مفتی عبد المالک مصباحی
17 اپریل 2023
رمضان المبارک کی رخصتی کے
دن قریب سے قریب تر ہوتے جارہے ہیں۔اللہ رب العزت کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ
اس نے ہمیں صحت وسلامتی کے ساتھ مکمل روزے رکھنے توفیق مرحمت فرمائی۔
حضرات گرامی!اسلام صرف
روزہ نماز کی ادائیگی اور حج و زکاۃ کی ذمہ داری سے فارغ ہونے کا نام نہیں بلکہ ان
فرائض کے ساتھ کچھ دوسرے اہم امور کی بجا آوری بھی ضروری ہے تاکہ انسان اسلام کی
صحیح چاشنی اور مٹھاس سے لطف اندوز ہوسکے اور اپنے فرائض سے کماحقہٗ دست بردار
ہوسکے۔اس لیے آج کی محفل میں رمضان کے توسط سے معاشرتی زندگی کے ایک اہم گوشے کی
طرف آپ کی توجہ لے جاناچاہتاہوں۔امید ہے کہ آپ غور سے پڑھیں گے اور دل سے عمل کا
پختہ ارادہ کریں گے۔
اسلامی نقطۂ نظر سے
معاشرتی زندگی میں ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت از حد ضروری ہے ورنہ انسان حقوق
العباد کی پامالی میں گرفتار ہو کر عذاب الٰہی کا مستحق قرار پائے گا۔ معاشرتی
زندگی میں ایک دوسرے کے پاس سکونت اختیار کرنے والے کو ہمسایہ یا پڑوسی کہا
جاتاہے۔
اسلام چوں کہ انسانوں کو
پر امن،خوش گوار اور زندہ دل دیکھنا چاہتا ہے اس لیے اس نے پڑوسیوں کے حقوق کو بڑے
واضح اور صاف ستھر ے انداز میں بیان فرمایاہے، تاکہ لوگ ایک دوسرے کا خیال
رکھیں،ایک دوسرے کی خوشی و مسرت میں شریک ہوں، ایک دوسرے کے دکھ تکلیف کو بانٹیں
اور ایک دوسرے کے آرام و آسائش کا خیال رکھیں۔ انھیں حقوق و فرائض کو بیان کرتے
ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ نساء کی آیت ۳۶میں ارشاد فرمایا:
اور اللہ کی بندگی کرواور
اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں
اور محتاجوں اور پاس کے ہمسایہ اور دور کے ہمسایہ اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر
اور اپنی باندی اور غلام سے۔بے شک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا بڑائی
مارنے والا۔ (کنزالایمان)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہا فرماتی ہیں:کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جبرئیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے
بارے میں تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کیاکہ وہ اسے وراثت میں شریک
کردیں گے۔
پڑوسیوں کے ساتھ اچھا
برتاؤ اور حسن سلوک کے تعلق سے نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد ملاحظہ کیجئے:
عَنْ اَبِیْ شُرَیْحِ
الْخِزَاعِیْ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ قَالَ مَنْ کَانَ یُوْمِنُ بِاللّٰہِ وَ
الْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیَحْسِنْ اِلیٰ جَارِہٖ۔(بخاری)
حضرت ابو شریح خزاعی رضی
اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا
ہے اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کر ے۔
ایک ایمان افروزقاعدہ:
عَنْ اَنَس قَالَ قَالَ
رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ وَ الَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَایُوْمِنُ عَبْدُٗ حَتّٰی
یُحِبُّ لِاَخِیْہٖ مَایُحِبُّ لِنَفْسِہٖ۔ (بخاری و مسلم)
حضرت انس رضی اللہ عنہ
کہتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے بندہ اس
وقت تک پورامومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے بھی اس چیزکو پسند نہ کرے جو
وہ اپنے لیے پسندکرتاہے۔
اسلام کا یہ وہ روح پرور
فرمان ہے جس نے نہ جانے کتنوں کی کایا پلٹ دی۔ نہ جانے کتنے دلوں میں اسلام کے
پاکیزہ اصول کو جاں گزیں کردیا۔ نہ جانے کتنے افکارمیں انقلاب پیداکردیا۔ نہ جانے
کتنی زندگیوں کو سعادت ابدی سے سرفراز کردیا۔ اسلام کے انقلاب آفریں دعوت میں جہاں
دوسرے اسلامی بھائی شامل ہیں و ہیں ا س کے پڑوسی بھی شامل ہیں اگر پڑوسیوں کے ساتھ
پسند و ناپسند کے یہ جذبات معاشرتی زندگی میں رائج ہوجائیں تو بہت سارے جھگڑے اور
فساد سے نجات مل جائے۔
معاشرہ کو پرسکون اور
شاہراہ ترقی پرگامزن رکھنے کے لیے پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کا درس دیتے ہوئے مدنی
تاجدار ﷺ ارشاد فرماتے ہیں۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ
قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ لَا یُوْمِنُ وَ اللّٰہِ لَایُوْمِنُ وَ َاللّٰہِ
لَایُوْمِنُ قِیْلَ مَنْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ اَلَّذِیْ لَایَامَنُ جَارَۃ
بَوَاءِقِہٗ۔ (بخاری شریف)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا خدا کی قسم وہ مومن نہیں خداکی قسم وہ
مومن نہیں خدا کی قسم وہ مومن نہیں صحابہ نے عرض کیا کون یا رسول اللہ! آپ نے
فرمایا جس کی ایذارسانی سے اس کا پڑوسی مامون نہ رہے۔
اس حدیث پاک میں نبی پاک ﷺ
نے نہایت پر جلال انداز میں پڑوسیوں کو تکلیف پہنچانے سے منع فرمایا ہے۔ اس حدیث
پاک کو اپنی نگاہ کے سامنے رکھیں اور اپنے معاشرہ کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ
آج عموما ًایک پڑوسی دوسرے پڑوسی سے نالاں ہے۔ کبھی نالی کو لیکر اور کبھی پانی
کولے کر۔ کبھی بالکونی کولے کر اور کبھی دروازہ کو لیکر اور کچھ لوگ تو اپنے
پڑوسیوں پر رعب و داب ڈالنے کے چکر میں اس حد تک گزر جاتے ہیں کہ قتل و خوں ریزی
اور کورٹ کچہری سے بھی باز نہیں آتے۔ حالاں کہ اس کا انجام سوائے ندامت و افسو س
اور دنیا و آخرت کی بربادی کے اور کچھ نہیں۔
ایک پڑوسی دوسرے کے لیے
آئینہ ہے:اسلام میں انسان کی اچھائی اور برائی کو جانچنے کے لیے پڑوسی کو مثل
آئینہ بتایا گیا ہے۔ اور بھلاکیوں نہ ہوکہ ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی سے جتنا سابقہ
پڑتاہے دوسرے لوگوں کا اتنا نہیں پڑتا۔ اس لیے کسی آدمی کی اچھائی یا برائی کو
جاننے اور اس کی شخصیت کو پر کھنے کے لئے اس کے پڑوسی کی گواہی بہت اہمیت رکھتی
ہے۔ بنی کریم ﷺ نے اس تعلق سے ارشاد فرمایا۔
عَنْ اِبْنِ مَسْعُوْد
قَالَ قَالَ رَجُلُٗ لِلنَّبِیِّ ﷺ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ کَیْفَ لِیْ اَنْ اَعْلَمُ
اِذَااَحْسَنْتُ اَوْ اِذَا اَسَئاتُ فَقَالَ النَّبُّی ﷺ اِذَا سَمِعْتَ
جِیْرَانَکَ یَقُوْلُوْنَ قَدْ اَحْسَنْتَ فَقَدْ اَحْسَنْتَ وَ اِذَا
سَمِعْتَھُمْ یَقُوْلُوْنَ قَدْ اَسَاتَ فَقَدْ اَسَاتَ۔
حضرت عبد اللہ ابن مسعود
فرماتے ہیں کہ ایک شخص بارگاہ رسالت پناہ ﷺ میں حاضرہوئے اور انہوں نے دریافت کیا،
حبیبی یارسول اللہ! مجھے اپنی اچھائی یا برائی کا علم کیسے حاصل ہوگا؟ نبی کریم ﷺ
نے ان کے جواب میں ارشاد فرمایا:
جب تم اپنے پڑوسی سے اچھا
سنو تو سمجھ لو کہ تم نے اچھاکیا۔اور جب تم برا سنو تو سمجھ لو کہ تم نے برا کیا۔
گویا کہ آدمی کے اخلاق و
کردار کی گواہی آدمی کی اپنی زبانی نہیں بلکہ اس کے پڑوسیوں سے لی جائے۔ اس حدیث
پاک سے جہاں پڑوسی کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے وہیں اس کی ذمہ داری کا بھی اندازہ
ہورہا ہے کہ اگر کوئی کسی پڑوسی کے بارے میں دریافت کرے تو اس کے خلاف ہر گز ہرگز
غلط بیانی سے کام نہ لے۔
پڑوسیوں کاخیال کرنا ہمارے
اسلاف کا محبوب طریقہ رہاہے۔اس سلسلے میں حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا
یہ واقعہ بہت مشہورہے۔
ہمسایہ موچی
حضرت امام اعظم رضی اللہ
تعالی عنہ کے محلہ میں ایک موچی رہتا تھا جو نہایت رنگین طبع اور خوش مزاج تھا۔ اس
کا معمول تھا کہ دن بھر محنت مزدوری کرتا۔ شام کو بازار جا کر گوشت اور شراب مول
لاتا، کچھ رات گئے دوست و احباب جمع ہوتے۔ خود سیخ پر کباب لگاتا۔خود کھاتا۔ یاروں
کو کھلاتا۔ خوب شراب کا دور چلتا اور مزے میں آکر شعر گاتا۔
اَضَاْعُوْنِیْ وَ اَیُّ
فَتًی اَضَاْعُوْا لِیَوْم کَرِیْھِۃٍ وَ سِدَادِ ثَغَرٍ
لوگو ں نے مجھے ہاتھ سے
کھو دیا۔ اور کیسے بڑے شخص کو کھویا۔ جو لڑائی اور رخنہ بندی کے دن کام آتا۔
حضرت امام اعظم ذکر و شغل
کی وجہ سے رات کو بہت کم سوتے تھے۔ رات کو اس کی نغمہ سنجیاں سنتے اور کچھ تعرض نہ
کرتے حالاں کہااس سے آپ کو تکلیف ہوئی تھی ۔ایک رات ایسا ہوا کہ شہر کا کوتوال
ادھر آنکلا اور اس کو گرفتار کر کے لے گیا اور قید خانے میں بھیج دیا۔ صبح کو امام
صاحب نے دوستوں سے تذکرہ کیا کہ گذشتہ رات ہمارے ہمسایہ کی آواز نہیں آئی۔ نہ
معلوم کیا وجہ ہے! لوگوں نے رات کا تمام ماجرا بیان کر دیا کہ وہ غریب تو قید خانہ
میں ہے۔ آپ نے اسی وقت سواری طلب کی اور دربار کے کپڑے پہن کر دار الامارۃ کی طرف
روانہ ہو گئے۔ کوفہ کے گورنر کو لوگوں نے اطلاع دی کہ امام اعظم ابو حنیفہ آپ سے
ملنے آئے ہیں۔ اس نے یہ سنتے ہی آپ کے استقبال کے لیے اپنے درباریوں کو بھیجا۔جب
آپ کی سواری نزدیک آئی تو گورنر خود بھی تعظیم کے لیے اٹھا اور نہایت ادب و احترام
سے لا کر بٹھایا اور عرض کیا:
آپ نے کیوں تکلیف
فرمائی،مجھ کو بلا بھیجتے، میں خود حاضر ہو جاتا۔ آپ نے فرمایا۔ ہمارے محلہ میں
ایک موچی رہتا تھا۔ کوتوال نے اسے گرفتار کر لیا ہے میں چاہتا ہو ں کہ وہ رہا کر
دیا جائے۔ گورنر نے اسی وقت حکم بھیجا اور وہ رہا کر دیا گیا۔ امام صاحب جیسے
گورنر سے رخصت ہو کر چلے تو وہ موچی بھی ہم رکاب ہو گیا۔ امام صاحب نے اسے مخاطب
ہوکر فرمایا۔ کیوں ہم نے تم کو ضائع تو نہیں کیا؟ اس نے عرض کیا۔ نہیں آپ نے حق
ہمسائیگی خوب ادا کیا۔امام صاحب کے اس خلق ومروت کا اس کے دل پہ یہ اثر ہواکہ اس
نے عیش پرستی سے توبہ کی اور امام صاحب کے حلقہ درس میں بیٹھنے لگا۔ رفتہ رفتہ علم
فقہ میں مہارت حاصل کی۔ اور فقیہ کے لقب سے ممتاز ہوا۔ (سچی حکایات، حصہ دوم،ص۳۴۵)
امام اعظم رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کے اس واقعہ میں ہم غلاموں کے لیے ایک عظیم درس اور سبق ہے کہ زمانہ کے
اتنے بڑے امام اپنے ایک تکلیف پہچانے والے معمولی درجے کے پڑوسی کا اتنا خیال رکھ
رہے ہیں اورادھر ہماراحال یہ ہے کہ ہم معمولی معمولی باتوں پراپنے پڑوسیوں سے مرنے
مارنے پر اتاروہوجاتے ہیں۔اسلام کی پاکیزہ تعلیمات سے ہمیں سبق سیکھتے ہوئے اپنے
اخلاق وکردار کو اسلامی قانون کا ترجمان بناناچاہیے۔
( جاری)
----------------
مفتی عبد المالک مصباحی متعدد
کتابوں کے مصنف اور مختلف مقامات پر تدریس و خدمات انجام دے چکے ہیں جن میں سے چند
یہ ہیں: بحیثیت مفتی و شیخ الحدیث، دار العلوم غوثیہ ہبلی، کرناٹک، بانی رکن مفتی و
صدر مدرس دار العلوم سلیمانیہ رحمانیہ، بیکانیر، بانی و مہتمم، مفتی و صدر مدرس دار
العلوم غریب نواز بیکانیر، راجستھان، مفتی و صدر مدرس، مدرسہ ونوا لیبومسلم لیگ، فیجی(نزدآسٹریلیا)،
بانی و جنرل سکریٹری مدینہ ایجوکیشنل سوسائٹی، سیتا مڑھی، بہار، ناظم اعلیٰ دارالعلوم
رضاے مصطفی،بکھری،باجپٹی،سیتامڑھی،بہار، مفتی و صدر مدرس مدرسہ شاہ خالد،گیبرون،بٹسوانہ(افریقہ)،
مفتی سنی دارالافتا،مدینہ مسجد،آزادنگر،جمشیدپور،جھارکھنڈ، جنرل سکریٹری رضا فاؤنڈیشن،آزادنگر،جمشیدپور،جھارکھنڈ،
ڈائریکٹر دارین اکیڈمی (جہاں فی الحال دینی و عصری تعلیم دی جاتی ہے) آزادنگر،جمشیدپور،جھارکھنڈ،
بانی ادارہ افکار رضا،جمشیدپور،جھارکھنڈ، چیف ایڈیٹر دوماہی رضاے مدینہ(اردو،ہندی)،آزادنگر،جمشیدپور،جھارکھنڈ
۔
-------------------------
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism