مفتی عبد المالک مصباحی
تیرہواں قسط
4 اپریل 2023
اگر
کسی پر ایک کفارہ واجب ہوا اور وہ ابھی اداکرنے نہیں پایا تھا کہ دوسرا واجب ہو
گیا تو صرف ایک ہی کفارہ دونوں کے لیے واجب ہوگا۔چاہے یہ دونوں کفارے دو رمضان کے ہوں
بشرطے یہ کہ روزہ فاسد ہونے کی وجہ جنسی فعل ہوتو جتنے روزے فاسد ہوں ان کا کفارہ
الگ الگ ادا کرنا ہو گاچاہے پہلا کفارہ ادا نہ کر پایا ہو۔
ساٹھ محتاجوں میں یہ لحاظ
ضروری ہے کہ محتاج بالغ ہوں اگر بالکل چھوٹی عمر کے بچوں کو کھلایا تو ان کے بدلے
پھر بالغ محتاجوں کو کھلانا ضروری ہے۔
محتاجوں کو کھانا کھلانے
میں اپنے عام معیار کا خیال رکھے نہ زیادہ بڑھانا واجب ہے اور نہ یہ صحیح ہے کہ
سوکھی روٹی دے دی جائے۔
اگر مسکینوں کو کھانا
کھلانے میں تسلسل نہ رہے تو کوئی مضائقہ نہیں کفارہ صحیح ہوجائے گا۔
کھانا کھلانے کے بجائے
غلہ دینا بھی جائز ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ قیمت ادا کر دی جائے۔غلہ فطرانے کے
مقدار کے برابر ہونا چاہیے۔
اگر ایک ہی محتاج کو ساٹھ
دن تک صبح و شام کھانا دیاجائے تو بھی کفارہ ادا ہو جائے گا مگر (عرفاً)یہ صورت بہتر تصور نہیں کی جاتی اس
لیے ساٹھ مسکینوں کو بیک وقت کھلانا ہی بہتر ہے۔
فدیہ
کے ا حکام
اسلامی شریعت نے ایسے
حضرات جنھیں روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو کو یہ رعایت دی ہے کہ وہ روزہ کے بد لہ میں
فدیہ ادا کریں کیوں کہ بڑھاپے میں عموما ًانسان کا جسم لاغر و کمزور ہوجاتا ہے۔جس
کی بنا پر روزہ رکھنا مشکل ہو جاتا ہے اور بعض اوقات بیماری کے باعث بھی جسم میں
روزہ رکھنے کی طاقت نہیں ہوتی تو ان حالات میں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ فدیہ ادا
کریں۔ہرر وزے کے بدلے میں فدیہ ایک محتاج کو دو وقت کا کھانا کھلانا ہے۔فدیہ میں
غلہ یا اس کی قیمت بھی دی جا سکتی ہے۔فدیہ میں غلے کی مقدار صدقہئ فطر کے برابر
ہے۔
کسی کے ذمے کچھ قضا کے
روزے تھے،مرتے وقت اس نے وصیت کی کہ میرے مال میں سے ان کا فدیہ ادا کر دیا
جائے۔اگرا ن قضا روزوں کا سارا فدیہ چھوڑے ہوئے ایک تہائی مال کے بقدر ہے تو فدیہ
ادا کرنا واجب ہے اور اگر فدیہ کی قیمت زیادہ بن رہی ہے اور تہائی مال کی مقدار کم
ہے تو تہائی مال سے زیادہ فدیہ میں ادا کر نا اسی وقت جائز ہے جب وارث برضا ور غبت
اس کی اجازت دے،البتہ اس صورت میں بھی نابالغ وارثوں کی اجازت کا کوئی اعتبار نہ
ہوگا۔
اگر مرنے والے نے وصیت نہ
کی اور وارث بطور خود چھوٹے ہوئے روزوں کا فدیہ ادا کرے تب بھی درست ہے۔اور خدا کی
ذات سے توقع ہے کہ وہ فدیہ کو قبول فرمالے او رروزوں کا مواخذہ نہ فرمائے۔
مرنے والے کی طرف سے وارث
اگر روزے رکھ لے یا اس کی قضا نمازیں پڑھ لے تو یہ درست نہیں ہے۔
معمولی سی بیماری کی وجہ
سے رمضان کا روزہ قضا کرنا اور یہ خیال کرنا کہ پھر قضا رکھ لیں گے یا فدیہ ادا
کرکے یہ سمجھنا کہ روزہ کا حق ادا ہوگیا یہ صحیح نہیں ہے۔رمضان کا روزہ اسی صورت
میں چھوڑیں جب واقعی روزہ رکھنے کی سکت نہ ہو۔
فتاوی رضویہ میں ہے:
طاقت نہ ہونا ایک تو
واقعی ہوتاہے اور ایک کم ہمتی سے ہوتا ہے، کم ہمتی کا کچھ اعتبار نہیں، اکثر اوقات
شیطان دل میں ڈالتا ہے کہ ہم سے یہ کام ہر گز نہ ہوسکے گا اور کریں گے تو مرجائیں
گے، بیمار پڑجائیں گے پھر جب خداپر بھروسہ کرکے کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ادا
کرا دیتا ہے کچھ نقصان نہیں پہنچتا، معلوم ہوا کہ وہ شیطان کا دھوکا تھا۔ ۵۷ برس کی عمر میں بہت لوگ
روزے رکھتے ہیں۔
ہاں! ایسے کمزور بھی
ہوسکتے ہیں کہ ستر ہی برس کی عمر میں نہ رکھ سکیں تو شیطان کے وسوسوں سے بچ کر خوب
صحیح طور پر جانچ لینا چاہیے، ایک بات تو یہ ہوئی۔
دوسری یہ کہ ان میں بعض
کو گرمیوں میں روزہ کی طاقت واقعی نہیں ہوتی مگر جاڑوں میں رکھ سکتے ہیں، یہ بھی
کفارہ نہیں دے سکتے بلکہ گرمیوں میں قضا کرکے جاڑوں میں روزے رکھنا ان پر فرض ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ ان
میں بعض لگاتار مہینہ بھر کے روزے نہیں رکھ سکتے، مگر ایک دو دن بیچ کرکے (ناغہ
کرکے) رکھ سکتے ہیں تو جتنے رکھ سکیں اتنے رکھنا فرض ہے، جتنے قضا ہوجائیں جاڑوں
میں رکھ لیں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ جس
جوان یا بوڑھے کو کسی بیماری کے سبب ایسا ضعف ہوکہ روزہ نہیں رکھ سکتے انہیں بھی
کفارہ دینے کی ا جازت نہیں، بلکہ بیماری جانے کا انتظار کریں، اگر قبل شفا موت
آجائے تو اس وقت کفارہ کی وصیت کردیں۔
غرض یہ ہے کہ کفارہ اس
وقت ہے کہ روزہ نہ گرمی میں رکھ سکے نہ جاڑے میں، نہ لگاتار نہ متفرق اور جس عذر
کے سبب طاقت نہ ہو اس عذر کے جانے کی امید نہ ہو، جیسے وہ بوڑھا کہ بڑھاپے نے اسے
ایسا ضعیف کردیا کہ گنڈے دار روزے متفرق کرکے جاڑے میں بھی نہیں رکھ سکتا تو
بڑھاپاتو جانے کی چیز نہیں، ایسے شخص کو کفارہ کا حکم ہے،اسے اختیار ہے کہ روز کا
(کفارہ /فدیہ) روز دے دے یا مہینہ بھر کا پہلے ہی ادا کردے یا ختم ماہ کے بعد کئی
فقیروں کو دے یا سب ایک ہی فقیر کو د ے، سب جائز ہے۔ (جلد
چہارم، ص ۶۱۲،
رضا اکیڈمی، ممبئی)
اسی میں ہے ”فدیہ صرف شیخ
فانی کے لیے رکھا گیا ہے جوبہ سبب پیرانہ سالی روزہ کی قدرت نہ رکھتاہو، نہ آئندہ
طاقت کی امید، کہ عمر جتنی بڑھے گی ضعف بڑھے گا اس کے لیے فدیہ کا حکم ہے۔ (ایضاص۲۰۶)
( جاری)
---------------------
مفتی عبد المالک مصباحی متعدد
کتابوں کے مصنف اور مختلف مقامات پر تدریس و خدمات انجام دے چکے ہیں جن میں سے چند
یہ ہیں: بحیثیت مفتی و شیخ الحدیث، دار العلوم غوثیہ ہبلی، کرناٹک، بانی رکن مفتی و
صدر مدرس دار العلوم سلیمانیہ رحمانیہ، بیکانیر، بانی و مہتمم، مفتی و صدر مدرس دار
العلوم غریب نواز بیکانیر، راجستھان، مفتی و صدر مدرس، مدرسہ ونوا لیبومسلم لیگ، فیجی(نزدآسٹریلیا)،
بانی و جنرل سکریٹری مدینہ ایجوکیشنل سوسائٹی، سیتا مڑھی، بہار، ناظم اعلیٰ دارالعلوم
رضاے مصطفی،بکھری،باجپٹی،سیتامڑھی،بہار، مفتی و صدر مدرس مدرسہ شاہ خالد،گیبرون،بٹسوانہ(افریقہ)،
مفتی سنی دارالافتا،مدینہ مسجد،آزادنگر،جمشیدپور،جھارکھنڈ، جنرل سکریٹری رضا فاؤنڈیشن،آزادنگر،جمشیدپور،جھارکھنڈ،
ڈائریکٹر دارین اکیڈمی (جہاں فی الحال دینی و عصری تعلیم دی جاتی ہے) آزادنگر،جمشیدپور،جھارکھنڈ،
بانی ادارہ افکار رضا،جمشیدپور،جھارکھنڈ، چیف ایڈیٹر دوماہی رضاے مدینہ(اردو،ہندی)،آزادنگر،جمشیدپور،جھارکھنڈ
۔
-------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism