سید امیر علی
(قسط 28)
27 مئی 2021
یا یتھا النفس المطمنۃ ار
جعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ وادخلی فی عبدی وادخلی جنتی
”اے نفس مطئمنہ، اپنے رب کی طرف لوٹ چل: تو اس سے اور وہ تجھ سے
راضی۔پھرمیرے بندوں میں شامل اورمیری جنت میں داخل ہوجا۔“ (الفجر 27،28،29)
ایک آئندہ زندگی کا
تصور،یعنی ایک ایسی زندگی کا تصور جو ہماری ترکیب فطری کے زندہ رہنے والے اورفنا
ہوجانے والے اجزاء کی علٰیحدگی کے بعد شروع ہوگی،دنیا کی بہت سی قوموں میں، جواور
باتوں کے لحاظ سے ایک دوسری سے بالکل مختلف ہیں،بڑی حد تک مشترک ہے۔ اس بناء پر یہ
عقیدہ عام ہے کہ یہ تصور طبع انسانی کے اوّل اور بنیادی عناصر میں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
اس باب کو پڑھنے سے پہلے چند ارشادات کا سمجھ لینا نہایت ضروری ہے۔
۱۔
مصنف نے موت کے بعد کے کوائف کی جس اندازمیں تشریح کی ہے وہ انداز ان کااپنا ہے۔
۲۔
قرآن حکیم کا ہرگز یہ دعویٰ نہیں ہے کہ اس نے اخروی زندگی کے بارے میں جن حقائق کی
نقاب کُشائی کی ہے وہ بالکل نئے اور اچھوتے ہیں یا ان پر دنیا کے مختلف گوشوں میں
غور وفکر نہیں ہوا ہے، اور انسانی فکر نے اس ضمن میں کوئی ارتقائی قدم نہیں اٹھایا
ہے(باقی حاشیہ صفحہ 312پر ملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن جب ہم مختلف نسلوں او
رقبیلوں کے زمانہ طفولیت کا زیادہ غور سے جائزہ لیتے ہیں تو اس نتیجے پہنچتے ہیں
کہ ایک زندگی مستقبل کا تصور اگر جبلّت انسانی میں مضمر ہے تو دوسری طرف وہ نفس
انسانی کے قدرتی ارتقاء کی پیداوار بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ 311) قرآن کامنشا محض یہ ہے کہ جو لوگ اس دنیا میں اس
کی مادّی وحسّی لذّات کے لیے وقف ہوکر رہ گئے ہیں، انہیں یقین دلائے کہ اگر تم
یہاں رہ کر ایمان و عمل کے تقاضوں کو پورا کرتے ہو تو تمہیں آخرت میں اس سے بہتر
نہیں بلکہ مکمل زندگی عطا کی جائے گی۔
۳۔
جنت او راس کی حسی کیفیات کے بارہ میں تاویل و تعبیر کے دو مسلّمہ اصول رائج ہیں۔
ایک گروہ نے اس لذّات و احوال کو اس بنیاد پر حقیقی قرار دیا ہے او رظاہر پر محمول
کیا ہے کہ انسانی ”انا“ میں زندگی کے یہ وو نورُخ موجو د ہیں اور حسّی ومعنوی
دونوں پہلو اس ’انا‘ کے ایسے اجزا ترکیبی ہیں کہ تجرید کے کسی بھی مرحلہ میں ایک
کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ یہ محدثین اور سلف کا تصور ہے۔عقلیت پسند گروہ
نے ان کو ایسے معانی سے تعبیر کیا ہے جن کو محض سمجھانے کے لیے حسّیات کی اصطلاحوں
میں بیان کیا گیا ہے۔دونوں گروہ اس بات پر متفق ہیں کہ اصل مقصود رضائے الہٰی کا
حصول ہے او ریہی وہ سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اہل ایمان جنت میں بہرہ مند ہوں گے۔
۴۔
یہ بات صحیح نہیں ہے کہ جنت میں جن حسّی نبوت پختہ نہیں ہوا تھا۔ یہ درست ہے کہ
قرآن حکیم میں اُمت کے شعوری ارتقا ء کا برابر خیال رکھا گیا ہے۔ جسے ہم تدریج و
تسہیل بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اس کا تعلق احکام و شوریٰ کے نفاذ سے ہے اصول و
عقائد سے نہیں۔ عقائد و اصول اس کے بغیر واضح کردیئے گئے ہیں اور ان میں اوّل سے
آخر تک کہیں جھول یا اجمال پایا نہیں جاتا۔چنانچہ جس طرح مکّی سورتوں میں جنت کی
نعمتوں کا تذکرہ ہے۔ٹھیک اسی طرح مدنی سورتو ں میں بھی ان کا بیان ہے۔
۵۔
نبوت کے بارہ میں اس حقیقت کو اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ اس کے معنی یہ نہیں کہ
بعض حساس او رپاکباز ہستیاں اپنے وجدان و تاثرات کو دیا نتداری کے ساتھ وحی کے روپ
میں دیکھتی ہیں اور اپنے دور میں پھیلی ہوئی اجتماعی سچائیوں کو اپنے دامن فکر میں
سمٹ اور جوڑ کر متعین دعوت کی شکل میں ڈھال دیتی ہیں۔ جیسا کہ ایک مدرسہ فکر کہتا
ہے اسلامی نقطہ نظر ہے(باقی حاشیہ صفحہ 313 پر ملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غیر متّمدن وحشی کو اس کا
سان گمان بھی نہیں کہ جو زندگی وہ اس زمین پر بسر کررہا ہے اس کے علاوہ او راس سے
مختلف کوئی اور زندگی بھی ہوسکتی ہے۔ وہ موت کو ہستی کا خاتمہ سمجھتا ہے۔ اس کے
بعد ایک ایسا دور آتا ہے جب انسان اپنے ابتدائی دور وحشت سے گزر چکتا ہے۔اب اس کی
اُمیدیں اور آرزوئیں اس کی ارضی موت کے نقطے پر پہنچ کر ختم نہیں ہوجاتیں،بلکہ اسے
اپنی موجودہ زندگی کے مکمل ہوجانے کے بعد ایک اور زندگی کی توقع ہوتی ہے۔ لیکن اس
دور میں بھی جس قسم کی بقائے دوام کا تخّیل انسان کے ذہن میں ہوتا ہے وہ اس کی
روزانہ زندگی کے لگے بندھے نقشے سے مختلف نہیں ہوتی بلکہ اسی زندگی کی ایک توسیع
ہوتی ہے۔ قبر سے ماوراء سلسلہ زندگی کے برقرار رہنے کا یہ خیال غالباً روح انسانی
کی اس خواہش سے،جو ابھی تک غیر شعور تھی، پیدہوا ہوگا کہ کاش ایک ایسا وسیع ترعرصہ
وجود ہو جس میں اعزّہ و اقربا سے جدائی،و حشی انسان او رمتمدن انسان دونوں کے لیے
المناک ہوتی ہے ان سے دوبارہ ملاقات میں
تبدیل ہوجائے۔
اس کے بعد کا مرحلہ جلد
ہی آجاتا ہے، انسان کے دل میں یہ عقیدہ پیدا ہوجاتا ہے کہ اس کی زندگی موجودہ
خوشیوں اور غموں ہی پر ختم نہیں ہوسکتی،بلکہ موت کے بعد ایک اور زندگی بھی ہوگی
بلکہ یقینا ہے جس میں اس کو یہ خوشیا ں اور وہ غم نصیب ہوں گے جن کا وہ مستحق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 312) انبیاء علیہم السلام کی بعثت اللہ تعالیٰ کے
نظام ربوبیت کا کرشمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ان کو مخلوق کی اصلاح کے لیے چنتا ہے۔
وہی ان کے قلب و ذہن کی پرورش کا اہتمام کرتاہے اور وہی رشد وہدایت کی ارزانی بھی
فرماتا ہے۔ ان کا ول وحی الہٰی کا مہبط قرار پاتا ے اور زبان حق کی ترجمان۔انہیں
اختیار قطعی نہیں ہوتا کہ اپنی طرف سے کوئی بات کہیں۔ یہ اپنے دور کی اجتماعی و
فکر ی سچائیوں کے بارہ میں بلاشبہ ایک متعین موقف رکھتے ہیں لیکن اس میں ان کے
ذاتی انتخاب کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ خود ربوبیت کا یہ تقاضا ہے کہ انبیاء علیہم
السلام اپنے عہد کی جملہ صداقتوں کی تصدیق کریں اور ان کو ایک بہتری امتزاج کی شکل
میں پیش کریں۔ (م۔ح۔ن)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پہنچ کر انسان نے ایک
اصول یا قانون کا انکشاف کیا۔
لیکن ذہن انسانی ایک حیات
مستقبل کے تصور کی مزیدنشو و نما سے قاصر رہتا ہے۔ فلسفہئ عدمیت و انکاریت (Nihilistic) کوئی نیا انکشاف
نہیں کرتا، کوئی نیا موقف اختیار نہیں کرتا۔ وہ محض ہمارے وحشی آبائے اوّلین کی
لکیر کی فقیر ی کرتاہے جن کا دائرہ نظر صرف موجودہ زندگی تک محدود تھا۔
بہرکیف یہ ایک مستند امر
ہے کہ حیات بعد الممات سے متعلق مختلف خیالات،جو ایک معروضی نقطہ نگاہ سے انسانی
ذہنیت کے ارتقاء کے مختلف مراحل کی نمائندگی کرتے ہیں، نہ صرف مختلف قوموں کے یہاں
بلکہ ایک ہی قوم کی انفرادی نشو و نما کے مطابق بہ یک وقت مختلف مجموعہ ہائے افامر
کی صورت میں موجود نظر آتے ہیں۔
کہا جاتاہے کہ مصری پہلے
لوگ جنہوں نے حیات بعد الممات کا نظریہ تسلیم کیا،یا کم از کم کردار انسانی کے
اصولوں کی بنیاد اس نظریئے پررکھی ۱؎۔
انہوں نے تناسخ ارواح اور آئندہ زندگی میں جزا و سزا کو ایک دوسرے سے مربوط کردیا۔
ان کا عقیدہ تھا کہ انسان قبر میں داخل ہوتے ہی پھراٹھ کھڑا ہوتا ہے اور ایک نئی
زندگی شروع کردیتاہے جس میں اس کا رفیق آفتاب ہوتاہے جو تکوین کا اصل الاصول اور
تمام موجودات کا قائم بالذّات سبب ہے۔ ان کے نزدیک آفتا ب کی طرح انسان کی روح بھی
غیر فانی تھی اور اسی کی سی منازل سفر طے کرتی تھی۔ تمام اجسام عالم سفلی میں داخل
ہوجاتے تھے،لیکن حشر یعنی دوبارہ اٹھ کھڑا ہونا معدود ے چند ہی کو نصیب ہوتا تھا۔
مری ہوئی روحوں کی نیکی و بدی کا فیصلہ اورسائرس دیوتا Qsiris اور سا کے بیالیس
مشیروں کے ہاتھ میں تھا۔ فنا کی سزا صرف ان روحوں کو ملتی تھی جو گناہ گار پائی
جاتی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎Rawliinson,
History of Ancient Egypt. vol/ ii, p. 423
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں تک نک۔ روحوں کا
تعلق تھا وہ صغرl ہ گناہوں سے پاک ہوکر کامل راحت کے عالم مں داخل ہوجاتی تھںس اور اوسائرس انہںہ اپنے
ہمرکابوں کی حتاں سے لذیذ نعمتں/ مہا کرتا
تھا۱؎
ہمںں قدرتی طور پر توقع
ہوسکتی ہے کہ بنی اسرائلر نے مصر مں ایک
مدّت مدید تک قارم کرنے کی بدولت مصریوں سے حاگت بعد الممات کا تصور او راس کا
تلازمہ یین جزا و سزاکا عقدکہ اکتساب کر
لاا ہوگا۔ لکنر خالص موسویت (یایوں کہئے کہ وہ تعلمے جو اس لقب سے ملقّت کی جاتی
ہے) موجودہ زندگی سے مختلف کوئی زندگی تسلمو نہں2 کرتی۔ وہ محور جس پر شریعت موسوی
کا سارا نظام گردش کرتا ہے محض ارضی جزا و سزا پر مشتمل ہے۲؎۔اس شریعت مںت عنصر حاوت
بہت ہی کم ہے۔
حشر اجساد کا نظریہ اور
اس سے پد ا ہونے والے افکار جن کا ظہور بعد کی یہودیت مںب (اور بالخصوص حضرت و
انائل اور حزقی ایل Ezekiei کی تصنفاحت ہں ) ہوا بداہتہً ایک ثمر دیر رس ہے جو مذہب زرتشتی سے
حاصل کاو گاا۔ اور تو اور شؤل Sheoi یینز وہ عالم برزخ
جہاں دنات سے کوچ کرنے والی رو حںع،عام اس سے کہ وہ نک ہوں یا بد،کچھ مدّت تک رکھی جائںی گی اگر چہ
نسبتہً ابتدائی تحریروں مںز مذکور ہے، لکنے اس کے جو نقشے ان تحریروں مں دیئے گئے ہں
وہ عبرانی الاصل معلوم نہںر ہوتے شؤل مںی انسان نہ خدا کی تسبح کرسکتا ہے نہ اس کی محبت و شفقت اسے یاد آسکتی
ہے۳؎۔
شؤل پر چھائو ں کی ایک
دنان ہے،یینو غری اہل کتاب کے عالم اسفل Hades کا یہودی مثنیٰ، جس
مں روحںش ایک اییک کاہلانہ لکن بے آرام زندگی بسر کرتی ہںئ جس پر مردنی سی
چھائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
Leonormant,
Ancient History of the East voi.i,pp.322, and Aiger History of the Doctrine of
a Future Life, p. i02, et seq Aiger Hist of the Doctrine of a Future Life, p.
157 Miliman's Christianity, pp. 21,25,75, etc
۳؎
زبور۔6ب5
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوتی ہے،انہںC ان لوگوں کا جو دناe مںF انہں عزیز تھے کوئی علم نہںم ہوتا اور وہ دن رات
اپنی ہی حالت پرنالہ وشوپن کرتی رہتی ہںت ۱؎
لکنی زمانہ بعد کی یہودیت
زندگی مستقبل کے بارے مںr ایک نہایت قوی ایمان سے معمور ہے۔ روایت لُطف لے لے کر روحانی
مسّرت کے مقامات کی کیفیتیں اور ملعون روحوں کے عذابوں کی روئدبادیں باین کرتی ہے۲؎۔ چنانچہ زرتشتی مذہب نے
عبرانی قوموں پر دو طریقو ں سے عمل کا ۔ اس نے نہ صرف انہں۔ حاکت بعد الممات کے
ایک زیادہ خالص اور زیادہ روحانی تصور سے روشناش کا۔ بلکہ مجوسی زرتشتب (Mogo-Zorastrianism) نے جو خد کلدانت. (Chaidaeism) کا ایک ماحصل تھی،
یہودی ربانوسں کے عقائد پر عقبیٰ اور جزاؤ ں اور سزاؤں کے ایک مادّی تصور کا گہرا
رنگ چڑھا دیا۳؎بہر
حال یہ امتایز مشرق کی آریائی قوموں کو حاصل ہے کہ انہوں نے موت کے بعد کی زندگی
کا ایک واضح اور بن تصویر پشو کام۔ آریائی
خاندان کی ایک شاخ کے یہاں اس نے یا تو ایک لامتناہی تناسخ یینگ موت اور پد ائش کے
ایک کبھی نہ تھمنے والے چکّر کی صورت، یا ایک طویل امتحان کے بعد ایک مطلق لامتنا
ہت مںں یا ایک بے پایاں وبکرںاں وسعت
مکانی مںے یا عدم محض مں جذبات ہوجانے کی
صورت اختاکر کی۴؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ ایّوب۔24ب22،نزح ملاحظہ کجئےf:۔Dollinger,
vol. ii,p. 389. and, Aiger.
۲؎
History
of the Doctrine of a Future Life, p. 151,152, et seq Mllman, History of
Christianity,
۳؎
ملاحظہ کجئےr Alger کا وہ باب جس مں2 اس نے قرونِ اُخریٰ کی یہودیت پر ایرانی نظام کے
اثرات سے بحث کی ہے۔
۴؎ برہمن پروہتوں نے دوزخ کے عذابوں اور جنّت کی
لذّتوں کا نقشہ (باقی حاشہ صفحہ317 پر
ملاحظہ فرمائںر)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پج۔ نمبر 317سے کرنا ہے۔
دوسری شاخ نے اس تصور کو
جزاؤں اور سزاؤں کے ایک سلسلہ مدارج کی شکل بخشی،انہی معنوں مںی جن مںا جدید
عساثئتی اور اسلام کے نزدیک جزا وسزا اس کا امر کا نتجہ ہے کہ انسان اپنے اعمال کے لئے جوابدہ ہے۔ یہ
ایک متنازعہ فہ, سوال ہے کہ مجوسی زر وشتی شروع ہی سے حشر احباد پر ایمان رکھتے
تھے یا نہںا۔ ڈولنگر (Dollinger) ابرنوف (Burnouf) اور متعدد محققنp کا خاہل ہے کہ یہ
تصور اصل مں زروشتی نہںا بلکہ یا تو
عبرانو ں سے ماخوذ ہے یا زمانہ مابعد کی پدlاوار
ہے۱؎۔
حققتا حال جو کچھ بھی ہو،
رسول عربی صلی اللہ علہا وسلم کی بعثت کے وقت ایرانویں کے یہاں آئندہ زندگی کا ایک
قوّی اور ارتقا ء یا فتہ موجود تھا۔ ژنداوستا کے جو بقیّۃ الدّ حصے ہم تک پہنچے
ہںل ان مںف مستقبل کی جزاؤں اورسزاؤں کے بارے مںک عقدوہ صاف طور پر پایا جاتا
ہے۔دندیداد (Vendidad) اور بندیہیش (Bundehesh) کے مذہب کے بعددیو
(Demons) اس کے جسم پر قابض ہوجاتے ہںی لکن تسراے دن شعور عود کر آتا ہے۔ وہ روحںچ جو اپنی
ارضی زندگی مںm بدی کے دامِ تحریص مںف گرفتار رہ چکی ہںو چنوااد (Chinevad) کا وہ پل پار نہںا
کرسکتںر جہاں انہں موت کے تسرضے دن کے بعد
لے جایا جاتا ہے۔ نکر روحںص،جن کی رہبری ”نر ت“(Yazatas) یا جدید فارسی مںس
ایزد، کرتاہے اسے یاد کرلیان ہںت اور اقلم
سعادت مںی داخل ہوجاتی ہںح، جوہر مُزد (Ormuzd) اور امشپسندوں (The
Amshaspands)
کا مسکن ہے وہاں وہ سونے کے تختوں پر بٹھd کر حوران بہشتی کی
صحبت سے اور طرح طرح کی اور نعمتوں سے لذت اندوز ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقہ۔ حاشہس صفحہ 316) ایک بمانر تخلک کا محاکاتی وضاحت کے ساتھ
کھنچاذ شہر ستانی نے بدھ کے عقائد کی (اتنی حاpت
معاد کے بارے مںر نہں جتنی بالعموم) جو
واددی ہے،عربی دان حضرات کو اس کی دعوت مطالعہ دی جاتی ہے۔ دیکھئے شہر ستانی۔صفحہ
446۔
۱؎
آلجر Alger نے اس قا س کے حق مںح مضبوط دلائل پشط کئے ہںت (باقی حاشہش صفحہ
318 پر ملاحظہ فرمائںد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بُرے لوگ پُل پر سے گر کر
دوزخ کے دریا مںم جا پڑتے ہںد،جہاں دیو ان کو قسم قسم کی اذیںاذ پہنچاتے ہں ۔ اس
عذاب کی مدّت ہر مُزد کے حکم سے مقرر ہوتی ہے، لکنس بعض روحوں کو اپنے عزیزوں کی
دعاؤں اور شفاعتوں کے طفلو نجات حاصل ہوجاتی ہے۔ جب دناح کا خاتمہ قریب ہوگا تو ایک
پغمبر آکر دنای کو ظلم و شر سے پاک کرے گا
اور انسانوں کو راحت و مسرت کی ایک نئی زندگی بخشے گا۔ یہ ہے زروشتواں کی بہشت اور
ہر مُزد کی آسمانی بادشاہت۱؎۔
اس کے بعد ایک عالمگر حشر برپا ہوگا، جس
کی بدولت بچھڑے ہوئے رشتہ دار فوراً ہی نکوکں اور بدوں کی چھانٹ شروع ہوجائے گا وہ
نہایت ہبت ناک ہوگا۔ اہر من اضطراب و
پریشانی کے عالم مںو چنو اد کے پل پر دوڑتا پھرے گا۔ ایک پھڑکتا ہوا دُمدار ستارہ
زمنن پر گر کر اسے آگ لگادے گا۔ پہاڑ پگھلے ہوئے سسےر کی طرح بہنے لگںا گے۔ سارے
انسان بلا تمزے نک و بد اس آتشںپ سلاتب
مںا سے گزر کر پاک ہوجائںڑ گے۔یہاں تک کہ خود اہرمن دُھل دُھلا کر کچھ کا کچھ
ہوجائے گا اور دوزخ کی بھی ایک نئی صورت نکل آئے گی۔اس وقت سے بُرائی کاہمشہ کے لئے خاتمہ ہوجائے گا اور ساری نوعِ انسانی
ایک ناقابل بازن راحت و انبساط کی زندگی برسر کرے گا۔ یہ ہے خلاصہ آراء کا جنہوں
نے سامی افکار و خاولات پر اثر ڈالا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقہ۔ حاشہ صفحہ 317) کہ
ابتدائی زروشتی حشر اجساد پر اعتقاد رکھتے تھے۔زروستی مجوسی لاشو ں سے جو کراہت
کرتے تھے اس سے اس نتجےر کی تغلط نہں۔
ہوتی۔ یہ کراہت اغلباً نوی اثرات کا نتجہی تھی۔ ملاحظہ ہوآلجر صفحہ 138 روسول اکرم
صلی اللہ علہے وسلم کے زمانے مںی اہل عجم کو لاشوں سے جوکراہت تھی اس سے متعلق
ملاحظہ کجئےہ ڈالنجرجلد دوم صفحہ 409۔
۱؎ شہرستانی اس پغمبر کو اُشزغ ربکاح کے نام سے موسوم کرتا ہے۔
دیکھئے کبورٹن کا ایڈیشن صفحہ 188، لکن
مغزلی مصنفین کے قول کے مطابق اس کا نام سوشو؎ش تھا اور اس سے پہلے دو اور
پغمبرا وں کو آناتھا جن کے نام اوشدر ربامی اور اوشدآ رماہ تھے۔ (ڈولنگر۔
جلددوم۔صفحہ 401۔وساسی اسے لپشوتن کے نام سے موسو کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یسوع ناصری کے ظہور کے
وقت فینیقی اور آشوری رخصت ہوچکے تھے اور دنال پر یونان کے مقلدر وموگں کی حکومت
تھی۔ البتہ مشرق مںے مجوسی زرو شتت۔ کے احاا ء و عروج نے اسے پھلنےم سے روک رکھا
تھا۔ یہودی ہمشہد کے لئے اپنی آزادی و خود مختاری کھوبٹھےم تھے۔ داؤد کے تخت پر
ایک ذللل خوشامدی متمکن تھا۔ سلو قی یونانوا ں (The
Seleucldae)
سے ایک زیادہ بڑی قوت نے اس کی انتشار انگزمی کو مسخر کررکھا تھا۔ جسے جسے
یہودیوں پرترلہ بختی کے بادل چھا گئے، ویسے ویسے ہر اس قوم کی طرح جسے اپنے
ملک، اپنے مذہب اور اپنی شخصتا سے زبردست محبت ہوتی ہے وہ اس امدا کو اپنے سنورں
مںے راسخ تر کرتے چلے گئے کہ گداین (Gideon) یا مکاابسا (Maccabeus) کی قسم کا کوئی
مبعوث من اللہ مردِ کامل ان کی عظمت رفتہ کو واپس لے آئے گا او رانہںی اس کی توفقگ
بخشے گا کہ وہ اپنے مختلف و متعدد ایذا رسانوں پر غالب آئںب ۱؎۔ایک مسحاو کے ظہور کا
جو نقشہ ان کے تمام وطن پرست اہل نظر اور شعراء نے شوخ رنگوں مںل کھنچاچ تھا اس کا
پش منظر ایک مہتم بالشان آرزو تھی یینپ حکومت اسرائل؎ کا از سر نو قاشم۔ مشرق مںا
مجوسی زر وشتونں او رکلدانوےں کے زیر اثر اور مغرب مںو یونانی فلسفے کے دبستانوں
کے زیر اثر بعض بعض طبقوں مںہ (اور بالخصوص ان طبقوں مںش جنہںم ہر دوس (Herod) کی یونانت نوازی نے اسرائلا کے دامن سے علحدف ہ کردیاتھا)
ایک شخصی مسحال پراعتقاد مُبہم اور غرب واضح سا تھا، یا عوام الناس کے خا لات کی
محض ایک صدائے بازگشت تھا۔ لکنم جساپ کہ مل من،(Milman) نے نہایت عمدہ
پرجائے مںب کہا ہے،فلسطنو کے یہودیوں نے اس زمانے کے لگ بھگ مختلف عناصر سے ظہور
مسحاا کا تمام اشائء کی نشاۃ ثانہک کا،مُردو ں کے زندہ ہوجانے کا اور مسحاا کی
بادشاہی کے ساری دنا پر تسلّط کا ایک
شاندار اگرچہ قدرے دھندلا تصور وضع کرلاھ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
آلجر کا یہ مفروضہ صححو معلوم نہںو ہوتا کہ چونکہ یہودی ان (باقی حاشہت صفحہ 320
پر ملاحظہ فرمائںث)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کا اعتقاد تھا کہ یہ
سارے واقعات بکا وقت یافی الفوریکے بعد دیگر ے رونما ہوں گے۱؎۔ مسحاد نسل داؤد سے
ہوگا۔ وہ سارے قبلو ں کے منتشر افراد کو جمع کرے گا او ران کے سارے قابل نفرت غرا
ملکی دشمنوں کو تباہ کردے گا۔ مسحار کے زیر سایہ ایک حشر نوبرپا ہوگا، لکند اس مںں
صرف بنی اسرائلح کے نکع افراد دوبارہ اٹھائے جائںی گے۲؎۔ بے چنو اُمنگوں او
رمُبہم آرزوں کے اس ہنگامے مںی حاںت جاد دانی اور سعادت آئندہ کی اُمد یں ایک عجبن
و غریب طریقے سے خلط ملط ہوگئںو۔ مایوسی کی انتہا اور خارجی امداد کی پرُجوش
اُمد،یں عموماً لوگوں کے ذہنوں مںں اسی قسم کی کتا پدےاکا
کرتی ہںب۔ایک طبقہ ایک آسمانی بادشاہی کے خواب دیکھنے لگتا ہے جس مںن خدائی
اہتمام کے تحت امن وامان اور آئن و
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقہ۔ حاشہ صفحہ 319) قومی
مقاصد کی تکملک کی خاطر ایاائہ یا کسی او رنبی کے ظہور کے لے چشم براہ تھے، اس سے ہمںا یہ نتجہت اخذ کرلناط
چاہئے کہ و تناسخ کے قائل تھے۔
۱؎
Miiman,
Hist. of Christianity, vol,i.p. 76
۲؎ زروتشیتوں کے یہاں ایک آزادی دلانے والے اور
روئے زمنے پر مذہب اور امن و امان کو نئے سرے سے مسلّط کرنے والے کے بارے مںا جو
تصور ہے اور یہودیوں کے یہاں جو تصور مسحایئی ہے ان دونوں کی باہمی مشابہت حرنت
انگزر ہے۔ یہ امر یی ا ہے کہ یہودیوں نے
یہ تصور زوروشتوجں سے مستعار لاو اور اپنے مصائب و آلام کے دوران اس پر گہرے رنگوں
سے حاشہں آرائی کی، لکنم مر ا قومی قارس ہے کہ ایرانویں کے یہاں سوسوقش (Socuisch) کا جو خا ل تھا، اس
مںہ پغمبر ی کا کوئی مفہوم مضمر ہویا نہ
ہو، وہ ان کے اندر اس زمانے مںر پد ا ہوا جب ان کے کندھوں پر غلامی کا جوا تھا۔اگر
چہ یہ فصلہ کرنا مشکل ہے کہ یہ غلامی سامی
النسل اسوریوں کی تھی یایونانی مقددنولں کی۔ وہ ملک جس مں سوشوفش کا ظہور ہوناتھا، وساسی (De-Sacy) کے خابل مںش کسویہ
(Consoya) تھا۔ یہ دونوں علاقے ایران کے مشرق مںا واقع ہںہ جس سے یہ ثابت
ہوتا ہے کہ اپنے اوبار ونکبت کے زمانے مںt ایرانو ں کی نظریں
مشرق او ربالخصوص (The Lond of the Sun) پر جمی ہوئی
تھںع،جہاں سے انہںا دستگر ی و رستگاری کی اُمدو تھی۔
۔۔۔۔۔۔
قانون کادور دورہ ہوگا او
راس کے طفلخ اسے بہماونہ قوتوں کے پنجے سے رہائی نصبل ہوگی۔ دوسرے طبقے کے دل مںم
یہ امد ہوتی ہے کہ وہ غرگ ملکووں کافروں
کے خون کی بھنٹط چڑھا کر ایک آسمانی بادشاہت حاصل کرے گا۱؎۔
حضرت عیسیٰؑ کے ارشادات
کے بارے مںک جوروایات ہںت ان پر تخریج و انتخاب کا عمل اس شدت سے ہوا ہے کہ یہ
کہنا ناممکن ہے کہ ان مںہ سے کون کون سی ان کے اصلی الفاظ کو پشک کرتی ہںت او رکون
کون سی نہںس کرتں ۲؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
اس کی مثال عسا ئو ں کا وہ جدید لکنج غرا معروف فرقہ ہے،جو کہ سٹاڈ یلفین Chrisadelpiansکہلاتاہے۔
۲؎
مل من۔ Milman اقرار کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کے افعال و اقوال کے بارے مںخ جو
روایات عساےئی جماعتوں مںل رائج تھںں وہ کہںو دوسری صدی کے نصف اوّل کے اختتام پر
جاکر اپنی موجودہ صورت کے سانچے مںو ڈھال گئں ۔ (تاریخ عساشئتع۔جلد اوّل صفحہ 126)
اس سے ظاہر ہے کہ عسوےی
انجلو ں کے قدیم جامعنھ و مؤلّفین نے یامل منا کے الفاظ مںع متبدی اور سد ھے سادے
مورّخنر نے، روایات کے ردّ وقبول مں اپنی
ذاتی رائے سے کام لات ہوگا۔ ان کے فصلے یناؤ اٹکل پچّو او رمن مانے ہوں گے۔
اگر انہوں نے کسی واقعے
یا تحریر کو لب و لہجہ اور مضمون کے اعتبار سے اپنے خود ساختہ خاالات کے موافق
پایا تو ناقص خارجی شہادت کو بھی کافی دوانی سمجھا اور اگر نہ پایا تو مستند سے
مستند شہادت کو بھی غلط فہمی پرمبنی کہہ کر ردّ کردیا“۔ چنانچہ حضرت عیسیٰؑ کے
اقوال و افعال مںھ غرف شعوری طور پر ہی سہی، بہت سے اضافے ہوگئے او راس موضوع پر
سلس Scisus کی یہ شہادت کہ
عسایئی اپنی روائتوں مںض ایجاد وایزاد اور تصریف و تحریف کے عاری تھے،مبالغے کی
پوری پوری گنجائش چھوڑ کر فصلہس کن سمجھی جانی چاہئے او ریہ ان اصولوں پر مبنی ہے،
جو سرولم مورر Sir
willim Muir نے
اپنی کتاب سرات محمد صلی اللہ علہص وسلم (Life of Muhammad)
Canon iii,p.L xxxi مںا قائم کئے ہںن۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لکن۔ وہ بصورت موجودہ جی
م کچھ بھی ہںط اگر ہم انہںe قبول کرلں. او ران پر اسی طرح کی ناقدانہ نگاہ ڈالںو جیرں دوسری
مذہبی تحریروں پر ڈالی جاتی ہے(یینگ ان کے اصلی منشاء کونظر انداز نہ کریں،لکنس یہ
بھی نہ کریں کہ اندھا دھند اعتقاد رکھنے والوں کی طرح ان مںو مخفی ڈھونڈیں) تو ہم
دیکھتے ہںی کہ روائتوں کے اس سارے دفتر مںم ایک نئے نظام اشا ء یین آسمانی بادشاہت کے فوری صدو ر کا تخلد حضرت
عیسیٰؑ کے ذہن پر اس حد تک مستولی ہے کہ وہ باقی تمام خاملات کو پس پشت ڈال دیتا
ہے۔ ابن آدم کاظہور ہوچکا ہے۔خدا کی بادشاہت قریب آپہنچی ہے: یہ ہے ان تمام
تحریروں مںو ٹپ کا بند۱؎۔ یہ بادشاہت اس معاشرے
او راس حکومت کا نعم البدل تھی جوبنی ناصری کو اپنے سامنے موجود دکھائی دییخ تھی
اور جسے وہ بحد ناقص اور خراب پاتا تھا۔
کبھی کبھی اس نئے معلّم کے الفاظ سے اس کے حواری یہ نتجہ نکالتے تھے کہ وہ صرف غریبوں او ربھوکے ننگوں
کو شان و شوکت اور راحت و مسّرتی بخشنے کے لےی آیا ہے،یینح جس خدائی سلطنت کی وہ
اُمدک دلاتا ہے اس کے زیر سایہ صرف ییر لوگ سعادت و برکت او رغلبہ و اقتدار کے
مالک ہوں گے، کوکنکہ وہ خوف انگز الفاظ
مں امریوں اور شکم شرکو ں کی بابت غم و
انددہ کی پشگو ئا ں کرتاتھا۲؎۔دوسرے
مواقع پر خدا کی ولادت مسحاائے موعود کے ظہور کے بارے مں مکاشفوں کی لُغوی تعبرا معلوم ہوتی ہے۔ لکنل
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ خدا کی بادشاہت روحوں کی ایک اقلمل ہے اور آنے والی
نجات محض اس مادّی زندگی کے بندھنوں سے روحانی آزادی کا نام ہے۔ معلوم ہوتاہے کہ ایک
وقت ایسا تھا جب سارے تصّورات حضرت عیسیٰؑ کے ذہن مںا ایک ساتھ جمع تھے۳؎۔ بہر حال حکمران طبقے
کی تند خوئی اور تعصت پرستی اور عقاب رومی کی صولت و قوت کے پشی نظر کوئی معاشرتی
تغّرک خاال محال تھا۔جسے جسےح حالات کے
فوراً بہتر ہوجانے کی امد یں فوت ہوتی
گئںذ،ویسے ویسے ایک روشن تر مستقبل کی امدایں اورآرزوئںظ دلوں پر قبضہ جماتی گئں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ متی۔ب4۔17۔ب10،وغریہ
۲؎
لوقا۔ب7۔20 وتبعہ،۔
۳؎
Renan,
vie de Jesus,p.282
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عیسیٰؑ کا عندیہ یہ
تھا کہ موجودہ صورت حال زیادہ دیر تک قائم نہں
رہ سکتی او رانسان کی تخلقی نو کا وقت آپہنچا ہے۱؎۔ جب وہ نبفس نفسک،لباس
نورانی زیب تن کئے ہوئے،ایک تخت شاہانہ پر بٹھے
فرشتوں اورچد ہ چدوہ حواریوں کے حلقو ں مںا گھرے ہوئے آسمانو ں کے بادلوں
مںد جلوہ نما ہوں گے۲؎۔
مُردے اٹھ کر قبر وں سے
نکل آئںئ گے۳؎۔
او رمسحاٹ کرسی عدالت پر رونق افروز ہوگا۔ فرشتے ان کے فصلواں کو عملی جامہ پہنانے
مامور ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
متی۔ب۔18۔ اس مںہ شک کی کوئی گنجائش نہںش کہ حضرت عیسیٰؑ حشر احباد اور احاںت
اُخروی مںے جزا اور سزا کے معنتد تھے وہ ”سعادت مند“ لوگوں کا تذکرہ اکثریوں کاے
کرتے تھے کہ وہ ان کے خوان نعمت پر بٹھے
خوردو نوش مںی مصروف ہںا۔اگر چہ ابتدائی روایات مںا، جو ان کے چار بڑے
حواریوں سے منسوب ہںس، حاتت بعد الممات کے نقشے کاٹ چھانٹ کی بدولت بہت مختصر
ہںے،لکنح بعد کے راویوں نے جنت وجہنم کے ان ابتدائی خاکوں مںا خوب خوب رنگ بھرے او
رلطفی لے لے کر عجبو و غریب خایلی آرائاصں کںا، جنہںا مکاشفوں کے نام سے موسوم
کا جاتا ہے(ملاحظہ ہوRev,
xxI 8-21,xxI 11,12) جہاں تک زئل ہانکنے کا تعلق ہے،عسا ئی اہل روایت دوسرے مذاہب کے
اہل روایت سے پچھےر نہںر رہے۔ اریو 1س (Irenaeus) نے ایک روایت مںو
حضرت یوحنّا کی سند پر ِذیل کے الفاظ حضرت عیسیٰؑ کی طرف منسوب کئے ہںa: ”ایسے دن آئںک گے
جب انگور کی بیلیس ہوں گی، جن مںا سے ہر ایک کی دس ہزار شاخں ہوں گی، اور ان شاخوں مںر سے ہر شاخ کی دس ہزار
مزید شاخں ہوں گی اور ان شاخوں مں سے ہر ایک کے دس ہزار شاخچے ہوں گے اور ان
شاخچوں مںر سے ہر ایک مںخ انگور وں کے دس ہزار خوشے ہوں گے او رہر خوشے مںا دس
ہزار انگور ہوں گے، اور ہر انگور مںد سے دو سو پچھتر گلنم شراب نکلے گی اورجب ان
مقدس خوشوں مںو سے ایک خوشہ چنے گا تو ایک دوسرا خوشہ پکار اٹھے گا:”مں1 بہتر خوشہ
ہوں مجھے چن اور مریے اورپر خدا کی حمد و ثنا کر“۔ وغرا ہم۔
۲؎
متی۔ب29۔30۔31۔ب25۔31وتبعہ
۳؎ یوحنّا عارف کا مکاشفہ۔ب 20۔12۔13۔ ان عقائد
کامقابلہ زروشتی عقائد سے کجئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ برگزیدہ لوگوں کو ایک
نہایت عمدہ مسکن مںب، جو ابتدائے آفرینش سے تا ر کرکے رکھا گاس ہے،بھجے گا اور بدکارلوگوں کو دائمی آگ مںو جھونک دے گا،جو
شطا۔ن اوراس کے ساتھوکں کے لےہ جلا رکھی گئی ہے۱؎۔“ اور جس مںے جھونکے
جانے والے گریہ وزاری کان کریں گے اوراپنے اوپر غصے کے مارے دانت پیسا کریں
گے۔برگزیدہ لوگ، جن کی تعداد بہت تھوڑی ہوگی۲؎۔ ایک ایسے محل مںش رکھے
جائںں گے جو روشنورں سے بقعہ نور بنا ہوگا۔ وہاں انہں ضا فتں
دی جائںد گی، جن مں بنی اسرائلب کا
جّدِ امجد اور بزرگان و انبالء ۳؎
اور خود حضرت عیسیٰؑ شریک ہوں گے۴؎۔
اس نئی سلطنت کا قاتم جسے
حضرت عیسیٰؑ کے ظہور ثانی اور نوع انسانی کی رستخیز کے ساتھ ہی ساتھ رونما
ہوناتھا، زیادہ دور نہ تھا۔ یہ امر حضرت عیسیٰؑ کے اس اعلان سے ظاہر ہے جو انہوں
نے ایک مجمع کے سامنے کاح کہ خدا کی بادشاہت عنقریب قائم ہونے والی ہے، اور اس لےب
موجودہ زندگی کی مصروفتونں اور ضرورتوں کے لےں ساز و سامان مہاچ کرنا بالکل بے کار
ہے۵؎۔
اس وقت کے حالات نے جو
عام کتے ل دماغی پدما کررکھی تھی اس کی سان پر چڑھ کر حضرت عیسیٰؑ کے یہ الفاظ
تز نشتروں کی طرح ان کے حواریوں اور
شاگردوں کے دلوں مں کھُب گئے تھے۶؎۔ چنانچہ انہوں نے سلطنت
مسحی کی بابت بشارتوں کی لفظ بہ لفظ تعبرچ کا ایک ایسا واضح نقشہ امال تا ر کررکھا
تھا جس کی اس سے بہتر نظر عقائد انسانی کی
تاریخ مںک نایاب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
متی ب 25۔41
۲؎
لوقا۔ب13۔23
۳؎
متی8۔11۔لوقا12۔28،ب22۔30
۴؎
متی 16؎۔29
۵؎
متی۔10؎23،مرقس 13؎۔30۔لوقا۔ب13۔35،متی ب6۔25۔34۔ب8۔22
۶؎
اپنے ہم عصروں کے بارے مں حضرت عیسیٰؑ نے
جو تلخ الفاظ استعمال کئے وہ قابل ملاحظہ ہںک۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”اگر اولّنے عساےئو ں کے دلوں مں
کوئی عمق اور مستقل عقدےہ تھا تو
وہ یہ تھا کہ دنات اپنے اختتام کے قریب پہنچ رہی تھی اور مسحس کا مکاشفہ بہت جلد
واقع ہونے والا تھا۱؎“۔
جب عسوعی کلسا کی باقاعدہ تنظمع ہوگئی تو
اس وقت کہںھ جاکر حضرت عیسیٰؑ کے پراوؤں نے اپنے افکار و خایلات کو یہودی دنام کے
محدود اُفق کے باہر پھلاب یا اور ایک سلطنت معہور کے خوابوں سے مخّلی بالطّبع ہوکر
یونانی و رومی معاشرے مںح جذب ہوگئے اور اپنے مذہب کی قلمرو کولاتعداد وحشوبں اور
بربروں پر مسلّط کار، جو جنگلوں سے نئے نئے باہر آئے تھے اور جن کے لےع حضرت
عیسیٰؑ اور ان کی ماں دونوں ان کے اپنے دیوتااوڈن (Odin) او راس کی ماں فریا
(Freya) کے مماثل و مثنیٰ تھے، جن کی پرستش وہ اپنے قدیم مرزبوم مںد کان
