مفتی عبد المالک مصباحی
9اپریل 2023
سترہواں سبق: زکاۃ کا بیان، قرآن و حدیث کی
روشنی میں
اللہ رب العزت کی حکمت کی تہہ تک پہنچنا انسانی بس کی بات نہیں۔ وہ اپنے
بندے کو کس حال میں رکھنا چاہتا ہے اور کس سے کس انداز میں امتحان لینا چاہتا ہے
یہ اس کی مشیت پر منحصر ہے۔ مال و دولت کی فراوانی اور کمی بھی اس کی حکمت بالغہ
ہی کا حصہ ہے۔اس پروردگار نے اپنے جن بندوں کو وافر مقدار میں مال و دولت سے سر
فراز کیا ہے ان کے مالوں میں کچھ دوسر ے بندوں کا بھی حق مقرر کیا ہے۔شریعت کی
اصطلاح میں اسی کو ”زکا ۃ“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
زکاۃ اسلام کے فر ائض میں سے ایک فریضہ اور بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے، جیساکہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: بُنِیَ الِاسْلَام عَلیٰ خَمْس
شَھَادَۃِاَنَّ لاَ اِلٰہَٰ اِلا اللّٰہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدَ ا رَسُوْلَ اللّٰہِ
وَ اِقَامِ الصَّلوٰۃَ وَاِیْتَاءِ الزَّکوٰۃ وَ اْلحَج وَ صَوْمِ رَمْضَانَ۔
(بخاری و مسلم)
ترجمہ: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے اس بات کی گواہی دینا کہ
اللہ کے سو ا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے
رسول ہیں،نماز قائم کرنا، زکاۃ دینا، بیت اللہ کا حج کر نا اور رمضان شریف کے روزے
رکھنا۔
اس حدیث پاک سے ثابت ہو ا کہ ”زکاۃ“ بھی اسلام کی بنیادوں میں سے ایک
ہے۔ اسی لیے قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر مختلف انداز میں اس پر روشنی ڈالی
گئی ہے تاکہ مسلمان ان سے عبرت حاصل کریں اور اپنے مال کو راہ خدا میں خرچ کرکے
اللہ عز و جل اور رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی حاصل کرسکیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَمِمَّارَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْن۔ (پ ۱،البقرہ، آیت ۳)
ترجمہ: اورہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں۔
خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرْھُمْ وَ تُزَکِّیْھمْ“۔
(پ ۱۱،التوبہ، آیت ۱۰۳)
ترجمہ: اے محبوب! ان کے مال میں سے زکاۃ تحصیل کرو جس سے تم انھیں ستھرا
اور پاکیزہ کردو۔
وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِلزَّکَاۃِ فَاعِلُوْنَ“۔ (پ ۱۸، المومنون،
آیت ۴)
ترجمہ: اور وہ کہ زکاۃ دینے کا کام کرتے ہیں۔
وَ مَا اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ وَھُوَ خَیْرُ
الرَّازِقِیْن۔ (پ ۲۲،سبا، آیت ۳۹)
ترجمہ:اور جو چیزتم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے اور دے گا اور
وہ سب سے بہترین رزق دینے والا
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ وَ مَا
تُنْفِقُوا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰہ بِہٖ عَلِیْم۔ (پ ۴ ، ال عمران،
آیت ۹۲)
ترجمہ:تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچوگے جب تک راہ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ
خرچ کرو اور تم جو کچھ خرچ کرو اللہ کو معلوم ہے۔
وَلَا َیَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ
فَضْلِہٖ ھُوَ خَیْرً ا لَّھُمْ بَلْ ھُوَ شَرئ لَّھُمْ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا
بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔ (پ ۴، ال عمران
آیت ۱۸۰)
ترجمہ: اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی
ہرگز اسے اپنے لیے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لیے براہے عنقریب وہ جس میں بخل
کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا۔
وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَ الْفِضَّۃَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَھَا
فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۔ یَوْمَ یُحْمٰی
عَلَیْھَا فِی نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُھُمْ وَ جُنُوْبُھُمْ وَ
ظُھُوْرُھُمْ ھٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ
تَکْنِزُوْنَ۔ (پ ۱۰، التوبہ، ۳۴ تا ۳۵)
اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ
نہیں کرتے انھیں خوش خبری سناؤ دردناک عذاب کی جس دن تپایاجائے گا جہنم کی آگ میں،
پھر اس سے داغیں گے ان کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں، یہ ہیں وہ جو تم نے اپنے
لیے جوڑ کر رکھا تھا اب چکھو مزہ اس جوڑنے کا۔
زکاۃ احادیث کی روشنی میں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو سونے یا
چاندی کے شرعی نصاب کا مالک ہو او ر اس کا حق یعنی زکاۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن
اس کے لیے اس سونے اور چاندی کی سلیں بنائی جائیں گی اور انہیں آگ میں تپا یا جائے
گا۔ پھر ان آتشیں سلوں سے اس کے پہلو، پیشانی اور پیٹھ کو داغا جائے گا۔ اور جب وہ
ٹھنڈی ہو جائے گی تو پھر دوزخ کی آگ میں تپا کر داغا جائے گا اور ہمیشہ اسی طرح ہو
تا رہے گا۔ (مسلم ج۱، ص ۳۱۸، مشکوٰۃ ص ۱۵۵)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کو
خداے تعالیٰ نے مال عطا کیا توا س نے اس کی زکاۃ نہیں اداکی تو اس کے اس مال کو
قیامت کے دن گنجے سانپ کی شکل میں تبدیل کردیا جائے گا۔ جس کے سر پر دو چتیاں ہوں گی
وہ سانپ اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا پھر وہ سانپ اس کی باچھیں پکڑ ے
گا اور کہے گا میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں۔ اس کے بعد حضور نے پ ۴، رکوع ۹ کی آیت کریمہ تلاوت
کی ”ولا یحسبن الذین“۔ اور جو لوگ بخل کرتے ہیں اس سے جو خدائے تعالیٰ نے اپنے فضل
سے عطا کی تو انجام کا رہر گز اسے اپنے لیے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لیے برا
ہے۔ عنقریب وہ مال کہ جس میں بخل تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا۔ (بخاری ج۱، ص ۱۸۸۔مشکوۃ ص ۱۵۵)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمھا
را خزانہ قیامت کے دن ایک گنجا سانپ بنے گا اس کا ما لک اس سے بھا گے گا اور وہ
سانپ اس کو ڈھونڈتا پھرے گا یہاں تک کہ اس کو پالے گا اور اس کی انگلیوں کو لقمہ
بنائے گا۔ (احمد ۲، ص۶۰۷۔ مشکوٰۃ ۱۰۷)
دوعورتیں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ان کے ہاتھوں میں سونے کے دو
کنگن تھے آپ نے ان سے پوچھا کیا تم ان کی زکاۃ دیتی ہو انہوں نے عرض کی نہیں آپ نے
ان سے فرمایا کہ تم اس بات کو پسند کرتی ہو کہ خدائے تعالیٰ تم لوگوں کو آگ کے دو
کنگن پہنائے؟ انھوں نے عرض کیا نہیں!آپ نے فرمایا:تو پھر ان کی زکاۃ ادا کیا کر و۔
حضور ﷺ نے فرمایازکاۃکسی مال میں نہ ملے گی مگر اسے ہلاک کردے گی۔ (بخاری)
حضور ﷺ نے فرمایا جو قوم زکاۃ نہ
دے گی اللہ تعالیٰ اسے قحط میں مبتلا فرمائے گا۔ (طبرانی اوسط)
آقا ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ خشکی یا تری میں جو مال تلف ہوتا ہے وہ زکا ۃ نہ
دینے سے تلف ہوتا ہے۔ (طبرانی اوسط)
آقا ﷺ فرماتے ہیں قیامت کے دن تونگروں کے لیے محتا جوں کے ہاتھوں خرابی ہے
محتاج عرض کریں گے ہمارے حقوق جو تو نے ان پر فرض کیے تھے انھوں نے ظلماًنہ دئے
اللہ عزوجل فرمائے گا مجھے قسم ہے اپنی عزت وجلال کی تمہیں اپنا قرب عطاکروں گا
اور انہیں دور رکھوں گا۔ (طبرانی)
حضوراقدس ﷺ فرماتے ہیں اللہ عزوجل نے اسلام میں چار چیزیں فرض کی ہیں جوان
میں سے تین اداکرے وہ اسے کچھ کام نہ دیں گی جب تک پوری چاروں نہ بجالائے۔ نماز،
زکاۃ،روزہ،رمضان اور حج بیت اللہ۔ (مسند احمد)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں ہمیں حکم دیاگیا کہ نماز پڑھیں
اور زکاۃ دیں اور جو زکوٰۃ نہ دے اس کی نماز قبول نہیں۔ (طبرانی کبیر)
حضور ﷺ فرماتے ہیں صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتااور بندہ کسی کا
قصور معاف کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت ہی بڑھائے گا اور جواللہ کے لیے تواضع کرے
اللہ اسے بلند فرمائے گا۔ (ترمذی)
حضور اقدس ﷺ فرماتے ہیں جو شخص کھجور برابر حلال کمائی سے صدقہ کرے اور
اللہ نہیں قبول فرماتاہے مگر حلال کو تو اسے اللہ تعالی دست راست سے قبول فرماتاہے
پھر اسے اس کے مالک کے لیے پرورش کرتاہے جیسے تم میں کوئی اپنے بچھڑے کی پرورش
کرتاہے یہاں تک کہ وہ صدقہ پہاڑ کے برابر ہوجاتاہے (بخاری، مسلم، نسائی ابن ماجہ)
حضور ﷺ نے فرمایا تمہارے اسلام کا پورا ہونا یہ ہے کہ اپنے اموال کی زکاۃ اداکرو۔
(مسند ا حمد )
حضور ﷺ نے فرمایا زکاۃ اسلام کا پل ہے۔ (طبرانی اوسط کبیر)
حضور ﷺ فرماتے ہیں زکاۃ دے کر اپنے مالوں کو مضبوط قلعوں میں کرلواور اپنے
بیماروں کا علاج صدقہ سے کرو اور بلا نازل ہونے پر دعاسے استعانت کرو۔ (ابو داؤد)
اٹھارہواں سبق، زکاۃ
کے مسائل
مسئلہ:زکاۃ فرض ہے اس کا
منکر کافراور نہ دینے والا فاسق اور قتل کا مستحق اور ادا میں تاخیر کرنے والا
گنہگار و مردود الشھادۃ ہے۔ (عالمگیری) مسئلہ:مباح
کردینے سے زکاۃ ادانہ ہوگی۔ مثلا فقیر کو بہ نیت زکاۃ کھانا کھلادیا زکاۃ ادانہ
ہوئی کہ مالک کردینا نہ پایا گیاہاں اگر کھانا دے دیا کہ چاہے کھائے یالے جائے تو
اداہوگئی یونہی بہ نیت زکاۃ فقیر کو کپڑادیایاپہنادیاادا ہوگئی۔ (رد مختار)
مسئلہ:زکاۃ واجب ہونے کے لیے چند شرطیں ہیں:
(۱) مسلمان
ہونا۔ (۲) بالغ
ہونا (۳) عاقل
ہونا۔ (۴) آزاد
ہونا (۵) مال
بقدر نصاب اس کی ملک میں ہونا۔ اگرنصاب سے کم ہے تو زکاۃ واجب نہیں۔ (۶)پورے طور پر اس کا مالک
ہونا۔(۷) نصاب
کا دین سے فارغ ہونا۔ (۸)نصاب
کاحاجت اصلیہ سے فارغ ہونا۔ (۹) مال
نامی ہونا۔ (۰۱) سال
گزرنا۔سال سے مرادقمری سال ہے یعنی چاند کے مہینوں سے ۲۱ مہینے۔ (بہار شریعت حصہ
پنجم ص ۰۱۔۱۱)
مسئلہ:اگر دین ایسے پر ہے
جو اس کااقرار کرتاہے مگرادامیں دیر کرتاہے تو جب مال ملے گاسال ہائے گذشتہ کی بھی
زکاۃ واجب ہوگی۔ (تنویرالابصار)
مسئلہ:زکاۃ دیتے وقت یا
زکاۃ کے لیے مال نکالتے وقت نیت زکاۃشرط ہے نیت کایہ معنیٰ ہے کہ جب پوچھا جائے تو
بلاتامل بتاسکے کہ زکاۃ ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ:سال بھر خیرات کرتا
رہا اب نیت کرے کہ جو کچھ دیا ہے زکاۃ ہے تو ادانہ ہوئی۔ (عالمگیری)
مسئلہ:ایک شخص کو وکیل بنایا اسے دیتے وقت نیت
زکاۃ نہ کی مگر جب وکیل نے فقیر کودیا اس وقت موکل نے نیت کرلی ہوگئی۔ (عالمگیری)
مسئلہ:زکاۃ دینے کے لیے وکیل
بنایا اور وکیل کو بہ نیت زکاۃ مال دیا مگر وکیل نے فقیر کو دیتے وقت نیت نہیں کی
ادا ہوگئی۔ (در مختار)
مسئلہ:چند اوقاف کے متولی کو
ایک کی آمدنی د وسری میں ملانا جائز نہیں۔(خانیہ)
مسئلہ:اگر زکاۃ دینے والے
نے اسے حکم نہیں دیا خود ہی اس کی طرف سے زکاۃ دیدی تو نہ ہوئی اگر چہ اب اس نے
جائز کردیا ہو۔ (رد المختار)
مسئلہ: زکاۃ دینے میں اس
کی ضرورت نہیں کہ فقیر کو زکاۃکہہ کردے بلکہ صرف نیت زکاۃ کافی ہے یہاں تک کہ اگر قرض
کہہ کردے اور نیت زکاۃ کی ہو ادا ہوگئی۔ (عالمگیری)
یوں ہی نذر، ہدیہ،پان
کھانے، بچوں کے مٹھائی کھانے یا عیدی کے نام سے دی اداہوگئی۔ بعض محتاج ضرورت مند
زکاۃ کا روپیہ نہیں لینا چاہتے انہیں زکاۃ کا کہہ کر دیا جائے گا تو نہیں لیں گے
لہٰذ ا زکاۃ کا لفظ نہ کہے۔ (بہارشریعت پنجم ص ۵۲)
مسئلہ:مالک نصاب پہلے سے
چند سال کی بھی زکاۃ دے سکتاہے۔(عالمگیری)
لہٰذا مناسب ہے کہ تھوڑا
تھوڑازکاۃمیں دیتا رہے ختم سال پر حساب کرے اگر زکاۃ پوری ہوگئی تو ٹھیک اور کچھ
کمی ہوتو اب فورًا د ے دے تاخیر جائز نہیں نہ اس کی اجازت کہ اب تھوڑا تھوڑا کرکے
بلکہ جو کچھ باقی ہے کل فورا ًادا کردے اور اگر زیادہ دے دیا ہے تو آنے والے سال
کے حساب میں ڈال دے۔ (بہارشریعت پنجم ص۵۲)
مسئلہ:اگر شک ہے کہ زکاۃ
دی یا نہیں تو اب دے۔ (رد المختار)
( جاری)
------------------
مفتی عبد المالک مصباحی متعدد کتابوں کے مصنف اور مختلف
مقامات پر تدریس و خدمات انجام دے چکے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں: بحیثیت مفتی و شیخ
الحدیث، دار العلوم غوثیہ ہبلی، کرناٹک، بانی رکن مفتی و صدر مدرس دار العلوم سلیمانیہ
رحمانیہ، بیکانیر، بانی و مہتمم، مفتی و صدر مدرس دار العلوم غریب نواز بیکانیر، راجستھان،
مفتی و صدر مدرس، مدرسہ ونوا لیبومسلم لیگ، فیجی(نزدآسٹریلیا)، بانی و جنرل سکریٹری
مدینہ ایجوکیشنل سوسائٹی، سیتا مڑھی، بہار، ناظم اعلیٰ دارالعلوم رضاے مصطفی،بکھری،باجپٹی،سیتامڑھی،بہار،
مفتی و صدر مدرس مدرسہ شاہ خالد،گیبرون،بٹسوانہ(افریقہ)، مفتی سنی دارالافتا،مدینہ
مسجد،آزادنگر،جمشیدپور،جھارکھنڈ، جنرل سکریٹری رضا فاؤنڈیشن،آزادنگر،جمشیدپور،جھارکھنڈ،
ڈائریکٹر دارین اکیڈمی (جہاں فی الحال دینی و عصری تعلیم دی جاتی ہے) آزادنگر،جمشیدپور،جھارکھنڈ،
بانی ادارہ افکار رضا،جمشیدپور،جھارکھنڈ، چیف ایڈیٹر دوماہی رضاے مدینہ(اردو،ہندی)،آزادنگر،جمشیدپور،جھارکھنڈ
۔
---------------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism