مفتی عبد المالک مصباحی
16 اپریل 2023
اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان
کی زندگی کا دار و مدار کھانے پینے پر ہے۔مگر نہ ہر کھانے کی چیز حلال ہے اور نہ ہر
پینے کی چیز جائز۔ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسلام نے ہمیں کھانے پینے کے کچھ اصول
اور قاعدے بتائے ہیں جن کی پابندی ضروری ہے۔اگر کوئی روزانہ کی زندگی میں اس کا خیال
نہیں کرتا توپھر اس کی دنیا وی اور اخروی دونوں زندگی تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔اس تعلق
سے اللہ رب العزت نے جو ہدایات بندوں کو عطا فرمائی ہیں ان میں سے کچھ بیان کی جاتی
ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اللہ تعا
لیٰ پاک ہے،وہ پاک چیزوں کو قبول فرماتا ہے اور اس نے مومنوں کو وہی حکم دیا ہے جو
اس نے رسولوں کو دیاہے چنانچہ فرمان الہٰی ہے: یَااَیُّھَا الرُّسُولُ کُلُوْا مِنَ
الطَیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا۔ (پارہ۱۸،المومنون۔آیت۵۱) اے رسولو! پاکیزہ چیزوں میں
سے کھاؤ اور اچھے عمل کرو۔ (کنزالایمان)
اور دوسری آیت میں فرمایا:
یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنٰکُمْ۔ (پارہ ۲،بقرہ۔آیت۱۷۲) اے مومنو!ہمارے دیئے ہوئے
رزق میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔
پھر آپ نے ایسے آدمی کا تذکرہ
فر مایا جو طویل سفر کے بعدبکھرے بالوں اور غبار آلود چہرے کے ساتھ آتا اور آسما ن
کی طرف ہاتھ اٹھا کر اے اللہ!اے اللہ! کہتا ہے حالاں کہ اس کاکھانا،پینا،لباس اور غذا
سب حرام ہوتا ہے۔اس صورت میں اس کی دعا رب جلیل کیسے قبول فرمائے گا۔ (مسلم شریف)
طبرانی نے اسناد حسن سے روایت
کی ہے:کہ رزق حلال تلا ش کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے،طبرانی اور بیہقی کی روایت میں
ہے کہ فرائض نماز کے بعد رزق حلال طلب کرنا بھی فرض ہے۔ترمذی اور حاکم کی حدیث ہے کہ
جس نے حلال کھایا، سنت پر عمل کیا او رلوگ اس کے شر سے محفوظ رہے وہ جنت میں جائے گا۔صحابہ
کرام نے عرض کی یا رسول اللہ!یہ چیز تو آج آپ کی امت میں بہت ہے،آپ نے فرمایا میرے
بعد کچھ وقت ایسے ہی ہوگا؟
احمد وغیرہ نے اسناد حسن کے
ساتھ روایت کی ہے۔جب تیرے اندر چار چیزیں ہوں تو دنیا کی کوتاہیاں تجھے نقصان نہیں
دیں گی،امانت کی نگہبانی،راست گوئی،حسن خلق اور رزق حلال۔
طبرانی کی حدیث ہے اس کے لیے
خو ش خبری ہے جس کا کسب عمدہ،باطن صحیح،ظاہر باعزت اور لوگ اس کے شر سے محفوظ ہوں،اسے
خوش خبری جس نے علم کے ساتھ عمل کیا،زائد مال راہ خدا میں خرچ کیا اور غیر ضروری باتیں
کرنے سے اجتناب کیا۔
اسی میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا! اے سعد!حلال کا کھانا کھا تیری دعائیں
قبول ہوں گی،قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہئ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے جب آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ
ڈالتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کی چالیس دن کی عبادت قبول نہیں ہوتی،جو بندہ حرام سے
اپنا گوشت بڑھاتا ہے(جہنم کی آگ اس کے بہت قریب ہوتی ہے)
مسند بزازمیں روایت ہے کہ اس کا
دین نہیں جس میں امانت نہیں اور نہ اس شخص کی زکاۃ ہے جس نے حرام کا مال پایا اور اس
میں سے قمیض پہن لیا، اس کی نماز قبو ل نہیں ہوگی،جب تک کہ وہ اسے اتار نہیں دیتاکیوں
کہ شان الٰہی اس چیز سے بلند و بالا ہے کہ وہ ایسے شخص کی نماز قبول کرے یا کوئی اور
عمل قبول کرے کہ جس کے جسم پر حرام کا لباس ہو۔
احمد نے حضرت ابن عمر سے روایت
کی ہے،انہوں نے فرمایا جس شخص نے دس درہم کاکپڑا خریدا اور اس میں ایک درہم حرام کا
تھا،جب تک وہ کپڑا اس کے جسم پررہتا ہے،اللہ تعالی اس کی نماز قبول نہیں فر ماتا،پھر
انھوں نے اپنے دونوں کا نوں میں دو انگلیاں داخل کر کے فرما یاکہ اگر میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فر ماتے ہوئے نہ سنا تو یہ دونوں بہرے ہوجائیں۔
بیہقی کی روایت ہے کہ جس نے
چوری کا مال خریدا حالاں کہ وہ جانتا ہے کہ یہ چوری کا مال ہے تو وہ بھی اس کی رسوائی
اور گناہ میں شریک ہوگا۔
حافظ المنذری نے قابل حسن
اسناد یا موقوف سندکے ساتھ اور احمد نے بہ سند جیدیہ حدیث نقل کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس کی جس کے دست قدرت میں میری
جان ہے کہ تم میں سے کوئی اپنی رسی لے کرپہاڑ کی طرف نکل جائے اور لکڑیاں اکٹھی کر
کے پیٹھ پر لاد کر لے آئے اور انہیں بیچ کر کھائے وہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے منہ
میں حرام کا لقمہ ڈالے۔
ابن خزیمہ اور ابن حبان نے
اپنی صحیح میں اورحاکم نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ جس نے حرام کا مال جمع کیا،پھر اسے
صدقہ کر دیا تو اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا اور اس کا گناہ اسی پر رہے گا۔
طبرانی کی حدیث ہے کہ جس نے
مال حرام حاصل کر کے اس سے کسی کو آزاد کیا اور صلہ رحمی کی،یہ اس کے لیے ثواب کے بجائے
گناہ کا کام ہے۔
احمد وغیرہ نے یہ حدیث نقل
کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح تمہارے درمیان رزق تقسیم کر دیا ہے ایسے ہی عادات تقسیم
کردی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو
خواہ وہ دنیا کو اچھا سمجھتا ہویا برا،دنیا دیتا ہے اور دین اسے دیتا ہے جو دین کوپسند
کرتا ہے اوراللہ تعالیٰ جسے دین دیتا ہے اسے محبوب رکھتا ہے،بخدا بندہ اس وقت تک کامل
مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ زبان و دل اسلام نہ لائے اور اس کی زبان و دل سے لوگ سلامت
نہ رہیں اور اس وقت تک بندہ مومن نہیں بنتا جب تک کہ اس کے ہم سائے اس کے کینے اور
ظلم سے محفوظ نہ ہوں اور بندہ حرام کی کمائی سے جو کچھ حاصل کرتا ہے اس میں سے اس کاصدقہ
قبول نہیں ہوتا اور ناہی راہ خدا میں اس کو دینے سے اس کے مال میں برکت ہوتی ہے او
رجو مال وہ اپنے پیچھے چھوڑجاتا ہے وہ اس کے لیے جہنم کا سامان ہوتا ہے۔بے شک اللہ
تعالیٰ برائی سے برائیوں کو نہیں مٹاتا ہے بلکہ نیکیوں سے برائیوں کو مٹاتا ہے،بے شک
خبیث چیز سے خبیث چیز نہیں مٹتی۔
ترمذی نے یہ حدیث نقل کی ہے
کہ حضور ﷺ سے ان چیزوں کے بار ے میں پوچھا
گیا جن کی وجہ سے اکثر لوگ جہنم میں جائیں گے،آپ نے فرما یا منہ او رشرمگاہ،اور ان
چیزوں کے متعلق سوال کیا گیاجس کے سبب اکثر جنت میں جائیں گے،آپ نے فرمایا: خوف خدا
اور حسن خلق۔
بیہقی کی حدیث ہے کہ دنیا
سرسبز اور شیریں ہے، جس شخص نے اس میں حلال طریقہ سے مال کمایا اور اسے صحیح طور پر
خرچ کیا، اللہ تعالیٰ اسے اس کا ثواب دے گا اور اسے جنت میں داخل فرمائے گا اور جس
نے اس میں ناجائز طریقوں سے مال کمایا اور ناجائز طریقوں سے اسے خرچ کیا، اللہ تعالیٰ
اسے جہنم میں بھیجے گا اور بہت سے لوگوں کے لیے جو مال کی محبت میں اللہ اور اس کے
رسول کو بھول جاتے ہیں قیامت کے دن جہنم ہوگا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کُلَّمَا خَبَتْ
زِدْنَاھُمْ سَعِیْرًا۔ (پارہ ۱۵
،اسرا۔آیت۹۷) جب وہ بجھنے لگے گی
ہم اس کی سوزش میں زیادتی کر دیں گے۔
ابن حبان نے اپنی صحیح میں
یہ حدیث نقل کی ہے کہ جو گوشت و خون حرام کے مال سے پیدا ہوا اس پر جنت حرام ہے اور
جہنم اس کے زیادہ مستحق ہے۔
ترمذی سے روایت ہے کہ جو گوشت
مال حرام سے پرورش پاتا ہے،آگ اس کے لیے زیادہ مناسب ہے۔ایک روایت میں ہے کہ جو گوشت
ناجائز طریقوں سے حاصل کردہ چیزوں سے پرورش پائے،اس کے لیے آگ زیادہ مناسب ہے،ایک اور
روایت میں بسند حسن نقل کیاگیا ہے کہ وہ جسم جنت میں نہیں جائے گا جس نے حرام مال سے
غذا حاصل کیا ہو۔
ان احادیث سے مال حرام کی
خباثت ظاہر ہوئی۔اوریہ بات بھی واضح ہوئی کہ مال حرام سے نہ صدقہ خیرات قبول ہوتا ہے
اور نہ ہی کوئی دوسرانیک عمل۔لھذا نیکی کمانے اور محفوظ رکھنے کے لیے حلال کمائی ضروری
ہے تاکہ انسان کی دنیا وآخرت کامیاب ہوسکے۔
---------------------
مفتی عبد المالک مصباحی متعدد
کتابوں کے مصنف اور مختلف مقامات پر تدریس و خدمات انجام دے چکے ہیں جن میں سے چند
یہ ہیں: بحیثیت مفتی و شیخ الحدیث، دار العلوم غوثیہ ہبلی، کرناٹک، بانی رکن مفتی و
صدر مدرس دار العلوم سلیمانیہ رحمانیہ، بیکانیر، بانی و مہتمم، مفتی و صدر مدرس دار
العلوم غریب نواز بیکانیر، راجستھان، مفتی و صدر مدرس، مدرسہ ونوا لیبومسلم لیگ، فیجی(نزدآسٹریلیا)،
بانی و جنرل سکریٹری مدینہ ایجوکیشنل سوسائٹی، سیتا مڑھی، بہار، ناظم اعلیٰ دارالعلوم
رضاے مصطفی،بکھری،باجپٹی،سیتامڑھی،بہار، مفتی و صدر مدرس مدرسہ شاہ خالد،گیبرون،بٹسوانہ(افریقہ)،
مفتی سنی دارالافتا،مدینہ مسجد،آزادنگر،جمشیدپور،جھارکھنڈ، جنرل سکریٹری رضا فاؤنڈیشن،آزادنگر،جمشیدپور،جھارکھنڈ،
ڈائریکٹر دارین اکیڈمی (جہاں فی الحال دینی و عصری تعلیم دی جاتی ہے) آزادنگر،جمشیدپور،جھارکھنڈ،
بانی ادارہ افکار رضا،جمشیدپور،جھارکھنڈ، چیف ایڈیٹر دوماہی رضاے مدینہ(اردو،ہندی)،آزادنگر،جمشیدپور،جھارکھنڈ
۔
-------------------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism