New Age Islam
Thu Jan 16 2025, 02:40 PM

Books and Documents ( 3 Jun 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 8, The Political sectarianism - Part 33 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، آٹھوا باب، سیاسی فرقہ بندیاں

سید امیر علی

(قسط 33)

3 جون 2021

اس باب میں جو واقعات بیان کیے گئے ہیں ان کے متعلق عالم اسلام میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔فاضل مصنف نے بعض مقامات پر بیشتر ایک ہی مکتب فکر کی ترجمانی کی ہے۔ اس ضمن میں چند مختصر تعلیمات کے لیے ملاحظہ فرمائیں، صفحہ 530 (ادارہ)

جنگ ہفتا دددو ملّت ہمہ راعذربنہ

چوں ندید ندحقیقت رہ افسانہ زدند

حافظ

تاریخ مذاہب کافلسفیانہ مطالعہ کرنے والے شخص کو اس باب کاعنوان پڑھ کر تعجب ہوگا اور ہر اس مسلمان کو جسے اپنے مذہب کے رہنما سے محبت ہے کہ کرب وندامت کا احساس ہوگا۔ مقام افسوس ہے کہ انسانیت اور عالمگیر اخوت کامذہب بھی اندرونی نزاع و اختلاف کی لعنت سے مبّرانہ رہ سکا اور وہ دین جسے ایک سراسیمہ دنیا کو امن و امان اور جمعیّت خاطر کی دولت بخشنی تھی خود غضبناک جذبات اور ہوس اقتدار کے ہاتھوں فتنہ تفریق کاشکا ر ہوگیا۔ہم نے عیسائیت کا ذکر کرتے وقت جن خرابیوں پراظہار افسوس کیا تھا ان کا سرچشمہ نظام عیسوی کا نامکمل اور حوائج انسانی ناموافق ہوناتھا۔ اسلام میں جو خرابیاں پیدا ہوئیں اور جن کا ذکر ہمیں کرنا ہوگا، وہ ایک طرف تو جاہِ دنیوی کی حرص کا نتیجہ تھیں اور دوسری طرف ایسے افراد اور طبقوں کی انقلاب انگیزیوں کا جنہیں اخلاقی نظم و ضبط راس نہ آتا تھا۔

معلّم عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر معمولی فطانت، اس کی حیرت انگیز شخصیت اور اس نے مذہبی اتحاد اور عالمگیر شہریت کی جو دعوت اس دعوت کی دل نشینی کابین ترین ثبوت وہ عالمی تحریک ہے جس کا وہ پیش کرنے والا تھا اور جس نے خاندانوں کی خانہ جنگیوں کے باوجود اس کی ملّت کو فتح و نصرت کی ایک سیلابی موج پرسوار کرکے کرہئ عرض کے ایک گوشے سے دوسرے گوشے تک پہنچا دیا۔عرب،جو اب تک مختلف قبیلوں او ر خاندانوں کا میدان کاراز تھا جن میں صدیوں پرُانی باہمی عداوتیں تھیں، اس میں ایک مشترک مقصد نے یکایک ایک نئی روح پھونک دی۔ اب تک عربوں کی باہمی جنگ وجدل او ران کے باہمی معاہدے، ان خوبیاں اور برُائیاں،ان کی حرّیت پسندی اور جرگہ بندیاں اتحاد عملی کی راہ میں حائل رہی تھیں۔ یکایک گلّہ بانوں کی ایک جماعت ایک حکمران قوم او رنیم خانہ بدوشوں کی ایک نسل ایک عالمی مذہب کا پیشوا اور ایک ہمہ گیر قانون کی امین بن گئی۔تین برّاعظموں کے درمیان رہنے والے باوی گرد قبیلوں کے اس متفرق مجموعے نے عدیم التطیرتن وہی اور نفس کُشانہ جاں نثاری سے کام لے کر دین کا جھنڈاپنے ہاتھوں میں لیا اوراسے اقصائے عالم میں سربلند کردیا۔ ”تم اس امر پر مبعوث ہوئے ہو کہ ساری نوع انسانی کو رحمت ربّی او روحدت اللہ کا پیغام پہنچاؤ“۔یہ تھی وہ صلائے عام جو انہیں سنائی گئی۔اور انہوں نے ایک ایسے راسخ ارادے سے جو کسی سدّراہ کو خاطر میں نہ لاتا تھا اس پر لیبیک کہا۔عقیدے کی وہ شدت جس کی بدولت وہ مخالف مذہبوں اور نسلوں کی صفیں چیرتے ہوئے دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جا پہنچے اس پرُ اسرار انقلاب کی کلید ہے جو انہوں نے برپا کردیا۔

حقیقت ازلی و ابدی ہے۔ پیغام محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نیا پیغام نہ تھا۔ یہ پیغام پہلے بھی دیا گیا تھا، لیکن اس نے انسان کے دل میں گھر نہ کیا تھا۔ محمد مصطفی کی آواز ایک صُور تھی جس نے مرے ہوؤں کو زندہ کردیا اور جو مررہے تھے انہیں مزید زندگی بخشی۔ انسانیت کی نبض صدیوں کی جمع شدہ قوت کے ساتھ چلنے لگی۔عربوں کا اس زبردست محرک کے زیر اثر اپنے وطن سے خروج،جس وسیع پیمانے پر وہ ظہور میں آیا او روہ دور رس اثرات جو اس نے مرتب کئے۔ یہ عصر جدید کی تاریخ کے سب سے حیرت انگیز مظاہر ہیں عرب نوع انسانی کے معلّم بن کر اپنے صحرائی نہاں خانوں سے نکلے۔ تیس سالوں کے اندر (جو خلافت راشدہ کی مذمت موعود تھی) وہ ہند و کُش سے لے کر بحر اوقیانوس کے ساحل تک ہر قوم کے دروازے پر دستک دے رہے تھے تاکہ اسے وہ پیغام دیں جو انہیں تفویض کیا گیا تھا۔ وصال نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر جمہوریت راشدہ کے اختتام تک جو قلیل مدّت گذری اس مدّت میں انہوں نے ایک ایسی سلطنت بنا کر رکھ دی جو وسعت میں اس سلطنت پر سبقت لے گئی جسے رومیوں نے فیرہ صدیوں کی مسلسل توسیع کے بعد قائم کیا تھا۔ ابن الاثیر طبری یا ابولفداء کو تاریخوں کی ورق گردانی کیجئے تو آپ کو اس کی ایک سلسلہ وار روداد ملے گی کہ فتوحات اسلامی کاسیلاب کس طرح تمام ان منفعت بخش عناصر کو اسے رستے میں ملے اپنے اندر حل کر تا ہوا اور اس سرزمین کو جس پر سے وہ گزرا زرخیز ی عطا کرتا ہوا پھیلتا چلا گیا۔

لیکن وہی اسباب جنہوں نے عربوں کو ظہور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ایک واحد قوم بننے سے روک رکھا تھا،یعنی وہی قبائل رقابتیں اور مخالفتیں جن کے بدنما داغ آج بھی دنیائے اسلام کے چہرے پردکھائی دیتے ہیں،بالآخر نہ صرف جمہوریت راشدہ کی تباہی ملکہ سلطنت اسلامیہ کی بربادی کا باعث بنے۔دوسوں d'Ohsson کاکہنا ہے کہ ”اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو اپنے ہادی کی دکھائی ہوئی راہ پرچلتے او رخلفائے راشدین کی مثال کی تقلید کرتے تو ان کی سلطنت رومی سلطنت سے وسیع تر او رمحکم تر ہوتی۔“ لیکن بنی اُمیہ کی حرس نے،جو عربوں کی شورہ پستی نے اور ان کی اس انفرادیت پرستی نے جو ایک مشترک دشمن کے خلاف صف آرائی کے دوران بھی اپنے آپ کو ظاہر کئے بغیر نہ رہتی تھی، اس عظیم الشان عمارت کو مسمار کردیاجو ابتدائی مسلمانوں کی شجاعت اور عقیدت نے کھڑی کی تھی۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ جب فرانس کاشہر تُور (Tours) ان کے قبضے میں آنے ہی والا تھا تو ان کی فتح یکایک شکست میں تبدیل ہوگئی ہسپانیہ سے بھی وہ اسی لیے نکالے گئے کہ وہ اپنی قدیم صحرائی رقابتوں کو فراموش کرکے مسترک طور پر دشمن کامقابلہ نہ کرسکے۔

بہر حال،اگرچہ جمہوریت ختم ہوگئی اور عصائے سلطانی عربوں کے ہاتھ سے نکل گیا،تاہم دین اسلام زندہ رہا۔ وہ صدیوں کے ارتقاء کا نتیجہ اور انسان کی مذہبی نشو ونما کا آخری مرحلہ تھا۔ اس لیے اس کی ہستی یا اس کی ترقی سلطنتوں کے قیام یا انسانوں کی بقا پر منحصر نہ تھی۔ چنانچہ جیسے جیسے وہ پھلتا پھولتا اوربڑھتا پھیلتا گیا ہر قوم او رہر عہد اپنی اپنی روحانی ضروریات اور اپنی اپنی ذہبی استعداد کے مطابق اس کی تعلیمات سے استفادہ کرتا رہا۔،

تفرقوں او ر تنازعوں نے کلیسائے عیسوی کی طرح ملت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی ٹکڑے کر دیئے ہیں۔ جو امور انسان کے دائرہ وقوف کے اندر ہیں ان پراختلاف آراء نے کبھی اتنی تلخی اور دشمنی پید انہیں کی جتنی ایسے مجرد موضوعات پراختلاف آراء نے کی ہے جن کے بارے میں کوئی قطعی فیصلہ ممکن ہی نہیں۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سرشت کے بارے میں مناظروں نے لاکھوں انسانوں کا خون بہایا۔ اس سوال نے کہ انسان مختار ہے یا مجبور اگر دنیائے اسلام میں اتنا خون نہیں بہا یا تو اتنے ہنگامے ضرور برپا کئے ہیں۔ پاپائے روم کے دعویٰ معصومیت نے دنیائے عیسائیت کی بنیادیں ہلادیں۔ اجماع اُمّت اور اکابر ائمہ کے بری از خطا ہونے کانظریہ متعدد قیمتی زندگیوں کی تباہی کا باعث بنا۔

دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں جو فرقے ہیں ان کے اصلی اسباب سیاسی اور خاندانی اختلافات ہیں، یعنی پرانی قبائلی عداوتیں اور بالخصوص آل ہاشم سے دوسرے قریش کاحسد و رشک عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی روحانی اور دنیاوی پیشوائی کے لیے صریح طور پر کسی کو اپنا جانشین نامزد نہیں کیا۔ لیکن یہ خیال واقعات کے بارے میں ایک غلط فہمی پر مبنی ہے،کیونکہ اس امر کی وافر شہادت ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جانشینی کے معاملے میں متعدد مرتبہ حضرت علی ؓ کی طرف اشارہ کیا تھا۔ بالخصوص حجتہ الوداع سے واپسی کے دوران جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام خُم پر قیام فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہمراہیوں کو جمع کیا اور ان سے خطاب کرتے ہوئے ایسے الفاظ استعمال کئے جو اس باب میں شک کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتے کے اپنے جانشین کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا عندیہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

”علیؓ کا مجھ سے وہی رشتہ ہے جو ہارون کا موسیؑ سے تھا۔الہٰ العلمین،تو اس کے دوستوں کا دوست رہیو او راس کے دشمنو ں کا دشمن۔ جو لوگ اس کی مدد کریں ان کو مدد کیجو،اور جو لوگ اس سے غدّاری کریں ان کی امید وں کو خاک میں ملادیجو۱؎۔“ دوسری طرف رسول صلی اللہ علیہ وسلم پاک کی بیماری کے ایّام میں حضرت ابوبکرؓ کا امامت نماز کے فرائض پرمامور ہونا ایک مختلف انتخاب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پیغمبر کی وفات پر جب امت مسلمہ کا امیر منتخب کرنا ضروری ہوا تو یہ سوال زیر بحث آیا۔ بنو ہاشم کا اصرار تھا کہ وراثت کے علاوہ تضرد کے ذریعے یہ منصب حضرت علیؓ کا حق تھا۔ دوسرے قریش رائے دہندگان کے ذریعے انتخاب پر اڑے ہوئے تھے۔ جب اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی تجہیز و تکفین میں مصروف تھے، تو اسی دوران میں بعض قریش اور انصار مدینہ کی رائے سے حضرت ابوبکرؓ خلافت کے لیے انتخاب کئے گئے اس عجلت کی توجیہہ یوں کی جاسکتی ہے کہ حکومت کی صدارت پر کسی کا فوراً مامورکیا جانا لازمی تھا۔حضرت علیؓ نے اپنی طبعی فیاضی اور حُبِّ دین سے کام لے کر اور اس خوف سے کہ مباد ا متبعین نبی میں کسی قسم کا رخنہ پڑجائے،فوراً حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ بیعت کرلی۔ تین مرتبہ انہیں خلیفہ کا تقرر کرتے وقت نظر انداز کیا گیا اورتینوں مرتبہ انہوں نے انتخاب کرنے والوں کا فیصلہ بطیب خاطر منظور کیا۔ انہوں نے ایک مرتبہ بھی اپنے آپ کو ایک امیدوار کی حیثیت سے پیش نہ کیا، عام اس سے کہ ان کے حامیوں اور طرف داروں کے جذبات اس معاملے میں کیا تھے۔انہوں نے پہلے دوخلفاء کو معاملات مملکت میں رائے اور مشورہ دینے سے کبھی دریغ نہ کیا۔ پہلے دو خلفاء نے بھی ان کے مشوروں اور تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح و تفسیر کا ہمیشہ احترام کیا۔ جن حالات میں حضرت عثمانؓ منصب خلافت پر فائز ہوئے ہم ان کا ذکر اوپر کر آئے ہیں۔یہاں ہم اس کے بعد کے واقعات۲؎ کو بیان کریں گے تاکہ اس امر کی صراحت کرسکیں کہ وہ افسوسناک رخنہ جس نے ملّت اسلامیہ کو دو فرقوں میں تقسیم کر رکھا ہے کیونکر پیدا ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ ابن خلکان۔جلد اوّل۔صفحہ 383۔ابن خلکان کہتا ہے،الحازمی کے قول کے مطابق خم ایک دادی کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان اور التّحفہ کے قرب وجوار میں واقع ہے۔ اس میں ایک تالاب(غدیر) ہے جس کے نزدیک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے:۔ یہ 18ذوالحجہ کا واقعہ ہے،کیونکہ ابن خلّکان کے کہنے کے مطابق یہ عید غدیر کی تاریخ ہے اور غدیر کو غذیر خُمّ بھی کہتے ہیں۔

۲؎۔ ان امور کے متعلق اس باب کے آخر میں حاشیہ دیکھئے۔(مترجم)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت عثمانؓ میں نہ تو حضرت ابوبکرؓ کی سی زیر کی تھی، نہحضرت عمرؓ کی سیذہنی استعداد اور عزم و جزم۔ ان کی نیک طینتی اور سادہ دلی نے انہیں اپنے اعزہ و اقرباء کے ہاتھوں میں بے بس کردیا۔ ایک طرف یہ فرشتہ خصال بزرگ اپنے مطلب پرست رشتہ داروں کے حلقے میں گھرا ہوا، دوسری طرف صوبے اپنے مسائل کے حل طلب کرتے ہوئے اور تیسری طرف جمہورمسلمین ایک پرُ ملال خاموشی کے ساتھ صدر مملکت کا سنہ تکتے ہوئے۔ یہ ہے اس عہد کا ایک عبرت آموز اور غمناک مُرقع۔ڈوزی (Dozy) نے نہایت برجستہ الفاظ میں اس شریف النفس خلیفہ کی تصویر کھینچی ہے۔”حضرت عثمانؓ کی شخصیت ایسی نہ تھی کہ وہ خلافت کے لیے انتخاب کئے جاتے۔یہ بجاہے کہ وہ غنی اور سخی تھے۔انہوں نے مالی قربانیوں کے دریعے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی مدد کی تھی۔ وہ صائم الّدہر اور قائم الصلوٰۃ اور خلیق وحلیم تھے۔لیکن وہ طبیعت کے کڑے نہ تھے۔ علاوہ بریں پیرانہ سالی نے انہیں بڑی حد تک ضعیف کردیا تھا۔ یہاں تک کہ جب انہیں منبر پر بٹھا دیا جاتا تو بڑی دیر تک خطبہ شروع نہ کرسکتے۔ اس پر آفت یہ ہوئی کہ انہیں اپنے رشتہ داروں سے حددرجہ محبت تھی جومکہ کے اکابرداعیان تھے اور جنہوں نے بیس سالوں تک پیغمبر کی توہین کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ستایا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائیاں لڑی تھیں۔ بہت جلدیہعالم ہوگیاکہ ان رشتہ داروں نے خلیفہ کو شیشے میں اُتار لیا۔ ان کا چچا ہشام اور ہشام کالڑکا کامردان فی الحقیقت ملک کے حکمران تھے،حضرت عثمانؓ صرف برائے نام خلیفہ تھے اور اس لقب کی بدولت ایسے ایسے مشتبہ امور کے ذمہ دار ٹھہرائے جاتے تھے جن کی انہیں اکثر خبر بھی نہ ہوتی تھی۔ ان دونوں اشخاص کی پختگی ایمان موضوع شک تھی۔ ہشام نے تسخیر مکہ کے بعد اسلام قبول کیاتھا اور رموز سلطنت کے افشا کی پاداش میں جلاوطن کیا گیا تھا۔حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ دونوں نے اس حکم کو جو خود پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے صادر کیا تھا، برقرار رکھاتھا، حضرت عثمانؓ نے نہ صرف ہشام کو واپس بلوالیا بلکہ سرکاری بیت المال سے ایک لاکھ نقرئی سکّے عطا کئے او راملاک سرکاری میں سے زمین کا ایک قطعہ بھی دیا۔ انہوں نے مروا ن کو اپنا منشی اور وزیر مقرر کیا۔ اس سے اپنی ایک لڑکی کی شادی کی او راسے افریقہ سے لائے ہوئے مال غنیمت سے مالا مال کردیا۱؎۔“اگرچہ ابوسفیان او رہند نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اُحد کی خوں ریزی لڑائی تھی، لیکن حضرت عثمانؓ نے نہ صرف ان کے بیٹے معاویہؓ کو شام کی گورنری سے سبکدو ش نہ کیا، بلکہ ان کے سوتیلے بھائی عبداللہ بن سعدؓ بن سُرح کو مصر کا حاکم مقرر کر دیا۔ یہ وہی عبداللہ ہے جو ایک زمانے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشی تھا اور جس کی بابت کہا جاتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے آیات قرآنی پڑھ کر سناتے تھے تو وہ ان کے الفاظ میں ردّ و بدل اور ان کے معانی کو مسخ کردیا کرتا تھا۔ جب اس کی اس نازیبا حرکت کا پردہ فاش ہوگیا تو وہ فرار ہوکر از سر نوبُت پرست بن گیا۔حضرت عثمانؓ کا ایک اور سوتیلا بھائی ولید کا ذکا گورنر مقرر ہوا۔ اگرچہ اس کے باپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدسلوکی کی تھی، یہاں تک کہ ایک موقع پر گلا گھونٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مارڈ النے کی کوشش بھی کی تھی۔وہ ایک ایسا گزرا عیاش داد باش اوررِند ے مے پرست تھا جس کی زندگی مسلمانوں کے لیے باعث عار تھی۔ ایک دن وہ نماز فجر کے وقت مسجد میں آیا تو ایسی بُری طرح نشے میں چُور تھاکہ اس میں فرائض امامت اداکرنے کے لئے کھڑا ہونے کی سکت بھی نہ تھی۔ جب آس پاس کے لوگوں نے سہارا دے کر اسے کھڑا کردیا تو اس نے ہکلائی ہوئی آواز میں مزید شراب کا مطالبہ کیا۔ یہ تھے وہ لوگ جو خلیفہ کے دست راست تھے انہوں نے جونکوں کی طرح رعایا کا خون چوس لیا او ربے دریغانہ استحصال سے کام لے کر دولت بٹورنے لگے۔مملکت کے گوشے گوشے سے مدینے میں شکائیتں آنے لگیں۔لیکن سخت و سست الفاظ کے سوا شکائیتوں کا کوئی جواب نہ دیاگیا۲؎۔ بالآخر بارہ ہزار افراد کا ایک وفد جس کے سربراہ حضرت محمد بن ابوبکرؓ تھے، حضرت عثمانؓ کی خدمت میں لوگوں کی شکایت پیش کرنے اوران کے تدارک کی درخواست گزارنے کی خاطر دارالخلافہ میں آیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ Dozy Hist. des ussulamans dans I'Espagne, vol.i.p.44)

۲؎ ابن الاثیر۔جلد 3۔ صفحہ 124۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 حضرت عثمانؓ نے حضرت علیؓ سے وساطت کی فرمائش کی۔حضرت علیؓ نے شکایات کے ازالے کا وعدہ کرکے لوگوں کو رخصت کیا۔ ابھی وفد کے افراد نے مدینے سے ایک دن کی مسافت ہی طے کی تھی کہ حضرت عثمانؓ کے کاتب کالکھا ہوا ایک خط ان کے ہاتھ لگا،جس پرمہر خلافت ثبت تھی اور جس میں حضرت معاویہؓ کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ ان سب لوگوں کے سرقلم کردیں۔ اس بدعہدی پر برافروختہ ہوکر وہ لوگ مدینے واپس آئے اور انہوں نے کاشانہئ خلافت میں داخل ہوکر حضرت عثمانؓ کو شہید کردیا۔ ان کی شہادت نے بنو اُمیہ کو وہ چیز مہیا کردی جس کے وہ ایک مدت سے متمنی تھے،یعنی اسلام کے خلاف، اس کی جمہوریت کے خلاف،اس کی مساوات حقوق کے خلاف او راس کے سخت گیر اخلاقی ضوابط کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کابہانہ۔اہل مکہ کو اس شہادت نے اس کاعذربہم پہنچا دیا کہ اہل مدینہ کے خلاف،جن سے انہیں سخت نفرت تھی، سازش کا بازار گرم کریں۔ حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کی جان بچانے کی مقدوربھر کوشش کی تھی اوّل اوّل تو انہیں یہ مصلحت اندیشا نہ مشورہ دے کر کہ وہ اپنے بے اصولے رشتہ داروں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی نہ بنیں اور آخری مرتبہ مغلوب الغضب سپاہیوں کا سامنا کرکے اور انہیں اس کی تلقین کر کے کہ ضعیف العمر جانشین نبی کالحاظ کریں۔ حضرت عثمانؓ کی وفات پر وہ جمہور مسلمین کی متفقہ رائے سے منصب خلافت پر سرفراز ہوئے۔ وصال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے اس وقت تک اگرچہ انہوں نے کبھی مملکت کی مشاوری مجلسوں میں حاضر ہونے میں ناغہ نہ کیاتھا، لیکن ہمیشہ ایک پرُ وقار خاموشی اور ایک عالی ظرفانہ آزاد طبعی قائم رکھی تھی۔ ایک گوشہ عزلت میں بیٹھ کر انہوں نے اپنا وقت زیادہ تر مطالعہ کتب اور خانگی زندگی کے پرُ امن مشاغل میں گزارا تھا۔ جب انہیں عنان حکومت ہاتھ میں لینے کی دعوت دی گئی تو انہوں نے حسب عادت انتہائی سادگی سے بیعت قبول کی اور ساتھ ہی یہ اعلان کیا کہ اگر کوئی شخص منصب خلافت کا ان سے زیادہ اہل ہو تو وہ بطیب خاطر اس کے حق میں سبکدوش ہوجائیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔

دیکھئے تفصیلات ہوصفحہ 530

۔۔۔۔۔۔

سید یو (Sedilot) لکھتا ہے کہ ”اگر موروثی جانشینی کا اصول (حضرت علیؓ کے حق میں) ابتدا ہی سے تسلیم کرلیا جاتا تو وہ مناقشہ انگیز دعوے جنہوں نے اسلام کی تاریخ کو مسلمانوں کے خون سے رنگین کردیا پیدا نہ ہوتے۔۔۔۔۔ فاطمہؓ کے شوہر کو وراث نبی کی حیثیت سے بھی اور انتخاب کی بناء پر بھی جانشینی کا حق پہنچتا تھا۔توقع کی جاسکتی تھی کہ ان کی عظمت و منزلت کے سامنے ہر کوئی سرتسلیم خم کردے گا لیکن ایسا ہونا مقدر نہ تھا۔“ سب سے پہلے تو زیبرؓ اور طلحہؓ نے علم بغاوت بلند کیا۔انہیں امید تھی کہ انتخاب جمہور کا قرعہ ان کے نام پڑے گا۔ اس میں انہیں جو ناکامی ہوئی اس پرتازیانہ یہ رہا کہ حضرت علیؓ نے انہیں بصرہ او رکوفہ کا حاکم بنانے سے انکار کردیا۔ ان کی اعانت حضرت عائشہؓ بنت ابوبکرؓ نے کی، جنہوں نے سابق انتخابات میں سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔ وہ بغاوت کی روح رواں تھیں اور خود اونٹ پر سوار ہوکر لشکر کے ہمراہ میدان جنگ میں آئیں۔ حضرت علیؓ نے اپنے چچیرے بھائی حضرت عبداللہؓ بن عباس کو باغیوں کے پاس بھیجا تاکہ وہ انہیں ان کے فرائض دینی یاد دلاکر انہیں جنگ کے ذریعے فیصلہ کرانے سے بازرکھیں۔لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ زبیر اور طلحہ نے خرُیبہ ے مقام پر خلیفہ کی فوجوں کا مقابلہ کیا۔انہیں شکست ہوئی اور وہ ایام جنگ میں مارے گئے۱؎۔ حِضرت عائشہؓ گرفتار ہوئیں، ان کے ساتھ مروت وعزت ہوئی تھی کہ حضرت علیؓ کو امیر معاویہؓ کی شام میں بغاوت کی خبر ملی۔حضرت عثمانؓ کے دوسرے رشتہ داروں کی طرح جنہیں انہوں نے صوبوں کے عمّال مقرر کیا تھا، امیر معاویہ نے بھی اس زرو مال کی مدد سے جو خلیفہ سوم نے انہیں عطا کیا تھا او رجو انہوں نے شام کی حکومت کے دوران حاصل کیا تھا،پیشہ ور سپاہیوں کی ایک معتدبہ تعداد اپنے گرد جمع کرلی تھی۔ حضرت علیؓ کو ان کے مشیروں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ جب تک وہ اپنے دشمنوں کے مقابلے کے لیے کافی مضبوط نہ ہوجائیں اس وقت تک حضرت عثمانؓ کے مامور کئے ہوئے حاکمان صو بجات کو برطرف نہ کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ اس مناسبت سے کہ حضرت عائشہؓ اس لڑائی میں اونٹ پر سوار ہوکر شریک ہوئیں اس کا نام جنگ جمل رکھا گیا۔ جس مقام پر لڑائی ہوئی اورجہاں زبیر وطلحہ مارے گئے اس کا نام وادی الشیع ہے۔

دیکھئے تعلیقات صفحہ۔530

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 لیکن اسلام کے بایار (Bayard)۱؎ بے خوف و بے عیب شجاع۲؎۔ کو کسی قسم کی منافقت او ربے انصافی کے ساتھ کسی قسم کی مصالحت گورانہ تھی۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ نے جن جن لوگوں کو برسراقتدار کیا تھا اور جو اس کے اہل ثابت نہ ہوئے تھے۔ ان سب کی معزولی کے حکم جاری ہوگئے۔ امیر معاویہ نے فی الفور کھلم کھلا بغاوت کردی۔انہیں متعدد لڑائیوں میں جو صفین کے میدان میں لڑی گئیں شکست ہوئی۔ لڑائی کے آخری دن،جب ان کے سپاہی مالک الاشتر کے حملوں کی تاب نہ لاکر تتّر بتّر ہورہے تھے۔ انہیں اپنے سپاہیوں کو تباہی سے بچانے کی ایک نئی ترکیب سوجھی۔انہوں نے اپنے چند سپاہیوں کے نیزوں پر قرآن پاک بندھوا دیا اوروہ سپاہی نیزے بلند کرکے آگے بڑھے،بہ آواز بلند یہ کہتے ہوئے کہ”مسلمانوں کے خون کو بہنے سے روک لو،اگر شام کی فوج تباہ ہوگئی تو مملکت کی سرحدوں کو یونانیوں سے کون بچائے گا۔؟ اگر عراق کی فوج تباہ ہوگئی تو ترکوں او رایرانیوں سے مملکت کی سرحدوں کو کون محفوظ رکھے گا؟ کلام الہٰی کو ہمارے درمیان فیصلہ کرنے دو۔“ حضرت علیؓ جو باغیوں کے سرغنے اور اس کے شریک سازش عمر وبن العاص کی سیرت سے خوب واقف تھے، اس چال کو سمجھ گئے او رانہوں نے اپنے ساتھیو ں کو ایک کثیر جماعت نے لڑائی جاری رکھنے سے انکار کردیا اور یہ مطالبہ کیا کہ تنازعے کا فیصلہ ثالثی کے ذریعے کرایا جائے۔ حضرت علیؓ نے انہیں یقین دلانا چاہا کہ امیر معاویہ محض اپنی جان بچانے کی خاطر قرآن پاک کو ایک حیلے کے طور پر استعمال کررہے تھے لیکن ان لوگوں نے ایک نہ مانی،بلکہ رفاقت سے منحرف ہوجانے کی دھمکی دی۔ چنانچہ۳؎ مالک الاشتر میدان سے واپس بلالیے گئے،لڑائی بند کردی گئی او راس وقت تک

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ مترجم کانوٹ: بایار فرانس کا ایک مشہور جنگ آزما ہے(1473ء تا 1524ء) جسے ”بے خوف و بے عیب جنگ آزما“ کے القاب سے یاد کیا جاتاہے۔

۲؎ یہ وہ الفاظ ہیں جو میجر اور زبرن(Osborn) نے حضرت علیؓ کی شان میں استعمال کئے ہیں۔

۳؎ شہر ستانی۔حصہ اوّل۔صفحہ 85۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کی فتح یابی سے جو کچھ حاصل ہوا تھا وہ ہمیشہ کے لیے ہاتھ سے جاتارہا۱؎۔ ثالثی کا اہتمام کیا گیا۔ جن متعصب لوگوں نے حضرت علیؓ کومجبور کیا تھا کہ عین اس وقت جب فتح قریب تھی تلوار یں میان میں رکھ لیں انہی لوگوں نے انہیں اس پر مجبور کیا کہ اپنی رائے اور مرضی کے برخلاف حضرت ابوموسیٰ اشعری کو خانوادہ نبوی کا نمائندہ مقرر کریں۔ حضرت ابوموسیٰؓ اشعری اپنی شادگی کی وجہ سے اس قابل نہ تھے کہ عمر و بن العاص کی چالاکی و ہوشیاری کا مقابلہ کرسکتے، جو کہ خاندان معاویہ کے نمائندہ مقرر ہوئے۔ چنانچہ وہ عمر وبن العاص کی چال کا شکار ہوگئے۔ عمر بن العاص نے ان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ حضرت علیؓ کی منصب خلافت سے او رامیر معاویہ کی حاکمیت شام سے برطرفی اور کسی اور شخص کو خلیفۃ المسلمین کی حیثیت سے مسند نشینی ہی میں مسلمانوں کی بہتری تھی۔ چنانچہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے منبر پر چڑھ کر حضرت علیؓ کی سبکدوشی کا اعلان کردیا۔ وہ یہ اعلان کرکے دل ہی دل میں اس احساس سے خوش کہ انہوں نے ایک بڑا نیک کام کیا ہے منبر پر سے اُترے۔ ان کا اُترنا تھا کہ عمر وبن العاص مسکراتے ہوئے منبر پر چڑھے اور حضرت علیؓ کی برطرفی کافیصلہ قبول کرکے معاً امیر معاویہ کے منصب خلافت پر تقرّر کا اعلان کردیا۔ بے چارے ابوموسیٰ اشعریؓ ششدر رہ گئے۔بہر حال،چونکہ جو چالبازی کی گئی تھی وہ بدیہی تھی،فاطمیوں نے فیصلے کے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ یہ واقعہ دومۃ الجندل کے مقام پر ظہور میں آیا۔ بنو اُمیہ کی فریب کاری سے بنی فاطمہ بے حد برافروختہ ہوئے،چنانچہ دونوں فریق ایک دوسرے سے ہمیشہ کی نفرت کا عہد کرکے علیٰحدہ ہوگئے۔ تھوڑی ہی مدّت بعد حضرت علیؓ کو فہ کی ایک مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے شہید ہوگئے۲؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ جن لوگوں نے خلیفہ کو ثالثی کے ذریعے فیصلہ کرانے پرمجبور کیا انہی لوگوں نے بعد میں اس فیصلے کو ردّ کردیااور ان کے خلاف اس بات پر بغاوت کردی کہ انہوں نے کیوں ان کامطالبہ مانا تھا۔ یہ لوگ اوّلین خوارج تھے جنہوں نے آگے چل کر دنیائے اسلام میں بے انتہا فتنہ وفساد برپا کیا۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔

۲؎ اپنی امتیازی عالی ظرفی سے حضرت علیؓ نے اپنے غّدار دشمنوں (باقی حاشیہ صفحہ 456پر ملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ان کی شہادت سے فائدہ اٹھا کر امیر معاویہ نے شام اور حجاز دونوں میں اپنے آپ کو مضبوط کرلیا۔ حضرت علیؓ کی وفات پر ان کے بیٹے حضرت حسنؓ کو خلیفہ منتخب کیاگیا۔ حضرت حسنؓ کو امن و سکون پسندتھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے خاندان کے دشمن سے صلح کرلی اور دنیا سے کنارہ کش ہوکر گوشہ نشین ہوگئے لیکن بنو امیّہ کے بُغض نے انہیں وہاں بھی چین سے نہ جینے دیا۔ چنانچہ چندمہینے بھی نہ گزرے تھے کہ انہیں زہر پلاکر شہید کردیا گیا۔ اب ہند کے بیٹے کا ستارہ بلندی پر تھا اور ابوسفیان کے دل میں مکہ کابادشاہ بننے کی جو تمنا تھی وہ اس کے بیٹے امیر معاویہ نے اس سے بھی شاندار پیمانے پر پوری کردی۔پیغمبر اسلا م کے دو سب سے بڑے دشمنوں کا بیٹا یوں مسند خلافت پر متمکن ہوا۔ تقدیر کی اس سے بڑی بوالعجبی دنیا کی تاریخ میں درج نہیں۔

امیر معاویہ کے برسر اقتدار آتے ہی زمانہ جاہلیت کے عدیدی نظام نے اسلام کے جمہوری نظام حکومت کی جگہ لے لی۔ بے دینی اپنی تمام بُرائیاں لئے ہوئے عود کرآئی۔اُموی حاکم اور شامی سپاہی جہاں کہیں جاتے تھے فسق وفجور کو اپنے جلوس میں لے جاتے تھے۔ حجاز اور عراق غاصب کے پنجے میں کراہ رہے تھے،لیکن اس نے اسلام کو ٹینٹوا اسی مضبوطی سے دبا رکھا تھا کہ اس کا چھُڑانا آسان نہ تھا۔ جو زرومال وہ بے دردی کے ساتھ رعایا سے وصول کرتاتھا وہ سب سے بھاڑ ے کے سپاہیوں پر خرچ کردیتا تھا،چنانچہ سپاہی شکایات کا گلا گھونٹ دیتے تھے۔اپنی وفات کے پہلے امیر معاویہ نے فوج کے عمائد کو جمع کیا اوران سے اپنے بیٹے یزید کے حق میں حلف وفاداری اُٹھوایا، جسے انہوں نے اپنا جانشین نامزد کیا۔ یہ تھا لے دے کر یزید کا حق منصب خلاف پر!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ صفحہ 455) کے خلاف جنگ میں بھی اپنے سپاہیوں کو یہ حکم دے رکھا تھا کہ حملہ کرنے میں کبھی پہل نہ کریں، پناہ مانگنے والوں کو پناہ دیں، قیدیوں سے عزت کا سلوک کریں اور عورتوں کی بے حرمتی نہ کریں،۔اپنے دم واپسیں سے انہوں نے اپنے بیٹوں کو یہ وصیت کی کہ قاتل کو ایک ہی وار سے قتل کریں، اور اسے کسی قسم کی غیر ضروری ایذانہ پہنچائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یزید طبعاً جابروظالم تھا۔ اس پر طُرّہ یہ کہ اس میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ اپنی ستم رانیوں کو ملکی مصلحتوں کے بھیس میں چھپا سکے۔ اس کی خبیث فطرت رحم و انصاف کے نام سے بھی آشنا نہ تھی۔ انسانوں کو قتل کرنااو رایذا پہنچانا اس کے لیے محض ایک مشغلہ تفریح تھا۔جیسا وہ خود بدترین عیوب کاپتلا تھا، ویسے ہی اس کے ہم پیالہ وہم نوالہ دونوں اصناف کے رذیل ترین افراد تھے۔یہ تھا وہ شخص جو اپنے وقت کا خلیفہ او رامیر المومنین تھا! حضرت علیؓ کے دوسرے بیٹے امام حسینؓ نے اپنے باپ کی ساری شجاعت او رنیکوکاری ورثے میں پائی تھی۔محاصرہ قسطنطنیہ میں انہوں نے بہادری اور جنگی مہارت کے جوہر دکھائے تھے۔ ان کی ذات میں فرزندعلیؓ کاحق وراثت او رنبیرہئ نبی کی مقدس شخصیت دونوں مجتمع تھیں۔ امیر معاویہ امام حسنؓ کے درمیان جو معاہدہ صلح ہوا تھا اس میں مسند خلافت پر ان کا حق صراحتہً محفوظ رکھا گیا تھا۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے دعویٰ خلافت کو قبول نہ کیاتھا۔ چنانچہ جب مسلمین کوفہ نے ان سے درخواست کی کہ انہیں بنی اُمیہ کے قبضے سے نجات دلائیں تو انہوں نے ان کی مدد کو اپنا فرض سمجھا۔ اہل کُوفہ نے انہیں یقین دلایا کہ ان کے آتے ہی سارا عراق غاصب کو تخت پرسے اتار نے کے لیے اٹھ کھڑاہوگا۔ اس پر اعتماد کرکے وہ اہل وعیال کے ہمراہ نہتے قافلے کو ساتھ لے ہوئے وہ صحرائے عرب کو تو عبور کرگئے لیکن جب وہ سرحد عراق کے قریب پہنچے تو جس عام بغاوت کا وعدہ ان سے اہل کوفہ نے کیا تھا انہیں اس کے کوئی آثار دکھائی نہ دیئے۔ ان کے دل میں اندیشہ پید ا ہوا کہ بنواُمیّہ پھر ایک بار اپنے مرغوب حوبے یعنی غدّاری سے کام لے  رہے ہیں،چنانچہ انہوں نے دریائے فرات کے مغربی کنارے کے قریب مقام کربلا پر پڑاؤ ڈالا۔ اس مقام پرجو واقعات ظہور میں آئے تاریخ کا کوئی واقعہ دردناکی میں ان پر سبقت نہیں لے جاتا۔ امام حسینؓ کے دل میں غدّاری کا جو اندیشہ تھا وہ صحیح ثابت ہوا۔ ایک اُموی لشکر نے جس کی کمان شقی اور خونخوار عبیداللہ ابن زیاد کے ہاتھ میں تھی، انہیں گھیرے میں لے لیا، کئی دنوں تک ان کے خیمے گھرے رہے۔ ان کمینے کتوں میں اتنی جرأت تو نہ تھی کہ میدان میں آکر فرزند حیدر کی تلوار کا مقابلہ کرتے۔ انہوں نے بس اتنا کیاکہ لشکر حسینؓ پر دریا تک جانے کا راستہ بند کردیا۔ اس بندش کی وجہ سے شہیدوں کے ا س گروہ پر جو مصیبتیں گزریں وہ بیان سے باہر ہیں۔ حضرت حسینؓ نے فوج یزیدی کے سردار کے سامنے تین باعزّت شرائط پیش کیں۔ پہلی یہ کہ انہیں مدینے واپس دیا جائے،دوسری یہ کہ ترکوں کے خلاف لڑنے کے لیے سرحد کی کسی چوکی پر بھیج دیا جائے۔ تیسری یہ کہ انہیں صحیح و سالم یزید کے سامنے پیش کیا جائے۱؎۔ لیکن اُموی غاصب نے اپنے سپہ سالار کو کڑا او راٹل حکم دے رکھا تھا کہ امام حسینؓ او ران کے ساتھیوں پر کسی قسم کارحم نہ کرے،بلکہ انہیں مجرموں کی حیثیت سے دربار خلافت میں حاضر کرے تاکہ اُموی عدل ان سے جو سلوک روارکھے وہ سلوک ان سے کیا جائے۔ آخر میں امام حسینؓ نے ظالم دشمنوں سے یہ درخواست کی کہ وہ بے بس عورتوں او ربچوں کو گزند نہ پہنچائیں بلکہ ان کی جان لے کر جنگ کا خاتمہ کریں۔ لیکن ان ظالموں کو رحم چھُو بھی نہ گیاتھا۔ جب وہ اس پر بھی راضی نہ ہوئے تو امام حسینؓ نے اپنے رفیقوں کو تاکید کی کہ وقت کو غنیمت جان کربھاگ جائیں او راپنی جان بچائیں لیکن ان سب نے بہ یک آواز اپنے محبوب آقا کو چھوڑ کر چلے جانے یا ان کے بعدزندہ رہنے سے انکار کردیا۔ اس موقع پر دشمن کے ایک سردار کے دل میں نبیرہئ نبی سے جنگ کرنے کے خیال سے خدا کا خوف آیا اور ثہ ان کی شہادت میں شریک ہونے کا تہیہ کرکے اپنے تیس آدمیوں کے ساتھ آکر ان سے مل گیا۔جتنے دست بہ دست یادو بدومقابلے ہوئے ان میں دشمنوں کے پاس اولاد فاطمہ کی دلاوری کا کوئی جواب نہ تھا۔ چنانچہ دشمن کے تیر انداز وں نے دورہی سے ان پر تیروں کی بوچھاڑ شروع کردی اور ایک ایک کرکے انہیں جام شہادت پلادیا۔ تاکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا نواساتن تنہا رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ صاحب روضتہ الصّفایہ شرائط بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ خدام حسینؓ میں سے ایک شخص نے جو مقتل کربلا سے اتفاقاً بچ نکلا،اس دعوے کو غلط بتایا کہ امام حسینؓ نے اُموی سردار کے سامنے کسی قسم کی شرائط صلح پیش کیں۔ممکن ہے کہ اس خادم نے یہ انکار یہ ظاہر کرنے کی خاطر کیا ہوکہ امام حسینؓ نے صلح کی تجویز کرکے اپنے آپ کو دشمن کے سامنے ذلیل نہیں کیا، لیکن میرے نزدیک صلح کی تجویز سے حضرت حسینؓ کی سیرت عالیہ کی کسی طرح کسرِ شان نہیں ہوتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زخموں سے چور اور جاں بلب امام حسینؓ اپنے چھلنی جسم کو گھسیٹتے ہوئے پانی کے ایک آخری گھونٹ کی خاطر دریا پر پہنچے لیکن دشمنوں نے تیروں کی بارش کرکے انہیں وہاں سے پیاسا لوٹا دیا۔ اپنے خیمے میں داخل ہوکر انہوں نے اپنے شیر خوار بچے کو گود میں لیا۔ معاً ایک تیر بچے کوآکر لگا اور وہ وہی شہید ہوگیا۔ سیدالشہداء نے رضائے الہٰی کے سامنے سرجھکادیا۔ اپنے بے رحم دشمنوں کے مقابلے کی مزید تاب اپنے میں نہ پاکر، بے یارومددگار تھکے ماندے،وہ آکر خیمے کے سامنے بیٹھ گئے۔ ایک عورت نے ان کی پیاس بجھانے کے لیے انہیں پانی کا ایک پیالہ دیا۔ وہ پیالہ اٹھاکر ہونٹوں تک لے جانے نہ پائے تھے کہ ایک تیر آکر ان کے منہ پر لگا۔ ان کے فرزند اوربھتیجے ان کی گود میں جنت کو سدھارے۔ اس وقت انہوں نے اپنے لہولہان ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے او رتمام لوگوں کے لیے دعائے مغفرت کی۔ اس کے بعدو ہ سربکف ہوکر اٹھے او رلشکر اُموی پر ٹوٹ پڑے۔ وہ جدھر جاتے دشمن پیچھے ہٹ جاتے لیکن خون کے بہہ جانے سے ان پر اتنی نقاہت طاری ہوگئی تھی کہ وہ زمین پر گر پڑے۔پھر کیا تھا؟ قاتلوں کی ایک ٹولی ان پرٹوٹ پڑی۔ملعونوں نے سیّد الشہداء کا سر تن سے جدا کردیا، ان کے جسم کو پاؤں تلے لتاڑا اور ہند کی تقلید میں ہر ممکن طریقے سے اس کی بے حرمتی کی۔سر مبارک کو اٹھا کر وہ کوفے کے قلعے میں لے گئے،جہاں انسانیت سے گرے ہوئے عبیداللہ بن زیاد نے اس مردہ سرکے منہ پر ایک بید مارا۔ ایک بوڑھا مسلمان چلاّ اٹھا: ”میں نے اپنی آنکھوں سے ان ہونٹوں پرر سول خداصلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹ دیکھے ہیں“۔گبّن (Gibbon) لکھتا ہے:”ایک بعید زمانے او رملک میں حسینؓ کی شہادت کاجگر خراش واقعہ سر د مہر سے سرد مہر شخص کے دل میں جذبہئ ہمدردی پیدا کرے گا۔“شہادت حسینؓ کی یاد میں ہر سال حضرت علیؓ اور ان کی اولاد کے پیرو جو ماتم وشیون اور اظہار غم و غصہ کرتے ہیں، ہم اس سے متفق ہوں یا نہ ہوں، اس شہادت کی کیفیت سننے کے بعد اس کاسمجھنا ہمارے لیے آسان ہوجاتاہے۔

یوں رخصت ہوا اس دنیا سے اپنے زمانے کا ایک اشرف الشّرفاء اور اس کے ساتھ اس کے خاندان کے سب افراد۔کیابوڑھے او رکیا جوان،چل بسے،سوائے ایک نحیف و ترار بچے کے، جسے امام حسینؓ کی بہن زنیبؓ نے قتل عام سے بچا لیا۔ اس بچے کانام دادا کے نام پرعلی تھا اور وہ آگے چل کر زین العابدین کے لقب سے مشہور ہوا۔ امام زین العابدین ایران کے آخری ساسانی بادشاہ یزد گرد کی بیٹی کے بطن سے امام حسینؓ کے بیٹے تھے۔ اس طرح ان کی ذات خانوادہئ محمدی کی آخری یادگار تھی۔ دوسری طرف وہ ماں کے وسیلے سے تحت ساسانی کے آخری دعویدار تھے۔

امام حسینؓ اور ان کی اولاد جو قیامت ٹوٹی اس سے عالم اسلام میں کُہرام مچ گیا۔ اس کی بدولت عوام کے احساسات وجذبات میں جو انقلاب آیا وہ اسلام کے حق میں ایک آیہ رحمت ثابت ہوا۔ بنی اُمیّہ کے دربار میں دمشق سے فسق وفجور کا جو دھارا بہ رہا تھا وہ بند ہوگیا۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عامۃ المسلمین کی خاطر جو کچھ کیا تھا اس کی یاد ان کے دلوں میں تازہ ہوگئی اور انہیں اس کااحساس ہوگیا کہ دشمن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد و اسلام کو کیسے کیسے نقصان پہنچارہی تھی۔ بہر حال بنو اُمیّہ نے تلوار او رزہر کی مدد سے ایک صدی تک حکومت کی۔انہوں نے مدینے کو تاخت و تاراج کردیا اور انصار کی اولاد کو شہر بدر کر کے دور دراز ملکو ں میں بھیج دیا۔ جس شہر نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو بُت پرستوں کے مظالم سے پناہ دی تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محبت تھی، جس کی خاک کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قدم بوسی کا شرف نصیب ہوا تھا، جس کے چپے چپے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت حق نے مہر تصدیق ثبت کی تھی، اس کی ہر مذموم طریقے سے بے حرمتی کی گئی۔ جن لوگوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوکر مصائب کامقابلہ کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دین کی عمارت کھڑی کرنے میں مدد دی تھی ان پر ایسے ایسے دہشت ناک اور انسانیت سوز مظالم توڑے گئے جن کی مثال یا تو فرانس کے کنسٹبل (Constable of France) کے سپاہیوں یا روم کی تباہی کے موقع پر جارج فرنڈزبرگ (George Frundsberg) کے ماتحت لوتھرکے پیروؤں کی خون آشامیوں بچوں کے سوا کہیں نہیں ملتی۔ مرد چن چن کر تہ تیغ کئے گئے۔عورتوں کی عصمت دری کی گئی اور بچوں کو طوق غلامی پہنا دیا گیا۔ جامع مسجد اصطبل بنا دی گئی۔مقدس عمارتیں ڈھادی گئیں،اور ان کاسازو سامان لوٹ لیا گیا۔ غلافت اُموی کے زمانے میں شروع سے لے کر آخر تک مدینہ منورہ جنگی جانوروں کا مسکن بنا رہا۱؎۔مکہ میں کفر وشرک کو ازسر نوغلبہ حاصل ہو گیا۔ ڈوزی (Dozy) کاکہنا ہے کہ اس نے اسلام سے نہایت دہشت انگیز اور گھناؤنا انتقام لیا۔اسلام نے اپنی فتح ونصرت کی گھڑی میں اہل مکہ اورنبی اُمیہ سے جو رحم وعفو کا سلوک کیا تھا، اس کا معاوضہ انہوں نے یہ دیا! بنی اُمیّہ میں ایسے متعدد لوگ ہوئے ہیں جنہوں نے زہد و تقویٰ میں امتیاز حاصل کیا۔ ان کے سرفہرست حضرت عمر بن عبدالعزیز کا نام ہے،جنہیں عربوں کا مارکس آریلیس۲؎۔ (Marcus Aurelus) کہنا چاہئے۔وہ ایک مرد متقی،ایک حاکم عادل اور ایک خدا ترس مسلمان تھے جنہوں نے اپنی زندگی کو اپنی اپنے عظیم ہم نام کی زندگی کے سانچے میں ڈھالا۔لیکن ان برگزیدہ لوگوں کو چھوڑ کر اُموی خلیفے کھلم کھلا،بلکہ بڑے فخر سے احکام دین کی خلاف ورزی کرتے تھے۔

اگر اُمویوں کی مفسدہ پروازی نہ ہوتی تو جو لوگ اہل بیت ۳؎ کے پیرو او رمسند خلافت پر حضرت علیؓ کے حق جانشینی کے حامی تھے او رجن لوگوں کو نظریہ یہ تھا کہ دینی قیادت اور دنیوی ریاست دونوں کے لئے عامۃ الملسمین کو انتخاب کاحق ہے ان کے باہمی اختلافات اس حد تک نہ بڑھتے کہ تفرقے کی صورت اختیار کرلیتے بلکہ حضرت علیؓ کی مسند نشینی کے بعد خودبخودکوئی مصلحت یا مفاہمت ہوجاتی۔ اولادِ اُمیّہ کے تشدد اور غّداری نے ان اختلافات کے رفع ہونے کا امکان ہی مٹا دیا۔ چونکہ بنی اُمیہ جون کے دریا کی شنادری کرکے تخت سلطنت تک پہنچے تھے، اس لیے ان کے لیے ضروری تھا کہ اپنے منصب کوقانونی جواز کا لباس پہنائیں۔چنانچہ وہ حق انتخاب کی بناء پر امیر المومنین کے لقب کے مدعی تھے، اگر چہ خود ان کے بھاڑے کے حامی اور ان کے بے دین طرفدارہی کرتے تھے۔ مدینے کی بربادی اور خانوادہ نبوی او رمہاجرین و انصار کے مارے جانے یا اطراف ملک میں بکھر جانے کے بعد خلافت راشدہ سے نظیریں سند میں پیش کرنا یا اگر ایسی نظیریں نہ ملیں تو انہیں تراش لینا آسان تھا۔

۔۔۔۔۔۔

۱؎ عبدالملک بن مردان نے تو یہاں تک کیا کہ روضہ نبوی کی زیارت کی ممانعت کافرمان جاری کردیا۔

۲؎ روم کا فلسفی شہنشاہ (121ء تا180ء) مترجم

۳؎ اس ترکیب کے معنی کے لیے صفحہ 473 پر کاذیلی حاشیہ ملاحظہ کیجئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امیر المومنین کا لقب اختیار کرلینا مشکل نہ تھا، جسے خلفائے راشدین چاہتے تو اختیار کرسکتے تھے لیکن جس سے انہوں نے احتراز کیا، اس لیے وہ عامۃ المسلمین کے حق انتخاب کے مؤیدتھے۔جن عظیم الشان لوگوں نے جمہوریت کی بنیاد رکھی تھی وہ یا تو مرچکے تھے یا مارے جاچکے تھے،ان کے بچے یا تو دور دراز گوشوں میں پناہ گزیں تھے یا غلامی کی زنجیرو ں میں جکڑے ہوئے تھے۔اس لقب کے بارے میں،جو اتنی ہوشیاری سے اپنالیا گیا تھا، اٹھانے والا اب کون تھا؟بنو اُمیّہ کے بعد جو خاندان برسراقتدار آیا، اس نے انہی کے مسلک کی تقلید کی۔ جس شدید شک سے کام لے کر بنی اُمیّہ اولاد فاطمہؓ کے ستانے اور مٹانے کے درپے رہے وہی رشک آل نبی کے بارے میں بنی عباس کے رویّے کا محّرک تھا۔ خود بنی عبّاس کو خلافت پرکوئی حق نہ پہنچتا تھا۔چنانچہ عوام کو اولاد فاطمہؓ سے جو محبت تھی انہوں نے اسے تخت سلطنت پر متمکن ہونے کا وسیلہ بنایا اور جب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے تو اس کا معاوضہ انہوں نے بنی فاطمہؓ کو انتہائی وستم کی صورت میں دیا۔ ان کا قانونی حق بھی ایک قسم کے نام نہاد انتخاب پر مبنی تھا، اس لیے قدرتی طور پر انہوں نے بھی بنی اُمیّہ کی طرح تمام ایسے لوگوں کو چن چن کر مارا جو ان کے دعوے پر معترض تھے یا اس نظریئے کے حامی تھے کہ منصب امامت سلسلہ نبوی کا موروثی حق ہے۔ہر قسم کے اختلاف رائے کو جبراً دبا دیا گیا۔ یہاں تک کہ فقہائے عصر میں بھی اگر کوئی ایسی رائے ظاہر کرنے کی جرأت کرتے جو خلیفہ وقت کے نزدیک مقبول نہ تھی تو انہیں سزا دی جاتی۱؎۔ جن حالات میں بنی عبّاس کو غیر متوقع او رناگہانی طور پر اقتدار حاصل ہوا اگر ہم ان حالات کو نظر انداز کردیں تو ہمیں ان کا برسر اقتدار آناایک حیرت انگیز و اقعہ معلوم ہوگا۔ بنی اُمیّہ نے اولاد فاطمہؓ پرجو جگر خراش مظالم توڑے انہوں نے او رجس عالی ہمتی سے اولاد فاطمہؓ نے اپنے مصائب کو برداشت کیااس نے ان غاصبوں کے خلاف ایک عام جذبہ نفرت پیدا کردیا تھا او رمظلوموں کو اپنے پیروؤں او رمعتقدوں کی نگاہوں میں عظمت کے ایک نورانی ہالے سے مجلٰی کردیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ سنّی مذہب کے تیسرے امام مالک ابن انس کو اس جرم کی سزا علی الاعلان دی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جفا شعاری چاہے کتنی ہی سخت کیو ں نہ ہو ہمیشہ اپنے مقصد میں ناکام رہی ہے۔ وہ جس فرقے یا جماعت کے خلاف بھی عمل میں لائی گئی اس کے ایمان یا عقیدے کو ختم نہیں کرسکی بلکہ اسے اظہار کے نئے طریقے سکھاتی او راسے تقویت بخشتی رہی ہے۔ عیسائیت کی طرح اسلام میں بھی میدان جنگ کے خطرات او رمظلومیت کے دردوکرب نے ان چیزوں کو جن کی خاطر ان خطرات کا سامنا کیا گیا اور یہ درد و کرب سہا گیا ایک مافوق العادۃ شان وشوکت عطا کردی۔ چنانچہ بنیفاطمہؓ جو انسانوں کی نے انصافی کا تختہ مشن بن کر دنیا سے کنارہ کش او رعلمی و دینی مشاغل میں منہمک ہوگئے تھے، ہتھیاروں، خزانوں اور حشم وخدم کے بغیر لوگوں کے دلوں پر حکومت کررہے تھے او رلشکروں کے سردار اور قصر سلطانی کے کمین خلیفہ کی بہ نسبت انہیں عوام کی بدر جہا ں زیادہ عزت حاصل تھی۔امویوں کی ستم دانیاں حد سے تجاوز کرچکی تھیں او رلوگ ان کے ہاتھوں سے نجات کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ ملک کے گوشے گوشے میں جعلی خلیفوں کی بدعنوانیوں او ربدنظمیوں نے یہ ولولہ انگیز تمنا پیدا کردی تھی کہ آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا حق مل جائے۔ لوگ بے تابی سے ائمہ اہل بیت کے اشارے کے منتظر تھے لیکن یہ اہل اللہ دنیا سے مظلومیو ں کا انتقام لینے کے لیے کئی جانباز۱؎ اٹھے تھے،لیکن اپنے شامی دشمنوں کی صف بستہ فوجوں کے ہاتھوں تباہ ہوگئے تھے۔لوگوں کو اس کا انتظار تھا کہ خدا کی طرف سے ان کے جو رہبر مقرر ہوئے ہیں وہ انہیں بغاوت کا حکم دیں۔ لیکن ان ہادیان دین نے تشدد کی ممانعت کردی تھی ایسے میں کیا کیا جاسکتا تھا؟ اہل بیت میں سے چند افراد نے بزرگان خاندان کے مشورے کے برخلاف اور ان کی رضا مندی کے بغیر بنی اُمیّہ کے خلاف ہتھیار اٹھائے تھے،لیکن وہ سب اپنی اولو العزمی اور اپنے دینی جوش کی قربان گاہ پر قربان ہوگئے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ سلیمان ابن سُرّاد،المختار او ریزید ابن مہلّب۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اضطراب وبے اطمینانی کے اس لمحے میں جب لوگ خاندان نبوی کی طرف سے کسی اشارے کے لئے چشم براہ تھے، بنو عباس منظر عام پر آئے۔ بنو عباس رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباسؓ کی اولاد تھے، حضرت عباس نے دلی شفقت سے اسلام کی خدمت کی تھی اور جب اہل مدینہ نے وہ حلف اٹھایا جو ”بیعت النسا۱؎“ کے نام سے مشہور ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، لیکن مصلحت کی بناء پر انہوں نے فتح مکہ س پہلے علانیہ طور پر اسلام قبول نہ کیا۔ پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بڑی محبت او رمروّت کاسلوک کرتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید کرتے تھے۔ اگر عّمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کبھی انہیں راستہ میں پیادہ پا چلتے ہوئے مل جاتے تو وہ گھوڑے پر سے اتر پڑتے اور اکثر اوقات ان کے ساتھ چل کر انہیں گھر پہنچا آتے۲؎۔ان کی وفات بعض روایات کے مطابق 22ہجری میں ہوئی او ربعض روایات کے مطابق 24ہجری میں۔ان کے چار بیٹے تھے: عبداللہ (ابوالعباس عبداللہ ابن عباس)، فضل،عبیدللہ اور رقثم۔ حضرت عبداللہ،جو تاریخ اور روایات میں ابن عباس کے نام سے مشہور ہیں،619ء میں مکہ میں پیدا ہوئے،یعنی ہجرت سے تین سال پہلے۔ قرآن اور فقہ میں انہیں حضرت علیؓ کی شاگردی کا فخر حاصل ہوا۔ قرآن اور خلفائے راشدین کے فیصلوں کے علم اور تفسیر میں انہیں اتنی شہرت حاصل تھی کہ ان کے خطبے سننے کے لیے اطراف مملکت سے لوگ جوق در جوق آتے۔وہ ہفتے میں ایک دن تفسیر قرآ ن کا،دوسرے دن فقہ کا،تیسرے دن صرف ونحوکا،چوتھے دن تاریخ اعراب کا او رپانچویں دن شعر وشاعری کا درس دیتے۔قرآن کی مشکل الفہم عبارتوں کی تشریح وہ اکثر قدیم شعرائے عرب کے کلام سے مثالیں پیش کرکے کیا کرتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ بیعت النساء کو بیعت عقبہ اولیٰ بھی کہتے ہیں۔بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ حضرت عباس اس بیعت کے وقت نہیں بلکہ دوسری بیعت عقبہ (یعنی بیعت الحرب) کے وقت موجود تھے۔(مترجم)

۲؎ حضرت عباس کو تاریخ اسلام کا John of Gaunt کہہ سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے بدولت ادب جاہلیت کے مطالعے اور تحفظ کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ وہ اکثر ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ: ”جب کبھی تمہیں قرآن کے سمجھنے میں کوئی مشکل پیش آئے تو اس کا حل شعرائے عرب کے کلام میں ڈھونڈو، کیونکہ وہ عرب قوم کا صحیفہ ہے۱؎۔“حضرت ابن عباسؓ او ران کے بھائیوں کو حضرت علیؓ سے جو عقیدت تھی وہ ضرب المثل تھی۔ چاروں بھائی جنگ جمل میں شریک ہوئے اور جنگ صفّین میں حضرت ابن عباس نے،جو ایک عالم مبّحّر ہونے کے علاوہ فّن حرب کے بھی ماہر تھے، حضرت علیؓ کی سوار فوج کی قیادت کی۔ متعدد موقعوں پر وہ حضرت علیؓ کے سفیر بنا کر بھیجے گئے۔ جب سرکش سپاہیوں نے حضرت علیؓ کو اس پر مجبور کردیاکہ ان کے اور امیر معاویہ کے درمیان جو تنازعہ تھا اس کافیصلہ تحکیم سے کرائیں تو ان کی جو خواہش تھی کہ ابن عباّس کو خوانوادہ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا نمائندہ مقرر کریں ۲؎۔ابن عباسؓ نے امام حسینؓ کی شہادت کے بعد ان کے غم میں گھل کر 67 ہجری میں،جب کہ ان کی عمر ستر سال کی تھی، طائف کے مقام پر وفات پائی۔ ان کے بیٹے علیؓ کو بھی باپ کی طرح اولاد فاطمہؓ سے والہانہ محبت تھی۔ ان کی وفات 117 ہجری میں ہوئی او ران کے بیٹے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ خاندان کے سربراہ بنے۔

بنی اُمیّہ کے مظالم سب سے زیادہ ایران،عراق اور حجاز نے سہمے تھے۔چنانچہ اس وقت ان ملکوں میں بہت سی خفیہ جماعتیں ان کا تختہ الٹنے کی تدبیریں کرنے میں مصروف تھیں۔ان جماعتوں میں سب سے زیادہ سرگرم بنی عباس تھے،اوّل اوّل توغالباً اس لیے کہ وہ خلوص دل سے بنی فاطمہؓ کو ان کا حق دلوانے کے خواہشمند تھے،لیکن بعد میں اپنے ذاتی مفادات کی خاطر۔محمد ابن علی ابن عبداللہ پہلے شخض تھے جن کے دل میں خود خلیفہ بننے کا خیال پیدا ہوا۔ وہ بڑے قابل اور دور کی سوچنے والے آدمی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ حضرت ابن عباس سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ انہوں نے اتنا وسیع علم کیونکر حاصل کیا۔ انہوں نے جواب دیا۔”پوچھنے والی زبان اور سمجھنے والے دل کی مدد سے۔“

۲؎ شہرستانی۔حصہ اوّل۔صفحہ 85۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بظاہر تووہ فاطمیوں کی خاطر سرگرم کار رہے لیکن درپردہ انہوں نے رفتہ رفتہ اپنے خاندان کا دعویٰ منوانے کا بندوبست کرلیا۔اس سلسلے میں انہوں نے ایک نیا نظریہ ایجاد کیا۔ وہ یہ تھا کہ امام حسینؓ کی شہادت کے بعد اسلام کی روحانی قیادت ان کے پسماندہ بیٹے علیؓ (زین العابدین) کے حصے میں ہیں بلکہ محمد ابن الحنفیہ کے حصے میں آئی،جو قبیلہ حنیفہ کی ایک خاتون کے بطن سے (جو حضرت فاطمہؓ کی وفات کے بعد حضرت علیؓ کی زوجیت میں آئیں) حضرت علیؓ کے بیٹے تھے، اور محمد ابن الحنفیہ کی وفات کے بعد یہ میراث ان کے بیٹے ہاشم کو ملی، جنہوں نے اسے باقاعدہ طور پر محمد عباسی کو بخش دیا۔ اس دعوے پر بعض لوگوں کو اعتماد تھا، لیکن عوام کو،جنہیں اہل بیت سے پختہ عقیدت تھی، عباسیوں کے داعیوں نے اسی خیال میں رکھا کہ وہ اہل بیت کی خاطر مصروف کار تھے۔ اب تک عباسیوں کے داعیوں نے اسی خیال میں رکھا کہ وہ اہل بیت کی خاطر مصروف کار تھے۔ اب تک عباسیوں نے اہل بیت سے محبت کا دم بھرا تھا اوراپنی تمام کارروائیوں او رمنصوبوں کو یوں لوگوں کے سامنے پیش کیا تھا کہ جیسے ان کا مقصد اولادِ فاطمہؓ کو اس کا حق دلانا ہے۔ ان دعووں کے پردوں میں جو غدّاری چھپی ہوئی تھی، اہل بیت کے نمائندوں اور حامیوں کو ان کاسان گمان بھی نہ تھا، چنانچہ انہوں نے محمد بن علی اور ان کے رفیقوں کی کارروائیوں کی تائید کر کے انہیں وہ سندِ اعتبار بخش دی جس کی انہیں بے حد ضرورت تھی۔ ایرانیوں کو فاطمیوں کی کامیابی سے جو وبستگی تھی اس کے اسباب تاریخی اور قومی روابط تھے۔ فاطمی یزیدگرد کی بیٹی کی وساطت سے تخت ایران کے وارث تھے۔ تبلیغ اسلام کے آغاز ہی سے حضرت علیؓ نے ان ایرانیوں کے ساتھ جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا انتہائی مروّت اور دوست داری کا سلوک کیا تھا۔حضرت سلیمان فارسی،جن کا شمار ممتاز ترین صحابہ نبی میں ہوتا ہے۔ مدتوں تک حضرت علیؓ کے ندیم ورفیق رہے، جنگ قادسیہ کے بعد حضرت علیؓ کا دستور تھاکہ مال غنیمت کا جو حصہ انہیں ملتا وہ اسے قیدیوں کو رہائی دلوانے پر خرچ کرتے،بلکہ انہوں نے حضرت عمرؓ کو بھی ہمیشہ یہی مشورہ دیا کہ رعایا پر محاصل کے بوجھ ہلکے کریں۔ ان احسانوں کے بدلے میں ایرانیوں کے لئے حُبِّ اہل بیت ایک قدرتی بات تھی۔ محمد بن علی نے اس سے فائدہ اٹھایا اور ایرانیوں ں کو یہ یقین دلاکر کہ انہیں عربوں کے ظلم وستم سے رہائی ملنے ہی والی تھی، اپنا گرویدہ بنالیا۔ خراسان، فارس اور ایران کے دوسرے صوبوں میں جو یمنی آباد تھے انہیں بھی اہل بیت سے اتنی ہی محبت تھی اور ان کے سینوں میں نئے مظالم نے اپنے قدیم دشمنوں یعنی بنی مضر کے خلاف نفرت کی آگ اور بھی بھڑ کادی تھی۔ محمد بن علی نے انہیں یہ بتایا کہ وہ جو کچھ کررہے تھے آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر کررہے تھے۔ وہ اپنے عہد کے سب سے بڑے فوجی قائدابومسلم کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے،جو اب تک اولاد علی کے پرُجوش طرفدار وں میں تھا۔ محمد بن علی نے اپنی وفات سے پہلے، جو 125ہجری میں واقع ہوئی، اپنے دو بیٹوں،یعنی ابراہیم عبداللہ ابوالعّباس (لقب بہ سفّاح)اورعبداللہ ابو جعفر (لقب بہ المنصور) کو یکے بعد دیگرے اپنا جانشین نامزد کیا۔

آٹھویں صدی عیسوی کے وسط میں یمنیوں او رمصریوں کے درمیان خراساں میں جو شدید جنگ چھڑی اس سے فائدہ اٹھا کر عباسیوں نے اس بارود بچھی سرنگ کو جو وہ ایک مدّت سے تیار کررہے تھے آگ لگادی۔ ابومسلم نے خراساں کے ہر شہر اورگاؤں میں اپنے طرف داروں کو علم بغاوت بلند کرنے کا حکم دے دیا۔ جس مقصد کا اعلان کیاگیا وہ یہ تھا کہ اہل بیت کو غاصب بنی امیّہ سے اپناحق واپس دلوایا جائے۔تھوڑی ہی مدت گزری تھی کہ امام علی زین العابدین کے پوتے یحییٰ نے بغاوت کی تھی۔وہ شہید ہوگئے تھے اور ان کی لاش اُموی خلیفہ مروان کے حکم سے پھانسی پر لٹکا دی گئی تھی۔ ابومسلم نے حکم دیا کہ جواں مرگ علوی سردار کی لاش کو پھانسی پر سے اتار لیا جائے اورعزت واحترام کے ساتھ اس کی تجہیز و تکفین کی جائے۔ ابومسلم کے متبعین امام یحییٰ کے سوگ میں او راپنے عزم انتقام کی علامت کے طور پر سیاہ پوش ہو گئے۔ چنانچہ اس دن سے سیاہ لباس عبّاسیوں کے حامیوں کا امتیازی نشان بن گیا اور جب غاصبوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی عام دعوت دی گئی تو مقررہ مقام پر سیاہ پوشوں کا جو جم غفیر جمع ہوا وہ اس کا عینی ثبوت تھا کہ بغاوت کس زور وشور سے اورکتنی دور تک پھیل گئی تھی۔ اجتماع 127ہجری میں رمضان کی پچیسویں تاریخ کو ہونا قرار پایا تھا او رلوگوں کو بلانے کی نشانی یہ تھی کہ پہاڑیوں کی چوٹیو ں پر بڑے بڑے الاؤ جلادیئے جائیں گے۔ چنانچہ صوبے کے گوشے گوشے سے خلقت کے ہجوم آکر مرد پر ٹوٹ پڑے،جہاں اس وقت ابومسلم کا قیام تھا۔ خلیفہ مردان نے ابراہیم کو،جو محمد بن علی کی موت کے بعد عباسیوں سے سربراہ تھے،گرفتار کرواکر مروا ڈالا۔لیکن محمد بن علی نے مرنے سے پہلے اپنے چھوٹے بھائی ابوالعباس کو ایک تحریر بھجوادی جس میں انہوں نے اپنے باپ کی وصیت کے مطابق خاندان کی سربراہی انہیں سونپ دی۔ ابومسلم نے تھوڑے ہی عرصے میں سارے خراساں پرقبضہ کرلیا اور اپنی فتح مند فوج کے ہمراہ عراق کی طرف کوچ کردیا۔اس تحریک کا جو اصلی مقصد تھا وہ ابھی تک لوگوں پر واضح نہ کیا گیا تھا۔ سیاہ جھنڈے کے نیچے مختلف طبقوں کے جو لوگ جمع ہوئے وہ سب اہل بیت کے نام پر میدان میں آئے تھے۔کوفہ نے فوراً اطاعت قبول کرلی۔ ابومسلم کا نائب حسن ابن قحطبہ اپنی فوج لیے شہر میں داخل ہوا۔ ابوسلمہ جعفر ابن سلیمان الخّلال بھی، جو صاحب روضۃ الصفاء کے قول کے مطابق آل محمد کا وزیر نامزد کیا گیا تھا،فوراً آپہنچا۔بظاہر یہ شخص خانوادہ نبوی کے سربراہ کانمائندہ تھا۔ عباسی قائد لشکر نے اس کی بڑی آؤبھگت کی، اس کے ہاتھ چوم کر اسے عزت کی جگہ بٹھایا۱؎ او راسے بتایا کہ ابومسلم نے ہر معاملے میں اس کی اطاعت کی تاکید کی تھی۔ابوسلمہ اس خوشامد سے پھولا نہ سمایا۔ لیکن وہ اب تک عباسیوں کے اصلی منصوبے سے قطعاً ناواقف تھا۔ ابوسلمہ اورحسن ابن قحطبہ کے مشترک ناموں ں پر ایک اعلان جاری کیا گیا جس میں باشندگان کو فہ کو دوسرے دن جامع مسجد میں جمع ہونے کی دعوت دی گئی۔ چنانچہ لوگ کسی اہم اعلان کی توقع دل میں لیے جامع مسجد میں جوق درجوق جمع ہوئے۔ بہر حال منصوبہ ابھی پختہ نہ ہوا تھا، اس لیے حسن اور دوسرے عباسیوں نے اس وقت اپنے اصلی مقصد کا افشا مناسب نہ سمجھا۔دریں اثناء ابوالعّباس اور اس کا بھائی ابوجعفر دونوں اُموی پہرہ داروں کی نظر بچا کر کوفہ میں دار د ہوچکے تھے۔ وہاں وہ مزید واقعات کے انتظار میں چھپے بیٹھے رہے،ابوسلمہ ابھی تک اپنے اصلی آقاؤں کا خیرخواہ تھا۔ چنانچہ اس نے امام جعفر صادق کو خفیہ پیغام بھیجا کہ وہ آکر اپنا وصول کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ روضۃ الصفاء ابن الاثیر۔جلد اوّل۔صفحہ 312 وبعد ہم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام جعفر صادق عراقیوں کے نامہ و پیام کی حقیقت سے خوب واقف تھے۔انہوں نے لفافہ کھولے بغیر خط کو جلا دیا۔ لیکن ابوسلمہ ان کے جواب کاانتظار کئے بغیر ابوالعباس کو خلیفہ قبول کر چکا تھا۔ اس نے اہل بیت کے نام پر لوگوں کواگلے دن، جو جمعہ کا دن تھا،خلیفہ کے انتخاب کے لئے جمع ہونے کی دعوت عام دی۔ اس دن کوفہ ایک عجیب وغریب منظر پیش کررہاتھا۔ لوگوں کے انبوہ بنی عباس کاسیاہ لباس پہنے ہوئے وہ اعلان سننے کی خاطر جس کا انہیں مدّتوں سے انتظار تھا، ہر طرف سے جامع مسجد کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔تھوڑ ی دیر بعد ابوسلمہ سیاہ ماتمی لباس پہنے ہوئے لوگوں کے سامنے آیا۔اس کے رفقائے کار کے سوا کسی کو اس کا علم نہ تھاکہ اس نے کیونکر اپنے ایمان کو عباسیو ں کے ہاتھ بیچ دیا تھا۔ اسے اپنے آقا کے مفاد کے مقابلے میں اپنی جان عزیز تھی۔ نماز کی امامت کرنے کے بعد اس نے لوگوں کو وہ مقصد بتایا جس کی خاطر اس نے انہیں جمع ہونے کی دعوت دی تھی۔اس نے کہا: ”لوگوں، ابومسلم دین کا محافظ اور اہل بیت کامؤیّد ہے۔ اس نے ظالم بنی اُمیّہ کا قلع قمع کردیا ہے۔ اب ضروری ہے کہ امام اور خلیفہ کا انتخاب کیا جائے۔ زہد وتقویٰ،قابلیت اور دوسرے تمام اوصاف کے لحاظ سے جو اس منصب کے لیے لازمی ہیں، ابوالعباس سے بڑھ کر کوئی اس کے لیے موزوں نہیں ہیں آپ کو اس کے انتخاب کی دعوت دیتا ہوں“۔ اس وقت تک ابوسلمہ اور عباسیوں کو بالیقین معلوم نہ تھا کہ اس اعلان کالوگوں پر کیا اثر ہوگا۔ انہیں خوف تھا کہ انہوں نے خاندان علومی سے جو غدّاری کی تھی ا ور تو او رکہیں اہل کوفہ بھی اسے ناپسندیدگی کی نگاہ سے نہ دیکھیں۔ لیکن عراقیوں نے اپنی ضرب المثل متلّون المزاجی کا مزید ثبوت بہم پہنچا دیا۔ انہوں نے بار بار بنی فاطمہ کی حمایت میں ہتھیار اٹھائے تھے۔ اور ہر بار ان لوگوں سے دغا کی تھی جن کی مدد کا انہوں نے بسا اوقات حامیان حق کی حیثیت سے غدّاری کی تھی۔ واقعہ کربلا کے بعد انہیں اتنی پشمانی ہوئی تھی کہ ان میں سے بیس ہزار لوگ رات بھر امام حسینؓ کے روضے پر مغفرت کی دعائیں مانگنے کے بعد یزید کی صف درصف فوجوں پر پل پڑے تھے۔ لیکن ان کی پشمانی دیر تک قائم نہ رہی۔ وہ ایسے متلّون الطبّع،شورہ پشت،بیوفا او رناقابل اعتماد تھے کہ صرف تازیانہ الہٰی حجاج بن یوسف ہی انہیں قابو میں رکھ سکا۔

اس موقعہ پر ابوسلمہ کے منہ سے ابوالعباس کے انتخاب کے بارے میں الفاظ نکلے ہی تھے کہ سب نے نعرہئ تکبیر بلند کرکے انتخاب کو قبول کرلیا۔ ابوالعباس جہاں روپوش تھا وہاں سے اسے لانے کے لیے ایک ہرکارہ جلدی جلدی بھیجا گیا۔ ابوالعباس کامسجد میں داخل ہونا تھا کہ لوگ اس کے ہاتھ بیعت کرنے کے لیے دیوانہ دار ایک دوسرے کو دھکیلنے لگے، چنانچہ انتخاب مکمل ہوگیا۔ابوالعّباس نے منبر پر چڑھ کر خطبہ دیا اور مسلمانوں کا امام وخلیفہ بن گیا۱؎۔یوں بنی فاطمہ کی ہر دلعزیز ی کے کندھے پر سوار ہوکر بنی عباس تختِ خلافت پر متمکن ہوئے۔ اس کا معاوضہ انہوں نے بنی فاطمہ کو اُلٹا دیا۔ دنیوی اقتدار کی ہوس بڑائی حاصل کرنے کی خواہشوں میں سب سے بُری خواہش ہے۔ انسان کے جذباتی تقاضوں کے کسی او رمظاہرے نے نوع انسانی پر اتنے مصائب نازل نہیں کئے جتنے اس نے کئے ہیں۔ یہ ہوس اپنے مقصود کے حاصل کرنے میں اچھے اور بُرے وسائل کے درمیان تمیز نہیں کرتی۔ وہ اپنے منصوبوں کو چھپانے کے لیے جرائم سے کام لیتی ہے او راپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے انہیں نیکی کے بھیس میں پیش کرتی ہے اور تو اور اس نے مذہب کو بھی اپنا آلہ کار بنانے میں کبھی پس وپیش نہیں کیا۔بڑائی کی خواہش نے مذہب کا بھیس بدل کردنیا کوبڑی دہشت ناک مصیبت کامورد وبنایا ہے۔روم کے پاپاؤں نے اپنے دنیوی اقتدار کو قائم رکھنے کی ان تھک کوششوں کی بدولت مہذب دنیا کو انسان خون کے سیلاب میں غرق کردیا۔ اسلام کے پیشواؤں،یعنی عباسیوں،مصری فاطمیوں او راُمویوں نے دینی و دنیوی اختیار اعلیٰ کے ان ابلہ فریبانہ دعووں کو جو ان کے خوشامدیوں نے تراشے،بڑے ذوق و شوق سے اپنا لیا او ررعایا کی مکمل اطاعت حاصل کرنے کی آرزو میں عالم اسلام کو خونیں کش مکشوں کاہنگامہ زار بنادیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ پوری تفصیل کے لیے The short History of the saracens ملاحظہ فرکیجئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اوّلین عبّاسی خلفا ء بڑی قابلیت، دور اندیشی اور سیاسی تّدبر والے لوگ تھے جس وقت اہل کوفہ کے آوازہئ قبولیت نے انہیں مسند خلافت پر بٹھایا اسی وقت سے انہوں نے اپنی تمام قوتیں اس پر مرکوز کردیں تاکہ تمام روحانی اور سیاسی اختیارات پر مضبوطی سے قابض ہوجائیں اور اس نظریئے کو کہ انتخاب عام کا قاعدہ عین حکم الہٰی کے مطابق ہے،ایک منطقی معقولیت او رٹھوس پن بخشیں۔حق وراثت کی بناء پر خلافت کی جانشینی کے اصول کا انعقاد او رانتخاب جمہور کو یوں پیش کرنا جیسے وہ ایک مقدس فریضہ ہو،اب ایک نہایت ضروری کام بن گیا۔

یوں بظاہر۱؎ تو سفّاح کے عہد حکومت میں ابومسلم سے لحاظ و مدارات کاسلوک کیاگیا،لیکن چونکہ اس کا میلان طبع حلانیہ فاطمیوں کے حق میں تھا اس لیے اس سے درپردہ نفرت کی جاتی تھی او راسے شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتاتھا۔سفّاح کے جانشین کے زمانے میں اس پرالحاد کا الزام لگایا گیا اور اسے زندیق کالقب دے کر قتل کردیا گیا۔ خاندان نبوی کے ممتا ز افراد کو،جو نیک و پاک زندگیاں بسر کرتے تھے،جمہور مسلمین کے دلوں میں جو انتہا ئی احترام حاصل تھا اس کو بناء پرعباسی ان کے حسد کرتے تھے۔ اس حسد کی وجہ سے انہوں نے وقتاً فوقتاً اولاد فاطمہ کو سخت تکلیفیں پہنچائیں۔ہارون نے برا کہ کو اس کی سلطنت کے رُکن رکین تھے اور جن کی بدولت اس نے شہرت پائی،صرف اس لیے تباہ کردیا کہ اسے ان پر فاطمیوں سے مل کر سازش کرنے کا شبہ تھا۔ یہ صورت حالات عبداللہ المامون کے دور حکومت تک برقرار رہی۔مامون نے، جو عبّاسی خلفاء میں سب سے شریف النفس خلیفہ تھا، تخت حکومت پر بیٹھتے ہی فاطمیوں کو ان کے واجب حقوق دینے کاعہد کرلیا۔ چنانچہ اس نے علی ابن موسیٰ رضا کو، جو فاطمیوں کے آٹھویں امام تھے، اپناولی عہد نامزد کیا اور ان سے اپنی بیٹی اُمّ الفضل کی شادی کردی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ ”سفاح“ کے معنی ہیں خونخوار۔ابوالعباس عبداللہ کو یہ لقب اس لیے ملا کہ وہ اپنے مخالفوں کو تہ تیغ کرنے سے کبھی دریغ نہ کرتا تھا۔ اس کے اخلاف میں سے ایک کو (یعنی معتضد باللہ) سفاح ثانی کاخطاب دیا گیا۔ یہی خطاب عثمانی شہنشاہ سلیم اوّل کو ملا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے عباسیوں کاسیاہ لباس ترک کر کے سبز کالباس اختیار کیا،جوفاطمیوں کے جھنڈے کا رنگ تھا۱؎۔مامون نے بنی فاطمہ سے جو مرّوت کاسلوک کیا وہ اس کے بعد کے دوخلفاء معتصم اور واثق۲؎ نے جاری رکھا۔لیکن متوکل کی تخت نشینی کے ساتھ ہی فاطمیوں پر ستم طرازی کاایک نیا دورشروع ہوا اور جب تک اس کی پانزدہ سالہ مدّت حکومت،جو بدترین سیاہ کاری،اور جفا شعاری کی مدّت تھی، ختم نہ ہوئی اس وقت تک قائم رہا۔جب متوکل کا بیٹا منتصر گدّی پر بیٹھا تو اس نے پہلا یہ کا م کیا کہ حضرت علیؓ او رامام حسینؓ کے مزاروں کی مرمّت کرائی،جنہیں متوکّل نے مسمار کرادیا تھا اوراس کے باپ نے ان کے مقدس ناموں کی جو بے حُرمتی کی تھی اس کی ہر طرح تلافی کی۔ اس خلیفہ کے تدبر کی تقلید اس کے بعد کے خلفاء نے کی۔ چنانچہ اس کے بعد شیعان علی سے کسی نہ کسی حد تک رودادی کاسلوک کیا جانے لگا۔334 سن ہجری (945ء) میں آل بویہ کا بادشاہ معزالدّولہ دیلمی بغداد میں قصر خلافت کا مہتمم مقرر ہوا۔وہ آل فاطمہ کا والہ وشیدا تھا۔چنانچہ اس نے عباسی خلیفہ مطیع اللہ کو معزول کرکے اہل بیت میں سے کسی کو اس کی جگہ تخت پر بٹھا نے کا منصوبہ سو چا،لیکن اسے مصلحت وقت کے خلاف پاکر اسے عملی جامعہ نہ پہنا سکا۔معزالّدولہ نے امام حسینؓ او ران کے اہل بیت کی شہادت کی یاد میں یوم عاشورہ منانے کا قاعدہ بھی رائج کیا۔ 645سن ہجری (1247ء) میں جب کہ مستعصم باللہ خلیفہ تھا، شیعو ں پر ایک نئی قیامت ٹوٹی، جس کے عواقب اسلامی تہذیب کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے او رجس نے سارے مغربی ایشیا میں بربادی پھیلا دی۔ اپنے متعصب حواریوں کے فتنہ پرواز انہ مشوروں پر عمل کرکے اس ضعیف العقل خلیفہ نے تمام شیعہ مردوں کے قتل عام کا فرمان جاری کردیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ فاطمیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرغوب سبز رنگ کو اختیار کیا، بنی اُمیّہ نے سفید رنگ کو اور بنی عباس نے سیاہ رنگ کو۔

۲؎ معتصم باللہ (محمد) او داثق باللہ (ہارون)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اس فرمان میں اس نے سنیوں کو اس کی اجازت بھی دیدی کہ وہ شیعوں کے مال و اسباب کو لوٹ لیں،ان کے گھروں کو منہدم کردیں، ان کے کھیتوں کو جلا دیں اور ان کی عورتوں او ربچوں کو،غلام بنالیں۔ اس ظلم کی پاداش میں چنگیز کا پوتا ہلاکو قہر الہٰی بن کر بغداد پرنازل ہوا۔مسلسل تین دنوں تک تاتاری سردار نے شہر میں قتل و غارت کا بازار گرم رکھا۔ تیسرے دن بنی عباس کا 37واں خلیفہ انتہائی ذلّت کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار ا گیا او ریوں خاندان عباسی کا خاتمہ ہوا۱؎۔

امیر معاویہ کے عہد تک اہل بیت۲؎ نے کوئی امتیازی لقب اختیار نہ کیا۔ وہ صرف بنو ہاشم کہلاتے تھے۔ بنی فاطمہ او ربنو عباس ایک دوسرے سے متمائر نہ تھے۔ان کے درمیان خون کے بہت قریبی رشتے تھے۔ امیر معاویہ کے حصول اقتدار کے بعد خاندان محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروؤں نے اپنے آپ کو شیعہ (پیرو) او راپنے دشمنوں کو نواصب (باغی) اور خرارج۳؎ (باہر جانے والے) کہنا شروع کردیا۔ بنی اُمیّہ اپنے آپ کو اموی کہتے تھے۔ اس وقت تک اہل السنت والجماعت کا نام ایجاد نہ ہوا تھا۔ یہ منصور اور ہارون کے زمانے میں وجود میں آیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ بنی عباس میں سے ایک شخص فرار ہوکر چلا گیا۔ چنانچہ عباسیوں کی خلافت برائے نام وہاں قائم رہی تاکہ عثمان سلطان سلیم نے آخری عباسی خلیفہ کو اپنے حق میں دست بردار ہونے پر مجبور کیا۔

۲؎ اہل بیت (اہل بیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم) اس نام سے عموماً حضرت فاطمہؓ، حضرت علیؓ اور ان کی اولاد و اخلاف کو یاد کیا جاتاہے۔ ابن خلدون نے ہر جگہ انہیں او ران کے متبعین  معتقدین یعنی شیعوں کا ذکر اسی نام سے کیا ہے۔ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لوگوں کے دلوں میں جو قدر ومنزلت ہے،سنائی نے اس کا اظہار ذیل کے شعر میں کیا ہے:۔

جزکتاب اللہ و عزت زاحمد مُرسل خاند           یادگاری کو تواں تاروزمحشر واشتن

۳؎  خوارج کانام خاص طور پر ان لشکر یوں کو دیا گیا جنہوں نے دومۃ الجندل کے میدان میں حضرت علیؓ کاساتھ چھوڑ دیا اور اسلام کے خلاف ایک محاذ کھڑاکردیا۔بعدمیں یہ نام ان لوگو ں کو دیا جانے لگا جنہوں نے اصلی خوارج کے فاسد عقیدے اختیار کئے (اس اجمال کی تفصیل آگے چل کر دی جائے گی)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دسویں صدی عیسوی میں علومی خاندان کے ایک رُکن نے عباسیوں سے مصر کی حکومت چھینی اور ایک نئے خاندان کی بنیادرکھی جس نے سلطان صلاح الدین کے خروج تک مصر اور شام پرحکومت کی۔ وہ تّبرے جو بغداد او رقاہرہ کے خلیفے ایک دوسرے پر بھیجتے تھے، وہ طُومار ورطُومار روائتیں جوان دونوں خاندانوں کے متضاد دعوں تک تکذیب کے لیے کُرید کُرید کر نکالی گئیں او روہ فتوے جو ان دونوں کے علماء نے صادر کئے ان سب نے مل کر ان حریف خاندانوں کے عامیوں اور طرفداروں کی باہمی کش مکش کو او ربھی بڑھا دیا۔ سلطان صلاح الدین نے مصر میں فاطمی خاندان کی حکومت کاتختہ اُلٹا او رمشرق افریقہ میں سُنّی مذہب کو ازسر نو غلبہ بخشا۔لیکن بنی فاطمہ کی متعدد شاخیں دونوں برّاعظموں کے مختلف حصوں میں اپنے خاندان کا اقتدار قائم کرنے میں کامیاب ہوئیں ۱؎۔ صرف اثنا عشریہ،جران تارک الدنیا اور دلی صفت اماموں کے متبعین ہیں جنہوں نے طاقت کے استعمال کی ممانعت کی او رصرف روحانی امامت کا دعویٰ کیا، دنیاوی معاملات سے بالکل کنارہ کش رہے۔ ان کا یہ رویہ اس وقت بدلا جب شاہ عباس صفوی نے مذہب اثنا عشری کو اپنی مملکت کاسرکاری مذہب بنایا۔ اس فلسفی مزاج اور صوفی منش بادشاہ نے جو خاندان نبوی سے تعلق رکھتا تھا،یہ محسوس کیا کہ لوگوں کو اس خاندان سے جو محبت و عقیدت تھی اسے قومی بیداری اور استحکام کا ایک وسیلہ بناناچاہیئے۔چنانچہ اثنا عشریت آج تک ایران کا سرکاری مذہب ہے۔

جنو بی ہند کے بہمنی اور عادل شاہی خاندان جنہیں اورنگ زیب نے ملیا میٹ کیا اور اس طرح ان مرہٹہ لٹیروں کا راستہ ہموار کیا جنہیں بہمنی بادشاہوں نے سرنہ اٹھانے دیا تھا، ائمہ اہل بیت کے متبعین تھے۔ یہ ہے فاطمی خاندان کی سیاسی سرگزشت جس کے جلی نقوش اس کے مذہبی نظریات پر مرتسم دکھائی دیتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ فاطمیان مصر کے علاوہ بنی فاطمہ کی دوسر ی شاخوں نے امیر،امام،شریف،خلیفہ وغیرہ کے لقب سے اسلامی دنیا کے مختلف حصوں میں حکومت کی ہے،مثلاً مکہ میں بنی آخیضر، بنی موسیٰ او ربنی قتادہ شمالی یمن اور بنی طبا طبا،جنوبی یمن میں بنی زیاد او رمراکش میں بنی ادریس۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام کی دینی ودنیوی پیشوائی پر بنی عباس کا جو دعویٰ تھا اس کی اساس تھی بیعت،جو ایک قسم کا نام نہاد انتخاب تھی۔ سفّاح کی تخت نشینی سے شروع کر کے عباس خلفائے ہمیشہ احتیاط برتی تھی کہ اپنی زندگی ہی میں اپنے جانشینوں کے حق میں اکابرملّت سے حلف اطاعت اٹھوا لیا تھا۔ چنانچہ یہ لازمی ہوگیا کہ انتخاب کے نظریے کو متقدین میں مثالوں کی سند عطا کی جائے۔ ادھر مصر میں فاطمیوں کے خروج نے اور خلفائے بغداد سے مشرق علاقوں کی حکومت چھیننے کی جو مستقل کوششیں وہ کررہے تھے انہوں نے یہ او ربھی ضروری بنادیا کہ آل فاطمہؓ کے دعوں کی تکذیب کی جائے اور ان نظریوں کو جن کے مطابق عباسی خلفاء اسلام کی روحانی پیشوائی کے حقدار تھے ایک مربوط منظم شکل دی جائے۱؎۔

عباسیوں کے حق خلافت کی تائید کرنے والی روایات غراق و حجاز کے گوشے گوشے میں تلاش کی گئیں۔ علمائے فقہ کو حکم گیا کہ صحت عقیدہ کے اصول باضابطہ طور پر اور صریح الفاظ میں وضع کریں۔ چنانچہ اس طرح سنی مذہب کا مہتم بالشّان ڈھانچا کھڑا کرنے میں دیگر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ ارسلان البساسیری نے،جو عباسی فوج کا ایک اعلیٰ عہدیدار لیکن مصری فاطمیوں کاحامی تھا، بغداد کے خلیفہ قائم بامر اللہ کو شہر سے نکال دیا اور اسے اس پر مجبور کیاکہ امیر العرب (یہ ایران کے اہل خانے کے مماثل ایک خطاب تھا) کے یہاں جاکر پناہ گزین ہو۔ بالآخر الپ ارسلان کے باپ طغرل ے،جو سلجوقی خاندان کابانی تھا، خلیفہ کو واپس لاکر دوبارہ تخت پر بٹھایا۔ خلیفہ کی غیر حاضری کے دوران بغداد میں فاطمی خلیفہ کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا رہا۔ خطبہ وہ وعظ ہے جو مسلم ملکوں کی جامع مسجدوں میں جمعہ کے دن منبر پر سے دیا جاتاہے۔ اس کا آغاز اسمائے الٰہی کے ذکر، وحدت اللہ کے اقرار اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم،آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جانشینان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں درود سے ہوتا ہے۔اس کے بعد خلیفہ وقت اور سربراہ مملکت کے حق میں دعا کی جاتی ہے۔ خطبے میں مذکور ہونا او راپنے نام کاسکہ جاری کرنا۔یہ ہی وہ سب سے بڑے حقوق جو بادشاہ وقت کو حاصل ہوتے ہیں اور جن کی بدولت اس کی حکمرانیقانوناً مسلّم ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عوامل کے علاوہ عباسیوں کے ذاتی مفادات بھی کسی حد تک بروئے کار آئے۔ جن علماء وفقہا ء نے سنی مذہب کو نشوونما میں مدد دی ان کی کامیابی میں مصری فاطمیوں کے بعض افکار کوبھی دخل تھا۔ ایک تو یہ امر کہ مصری فاطمیوں کے عقائد شیعہ اماموں او رسنی فقیہوں دونو ں کی تعلیمات سے متبائن تھے۔ دوسرے حسن بن مصبّاح (شیخ الجبال) کے حکم سے بہترین اشخاص کے جو قتل واقع ہوئے تیسرے وہ ملحدانہ خیالات سے جو قدیم کلدانی مجوسیت (Chaldaeo Magism) کے زیر اثر مختلف طبقوں میں رائج ہوگئے،اور جو مخرب اسلام تھے۔۔۔ ان سب نے مل کر اس نظام عقائد کو تقویت دی جو  حامۃ المسلمین کی نگاہوں میں دشمنان اسلام کی یورشوں کے خلاف ایک سدسکندری تھا۔ شیعہ اماموں نے مانی و مزدک کے مضردین اور اشتراکیت پر ورخیالات کی پرُ زور تردید کی،لیکن ان میں اتنی طاقت نہ تھی کہ لادینیت کا سرکچل سکتے یا وحدت فکر نافذ کرسکتے۔سنّی مذہب کو عبّاسی خلفاء کی دنیاوی طاقت کے بل بوتے پر اس کی توفیق تھی اور اس نے اس سے کام لیا۔ تنیجۃً اسے ایسے تمام لوگوں کی نگاہوں میں مقبولیت حاصل ہوئی جو توارثِ خلافت کے مجّرد مسئلے کے بارے میں اپنا سر نہ کھپاتے تھے۔

جو لوگ اہل بیت کے موروثی حق خلافت کے حامی تھے اور جو لوگ اس خیال کے تھے کہ جمہور کو اپنے دینی ودنیوی پیشواؤں کے انتخاب کا حق ہے۔ان دونوں میں بنی عباس کے خروج تک اتنا کم فرق تھا کہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ حجاز کے لوگ او ربالخصوص انصار مدینہ جنہیں اُمویوں نے اس بے دردی سے تباہ کیا،یوں تو انتخاب کے اصول پر مُصر تھے،لیکن انہیں وہ ناانصافی بہت شاق گزری تھی جو آل فاطمہ سے کی گئی تھی۔ شہادت امام حسینؓ کے بعد اسلام کے سینے سے واویلے کی صدااٹھی تھی۔ چنانچہ دونوں مقدس شہروں کے لوگ اسلحہ بند ہوکر غاصب کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے، جس کی انہوں نے بڑی سخت سزا بھگتی تھی۔ اہل بیت کے طرف داروں نے بھی او رپہلے خلفائے ثلٰثہ ے پیروؤں نے بھی دین کے تحفظ کی خاطر بڑی شدید اذیتیں سہی تھیں۔لیکن جب خاندانی مفادات کی خاطر دونوں جماعتوں کے درمیان ایک خلیج حائل کرنا ضروری ہوگیاتو دونوں طرف تفریق کے عناصر آسانی سے مہیا ہوگئے۔ان میں جو نظریاتی اور قانونی اختلافات تھے،انہوں نے اس وقت وہ صورت اور وہ شدت اختیار کرنی شروع کردی جو زمانہ حال میں پائی جاتی ہے۔

مامون کے عہد میں اور اس کے فوراً بعد جو دو خلفاء آئے ان کے عہد میں جب کہ انسانیت نواز علوم اور فلسفے نے ہر طبقے کے انکار کو متاثر کردیاتھا، سنّی مذہب کو نشوونمامیں رخنہ پڑگیا۔ ان عہدوں کو چھوڑکر خلافت عباسیہ کی ساری مدت ۱؎ سنّی مذہب کے عقائد کی تقویت و استحکام پر صرف ہوئی۔دین و دنیا کو ایک دوسرے سے مربوط کردیاگیا:خلیفہ امام بھی تھا، یعنی دینوی سربراہ بھی اوردینی پیشوا بھی،قانون وفقہ کے علماء سب اس کے ملازم تھے۔ وہ ان کے مباحثوں کی صدارت او ران کے فیصلوں کی ہدایت کرتا تھا۔ یہ ہے راز سنی مذہب کی سالمیت کا۔ جن فرقوں ۲؎ میں وہ ابتداًء منقسی تھاان میں اکثر رفتہ رفتہ معدم ہوگئے ہیں، لیکن اب اس کے چار بڑے بڑے فرقے ہیں جو عقائد اور رسوم عبادت کے بہت سے معاملوں میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ان میں جو اختلافات ہیں انہیں ان اختلافات سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے جو رومن کیتھولک کلیسا او رمقلّد یونانی، آمینائی او رشامی کلیساؤں میں پائے جاتے ہیں۔

اس کے برخلاف شیعیت میں دین او رمملکت ایک دوسرے سے منقطع ہوگئے ہیں اور شارحین قانون نے، کم از کم ایک طبقے میں،وہی اقتدار و اختیار حاصل کرلیا ہے جوعیسائیت میں کلیسائی منصب داروں کو حاصل ہے، چنانچہ جس طرح پروٹسٹنٹ مذہب میں آزادی رائے نے ایک سو اسّی فرقے پیدا کریئے ہیں۔اسی طرح اس نے شیعوں کو لاتعداد فرقو ں میں تقسیم کردیاہے۔ شیعہ مذہب میں نظریات وعقائد کا جو تنّوع پایا جاتاہے وہ اس امر کا نتیجہ ہے کہ کوئی مختار کُل سیاسی طاقت ایسی نہ تھی جو بزور شمشیر وحدت ویکسانی عائد کرتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ 750ء سے لے کر 1252ء تک۔

 

۲؎ امام جعفر ملوسی (بحوالہ دبستان) کے قول کے مطابق سنیوں کے ابتداء پینسٹھ فرقے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امامت۱؎،یعنی اُمّت مسلمہ کی دینی قیادت،کامسئلہ اس عہد کے بعد جس کا ہم نے ابھی ابھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ ڈاکٹر پر سی بیجر (Dr. Percy Badger) نے لفظ امامت کی بڑی عمدہ تعریف کی ہے، لفظ امام ایک عربی مادّے ماخوذ ہے جس سے عبارت ہے مقصود بنانا، تقلید کرنا۔ اس مادّے کے جتنے مشتقات ہیں ان میں سے اکثر یہی مفہوم پایا جاتاہے۔چنانچہ ”امام“ کابنیادی مطلب ہے مثال پیش کرنے والا، وہ جس کی مثال کی تقلید کی جانی چاہئے ان معنوں میں اس کا اطلاق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرہوتا ہے۔اس اعتبار سے کہ وہ سیاسی اور دینی معاملات میں مسلمانوں کے ہادی ورہنما تھے۔ اس طرح اس کا اطلاق خلفاء پر بھی ہوتاہے،اس حیثیت سے کہ وہ دین و دنیا دونوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے جائز جانشین اور قائم مقام تھے۔خالصۃً مذہبی معنوں میں یہ لفظ مسلمانوں کے چار مقّلد طبقوں،یعنی حنفیوں،شافعیو ں، مالکیوں اور حنبلیوں کے مجتہدو ں کے بارے میں بھی استعمال کیاجاتاہے۔ اس سے بھی زیادہ محدود معنوں میں یہ لفظ امن شخص کے لیے استعمال کیا جاتاہے جو مسجد میں نماز پڑھاتاہے۔ یہ منصب عموماً ایسے لوگوں کو دیا جاتاہے جو اتقاء کی شہرت رکھتے ہوں۔یہ لوگ ناظرکے حکم سے برطرف کیے جاسکتے ہیں اور اس صورت میں نہ صرف اپنے منصب اور مشاہرے سے بلکہ لقب ”امام“ سے بھی محروم ہوجاتے ہیں“

امام کی اصطلاح قرآن میں کسی قوم کی کتاب یا صحیفے کے معنوں میں بھی استعمال کی گئی ہے اور کسی معلّم دین کے بارے میں بھی۔ قیاس چاہتا ہے کہ مسلمانوں نے اسے مؤخر الذکر معنو ں میں قرآن ہی سے اخذ کیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے چند کلمات کہہ کر ابراہیم علیہ السلام کو آزمایا او رابراہیم السلام اس آزمائش میں پورا اترا تو اللہ نے فرمایا: ”میں نے تجھے قوم کاامام بنادیا“۔ ایک اور جگہ ابراہیم علیہ السلام،اسحٰق او ریعقوب کے ذکر کے ضمن میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے: ”ہم نے انہیں امام بنایا تاکہ وہ ہمارے حکم کے مطابق دوسروں کی ہدایت کریں۔“ مزید ”ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی۔ پس اس بارے میں شک نہ کرو کہ اسے کتاب ملی،اور ہم نے حکم دیا کہ یہ کتاب بنی اسرائیل کے لیے صحیفہ ہدایت ہو اور ہم نے ان میں سے بعضوں کو امام مقرر کیا، تاکہ وہ ہمارے ارشاد کے مطابق لوگوں کو رہنمائی کریں۔“ بیجر کی کتاب ”عمان کے ائمہ وسادات“ Imams and Syeds of oman, appendix A

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ذکر کیا ہے سنیوں اور شیعیوں کے درمیان سب سے بڑامابہ النّزاع بن گیا۱؎۔ شیعوں کاعقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی وراثت حضرت علیؓ کو اور ان کی وساطت سے ان کی اولاد کو ملی۔چنانچہ وہ اس نظریئے کی تردید کرتے ہیں کہ جماعت کو اہل بیت النبی کے جائز حقوق نظر انداز کرکے خلیفہ منتخب کرنے کاحق ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ شیعوں کے نزدیک امامت کاسلسلہ پشت بہ پشت خاندان نبوی میں چلتا ہے۔ آل نبی سے ہونے کے علاوہ امام کے لیے ضروری ہے کہ وہ چند اوصاف کا مالک ہو۔ وہ اوصاف یہ ہیں کہ وہ معصوم یعنی بری ازگناہ ہو،اس کی سیرت بالکل بے داغ ہو اور وہ صدق وصفا میں اپنے تمام معاصرین سے ممتاز ہو۔ ان کے خیال میں نہ یہ مناسب ہے اور نہ منشائے ربّی ہوسکتا ہے کہ ایک ایسا شخص جس کی سیرت الزام سے بالاتر نہیں لوگوں کے ضمیر کارہنما بنے۔ انسانی انتخاب غلط ہوسکتا ہے،جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہوتاہے،لوگوں نے بسا اوقات بدترین افراد کی سربراہی قبول کی ہے۔ انسان کی مذہبی ضروریات کے معاملے میں ناممکن ہے کہ خدا نے اسے اس کی ناقص عقل کے رحم پر چھوڑ دیا ہو۔ اگر امام کی ضرورت ہوتو وہ کوئی ایسا شخص ہونا چاہئے جسے انسانی ضمیر قبول کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ مسعودی لکھتا ہے: ”امامت کا مسئلہ مختلف فرقو ں کے درمیان بحث وتکرار کاموضوع ہے، بالخصوص القائلون بالنّفس (تقرر کے معتقدین) او راصحاب الاختیار (نظریہ انتخاب کے حامیوں) کے درمیان نظریہ تقرر کے حامی امامیہ اہل امامۃ کہلاتے ہیں۔یہ لوگ علی ابن ابی طالب او رفاطمہ کے بطن سے ان کے جو بچے ہوئے ان کے شیعیان (تابعین) کا ایک طبقہ ہیں۔ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے میں ایک ایسا شخص مبعوث کیا ہے جو دین حق کی حفاظت او رملّت کی امامت کرتاہے۔ ایسے اشخاص یا نبی ہوتے ہیں یا نبیوں کے دسی۔ نظریہ انتخاب کے حامی ہیں خوارج کا ایک فرقہ،مُرجیہ اہل السنتہ والجماعۃ،بعض معتزلہ او رزیدیوں کاایک فرقہ۔ ان لوگوں کے عقیدے کے مطابق اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منشایہ ہے کہ قوم خود اپنے میں سے ایک آدمی کو چنے اور اسے اپناامام بنائے،کیونکہ ایسے زمانے بھی ہوتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کوئی وصی نہیں بھیجتا،شیعوں کے نزدیک اس طرح مقرر کئے ہوئے اشخاص منصب امامت کے غاصب ہوتے ہیں۔ ”مروج الذّہب“۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ان دلائل کی بناء پر اہل تشیع کہتے ہیں کہ اگر امام کا انتخاب عوام کے ہاتھ میں رہنے دیا جائے تو ملّت کے اخلاق کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔لہٰذا نوع انسانی کی روحانی ہدایت مبعوث من اللہ اشخاص کو سونپی گئی ہے۱؎۔

سنیوں کا عقیدہ ہے کہ امامت آل نبی تک محدود نہیں۔ نیز یہ لازمی نہیں کہ امام عادل،متقی او رمعصوم ہو۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ افضل النّاس یعنی اپنے وقت کا بہترین شخص ہو۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ وہ آزاد بالغ اور صحیح الحواس ہو او رمملکت کے معمول امو ر کے انصرام کی قابلیت رکھتا ہو۔ جس شخص میں بھی یہ صفات موجود ہوں وہ منصبِ خلافت کے لیے منتخب ہونے کا اہل ہے۔ ان کا ایک اور نظریہ،جس میں کلیسائے روم سے متفق الّرائے ہیں، اسلامی دنیا کے لیے بڑے اہم نتائج کا سرچشمہ ثابت ہوا۔ وہ نظریہ یہ ہے کہ نہ امام کی بدکرداری او رنہ اس کی ستم شعاری اس کی معزولی کا جواز مہیا کرتی ہے۲؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ اس ضمن میں ہم ابن خلدون سے جس میں اتنی ہی ژوف نگاہی تھی جتنی ہمہ دانی تھی، چند اقتباسات پیش کرتے ہیں۔”نہ بادشاہ کی ذاتی وجاہت،نہ اس کی علمی فضیلت،نہ اس کی ذکاوت وفراست،او رنہ اس کے کوئی اور ذاتی کمالات رعایا کے حق میں مفید ثابت ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ بادشاہ کاوظیفہ منصبی محض اپنی رعایا کی فلاح وبہبود کو ترقی دینا ہے۔“ ”ایک حکمران کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ انسانوں کے لیے ایک جگہ مِل جُل کر رہنا ضروری ہے۔اگر معاشرے کے نظام کو قائم رکھنے والا کوئی نہ ہو تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے۔ ایک دنیاوی حاکم صرف انسان کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل در آمد کراتاہے۔ لیکن ایک نلہم من اللہ شارع کے بنائے ہوئے قوانین دوقسم کے مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہیں، یعنی نوع انسانی کو اخلاقی ومعاشرتی صلاح و فلاح۔خلیفہ بنی کا نائبہ اور قائم مقام ہوتاہے۔ وہ محض ایک دنیاوی حاکم ہی نہیں ہوتا،بلکہ روحانی قائد بھی ہوتا ہے۔لہٰذا خلیفہ کو امام کا لقب دیا جاتاہے ملّت کے نقطہ نگاہ سے اس کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو نمازیوں کی ایک جماعت کے نقطہ نگاہ سے امام نماز کی ہوتی ہے۔“ امام کا تقرر ایک فریضہ ہے۔ وہ قانون جس کی رو سے یہ لازمی قرار پایا یا صحابہ بنی کے اجماع پر مبنی ہے۔ امام روحانی پیشوا اور خلیفہ یاسلطان دنیاوی طاقت کا نمائندہ ہوتاہے۔“

۲؎ اس نظریئے کے باوجود،جو ان جابر خلیفوں کے حکم پر (باقی حاشیہ صفحہ 481 پرملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس طرح کہ امام نمازکی بدی یا کج روی مقتدی مومنوں کی نماز کو باطل نہیں کردیتی۱؎۔ سنیوں کی یہ بھی عقیدہ ہے کہ امامت ناقابل تقسیم ہے او ربیک وقت دو اماموں کا ہونا قانوناً ناممکن ہے۔ جس طرح عیسائیت میں ایک ہی پوپ کی اطاعت جائز ہے، اسی طرح اسلام میں صرف ایک خلیفہ کی بیعت ہوسکتی ہے۔لیکن جس طرح بسا اوقات تین تین پوپ بہ یک وقت کلاہِ پاپائی کے مدّعی رہے ہیں، اسی طرح تین تین اُمراء المسلمین نے بھی بہ یک وقت حاکمیت اعلیٰ کا دعویٰ کیاہے۔ جب ایشیا میں بنو اُمیّہ کو زوال آگیا تو اس خاندان کے ایک فردنے ہسپانیہ میں ایک خود مختار حکومت قائم کی اوراسی زمانے میں بنو عباس دجلہ کے کناروں پر اور بنی فاطمہ نیل کے کناروں پر حکمران تھے۔ اس امر کی بناء پر کہ مختلف زمانوں میں دو یا تین حکمرانوں نے بہ یک وقت خلفیۃ المسلمین کالقب اختیار کیا ہے یہ رائے قائم کی گئی ہے کہ خلافت کے لاتیجزیٰ ہونے کے اصول کا اطلاق صرف ایک ملک پر یادو متّصل ملکوں پر ہوتاہے۔لیکن جب دوملک ایک دوسرے سے اس قدر دور ہوں کہ ایک ملک کے امام کا اختیار دوسرے ملک پر عائد نہیں ہوسکتا تو دوسرے امام کا انتخاب بھی جائز قرر دیا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ صفحہ 480)ایجاد کیا گیا جو اپنے ظلم وستم کی مکافات سے محفوظ رہنا چاہتے تھے، لوگوں نے اسے بالکُلیہ منظور نہیں کیا۔ اُموی خلیفہ ولید کے عہد میں (جسے سیاہ کاریوں کی بناء پرفاسق کا خطاب دیا گیا۔) رعایا نے بغاوت کردی اور اسے تخت سے برطرف کردیا۔ اسی طرح جب عباسی خلیفہ متوکُل کی زیادتیاں حدِّ برداشت سے تجاوز کرگئیں تو خود اس کے بیٹے منتصر نے اسے معزول کر ڈالا۔عثمانی ترکوں کی تاریخ میں بھی اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ لوگوں نے کسی ظالم یا نا اہل سلطان کے خلاف بغاوت کی۔ اس قسم کا آخری واقعہ ناشاد و نامراد عبدالعزیز کے زمانے میں ہوا۔

۱؎ اس نظریے کے خلاف اس وقت اہل سنت والجماعۃ میں بغاوت پھیلی ہوئی ہے۔ غیر مقلدین (جن سے ہم آگے چل کربحث کریں گے) یہ رائے رکھتے ہیں کہ اگر امام متقی اور پاکباز نہ ہوتو جماعت کی نماز فسخ ہوجاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 امام تمام مسلمانوں کا مرّبی و ناظم اور دنیا وعقبیٰ میں ان کی فلاح کا محافظ ہوتاہے۔ اسے یہ اختیار ہوتاہے کہ مسلمانوں کی رضا مندی سے اپنا جانشین نامزد کرے۔ مسلمانوں کی رضا مندی اس لیے ضروری سمجھی جاتی  ہے کہ خلیفہ کا منصب ان کی دینی ودنیوی بھلائی کے لیے ہے۱؎۔

توقع کی جاسکتی تھی کہ شیعوں پر جو مشکلیں پڑیں وہ انہیں متحد رکھیں گی۔لیکن اگر چہ سب شیعوں کا اس پر اتفاق تھا کہ منصب خلافت سلسلہ نبوی تک محدود ہے، ان میں سے بعض خاندان نبوی کے مسلّم بزرگوں سے روگرداں ہوکر عمداً یا میلاناً اس خاندان کے دوسرے افراد سے وابستہ ہوگئے۔ مسلّم امام اور ان کے متبعین تو گوشہ اعتکاف میں جاگزیں رہے اوراہل بیت ایک طرف تو دشمنوں سے برسرپیکار رہے اوردوسری طرف خانہ جنگیوں میں مشغول رہے، وہ وعظ بھی دیتے رہے،مباحثے اور مناظرے بھی کرتے رہے اور تکلیفیں بھی سہتے رہے۔

شہرستان نے شیعوں کو پانچ فرقوں میں تقسیم کیاہے، یعنی زیدیہ اسمٰعیلیہ،اثنا عشریہ یا امامیہ،کیسانیہ او رغالیہ یا غلاّ ۃ لیکن فی الواقعہ،جیسا کہ ہم بعد میں واضح کریں گے ان فرقوں میں اور بالخصوص ان شاخوں میں جن میں دو منقسم ہوگئے حضرت علیؓ سے ایک مبالغہ آمیز محبت کے سوا خالص تشیع کی کوئی بات نہیں پائی جاتی۔ اس کے برعکس وہ فی الاصل غیر اسلامی ہیں۔

زید یوں کی بابت شہرستانی کہتاہے کہ وہ زید بن علی زین العابدین ابن حسین کے پیرو ہیں۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ امامت حضرت علیؓ سے شروع ہوکر پہلے امام حسنؓ کو،پھر امام حسینؓ کو پھر علی ثانی امام زین العابدینؓ کو ملی۔ زین العابدین کے بعد وہ محمد الباقر کو نہیں ملی، جیسا کہ اثنا عشریہ بلکہ مسلمانوں کی اکثریت کا عقیدہ ہے بلکہ زید کو۔خلافت کے بارے میں زیدی بڑی حد تک اہل سنت سے مشابہ ہیں۔ ان کے خیال میں عوام کو یہ حق ہے کہ وہ خانوادہ نبوی میں سے کسی کو اپنا روحانی پیشوا انتخاب کریں۔چنانچہ انہوں نے انتخاب کے اصول کو اور اس اصول کو کہ امامت اہل بیت نبوی تک محدود ہے،جمع کردیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ ابن خلدون۔حصہ اوّل کا باب اوّل ملاحظہ کیجئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کا یہ خیال بھی ہے کہ افضل کی موجودگی میں مفضول کا انتخاب جائز ہے۔وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر چہ حضرت علیؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سب سے برگزیدہ تھے اور حق وراثت کی بناء پر بھی اوراپنے ذاتی اوصاف کی بناء پر بھی امامت کے مستحق تھے،لیکن ملکی مصلحتوں کے پیش نظر او ران شورشوں کو فرد کرنے کی خاطر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر برپا ہوئیں ایک زیادہ پختہ عمر کے آدمی کا منصب خلافت پر مامور ہونا ضروری تھا تاکہ وہ لوگوں کو اطمینان دلاسکے اوران کے اختلافات کو رفع کرسکے۔ علاوہ بریں حضرت علیؓ حفاظت دین کی خاطر جس جہاد میں مشغول رہے تھے اس کی وجہ سے ان لوگوں کے سینے میں جنہوں نے مسلمانو ں سے لڑائیاں لڑیں تھیں او رجنہیں مسخّر ہوئے زیادہ مدّت نہ گزری تھی حضرت علیؓ کے خلاف شدید جذبہئ انتقام تھا۔ اس امر کا احتمال تھا کہ یہ لوگ حضرت علیؓ کی صولت کے آگے بھی آسانی سے جھکتے۔یہی دلیل وہ حضرت عمرؓ کے انتخاب کے جواز میں پیش کرتے ہیں ۱؎۔پہلے دو خلیفوں کی امامت کو تسلیم کرنے کی بناء پر زیدیوں کو دوسرے شیعوں نے روافض کا لقب دیا،جس کے معنی ہیں اختلاف کرنے والے۔ زیدیوں کا ایک او رعقیدہ اتنا اہم ہے کہ اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اس کے قائل ہیں کہ پرہیزگاری،صداقت،علمی فضیلت او رمعصومیت کے جن اوصاف کا خالص شیعوں کے نزدیک امام میں موجود ہونا ضروری ہے ان کے علاوہ اس میں شجاعت اور اپنا حق بزورشمشیر منوانے کے صلاحیت کاہونابھی ضروری ہے۔ امام محمد الباقر نے،جواپنے باپ حضرت علی ثانی کے جانشین بنے،قوت کے استعمال کو مذموم قرار دیا۔ امام زید اس معاملے میں ان سے مختلف الّرائے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ہشام ابن عبدالملک اموی کے خلاف بغاوت کی او رناکام رہ کر جوار کوفہ میں شہید ہوئے۔ ان کے جانشین ان کے بیٹے یحییٰ بنے، جنہوں نے باپ کے نقش قدم پر چل کر امام جعفر صادق کے مشورے کے خلاف اپنا دعویٰ اسلحہ بندانہ طاقت سے منوانے کی کوشش اور خراساں میں ایک لشکر جمع کرلیا،لیکن انہیں شکست ہوئی اور وہ ہشام کے ایک سردار فوج کے ہاتھو ں شہید ہوئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ شہرستانی۔حصہ اوّل صفحہ 115۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام یحییٰ کی وفات پر زیدیو ں کے عقیدے کے مطابق، امامت ان کے خاندان کے ایک اور فرد کو ملی، یعنی محمد بن عبداللہ (النفس الزکیہ) کو،جنہوں نے مہدی کا لقب اختیار کیا اور خلیفہ عباسی منصور کے خلاف حجاز میں علم بغاوت بلند کیا۔ انہوں نے مدینے میں منصورکے بھتیجے عیسیٰ کے ہاتھوں زک اٹھالی اور شہادت پائی۔ ان کے بعد ان کے بھائی ابراہیم امام بنے۔ انہوں نے بھی عباسیوں سے جنگ آزمائی کرکے جام شہادت پیا۔ ان کے تیسرے بھائی عیسیٰ نے بھی اپنا دعویٰ بزور شمشیر منوانا چاہا،لیکن گرفتار ہوئے اور منصور کے حکم سے عمر بھر کی قید میں ڈال دیئے گئے۔ یہ واقعات بیان کرنے کے بعد شہرستانی لکھتا ہے۔”ان پر جو اُفتاد پڑی اس کی پیش گوئی جعفر صادق نے کی تھی، جنہوں نے یہ کہا تھا کہ دنیوی اقتدار ان کے خاندان کا حصہ نہ تھا، بلکہ امامت کا عباسیوں کے ہاتھوں میں ایک کھلونا بننا مقدر تھا۔“

زیدیہ کی ایک شاخ کا یہ عقیدہ ہے کہ امامت ابراہیم سے ادریس کو ملی، جنہوں نے مغرب الاقصیٰ اور شہر فس کے خاندان ادریسی کی بنیاد رکھی۔ ادریسیوں کے زوال کے بعد زیدیوں کاشیرازہ بکھر گیا، لیکن اب بھی اس فرقے کے نام لیوا ایشیا اور افریقہ کے مختلف حصوں میں پائے جاتے ہیں۔زیدیوں کی ایک شاخ نے ایک طویل مدّت تک طبرستان میں حکومت کی اور شمالی یمن میں اب بھی ایک زیدی امام ہے۔شہرستانی کے کہنے کے مطابق زیدیہ کے چار ذیلی فرقے تھے، یعنی جارودیہ، سلمانیہ،طبریہ او رصالحہ۔ ان میں جو اختلاف ہے وہ اس بارے میں ہے کہ حضرت زیدؓ کے بعد امامت کس کو ملی۔ جارودیہ نے جو عیسیٰ کے مقابلے میں محمد نفس الذکیہ کے حامی تھے، منصور کے عہد میں سخت تکلیفیں اٹھائیں سلیمانیہ اپنے بانی سلیمان ابن جریر کے نام سے موسوم ہیں، جنہوں نے یہ اعلان کیا کہ امامت کا دارومدار اجماع ملّت پر ہے۔ ”امامت سے یہ مقصود نہیں کہ دین کی تنظیم کی جائے یا خدا،خدا کی وحدت اور جو قوانین خدا نے دنیوی حکومت کے لیے بنائے ہیں ان کا علم حاصل کیا جائے، کیونکہ یہ چیزیں تو عقل کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔امامت کامقصد ہے روئے زمین پر حکومت کرنا، مجرموں کو سزائیں دینا، عدل کرنا او رمملکت کا تحفظ کرنا۔امام کے لیے افضل ہونا لازمی نہیں“۔”اہل سنت کے ایک فرقے کی رائے اس سے مماثل ہے۔ اس فرقے کے نزدیک یہ ضروری نہیں کہ امام عالم یا مجتہد ہو، صرف اتنا ضروری ہے کہ وہ صاحب فہم ہو اور اس کا کوئی ایسا مشیر ہو جو قوانین شریعت کی تشریح کرنے کا اہل ہو۱؎۔“سلیمانیہ اور صالحیہ پہلے دو خلیفوں کے تسلیم کرنے کے بارے میں ایک دوسرے سے متفق ہیں۔ مؤخر الذکر کی رائے ہے کہ چونکہ حضرت علیؓ،حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے حق میں اپنے فائق دعوے سے دستبردار ہوگئے اس لئے لوگوں کو یہ حق نہیں کہ ان کی امامت کے بارے میں سوال اٹھائیں۔ لیکن حضرت عثمانؓ کے بارے میں انہیں شک ہے۔ وہ کہتے ہیں ”جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح بنی اُمّیہ کی مدد کرنے کے لیے جتن کئے،تو ہم انہیں دوسرے صحابہ سے مختلف پاتے ہیں۔“

اسمٰعیلیہ جنہیں کبھی کبھی سابعون ۲؎ بھی کہاجاتا ہے۔امام جعفر صادق کے بیٹے امام اسمٰعیل سے منسوب ہیں جنہوں نے اپنے باپ کی زندگی ہی میں وفات پائی۔ ان لوگوں کاعقیدہ ہے کہ امام جعفر صادق کی وفات پر امامت اسمٰعیل کے بیٹے محمد المکتوم۳؎ کے حصے میں آئی، نہ کہ جعفر کے بیٹے موسیٰ الکاظم کے حصے میں،جیسا کہ اثنا عشریہ اور عموماً دوسر ے مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔ اسماعیلیوں کے خیال کے مطابق محمد المکتوب کے جانشین جعفر المصّدق تھے جن کے بیٹے محمد الحبیب آخری امام مکتوب تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ شہرستانی۔حصہ اول،صفحہ 119،120۔

۲؎ یہ اس لیے کہ یہ لوگ صرف سات اماموں کو تسلیم کرتے ہیں۔ یعنی (1) حضرت علیؓ (2) حضرت حسنؓ (3) حضرت حسینؓ (4) حضرت علی ثانیؓ (5) حضرت محمد الباقر (6) حضرت محمد جعفر الصادق اور (7) حضرت اسمٰعیل۔

۳؎ مقریزی کے بیان کے مطابق یہ لقب انہیں اس لیے دیا گیا کہ انہیں عباسیوں کے پنجہ ستم سے بچانے کی خاطر ان کے پیروؤں نے انہیں چھپا ئے رکھا۔ امام اسمٰعیل امام جعفر صادق کے سب سے بڑے لڑکے تھے،نہایت نرم خُو اور دلآویز طور طریقوں کے آدمی مقریزی کہتاہے یمن قطامہ اور افریقی صوبوں میں ان کے معتقدین بڑی تعداد میں تھے۔ (باقی حاشیہ صفحہ 86 4پر ملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام محمد الجیب کے بیٹے ابومحمد عبداللہ نے فاطمی خاندان کی بنا ڈالی جس نے تین صدیوں تک شمالی افریقہ پر حکومت کی۔ انہیں عباسی خلیفہ معتضد باللہ سفّاح ثانی نے قید میں ڈال دیا تھا، لیکن انہوں نے سجلماسہ کے زیر زمین زندان سے نکل کر بربری میں خروج کیا۔ جہاں انہوں نے عبیداللہ او رمہدی (یعنی ہادی موعود) کے القاب اختیار کئے۔متبعین چاروں طرف سے آکر ان کے گرد جمع ہوگئے اور انہوں نے ایک صوفی کی مدد سے تھوڑی ہی مدت میں اغلیبوں کو، جوخلیفہ بغداد کے نام پر افریقی صوبوں پر حکومت کررہے تھے، حکومت سے برطرف کردیا اور ایک نئی سلطنت قائم کی جو مغرب الاقصیٰ سے لے کر سرحد مصر تک پھیلی ہوئی تھی۔ ان کے ایک جانشین معد ابو تمیم (المغّرالدین اللہ) نے عباسیو ں سے مصر اور شام کا ایک حصہ فتح کرلیا۔ دشمنان اہل بیت پر اپنی اس فتح کی یاد گار کے طور پرانہوں نے قاہرہ کی بنیاد رکھی اور اپنا دارالخلافہ مہدیہ سے جو قیروان کے نزدیک عبیداللہ المہدی نے قائم کیا تھا، اس نئے شہر میں منتقل کرلیا۔ اس وقت ان کی قلمرو میں سارے شمالی افریقہ کے علاوہ سارڈینیا اور صقلیہ کے جزیرے بھی تھے۔ قاہرہ میں انہوں نے مسجد الازہر بنائی،ایک بہت بڑا کتب خانہ قائم کیا اور متعدد دارالعلوم کھولے جنہیں انہوں نے رقوم خطیر عطا کیں۔ ان میں صرف ونحو،ادب، تفسیر قرآن،اصول فقہ، طب،ریاضی اور تاریخ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ایک معتبر مؤرّخ کہتا ہے:”ان کی حکومت کاامتیازی وصف عدل و انصاف تھا۱؎“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ صفحہ 485) شہرستانی سے روایت ہے کہ امام اسمٰعیل کی والدہ کی زندگی میں امام جعفر نے دوسری شادی نہیں کی، جیسے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہؓ اور حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کی زندگی میں نہیں کی۔“

۱؎ مارسل (Marcel) سنی العقیدہ جمال الدین تغری بروی (باقی حاشیہ صفحہ 487 پرملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مصری فاطمیوں کے جتنے وقائع ہمارے پاس موجود ہیں وہ سب کے سب ان کے مخالفوں کے لکھے ہوئے ہیں۔ جب سے معزّ کے سپہ سالار جوہرنے مصر اور شام کو خلفائے بغداد سے فتح کیا اسی وقت سے دونوں خلافتوں میں حق خلافت کے مسئلے پرجنگ وجدل کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ فاطمیوں کے منجملہ اہل بیت ہونے کے دعوے کی بدولت انہیں لوگوں کی جو عقیدت حاصل تھی اس نے عباسیوں کے دلوں میں یہ بیتا ب خواہش پیدا کی کہ جس طرح بھی ہوسکے اپنے حریفوں کے سلسلہ نسب کی تغلیط کریں اور دنیا پران کے نقیض اسلام عقائد کا پول کھولیں۔قادر باللہ کے عہد حکومت میں خوفزدہ خلیفہ کے حکم سے علمائے فقہ کا ایک خفیہ اجتماع اس مقصد سے ہوا کہ فاطمیوں کے بارے میں یہ فتویٰ صادر کیا جائے کہ وہ حضرت فاطمہؓ کے حقیقی اخلاف نہیں ہیں، فاطمیوں نے اس کا جواب ایک فتویٰ تکفیر کی صورت میں دیا،جس پر قاہرہ کے سربراہ آور دہ علماء کے دستخط تھے، جن میں مالکی اور شافعی عقیدے کے علماء بھی شامل تھے۔ بہر حال فاطمیوں کی صحت نسب کے بارے میں عباسی علما ء نے جو شُبہات پیداکئے ہیں ان کے باوجودمقریزی،ابن خلدون اور ابوالفداء جیسے موقر مؤرخین نے ان کے دعادی کو صحیح مانا ہے۔

مقریزی اس موضوع پر بڑی صاف گوئی سے کام لیتا ہے اور صراحتہً بنی عباس کے طرفداروں پر کذب بیانی او رجعل سازی کاالزام لگاتا ہے۔عباسیوں کے اس بیان سے کہ عبیداللہ المہدی آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ تھا بحث کرتے ہوئے وہ کہتا ہے:”واقعات کا سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو ظاہری ہوتا ہے کہ یہ محض دروغ بانی ہے۔ اس زمانے میں حضرت علیؓ بن ابی طالب کے متعدد اخلاف موجود تھے اور شیعہ لوگ ان سب کااحترام کرتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ 486) اپنی کتاب مورِد اللّطافتہ میں لکھتا ہے:”اگرچہ معزّاہل افتراق میں سے تھا، تاہم وہ ذی فہم،صاحب علم، فیاض او راپنی رعای کے حق میں عادل تھا۔(وکان المعز افضیاالانہ کان فاضلاً عاقلاً ادبیاً حازماً جواداممد حافیہ عدل الرعیۃ۔) فاطمیوں کی مفصل سرگزشت کے لیےA Short History of the Saracens ملاحظہ کیجئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر ایسی کون سی چیز تھی جوان اہل بیت النبی کے طرف دارو ں کو اس پر آمادہ کرسکتی تھی کہ وہ انہیں چھوڑ کر ایک ایسے شخص کو خلیفہ تسلیم کریں جو مجوسی الاصل اور یہودی النسل تھا۔؟ کوئی شخص جس کی عقل ٹھکانے تھی ایسی حرکت نہ کرسکتا تھا۔ یہ روایت کہ عبیداللہ المہدی اصل ونسل کے اعتبار سے یہودی یا مجوسی تھا کم ہمت عباسی بادشاہوں کی ایجاد ہے جن کی سمجھ میں یہ نہ آیا تھا کہ فاطمیوں سے کیونکر اپنی گلو خلاصی کرائیں۔ فاطمیوں حکومت لگاتار 270برس تک قائم رہی اور انہو ں نے عباسیوں کو افریقہ، مصر، شام، دیاربکر، مکہ طیبہ او رمدینہ منورہ اور یمن سے محروم کردیا۔ اورتو اور جو بغداد میں چالیس ہفتوں تک ان کے نام کا خطبہ پڑھا گیا۔ عباسی فوجیں ان کے سامنے بے دست وپاتھیں۔ اس لیے لوگوں کے دلوں میں فاطمیوں سے برگشتگی پیدا کرنے کی خاطر عباسیوں نے فاطمیوں پر ان کے حسب ونسب کے بارے میں بہتان باندھے۔ جو عباسیوں حکام نے فاطمیوں پر ان کے حسب ونسب کے بارے میں بہتان باندھے۔ جو عباسیوں حکام او راُمراء فاطمیوں کے مقابلے سے عاجز آگئے تھے، انہوں نے بخوشی ان بھوئی کہانیوں کو آلہ انتقام بنایا۔ جن قاضیوں نے قادر باللہ کے بلائے ہوئے علماء کے فتوے کی تصدیق کی۔انہوں نے یہ محض خلیفہ کے حکم کی تعلیم میں اور سنی سنائی باتوں کی بنا پر کیا۔ چنانچہ اس وقت سے اب تک مؤرخین اندھا دھند او ر بے سوچے سمجھے عباسیوں کے ایجاد کئے ہوئے افترا کو دہراتے چلے آئے ہیں۔“ مقریزی ایک ایسا عمیق النظر مؤرّح او رممتاز عالم قانون ہے جو تمام علمائے مشرق میں اونچا پایہ شہرت رکھتا ہے ۱؎۔ اس کے اس بیان سے صریح تر اور کیا ہوسکتا ہے۔؟

فاطمیوں کے عقائد کو بھی اسی طرح مسخ کیا گیا ہوگا۔پھر بھی اس میں کچھ شک نہیں انہوں نے عبداللہ ابن میمون المعروف بہ قّداح کے سّری عقائد بڑی حد تک اپنا لیے تھے اور اس نے خفیہ داعیوں کا جو طریقہ رائج کیا تھا اسے سیاسی تبلیغ کے لیے استعمال کیا۔

دنیوی اقتدار کی ہوس سے جو قباحتیں پیدا ہوتی ہیں اس کا کچھ اندازہ ہمیں تاریخ عیسائیت کے چند واقعات سے ہوتا ہے،مثلاً عالم عیسائیت کی سربراہی کے لئے پوپ اور شہنشاہ کی طویل کش مکش،سی سالہ جنگ جس نے انسانوں پر جگر خراش مصیبتیں نازل کیں اور فرانس کے پروٹسٹنٹ ہیوگناٹون (Huguenots) پرجو مظالم توڑے گئے،محض  مذہبی تعصب کی بناء پر ہی نہیں بلکہ خاندانی اقتدار طلبی کی وجہ سے بھی۔ یہی تاریخ اسلام میں ہوا۔ عباسیوں نے پہلے اُمویوں سے اور بعد میں مصری فاطمیوں سے جو جنگ آزمائی برسوں تک جاری رکھی اس سے بڑے آفت انگیز نتائج ہوئے۔

جس وقت کاہم ذکر کررہے ہیں اس وقت عجمی سلطنت کے مشرقی صوبوں میں گوناگوں یاران طریقت جمع تھے۔ وہاں نہ صرف زردشتی مجوسی تھے، جو اسلام کے اُمڈتے ہوئے سیلاب کے آگے آگے دوڑ رہے تھے، بلکہ ہندوستان کے بہت سے دھرنوں کے نمائندے بھی تھے، جو اپنے ساتھ اداگون، وشنو کے اوتار،کرشن کے آکاش سے اُتر کر آنے اور اپنی گوپیوں کے ساتھ پریم کی لیلا سے جی بہلانے کے عقیدے اور قصے بھی لے کر آئے تھے۔وہ انقلابی خیالات اور بدعتیں جنہوں نے آخری ساسانی بادشاہوں کے عہد میں معبدوں او رشاہی محلوں کی بنیادیں ہلادی تھیں اور جن کی بیخ کنی کی کسریٰ انوشیروان نے نوک شمشیر سے کوشش کی تھی ابھی تک موجود تھیں۔ کم از کم ان میں اتنا دم خم باقی تھا کہ روپ بدل کرنئے سرے سے اسلامی بھیس میں نمودار ہوجائیں۔

راوندی،ہندی مجوسیوں کاایک فرقہ جو تناسخ ارواح کامعتقد تھا، اور سفید جامگان۱؎ جن کی بنیاد حاکم بن ہاشم مقنّع ۲؎ نے رکھی، ان دونوں فرقوں نے خراسان میں شورش برپا کردی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ یہ نام انہیں اس لیے دیا گیا کہ یورپ کے ٹیبوریون (Taborides) کی طرح وہ سفید لباس پہنتے تھے۔

۲؎ یہ وہی جعلساز ہے جسے مُور (Moore) نے خراساں (باقی حاشیہ صفحہ 490 پر ملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مقنّع یہ تعلیم دیتا تھا کہ خدا نے انسان کی شکل اختیار کرلی تھی، کیونکہ اس نے فرشتوں کو آدم علیہ السلام کی پرستش کا حکم دیا تھا، چنانچہ اس وقت سے فطرت الہٰی یکے بعد دیگر ے نیبوں میں خلول کرتی رہی تھی اور اس وقت اس کی شخصیت میں مجّسم تھی۱؎۔

اسی زمانے میں مزوکیت نے،جس نے اڑھائی صدیاں پہلے قمر وخسرواں میں آگ لگا دی تھی اور جسے نوشیرواں اعظم نے پاؤں تلے روند دیا تھا، خلیفوں کے ماتحت دوبارہ سر اٹھایا۔ اس سانپ کا سر نہیں کچلا گیا تھا۔ بابکِ خُرمّی اپنے پیش رو مزدک کی طرح عدمیت و انکاریت کی تبلیغ کرتاتھا، مثلاً یہ کہ عورتیں او رمال و جائیداد سب سماج کی مشترکہ ملکیت ہیں، اور یہ کہ انسانی اعمال میں نہ کوئی خیر کا پہلو ہے او رنہ کوئی شرکا پہلو۔ بیس سالوں تک اس نے خلافت کے سارے علاقے میں بربادی و غارت گری پھیلائے رکھی۔بالآخر معتصم باللہ کے زمانے میں وہ شکست کھا کر گر فتار ہوا اور خلیفہ کی موجودگی میں قتل کردیا گیا۔ یہ اسی پرانی داستان کی تکرار تھی۔ اسلام کو انہی آزمائشوں میں گزرناتھا جن میں سے عیسائیت گزرچکی تھی۔پہلی صدی کے آغاز سے لے کر نویں صدی کے اختتام تک عیسائیت پُرانے مذہبوں سے برسرپیکار رہی،جو نئے نئے روپ دھار کر ان تمام ملکوں میں رونما ہورہے تھے جنہوں نے عیسائیت کو قبول کرلیا تھا۔ اس جنگ وجدل کے بعد عیسائیت پر افسردگی چھا گئی۔تقلید پرستی نے نہ صرف انقلاب پسند مونتانیوں (Montanists) او رمانوی پالیوں Manichaean (Paulicians) کو بلکہ پسندایرینوں (Arians) کو بھی پامال کر ڈالا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ صفحہ 489) کے نقاب پوش پیغمبر کے نام سے شہرت دی۔ اسے مقنّع اس لیے کہا جاتاہے تھا کہ یا تو اپنی بدصورتی کو چھپانے یا اپنے پیروؤں کو مرغوب کرنے کی خاطر وہ ہر وقت منہ پر نقاب ڈالے رہتا تھا۔اسے”سا زندہ ماہ“ بھی کہتے تھے، کیونکہ ایک مرتبہ اُس نے نخشب میں جادو کے زور سے ایک ایسی چیز بنا کر لوگوں کو دکھائی تھی، جو چاند کی سی معلوم ہوتی تھی۔

۱؎ ابن خلدون۔کتاب ابعر ل(مصری ایڈیشن) جلد سوم۔صفحہ  206۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چنانچہ ریفارمیشن (Reformation) کے زمانے تک کلیسائیت اور تقلید پرستی نے ذہن انسانی کو غلامی کے بندھنوں میں جکڑے رکھا۔ اسلام کو بھی ایسے ہی امتحانوں سے گزرناپڑا۔ لیکن اس کی ریفارمیشن کا آغاز حال ہی میں ہواہے۔

Related Article:

The Spirit of Islam Authored by Sayed Ameer Ali: An Introduction- Part 1 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: ایک تعارف

The Spirit Of Islam Authored By Sayed Ameer Ali: Preface – Pre Islamic Social And Religious Conditions Of The World- Part 2 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: مقدمہ ، اسلام سے پہلے اقوام عالم کے مذہبی اور معاشرتی حالات

The Spirit Of Islam: Preface- Social And Religious Conditions Of the Aryans- Part 3 روح اسلام: بعثت اسلام کے وقت آریہ قوم کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Sayed Ammer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions Of Iran Before Islam- Part 4 روح اسلام: اسلام سے قبل ایران کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions of the World Before Islam- Part 5 روح اسلام: اسلام سے قبل دنیا کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions of the World Before Islam- Part 6 روح اسلام: اسلام سے قبل دنیا کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Christian World روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی حالت

 Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Christian World-Part 8 روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی اور سماجی حالت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Arabs-Part 9 روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی اور سماجی حالت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Arabs-Part 10 روح اسلام: ماقبل اسلام عرب کی مذہبی اور سماجی حالت 

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Messenger of Allah -Part 11 روح اسلام: پہلا باب پیغمبر اسلام کی ابتدائی زندگی

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Prophet’s Life and Prophet-hood -Part 12 روح اسلام: رسول اللہ کی زندگی اور رسالت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Chapter 1- The Revelation of the Quran and Declaration of Prophethood -Part 13 روح اسلام:نزول وحی کی ابتدا اور اعلان نبوت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Life of The Prophet and His Companions In Early Days of Islam -Part 14 روح اسلام: مکی دور میں رسول اللہ اور صحابہ کی زندگی

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Life of The Prophet and His Companions In Early Days of Islam -Part 15 روح اسلام: مکی دور میں رسول اللہ اور صحابہ کی زندگی

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 2- The Prophet’s Migration Towards Madina Part 16 روح اسلام : دوسرا باب: مدینہ کی طرف رسول اللہ کی ہجرت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 3- The Prophet’s Life in Madina Part 17 روح اسلام : تیسرا باب: رسول اللہ کی زندگی مدینہ میں

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 4- Enmity Between Quraish and Jews-Part 18 روح اسلام : چوتھا باب ،قریش اور یہود کی دشمنی

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 5- The Attack of Quraish on Madina-Part 19 روح اسلام : پانچواں باب ، قریش کا مدینے پر حملہ

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 5- The Attack of Quraish on Madina-Part 20 روح اسلام : پانچواں باب ، قریش کا مدینے پر حملہ

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 6- Mercifulness and Kindness of the Prophet Muhammad pbuh-Part 21 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام : چھٹاباب، آنحضرتؐ کی رحم دلی

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 7, The Spread of Islam - Part 22 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، ساتواں باب ، اشاعت اسلام

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 8, The year of delegates - Part 23 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، آٹھواں باب ، عام الوفود

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 9, The Perfection of Muhammad’s Prophethood - Part 24 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، نواں باب ، رسالت محمدیؐ کی تکمیل

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 1, Final Chapter 10, The Subject of Caliphate - Part 25 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دسواں باب، مسئلہ خلافت

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 1, The ideal goal of Islam - Part 26 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، پہلا باب، اسلام کامثالی نصب العین

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 2, The religious spirit of Islam - Part 27 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، دوسرا باب، اسلام کی مذہبی روح

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 3, The concept of life after death in Islam - Part 28 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، تیسرا باب، اسلام میں حیات بعد الممات کاتصور

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 4, The Preaching jihad of Islam- Part 29 سید امیرعلی کی کتاب روح اسلام، دوسرا حصہ،چوتھا باب، اسلام کا تبلیغی جہاد

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 5, The status of women in Islam - Part 30 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، پانچوا ں باب ،اسلام میں عورتوں کی حیثیت

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 6, The slavery - Part 31 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، چھٹا باب، غلامی

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 7, The Political Spirit of Islam - Part 32 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، ساتواں باب، اسلام کی سیاسی روح

URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-33/d/124924

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..