کرتے تھے۔
لکنا وقتاً فوقتاً، جب
کبھی عسا ئی دناو مںe کوئی ہجا ن پدنا ہوا ہے یا اسے کوئی بڑی آفت پشت آئی ہے،ناصرہ کے
عظم پغمبر کے معجزانہ ظہور ثانی کی امدووں نے اس مںک ایک
ہنگامہ برپا کردیا ہے۔ لکنو خدا کی ولایت کا تصور مرور زمانہ اور فکر انسانی کی
ترقی کے زیر اثر یا تو ایک روحانی سانچے مںم ڈھل گاشہے یا با لکل معدوم ہوگار ہے۔
اگر کہںا وہ کسی حد تک باقی بھی ہے تو اس نے اپنے عقدکت مندوں کے ماحول کا رنگ
اختاقر کر لام ہے۔ یہودی،مجوسی، زردشتی،عساائی سب کے سب جسمانی رستخیز کے معتقد
تھے۔ ابتدائی موسویت (Mosaism) کے جو سدگھے سادے اور ناتر اشدہہ خادلات تھے ان کی جگہ کلدانی زر
وشتتک (Chaldaeo-Zoroastrianism) سے اخذ کئے ہوئے
زیادہ معنa خا لات نے لے لی تھی۔ ہم جانتے ہںا کہ ایرانوجں کے یہاں قدیم
کوہستانی طرز پرستش اور ابتدائی معلّموں کی سددھی سادی تعلمی کوننکر جادوگران بابل
کے کرشموں کی بدولت جزاو سزا کے ایک پدہ ہ
نظام مںم تبدیل ہوگئی، اور کلدانی فلسفہ کومنکر مجوسی زر دشتتد کے بطون مںہ سرایت
کرگال۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
Renan,
vie de Jesus,p.287
Comparc also Milaman's
History of Christianity vol,i,p. 378
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتدائی عساHئتf نے جو مسح7 کی مادّی
بادشاہی کے فوری قاوم پر مبنی تھی، کلدانی،مجوسی زروشتی اور اسکندریائی منبعوں
سے،جنہوں نے پُرانے خاکلات کویکسر بدل ڈالا تھا، خاتلات اخذ کئے۔
یہودی،عسایئی،زردشتی سب کے دلوں مںن یی
توقع تھی کہ آئندہ زندگی مںا انہں
مادّی جزائںع اور سزائںا دی جائںا گی۔
عساںئوںں کے یہاں
کلساائتی کا پھلاد یا ہوا یہ خاکل کسی زمانے مںی عام تھا کہ پغمبر اسلام صلی اللہ علہغ وسلم کے نزدیک عورتں روح سے معّراہوتی ہںن، لکنں اب یہ خاال غالباً
رفع دفع ہوچکا ہے۔ یہ ایک بہتان تھا جو اسلام سے نفرت پداا کرنے کی خاطر باندھا
گا تھا۔ پھر بھی یہ خالل ابھی تک قائم ہے
کہ رسول عربی صلی اللہ علہی وسلم نے اپنے پرہوؤں سے حسّی لذّات کی ایک جنّت اور
عشم و عشرت کے مختلف مدارج کا وعدہ کات۔ یہ خاال بھی پہلے خا ل کی طرح جہالت اور
تعصّب کا نتجہ ہے۔اس مںہ شک نہںر کہ
درمادنی دور کی سورتوں مںا جب کہ معلّم اسلام نے ابھی شعور دییا کا درجہ کمال حاصل
نہ کاحتھا اور جب کہ اس بات کی ضرورت تھی کہ عقبیٰ اور جزا و سزا کے تصّورات کو
ایسے الفاظ کا جامہ پہنچا یا جائے جو سدنھے سادے بادیہ نشنوکں کی سمجھ مںح
آسکںا،جنّت و جہنّم کے واقعّیت نما نقشے،جو زردشتواں،صابوزں اور تلمودی یہودیوں کی
پاور ہوا قااس آرائورں پر مبنی تھے،پڑھنے والے کی توجہ کو ضمنی حاشہا آرائوعں کے
طور پر اپنی طرف کھنچتےا ہںص۔ لکنو ان کے فوراً بعد قرآن کا جو ہر خالص آتا ہے۔
یینا کمال عجز و محبت سے خدا کی عبادت حوریں زروشتی ن ژاد ہںی۔ اس طرح جنت ۱؎ بھی زردشیم الاصل ہے۔
البتہ جہنم عذاب اب الم۔ کے مقان کی حتد
سے ایک تلمودی تخلق ہے۔ ان کے جو
منظر کھنچےھ گئے ہںا وہ مبنی بر واقعتی ہںا، بلکہ بعض بعض جگہ مبنی برحسّیت بھی
ہںد۔لکنک یہ کہنا کہ ان مںے حسّ ِ پرستی ہے یا یہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علہر وسلم
یا ان کے متبن م مں سے ظاہر پسند سے ظاہر
پسند نے بھی کبھی انہںّ حسِّ پرستی کے مظاہرے سمجھ کر قبول کات ایک افترا ہے۔ وہ
شراب ”جو بدمست نہںے کرتی“۔ اور وہ حوریں جو ”قریب نہںر آتںض“ لذّات حسّی کی
علامتںد کو نکر ہوسکتی ہںہ ۱؎؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
فارسی مںت ”فردوس“ Paradise
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام مںت آئندہ زندگی کا
جو نمایاں ترین تصور ہے وہ اس عقدبے پرمبنی ہے کہ عقبیٰ مںا ہر انسان کو ان اعمال
کا حساب دینا ہوگا جو اس نے اپنی ارضی زندگی مںے کئے او راسے جو خوشی یا رنج نصبے
ہوگا وہ اس پر منحصر ہوگاکہ اس نے اپنے خالق کے احکام کی بجا آوری کہاں تک کی۔ بہر
کفع خدا کی رحمت و شفقت بے پایاں ہے اور اس کے ہر بندے کے شامل حال ہوگی، یہ سب وہ
محور جس پر اسلام کا نظریہ معاد گردش کرتا ہے اور ییر ایک عقدہہ ہے جس کا تقاضا اس
سلسلے مںم ہر مسلمان سے کا جاتا ہے۔باقی
جتنی باتںا ہںپ وہ ضمنی ہںر اور مختلف قوموں اورقبلوفں کی عام روائتوں سے مستعار
لے کر اس عقدکے کے ساتھ جوڑدی گئی ہںو۔ آرزو کی جزا وسزا اور حارت بعد الممات سے
متعلق تمام خاولات مںد جو داخلی عنصر ہوتا ہے اسے نظر اندازکر کے ہمںے یاد رکھنا
چاہئے کہ یہ خایلات و ہ قوی ترین آلہ ہںت جسے دنا
کے تمام معلّمین اخلاق نے افراد و اقوام کی سرظت و کردار کو متاثر کرنے کی
خاطر استعمال کام، لکنک اگرچہ ہر مذہب مںی مواخذہ عقبیٰ کا اصول کسی نہ کسی حد تک
ضرور پایا جاتا ہے۔پھر بھی اسلام کے سوا تمام مذاہب اوس کا امر کا ادراک کرے سے
قاصر رہے ہں کہ اس اصول کو عوام الناس کے
تزکہق اخلاق کے ایک مستقل وسلےض کے طور پر استعمال کای جاسکتا ہے۔ ایی نیے جو
مقصود بالذّات ہو، یینر محض نیہے کرنے کی خاطر کی جائے، ایک ایین چزہ ہے جو صرف
اعلیٰ اطبائع کی سمجھ مںا آسکتی ہے۔عام طبائع کے لئے اور خصوصاً ایسے لوگو ں کے
لئے جو تعلمن سے بے بہرہ ہں ، جزاؤں اور سزاؤں کا ایک مکمل ضابطہ یینک تکلفو
شرعی،لازمی ہے۔
ٓآئےن اب ہم ان جزاؤں اور سزاؤ ں کی ماہتا پر غور کریں۔ اس سلسلے
مںں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ انسانوں کی عام اکثریت کے ذہنو ں تک روحانی مسرت یا
روحانی اذّیت کا خاال اس وقت تک منتقل نہںا کات جاسکتا جب تک مسّرت و اذّیت کو
جیمں جاگتی شخصتوم ں کی طرف منسوب اور اشالئے محسوس کی صورت مںن متشکل نہ کای
جائے۔فلسفہ صدیوں سے ایسے مجّرد الفا ظ وقتاً فوقتاً رائج ہوئے ہںھ او ر مختلف
مدّتوں تک رائج رہ کر متردک ہوگئے ہں ۔ فلسفاینہ خاال آرائوکں کی مبہم دناک مںے
رہنے والے چند لوگوں کے حلقے سے باہر ان کا کوئی اثرمحسوس نہںں کار گائاور ان کے
غائب ہوجانے کے بعد ان کاکوئی نشان باقی نہںک رہا۔
حضرت محمد صلی اللہ
علہ وسلم کا روئے سخن صرف چند عالی دماغ
مفکّرین کی طرف نہ تھا جو اس زمانے مں
اتفاقاً موجود تھے،بلکہ ارد گرد کی وسع
دناا کی طرف،جو ہر طرح کے مادّی مسائل و مشاغل مںہ منہمک تھی۔ انہںن اس کی
ضرورت پشک آئی کہ ایسا اسلوب بادن اختاکر کریں جو عام فہم ہو، بھوکے ننگے کندہ
ناتر اش عرب بدوی کے لئے پاک و صاف پانی یا دودھ یا شہد کی نہروں سے بڑھ کر کون سی
چزادل لبھانے والی یا اس کے تصور جنت سے مطابقت رکھنے والی ہوسکی تھی؟ پھلو ں سے
لدے ہوئے درختوں،ہرے بھرے سبزہ زاروں اور زرخزر زمنوسں سے بڑھ کر اسے کون سی چزت
پسند آسکتی تھی؟ ان حسّی لذّتوں کے بغرپ راحت و مسّرت کا کوئی تصور مطلقاً اس کے
ذہن مںز نہ آسکتا تھا۔ مسلم اہل الرّائے کا ایک طبقہ،جس کے سرخلک سنائی اور غزالی
ہںع۔ ان حسّی علامتوں کا یہ جواز پش کرتا
ہے کہ مادّی عشر و عشرت کو ایک قابل اداک صورت مںز مجسّم کرنے کے لےا درختوں،نہروں
اور پریزادوں سے بھرے ہوئے شاندار محلّوں کے جو نقشے کھنچےو گئے ہںہ ان کے پردے
مں عمقو ترمعانی ہںب اور سب راحتوں سے بڑی
راحت جو جنتویں کو نصبل ہوگی وہ دیدار الہٰی کی سعادت ہوگی جب وہ پردہ انسان اور
اس کا خالق کے درماشن حائل ہے پاک ہوجائے گا اورروح حواس خمسہ کی حدود سے باہر نکل
کر جلوہئ باری کو اپنے رو بروپائے گی۔ اس استدلال کی تائدس نصوص قرآنی سے بھی ہوتی
ہے، شام خدا کا چہرہ (یینم اس کا جلوہ) دیکھے گا۔ یہ ایک اییے راحت ہوگی جو تمام
لذّات جسمانی سے اسی طرح بڑی ہوگی جس طرح سمندر پنے س کی ایک بوند سے بڑا ہے“۔
ایک دن حضرت ابوہریرہ ؓ
صحابی سے گفتگو کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علہم وسلم نے فرمایا:۔۔۔ ”خدا نے اپنے نکر
بندوں کے لےم اییے چزویں تا،ر کر رکھی ہں ، جینی نہ آنکھوں نے دیںھت ،نہ کانوں نے
سُنںپ، نہ دلوں نے محسوس کںع۔“ یہ فرماکر آپ صلی اللہ علہے وسلم نے ذیل کی آیت
قرآنی پڑھی۔
”اور کوئی شخص سنںی جانتا کہ اس کے لئے آنکھوں کی کی س ٹھنڈک چھپا
کر رکھی گئی ہے۔ یہ ان اعمال کا صلہ ہے جو وہ کرتے تھے۱؎۔ (السجدہ۔17)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
نکو۔کتاب 23ما 8۔فصل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور روایت ۱؎ کے مطابق رسول اکرم صلی
اللہ علہی وسلم نے ارشاد کاک کہ نکو لوگوں کو دیدار حق نصبہ ہوگا اور اس کی تائدد
مںھ ذیل کی آیت قرآنی کا حوالہ دیا:
”اللہ تمہںو دارالسلام کی طرف دعوت دے رہا ہے۔۔۔ جن لوگوں نے نیہی
کاطریقہ اختایر کاھ ان کے لئے بھلائی ہے اور مزید برآں اور بھی۲؎۔(یونس۔25۔26)
جہاں تک الفاظ قرآنی کے
تمثلا ہونے کا تعلق ہے،اس مسلک خاول کے دعوے کی بناکد قرآن کی یہ عبارت ہے۔”وہی ہے
جس نے تم پر یہ کتاب نازل کی ہے، جس مںو دوطرح کی آیات ہںو، ایک محکمات، جو کتاب
کی اصل بناعد ہںر، اور دوسری متشابہات۔“(آل عمران۔7)
ایک اور ادرکروہ عقبیٰ کی
خوشوآں اور غموں کو کا ملاً داخلی سمجھتا ہے۔ اس کا خانل ہے کہ جسےہ انتہائی ذہنی
تکلف“ جسمانی تکلف سے کہں زیادہ عذاب وہ ہوتی ہے اسی طرح اعلیٰ ترین قسم
کی ذہنی مسّرت ہر قسم کی حسّی لذّت سے زیادہ راحت بخش ہوتی ہے۔ چونکہ جسمانی موت
کے بعد انفرادی روح قرآن کے الفاظ مں۔ روح کل کی طرف عود کرجاتی ہے، اس لےی معلّم
اسلام نے عوام النّاس کو حققت حال سمجھانے
کی خاطر جن خوشو ں او رغموں کے نقشے شوخ رنگوں مں
پشح کئے ہںف وہ سب خوشا،ں اور غم ذہنی و داخلی ہوں گے۔ اس گروہ مںج اسلامی
دناش کے چند سب سے بڑے حکماء و صوفانء داخل ہں ۔
لکن ایک اور جماعت، جو غالباً اس گروہ سے بڑی ہے،
یہ عقد ہ رکھتی ہے کہ قرآن نے جنت و جہنم کے جو کوائف باون کئے ہں وہ مجاز آہو بہو پشف آئں گے۔
ہم ان مختلف مذاہب خاشل
کا محامکہ کئے بغرس اسی پر اکتفادہ کریں گے کہ عقییٰ کی جزا وسزا کے بارے مںف
ہمارا جو ذاتی عقدخہ ہے اسے باءن کردیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ روایت از شعب
۲؎ ملاحظہ کجئےل زمخشری(کشاف) مصری ایڈیشن۔حصہ
اوّل۔صفحہ 244، زمخشری مختلف اکابر دیاںفت او رمکاتب دیاشےت کے سرے حاصل حوالے
دیتا ہے او رمشبہ اور جبریہ کے عقائد کا خاص طور پر تذکرہ کرتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرآن کے غائر مطالعے سے
معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ شعور مذہبی کے جن مختلف ارتقائی مدارج سے گذرے حضرت
محمد صلی اللہ علہی وسلم کو بھی وہی مدارج پشع آئے۔حضرت محمد صلی اللہ علہش وسلم
اور حضرت عیسیٰؑ دناے کے دو ایسے معلّمین ہںی جوکے ایک خاص تارییک اہمتک رکھتے ہںی
لہٰذا ہم ان کا مطالعہ ایک ساتھ کریں گے۔حضرت عیسیٰؑ کے مذہبی ارتقاء کے دوران ان
کے انداز فکر مںا جو عظم تغرہ ہواوہ نہ
صرف آسمانی بادشاہت کے اس مثالی تصور سے ظاہر ہے جو انہوں نے اپنی ارضی زندگی کے
اخر مںو پشن کار بلکہ اسرائودی ں کی بابت
ان کے لہجے مںس جو تبدیی ہوئی اس سے بھی
اس تغرح کاپتہ چلتا ہے۔ ابتداًء ان کی تبلغا صرف اسرائوؑہ ں تک محدود تھی۱؎۔ لکنہ جب ان کے مذہبی
شعور ے نشو ونما پائی تو ان کی ہمدردیوں مںئ بعتس پد ا ہوگئی ۲؎۔
ییگ حضرت محمد صلی اللہ
علہی وسلم کے مذہبی ارتقاء کا حال ہے۔ قرآن کے جن سوروں مںو جنت کے مرصّع نقشے
کھنچےل گئے ہںا عام اس سے کہ وہ نقشے مجازی تھے یا معنوی اور سب سورے کلّی یا جزئی
طور پر مکّے مں نازل ہوئے۔ اس موضوع پر جو
روائتںن اس زمانے مںن عام تھںے۔ ممکن ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علہ وسلم اپنے شعور مذہبی کے اوائل مںق ان مںر سے
چند ایک کو مانتے تھے لکنن جب ان کی روح کامل بدےاری آگئی اور خالق کائنات کے ساتھ
ان کا رابطہ زیادہ گہرا ہوگاس تو ان کے وہ خا لات جو پہلے مادّیت کا پہلو لے ہوئے تھے سراسر روحانی ہوگئے۔ ان کی ذہنی نشو
ونما صرف مردرِ زمانہ اور ان کے شعور مذہبی کے ارتقاء کے دوش بدوش بلکہ ان کے
متبعنک نے روحانی تصوّرات کے سمجھنے مںک جو ترقی کی اس کے قدم بقدم بھی ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ متی،ب10۔5، متی ب25۔22۔26
۲؎
متی۔ب 28۔19 وغروہ۔مطالعہ کجئے :
Strauss, New Life of
Jesus(1865),vol. I. P. 296, et seq
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چنانچہ بعد کے سوروں مں)
روحانی پہلو مادّی پر اور روح جسم پر غالب نظر آتی ہے۔سرسبز شاداب باغ جنہںا نہریں
سر اب کرتی ہںج، دائمی چھاؤں ۱؎،
آسودہ حالی اور امن و امان،یہ سب چزہیں جو ایک بے آب و گا ہ او ربے سایہ ریگستان
کے سدابھوکے پا سے رہنے والوں کے لئے جن کی زندگی اپنے ساتھ اوراپنے ماحول کے ساتھ
ایک مسلسل جنگ تھی، غرہ مترقبہ نعمتںب تھںن، اب بھی مرقع کے بناندی نقش و نگار ہںہ
لکنن اہل جنت کو جو خوشی نصبھ ہوگی وہ خدا کی بارگاہ مںہ سکون و انباقن اور باہمی
اُلفت و مودّت کی صورت مںن دکھائی گئی ہے۔ قرآن کہتا ہے:۔
”لکنر وہ لوگ جو متقی ہںج باغوں مںں رہںق گے جہاں چشمے بہتے ہونگے
ان سے کہا جائے گا، ان مں سلامتی کے ساتھ
بے خوف و خطر داخل ہوجاؤ، ان کے سنونں مں
جو کدورتںں ہوں گی وہ سب نکال دی جائںگ گی اور وہ آپس مں، بھائی بھائی بن
کر ایک دوسرے کے روبرو تختوں پربٹھت گے نہ انہں
وہاں کسی قسم کی کلُفت ہوگی، نہ کوئی انہںو وہاں سے نکالے گا۔“ (الحجر
45تا48)
ذیل کی عبارت، جو حاگت
دنام اور حانت عقبیٰ کے بارے مں رسول اکرم
صلی اللہ علہب وسلم کے آخری پغارم سے مقتبس ہے اور جو ان کے عقدہے کابہترین خلاصہ
ہے، اس موضوع پر تخلت او رمحاکات مںن اس سے بہتر کون سی عبارت ہوسکتی ہے؟
”وہ اللہ ہی ہے جو تم کو خشکی اور تری مںن چلاتا ہے۔چنانچہ کشتو ں
مں؟ سوار ہوکر باوموافق کے آسرے خوش خوش سفر کرتے ہو۔یکایک باد مخالف کے جھونکے
آتے ہںن اور ہر طرف سے موجوں کے تھپڑھے لگنے لگتے ہںی۔مساور سمجھ لتےن ہں کہ وہ طوفان مںا گھر گئے۔ اس وقت سب اپنی بندگی
کو صرف اللہ کے لئے مخصوص کر کے اس سے دعائںس مانگتے ہںے کہ ’اگر تو ہمںس اس آفت
سے بچالے تو ہم ترںے شکر گذار ہوں گے، لکنگ جب اللہ ان کوبچالتا ہے تو اسی وقت وہ لوگ روئے زمن پر شرارتںگ کرنے لگتے ہںف۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
قرآن۔ انفال۔34۔سورہ محمد صلی اللہ علہز وسلم۔16۔17۔ سورہ توبہ یونس اورسورہ
ابراہمط سے بھی مقابلہ کجئےا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگو! تمہاری شرارتں تمہی پر پڑتی ہںر۔ یہ دناچ کے چند روز ہ مزے ہں
، لوٹ لو۔ آخرکار تمہںا ہماری لوٹ کر آنا ہے۔ اس وقت ہم تمہںع بتادیں گے کہ تم کا۔
کچھ کرتے رہے ہو۔ دنای کی زندگی کی تووہی مثال ہے جسےچ ہم نے آسمان سے پانی برسایا
تو زمنں کی پدماوار،جسے آدمی اور جانور سب کھاتے ہںو، خوب گھنی ہوگئی۔پھر عن۔ اس
وقت جب زمنر بناؤ سنگار کر کے اپنی پوری بہار پر تھی او راس کے مالک اپنے زعم مںے
یہ خا ل کررہے تھے کہ وہ اس پر قادر ہںا یکایک رات کو یا دن کو ہمارا حکم آگاگ او
رہم نے سب کچھ یوں کاٹ کر ڈھرن کردیا جسے
کل وہاں کوئی بستی یا کھیہں نہ تھی۔ یوں ہم کھلی نشاناںں دکھاتے ہں۔ ان
لوگوں کو جو سوچ سمجھ رکھتے ہںا۔ اللہ تمہںم دارالسلام کی طرف دعوت دے رہا ہے او
روہ جسے چاہتا ہے سدسھا راستہ دکھاتا ہے۱؎۔ جو لوگ نی ہ کرتے ہںں ان کے لئے بھلائی
ہے اور مزید برآں او ربھی۔ ان کے چہرو ں پر ساوہی اور رُسوائی نہ چھائے گی۔ یہ لوگ
جنتی ہںق او رہمشہل جنت مںگ رہںو گے۔ لکنس جن لوگوں نے برُائا ں کمائںر وہ اپنی
برُائورں کے برابر بدلہ پائںم گے۲؎۔
انہںو رسوائی نصبپ ہوگی،کوتنکہ انہںں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔ ان کے
چہروں پر ایی ساوہی چھائی ہوگی کہ جسےے ہم
نے تاریی کا ایک ٹکڑا لے کر ان کے منہ پر
ڈال دیا ہو۔“ (یونس۔21تا27)
ذیل کی عبارت سے زیادہ
لولہ ذوق و شوق کس عبارت مںم پایا جاسکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
بضا۔دی یھدی من یشا ء کا مطلب لتاھ ہے۔”وہ لوگ جو تائب ہوتے ہںر“ نز ملاحظہ کجئےک زمخشری کی کشاف“
۲؎
ملاحظہ طلب بات یہ ہے کہ نییا کا اجر عمل کی مقدار تک محدود نہ ہوگا بلکہ اس سے
زیادہ ہوگا۔ اس کے برخلاف بدی کا بدلہ صرف اتنا ہی ملے گا جتنی بدی کی مقدار ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”وہ لوگ جو اللہ کا اقرار پورا کرتے ہںد، اس سے کئے ہوئے پمالن کو
نہں توڑتے، اس کے مقّرر کئے ہوئے رابطوں
کو قائم رکھتے ہںا، وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈرتے ہں۔ اوراس بات کا خوف رکھتے ہںد کہ
کہں ان سے برُی طرح حساب نہ لا جائے، وہ لوگ جو اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کے
لے صبر سے کام لتے۔ ہںب، نماز قائم کرتے
ہںہ، ہمارے دیئے ہوئے رزق مںل سے کھلے طور پر اور چھپے طور پر بھی خرچ کرتے ہںا
برُائی کامقابلہ بھلائی سے کرتے ہں ۔ یہ ہںک وہ لوگ جن کے لےہ عاقبت کاگھر ہے،یینن
ایسے باغ جو ان کی ابدی قاہم گاہ ہوں گے۔ وہ خو دبھی ان مںب داخل ہوں گے او ران کے
آباواجداد او ران کے بو۔ی بچوں مںف سے جوجو صالح ہںس وہ بھی ان کے ساتھ وہاں جائںی
گے۔فرشتے ہر دروازے سے ان کے استقبال کو آئںہ گے۔ یہ کہتے ہوئے کہ ’سلامتی ہوتم
پر، تم نے دنا مںو جو صبر کا یہ عقبیٰ کا گر اسی کا صلہ ہے۱؎۔“
(الرّعد۔20۔21۔22۔23۔24)
ہم نے جو کچھ اوپر باون
کا وہ اس نظرئےئ کے ابطال کے لے کافی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علہ“ وسلم نے
حاہت معاد کے جو مرقعّے پشت کئے وہ سراپا حسّی ہں ۔ ہم اس باب کو قرآن کی اسی عبارت
پر ختم کرتے ہںی جس سے اس کا آغاز کای گا ۔ اس عبارت سے اسلام کی عمقآ روحانتہ اور
ان امدعوں او راُمنگوں کی پاکزرگی جن پر اس نے اپنے اُسوہ حا ت کی بنا رکھی،ظاہر
ہے:
”اے نفس مطمئنہ،اپنے رب کی طرف لوٹ چل: تو اس سے اور وہ تجھ سے
راضی۔پھر مریے بندوں مں: شامل اور مرہی جنت مںح داخل ہوجا۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
اس ساری عبارت کا مقابلہ زمخشری (کشاف) سے کجئےر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Related Article:
URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-28/d/124889
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism