New Age Islam
Sat Dec 14 2024, 06:07 AM

Books and Documents ( 24 May 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 1, Final Chapter 10, The Subject of Caliphate - Part 25 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دسواں باب، مسئلہ خلافت

سید امیر علی

(قسط 25 )

24 مئی 2021

واعتصمو ا بحبل اللہ جمیعا ولاتفّرقو!

وہ روحانی زندگی جو پیغمبر اسلامؐ نے اپنی قوم میں پھونک دی تھی آپؐ کی وفات کے ساتھ ختم نہ ہوگئی۔شروع ہی سے یہ ایک رکن ایمان تھا جہاں کہیں نماز با جماعت ادا کی جارہی ہو وہاں آپؐ روحانی طور پر موجود ہوتے ہیں اور آپؐ کے جانشین آپؐ کے روحانی نمائندے تھے۔ ہادی اسلام کی روح کا مسلمانوں کی نماز میں ہر جگہ موجود ہونا وہ رشتہ ہے جو انسان کی روح اورذات باری کے درمیان را بطہ قائم کرتا ہے۔ خاندانی رقابتو ں اور فرقہ وارانہ تنازعوں کے باوجود آپؐ کی روحانی موجودگی کے اس صوفیانہ تصّور نے دین اسلام کو ایک ایسی قوّت و سالمیت بخشی ہے جس کے بارے میں جتنا کچھ بھی کہا جائے کم ہے۱؎۔

ائمہ اہل بیت کے متبعین نے اپنا ہی ایک فلسفہ وضع کیا ہے جو اہل سنّت کے عقیدے سے بالکل مختلف ہے۔ ان کی رائے میں آنحضرتؐ کا ورثہ روحانی حضرت علیؓ کو ملا اور پھر حضرت فاطمہؓ کے بطن سے ان کی جو اولاد تھی اس کو ملا۔ ان کے نزدیک امامت بامرالہٰی سلسلہ بہ سلسلہ خاندانِ نبوی ؐ چلی آرہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  آنحضرتؐ کی روح کا نمازوں میں موجود رہنا قعطی اسلام کا رکن نہیں۔ تعجب ہے فاضل مصنف نے اسے آرٹیکل آف فیتھ کیونکر قرار دیا ہے۔ (ادارہ)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمانؓ کی خلافت کو برحق تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت علیؓ،جنہیں خود رسولؐخدا نے اپنا جانشین کہا، برنیائے حق پہلے خلیفۃ المسلمین او رامام المومنین تھے اور ان کی شہادت کے بعدروحانی پیشوائی ان کی اور حضرت فاطمہؓ کی اولاد نرینہ کو یکے بعددیگرے ملی،تاکہ یہ سلسلہ گیارھویں امام یعنی امام حسن عسکری تک پہنچا،جن کی وفات عباس خلیفہ معتمد کے زمانے میں 874ء یا 260ھ میں ہوئی۔ امام حسن عسکری کی وفات پر امامت ان کے بیٹے محمد المہدی کے حصے میں آئی، جو امامِ آخرالزماں تھے۔ خانوادہئ نبویؐ کے ان اماموں کی داستان بڑی دردناک ہے۔امام حسنؓ کے والد کو جابر متوکّل نے مدینے سے سامّرہ جلاوطن کردیا او رمرتے دم تک وہیں قید رکھا۔ اسی طرح متوکّل کے جانشینوں کے حسد و رشک کی وجہ سے امام حسنؑ مدتوں تک قید رہے۔ ان کا بیٹا،جو ابھی صرف پانچ برس کا تھا، انہیں تلاش کرتے کرتے ایک غار میں داخل ہوا جو ان کے گھر کے قریب ہی تھا۔ اس غار سے وہ پھر کبھی واپس نہ آیا۔ اس حادثہ دلگداز کی رقّت انگیزی اس امید کا سرچشمہ بنی جو شیعوں کے سینوں میں مدتوں تک زندہ رہی کہ یہ معصوم بچہ ایک دن واپس آکر دنیا کو فسق وفجور اور ظلم و ستم سے پاک کرے گا۔ چودھویں صدی عیسوی کے اوآخر میں،جب ابن خلدون اپنی عظیم کتاب کی تصنیف میں مصروف تھا، شیعہ لوگ شام کے وقت اس غار کے منہ کے سامنے جمع ہوکر اس بچے سے واپسی کی التجا ئیں کیا کرتے تھے۔ ایک طویل اورحسرت آگئیں انتظامیہ کے بعدوہ مایوس ہرکر اپنے گھرو ں کو واپس چلے جاتے تھے۔ابن خلدون لکھتا ہے کہ یہ ان کا آئے دن کا معمول تھا۔”جب ان سے کہا جاتا کہ بچے کا اتنی مدّت تک زندہ رہنامحال تھا تووہ جواب دیتے کہ اگر حضرت خضر زندہ رہ سکتے تھے تو ان کا امام کیوں زندہ نہ رہ سکتا تھا۔“ اس امام کواہل تشیع امام منتظر حجتہ اور قائم کے القاب سے پکارتے ہیں۔

مذاہب کا کوئی فلسفی مزاج طالب علم ضرور محسوس کرے گا کہ کیا شیعہ او رکیا سنی دونوں کے عقائد پُرانے عقائد سے ایک عجیب و غریب مشابہت رکھتے ہیں۔ زردشتیوں کے یہاں سلیوقی حکمرانوں کے جبرو تشدد سے خروج کرے گا او رانہیں غیر ملکی حکمرانوں کے پنجہ ستم سے رہائی دلائے گا۔ کچھ اسی قسم کے اسباب نے یہودیوں کے سینوں میں مسیحا کی آمد کی پُر تب وتاب امیدیں پیدا کیں۔یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ مسیحا کا ظہور ابھی نہیں ہوا۔ اسی طرح سُنیوں کا عقیدہ ہے کہ مسلمانوں کا نجات دہندہ ابھی پیدا نہیں ہوا۔ عیسائیوں کا ایمان ہے کہ نجات دہندہ ایک بار جاچکا ہے،لیکن دوبارہ آئے گا۔عیسائیوں کی طرح اثنا عشری امام مہدی کے ظہور ثانی کے منتظر ہیں، جو دنیا کو شراورظلم سے پاک کریں گے۔ ان تصورات کی اصل وابتداء او ران کے تنّوع کی وجوہات ایک ہی قسم کے اسباب میں ملتی ہیں۔جس دور میں امام مہدی کا تصّور وجداجدا صورتوں میں شکل پذیر ہوا، اس کے مظاہر ان مظاہر سے مشابہہ تھے جو قدیم تر مذاہب کی تاریخ میں رونما ہوئے۔ عیسوی اور یہو دی دنیا کی طرح دنیائے اسلام میں بھی ایک ہادیئ موعودکے آنے اور آکر دنیا کومعصیت اور مصیبت سے نجات دلانے کی دعائیں ہر شام گنبد نیلی میں گونجتی ہیں۔

شیعوں کا ایمان ہے کہ ان کا امام اگرچہ غائب ہے پھربھی ان کی عبادتوں میں روحانی طور پر موجود ہوتا ہے۔ مفسران شریعت اور پیشوایان وہین رو ئے زمین پر اس کے نائب ہیں۔ بلکہ سربراہان حکومت بھی دنیوی معاملات میں اس کے نمائندے ہوتے ہیں۔ ایک اور چیز جو سّنیوں او رشیعو ں میں مابہ الاختلاف ہے یہ مسئلہ ہے کہ امام میں کون کون سے اوصاف کا موجود ہونالازمی ہے۔ شیعوں کے نزدیک امام کو معصوم یعنی بری ازگناہ ہوناچاہئے اور ان کی رائے میں یہ وصف صرف ان کے آئمہ میں پایا جاتا ہے۔ علاوہ بریں وہ یہ کہتے ہیں کہ امام صرف وہی ہوسکتا ہے جو افضل البشر ہو۔

سُنّی عقائد،جو مسلمانوں کی اکثریت کی زندگیوں،افکار اور کردار پرحکمران ہیں، شیعہ تصّورات کی عین ضد ہیں۔سّنی شریعت اس پر مصر ہے کہ مسلمانوں کی نماز کو بارگاہِ ایزدی میں مقبول بنانے کی خاطر امام کافی الواقع جسمانی طور پر موجود ہونا ضروری ہے او رجہاں کہیں امام بذات خود موجود نہ ہوسکے وہاں اس کے ایسے نمائندوں کو موجودہوناچاہئے جو تمام لازمی صفات سے متصّف ہوں۔

یہ مسائل اکثر کُتب فقہ و دینیات میں بالتفصیل بیان کئے گئے ہی۔ خلافت کی تصریح یوں کی جاتی ہے کہ وہ رسولؐخدا کی نیابت ہے،بو اسلام کے دوام او راس کے قوانین اور قواعد وضوابطہ کی بجا آوری کو برقرار رکھنے کی خاطر حکم ربیّ سے مقدر ہے۔ چنانچہ اسلام کے وجودکو قائم رکھنے کے لیے لازمی ہے کہ اس میں ہر وقت ایک خلیفہ،یعنی آقائے اسلام کا قرار واقعی او ربلاواسطہ نائب،موجود ہو۔ امامت روحانی پیشوائی کا نام ہے،لیکن یہ مناسب ایک دوسرے سے جدا نہیں کئے جاسکتے۔ خلیفہئ بنی واحد شخص ہے جو جب کبھی ذاتی طور پر موجود ہو،نماز کی امامت کا حق رکھتا ہے۔ کوئی اور شخص یہ وظیفہ ادا نہیں کرسکتا،الاّ اس صورت میں کہ خلیفہ اسے بلاواسطہ یا بالواسطہ مندوب کرے۔ امام او رماموم (یعنی جماعت) کے درمیان ایک روحانی رشتہ ہوتا ہے جوانہیں اقرار دین میں ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کرتا ہے۔ یہ ایمانی اصول اس امر سے کہ اسلام میں پروہتوں کاکوئی طبقہ نہیں کوئی عدم مطابقت نہیں رکھتا۔ہر مسلمان بارگاہِ ایزدی میں اپنی وکالت آپ کرتا ہے او رہر روح کسی اور انسان کی وساطت کے بغیر خدا سے تعلق رکھتی ہے۔ امام نفرادی عبادت گذار اور صحیفہئ اسلام کے درمیان ایک کڑی ہے۔ دین اسلام کا یہ صوفیانہ عنصر اس کی حیرت انگیز وحدت وسالمیت کی بنیاد ہے۔

ہم نے اوپر جو کچھ کہا ہے اس سے ”دُرّالمختار“ کے اس بیان کی تائید ہوتی ہے کہ امامت دو طرح کی ہوتی ہے: امامت کبریٰ او رامامت صغریٰ،یعنی سب سے اونچے درجے کی پیشوائی اور نماز کی قیادت کا نسبتاً ادنی ٰمنصب۔امام کبیر سنّی دنیا کا خلیفہ ہوتاہے۔ اس کی ذات میں پیغمبراسلامؐ کے نائب کی حیثیت سے دینی و دنیوی اختیارات جمع ہوتے ہیں۔ امور دنیوی کا انصرام وہ یا تو شوریٰ کے مشورے سے کرتاہے،جیسا کہ خلافت راشدہ میں ہوا، یا،جیسا کہ بعد کے زمانوں میں ہوا،اپنے مندوبین کے ذریعے،جو اجتماعی طور پر یا انفرادی طور پر اس کے تفویض کئے ہوئے اختیارات سے کام لیتے ہیں۔ایسا ہی دینی و روحانی معاملات میں ہوتاہے،لیکن جہاں تک جماعت نماز کاتعلق ہے،اس پر واجب کہ ذاتی طور پر اس کی امامت کرے، الاّ اس صورت کے کہ وہ جسمانی طور پر معذور ہو۔

شعواں مں۔،عام نمازوں کا تو ذکر ہی کاذ، جمعہ اور عداین کی نمازیں بھی انفرادی طور پر اور خلوت مںو ادا کی جاسکتی ہںس۔سنوعں کے یہاں، اگر مسجد یا کوئی اور عبادت گاہ قریب ہوتو نماز باجماعت فرض ہے۔کسی معقول وجہ کے بغر  جماعت نماز مںن شریک نہ ہونا گناہ ہے اورجو شخص اس گناہ کے مرتکب ہوتے ہںد وہ بعض ملکوں مںا حکومت کی طرف سے بھی مستوجب سزا قرار پاتے ہںک۔ نجد مںی وہابونں کے تحت نماز سے جی چرانے والوں کو کوڑے مار کر مسجد مںگ لے جایا جاتا تھااور آج بھی ابن سعود کی حکومت مںز اس کے متبعنا،جواپنے آپ کو خوان کے لقب سے ملقب کرتے ہںک، مراسم دیی  کی بجا آوری اسی قسم کے طریقوں سے کراتے ہں ۔ چونکہ نماز باجماعت فرض عنک تھی اس لےپ امام کی موجودگی لازمی تھی۱؎۔

سُنوسں کا دعویٰ ہے کہ اپنی آخری علالت کے دوران رسولؐاللہ نے حضرت ابوبکرؓ کو اپنی جگہ نمازوں کی امامت کے لےق مقرر فرمایا۔ آپؐ کی وفات پر لکنک تجہزس و تدفن  سے پہلے حضرت ابوبکرؓ کی نامزدگی مجمع عام مںہ قبرل کرلی گئی او روہ بہ اجماعِ اُمّت مسند نشنے غلافت ہوگئے۔ اس وقت ییر طریقہ انتخاب سنوزں مں  مسلّم چلا آرہا ہے۔

منصبِ خلافت کے لےد جو صفات ضروری ہںو ان مںل سب سے اہم یہ ہںر کہ خلفہز اہل سنت و الجماعت سے ہو، اختاقر اعلیٰ کی اہلت  رکھتا ہو! کسی کا تابع فرمان نہ ہو۔ سنّی یہ تقاضا نہںا کرتے کہ امام المسلمنی کو معصوم یا افضل البشر ہوناچاہئے او روہ یہ بھی ضروری نہںت سمجھتے کہ وہ خاندان نبوی سے ہو۔ ان کے نزدیک یہ کافی ہے کہ وہ ایک خود مختار حاکم ہو،ذاتی معائب سے بری ہو۔نکن سر ت ہو اور امررسلطنت کے انصرام او رنماز کی امامت کی قابلت  رکھتا ہو۔ متقدمنک فقہا نے آنحضرتؐ کے ایک ارشاد کی سند پر ایک اور شرط شامل کرلی ہے جو اس عبارت کے اخرر مںے آتی ہے جو لوازم امامت کے موضوع پرکتب احادیث مںف پائی جاتی ہے: وہ یہ کہ امام قبیلہئ قریش سے ہونا چاہئے (الائمہ من قریش)۔اس شرط کے شامل کرنے کا مقصد جسار کہ درّ المختار اور روالمحتار دونوں مںں مذکور ہے، شعوتں کے اس دعوے کا باطل کرنا تھا کہ امامت خانوادہئ نبویؐ یین  حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کی اولاد تک محد ود تھی او رپہلے تنص خلفاء او راموی اور عبّای خلفاء کو مستحق خلافت ثابت کرنا تھا۔ عظمل فقہس و مؤرخ ابن خلددن نے، جو امرر تمودر کا ہمعصر اور جس نے 1406ء مں 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  اس معاملے مں6 تمام سنّی مذاہب کا مکمل اجماع ہے۔ فقہ مالکی کی جدّت کتاب کا مصنف خللی ابن اسحٰق اس ضمن مںئ جو قواننا شرعی بالن کرتا ہے وہ بالکل وہی ہںم جو حنفوضں او رشافعیوں کے یہاں مسلّم ہں ۔

۲؎  وہ طویل مدت تک قاہرہ کا مالکی قاضی القضاۃ رہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خاندان عثمانی کے مسند نشنق خلافت ہونے سے پہلے بہت پہلے وفات پائی، اپنے مقدمہّ مںم اس شرط سے بہت سری حاصل بحث کی ہے۔وہ اس روایت کی صحت سے جس پر یہ شرط مبنی ہے انکار نہںل کرتا، لکنہ کہتا ہے کہ یہ محض ایک سفارش تھی جوحالات وقت کی بنا پر کی گئی۔ وہ یہ بتانا ہے کہ اسلام دنال مں  آیا تو اس وقت قبلہد قریش عرب کے تمام قبائل مں، سب سے ترقی یافتہ اور صاحب اقتدار تھا اور جب آنحضرتؐ نے یہ سفارش کی یا یہ خواہش ظاہر کی کہ مسلمانوں کی دیین و دنوکی پشوئائی آپؐ کے قبلہا کے افراد تک محدود رہے تو آپؐکے پشب نظر وہ حالات تھے جو آپؐ کے وصال کے فوراً بعد رونما ہونے والے تھے اورآپؐ کا مقصد یہ نہ تھا کہ جانشینو کے بارے مںا کوئی لگابندھا قاعدہ نافذ کریں۔ اس وقت صرف قریش مںھ کوئی ایسا شخص مل سکتا تھا جومسلمانوں کا حاکم بننے کی اہلتن و قابلتں رکھتا تھا۔ صرف ییئ وجہ تھی کہ آنحضرتؐ نے قریش مں  سے خلفہے و امام منتخب کرنے کی سفارش کی۔ اس رائے کو، جو سنّی ماہرین فقہ مںج سے ایک فاضل ترین ماہر نے باہن کی ہے، تمام متاخرین قبول کرتے ہں ، او راس سے یہ مستبط ہوتا ہے کہ تمام دوسری شرائط کے پورا ہوجانے کی صورت مںت قانون امام کے انتخاب پر کوئی قبائلی یا نسلی حدود عائد نہںم کرتا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی وفات سے پہلے حضرت عمر ؓ کو اپنا جانشںے نامزد کا  اور اس تقرر کو جمعا المسلمنا نے جن مں  اہل بتو بنی بھی شامل تھے قبول کاو۔حضرت عمرؓ نے ایک عساوئی یا مجوسی مذہبی جوشلے  کے ہاتھوں،جسے اس عظم  خلفہا کے بعض احکام کے خلاف شکایت تھی، زخمی ہوکر شہادت پائی۔ انہوں نے جانبداری یا رو ر عایت کے الزامات کا سدِّباب کرنے کی خاطر وفات سے پہلے اپنے جانشن  کے انتخاب کے لے  چھ ممتاز مسلمانوں پر مشتمل ایک مجلس قائم کی تھی۔ ان لوگوں کی نگاہ انتخاب حضرت عثمانؓ پرپڑی،جو خاندان اُمہ  مں  سے تھے۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ اُمت کے اتفاق رائے سے مسند نشنک خلافت ہوئے۔ حضرت عثمانؓ کی المناک شہادت پر دامادِ نبی حضرت علیؓ جو شولفں کے رائے مں  بربنائے وراثت بلا واسطہ جانشنک نبی بننے کے حقدار تھے،خلفہم و امام بنے۔ حضرت علیؓ کی ذات مںا موروثی و انتخابی دونوں استحقاق جمع تھے۔ لکن  انہوں نے عہد عثمانی کے نظم و نسق مںد اصلاحی تبدیامنں کرنے کی کو ششںل کںا ان کی وجہ سے ان کی لاتعداد دشمن پداا ہوگئے۔ امرا معاویہؓ نے، جو اموی النّسب تھے اور عہد عثمانی مں۔ شام کے عامل تھے، حکم بغاوت بلند کاا۔ حضرت علیؓ بغاوت کو فرد کرنے کے لئے مدتان جنگ مںا آئے، لکنم ایک غرت فصلہ  کن لڑائی کے بعد کوفے کی جامع مسجد مںف نماز ادا کرتے ہوئے ایک قاتل کے ہاتھ سے شدنے ہوگئے۔ حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد وہ دور ختم ہوگا  جسے ابتدائی سنی فقہا و علمائے دین اس بناء پر ”خلافت کاملہ“ کے نام سے موسوم کرتے ہں  کہ ملّت کے اجماع رائے نے چاروں خلفاء کے استحقاق خلافت پر مہر تکملہ ثبت کی۔

حضرت علیؓ کی شہادت پر ان کے بڑے صاحبزادے حضرت امام حسنؓ کوفہ او راس کے ماتحت علاقوں کے لوگوں کے اتفاق رائے سے منصبِ خلافت پر مامور ہوئے، لکنؓ انہوں نے یہ منصب امرا معاویہ ؓ کو تفویض کردیا۔ شام کے لوگوں نے امر  معاویہؓ کے تقرّر کو قبول کرلاے۔ یہ 661ء کا واقعہ ہے۔

یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بنی اُمہا او ربنی ہاشم ایک ہی قبلےے یینو قریش کی دو شاخںو تھے۔ ان دو خاندانوں کے درمادن بڑی زبردست رقابت تھی جس کا دُور کرنا آنحضرتؓ کے سب سے بڑے مقاصد مںا سے ایک مقصد تھا۔خاندان ہاشم کے بانی ہاشم آنحضرتؐ کے جدّا مجد تھے۔ ہاشم کے بٹےؓ عبدالمطلب کے متعدد بٹےد تھے۔خلفائے عباسی ان مںے سے ایک یینم حضرت عباسؓ کی اولاد تھے۔ ہاشم کے ایک اور فرزند ابوطالب حضرت علیؓ کے والد تھے او رسب سے چھو ٹے،یینض عبداللہ آنحضرتؐ کے والد۔

امرد معاویہؓ بنو اُمہع کے پہلے خلفہ  تھے۔معاویہؓ کے پوتے کی وفات پر خاندان اموی کی حکمی شاخ کے ایک فرد مردان نے عہدہئ خلافت سنبھالا۔مردان کے بٹےھ عبدالملک او رپوتے ولدن کے عہد حکومت پر سنّی خلافت نے اپنی انتہائی دسعت حاصل کی۔ وہ بحر ادقاشنوس سے لے کر بحر ہند تک اور دریائے ٹیگس سے لکرد صحرائے اعظم اور حدود حبشہ تک پھیسن ہوئی تھی۔ 749ء مںل ابوالعباس سفّاح نے، جو عّم بنی حضرت عباسک کی اولاد سے تھا، اموی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور آخری اموی خلفہس مردان ثانی کی جگہ کوفہ کی جامع مسجد مںل لوگوں نے اس کے ہاتھ پر بعتا خلافت کی۔بعت، کے بعداس نے منبر پرچڑھ کر ایک خطبہ دیا، جو اس کے جانشنویں نے من وعن برقرار رکھا۔ یہ خطبہ عرب مؤرخنا ابن الاثرا کی کتاب مںل پوری طرح قلمبند ہے۔اس مںپ طویل طویل دلائل سے بنو عباس کے استحقاق خلافت کو ثابت کار گاد ہے۔ اب ابولعباس سنی دناا کاجائز فرمانروا او رسنّی مذہب کامسلّم پشوے ا بن گا ۔ اس کے پہلے چھ جانشنط نمایاں قابلت  کے لوگ تھے۔ جو ان کے بعد آئے ان کی قابلتا کے مختلف مدارح تھے،لکنس ان مںر سے بعض غرذ معمولی علم وفضل او راستعداد کے مالک تھے۔ سفاح کے بھائی منصور نے، جو اس کے بعد خلفہت ہوا، بغداد کی بنا د رکھی جو عباسوزں کامستقر حکومت بن گاب او عموماً دارالخلافہ اور دارالسلام کے ناموں سے موسوم کاا جاتا ہے۔ یہاں خاندان عباسی کو صدیوں تک کسی مخالفت کے بغرے دییں ودنوتی اختاار حاصل رہا۔ اس کے عظمل حریف،جن کا دارالخلافہ قاہرہ تھا، صلاح الدین ایّوبی کے زمانے مںہ صفحہئ ہستی سے مٹ گئے۔ قرطبہ کا شاندار اموی خاندان گاارھوی صدی عسونی کے اوائل مں، نا پدو ہوگا ۔الموحد، المرابطہ اور وہ متعدد بربر او رعرب خاندان جو المرابطہ کے زوال پر یکے بعد دیگر ے بر سراقتدار آئے سنّی مذہب کی پشوفائی کا کوئی واجب التسلمت حق نہ دیکھتے تھے۔ سنّی دنا  کی امامت پر عباسو ں کا حق بحرادقا نوس سے لے کر دریائے گنگا تک اوربحر اسود دریائے سیحو ں سے لے کر بحر ہند تک مسلّم تھا۔ 493ھ (1099ء) مں  الموحد فاتح یوسف بن تاشقنا نے زلاقہ کی عصر آفرین لڑائی کے بعد جس مںو عسابئی لشکروں کو فصلہ  کن شکست ہوئی، عباسی خلفہں مقتدی سے خلعت و علم اور امریالمسلمن  کا خطاب حاصل کاح۔ بعد مں  خلفہ  المستظہر نے اس کی توثقس کردی۔ یہ یاد رکھنے کے قابل بات ہے کہ نہ تو قرطبہ کے”خلفاء“ نے اورنہ زمانہ مابعد کے مسلم حکمرانوں نے خلۃسلالرّسوُلؐ ہونے کا دعویٰ کاا اور نہ امرص المومنن۔ کا خطاب اختاتر کاف۔

پوری پانچ صدیوں تک بغداد دنا ئے اسلام کی تمام ذہبی سرگرموہں کا مرکز رہااو ریہاں خلافت او ردوسرے امور دییی و دنوای کے بار ے مںں قواعد و ضوابط کو ایک منظم شکل دی گئی۔چنانچہ یہ تصور کہ خلفہ  و امام امور من اللہ نائب رسولئ تھا جمہور مسلمن  کی مذہبی زندگی کا ایک جزوالانیفک بن گاے۔ اس سے ظاہر ہے کہ سنّی عقائد کے مطابق خلہاد محض ایک حاکم دنوخی نہںر وہ ایک ملّت او ر دولت عامہ کامذہبی سربراہ ہے۔ یینر حکومت الہٰیہ کا قرار واقعی نمائندہ و نائب۱؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ سو۔طی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خَلافت عباسہی پانچ صدیوں تک قائم رہی۔ اس کا خاتمہ 1258ء مںی منگولوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی پر ہوا۔اس وقت مستعصم باللہ خلفہی تھا۔ وہ اس کے بٹے  او راس کے خاندان کے برگزیدہ افراد قتل عاممیحں ہلاک ہوگئے: خاندانِ عباسی کے صرف وہ افراد بچ پائے جو اس وقت دارالخلافہ مںل نہ تھے یا جن پر منگولوں کی نگاہ نہ پڑی۔

مستعصم باللہ کے قتل کے دو سال بعد تک سنّی دنا  ایک امام وخلفہہ کی ضرورت شدّت سے محسوس کرتی رہی۔خلفاء کے عرب مورخ۱؎ نے بڑے دردناک انداز مںپ با ن کای ہے کہ ملّت اسلامہک کے روحانی پشوما کی غرم موجودگی سے کتنا رنجوقلق پدلا ہوا او ر لوگوں نے کس شدت سے ایک غائب رسولؐ کی ضرورت محسوس کی جو ان کے لےق تسکنس قلب سے محروم تھںا جو ایک مسلّم امام کی موجودگی سے حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح مردوں کی ارواح کو ثواب پہنچانا ممکن نہ تھا۔سلطان ببرتس نے ساری سنّی دنا  کی طرح ایک خلفہم و امام کی اشد ضرورت محسو س کی۔ خلافت کاحق پانچ صدیوں کی مسلسل حکومت او راجماع اُمت کی بدولت خاندان عباسی کی ملکتی بن چکا تھا۔ چنانچہ اس خاندان کے ایک فرد ابوالقاسم احمد کو، جو منگولوں کے قتل عام سے بچ نکلا تھا، قاہرہ مںم آکر مسند خلافت سنبھالنے کی دعوت دی گئی۔ ابوالقاسم قاہرہ کے قریب پہنچا تو سلطان قاضیوں او راراکن  سلطنت کو ہمراہ لے کر اس کے استقبال کو گام۔مسند نشیکر کی رسومات بڑی شان وشوکت سے بجالائی گئںے۔پہلے تو قاضی القضاۃ کے سامنے ابوالقاسم کے سلسلہئ نسب کا ثبوت بہم پہنچا یا گات۔ اس کے بعد اسے مستنصر باللہ کے لقب سے مسند خلافت پر بٹھایا گال۔ سب سے پہلے خود سلطان ببراس نے اس کے ہاتھ پر بعت  کی، اس کے بعد قاضی القضاۃ تاج الدین او رمشائخ ووزراء نے سب سے آخر مںی درجہ بدرجہ عمائد سلطنت نے۔ یہ 12مئی 1261ء کا واقعہ ہے۔ نئے خلفہ  کا نام سکّوں پر مسکوک کرایا گاااو راس کے نام کاخطبہ پڑھوایا گاس۔ جمعہ کے دن خلفہا عباسو ں کو ساہہ ۲؎ روا اوڑھے ہوئے جلوس کے ساتھ جامع مسجد مںو آیا ا ور وہاں اس نے خطبہئ خلافت دیا۔ چونکہ اب خلفیۃالمسلمنس کی حتدن  سے اس کی مسند نشیحت مکمل ہوچکی تھی، اس لئے اس نے سلطان ببرمس کو مسند وخلعت عطا کر کے نائب السلّطنت مقرّر کا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  سو۔طی

۲؎  عباسویں کا امتارز ی رنگ ساطہ تھا۔اموریوں کاسفدث او رجانشینان بنی فاطموکں کا سبز۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس خلافت عباسہئ کی بنا د اس طرح قاہرہ مںس رکھی گئی وہ اڑھائی صدیوں تک قائم رہی۔ اس مدت مںس جو بادشاہ مصر پر حکمران رہے وہ مملوک سلاطن  کہلاتے ہں۔۔ ہر سلطان تخت نشنا ہوتے ہی خلفہا و امام الوقت سے سندحاصل کرتاتھا اوراپنے آپ کو اس کا نائب السّلطنت کہتا تھا۔مذہبی منصب داروں او رقاضیوں کا تقرر خلفہن کی باضابطہ منظوری سے ہوتا تھا۔ اگر چہ خلفہک کی ملکی اور سا سی طاقت سلب ہوچکی تھی، تاہم اسے اس قدر مذہبی وقار حاصل تھااو راس وقار کی ضرورت کااحساس سنّووں کے دلوں مںض اس قدر گہرا تھا کہ زوال بغداد کے بعد دو مرتبہ ہندوستان کے مسلمان بادشاہوں نے خلفائے عباسی سے سند ناربت حاصل کی۔تغلق آباد کے نامکمل شہر کے بانی سلطا ن محمد جو ناخاں تغلق نے 1343ء مں  خلفہو کے سفرق کا جوشاندار استقبال کاس اس سے ہمںر اس امر کا کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان مںب بھی جوان دلو ں مصر سے پورے چھ منولکں کی مسافت پر تھا۔منصب خلافت کاکتنا احترام کاا جاتا تھا۔ جب سفرا شہر کے قریب پہنچا تو سلطان سادات داراکنا کو ہمراہ لےس اسے خوش آمدید کہنے کو اپنے دارالسلطنت سے نکلا،جب خلفہن کا شُقّہ سلطان کو پش  کاا گا تو اس نے اسے انتہائی ادب کے ساتھ لاا۔ خلفہم کی سند ناابت نے سلطان کے اختا ر ات پر مہر جواز ثبت کردی۔ یہ سارا واقعہ مشہور شاعر بد رالدین چاچ نے ایک قصد ہ مںن باان کاب ہے۔

پندرھویں صدی عسو ی کے اوآخر مںب خاندان عثمانی کے سلطان سلمی اوّل (الملقب بہ سفّاح) کا ستارہ افق پر طلوع ہوا۔ اس سلطان نے دشمنان اسلام پربے شمار فتوحات حاصل کںص۔اورکوئی دوسرا مسلم بادشاہ یہاں تک کہ ایران مںل صفوی خاندان او رپہلی شعہس مملکت کا بانی شاہ اسماعلے بھی،عظمت و اقتدار مں  اس عثمانی سلطان کا ہم پایہ نہ تھا۔

پندرھویں صدی کے اواخر مںس مصر کے حالات بڑی حد تک دگرگو ں ہوچکے تھے اور بعد کے مملوک سلاطنّ کے زمانے مںا جو بدنظمی شروع ہوئی تھی وہ چند سال بعد اپنے عروج کو پہنچ گئی۔ مصریوں کے ایک طبقے نے سلمو کو دعوت دی کہ وہ آکر ان کے پراگندہ حال ملک مںہ امن وامان ازسرنو قائم کرے۔ سلمی نے نہایت آسانی سے نااہل مملوکوں کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا او رمصر کو اپنی قلمرومں  جو آگے ہی بہت وسعز تھی، داخل کرلات۔ اس وقت جو خلفہم نا بت رسُولؐپر مامور تھا المتوکل علی اللہ کے لقب سے ملّقب تھا۔ سنّی تواریخ کے مطابق اس خلفہق نے یہ محسوس کان کہ سلمم واحد مسلمان بادشاہ ہے جو امام کے مناصب دوگانہ کو اپنی ذات مںپ جمع کرسکتا ہے،خلافت اسلامہے کو نظری اوردونوں حتوخصرں سے از سر نو قائم کرسکتا ہے او رمؤثر طور پر اس منصب کے وظائف کو ادا کرسکتا ہے، چنانچہ اس نے 1517ء مں  ایک باضابطہ وثیقہئ تفویض کے ذریعہ فاتح عثمانی کو خلافت منتقل کردی اور اپنے تمام عمائد و اراکن  کے ساتھ اس کے ہاتھ پر بعتم کی۔ اسی سال شریف مکّہ محمد ابوالبرکات نے جو خاندان علوی سے تھا، خانہئ کعبہ کی کنجاپں ایک سںنے  کشتی مںا رکھ کر اپنے بٹےس کے ہاتھ سلطان سلمم کو بھجواا دیں اور اس کے بٹے  نے اس کی طرف سے سلطان سلم  کے ہاتھ بعتس بھی کی۔ سلمں کی ذات مںے تفویض اور بعت  کے ذریعے عباسویں کے حشوق جمع ہونے سے اور خاندان نبویؐ کے نمائندے او رمتولی حرمنط کے اس ہاتھ پربعت  کرنے سے عثمانی سلطان کے استحقاق خلافت پر مہر تکملھ ثبت ہوگئی۔”بالکل اسی طرح جس طرح حضرت علیؓ کی بعت  نے پہلے تن  خلفاء کے حق کی تصدیق کی تھی“۔ مکہّ و مدینہ مںت سلطان کے لےئ جو دعائںی مانگی گئں  او راس کے نام کے خطبے پڑھے گئے انہوں نے سلم  کے حق خلافت کو بالکل مسلم الثبوت بنادیا۔ اس وقت سے اس کا مستقرِ حکومت ”دارالخلافہ“ بن گام اور اسے اسلام بول کر نام دیا گا ۔ کچھ زیارت مدت نہ گزری تھی کہ سلم  او راس کے بٹےا سلماان ذی شان کے دربار مںہ سنّی مملکتوں کے حکمرانوں کی طرف سے حلف وفاداری اٹھانے کے لے۔ سفرب آئے۔چنانچہ اس طرح سنّوکں کے قول کے مطابق خلافت خاندان عثمانی کا ورثہ بن گئی جس پر وہ کسی مخالفت کے بغرح چار صدیوں سے قابض چلاآرہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related Article:

The Spirit of Islam Authored by Sayed Ameer Ali: An Introduction- Part 1 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: ایک تعارف

The Spirit Of Islam Authored By Sayed Ameer Ali: Preface – Pre Islamic Social And Religious Conditions Of The World- Part 2 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: مقدمہ ، اسلام سے پہلے اقوام عالم کے مذہبی اور معاشرتی حالات

The Spirit Of Islam: Preface- Social And Religious Conditions Of the Aryans- Part 3 روح اسلام: بعثت اسلام کے وقت آریہ قوم کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Sayed Ammer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions Of Iran Before Islam- Part 4 روح اسلام: اسلام سے قبل ایران کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions of the World Before Islam- Part 5 روح اسلام: اسلام سے قبل دنیا کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions of the World Before Islam- Part 6 روح اسلام: اسلام سے قبل دنیا کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Christian World روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی حالت

 Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Christian World-Part 8 روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی اور سماجی حالت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Arabs-Part 9 روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی اور سماجی حالت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Arabs-Part 10 روح اسلام: ماقبل اسلام عرب کی مذہبی اور سماجی حالت 

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Messenger of Allah -Part 11 روح اسلام: پہلا باب پیغمبر اسلام کی ابتدائی زندگی

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Prophet’s Life and Prophet-hood -Part 12 روح اسلام: رسول اللہ کی زندگی اور رسالت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Chapter 1- The Revelation of the Quran and Declaration of Prophethood -Part 13 روح اسلام:نزول وحی کی ابتدا اور اعلان نبوت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Life of The Prophet and His Companions In Early Days of Islam -Part 14 روح اسلام: مکی دور میں رسول اللہ اور صحابہ کی زندگی

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Life of The Prophet and His Companions In Early Days of Islam -Part 15 روح اسلام: مکی دور میں رسول اللہ اور صحابہ کی زندگی

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 2- The Prophet’s Migration Towards Madina Part 16 روح اسلام : دوسرا باب: مدینہ کی طرف رسول اللہ کی ہجرت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 3- The Prophet’s Life in Madina Part 17 روح اسلام : تیسرا باب: رسول اللہ کی زندگی مدینہ میں

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 4- Enmity Between Quraish and Jews-Part 18 روح اسلام : چوتھا باب ،قریش اور یہود کی دشمنی

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 5- The Attack of Quraish on Madina-Part 19 روح اسلام : پانچواں باب ، قریش کا مدینے پر حملہ

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 5- The Attack of Quraish on Madina-Part 20 روح اسلام : پانچواں باب ، قریش کا مدینے پر حملہ

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 6- Mercifulness and Kindness of the Prophet Muhammad pbuh-Part 21 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام : چھٹاباب، آنحضرتؐ کی رحم دلی

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 7, The Spread of Islam - Part 22 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، ساتواں باب ، اشاعت اسلام

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 8, The year of delegates - Part 23 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، آٹھواں باب ، عام الوفود

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 9, The Perfection of Muhammad’s Prophethood - Part 24 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، نواں باب ، رسالت محمدیؐ کی تکمیل

URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-25/d/124871

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..