم کیں انہوں نے بھی خلفائے عباسی کی طرح جن کی
نیابت کے وہ مدعی تھے، وادب کی پاسبانی کیے۔ملاّئیت کے اقتدار او راس کی علم دشمنی
اورحکمت آزاری کے باوجود تویہ شاندار دور تاتاریوں کے ہاتھوں بغداد کی تاخت وتاراج
تک جاری رہا۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ جن وحشیوں نے خلافت کا تختہ الٹا او راسلامی
تہذیب کا شیرازہ بکھیر دیا وہ جب دائرہ اسلام میں آئے تو خود علم وحکمت کے پرُجوش حامی
و مُربّی سن گئے!
اس وقت عیسائی دنیا میں
علم اور سائنس کی کیا حالت تھی؟ قسطنطین اور اس کے راسخ العقیدہ جانشینوں کے ماتحت
ملت و حکمت کے ادارے ہمیشہ کے لیے بند کردیئے گئے۔غیر اہل کتاب شہنشاہوں کی فیاضی
نے جو کتب خانے قائم کئے تھے وہ منتشر یا تباہ کردئیے گئے۔علم وحکمت کو ”جادو کی
طرح حرام اور بغاوت کی طرح گردن زنی“ قرار دیا گیا، فلسفہ اور سائنس کا قلع قمع
کردیا گیا۔ کلیسا کو علوم دنیوی سے جو نفرت تھی اس کااظہار اس ضرب المثل میں ہوا
کہ ”جہالت عقیدت کی ماں ہے“۔ اور پوپ گریگورئی اعظم (Pope
Gregory the Great)
نے کلیسا کے اعلیٰ اقتدار کا بانی مبانی تھا اس رجعت پرستانہ ضرب المثل کو یوں
عملی جامہ پہنایا کہ اس نے سائنسی تحقیق و تدفین کو روم سے شہر بدر کردیا اور
آگسٹس سیزر (Augustus) کے قائم کئے ہوئے کتب خانہ شاہی کو نذرِآتش کردیا۔ اس نے قدائے
یونان وروم کی کتابوں کے مطالعے کو ممنوع قرار دیا۔ ان کی جگہ اس نے وہ ضنمیاتی
عیسائیت رائج کی جس کا رکن رکخین مقدس شخصیتوں کے واقعات اور تبّرکات کی پرستش تھا
او رجو صدیوں تک یورپ کا متداول مذہب رہی۔ سائنس اور ادب کاکلیسا ئی عیسائیت نے
قانوناً نا جائز ٹھہرایا او رانہیں کہیں جاکر اس وقت آزادی ملی جب فکر آزاد نے وہ
بند توڑکر رکھ دئیے جو دقیانوسیت نے نفس انسانی کی ترقی کی راہ میں حائل کر رکھے
تھے۔
عبداللہ المامون کو بجا
طور پر عربوں کے آگسٹس کاخطاب دیا گیا ہے۔”وہ اس امر سے ناواقف نہ تھا کہ جو لوگ
اپنی زندگیاں اپنے قوائے عقلی کی تہذیب کے لیے وقف کردیتے ہیں وہ خداکے برگزیدہ
بندے اور بہترین ومفید ترین خادم ہوتے ہیں۔۔۔ وہ معلمین حکمت کو دنیا کے حقیقی
نّیر او رمقّنن سمجھتا تھا۱؎۔
مامون کے بعد متعدد طبّاع
خلیفے آئے جنہوں نے اس کے کام کو جاری رکھا۔ مامون کے عہد میں بھی اوراس کے
جانشینو ں کے عہد میں بھی بغدادی دبستان کا سب سے نمایاں وصف اس کاقرار واقعی
سائنسی مزاج تھا۔ جو اس کی تمام کاگرزاریوں پر تبت نظرآتا ہے۔ منطق کے استنباطی
قاعدے سے،جسے اہل یورپ بڑے فخر و سباہات سے جدید یورپ کی ایجاد او رغیر مشترک
ملکیت کہتے ہیں،مسلمان پوری طرح واقف تھے۔ ”معروف سے مجہول کی طرف قدم بڑھا کر
بغداد ی دبستان نے معلول سے علّت کا پتہ چلانے کی خاطرمظاہر کی صحیح صحیح توجیہ کی
اور صرف ایسی چیزوں کو تسلیم کیا جن کا ثبوت تجربے سے بہم پہنچتا ہے۔یہ تھے واصول
جن کی تعلیم مسلم اساتذہ دیتے تھے۔“جس مصنف کی رائے سے ہم یہ اقتباس پیش کررہے ہیں
وہ آگے چل کر کہتاہے: ”نویں صدی ہجری کے عرب اس نتیجہ خیز اسلوب سے بدرجہ اتم آشنا
تھے جو کئی صدیوں کے بعد عصر جدید کے محقّقوں کے قبضے میں آکر ان کے جمیل ترین
انکشافات کا وسیلہ بنا۔“
سائنس او رعلم کے جوماہر
اس زمانے میں گزرے اور جنہوں نے کسی نہ کسی طریقے سے انسانی ترقی کی تاریخ پراپنے
نشان چھوڑ ے،اگر ان کی فہرست تیار کی جائے تو وہ بہت سی جلدو ں پر مشتمل ہوگی۔
ماشاء اللہ او راحمد ابن محمد النہاوندی،عربوں میں سب سے پہلے ماہرین فلکیات
(ہیئت) منصور کے عہد میں ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
ابوالفرج
۔۔۔۔۔
مقدم الذّکر نے جسے
ابوالفرج اپنے زمانے کا ”فنقس“ (Phoenix)کہتا ہے اصطرلاب او
رکرہئ مشبّک (ذات الحلق) او راجرام فلکی کی ماہیت او رحرکت پرمتعدد رسالے لکھے جن
کی آج بھی سائنس دان تعریف کرتے ہیں۔احمد نہادندی نے اپنے مشاہدات کی بناء پرایک
زیج (Astronomical Table) تیار کی جس کا نام المستعمل تھا اور جو یونانیوں او ر ہندوؤں
دونوں کے خیالات پرایک حتمی اضافہ تھی۔ مامون کے عہد حکومت میں بطلیموس کی المجسطی
(Almagest) کا دوبارہ ترجمہ کیا گیا او رسند ابن علی یحییٰ ابن ابی منصور او
رخالد ابن الملک جیسے مشہور ہیئت دانوں نے ازیاج مصّدقہ تیار کیں۔انہوں نے
اعتدالین (Equinoxes) کسوف وخسوف،دُمدار تاروں کے ظہور او ردوسرے سمادی مظاہرکے بارے
میں جو مشاہدات کئے وہ نہایت قابل قدر او رعلم انسانی میں معتدبہ اضافے تھے۔
۔۔۔۔
محمد ابن موسیٰ الخوارزمی
نے مامون کی فرمائش پر ”سدھانت“ (سندہند) یعنی نریج ہندی کا از سر نو ترجمہ کی اور
اس پر حاشیے بھی لکھے۔ الکندی نے مختلف مضامین مثلاً حساب،ہندسہ، فلسفہ،کائنات
الجو، مناظر ومرایا اور طب پردوسو رسالے لکھیں۔وہ یونانی زبان پر قدرتِ تامہ رکھتا
تھا،چنانچہ اس نے اپنے بیش بہا رسالوں میں جو معلومات قلمبند کیں ان کا کچھ حصہ اس
نے ایتھنز اور اسکندریہ کے مکاتب سے اخذ کیا۔ سِد یّو (Sedillot) کہتا ہے کہ ”اس کی
تصنیفات عجب وغریب او ردلچسپ واقعات سے مملو ہیں“۔ ابومعشر نے (جس کے نام کو قرونِ
وسطیٰ کے اہل یورپ نے بگاڑ کر البومزر (Albumazar)بنا دیا۔مظاہر فلکی
کو اپنا خصوصی موضوع تحقیق بنایا۔چنانچہ اس کی ”زیج معشر“ تک فلکیاتی معلومات کا
بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ موسیٰ ابن شاکر کے تین بیٹوں،محمد، احمد اور حسن:۔ جو مامون او
راس کے پہلے دو جانشینوں کے زمانے میں ہوئے،آفتا ب اور دوسرے اجرام فلکی کی اوسط
حرکت کے بارے میں او راس کے علاوہ دوسرے موضوعوں پر جو انکشافات کئے وہ تقریباً
اتنے ہی صحیح ہیں جتنے یورپ کے جدید ترین انکشافات۔انہیں جو ناقص آلات میّسر تھے
انہیں ملحوظ رکھا جائے تو جس صحت سے انہوں نے خط کسوف وخسوف کیے کجی دریافت کی اس
پر تعجب ہوتا ہے۔ وہ دنیا میں سب سے پہلے لوگ تھے جنہوں نے قمری ارتقاعون کی
تبدیلیوں کا نقشہ بنایا۔ علاوہ بریں انہوں نے کمال دوستی سے اعتدالین کے سلسلے اور
اوج آفتاب کی حرکتوں کا مشاہدہ کیا اور ان کی تعیین کی (یونانی ان سے قطعاً ناواقف
تھے) انہوں نے بحیرہ احمر کے ساحل پر ایک درجے کی پیمائش کرکے زمین کے حجم کا اندازہ
لگایا۔ یہ ایک ایسے زمانے میں جن عیسوی پورپ شّدومّد سے یہ دعویٰ کررہا تھا کہ
زمین سپاٹ ہے۔ ابوالحسن نے دوربین ایجاد کی،جس کی توصیف وہ ان الفاظ میں کرتا
ہے:”ایک ملکی جس کے دونوں سروں پر مؤید بینائی شیشے لگے ہوئے ہیں۔“ ان ”نلکیوں“ کی
بعد میں اصلاح ہوئی اور انہیں بڑی کامیابی کے ساتھ مراغہ اور قاہرہ کی رصدگاہوں
میں استعمال کیا گیا۔ النّایزی او رمحمد ابن عیسیٰ ابوعبداللہ نے شاکر کے بیٹوں ۱؎ کاعظیم الشان کام جاری
رکھا۔ البثانی کے آنے سے پہلے ہی مسلمان قدماء کی اٹکل پّچو فلکیات کو ایک باقاعدہ
او رمربوط سائنس میں تبدیل کرچکے تھے۔ اگرچہ بعد میں آنے والے ماہرین فلکیات
البتانی۲؎
سے آگے نکل گئے پھر بھی وہ اس علم کے استادوں میں بڑا اونچا درجہ رکھتا ہے۔ ایک
قابل وقعت مصنف کی رائے ہے کہ اس نے عربوں میں وہی کردار ادا کیا جوبطلیموس نے
یونانیوں میں ادا کیا تھا۔ اس کی زیج جس کا ترجمہ لاطینی میں کیا گیا، کئی صدیوں
تک یورپ میں فلکیات کی اساس رہی لیکن اسے سب سے زیادہ شہرت ریاضیات کی تاریخ میں
حاصل ہے او روہ اس لیے کہ اس نے ہئیت اور مثلثات میں وتر کی جگہ جیب اورجیب تمام
کو متعارت کرایا۔
دسویں صدی عیسوی کے
اختتام پر بغداد میں جو لاتعداد ماہرین فلکیات تھے ان میں دو شخص سب سے نمایاں
ہیں،یعنی علی ابن اماجور او رابوالحسن ابن اماجور جنہیں عموماً یکجا کرکے
بنواماجور کہا جاتاہے۔ وہ چاند کی حرکتوں کا حساب لگانے کے لیے مشہور ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
الا کے نام اوپر بیان کئے جاچکے ہیں۔محمد ابن موسیٰ ابن شاکر کی وفات 259 ھ مطابق
873ء میں ہوئی
۲؎
ابوعبداللہ محمد ابن جابر ابن سنان التبانی حوان کا باشندہ تھا۔ اس کی وفات 317 ھ
(مطابق 30۔829 ء) میں ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرکزی حکومت کی کمزوری کے
باعث دور افتا دہ علاقوں میں دربار خلافت کے اقتدار کاقائم رکھنا سال بسال مشکل
ہوتا چلا جارہا تھا۔ چنانچہ دسویں صدی عیسوی کے اختتام کے قریب سلطنت کے سرحدی
خطّوں میں بہت سی نیم خود مختار ریاستیں وجود میں آگئیں۔ہسپانیہ تو عباسیوں کی
خلافت کے آغاز ہی میں ان کے ہاتھوں سے جاچکا تھا۔ اسی زمانے کے لگ بھگ بنی ادریس
نے فاس میں،بنی رستم نے قاہرت میں بنی اغلب نے قیروان میں اپنی سلطنتیں قائم
کرلیں۔ یہ سب سلطنتیں شمالی افریقہ میں تھیں۔ لیکن تھوڑی ہی مدت کے بعد نبی فاطمہ
نے سارے شمالی افریقہ کو مسخّر کرلیا۔ان کے آتے ہی شمالی افریقہ میں فن وادب کا
ایک اور زرّیں دور شروع ہوگیا۔ فاس، مکناسہ، سجلماسہ،قاہرت،تلمان، قیروان اور ان
سب سے بڑھ چڑھ کرقاہرہ تمدّن،ثقافت اور علم کے مرکز بن گئے۔خراسان میں طاہریوں
نے،ماوراء النّہر میں مسامانیوں نے،اور بویّدوں نے پہلے طبرستان میں اور پھر ایران
وبغداد میں قصر خلافت کے مہتمموں کی حیثیت سے سائنس کے ماہروں اور عالموں کی
فیاضانہ سرپرستی کی۔عبدالرحمان صوفی جو اپنے زمانے کے قابل ترین طبیعیات دانوں میں
شمار ہوتا ہے، بوُید ایر عضا الّوولہ کا انیس وجلیس تھا جسے بجا طور پر عربوں کا
آگسٹس ثانی کہا جاتاہے۔ عبدالرحمٰن نے ستاروں کی روشنی سنجی میں اصلاح کی۔ عضد
الدّولہ۱؎
خو دبھی ایک عالم او رماہر ریاضیات تھا او رعلم وفضل کا مربّی اقصائے عالم سے جو
عالم بغداد آتے وہ اپنے محل میں معزّز مہمانوں کی طرح ان کا خیر مقدم کرتا اور ان
کے علمی مباحثوں میں شریک ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔
۱؎
عضد الّدولہ (فناخسرو) نے بغداد میں بہت سے شفاخانے اور یتیم خانے قائم کئے۔نجف
اور کربلا میں حضرت علیؓ او رامام حسینؓ کے روضے بنوائے او رشیراز کے قریب جو دریا
ہے اس پر بندبندھوا جو بند امیر کے نام سے مشہور ہے: اسے جہازرانی کے قابل بنایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلیفہ مکتفی باللہ کے
بیٹے جعفر نے دُمدار ستاروں کی بے قاعدہ گردش کے بارے میں چنداہم مشاہدات کئے او
ران پر ایک رسالہ لکھا۔دوسرے شہزادے بھی علوم طبیعی کے مطالعے او رتحقیق میں مصروف
رہتے تھے۔
آل بُویہ کے ماتحت
ہئیت،طبیعیات او رریاضیات کے بیشمار ماہر ہوئے جن میں سے صرف دوکا ذکر کافی ہوگا۔
وہ الکوہی او رابوالوفاء تھے۔ الکوہی نے سیاروں کی گردش کامطالعہ کیا اوراس پر
رسالے لکھے۔ راس السّرطان او رموسم خزاں کے عتدال شب وروز کے بارے میں اس نے جو
انکشافات کئے انہوں نے علم انسانی کے ذخیرے میں متعدبہ اضافہ کیا۔ابو الوفا939ء
میں خراسان کے شہر بُز جان میں پیدا ہوا۱؎۔ 959ء میں اس نے عراق میں سکونت اختیار
کی اور وہاں رہ کر ریاضیات اور فلکیات کی تحقیق میں مصروف رہا۔ اس کی ”زیج الشامل“
تجسس و تفحّص اور صحت مشاہدہ کے اعتبار سے معرکے کی تصنیف ہے۔ اس نے مثلّثات او
رفلکیاتی مشاہدوں میں قاطع او رمماس کو متعارف کرایا۔سدیو کہتا ہے:”اسی پر بس نہیں
بطلیموس کے نظریہ قمری کے نقائص کو محسوس کرکے اس نے قدیم مشاہدات کی جانچ کی او
رمرکز واخراج کی مساوات سے قطع نظر کرکے ایک تیسرے عدم مساوات دریافت کی۔یہ وہی
انحراف ہے جو چھ سو سال بعد ٹیکوبراہہ (Tycho Brahe) ۲؎
نے متعین کیا۔“
فاطمیان مصر کے دورِ
خلافت میں قاہرہ علم و ادب اور سائنس کا ایک نیا مرکز بن گیا تھا، یہاں عزیز ۳؎ باللہ اور حاکم
بامراللہ کے زمانے میں ایک فخر روزگار محقق تھا، ابن یونس،جس نے آدنگ (رقّاصہ
ساعت) (Pendulum)کو ایجاد کیا اور اس کے جھولنے سے وقت کی پیمائش کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
ابوالوفاء کی وفات 387 ھ (مطابق 997ء) میں ہوئی۔
۲؎
ڈنمارک کا ماہر فلکیات 1546ھ سے 1601ء تک
۳؎
عزیز باللہ کا شمار تاریخ مصر کے عظیم ترین حکمرانوں میں ہوتا ہے۔ وہ اپنی رعایا
سے محبت کرتاتھا اور رعایا اس سے محبت کرتی تھی۔ اس نے ایک عیسائی خاتون سے شادی
کی تھی جس کے بھائی پریمیا اور ارونینس یروشلم اور اسکندریہ کے بطریق۔دونوں راسخ
العقیدہ ملکی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اس کی وجہ سے شہرت
اس کی عظیم تصنیف ”زیج الاکبر الحاکمی“ ہے،جس کا عنوان اس نے اپنے مربّی اور سلطان
کے نام پر رکھا۔ اس تصنیف نے بہت جلد کلاڈیس بطلیموس کی تصنیف کو ایک تقویم پارینہ
بنادیا۔ اسے ایرانیوں سے ہئیت دان شاعرعمر خیّام (1079ء) نے روشناس کرایا۔ یونان
میں اس کا چربہ کرسزکوکا، (Chrysococca) کی کتاب ”سنٹیکس“ (Syntax)میں اتارا
گیا۔منگولوں کو اس سے نصیر الدین طوسی نے اپنی”زیج الخانی“ کے ذریعے متعارف کرایا،چین میں اس کا تبتع کو
چیون کنگ (Co-Cheon-King) کی فلکیات کی صورت میں ہوا۔چنانچہ وہ علم جو چین کی قدیم تہذیب
سے منسوب کیا جاتاہے مسلمانوں سے لی ہوئی ایک شمع مستعار ہے۱؎۔
ابن یونس نے 1009ء میں
وفات پائی۔ اس کے انکشافات کو ابن البندی (Ibn-un-Nabdi) نے، جو 1040 ء کے
لگ بھگ قاہرہ میں مقیم تھا اور حسن ابن الہشیم نے،جو یورپ میں ”الہزن“ کے نام سے
معروف ہے اورفضائی انعطاف کے انکشاف کے لیے مشہور ہے جاری رکھا۔ اس کا زمانہ
گیارھویں صدی کے اختتام کے قریب تھا او روہ ایک ممتاز ہئیت دان او رماہر مناظر
ومرایا تھا۔ وہ ہسپانیہ میں پیدا ہوا لیکن زیادہ تر مصر میں رہا، مناظر ومرایا پر
اس کی جو تصنیفات ہیں وہ زیادہ تر ان کی بدولت یورپ میں مشہور ہے۔ ان میں سے ایک
تصنیف کا ترجمہ رزنر (Risner) نے لاطینی میں کیا۔ بصارت کے بارے میں یونانیوں کا جو غلط خیال
تھا اس نے اس کی تصحیح کی اور وہ پہلا شخص ہے جس نے یہ ثابت کیا کہ روشنی کی
شعاعین میں آنکھ سے نکل کر باہر کی چیزوں پر نہیں پڑتیں،بلکہ باہر کی چیزوں سے
آنکھ کے اندر آتی ہیں۔ اس نے یہ دریافت کیا کہ بینائی کامقام آنکھ کا پردہ شبکی ہے
اور یہ ثابت کیا کہ اس پردے پر جونقوش مرتسم ہوتے ہیں وہ عصب بصری کے ذریعے دماغ
کو منتقل ہوجاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
ضمیمہ ۳؎
ملاحظہ کیجئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
بصارت کے ایک ہونے کی
توجیہ اس نے یوں کی کہ بصری تصویریں دونوں پردہ ہائے شبکی کے متناس حصوں میں بنتی
ہیں۔ اس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ روشنی کا انکسارکُرہئ ہوائی کے درجہ کثافت کے
ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے او رکرہئ ہوائی کی کثافت کا دارومدار بلندی پر ہوتا ہے۔
اس نے بڑی صحت اور وضاحت کے ساتھ یہ بتایا کہ کیونکر اس انکسار روشنی کے باعث
اجرام فلکی طلوع سے پہلے ہی دکھائی دینے لگتے ہیں اور غروب کے بعد بھی دکھائی دیتے
رہتے ہیں۔ چنانچہ جھُٹ پُٹے کا خوشنما منظریوں ظہور میں آتا ہے کہ فضائی انکسار
روشنی ہوا کے اس انعکاسی عمل کے ساتھ جمع ہوجاتاہے جو وہ روشنی کی شعاعوں کی روش
پر کرتی ہے۔ اپنی کتاب ”میزان لحکمت“ میں وہ حرکی اصولوں پر بحث کرتاہے جنہیں عام
طور پر جدیدسائنس کی خصوصی اختراع سمجھا جاتاہے۔ وہ بڑی تفصیل کے ساتھ کرہئ ہوائی
کے وزن او راس کی کثافت کے باہمی تعلق کو بیان کرتاہے او ریہ بتاتاہے کہ کیونکر
اجسام مادّی کا وزن لطیف فضا میں کچھ او رہوتا ہے او کثیف فضا میں کچھ اور۔وہ پانی
کے سطح پر تیرتے ہوئے اجسام کے ڈوبنے بحث کرتاہے اور یہ بتاتاہے کہ انہیں کسی ہلکی
یا کسی بھاری مائع میں ڈبویا جائے تو کس زور سے سطح پراُبھرتی ہیں۔ وہ گرتے ہوئے
اجسام کی رفتاروں،فاصلوں اور مّدتوں کے باہمی تعلق سے بخوبی واقف ہے او رجذبِ شعری
کا بھی ایک واضح تصّور رکھتا ہے۱؎۔
ہسپانیہ میں بھی جبل
البرقات (پرنییز) سے لے کر آبنائے جبل الطّارق تک اسی طرح کی ذہنی سرگرمی برُوئے
کا ر تھی۔ اشبیلیہ،قرطبہ،غرناطہ،مرسیہ،طلیطلہ اور دوسرے شہروں میں سرکاری کتب خانے
او ردارالعلوم تھے،جہاں سائنس اور ادب کی تعلیم مفت دی جاتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎دقائع
نگار عینی کہتا ہے کہ جس زمانے کا ہم ذکر کررہے ہیں۔ اس زمانے میں قاہرہ کے کتب
خانے میں بیس لاکھ سے زیادہ کتابیں تھیں، جن میں سے چھ ہزار صرف ریاضیات اور ہئیت
سے متعلق تھیں۔ اس زمانے میں، جب کہ اسلام کی روح اپنے عروج پر تھی جو ہزاروں
ماہرین ریاضیات طبیعیات ہوئے میں نے ان سے محض معدودے چند کا ذکر کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
قرطبہ کے بارے میں ایک
انگریز مصنف لکھتا ہے:۔ ”یہی نہ تھا کہ قرطبہ کے محل اور باغ خوبصورت تھے، بلکہ
زیادہ دقیع امور میں بھی یہ شہر قابل تعریف تھا۔ اس کا باطن اتنا ہی حسین تھا جتنا
اس کا ظاہر۔ اس کے پروفیسر وں او راُستادوں نے اسے یورپی تہذیب کا مرکز بنادیا
تھا۔ یورپ کے تمام حصوں سے طالب علم اس کے مشہور علماء کے سامنے زانوئے ادب تہ
کرنے کے لیے آتے تھے۔ اوروں کاتو کیاذکر،راہبہ روزویدا (Hroswitha) نے بھی جب سیکسنی
کے دور ودراز شہر گو ورزہائم (Gaudersheim) کے راہب خانے میں
بیٹھ کریولوجیس (Eulogius) کی شہادت کی داستان بیان کی تو قرطبہ کی تعریفوں کے گیت گائے
بغیر نہ رہ سکی۔وہ اسیدنیا کے شاندار مظاہر میں سب سے شاندار کہتی ہے،سائنس کی ہر
شاخ کاوہاں سنجیدگی سے مطالعہ کیا جاتا تھا۔ خصوصاً جہاں تک طب کاتعلق ہے صدیوں کی
اس طویل مدت میں جو جالنیوس کے زمانے کے بعد گزری تھی اس میں جتنے اضافے ہوئے تھے
ان سے بدر جہازیادہ اضافے اندلوسیہ کے طبیبوں اورجّراحوں نے کئے۔۔۔۔
ہئیت،جغرافیہ،کیمیائیات،طبعی تاریخ، ان سب کا مطالعہ قرطبہ میں ذوق وشوق سے ہوتا
تھا۔رہیں ادب کی رعنائیاں،تو یورپ میں کبھی کوئی ایسا زمانہ نہ گزرا تھا جب شاعری
اس طرح لوگوں کی روزمّرہ کی زبان بن گئی ہوگی۔ ہر طبقے کے لوگ عربی میں شعر کہتے
تھے۔ہسپانیہ کے ”منسٹرلوں ۱؎۔“
(Minstrels) او رپرووانس او راٹلی کے ”تروبدوروں ۲؎“ (Ballads) کے جو ”بیلڈ۳؎“ (Troubadours) اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
”منسٹرل“ قرون وسطیٰ میں یورپ کے گوئیے شاعر جو بربط یا عود بجاتے ہوئے اور غنائی
اشعار گاتے ہوئے شہر بشر پھرا کرتے تھے۔(مترجم)
۲؎
”تروُ بدور“ گیارھویں،بارہویں اور تیرھویں صدی عیسوی میں بنوبی فرانس او راٹلی میں
رہنے والے شاعر جورزمیہ اور عشقیہ شعر کہتے تھے۔ مترجم
۳؎
”بیلڈ“ رومانی اور جذباتی نظمیں جن میں محبت یا بہادری کی کوئی مقبول عام کہانی
بیان کی جاتی ہے۔مترجم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”کنیتسو نیت“ (Canzonettes) ۱؎
میں۔ وہ غالباً انہی عربی اشعار کے نمونے پر کہے گئے۔ہر تحریر اورتقریر اشعار سے
مرصّع ہوتی تھی اور یہ اشعار یا تو فی البدیہہ کہے جاتے تھے یا مشہور شاعروں کے
اشعار ہوتے تھے جنہیں لوگ تزئین کلام کے لیے ازبر کرلیا کرتے تھے ۲؎“ اس پر ہم رنان (Renan) سے ایک اقتباس کا
اضافہ کرتے ہیں:۔
”بیسویں صدی کے آتے آتے دنیا کے اس قابل رشک خطّے میں سائنس اور
ادب کے ذوق نے ایک ایسی رواداری قائم کردی تھی جس کی مثال جدید زمانوں میں بمشکل
ملے گی۔ عیسائی،یہودی اور مسلمان ایک ہی بولی بولتے تھے،سب کے گیت ایک تھے اور سب
مل جل کر ادبی اور سائنسی درس وتدریس میں شرکت کرتے تھے۔ مختلف قوموں کے درمیان
کوئی دیواریں حائل نہ تھیں۔ سب ایک مشترکہ تہذیب کو ترقی دینے میں ایک دوسرے کے
دوش بدوش مصروف کار تھیں۔قرطبہ کی مسجدیں،جہاں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ تعلیم
پاتے تھے، فلسفیانہ اور سائنسی مطالعوں کے مرکز بن گئیں۔۳؎“
یورپ میں پہلی رصدگاہ عربوں نے بنائی۔ اشبیلیہ کا مینار
جپرالدہ (The Giralad) عظیم ریاضیات دان جابر ابن افلح کے زیر نگرانی فلکی مشاہدات کے
لیے 1190ء میں تعمیر ہوا۔ اس کا جو حشر ہوا وہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہ تھا۔
مسلمانوں کے اخراج کے بعد اسے ایک گرجا کا گھنٹہ گھر بنا دیا گیا،کیونکہ ہسپانیوں
کو اس کاکوئی اور مصرف ہی نہ سوجھا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
”کنتسونیت“ اٹلی اور پرووانس کے ابتدائی ادوار کی غنائیہ نظمیں جو گاکر سنائی جاتی
تھیں۔مترجم
۲؎
سٹینلی لین پول Stanley Kane Poole کی کتاب The Moors in spain۔ قرطبہ کے بارے میں
مفصل بیان کے لیے دیکھئے: The History of the
Saracens
۳؎
زماں (Renan) کی کتاب Averroes et Averroism (باقی حاشیہ صفحہ
555پر ملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہرین طبیعیات میں ہم
صرف چار کے تذکرے پر اکتفا کرتے ہیں،یعنی عمر ابن خلدون،بعقوب ابن طارق،مسلمہ
المغربی اور شہرہئ آفاق ابوالولید محمد ابن رُشد (Averroes) مغربی افریقہ بھی
اس زمانے میں علمی سرگرمیوں سے خالی نہ تھا۔ سیوطہ او رطنجہ،فاس او رمراقش سب کے
سب قرطبہ،اشبیلیہ اور غرناطہ کے حریف تھے۔ انہوں نے بھی بڑے بڑے اساتذہ پیدا
کئے،جن کی لاتعداد عالمانہ تصنیفات نے اس امر کی مزید شہادت بہم پہنچائی کہ
مسلمانوں کو ہر شعبہ علم کے کتنا شغف تھا۔
گیارہویں صدی عیسوی کا
آغاز ایشیا ئے وسطیٰ کے سیاسی حالات میں ایک بہت بڑے تغیر کاہرادل تھا۔ عظیم غزنوی
فاتح،یمین الدّولہ،امین الملّت محمود۱؎،کے
برسراقتدار آنے کے بدولت ماورا، لنّہر،افغانستان اور ایران غزنی کے قبضہ تسلّط میں
آگئے محمود نے اپنے گرد ایسے ایسے عالم اور ادیب جمع کئے جنہوں نے اس کے درخشاں
عہد حکومت کو چار چاند لگادیئے۔ یہ بجا ہے کہ وہ اشعری کی تجدید یافتہ صحیح
العقیدگی کا دلدادہ اور اس لیے عقلیت پسند دبستان فکر کا مخالف تھا۔یہ بھی بجا ہے
کہ جن شاعروں نے اس کے نام کو دنیا کی تاریخ میں مشہور کردیا، اس نے ان سے فیاضی
کا حق ادا نہ کیا۔ پھر بھی اس میں اتنی ذکاوت تھی کہ اس نے فلسفی،ماہر ریاضیات اور
جغرافیہ دان ابوریحان محمد ابن احمد البیرونی جامع العلوم تھا۔ فلکیات پر اس کی
تصنیف،جسے اس نے اپنے مربّی سلطان مسعود۲؎ کے نام پر”القانون المسعودی“ کانام دیا،
ایک معرکے کی تصنیف ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 554) ہسپانیہ میں ادب اور سائنس کا عہد زرّیں حکم
المستنصر باللہ کازمانہ حکومت تھا جس نے 972ء میں وفات پائی۔ اس کے کتب خانے کی
فرست 10X11 انچ کی تقطیع کی چوالیس جلدوں میں تھی۔ اس نے کرہئ ارش کے ہر حصہ
میں آدمی مامور کئے تاکہ جس قیمت پر بھی ہو سائنس کی قدیم وجدید کتابیں فراہم
کریں۔ اس نے مشہور مجموعہ منتخبات”کتاب الافانی“ کے پہلے نسخے کے لئے ابوالفرج
اصفہانی کر ایک ہزار طلائی دینار عطا کئے۔
۱؎
996ء سے 1030ء تک
۲؎
محمود فاتح کا بیٹا اور جانشین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے ہندوستان کی سیاحت
کی،ہندوؤں کی زبان،علوم، فلسفہ اور ادب کامطالعہ کیا اور اپنے مشاہدات کو ایک کتاب
کی صورت میں مجّسم کیا جسے حال ہی میں انگریزی زبان کا جامہ پہنایا گیا ہے۔ وہ جس
فلسفیانہ ژرف نگاہی، سائنسی صداقت پسندی اور وسیع ہمدردی کے ساتھ اپنے موضوع سیبحث
کرتاہے وہ اس اسلوب سے جو آج تک مغربی مصنفّین غیر ممالک کے حالات بیان کرتے وقت
اختیار کرتے ہیں بہت مختلف ہے اور اسلام کی ذہبی صداقت شعاری پر شاہد ہے۔البیرونی
کی تاریح الہند۱؎
سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان کس حدتک یونان کے علمی گنجیوں کو اپنے تصّرف میں لے آئے
تھے او رانہوں نے ان گنجینوں کو کیسے مفید طریقوں سے استعمال کیا۔ ان دوعظیم
تصانیف کے علاوہ البیرونی نے ریاضیات،علم ترتیب التّواریخ،ریاضیاتی
جغرافیہ،طبیعیات او رعلم کیمیا پرمتعدد رسالے لکھے۔
البرونی نے ہندوؤ ں سے جو
خیالات اخذ کئے اور جو معلومات حاصل کیں ان کے بدلے میں اس نے انہیں بغدادی دبستان
کے علوم سے واقف کیا۔ اسے ہندوؤں کے یہاں یونانی سائنسی کی باقیات ملیں۔ یونانی
سائنس یا تو زمانہ عیسوی کی ابتدائی صدیوں میں ہندوستان آئی تھی یا غالباً اس سے
بھی پہلے یونانی باختری خاندانوں کے دور حکومت میں۔معلوم ہوتاہے کہ ہندوؤں کے یہاں
اپنے کوئی ترقی یافتہ فلکیاتی علوم نہ تھے،ورنہ جیسا کہ سید یّو بجا طور پر
کہتاہے،اسکندریہ یا سلیو کی خاندان کے زمانے کے یونانی مصنفین ضرور ان کاتذکرہ
کرتے۔ چینیوں کی طرح انہوں نے بھی اپنے سائنسی خیالات زیادہ تر غیر ملکی مآخذ سے
حاصل کئے اور اپنی قومی خصوصیات کے مطابق ان میں ردّ وبدل کرلیا۔
محمود کے جانشینوں کے
زمانے میں علوم وفنون کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ سلجوقیوں نے علم وفضل اور سائنس سے جو
شاندار فیّاضی برتی وہ عباسیوں کے دور زرّیں کی علم پروری کامقابلہ کرتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
اس کی ایک اور مقتدر تصنیف آثار الباقیہ ہے جس کا ترجمہ انگریزی میں ڈاکٹر ساچو (Sachau) نے کیاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طغرل۔الپ ارسلان،ملک شاہ
اور سنجرنہ صرف عظمت واقتدار کے لحاظ سے اور رعایا کی فلاح وبہبود کاایک واضح تصور
رکھنے کے معاملے میں ممتاز تھے،بلکہ وہبی کمالات او رعلم سے پرُ جوش محبت میں بھی
سربرآور دہ تھے۔جلاالدین ملک شاہ۱؎
اور اس کے وزیر خواجہ حسن نظام الملک نے اپنے گرد چوٹی کے ہیئت دان، شاعر، عالم
اور مؤرخ کئے۔ اس کے عہد حکومت میں ماہرین ہئیت کے ایک گروہ نے جس کے مقتدا عمر
خیام اور عبدالرحمن الخازنی تھے، جو فلکیاتی مشاہدے کئے ان کی بدولت ایک اصلاح شدہ
تقویم مرتب ہوئی جو گریگزری کے کیلنڈر سے چھ سو سال پہلے وجود میں آئی اور جسے ایک
صاحب۲؎رائے
نے مؤخر الذ کر سے بھی زیادہ صحیح قرار دیا ہے۔ ان مشاہدات کی بناء پرجلالی نظام
سنوات Era رائج کیا گیا، جس کانام ملک شاہ کے لقب پر رکھا گیا۔
ان عیسائی غارت گروں نے
جو اپنے آپ کو صلیبی مجاہد کہتے تھے مغربی ایشیاء اور شمالی افریقہ پر جوتباہ کن
حملے کئے، ان کے اثرات علم اور سائنس کے حق میں نہایت مُضرثابت ہوئے۔ یہ لوگ نرے
وحشی تھے جنہیں سرپھرے پادریوں نے بھڑ کا کر قتل وغارت کی مہموں پر بھیج دیا تھا۔
چنانچہ نہ ان میں اتنی انسانیت تھی کہ عورتوں،بچوں او ربوڑھوں کالحاظ کرتے اور نہ
اتنی عقل کو علم وفن کی قدر کرتے۔ انہوں نے نہایت نے دریغی سے طرابلس کے شاندار
کتب خانے کو تباہ کردیا اور اسلامی ثقافت دفن کے کئی عظیم مرکزوں کو راکھ کے ڈھیر
بنا کر رکھ دیا۔مسیحی یورپ نے کتب خانہ اسکندریہ کی تباہی کو تو موضوع طعن بنایا
ہے،حالانکہ وہ جولیس سیرز (Juilus Caesar) کے زمانے میں پہلے
ہی جل چکا تھا اور اس کے مسلمانوں کے ہاتھوں برباد کئے جانے کی کہانی سراسر مشکوک
الاصل روائتوں پر مبنی ہے لیکن اس کے اپنے صلیبی جنگجوؤں نے صدیاں بعد جو جرائم
کیے ان کے بارے میں وہ خاموش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
1073ء سے 1092ء تک
۲؎
سیّدیو
۔۔۔۔۔۔۔
Related Article:
URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-35/d/124937
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism