سید امیر علی
(قسط 27)
26 مئی 2021
قل لمن مافی السموات
والارض قل للہ کتب علی نفسہ الرحمۃ
”کہو آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے؟ کہو اللہ کا ہے۔
اس نے رحمت اپنے اوپر لازم کر رکھی ہے۔“(الانعام۔12)
قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ
مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ
أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ
وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ
وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ ۖ
نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ
وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ
ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ
يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۖ
وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ
لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ
وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۖ
وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ۚ
ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (سورۃ الانعام آیت ۱۵۱، ۱۵۲) اردو
ترجمہ صفحہ291پر ملاحظہ ہو۔
مذہب کی سچی روح برقرار
رکھنے کی خاطر قرآن حکیم کی تصریحات کی روشنی میں حضرت محمدؐ نے چند بنیادی فرائض
کی نشان دہی کی، جن میں سب سے اہم یہ ہیں:(1) نماز (2)روزہ (3) زکوٰۃ اور(4) حج۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان کے اندر ایک ارفع و
اعلیٰ او ر ہمہ گیر قوت کا جو شعور ہے، فطرت کے ساتھ دائمی جنگ لڑنے میں اسے اپنی
بے بسی کا جو احساس ہے، خدا کے احسانوں کا اس کے دل میں جو اعتراف ہے، ان سب کا
تقاضا یہ یہ ہے کہ وہ اپنے سینے میں اُمنڈتے ہوئے جذبات کوایک ہمیشہ بیدار او
رمہربان ہستی کے حضور شکر گزاری،محبت،پشیمانی اور التجا کے الفاظ کی صورت میں
انڈیل دے۔ جسارت اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ وہ ان جذبات کا اظہار ہے جن سے انسان
کا دل لبری ہے، لیکن یہ تمام جذبات انسانی ارتقا ء کے ایک اعلیٰ مرحلے کی پیداوار
ہیں۔ وحشیوں کا تو یہ عالم ہے کہ اگر منّت و سماجت سے ان کی مقصد برآری نہ ہو تو وہ
اپنے معبود بتوں کی نکوہش و سرزنش پر اتر آتے ہیں، بہر حال ہر اس مذہبی نظام نے جس
میں ذرا سا بھی نامیاتی عنصر پایا جاتاہے عبادت کی تاثر اور رسائی کوکسی نہ کسی
صورت میں تسلیم کیا ہے۔ لیکن زیادہ تر مذاہب میں اعجازی اوصاف اخلاقی اوصاف پر
غالب ہیں، بلکہ بعض میں تو اخلاق کا خیال ہی سرے سے مفقود ہے۔
ہندوؤں کی ابتدائی پوجا
دوقسم کی کارروائیوں پر مشتمل تھی۔ یعنی ایک تو نذر ونیاز اور قربانی اور دوسرے
دعا و استمداد۔فکر مذہبی کی طفولیت میں دیوتاؤں کے بارے میں یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ
ان میں وہی شہو ات و جذبات ہوتے ہیں جو انسانوں میں پائے جاتے ہیں۔چنانچہ اگر ایک
طرف انسان مادّی منفعتوں کا محتاج ہوتا ہے تو دوسری طرف دیوتاؤں کو رضا جو یانہ
صدقوں اور چڑھاؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس عقیدہ کا اظہار بار بار لوگ وید کے حمدیہ
ترانوں او ربھجنوں میں کیا گیا ہے۔ جب مذہبی تصوّرات کی نشو و نما ہوئی تو قیاس
غالب ہے کہ کم از کم نسبتہً ترقی یافتہ اور صاحب فکر لوگوں کے نزدیک نذر ونیاز اور
قربانیوں کے مفہوم میں بڑی حد تک ترمیم ہوگئی ہوگی۔لیکن جیسے جیسے پروہتوں کا فرقہ
جو اس کا مدعی تھا جس میں چند مخفی اوصاف ہیں جو صرف وراثتہً منتقل ہوسکے ہیں،عوام
النّاس کے دلوں پر اپنی گرفت مضبوط کر تا چلا گیا، ویسے ویسے برہمنّیت ایک ایسے
مسلک کی معین شکل اختیار کرتی گئی جس کا بنیادی رکن قربانی کے مجاز صرف پنڈت تھے
او راس کے لیے نہایت سخت گیر اور ناقابل تبدیل قاعدے مقّرر کئے گئے تھے۔ ادھر پنڈت
منتر پڑھتا جاتا تھا اور کسی قسم کے مذہبی احساس یاجذبے کے بغیر لگے بندھے طریقے
سے مقررہ رسوم ادا کرتا چلا جاتا تھا اور اُدھر تپسّیا کرنے والا ایک بے حِس و
حرکت بُت کی طرح پاس کھڑا یا بیٹھا اس پوجا کا تماشا دیکھتا رہتا تھا جواس کی طرف
سے ایک اور شخص ادا کررہا تھا۔ اگر کہیں پوجا پاٹ کے منتروں یا رتیوں میں ذرا سی
بھی بھول چوک ہوگئی تو ساری پوجا بیکار ہوجاتی تھی۔بہر حال قیاس چاہتا ہے کہ مذہبی
عقیدت سر ے سے ناپیدنہ تھی، ورنہ یہ ممکن نہ تھا کہ بھگوت گیتا وجود میں آتی حقیقت
حال جو کچھ بھی ہو، عوام النّاس کے لیے عبادت محض چڑھاووں او ر بلدانوں کا ایک
گورکھ دھندا بن کر رہ گئی تھی،جس کا انحصار اتنا عبادت کرنے والے کے انفرادی
اخلاقی کردار پرنہ تھا جتنا پنڈت کے گیان دان پر تھا۔عبادت کرنے والے کے لیے صرف
اتنا ضروری تھا کہ ریتوں اور رنیموں پر اعتماد رکھے اور دھرم کے نقطہ نگاہ سے
پوتّر ہو۔
مجوسی زرتشتی اور صابی
عبادت گزاری کی فضا میں زندگی بسر کرتے تھے۔ زرتشتی چھینک آنے پر،ناخن یا بال
کٹواتے وقت،کھانا پکاتے وقت چراغ جلاتے وقت،غرض دن رات کے ہر موقع پر، کوئی نہ
کوئی وظیفہ پڑھا کرتے تھے۔ پہلے تو ہُر مزد سے مناجات کی جاتی تھی، اس کے بعد
آسمان،زمین،عناصر ار بعہ،ستارے بلکہ درخت (اور بالخصوص سوم۱؎ کا درخت) اور چرندے
پرندے بھی دعاؤں کے مخاطب بنائے جاتے تھے۔ بعض بعض وظیفے تو ایسے تھے کہ ان کا ورد
بارہ بارہ سو مرتبہ کرنا پڑتا تھا۲؎۔
اخلاق کا خیال،چاہے گنتی کے چند لوگوں کے یہاں کتنا ہی منزہ کیوں نہ ہو،عوام النّاس
کے ذہنوں سے بالکل خارج ہوگیا ہوگا۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ غیر معمولی نفوس کوبھی جو
روحانی زندگی نصیب تھی وہ بھی مذہبی پیشواؤں کی بلا شرکت غیر سے ملکت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ سنسکرت بولنے والی قومیں اسے سوم کہتی تھیں اور
ژند بولنے والی قومیں ہوم یا ہومہ
۲؎
The
Gentile and the Jew, vol. i, p. 308 dollinger
ژندادستاخر وایسی
دناؤں،حمد یہ زانوں،مناجاتوں وغیرہ کا ایک گنجینہ ہے جس کا روئے سخن متعددخداؤں سے
ہے جن میں ہر مزد اوّل درجے پر ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ دعاؤں کا ایک محموعہ ہے
ملاحظہ کیجئے:۔
Clarke, Ten Great
Religions, pp.187,207
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خصوصی تقدس کی جو دیوار
مذہبی منصب داروں کو عوام سے جدا کرتی تھی اس کی بدولت مؤخر الذ کر اعلیٰ درجے کی
تمام روحانی تمتعات سے محروم رہ جاتے تھے ا ور اوفیچیوں The
Ophici کی
طرح مجوسیوں کے یہاں عبادت کے دو طریقے تھے، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ معبود ہستیوں
کے فہم کے دو طریقے تھے ایک مخفی،جو مذہبی منصب داروں کے لیے مخصوص تھا،
دوسراعوامی جس میں عوالنّاس بھی شریک ہوسکتے تھے۱؎۔
قانون موسوی میں دعا کے
معاملے میں کوئی احکام نہ تھے۔اگر مناجات اور حمد و ثناکے کوئی قاعدہ مقرر تھے تو
صرف مذہبی منصب داروں کو کمائی کاایک عشردینے کے بارے میں پہلو ٹھی کے بچے کی پیش
گزاری کے متعلق خانگی رسوم مقرر تھیں ان
کے بارے میں۔مؤخر الذ کر موقع پر باپ اپنے بچے کو قانون کے احکام کے مطابق پیش
کرنے کے اجر کے طور پر یہوہ سے بنی اسرائیل کے حق میں اس رحمت و برکت کا طالب ہوتا
تھا جس کا عہد یہوہ نے ان کے آباد اجداد سے کیا تھا۲؎۔ لیکن جبن رفتہ رفتہ
عوام اور معلمین دونوں کے ذہنوں میں خداکا نسبتہً زیادہ روحانی تصور پیدا ہوگیا
اور جسمانی تشبہیت۔ (Anthropomorphism) کی شدت میں کمی
آگئی تو لوگوں کو سمجھ میں آنے لگاکہ عبادت فی الحقیقت خدا او ر انسان کے درمیان
راہ ورسم کا ایک طریقہ ہے۔قانون موسوی میں عبادت سے متعلق قواعد و ضوابط کی جو کمی
تھی وہ روایت اور رواج نے پوری کردی۔ چنانچہ ڈولنگر۳؎ کے قول کے مطابق یہودی
ایک عبادت گزار قوم بن گئے۔روزانہ تین گھنٹے (یعنی نواں، باھواں، اورتیسرا گھنٹہ)
مذہبی اور دواعمال کے لیے وقف تھے،لیکن ایک طرف تو پروہتوں کی ضرورت اور دوسری طرف
شارع کی کسی مثبت عملی مثال کی غیر موجودگی، ان دونوں نے یکجا ہوکر عبادت کولوگوں
کی اکثریت میں محض ایک میکانکی عمل بنادیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎Reland,
Dissertationes Miscellance, Part 1, p. 191. Shaharistani
۲؎ Deuteronomy xxvi-12-15
۳؎ ڈولنگر جلددوم۔صفحہ 372
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عیسیٰ کے عہد مںe یہودیوں کے یہاں
چمڑے کے جزدان رکھنے کا طریقہ رائج تھا، جن مںا توراۃ وزبور کی عبادتںی کاغذ کے
پرزوں پر نقل کرکے رکھی جاتی تھںم اور جنہںa یہودی عبادت کے وقت
ماتھے اور بائں بازو پر باندھ لا، کرتے
تھے۔ ان جزدانوں کی خرید و فروخت کی جاتی تھی۔چنانچہ قرآن یہودیوں کو خدا کی آیات
بچنے پر سخت الفاظ مںط لعن طعن کرتا ہے۔۱؎۔
حضرت عیسیٰ کی تعلما.ت
سے، جو انسان کی مذہبی نشو ونماکے ایک بعد کے مرحلے کی نمائندگی کرتی ہںگ،عبادت کا
صححت مفہوم پشی کرتی ہں۔۔ انہوں نے ذاتی مثال۲؎ قائم کرکے عبادت اور
شکر گزاری پربہت زور دیا۳؎۔لکنو
عوام کی ہدایت کے لےم کسی متعنہ قاعدے کے نہ ہونے کے معنی یہ تھے کہ مذہبی، اعمال
ووظائف کے معاملے مں وہ بالکل آزاد چھوڑ دیئے
گئے۔چنانچہ وہ پادریوں کے تابع فرمان ہوگئے،جنہوں نے عبادات کی تعداد،طول او
راصطلاحات کے تقّررکو اپنا اجارہئ مخصوص بنا رکھا تھا مقّرر ہ دعاؤں کے مجموعے
رسوم عبادت کے ضابطے اور عقائد و ایمانایت کی تنیا کی خاطر متعدد کلسا ئی کو نسلںک او رمجالس
مذاکرہ یہ سب اسی صورت حال کا نتجہت تھے، اسی کے مظہر ہںا وہ وظفےے جنہںی راہب ایک
بھنھناتی ہوئی آواز مںک اور ایک مکاانکی طور پرپڑھا کرتے ہںا اور ہفتے بھر مںا ایک
دن گرجاؤں مں وہ عبادتوں جو گویا ہفتے کے
باقی دنوں کے روحانی قانون کی کسر نکالنے کے لےآ کی جاتی ہںا۔ نزی اسی کی پدتاوار
ہے وہ پریسبیٹر Presbyter جو شروع شروع مںو تو محض ایک خادم ۴؎ ہوتا تھا لکنک رفتہ
رفتہ اپنے آپ کو حضرت عیسیٰؑ کے ترکہ روحانی کا مالک دوارث سمجھنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ سورۃالبقرہ۔41
۲؎لُوتا
9۔1تا4
۳؎
مثلاً Mosheim, vol. i, 99 et seq
۴؎
ملاحظہ کجئےo۔Eph. vi, 18,Col.1.12 et Seq
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتویں صدی عسو.ی مںq، جب رسولؐعربی نے
ایک اصلاح یافتہ مذہب کی تبلغ شروع کی،یہ
خراباوں اپنے نقطہئ عروج تک پہنچ چکی تھںہ۔ نماز کا قاعدہ رائج کر کے حضرت محمد
صلی اللہ علہی وسلم نے اس امرکا اعتراف کای کہ انسان کے دل مںص خدا کے حضور اپنی
محبت او رممنونتs کااظہار کرنے کی بتاےب تمنّا ہوتی ہے۔ نماز کے اوقات کے تعّین کا
اعلان کر کے آپؐ نے عبادت کے عمل پر وہ نظم وضبط عائد کردیا۱؎۔جو انسان کے خاغلات کو
مادی دناh مںہ ہر زہ گروی کرتے رہنے سے باز رکھتا ہے۔آپؐ نے اپنی سنّت و
مثال کے ذریعے جو قاعدے قائم کردیئے انہوں نے ایک طرف تو اسلامی دناh کو عبادت کے اعمال و
وظائف کے بارے مںک مباحثہ و مناظرہ کی خرابونں سے بچایا اور دوسری طرف افراد کے
لےے اس امر کی پوری پوری گنجائش چھوڑ دی کہ قادرمطلق کی بارگاہ مںظ خضوع و خشوع کے
ساتھ سربسجود ہوں۔
تہذیب اخلاق اور تنزیہ
قلوب کے ایک وسلے کی حت ن سے نماز جو قدر وقمت رکھتی ہے وہ قرآن مںل صراحت کے ساتھ باحن کی
گئی ہے:۔
”تلاوت کرو اس کتاب کی جو تم پر وحی کے ذریعے اتاری گئی ہے اور
نماز قائم رکھو ینا نماز فحش او ربُرے
کاموں سے روکتی ہے اوراللہ کی یاد سب سے بڑی چزو ہے۔“(العنکبوت۔45)
جن مناجاتی اور ادواذ کار
پر رسول اکرمؐ کی سنت نے قہر تقدس ثبت کردی ہے ان کی خوبصورتی قرآنی تعلماکت کے
اخلاقی عنصر کی خوبصورتی کی آئنہ دار ہے۔
اے مراے ربّ اپنے ذکر
اپنے شکر اور اپنی بہتر ین عبادت مںی مرای مدد فرما،
اللھم انی ظلمت نفسی خلما کثرنا ولایغفرالذنوب الا انت فاغفرلی مغفو
ۃ من عنک و رحمی انک انت الغفور الّرحمے۔
اے اللہ مں نے اپنے نفس پر ظلم کاک بڑا ظلم اورگناہوں کو
سوائے تروے کوئی نہںو بخشتا، تو مجھ کو بخش دے،خاص طور پر بخش دے او رمجھ پر رحم
کر۔ تو بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎Oelsner,
Des Effets de la Religion de Mohammed, p.6
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللھم انی اسئا لک الثبات
فی الاسروالعزیۃا علی الرّشد واسئالکَ شکر نعمتک وحسن عبادتک و اسئا لکَ
قلباًسلماج د لسا ناً صادقاً واسئا لک من خر۔ ماتعلم مھر اعوذبک من شر ماتعلم و
استغفرک لما تعلم۔
اے اللہ مں تجھ سے دین مںا ثابت قدمی چاہتا ہوں اور تجھ سے
ہدایت پانے کا قصہ رکھتا ہوں اور تجھ سے تروی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفقم اور
حسن عبادت طلب کرتا ہوں او رمانگتاہوں تجھ سے قلب سلمm اور سچی زبان،اور
چاہتا ہوں تجھ سے وہ بھلائی جس کو تو جانتا ہے او ر پناہ مانگتا ہوں اس بڑائی سے
جو تجھ کومعلوم ہے او رمعافی چاہتا ہوں ان گناہوں سے جن کو تو جانتا ہے۔
(مشکوٰۃ۔کتاب4؎،باب 18۔فصل اوّل،دوم و سوم)
ایک اور روائتی دعا، جو
دعائے داؤدی کے نام سے مشہو رہے،حسب ذیل ہے۔
”اے مولا، مجھے اس کی توفقے عطا کر کہ مںے تجھ سے محبت کروں اور ان
سے محبت کروں جو تجھ سے محبت کرتے ہںہ۔ مجھے اس کی توفقن عطا کر کہ مںی ایسے کام
کروں جو تجھے محبوب مںو اور ترای محبت کو اپنی ذات، اہل و عابل او رمال ودولت کی
محبت سے زیادہ بش بہا سمجھو۱؎۔“
ذیل کی دو مناجاتںح،جو
حضرت علیؓ سے منسوب ہں ۲؎، اعلیٰ ترین جذبہ
عبودیت کی مظہر ہںک:۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ تفسرل جلالی
۲؎ یہ دو مناجاتںج سدد امر علی نے حضرت علیؓ سے
منسوب کی ہںل لکنو ”صحفہ کا ملہ“ کا حوالہ
دیاہے، جو حضرت علیؓ کی نہں بلکہ حضرت علی
بن حسن۔ زین العابدین کی دعاؤں کا مجموعہ ہے۔ ان کی عبادات سدل امر علی نے صحفہ
کاملہ کے کسی مخصوص حصے سے نہںو لںے بلکہ مختلف مقامات سے اقتباسات لے کر
انہںا دو عبادتوں کے رشتے مںض پرودیا ہے۔ مںت نے اسی کی عبارتوں کا ترجمہ پشہ کاا
ہے۔(مترجم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”شکر ہے اللہ کاجو قابل عبادت ہے اور جس کے سواکوئی عبادت کاسزا
دار نہں ،مرںا مولیٰ ازلی،ابدی،پروردگار، حقیقہ حاکم، جس کی رحمت و قدرت ساری
موجودات کومحط ہے، دنااکا کارساز اور
کائنات کی روشنی ہے۔ہم اس کی عبادت کرتے ہںک۔ سب عبادت اسی کے لےک ہے۔ وہ سب چزروں
سے پہلے موجود تھا اور اس وقت بھی زندہ رہے گا جب سب چزویں فنا ہوچکی ہوں گی۔توہی
معبود ہے مرجے مولا، تو ہی آقا ہے، محبت کرنے والا اور بخشنے والا، تو جسے چاہتا
ہے ملاقت و قوت عطا فرماتا ہے،جسے تو بلندی بخشے اسے کوئی گرانہںی سکتا،جسے تو
گرائے اسے کوئی اٹھا نہںر سکتا۔تو مرلے آقا،ازلی ہے، خالق کل ہے۔ دانائے کل ہے،
حاکم بزرگ ہے۔تررا علم ہر چزر کا عالم ہے،ترتا عطا و احسان ہر چزا کر حاوی ہے،
تراا عفوو رحم ہر کسی کے شامل ہے۔ اے مر ے
مولا تو مصبتل زدوں کا مددگار ہے، رنج وغم کا دُور کرنے والا ہے، شکستہ دلوں کو
تسکنس دینے والا ہے، تو اپنے بندوں کی مدد کے لےے ہر جگہ موجود ہے۔ تو سب بھدحوں
کا جاننے والا اور سب خاکلوں کابوجھنے والا ہے اور ہر انجمن مںج حاضر ہے۔ تو ہماری
سب حاجتوں کا پورا کرنے ولااور سب نعمتوں کا بخشنے والا ہے۔ تو سب غریبوں اور
محروموں کا رفقا ہے، مروے مولا تو مرےا حصار عافتے ہے۔تو ان سب کا حصنِ حصنا ہے جو
ترمی مدد مانگتے ہںب۔ تو کمزور وں کا آسرا ہے، سب صدق وصفا والوں کا مددگار ہے۔ اے
مرلے مولا تو مراا پشت پناہ ہے مربا مددگار ہے اور ان سب کا مدد گار ہے جو تجھ سے
مدد مانگتے ہںا۔ اے مربے مولیٰ،تو خالق ہے، تو محض مخلوق ہوں،تو مرتا آقا ہے اور
مںہ تو محض تردا ایک بندہ ہوں، تو مدد دینے والا ہے، مںو مدد مانگنے والا۔ تو اے
مرمے مولا، مررا ملجا و ماویٰ ہے، تو بخشنے والا ہے، مں گنہگار ہوں۔ترےے علم اور تردے محبت کاطلبگار
ہوں۔ اے مر،ے مولیٰ،اپنا سارا علم، اپنی ساری محبت اور اپنی مساوی رحمت مجھ پر
ارزانی فرما، مرخے گناہوں کو بخش دے اے مررے مولیٰ۔“
”اے مربے مولیٰ تو سبحان ہے، قدیم ہے، حاضر و ناظر ہے، حیّ وقوّ م
ہے،ہمشہا قریب ہے، عالم کُل ہے،تو ہر دل مںے، ہر روح مں ، جتاا جاگتا موجود
ہے،ترواعلم ہرنفس مںٰ سرایت کئے ہوئے ہے“۔۔۔”اس سے کوئی مشابہ نہںا، اس کاکوئی
ہمسر نہںی، وہ واحد ہے،قدیم ہے۔ شکر اس مولیٰ کا جس کارحم ہرگناہ گار کے شامل حال
ہے، جو ان کویینب روزی بہم پہنچا تاہے جو اس کے منکر ہں ۔ اوّل بھی اسی کا ہے آخر
بھی اسی کا،تمام علم اسی کو ہے اور وہ دلوں کے پوشدرہ ترین رازوں کو جانتا ہے۔ اسے
کبھی نندج نہںا آتی، وہ ہمشہت بد ار رہتاہے اور ہمشہ انصاف کرتا ہے۔ وہ اپنے رحم کی بدولت بڑے بڑے
گناہوں کو معاف کردیتا ہے،اسے اپنی ساری مخلوق سے محبت ہے۔ مںی گواہی دیتا ہوں
اپنے آقا کی نیآخ کی اس کے نبی کے پغالم کی صداقت پر صلی اللہ علہ والٰہ و اصحابہٰ۔“
ایک انگریز مصنف
کہتاہے:”اسلام کا ایک طرہّ امتا زیہ ہے کہ اس کی مقرر کی ہوئی عبادت صرف ہاتھوں سے
بنائی ہوئی عمارتوں ہی مںم نہں بلکہ خداکی
زمنر پر اور اس کے آسمان کے نچےس کسی جگہ ادا کی جاسکتی ہے۱؎“ ہر وہ جگہ جہاں قادر
مطلق کی باایمان پر ستش کی جائے ایک سا تقدس رکھتی ہے۔ مسلمان چاہے کہںر بھی ہو،
سفر مںل یا حضر مںم،جب نماز کا وقت آتا ہے تو وہ چند مختصر لکنر ذوق و شوق سے بھرے
ہوئے مناجاتی کلمات مں۔ اپنی روح کو بے نقاب کرکے خدا کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ اس کی
نماز اتنی لمبی نہںر ہوتی کہ اس کی طبعتک اُکتا جائے، اور اس کی دعاؤں کا موضوع
ہمشہ انکسار نفس،خدائے منعم ومحسن کی حمد
ثنا اور ان کے رحم و کرم پر اظہار اعتماد ہوتا ہے۲؎۔دین محمدیؐ مںس روح
عبودیت کی جو تب وتاب پائی جاتی ہے اس کی شدت کا پورا پورا احساس عساائی دنا نے نہںے کاخ۔ روائت، جو ماضی کی صداقت شعار
وفائع نگار ہے اور جس کی تصدیق سنکڑ وں تائدعی شہادتوں کے ذریعے ہوتی ہے، باان
کرتی ہے کہ کس طرح نبی صلی اللہ علہم وسلم نماز کے دوران فرطِ جذبہ سے زاروقطار
رویا کرتے تھے اور کس طرح آپؐ کے شریف النّفس چچرےے بھائی اور داماد عبادت مںر
اتنے منہمک ہو جایا کرتے تھے کہ ان کابدن سنّ ہوجایا کرتاتھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
Hungter,
Our Indian Musulmans, p. 179
۲؎
البقرہ۔220۔239 و غر,ہ۔الاعراف۔204۔205۔ بنی اسرائلن۔79۔حج۔130۔روم۔16،17 وغر ہ
وغراہ۔نزر ملاحظہ ہو ”کتاب المستطرف“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد صلی اللہ علہ وسلم کا اسلام پشہا ور مذہبی لوگوں کے کسی طبقے
کو تسلم۔ نہںم کرتا او رعبد و معبو د کے درماھن روحانی علم یا خصوصی تقّدس کی کسی
قسم کی اجارہ داری کوحائل نہںغ ہونے دیتا۔ ہر روح کسی
کشیش،رُبّی،موبد،ملّا،پادری،پنڈت، پروہت یا کسی او رمذہبی وکلج کی وساطت کے بغرس
اپنے پدما کرنے والے کی طرف صعود کرتی ہے۔ ایک مضطرب دل کو اس تسکنی دینے والی
ہستی کے حضور مںو جانے کے لے ذاتی مفادات
کے مدعوو ں کی ایجاد کروہ قربانو ں اور رسموں کی کوئی ضرورت نہں، ۱؎۔ ہر انسان آپ اپنا وکلڈ
وشفعک ہے۔ محمد صلی اللہ علہذ وسلم کے اسلام مںے کوئی ایک شخص ایک انسان کی
حترب سے کسی دوسرے شخص سے اونچا درجہ نہںے
رکھتا۔
یورپ کے عقلی مفکرین نے
اسلامی عبادات پر پدص سہ او رشکل ہونے کاالزام لگایا ہے، لکن1 حققتی یہ ہے کہ قرآن
کا مقرر کال ہوا ضابطہ رسوم سادگی اور اعتدال کے اعتبار سے حررت انگزی ہے۔ اس
مں لازمی اعمال ایمانی شامل ہں ۔ یینت کلمات،ایمانی
کا پڑھنا، نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج،لکنو اعمال کے بارے مںا اس نے کوئی لگے بندھے
قاعدے مقررنہںو کئے۔ ”نماز قائم کرو، ظہر کی نماز بھی، اور خدا کے حضور توجہّ قلب
سے حاضر ہو۔“ (البقرہ۔238) صبر اور تقویٰ سے مدد طلب کرو، یناد اللہ صابروں کاساتھ دیتا ہے“۔
”جب تم روئے زمنک پر سفر کررہے ہو، اگر تمہںق اس بات کاخدشہ ہوکہ
کفّار تم پر حملہ آور ہوجائںں گے تو تمہارے لے
ناز قضاکرنے مںا کوئی گناہ نہںا۔ خدا ہر چزک کو معاف کردیتا ہے سوائے اس کے
کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے۔“
بہر حال بنی اکرم ؐ کی
سنّت نے ادائے نماز کے ساتھ چند آداب و قواعد کو و ابستہ کردیا ہے لکنں ساتھ ہی
ساتھ صریح او رناقابل اشتباہ الفاظ مں۔ یہ باںن کردیا گار ہے کہ روحوں کی ٹوہ
رکھنے والا اصل مںب جن چزو کو دیکھتا ہے وہ دل کی کت عبودیت ہے۔”نہ قربانی کے جانوروں کاگوشت،نہ
ان کا خون اللہ کو پہنچتا ہے، بلکہ صرف تمہارا تقویٰ۲؎“۔ (الحج۔37)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
حج کے موقع پر جو قربانی دی جاتی ہے وہ محض ایک یادگاری رسم ہے۔
۲؎ الدُّروالغُررنی المحاضرات۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”نی۔۔ یہ نہںا ہے کہ تم نے اپنے منہ مشرق کی طرف موڑ لےک یا مغرب
کی طرف، بلکہ نیہ یہ ہے کہ آدمی اللہ پر،
روز آخرت پر، فرشتوں پر اور اللہ کی کتاب پرایمان لائے اور اللہ کی محبت مںی اپنا
مال رشتہ داروں، یمول ں، محتاجوں، مسافروں اور مانگنے والوں کو دے او رغلاموں کی
رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ وہ لوگ جوکوئی عہد کرتے ہںی تو اسے
پورا دکھاتے ہںا اور جو سختی ومصبتا کے وقت او ر جنگ و جدل کے زمانے مںز صبر کرتے
ہںح، یہ ہںن وہ لوگ جو سچے ہںت۔“ (البقرہ۔177)
قرآن نے علی الاعلان کہہ
دیا کہ حضور قلب کے بغرد نماز بے سود ہے اور اس امر کی تاکدر کی کہ اللہ کا
کلام،جس کاروئے سخن صرف ایک قوم کی طرف نہںں بلکہ ساری نوع انسانی کی طرف تھا،
اییے کتام مں۔ پڑھایا جانا چاہئے کہ جس
مںم دل اور زبان کے درمائن مکمل ہم آہنگی ہو۔ حضرت علیؓ کا ارشاد ہے کہ اییت نماز
جو پڑھی جانے والی آیتوں کامطلب سمجھے بغری ادا کی جائے بے فائدہ ہوتی ہے اور ثواب
کی مستحق نہںر ہوتی۱؎۔
امام غزالی ؒ کا فتویٰ ہے کہ کلام مقدّس کی تلاوت مںپ دل اور دماغ کو باہمی تعاون
کرنا چاہئے۔ ہونٹ صرف الفاظ کو ادا کرتے ہںا، دماغ ان کے معانی سمجھنے مںے ممد
ہوتا ہے اور دل احکام شریعت کی بجاآوری مں
مدد دیتا ہے۲؎۔
رسول اکرمؐ کی حدیث ہے کہ
خدا کو کسی آدمی کی عبادت کا نہ چھٹا نہ دسواں حصہ قبول ہے،بلکہ اتنا ہی حصہ جو وہ
سمجھ کے ساتھ اور صحح بندگی و سپردگی کے
ساتھ خدا کے حضور پشّ کرے۳؎۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱لدّروالغررفی
المحاضرات
۲؎The
Kitab-Ul-Mustatraf, Chap.i
۳؎ ابن جبل، روایت از اابوداؤد نسائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دین عسو ی مں
بپستمے کی جو رسم ہے اور مصر یوں، یہودیوں اور مشرق ومغرب کے بے کتاب مذاہب
کے مخفی رسوم کی صدارت کرنے والے پروہتوں کے یہاں مذہبی اور عبادتی اعمال و وظائف
شروع کرنے سے پہلے ریاضت یا قربانی کے ذریعے تطہرا کاجو تقاضا کاک جاتا تھا ان سے
ظاہر ہے کہ ظاہری طہارت کے ساتھ کساu خاص تقّدس وابستہ کا جاتا تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علہق وسلم نے
اپنی ذاتی مثال کے ذریعے اس قدیم اور مفدا قاعدے کو وجوب بخشا۔آپؐ کے صفائی و
پاکزرگی کو عبادت الہٰی کی ایک لازمی تمہدم قرار دیا۱؎۔لکنث ساتھ ہی ساتھ
آپؐنے بھی خاص طور پر واضح کردیاکہ صححف تقویٰ محض ظاہری یا جسمانی پاکزکگی مںہ
مضمر نہں بلکہ ضروری ہے کہ انسان خدا کی
بارگاہ مںے نفس کی پاکزیگی اور عاجزی کے ساتھ حاضر ہوا۔ امام غزالیؒ ان لوگوں کی
تردید مںل جو ظاہری صفائی و پاکی کا تو خامل رکھتے ہں لکنک جن کے دلوں مںہ نخوست دریا بھری ہوتی ہے
نالتحضّیص کہتے ہںت کہ رسولؐخدا نے سب سے اہم پاکزاگی اس کو قرار دیا کہ دل کو
تمام قابل تشینع خواہشوں اور رغبتوں سے اور دماغ کو تمام فاسد افکار سے اور ایسے
خا لات سے جو اللہ کی طرف سے توجہ ہٹاتے ہںو پاک کای جائے۲؎۔
اسلامی دنای مں اسلام کے مولد کی یاد زندہ رکھنے کی خاطر حضرت
محمدصلی اللہ علہن وسلم نے قرآن کی روشنی مں
یہ ہدایت کی کہ نماز ادا کرتے وقت مسلمانوں کو اپنا منہ مکّے کی طرف کرلناہ
چاہئے،کو نکہ مکّہ وہ مطلع انوار ہے جہاں سے حق کی نشاۃنو کی پہلی کرنںر پھوٹںن۔
انسانوں کی طبع شناسی کا جو ملکہ انہںک ایک پغمبر
کی حتکو سے عطا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ المائدہ۔5۔6۔ قرآن اک ہمہ گرغ دستور حتح،ک سے
وضو کا تذکرہ کرتاہے لکنک جہاں پانی دستا ب نہ ہوں وہاں وہ صفائی کے کسی ایک
وسلے کی اجازت دیتا ہے۔ بہرحال وہ آداب
وضو کی مکمل تفصلاکت کہں بھی باین نہںہ کرتا۔
چنانچہ سبت نبوی کی بناپروضو یا طہارت کا جو طریقہ ہے اس کے بارے مںا علمائے دیا
وت کے درمالن اختلاف رائے ہے او راس موضوع پر بہت بحث و مباحثہ ہوا ہے۔
۲؎
کتاب المستطرف۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوا تھا اس کی بدولت آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے اندازہ لگا لیا کہ اگر ایک ایسا مرکزی مقام مقرر کردیا جائے
جو قرنہا بعد قرن آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروؤں کے مذہبی جذبات کا مرجع رہے تو
یہ اُمّت کا استحکام و جمعیت پیدا کرنے کے معاملے میں کتناموثر عامل ثابت ہوگا۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ دنیائے اسلام میں ہر جگہ مسلمان قبلہ
رو ہوکر نماز پڑھا کریں ۱؎۔
مکہ مسلمانوں کے لیے وہی
حیثیت رکھتا ہے جو یہودیوں کے لئے یروشلم رکھتا ہے۔ مکّے سے ان کے جو تعلقات صدیوں
سے چلے آرہے ہیں انہوں نے اسے ان پر ایک خاص اثر و نفوذ بخش دیا ہے۔ یہ مقام ان کے
مذہب کا گہوارہ تھا جہاں ان کے نبی نے اپنا بچپن گزارا۔ اس کا خیال آتے ہی مسلمان
کے دل میں پرانے مذہبوں او راس کے نئے مذہب کی باہمی جنگ،بتوں کی تختہ براندازی
اور خدائے واحد کی پرستاری کے قیام کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ ان سب چیزوں سے بھی
بڑی بات تو یہ ہے کہ ایک واحد قبیلے کا ہونامسلمانوں کو یہ امر یاد دلاتا ہے کہ
ساری دنیا میں اس کے برادران ملّت ایک ہی مرکز کو طرف منہ کر کئے ہوئے مصروف عبادت
ہیں اور وہ مومنوں کی ایک عظیم جماعت کا ایک فرد ہے جو ایک ہی مذہب کے رشتہئ وحدت
میں منسلک ہے،جس کے سینے میں ایک ہی قسم کی اُمیدیں اور آرزوئیں ہیں، جو ایک ہی طرح
کی چیزوں کا احترام کرتی ہے اور ایک ہی خدا کی عبادت گزار ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ
علیہ وسلم نے حرم کعبہ کے تقدس کو برقرار رکھ کر اس کا امر کا ثبوت دیا کہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم انسان کے مذہبی جذبات کے کتنے بڑے نبض شناس تھے۲؎۔“لیکن ساتھ ہی یہ
امربھی قرآن کی ان عبارات سے جن کے اقتباس ہم اوپر پیش کر آئے ہیں ظاہر ہے کہ محض
قبلے کی طرف منہ کرناہی عبادت الہٰی کے لوازمات میں سے نہیں ہے۳؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ البقرہ 2؎۔139۔144وغیرہ ہم۔
۲؎
Stanley
Lane-Poole, Interodction to the Selections from the Koran, LXXXV
۳؎ قرآن کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے، لیس البران
(باقی حاشیہ 184پرملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزہ داری کا رواج
تقریباً تمام قوموں میں رہاہے لیکن عمومی طور پر یہ کہا جاسکتاہے کہ دنیائے قدیم
میں اس سے بلااستثنا پرہیزگاری و تقویٰ کی بہ نسبت توبہ و استغفار کا خیال زیادہ
متعلق تھا۔ جہاں تک کہ یہودیت میں بھی تعذیب نفس اور انکار نفس کی ایک ریاضت کے
طورپر روزہ داری کا خیال قران اُخریٰ کی پیداوار ہے۔ اسینیوں،(Essenians) کو فیشا غور ثیوں
سے اور ان کے ذریعے نسبتہً زیادہ مشرقی سمت میں واقع ممالک کی مرتاضیت و رہبانیت
سے جو واسطہ پڑا، اس کی بدولت وہ یہودیوں میں پہلے لوت تھے جنہوں نے اصول روزہ
داری کے اس اخلاقی پہلو کا ادراک کیا، اور قیاس غالب ہے کہ حضرت عیسیٰؑ نے بہت سے
دوسرے تصورات کی طرح یہ تصور بھی انہی سے اخذ کیا ہوگا۔
حضرت عیسیٰ کی ذاتی مثال
نے کلیسا کی نظروں میں روزہ داری کی مشق کو تقّد بخش دیا۔ تا ہم روزے کی عمومی
حیثیت کے بارے میں جو خیال کلیسا میں زیادہ تر مسلم ہے وہ توبہ کفّارہ کا خیال ہے۱؎ اور صرف ایک جُزئی حد
تک اتباع سنت۲؎
کا بالارا وہ جسمانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 282) تولو ا وجوھکم قبل المشرق والمغرب والکن
المبرمن امن باللہ والیوم الاخروا والملئکتہ والحکتٰب والنبیین۔۔۔ البقرہ 77
۱؎
Mosheim,
voi. i, p. 131
موشیم بالوضاحت کہتا ہے کہ روزے کے بارے میں ابتداء ہی یہ خیال پیدا ہوگیا تھا کہ
وہ ارواحِ خبثیہ کی قوت کی روک تھام او ران کی تدبیر وں کی شکست کا اور خدا کے غیظ
و غضب کو رفع کرنے کا موثرترین وسیلہ ہے۔Vol. i, p. 398
۲؎ نئینڈر Neanderکہتاہے
کہ عیسائیوں کی ہفتہ وار اور ماہوار تقریبوں کا منبع بھی یہی بنیادی خیال ہے۔۔۔۔
یعنی صلیب پر چڑھائے ہوئے او راس کے بعد دوبارہ زندہ ہوکر قبر سے اٹھے ہوئے مسیح
کی تقلید کا خیال۔“ وہ مزید کہتا ہے۔“ عیسائیوں کے یہاں،جواپنے اجتماعی فریضے کو
ایک جنگ،ایک جہاد مسیحی Militia Christ کے نام سے پکارا کرتے تھے، ایسے روزوں کا اور ان سے متعلق عبادتوں
کا نام Statione (مقامات) تھا، (باقی
حاشیہ صفحہ285 پر ملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود آزاری دوسرے مذہب کی
طرح عیسوی کلیسا میں بھی بہ کثرت رائج ہے،لیکن اس خود آزاری کا نتیجہ ہمیشہ قوائے
ذہنی و جسمانی کی تباہی اور ایک غیر صحت مندترک دنیاہوا ہے۔ اس کے برعکس اسلام میں
روزے کا جو مقصد ہے وہ یہ واجب مقصد ہے کہ روزانہ ایک معین و محدود مدت کے دوران
حواس کی تسکین سے اجتناب کرکے جذبات و شہوات پر قابو پایا جائے اور فاضل حیوانی
جوش کی طغیانی جوش کی طغیانی کو صحت مند طریقوں سے بہ نکلنے کاموقع دیا جائے۔ بے
سود اور غیر ضروری جسمانی اذّیت نہ صرف ممنوع بلکہ مذموم قرار دی گئی ہے۔ تندرست
اور تنو مند لوگوں پر روزہ اس مقصد سے فرض کیاگیا ہے کہ وہ جسم پر پابندیاں عائد
کرکے روح کی تربیت کریں۔ کمزوروں کو،بیماروں کو، مساروں کو،طالب علموں کو (جو
تحصیل علم میں مشغول ہوں،جسے جہاد اکبر کہا گیا ہے) ان سپاہیوں کو جو دشمنان دین
سے برسر جہاد ہوں۔ اور ان عورتوں کو جن پرنسوانی معذوریاں عائد ہو۔۔۔ ان سب کو
روزے کی ممانعت ہے۔ جن لوگوں کو یونانیوں،رومیوں، ایرانیوں اور زمانہ جاہلیت کے
عربوں کی بسیار خوری اور لذائذ و مقاصد میں بے اعتدالیاں یاد ہیں،وہ اس تعدیلی
ضابطہ بندی کی قدر و قیمت کا اعتراف کریں گے اور اس کی داد دیں گے کہ یہ انسان اور
بالخصوص نیم مہذب انسان کے جیسی میلانات کی روک تھام کے لیے کس حیرت انگیز طور پر
مفید ہے۔
قرآ ن نے اس بارے میں جو
حکم دیا ہے ذرا اس کی دانشمندی پرغور کیجئے اے ایمان والوں تم پر روزے فرض کئے
گئے۔۔۔۔ تاکہ تم میں تقویٰ کی صفت پیداہو۔ یہ چندمقرر دنوں کے روزے رکھ کر کسر
پوری کرلے، اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (لیکن روزہ نہ رکھیں) وہ کسی
مسکین کو کھانا کھلاکر اس کافدیہ دیں۔۔۔ لیکن اگر تم ٹھیک سے سمجھو تو تمہارے لیے
بہتر یہی ہے کہ روزہ رکھو۔۔۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرناچاہتا ہے۔(لبقرۃ۲؎۔183۔184)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ 284) گویا وہ مسیح کے سپاہیوں Milites
Chtistiکی پہرے کی چوکیاں تھیں۔ Neander,
Church History, vol. i. p. 409
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرہیز کی مدّت دن کے
اوقات تک محدود ہے۔ رات کے وقت،یعنی عبادت و ریاضت کے وقفوں میں مسلمان کو اجازت
ہے،بلکہ حکم ہے، کہ اعتدال کے ساتھ کھا پی کر اپنے جسم کو قوت و تازگی بخشے اور
دوسرے جائز طریقوں سے تفریح طبع کرے۔ شارع کے ارشادات کی حقیقی روح کو سمجھ
کرارباب فقہ نے بالاتفاق یہ حکم لگایا ہے کہ روزے کے دوران دل کے سفلی خیالات سے
پرہیزاتنا ہی لازمی ہے جتنا جسم کا خورد و نوش سے پرہیز۱؎۔
اسلام سے پہلے دنیا کے
کسی مذہب نے خیرات کو، یعنی بیواؤں،یتیموں اور معذور ناداروں کی امداد کو، نظام
دین کے مثبت ارکان میں شامل کر کے اسے ایک مقدس فرض کی حیثیت نہ بخشی تھی۔
اگاپی agapae یعنی دور اوّل کے
عیسائیو ں کے یہاں جو خیراتی ضیافتیں ہوا کرتی تھیں وہ افراد کی ذاتی مرضی پر
منحصر ہوتی تھیں، چنانچہ ان کااثر بے قاعدہ اور غیر مسلسل تھا۔ یہ ایک تاریخی
صداقت ہے کہ یہی بے قاعدگی تھی جس کے باعث یہ خیراتی ضیافتیں یا ”محبت کی دعوتیں“
وجود میں آنے کے تھوڑی ہی مدت بعد ممنوع قرار دے دیں گئیں ۲؎“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
Neander,
vol. i, p, et seq, psje, Mosheim vol, 2, p. 56
میرا یہ مطلب نہیں کہ یہ
ضیافتیں عیسائیوں کے یہاں خیرات کا واحد طریقہ تھیں۔ بیواؤں، غریبوں اور یتیموں کی
اعانت کی تاکید عیسائیت نے بھی اتنی ہی جتنی اسلام نے کی۔ لیکن یہ خیرات فی سبیل
اللہ بھی جس کی تلقین حضرت عیسیٰ نے کی ان کے حواریوں کے ہاتھوں میں آکر خصوصیت کے
رنگ میں رنگی گئی۔ کسی بیوہ کے لیے خیرات سے مستفید ہونے کی خاطر مزدوری تھا کہ
”ساٹھ سال کی ہو، صرف ایک آدمی کی بیوی رہ چکی ہو، بچوں کی تربیت کرچکی ہو، وغیرہ
وغیرہ ملاحظہ کیجئے:
Blunt's History of the
Christian Church,p. 27, seq
۲؎ کتاب المستطرف۔باراوّل فضل 4
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام کے قواننم کے تحت
ہر فرد پرلازم ہے کہ وہ اپنی آمدنی کا ایک مقررہ حصہ اپنے غریب ہمسایوں کی امداد
واعانت کے لےہ علحدپرہ کردے۔ یہ عموماً تمام اموال منقولہ اسباب،زرعی آمدنی،تجارتی
اور کاروباری منافع وغر ہم کا چالسوااں
حصہ یینہ 2-1\2 فصدد ہے لکن زکوٰۃ صرف اس
صورت مںت واجب ہے کہ کسی شخص کے کل املاک کی قمت
ایک مقررہ حد تک پہنچ جائے۱؎
اور وہ پورے ایک سال تک اس کی ملکت2 مںح رہ چکے ہوں۔ جن مویومنں سے کھیزم باڑی مںر
کام لاا جارہا ہو یا جن پرمال برداری کی جارہی ہو ان پرکوئی زکوٰۃ واجب الادا
نہںل۔مذکورہ بالا زکوٰۃ کے علاوہ ماہ رمضان کے اختتام پر، یین عدصالفطر کے دن،جو مسلمانوں کے اس خصوصی ریاضت
کے لےس وقف مہنےی (lent) کا آخری دن ہوتا ہے، ہر صاحب خانہ کو اپنے لےپ،اپنے خاندان کے ہر
فرد کے لئے اور ہر اس مہمان کے لے جس نے
دوران رمضان اس کے گھر مں روزہ کھولا ہو
یا جو وہاں سویا ہو، گہوپں، جوَ کھجوروں، کشمش، چاولوں اور دوسرے غلّوں کی ایک
مقداریا اس مقدار کی نقد قمت، فطرے یینا خر،ات کے طور پر دییے پڑتی ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علہ وسلم کی ذاتی سنّت یا ان کے صحابہ کی مثال کی
روشنی مںل زکوٰۃ کے مستحق حسب ذیل ہں :۔
1۔ غریب و نادار لوگ۔
2۔ وہ لوگ جو زکوٰۃ مطلوبہ کے جمع اورتقسمھ کرنے کے سلسلے مںی
خدمات ادا کریں۔
3۔ ایسے غلام جو فدیہ ادا کرکے آزادی خرید نا چاہتے ہںر،لکن اس کی استطاعت نہں، رکھتے۔
4۔ایسے مقروض جو قرض اداکرنے سے قاصر ہں ۔
5۔ مسافر اجنبی ۲؎۔
(اور مؤلقہ القلوب)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ مثلاً اگر کسی شخص کے پاس کم از کم بسا اونٹ نہ
ہوں تو اس پر زکوٰۃ لازم نہںا۔
۲؎
Radd-Ul
Muhtar, Chapter on Hajj.
Query, Droit Musulaman,
vol. I, The Mabsut
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عام خرuات
۱؎، یینa انفاق اموال، کی
تاکدۃ قرآن نے انتہائی پرُ زورالفاظ مںو کی ہے۲؎۔ لکن اسلام کی اصلی عظمت و شان اس مں ہے کہ اس نے حضرت عیسیٰؑ ۳؎ کے حسنی و جملن جذبات
کے معنّا قواننن کی شکل مںا مجسم کردیا۔
اسلام کے ارکان مں مکّے اورحرم کعبہ کی سالانہ زیارت یینچ حج کو
شامل کرنے مںا جو حکمت تھی اس نے دین اسلام مںک فرقوں کے اختلافات کے باوجود اخوّت
و مودّت کی روح پھونک دی ہے۔ساری اسلامی دناص کی نگاہںن اس مرکزی مقام پرمرکوز
ہوکر ہر مسلمان کے سنےل مںل اس آسمانی نور کی شعاعںI زندہ رکھتی ہںف جس
نے اس تاریک صدی مںش دنا کو روشن کردیا
تھا۔ اس موضوع پربھی اس صاحب الہام شارع کی دانشمندی احکام کے ایجابی حصے مںe،یینھ ان شرائط مںز
جن کا پورا ہونا حج کی فرضتں کے لئے لازمی ہے،جلوہ گرہوتی ہے۔ وہ شرائط یہ ہںب:۔
1۔ ذہن وعقل کی پختگی
2۔ مکمل آزادی
3۔ خرچ سفر اور زادسفر کا مہاگ ہونا
4۔ عازم حج کی غرا حاضری مں۔ اس کے اہل وعاتل کی کفالت کے وسائل
5۔سفر کا ممکن ہونا
کفّار عرب کے یہاں کھانے
کی مختلف چزںوں کے حلال یاحرام ہونے کے بارے مںا بڑے تفصیاز قاعدے تھے، جو اتنے ہی
سخت گرس تھے جتنے برہمنوں کے بنائے ہوئے قوانن ۔ مسلمانوں کو ان قاعدوں کے پھندوں
سے نکالنے کی خاطر مبلّغ اسلام نے قرآن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ جامع الترمذی۔باب زکوٰۃ۔جامع عباسی
نز۔ ملاحظہ کجئے مسبوط“
۲؎
البقرۃ 2؎۔267۔270۔271 وغرے ہم۔ سورہ 9؎۔60
۳؎
متی۔باب 25۔ آیات 35۔36۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کی روشنی مںا اکثر اپنے
پر3وؤں کو یہ ہدایت کی کہ چند چزںوں کو چھوڑ کر کھانے کی سب سے چزییں حلال ہں ۔”جو
کچھ حلال وطیّب اللہ نے تمہں دیاہے اسے
کھاؤ او راس اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو جس پرتم ایمان لائے ہو۔“ (المائدہ
5؎۔88)
”جو وحی مجھ پرآئی ہے اس مںم کھانے والے پرکوئی چزن حرام نہں“ کی
گئی الاّیہ کہ وہ مُردار ہو یا بہایا ہوا
خون ہو یا سور کا گوشت ہو، جو ناپاک ہے یا فسق ہو ان معنوں مںی کہ وہ ایسا جانور
ہو جو اللہ کے سوا کسی او رکے نام پرذبح کاے گاا ہو۔“(الانعام۔146)
اس تشریح پانچویں سورہ
مںں کی گئی ہے، جس کا مقصد بھی زمانہ جاہلتا کے عربوں کی مختلف وحشا نہ او ربُت
پرستانہ رسموں کی مذّمت تھا۔
”تم پر یہ چزا حرام کی گئںہ،مُردار، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو
خدا کے سوا کسی اور کے نام پرذبح کا۔ گا
ہو۱؎،
وہ جانور جو گلا گھونٹ کر یا چوٹ کھا کر یا بلندی سے گر کر یا ٹکّر کھاکر مرا ہو
یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو ۲؎۔
سوائے اس کے کہ تم نے اسے زندہ پاکر خود ذبح کاگ۔۔۔ اور وہ جانور جو کسی آستانے یا
استھان پرذبح کاگ گای ہو۳؎۔
نزد یہ بھی تمہارے لےک ناجائز ہے کہ (تراوں کے ذریعے) پانسہ ڈال کر مذبوحہ کا گوشت
بانٹا کرو۔“ (المائدہ۔3)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
کفّار عرب جب کوئی جانور کھانے کے لےر ذبح کرتے تھے تو وہ اس پر اپنے دیوتاؤں اور
دیویوں کے نام لاز کرتے تھے۔
۲؎
بت پرست عربوں کے یہاں جانوروں کو ہلاک کرنے کے مختلف وحشاھنہ طریقے تھے۔ اس
ممانعت مںو ان بے رحمانہ طریقوں کی طرف اشارہ ہے۔
۳؎۔
قرآن مںع لفظ نصب،استعمال کانگاہ ہے، اس سے مراد نذر و نانز چڑھانے کے مقامات ہںم۔
حرم کعبہ کے ارد گرد اور کفّار عرب کے گھروں کی دہلز؎ وں پر پتھر نصب کئے جاتے تھے
اور ان پرچڑھاوے چڑھائے جاتے تھے۔(مترجم)
”جو پاک چز یں ہم نے بخشی ہںو انہں۔ بے تکلّف کھاؤ اور اللہ کا شکر
ادا کرو۱؎۔“
(البقرہ۔172)
نشے اور جوئے کی، جو عسا
ئی جماعتوں کی عام لعنتںر ہںا اور رککر ور ذیل فطرتوں کی بڑی کمزرویاں،اور اسی طرح
ہر قسم کی بے اعتدالوہں کی سخت ممانعت کی گئی۔
رسول عربی صلی اللہ علہس
وسلم کی تعلماعت سے بڑھ کر کوئی تعلمی سد ھی سادی او رذہن انسانی کی ترقی سے ہم
آہنگ نہں ۔ مذہبی رسوم کے بارے مںو آپ صلی اللہ علہ وسلم کی رو سے جو چند آداب و قواعد متعنّ کئے
ان کا مقصد زیادہ تر نظم و ضبط اوریک رنگی ویکسانی پد اکرنا تھا، جومعاشرے کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳؎ جو چز یں انسان کے لےہ طبعاً مکروہ ہں ، مثلاً
گوشت خوار جانوروں کا گوشت،شکاری پرندے،سانپ وغر
ہ،ان کے لےد کسی صریی، ممانعت کی ضرورت نہ تھی۔ ہندوستان مںل جو یہ عام
خاہل ہے اور جو ہندوں سے مستعار لاک گال ہے کہ مسلمانوں کے لےہ عسایئو ں کے ساتھ
کھانا پنام جائز نہںع، وہ بالکل غلط اور قرآن کی عبارت ذیل مںی دی ہوئی ہدایت کے
بالکل منافی ہے:”آج تمہارے لےی ساری پاک چزایں حلالی کردی گئی ہںہ۔اہل کتاب
کاکھانا تمہارے لئے حلال ہے اورتمہارا کھانا ان کلئےم“۔ (المائدہ۔5)
شارع اسلام نے کھانے پنےے
او ررہنے سہنے سے متعلق اسراف کے بارے مںد جو قاعدے اور ادامرومہے پہنچائے ان کے
ضمن مں” یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ان کے وقت اور ان کی قوم کے عارضی حالات کے
تقاضوں کا نتجہا تھے۔ جب وہ حالات معدوم ہوگئے تو ان قواننا کی ضرورت بھی ختم
ہوگی لہٰذا یہ فرض کر لناہ ہے کہ ہر
اسلامی ہدایت ایی ہے کہ اس مںم کوئی
تغّر و تبدل نہں کاپ جاسکتا تاریخ اور عقل انسانی کے ارتقاء کے
ساتھ نا انصافی ہے۔ اس ضمن مںو ابن خلدون کے الفاظ سنجداگی سے غور کئے جانے کے
مستحق ہںت،
”ہم صرف وقت نظر اور محنت وکاوش سے ماخذ وں کا مطالعہ اور چھان بنے
کر کے صداقت کو دریافت کرسکتے ہںت اور غلطویں سے بچ سکتے ہں ۔اگر ہم محض اخبار و
روایات کے نقل کردینے پر اکتفا کریں اورتجربے کے مہاک کئے ہوئے قواعد، سا ست مدن
کے اصولی قواننخ،کسی زمانے کی مخصوص تہذیب او رانسانی معاشرے کے حالات پر نظر نہ
ڈالںف، اگر ہم از منہ بعدہہ کے تقاضوں کا اندازہ (باقی حاشہص صفحہ 291 پرملاحظہ
فرمائںا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نشو و نما کے بعض مراحل
مںب بہت ضروری ہوتاہے۔ لکن یہ آداب و
قواعد لوچ اور لچک سے خالی نہ تھے۔ چنانچہ بمااری کی حالت مں اور بعض اسباب کے تحت انہوں نے ان سے انحراف کی
اجازت دی۔
”خدا تمہارے لےس آساناوں پداا کرناچاہتاہے کورنکہ انسان ضعفا پد ا
کاا گار۔“ (النساء۔28)
رسول اکرم صلی اللہ علہآ
وسلم نے جو قانون اصول وضع کئے وہ یا تو ایسے سوالات کے جوابوں کی صورت مںی وضع
ہوئے جو مدینہ کے منصف اعلیٰ کی حترم سے
آپ سے کئے جاتے تھے یا چند صریح خرابونں کو دور کرنے کی خاطر۔آپ صلی اللہ علہح
وسلم کے اسلام مں کوئی اییس رسم نہ تھی جو
انسان کو خدائے واحد کے خاسل سے دور لے جاتی، کوئی ایسا قانون نہ تھا جو ترقی پذیر
نوع انسانی کے ضمر کو پابجولاں رکھتا۔
اسلام کے ضابطہئ اخلاق کا
خلاصہ چھٹے سورے مںر بالفاظ ذیل دیا گاک ہے:۔
”آؤ مںط تمہں بتاؤں کہ
تمہارے رَبّ نے تم پر کا پابندیاں عائد کی
ہں ۔ وہ یہ ہںل:۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، والدین کے ساتھ نکر سلوک کرو،
اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، کوّنکہ ہم تمہںد بھی رزق دیتے ہںو اور
تمہارے بچوں کوبھی دیں گے، بے حاکئی کی باتوں کے قریب بھی نہ پھٹکو،خواہ وہ کھلی
ہوں یا چھپی،کسی ان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے ہلاک نہ کرو،الاّحق کے
ساتھ۔۔۔،یمے کے مال کے قریب نہ جاؤ، الاّ
ایسے طور پرکہ تم اسے بہتر بناسکو۔۔۔ اور جب بات کر تو حق کی کہو، چاہے اہل معاملہ
تمہارا رشتہ داری ہی کووں نہ ہو۔ اللہ کا عہد پورا کرو۔ یہ ہں وہ باتں
جن کی ہدایت اللہ نے تمہں کی ہے۔
شاید تم ان کا دھا ن رکھو گے۔۔۔ ییس ہے مر ا سد ھا راستہ۔ لہٰذا تم اس پر چلو۔“
(الانعام۔152۔153)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقہ۔ حاشہ1 صفحہ 290) ان تقاضوں سے نہ لگائںل جو ہماری آنکھوں کے
سامنے موجود ہں یین اگرہم ماضی کامقابلہ حال سے نہ کریں تو ممکن
نہں۔ کہ ہم غلطو3ں کاشکار نہ ہوجائں او
رصداقت کے راستے سے بھٹک نہ جائںل۔“ (مقدمہ ابن خلدون)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”بالتحقق۔ ان مسلمانوں نے (آخرت مںو) فلاح پائی جو اپنی خشوع سے
ادا کرتے ہں ، جولغو باتوں سے خواہ وہ قولی ہوں یا فعلی دور رہتے ہں ، جو زکوٰۃ کے
طریقے پر ثابت قدمی سے کاربندرہتے ہںی، جو اپنی عصمت کا تحفظ کرتے ہں ۔۔۔۔ جو اپنی
امانتوں او رپنے عہدو پماون کا خاال رکھتے ہں ۔۔“(المومنون۔1تا8)
”ینات اللہ تمہںو عدل و
احسان اور رشتہ داروں کا حق ادا کرنے کاحکم دیتا ہے اور بدی، بے حانئی اور ظلم و
زیادتی سے منع کرتا ہے۔۔“ (النحل۔90)
ایک عساہئی مورخ کا قول
ہے: ”کسی امت کے ابتدائی مراحل نشو و نما مںا،جب اس کے عقائد کا رسوخ و وثوق درجہ
کمال کو نہںا پہنچا ہوتا،ظاہری رسوم او رباقاعدہ ادارے عوام الناس کے سنومں مںن حس
مذہبی کو زندہ رکھنے کی خاطر ضروری ہوتے ہںک او ریہ ایمان و احسان کے ساتھ کوئی
تناقص نہںم رکھتے۱؎۔“
چنانچہ انسانوں کی اکثریت کو ایک واضح او رسہل الفہم تصور دین کا ابلاغ کرنے کی
خاطر حضرت محمد صلی اللہ علہا وسلم نے اپنی تعلماات سے چند آداب و رسوم کو وابستہ
کردیا۔ اور تو اور، خود حضرت عیسیٰؑ نے دو رسمںہ جاری کی تھںی، یینح بپسمتہ اور
عشائے ربانی (Holy Supper) ۲؎
اور وہ کچھ اور مدت تک دناک مں رہتے تو
ممکن ہے کہ وہ چند اور رسوم کا اضافہ کرتے۔ بہر حال ایک چزع ییںی ہے۔ وہ یہ کہ اگر ان کو ایک طویل ترحاوت دنو ی
نصب ہوتی تو وہ اپنی تعلماہت کو زیادہ
منظم بنالدوں پر استوار کرجاتے۔ عسانئت
مںح جو یہ بنا دی نقص رہ گاہ دراصل اسی کی بدولت کلساکئی مذاکرے اور جلسے (Convocations
Councils)ضروری
ہوئے تاکہ ارکان دین اور مسلمات ایمان معنم کئے جائںی۔ لکنک جب وہ معنت ہوئے تو
ایسے نکلے کہ عقل اور فکر آزاد کی ایک خففق ہی ضرب سے پاش پاش ہوجاتے ہںت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ Moshiem, vol. I, p, 124
۲؎
ایضاً
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عیسیٰؑ کاکام ادھورا
رہ گار۔ اخلاقی قواننc کی ضابطہ بندی کو ایک اور معلّم کے حصے مںد آنا تھا۔
اپنے خالق کے ساتھ ہمارے
جو تعلقات ہںد وہ تو ہمارے ضمر کے معاملے
ہںر۔ لکنو اپنے ہم جنسوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کو مثبت قواعد کے تابع ہوناچاہئے
اور انسانوں کے باہمی فرائض کی بجا آوری کے لئے مذہب کی تصدیق و توثق ،یینو تکلفا
شرعی، سے بڑھ کر کونسی ضمانت ہوسکتی ہے؟مذہب کو صرف چدںہ چدرہ معلّموں کی خطباک نہ
چرب زبانی کاموضوع یاخواب و خایل کی دنا۔ؤں مںک رہنے والی چند مخصوص طبائع کی
تفریح کے لئے ایک عجبچ و غریب نظریہ نہ ہوناچاہئے۔مذہب کو آئن زندگی ہونا چاہئے،اس کا سب سے بڑا مقصد یہ ہونا
چاہئے کہ نوع انسانی کو اس اوج کمال تک پہنچائے جو ہماری ہستی کی منزل مقصود ہے۔لہٰذاوہ
مذہب سب سے زیادہ توجہ اوراحترام کا مستحق ہے جو اجتماعی مطالبات اورانسانی فرائض
کی ضابطہ بندی کر کے اخلاق کے بناادی اصولوں کی تنظمی کرے، جو عقل انسانی کی
انتہائی نشو و نما کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی بدولت ہمںل مرحلہ بہ مرحلہ ہستی کا مل
سے قریب تر لتاق چلا جائے۔حضرت محمد صلی اللہ علہع وسلم نے جس اسلام کی تبلغن کی
اس کا امتابزی وصف یہ ہے کہ تمام مذاہب مں ،خواہ وہ خاص خاص قوموں کے لے آئے ہوں یاساری نوع انسانی کے لئے جو عظمن ترین
اور نمایاں ترین اوصاف ہںا، یینو ایسے اوصاف جوانسان کی عقل اور وجدان اخلاقی سے
موافقت رکھتے ہںل، وہ ان سب کا جامع ہے۔ محض ایک ایسا نظام نہںا جو انسانی ترقی کے
ایک صحح تصور پرمبنی چند مثبت اخلاقی
قواعد پرمشتمل ہے،بلکہ وہ ”چند بنا دی اصولوں کا قاظم ہے، چند ملامنات کا بروئے
کار لانا ہے،ایک خاص افتاد طبع ہے اور ان سب کا اطلاق انسانی ضمرا کو زمان و مکان
کے ہمشہل بدلتے ہوئے حالات پرکرناپڑتا ہے۔“ معلّم اسلام صلی اللہ علہ وسلم نے عالمگرق محبت و اخوّت کو محبت الہٰی کے
نشان کے طورپر پش کر کے ہزاروں مختلف
طریقوں سے اس کی تلقن“ کی۔ ”کالتمہںا معلوم ہے کہ جب تم خدا کے حضور مںو حاضر ہوگے
تو وہ تمہںش کس نشانی سے پہچانے گا؟ وہ نشانی وہ محبت ہے جو تمہںا اپنے بچو ں سے
اپنے رشتہ داروں سے اپنے ہمسایوں سے او راپنے ہم جنسوں سے تھی۱؎۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشکوٰۃ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”کیا تم اپنے خالق سے محبت رکھتے ہو؟ تو پہلے اپنے ہم جنسوں سے
محبت کرو۱؎۔“
”کیا تم خدا کے قرب حاصل کرناچاہتے ہو؟ اگر چاہتے ہو تو اس کی
مخلوق سے محبت کرو، دوسروں کے لیے وہی چیزیں پسند او روہی چیزیں رد کرو جو تم اپنے
لیے کرتے ہو، ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو جیسا تم اپنے ساتھ چاہتے ہو“۔
ناپاکی میں جو بُرائی
ہوتی ہے، ریاکاری میں جو کمینہ پن ہوتا ہے اور خود فریبی میں جو خدا فریبی ہوتی ہے،
مبلّغ اسلام نے ان سب کی مذّمت نہایت سخت الفاظ میں کی اور ناقابل اشتباہ الفاظ
میں اس نے حق و صداقت،نیکی و احسان اور برادرانہ محبت کی گرنقدری کا اعلان کیا۔
اسلام کی ہدایات میں تمام زبانوں اور تمام قوموں کے حالات کے مطابق موڑے جانے کی
جو صلاحیت ہے،عقل کی روشنی کے ساتھ ان میں جو کامل مطابقت ہے، ان کی جو یہ خصوصیت
ہے کہ ان میں کوئی ایسے مخفی و پرُ اسرکار مسئلے نہیں جو انسان کے سینے کے اندر و
دیعت کی ہوئی ازلی صداقتوں کو جذباتی وہم پرستی وجہالت کا گرہن لگادیں۔۔ ان سے
ثابت ہوتاہے کہ فطرت انسانی میں جو مذہبی استعداد ہے اسلام اس کی جدید ترین
ترقّیوں کا آئینہ دار ہے۔جن لوگوں نے اسلام کی بعض ہدایات کی تاریخی مطلب و مدّعا
سے دانستہ تجاہل کیا ہے ان کا خیال ہے کہ ان ہدایات کی ظاہری درشتی یا موجودہ
اسالیب فکر سے ان کی نامطابقت اسلام کے اس دعوے کو کہ وہ ایک عالمی مذہب ہے ناقابل
قبول بنا دیتی ہے۔لیکن اگر قوانین و ہدایات کی تاریخی وقعت کی تھوڑی سی تحقیق کی
جائے اور واقعات کا جائزہ لیتے وقت قدرے زیادہ انصاف سے کام لیا جائے تو ظاہر
ہوجائے گاکہ ایسے اسلامی قوانین جو جدید زمانے کے مطالبات و تعصّبات سے ہم آہنگ
معلوم نہیں ہوتے محض ایک عارضی اور وقتی حیثیت رکھتے تھے۔اسلام کی ہمہ گیری کو، اس
کی وسیع المشربی کو اور تمام اخلاقی نظاموں سے اس کی فراخدلانہ رواداری کو اس کے
حریف مذاہب کے تعصّب نے یا تو صحیح طور پر سمجھا نہیں جانے دیا انہیں مسخ کردیا ہے
یا عمداً پوشیدہ رکھا ہے۔ قرآن کہتا ہے:۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
شرح بخاری۔ حصہ اوّل۔صفحہ 70
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”یقین جانو کہ مسلمان ہو ں یا یہودی،صابی ہوں یا عیسائی، جو لوگ
بھی اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے، ان کے لئے نہ کسی
خوف کا مقام ہے نہ رنج کا۱؎۔“
(المائدہ5؎۔69)
اس مضمون کا اعادہ
پانچویں سورہ میں جا بجا کیا گیا ہے۔ان عبارتوں کے علاوہ سینکڑوں عبارات سے ثابت
ہوتا ہے کہ اسلام بجات اُخروی کو صرف پیردان محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک محدود
نہیں رکھتا۔
”تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک شریعت اور راہ عمل مقرر کی ہے۔
اگر تمہارا خدا چاہتا تو تم سب کو (یعنی ساری نوع انسانی کو) ایک ہی امّت بنا سکتا
تھا۔ لیکن اس کے بجائے اس نے تمہیں مختلف احکام دے کر تمہاری آزمائش کی ہے۔ لہٰذا
نیک کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ آخرکار تم سب کو خدا کی طرف
لوٹ کر جاناہے۔ اس وقت وہ تمہیں ان باتوں کی اصل حقیقت جتادے گا جن کے بارے میں تم
اختلاف کرتے رہے ہو۔“ (المائدہ 5؎۔48۲؎)
دنیاکے جن مذہبوں نے ضمیر
انسانی پر حکومت کی ہے ان میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاپیش کردہ اسلام واحد مذہب
ہے جس میں دونوں تصّورات مجتمع ہیں جو مختلف زمانوں میں انسانی کردار کے سب سے بڑے
محّرک رہے ہیں یعنی وقار انسانی کا احساس،جسے قدیم فلسفوں نے بڑی اہمیت دی ہے او
رمعصیت انسانی کا احساس،جو عیسائی متکلمین کو اس قدر عزیز ہیں۔ یہ عقید ہ کہ آخرت
کے دن انسان کی قسمت کا فیصلہ محض اس کے اعمال کی بناء پرہوگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ ان تعلیمات کا مقابلہ Athanasian
Creedکی تعلیمات سے کیجئے۔
۲؎
مزید ملاحظہ کیجئے:29؎۔46۔32؎۔22۔241۔39؎۔41۔40؎۔13وغیرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمان کو تقویٰ او راپنے
ہم جنسوں سے لطف و احسان کی طرف رغبت دلانا ہے۔مشیت ربیّ پراعتماد،خدا کے رحم
وکرم،شفقت و محبت اور قدرت مطلقہ پر ایمان اسے خدا کے سامنے انکسارو عاجزی
سکھاتاہے اور ان غازیانہ محاس پر آمادہ کرتاہے جن کے طفیل اسلام پر یہ الزام عائد
کیا گیا ہے کہ اسلام نے جن اوصاف اور زندگی کے امتحانوں میں ثابت قدمی۔یہ ایمان
اسے اس پر مجبور کرتاہے کہ اپنے ضمیر سے ترّدو واضطراب کے ساتھ باز پرس کرتا
ہے،اپنے اعمال کے محرکات کا حزم و احتیاط کے ساتھ مطالعہ کرتا رہے۲؎۔ اپنی ذاتی قدرت پرمکمل
بھروسہ نہ رکھے،بلکہ خیر و شر کی باہمی جنگ میں خدائے جلیل و کریم کی تائید پر
اعتماد کرے۔
بعض مذاہب میں فرائض معین
کرنے والے احکام ایسے ناقابل عمل فطرت انسانی کے علم سے اس قدر خالی اور اندھا
دھند جوش رکھنے والوں کی سی پراگندہ دماغ خیال پرستی سے اس قدرمملور ہے ہیں کہ
زندگی کے حقیقی محاربوں میں بالکل بے کار ثابت ہوئے ہیں ۲؎۔کسی مذہب کی عالمگیری
کے بارے میں فیصلہ کرنے کے معیاد یہ ہیں کہ وہ کہاں تک قابل عمل ہے، انسانوں کے
عام تعلقات میں اور روزانہ زندگی کے معاملات میں وہ کتنامستقل اثر و نفوذ رکھتا ہے
اور عوام النّاس کے دلوں پر اس کا سکّہ کہاں تک جمتا ہے۔ کسی مذہب کے حقیقی اوصاف
کا اندازہ اس سے نہیں لگایا جاسکتا کہ غیر معمولی طبائع پر اس کا کیا اثر ہوتاہے۔
بلکہ ضروری ہے کہ عام لوگوں کو ذہنیتیں اس سے جس طور پر متاثر ہوتی ہیں اس کا
مطالعہ کیا جائے۔ کیا وہ ان پر اثر اندازی کی بڑی قوت رکھتا ہے؟ کیا وہ انہیں رفعت
بخشتا ہے؟ کیا وہ ان کے تصور حقوق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
Clarke,
Ten Great Religions, p. 484
۲؎
حسین واعظ کی کتاب”اخلاق“ کے Apologue پر موضوع ”اخلاص“ سے
موازنہ کیجئے۔
۳؎ موازنہ کیجئے۔موسیوارنسٹ ہاردےErnest
Harvet کے
وہ اقوال جو انہوں نے اپنی فاصلانہ کتاب) Le Christianismo
et ses Origines, Perf, p. xxxix
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفرائض کو منضبط کرتاہے؟
اگر جزائر بحر جنوبی یا کفر اریا کے باشندوں میں اس کی تبلیغ کی جائے تو کیا وہ
انہیں بہتر بنائے گا یا اوربھی بدتر کر کے رکھ دے گا؟۔۔۔ یہ ہیں وہ سوال جو قدرتی
طور پر ہمارے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔اسلام میں ایک بلند نظر مقصدیت ایک انتہائی
معقول عملیت کے ساتھ جمع کی گئی ہے۔ اس نے انسانی فطرت کو نظر انداز نہیں کیا۔ اس
نے کبھی اپنے آپ کو بھی پیچ در پیچ راستوں میں نہیں الجھایا جو واقفیت و حقیقت کی
اقلیم سے باہر ہیں۔دوسری دینی نظاموں کی طرح اس کامقصد بھی یہی تھا کہ نوع انسانی
کو کمال مطلق کی مثالی معراج کی طرف اٹھالے جائے،لیکن وہ اس مقصد کی تحصیل یا اس
کی تحصیل کی کوشش اس حقیقت کے ادراک کے ذریعے کرتا ہے کہ اس مادّی زندگی میں انسان
کی فطرت ناقص ہے۔ اسلام نے یہ نہیں کہا کہ ”اگر تیرا بھائی تیرے ایک گال پر طمانچہ
رسید کرے تو تُو دوسرا گال اسے پیش کردے۔“ لیکن اگر اس نے خبیث النفس غلط کاروں کو
ان کی برُائی کی حدتک سزادینے کی اجازت دی۱؎تو ساتھ ہی ساتھ اس نے سوز و گداز سے بھرے
ہوئے الفاظ میں اور مختلف لہجوں میں عفو و حلم اور بدی کا معاوضہ نیکی سے دینے کی
تعلیم بھی دی۔ قرآن کا ارشاد ہے:۔
”اس سے بہتربات کس کی ہوسکتی ہے جو دوسروں کو خدا کی طرف دعوت دیتا
ہے اور خود بھی نیک کام کرتاہے۔؟۔۔۔ نیکی اور بدی برابر نہیں، بدی کا دفعیّہ اس سے
کرو جو اس سے بہتر ہے۔“ (حمٰ،السجدۃ۔32۔33)
”ایک او رجگہ جنت کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے (وہ ان کے لیے ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
قرآن۔سورہ 22؎۔39۔40۔ توینسن Thonissen کا یہ قول یاد رکھنے
کے قابل ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علہک وسلم نے عمد برائاھں کرنے والوں کو سزا
دینے کی اجازت اس مقصد سے دی کہ ان سے زیادہ سنگنر برُائوھں کا انسداد ہوسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کو بڑے گناہوں سے او ربے
حاےئی کے کاموں سے بچتے ہںی،غصّے کو قابو مںی رکھتے ہںب اور درگزر کرتے ہں ۔“
(الشوریٰ 42؎۔37)
یہ خلق عظمہ سکھانے والی
ہدایات اییغ نہںق کہ جعلی جذباتتا کے طاق نساےں ہی پردھری روہ جائںی،بلکہ یہ سچے
مسلمان کی زندگی کے عملی اصول ہں۔۔ دوسرے مذاہب کے پرےوؤں نے امتحان و ابتلاء مںہ
صبر و تحمل کی جو مثالںک کںھ تاریخ نے انہںی محفوظ رکھا ہے تاکہ آئندہ نسلںد انہںل
خراج تحسن۔ اداکریں۔لکنر اقبال و خوش حالی کی بہ نسبت عُسرت و مصبتک مںب، جب کہ
انسان مں برائولں کابدلہ لنےس کی طاقت
نہں ہوتی،عفو و برُدباری زیادہ آسان ہے۔
شہدک کربلا حضرت امام حسنا رضی اللہ عنہ کے بارے مںا روایت ہے کہ ایک مرتبہ جب وہ
کھانا کھارہے تھے تو ایک غلام نے ایک ابلتی ہوئی طشتری ان کے جسم مبارک پر اُلٹ دی
اوراسی وقت دو زانوہوکر قرآن کی یہ آیت پڑھی۔
”جنت ان کے لےا ہے جو اپنے غصّے کو ضبط کرتے ہںک۔“
امام حسنو رضی اللہ عنہ
نے کہا۔”مجھے تو غصہ نہں آیا“۔ غلام نے یہ
مزید عبارت پڑھی“۔ اوران کے لےر بھی جو انسانوں کی خطاؤں سے درگزر کرتے ہں ۔“ امام
حسنی نے کہا:”مںو نے تجھے معاف کان۔“ غلام نے آیت کی تکملک کرتے ہوئے اضافہ کاج:
”کوانکہ خدا محسنوں سے محبت کرتا ہے۔“ امام حسن
نے اسی وقت اعلان کای”جا مںر نے تجھے آزاد کا اور تجھے چاندی کے چارسو سکّے بھی دیتا ہوں ۱؎“۔
صاحب کشاف اسلامی تعلماےت
کا خلاصہ یوں پش کرتا ہے:”جو تمہں دھتکار دے اس کے پاس دوبارہ جاؤ،جو تم کچھ لے
لے اس کو اور بھی دو۔ جو تمہارے ساتھ بُرائی کرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
یہ واقعہ سل (Sale) نے بھی اپنے ترجمہ
قرآن کے تسرتے باب پر ایک نوٹ مں اور گبّن
نے بھی اپنی تاریخ زوال روا مںک بامن کات ہے۔ لکن۔ دونوں نے سہواً اسے حضرت امام
حسنؓ سے منسوب کردیا ہے۔ ملاحظہ ہو تفسر
حسی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے معاف کردو۱؎۔ کوًنکہ خدا کو یہ پسند
ہے کہ تم اس کے کمالات کی جڑ اپنی روح کی گہرائواں مںے گاڑ دو۲؎۔“
کاے کوئی عبارت جذبے کی
رفعت و پاکزہگی مںے ذیل کی قرآنی عبارت سے زیادہ حسنھ و جمل۔ ہوسکتی ہے؟:۔
”رحمن کے بندے وہ ہں۔ جو زمنس پر نرم چال چلتے ہںے او رجب اہل ان
کے منہ آئں تو کہتے ہںی ’تم کو سلام‘ وہ
جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قاےم مںے راتں
گزارتے ہںر‘۔۔۔۔ وہ جو خرچ کرتے ہں
تو نہ ایسے کہ فضول خرچی ہو او رنہ ایسے کہ بُخل ہو،بلکہ دونوں کے درمامن
اعتدال سے، وہ جو اللہ کے سوا کسی او رمعبودکو نہںز پکارتے،کسی جان کو ناحق ہلاک
نہںی کرتے،اور زنا کے مرتکب نہںہ ہوتے،۔۔۔ وہ جو جھوٹ کے حق مںس گواہی نہںس دیتے،
او راگر کسی لغو فعل سے ان کا سامنا ہوجائے تو شریف آدمومں کی طرح اس کے پاس سے
گزرجاتے ہںپ،۔۔۔۔ وہ جو دعائںا مانگتے ہںہ کہ ’اے ہمارے رب‘ ہمں اپنی بوایوں اور اپنی اولاد کی طرف سے آنکھوں
کی ٹھنڈک دے‘۔۔ یہ ہںا وہ لوگ جنہںہ اجر عظمل ملے گا، کوننکہ انہوں نے صبر سے کام
لار اور جنت مںی ان کا استقبال خوش آمدید او ردعا و سلام سے کای جائے گا۔وہ ہمشہ ہمشہ
وہاں رہںی گے۔خوب ہے وہ ٹھہرے او رہنے کی کی جگہ!“ (الفرقان 25؎۔63تا76)
یہ ہے محمد صلی اللہ علہی
وسلم کا پشن کردہ اسلام۔ یہ صرف ایک ضابطہ عقائد ہی نہں۔، بلکہ موجودہ زندگی
بسرکرنے کاایک طریقہ ہے،راست بازی،راست اندییے،راست گوئی کا ایک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
اس کا مقابلہ کجئےو حضرت رسول صلی اللہ علہک وسلم کے اس ارشاد سے جو ابودردا نے
مشکوٰۃ (کتاب 4۔ باب1 فصل2) مںد روایت کاا ہے او رمستطرف مںا عفو کے باب سے (باب
36)
۲؎ زمحشری (کشاف) مصری ایڈیشن۔حصہ 1۔ صفحہ 280)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلک ہے جس کی بناسد حُب
الہٰی پر، عالم گرہ عطاء واحسان پر اور خدا کی نگاہوں مں تمام انسانوں کی مساوات پر ہے۔ اسلام کے موجودہ
نام لوکاؤں نے اس کی اصلی شان و شوکت کوچاہے کتنا ہی غبار آلودہ کواں نہ کردیا ہو
(اور سچ پوچھئے تو اس زمانے مںت جو اسلام رائج ہے اس کے نقائص و معائب پر ایک پوری
کتاب لکھی جاسکتی ہے)پھر بھی وہ مذہب جس نے صلاح و تقویٰ او راعمال کی بناء پر
جزاو سزا کو ایک ضابطہ بند صورت مںق مجسم کردیا ہے نوع انسانی کے محبوں کے اعتراف
کا مستحق ہے۱؎۔
می توانی ازرہ آساں شدن
برآسمان
راست باش دراست رد کا نجا
نبا شد کا ستی
اسلام کے نزدیک موجودہ
زندگی آئندہ زندگی کا مزرع ہے۔ کامل انکسار نفس کے ساتھ انسانوں کی بھلائی کی خاطر
کام کرنا، جامع الکمالات سے کسب کمال کی خاطر پوری ہمت کے ساتھ کوشش یہ ہے اسلام
کا اصل الاصول۔سچا مسلمان عسانئی بھی ہوتا ہے، ان معنوں مں کہ وہ حضرت عیسیٰؑ کی نبوت کا قائل ہے اور ان کی
اخلاقی تعلمہ کو عملی جامہ پہنانے کی سعی کرتا ہے۔ پھر پایہئ تکمل کو پہنچایا؟ کاپ اس معلّم نے دنان کی آوارہ وہر
زہ گر د قوتوں کو یکجا کرکے ترقی کی راہ پر گامزن نہںم کاا۔؟
اس کے سوا کہ اسلام حضرت
عیسیٰؑ کے ابن اللہ ہونے کوتسلمم نہںم کرتا،اسلام اور عسایئتا مںئ کوئی اساسی
اختلاف نہںو۔دونوں کا جوہر،دونوں کی روح دردا ں ایک ہی ہے، دونوں نوع انسانی کے
بطون مںا کام کرنے والی ایک ہی قسم کی روحانی قوتوں کی پدتاوار ہںو۔عساوئتی
یہودیوں او ر رومویں کی شقی القلب مادہ پرستی کے خلاف ایک صدائے احتجاج تھی، اسلام
عربوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
Cotter
Morrison, in his Services of Man اس کے مخالف نظریئے کو اخلاق انسانی کے حق مں حددرجہ مُضر خامل کرتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کی انسانت سوزبُت پرستی او ران کے وحشافنہ و ظالمانہ رسوم
وعادات کے برخلاف ایک اعلان جنگ تھا۔ عسا ئتی کی تبلغں ایک متمدن و مہذب قوم کو کی
گئی جو ایک منظم حکومت کی تابع فرمان تھی۔ اس لےو اسے نستباً کم شورہ پُشت خرابو۔ں
کا مقابلہ کرنا پڑا۔ اسلام کی اشاعت ایسے قبلو ں اور فرقو ں مںی ہوئی جو ہمشہی ایک
دوسرے سے بر سرپکامر تھے۔ اس لےے اسے ذاتی مفادات کے جبلّی تقاضوں او رآبائی وجدّی
تو ہم پرستی کی قلعہ بندیوں کے خلاف لڑائی لڑنی پڑی عساوئتک مشرق کی طرف سے جو قدم
بڑھا رہی تھی انہںم ایک نفسا الّداغ،لکن
عجبو الفطرت شخص نے، جو نسلاً یہودی لکنی تعلماًf اسکندریہ کا ایک
یونانی تھا،روک دیا۔ چنانچہ وہ یونان اور روما کی طرف چل دی۔ ان ملکوں مں پہنچ کر اس نے ان کی صدیوں پُرانی مشرکا نہ تہذیب
کو اپنے دامن مںو سمٹر لاا اوراسے نئے افکار او رنئے نظریوں کی صورت مںر منتقل
کردیا۔ عسا ئتں نے جس لمحہ اپنے مولد سے نقل مکان کاس وہ عسا ئتک نہ رہی بلکہ حضرت
عیسیٰؑ کے دین کی بجائے پال حواری کا مذہب بن گئی۔ قدیم شرک کے صنم کدے گرنے کے
قریب تھے۔ یونان اور اسکندریہ کے فلسفے نے رومی دناو کو ذہنی طور پر ایک مجّسم خدا
پر، یینا ایک نم خدا پر، ابدیت کبریٰ کے
سنےد مںہ ایک ابدیت صغریٰ پرایمان لانے کے لےم تافر کررکھا تھا۔ چنانچہ تصور پال
کی سکھائی ہوئی عساکئتا مںی حلو ل کرگاک۔ جدید زمانے کی مثالتس پرست عسایئت ،جو ایک
مثبت مذہب کے بجائے ایک نظام فلسفہ ہے، ماقبل عساائتک او رما بعد عسا ئتس تہذیب کی
متعدد صدیوں کی پد وار ہے۔ اسلام کا پغایم جن لوگوں کو اور جن اجتماعی و اخلاقی
حالات مںے دیا گا۔ وہ بالکل مختلف قسم کے تھے۔ ایک انحطاط یافتہ عسادئت نے اس کی اشاعت مںم جو سدّراہ حائل کردی اگر وہ
اس کو توڑ نے مںا کاماحب ہوجاتا او رکرہئ ارض کی اشرف قوموں مںم رواج پا جاتا تو
اس کی ہئتہ و سر ت او راس کی ترقی اس نقشے سے بالکل مختلف ہوتی جو اس وقت نسبتہً
کم شائستہ مسلم جماعتں کسی مشاہدہ کرنے والے
کی نگاہوں کو پش کرتی ہںپ۔دو ایسے دریاؤں
کی طرح جو دو مختلف علاقوں مںی سے گزر تے ہں
ان دو مذاہب نے اپنے اپنے علاقوں کی زمن
کی طبعی خصوصتوتں کے مطابق مختلف نتائج رونما کئے ہںر۔ میکسکو کے وہ باشندے
جو اپنے آپ کو ایک مذہبی ریاضت کے طور پر خار وار جھاڑیوں کی ٹہنویں سے اذّیت
پہنچاتے ہںک،جنوبی امریکہ کے بت پرست،بلکہ تمام عسارئی قوموں کے نچلے طبقے کسی
معنی مںت بھی عساتئی کے لقب کے مستحق نہںر۔ان کے اور جدید عساصئی فکر کے رہنماؤں
کے درما،ن ایک وسعو خلجد حائل ہے۔ اسلام نے جہاں کہںی بھی ثقافت پذیر اور ترقی
پسند قوموں مںے رواج پایا ہے،وہاں اس نے اپنے آپ کو ترقی پسند رجحانات سے کاملاً
ہم آہنگ ثابت کریا ہے، تہذیب کے ارتقاء مںا مدد دی ہے او رمذہب کو ایک مثالی ہئیت
بخشی ہے۱؎۔
ایک مذہب اسی صورت مںو
جاہل اور غر تربتا یافتہ لوگوں پر ایک
مستقل صحت بخش اثر ڈال سکتا ہے کہ اس کے اوامر نواہی نمایاں طور پر حتمی وقطعی
ہوں۔ جہاں تک اعلیٰ اور روحانت، سے مملو طبائع کا تعلق ہے،وہ کبھی کبھی خارجی
ہدایات کے بغر بھی اپنے ہم جنسوں کے ساتھ
راہ ورسم سے متعلق اپنے قلوب کے اہرنوں پر قاعدے وضع کرسکتے ہں ۔ ایسے لوگوں کا
کسی نہ کسی انداز سے اللہ کے ساتھ رشتہ ہوتاہے۔ چنانچہ خرک و شر اور حق وباطل مںن
تمز کرنے کی استعداد انہںط فطرتاً ودیعت
ہوئی ہوتی ہے اور ان کی زندگی کے ساتھ ساتھ نشو ونما پاتی رہتی ہے۔ افلاطون او
رارسطو کو الہامی دنوہں کا نور نصبی نہ ہوا تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے اخلاق کے
بعض بلندترین اصول دنای کو اسی طرح وضاحت سے بتائے جسےھ انبایء نے تلقنم فرمائے
تھے۔ ان کو بھی اپنے طور پر ہدایت الہٰی نصبخ ہوئی تھی او ران کی فکر نے انہںح
بلندی بخش کر حق کے قریب پہنچا دیا تھا۔
لکنت نوع انسانی کی
اکثریت کے لےت، جو جہالت یا بربریت مںی مبتلا ہے، اور ایسے لوگوں کے لے جو شائستگی سے معّر ا او ربُری عادتوں کے شکار
ہوں اخلاقی ہدایات کوئی معنی نہںل رکھتںو، جب تک انہںئ صریح الفاظ مںر قانونوں کی
سی قطعتج کے ساتھ اور سزا و جزا سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
وہ مذہب جس نے حضرت علی ؓ کی غازیانہ وفاداری،امام جعفر صادق کے حلم و نرم
مزاجی،امام موسیٰ کے صبر و تقویٰ، حضرت فاطمہؓ کی قدسی پاک دامنی،حضرت رابعہ بصری
کی پارسائی کو جنم دیا،وہ مذہب جس نے ابن سنال، البر،ونی، ابن خلدون،سنائی،
جلاالدین رومی، فریدالدین عطّار،ابراہمت اوہم اورایسے ہی کئی کبا بُراالبلال پدذا
کئے، وہ مذہب ینار اپنے اندر ایسے اوصاف
رکھتاہے جس سے امد فلاح کی جاسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منسلک کر کے پشی نہ
کا جائے۔ نہ مذہب کا اخلاقی پہلو ایسے
لوگوں کے احساسات و جذبات کو حرکت مںی لاتا ہے،ونہ فلسفا نہ تصّورات ان کے ذہنوں،
ان کے آئے دن کے کردار یا ان کے اسلوب زندگی پر کسی قسم کا اثر مترتب کرتے ہںد۔
مجرّد اصولوں پر خطبوں کی
بہ نسبت سند یہ نظرا کاسکّہ ان کے دلوں پر بہ آسانی بٹھتا ہے۔انہںی اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ نہ صرف اپنے
ہم جنسوں بلکہ اپنے خدا کے ساتھ بھی تعلقات کے بارے مںم ان کے لےک پکّے قاعدے
بنادیئے جائں ، ورنہ انسان تو انسان، وہ خدا کو بھی بھوُل جاتے ہںس۔
اسلام کو ساتویں صدی
عسوکی مںی جو شاندار کاماّبی حاصل ہوئی اورجس حربت انگزس سرعت سے وہ روئے زمنا پر
پھلاح اس کا راز اسی مںّ مضمر تھا کہ اس نے انسانی فطرت کی اس بناودی ضرورت کو ملحوظ رکھا۔ ایک اییے دناں سے جو
مختلف مذہبوں اور فرقوں کے مناظروں اور مناقشوں کی معرکہ گاہ بنی ہوئی تھی اور جس
کے لےں اعمال کی بہ نسبت الفاظ کہںا زیادہ اہمت
رکھتے تھے اس نے اختامر و اقتدار کے منبع مطلق سے آئے ہوئے حتمی احکام کی
صورت مں خطاب کاب۔ اگرچہ اس نے اخلاقی و
اجتماعی بربادی کے ماحول مںں جنم لام، اس کا مقصد یہ تھا کہ ایک ازلی ارادہئ ذاتی
کی پرستش کو منظم و منضبط کرے اور اس طرح نوع انسانی کی توجہ فرائض کی بجا آوری کی
طرف مبذول کرائے جو روحانی نشو و نما کا واحد طریقہ ہے۔ نسبتہً اسفل قوموں کو
اجتماعی اخلاق کی ایک بلند ترسطح پراٹھا کر اس نے ایک مستقل نظام کی منرورت دناو
پر ثابت کردی۔ ماانہ روی،پرہزکگاری،باہمی ہمدردی، انصاف پسندی او رمساوات کو خدا
کے احکام کی حتکر سے پشس کر کے اس نے
انہںح ان اوصاف کی تعلما دی۔ اس نے انسانی مساوات کا جو اصول قائم کاج او راس مںہ
جو اشتراکتح سے ملتا جلتا رجحان تھا وہ فکر انسانی کے اُسی پہلو کی نمائندگی کرتا
ہے جس کا اظہار گلیلی کے ساحل پرہوا تھا۔ لکنق اپنی رفعر ترین جذباتی کت و مںذ بھی مبلّغ اسلام نے کبھی انفرادی
صلاحت کی ان حدود کو فراموش نہںت کاب جو
معاشی عدم مساوات کا باعث ہوتی ہے۔
اسلام کے موجودہ نام لو
اؤں کی حالت پر افسو س ہے! جس طرح کلسات ئی ”آبائتن“(Patristicism) نے دین عسو ی کی
اصلی صورت کو مسخ کردیا تھا، اسی طرح علمائے ظاہر کی اندھا دھند تقلدا پرستی نے
اسلام کی حیکر روح کو جلوہ گرہونے سے روک
دیا ہے۔
ایک عسادئی خطبن نے دین
اور دیا طت کے باہمی اختلاف کو اور ان خرابویں کو جو ان دونوں کے التباس کی بدولت
عسوتی کلسا مںم پدبا ہوگئی ہںم بڑے پُرزور الفاظ مںد باؤن کار ہے۱؎۔جو کچھ عسای ئتم مںت
ہوچکا ہے وہی اسلام مں ہورہاہے۔عمل کی جگہ
زبانی اقرار کے ڈھونگ نے لے لی ہے۔نکُ اور پُرخلوص کاموں کو،یین ایسے کاموں کو جو خلق خدا کی بھلائی کے لےف،
نیہی کرنے کی خاطر اور حُبّ الٰہی کی وجہ سے کئے جائںن،خالی خولی رسم پرستی نے
معطّل کردیاہے۔ مذہبی جوش مردہ ہوچکا ہے او رخدا اور رسول صلی اللہ علہی وسلم کی
محبت ایک مہمل ترکب لفظی بن گئی ہے۔ وہ
ذوق وشوق جس کے بغرر انسانی زندگی بہائم کی زندگی سے بہتر نہںس،یینہ راست روی و
راست اندییا کا ذوق و شوق رخصت ہوچکا ہے۔آج کل کے مسلمان الفاظ کی محبت مںو مبتلا
ہوکر معافی سے غافل ہوگئے ہںی۔ معلّم اسلام نے جس مثالی نصب العنر کی تلقنی کی تھی
اس کے حصول کی جدّوجہد کرنے کی بجائے،نکون کار ی و اتقّاء مںغ ایک دوسرے پر سبقت
لے جانے مں کوشاں رہنے کے بجائے،خدا سے
محبت کرے اور اس کی خاطر انسانوں سے محبت کرنے کے بجائے،وہ موقع پرستی اور
ظاہرداری کے غلام ہوگئے ہںا۔پغمبرس خدا صلی اللہ علہن وسلم کے متبعنو اوّلنا کے
دلوں مںے اپنے ہادی کاجو احترام تھا ا س کے آئے دن کے طور طریقوں کا کامل تتبع
کرتے، اس کی حوارث سے مملوزندگی کے گزراں واقعات کو ایک مستقل حتنے بخش دیتے اور ایسے احکام،قواعد اور ضوابط کو جو
ایک نوزائدسہ معاشرے کے ہنگامی مسائل سے متعلق بنائے گئے تھے اپنے دلوں پر کالنقش
فی الحجر کرلتےو۔ لکنے یہ خاکل کرناپغمبر
اسلام صلی اللہ علہر وسلم کے ساتھ ناانصافی ہے کہ دناغ کے اس عظمش ترین
مصلح نے
۔۔۔۔۔۔۔۔
Professor Momerie in his
Defects of Modern Cheristianity
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عقل کی حاکمتت کے اس سب
سے بڑے حامی نے،اس شخص نے جس نے یہ اعلان کا
کہ اس کائنات پر ایک ضابطہ قواننھ مسلّط ہے اور دائمی ارتقاء آئن۔ فطرت کا
بناeدی تقاضا ہے،کبھی یہ
سوچاہوگا کہ اور تو اور اییم ہدایات بھی جو ایک نما مہذب قوم کی عارضی ضرورتںل
پوری کرنے کی خاطر دی گئی تھںا رہتی دناخ تک ناقابل تغّرہ سمجھی جائںہ۔
پغمبر اسلام صلی اللہ علہں وسلم سے بڑھ کر کسی شخص کو
اس امر کااحساس نہ تھا کہ اس ترقی پذیر دناو مںم جس کے اجتماعی و اخلاقی مظاہر
ہمشہن بدلتے رہتے ہںآ،نت نئی ضرورتںے پدلا ہوتی رہںم گی اور یہ ممکن ہے کہ اس پر
جو آسمانی آیات نازل ہوئںہ وہ تمام ممکن حالات پر منبطبق نہ ہوسکںت۔ حضرت معاذ رضی
اللہ عنہ کو حاکم یمن مقرر کام گات تو پغمبر
صلعم نے اس سے پوچھا کہ صوبے کے نظم و نسق مں وہ کس قانون کو اپنے دللج راہ بنائںہ گے۔حضرت
معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ”قرآن کے قانون کو“ پغمبر نے پوچھا ”لکنب اگر تمہںم قرآن مں کسی معاملے کے بارے مںہ کوئی ہدایات نہ ملںن تو
اس صورت مںک کاا کروگے“؟حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا۔”اس صورت مں مںق سنت نبوی صلی اللہ علہض وسلم پر عمل کروں
گا۔“ پغمبر نے پھر پوچھا۔”اور اگر وہ بھی
ناکافی ثابت ہو؟“ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔”تو پھر مںغ اپنی رائے سے
اجتہاد کروں گا۔“ پغمبر صلعم نے اس جواب
کو بہت پسند فرمایا او راپنے دوسرے مندوبنغ کو بھی اسی کے مطابق عمل کرنے کی تلقنی
کی۔
یہ جللی القدر معلّم اپنے
وقت کے مسائل سے پوری طرح واقف تھا۔ وہ خوب جانتا تھا کہ جن لوگوں سے اس سابقہ
پڑتا تھا وہ کس طرح اجتماعی و اخلاقی مایوسی کی دلدل مںے پھنسے ہوئے ہں ۔ چنانچہ
اپنے خدا داد تعمق نظر اور وسعت فکر کی بدولت اس نے اس امر کا ادراک کرلال، بلکہ
وہ کہنا چاہئے اس کی پشل گوئی کی کہ ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب اتفاقی و عارضی
ہدایات کر دائمی اورکلّی ہدایات سے متمائز کرنا ضروری ہوگا۔ اس نے اپنے پرسوؤں سے
خطاب کرکے اعلان کاو: تم لوگ ایک ایسے دورسے گذر رہے ہو کہ اگر تم احکام کے دسویں
حصّے سے بھی تغافل برتو تو برباد ہوجاؤگے۔ اس کے بعد ایک ایسا وقت آئے گا کہ اس
وقت جو احکام دیئے گئے ہںر اگر کوئی ان کے دسویں حصے پربھی عمل کرے گا تو اسے نجات
نصبا ہوجائے گی۱؎۔“
(حاشہگ صفحہ 306پر ملاحظہ فرمائںہ)
وعن ابی ھریرہ قال قال
رسول اللہ صلی اللہ علہی وسلم انکم فی زمان من ترک عشر ما امر بہ ھلک ثم یاتی زمان
من عمل منھم عشر ماامربہ نجا۱؎۔
جساا کہ ہم اوپر کہہ آئے
ہںہ،وہ لعنت جس مںص مسلمان قومںہ اس وقت گرفتار ہں معلّم اسلام کی تعلماتت کا نتجہ نہںا۔ دنا
کے کسی بھی مذہب مںا اسلام سے بڑھ کر نشو ونما کا مادّہ نہ تھا،کوئی بھی
مذہب اس سے زیادہ خالص یا نوع انسانی کے روز افزوں تقاضوں سے ہم آہنگ نہ تھا۔
مسلم جماعتوں کے موجودہ
جمود کا سب سے بڑا باعث یہ غلط خایل ہے جس نے مسلمانوں کی اکثریت پر قبضہ جما لاھ
ہے کہ اجتہاد ذاتی کا حق فقہائے قدیم پر ختم ہوگام اور اس زمانے مںت اس کا مشق
گناہ ہے۔ اسی کی ایک شق یہ خا ل ہے کہ ایک مسلمان صرف اس صورت مںہ صححک العقدےہ
خاہل کاے جاسکتا ہے کہ وہ آئمہ اربعہ مںگ سے کسی ایک کا مقلّدہواور اپنی ذاتی رائے
کو معطّل کر کے ایسے علماء کے احکام و اقوال پر اعتماد کرے جو نویں صدی عسوکی
مں زندہ تھے اور اور بسوای صدی کے مقتضیات
کا تصور بھی نہ کرسکتے تھے۔اہل سنت کا یہ عام عقد ہ ہے کہ چار اماموں ۱؎ کے بعد کوئی عالم دین
ایسا پدسا نہںو ہوا جو شریعت محمدی کی تعبرب و تفسرک کی قابلتم رکھتا تھا مسلمان
جن بدلے ہوئے حالات مںح آج کل زندگی بسر کررہے ہںی ان کا کوئی لحاظ نہںس کاد جاتا
اور خا ل کات جاتا ہے کہ جن نتائج پر یہ علما ئے دین آج سے صدیوں پہلے پہنچے تھے
وہ آج بھی جوں کے توں قائم ہں اور ان کا
اطلاق آج کے حالات پر بھی اسی طرح ہوتا ہے۔شعو ں مںت اخبار یوں کا فرقہ ذاتی رائے
کو مفسرین شریعت سے ایک قدم آگے بڑھنے کی اجازت نہںا دیتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(حاشہ۔ ۱؎
صفحہ305) یہ مستند روایت جامع ترمذی مں با
ن کی گئی ہے او رمشکوٰۃ مں بھی پائی جاتی
ہے۔
۱؎
ابوحنفہا،شافعی،مالک اور احمد بن حنبل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پغمبر اسلام صلی اللہ علہا وسلم نے فکر کوذہن انسانی
کا سب سے اہم اور سب سے اشرف وظفہپ کہا تھا۔ ہمارے مکتبی ارباب فقہ اور ان کے
غلامانہ ذہنتو۔ں والے مقلّدا سے برُوئے کارلانے کو گناہ اور جُرم قرار دیتے ہںر۔
جو کچھ عسارئو ں کے یہا ں
ہوا تھا وہ ہی مسلمانوں کے یہاں ہوا ہے۔ اس زمانے مں کثری التعداد مسلمانوں کا طریق زندگی اور کردار
اتنامعلّم اسلام کے ارشادات و تعلماات کے سانچے مںا نہںُ ڈھالا جاتا جتنا وہ
مجتہدین اور ائمہ کے نظریات و آراء سے متاثر ہوتاہے جنہوں نے اپنی اپنی استعداد
اور اپنے اپنے نظام فکر کے مطابق معلّم اسلام پر نازل شدہ آیات ربیّ کی ترجمانی کی
ہے۔ ان ترجمانوں کی تو یہ مثال تھی کہ گویا یہ ایک مجمع مںے کھڑے ہوکر ایک مبلّغ
کاخطبہ سن رہے تھے، جو ایک جم غفرت سے خطاب کررہا تھا اور جواپنے اونچے مقام پر سے
ایک وسع رقبے کو اپنے دائرہ نظر مںڑ
لے ہوئے تھا، لکنہ ان کی نظرصرف مجمع کے
ان افراد تک محدود تھی جو بالکل ان کے قریب کھڑ ے تھے۔ چنانچہ یہ لوگ مبلّغ کے
الفاظ کے وسعے تر معانی کو اور اس امر کو کہ اس کے مخاطب کس قسم کے لوگ تھے سمجھ
نہ سکے، جس کا نتجہت یہ ہوا کہ انہوں نے اس کے الفاظ کامطلب اپنے تنگ دائرہ نظر کے
اندر، یینا ان کے ذہنوں مںب انسانی ضروریات اور انسانی ترقی کا جو محدود تصور تھا
اس کے مطابق استباط کرلاغ۔ نہ تو انہںا معلّم اسلام کی تعلمارت کی ہمہ گرں ی کا
کوئی ادراک تھا، نہ ان مں اس کا سا جوش
روحانی تھا، نہ ان کو اس کا سا الہام میّسر تھا۔ نتیجتہً انہوں نے یہ فراموش
کردیاکہ اس نے اپنی خداداد فطانت کی بلند چوٹی پر سے ساری نوع انسانی کو مخاطب کاا
تھا۔ انہوں نے عارضی کو مستقل سے، اصولی کو فروعی سے اورجُزئی کو کلّی سے مخلوط
کردیا۔ عساائی کلسا ئونں کی طرح ان علمائے
فقہ مںو بہت سے ایسے تھے جو جابر اور مستبد بادشاہوں کے ملازم تھے، جن کے مطالبات
معلّم اسلام کے ارشادات سے مطابقت نہ رکھتے تھے۔چنانچہ نئے نئے قانون ایجاد کئے
گئے،نئے نئے نظریئے تراشے گئے، نئی نئی روایات ڈھونڈ نکالی گئںو،اور شارع کے الفاظ
کو ایسے ایسے معانی پہنائے گئے جو ان کے اصلی مفاہم کی ضد تھے۔ یہ اسی کا نتجہ ہے کہ جو قواعد و ضوابط آج کل مسلمانوں کے
ضمرروں پر حکمران ہںن ان مںا اکثر و بشترا ایسے ہں جو نصوص قرآنی پر مبنی نہںہ،بلکہ فقہ و دیار ت
کی ان کتابوں سے ماخوذ ہںب جن کی طغاانی قرون اُخریٰ کے دوران دنا ئے اسلام مںا
آئی تھی۔
”جس طرح عبرانووں نے عہد عتق
کی کتابوں کوبرطرف کر کے تلمود کو اختادر کاے۔“ ایک انگریز مصنّف کہتا
ہے:”اسی طرح مسلمانوں نے قرآن کو بالائے طاق رکھ کر روائتوں اور علمائے دین کے
فتووں کو اپنا رہبر بنا رکھا ہے۔“ ”ہمارا
یہ مطلب نہں۔“ وہ اس پر اضافہ کرتاہے ”کہ اگر کسی مسلمان سے پوچھا جائے کہ اس کے
مذہب کانصاب کااہے تو وہ قرآن کے سوا کسی اور کتاب کا نام لے گا۔ پھر بھی ہمارا یہ
مطلب ضرور ہے فی الواقع قرآن اس کے اعمال یا عقائد کی رہنمائی نہںہ کرتا۔ قرونِ
وسطی مںم نان عہد نامہ نہںہ،بلکہ ٹامس ایکو ئنام س کی سمّا تھویلوجیکا Summa
Theologica
’جامع دیا ست‘ عسوکی عقائد کے صواب و خطا کا معاتر تھی، او رکان موجودہ زمانے مںن
عسالئی گرجا کا کوئی رکن انجلوےں کی ذاتی چھان بنi کر کے حضرت عیسیٰ ؑ
کی تعلمارت سے اپنے عقائد اخذ کرتاہے؟ غالباً اگر وہ کسی تحریر سے رجوع کرتا بھی
ہے تو صرف گرجا کے سوا ل و جواب نامہ ہی سے یی
اس کے لئے کافی ثابت ہوتا ہے۔ اگر اس کی طبعتد مںگ چز وں کی ٹوہ لگانے کا
مادّہ ہوتو گر جا کے انتالسک ارکان سے اس کے تمام شبہات زائل ہوجاتے ہںے، لکن اگر اس سے پوچھا جائے تو وہ ییو کہے گا کہ اس
کا ضابطہ عقائد انجلوپں سے ماخوذ ہے اور وہ یہ کبھی تسلما نہں کرے گا کہ اس نے انجلوےں کے مضمون کا اکتساب کن
وسلورں سے کاہ۔ موجودہ زمانے کا اسلام بالکل اسی قسم کے طریقوں سے وضع کاو گا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے عقائد و اعمال کا
بشتر حصہ ایسا ہے کہ قرآن پر مبنی نہںا۔“
اس کے باوجود ہر مذہب خا
ل مںت اصلاح کی استعداد ہے اور اگر اس کی نشوونما مسدور ہوگئی ہے تو اس مںل ارباب
فقہ کا کوئی قصور نہںچ۔ اس کا باعث صرف یہ ہے کہ لوگ معلّم اصلی کے ارشادات کی روح
و رواں سے بگاےنہ ہوگئے ہںن بلکہ سچ پوچھئے تو علمائے سلف کے اقوال کو بھی سمجھنے
کی صلاحتص کھو بٹھے ہںر۔
مغربی دناو مںم دیی اصلاح کی تحریک The
Reformationکاپش
خمہت ثقافت کی نشاۃ ثانہ The
Renaissance
تھی۔ یورپ کی ترقی اس وقت شروع ہوئی جب اس نے کلساٹئتر کی بڑکیاں اتار پھںکسچ
۔دناثئے اسلام مںۃ بھی اصلاح روشن خاصلی کے بعد ہی آئے گی۔ اس سے بشترف کہ مذہبی
زندگی کی تجدید ہو، ضروری ہے کہ لوگوں کے ذہن اس غلامی سے آزاد ہوجائںل جو ان پر
صدیوں کی لفظی تفسراوں نے اور تلقید کے نظریئے نے عائد کر رکھی ہے۔ وہ ظاہریت جو
عبادت کرنے والے کے دل سے خطاب نہں کرتی
ترک کرنی پڑے گی۔ خارجی آداب کو باطنی جذبات کے تابع کرنا ہوگا، اور اخلاق کے سبق
دلوں پر نقش کرنے ہوں گے۔یہ سب کچھ ہوگا تو صرف اس صورت مںن اس کی امدا کی جاسکتی
ہے کہ پغمبرا اسلام کے سکھائے ہوئے فرائض کے بارے مںق نئے سرے سے ذوق وشوق پد
اہوگا۔ دنافئے اسلام مںا اصلاح اس وقت شروع ہوگی جب اس امر کا اعتراف کاک جائے گا
کہ کلام الہٰی چاہے کسی زبان مں ہو کلام
الہٰی ہی رہتا ہے اور خدا کا ذکر چاہے کسی زبان مںھ کاس جائے خدا کو قبول ہوتا
ہے۔پغمبر اسلام صلی اللہ علہل وسلم نے خود
اپنے ایک متبع غرن ملکی کو اپنی مادری زبان مںی نماز ادا کرنے کی اجازت دی تھی۱؎۔ییے نہں ، اس نے یہ
اجازت بھی مرحمت فرمائی تھی کہ اپنی زبان مںع قرآن کی تلاوت کای کریں، بلکہ اس نے
یہ بھی اعلان کای کہ قرآن سات قرآت مں
نازل ہوا تھا۔
اسلام کے قرون ادلیٰ مںص
اس بات پر اتفاق رائے تھا کہ فہم کے بغر
عبادت بے کار ہے۔امام ابوحنفہق کے نزدیک ایک نماز اورخطبہ کا کسی زبان مںن
پڑھنا جائز تھا۲؎۔
امام ابوحنفہ کے دو شاگردوں، یینب ابویوسف اور محمد، نے اپنے
استاد کی رائے تھوڑی سی ترممک کے ساتھ قبول کی ہے۔ وہ یہ کہتے ہںز کہ اگر کوئی شخص
عربی سے نابلد ہوتو وہ کسی زبان مںب نماز پڑھ سکتا ہے۲؎۔ لکنم ایک نہایت معقول
وجہ ہے جس کی بنا پر نماز کو عربی مں ادا
کرنے کا قاعد،جہاں تک ممکن ہو، جاری رکھا جاناچاہئے۔ وہ وجہ یہ نہںز کہ عربی
پغمبر اسلام صلی اللہ علہپ وسلم کی زبان
تھی، بلکہ یہ کہ وہ اسلام کی زبان بن گئی ہے اور ایک ایسا رشتہ ہے جو ساری اسلامی
دناد کو مربوط کئے ہوئے ہے۔ آخر وحدت سے بڑھ کر قّوت کس چز مں
ہوسکتی ہے۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ حضرت سلمان فارسی،جن کی جان حضرت علیؓ نے ایک
شرا ببر سے بچائی تھی، پہلے شخص تھے جنہںس یہ اجازت دی گئی۔
۲؎ جواہر الافلاط۔ ررّالمختار، باب الصلوٰۃ۔
یی رائے تخیس مںن ظاہر کی گئی ہے۔ تحتاری
کہتا ہے کہ امام کی رائے مستند اور واجب التقلید ہے۔شارع وزالمختار بھی فارسی مںب
نماز ادا کرنے کو جائز خا ل کرتا ہے۔
۳؎
علمائے حاضر اس کی تاویل یوں کرتے ہںا کہ کسی اور زبان مں نماز پڑھنے کی اجازت صرف ایسے شخص کو ہے جو
عربی الفاظ کا تلفظ ادا نہ کرسکتا ہو۔ اس تاویل کی کمزوری واضح ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: شارع اسلام نے اسراف
کے بارے مںص جوامتناعی احکام صادر کئے انہںک دو قسموں مںر تقسمن کاا جاسکتا ہے
یین کی ا اور کمی ہ۔کھانے پنے۔ مںس بے اعتدال کی ممانعت
اور اسی طرح کی اور ممانعتںے مؤخر الذ کرقسم کی ہںب۔ یہ کسی حد تک تو اس لے ضروری سمجھی گئںو کہ زوال رسد ہ شامویں اور
رومو ں سے ملا جول کے باعث عربو ں مںے ایک نمں مہذب قسم کی لذّت پرستی epicureanism پھلت گئی تھی او
رکسی حد تک چند ایسے حالات کی بناء پر جن کی جھلکیاں بحمل طور پر ہمںے قرآن مںذ
ملتی ہںر۔ جہاں تک سُور کے گوشت کاتعلق ہے اس کی ممانعت،جو کیفیّتی قسم کی تھی، صحت
کے ملاحظات کی بناء پر کی گئی۔ناچ کی ممانعت بالخصوص رندانہ داد باشانہ رقصوں کے
برخلاف تھی جن کے ذریعے مُشرکن عرب اپنے
شامی و نینیقی دیوتاؤMolock اور بعل Boal کی پوجا کان کرتے
تھے۔
-----------------
Related Article:
URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-27/d/124883
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism