غلام احمد پرویز
باب دھم ، حرف آخر
چارہ این است کہ
از عشق کشادے طلبیم
پیش اُو سجدہ
گذاریم ومرادے طلبیم
حرف آخر
آپ نے فکر انسانی کے
ہمرکاب بڑی لمبی مسافت طے کی ہے۔ شاید آپ تھک گئے ہوں اس لئے اب اگلی منزل کاسفر
اختیار کرنے سے پہلے تھوڑی دیر کے لئے سستا لیجئے ذرا لیٹ جائیے او رآنکھیں بند
کیجئے ۔ آپ دیکھیں گے کہ گذری ہوئی منزلیں او رطے شدہ مسافتیں ایک ایک کرکے آپ کے
سامنے آتی چلی جائیں گی۔ آپ نے یونان کے فلاسفروں سے لے کر دورِ حاضرہ کے مفکّرین
تک ہر ایک کے ساتھ کچھ وقت کے لئے باتیں کیں۔ آپ نے دیکھا کہ فکر انسانی نے کائنات
پر غور کیا تو پہلے اسے بے جان مٹی کا تو وہ خیال کیا۔لیکن اس کے بعد رفتہ رفتہ اس
خیال میں تبدیلی پیدا ہوئی اور وہ آخر الامر اس نتیجے پر پہنچا کہ جسے ہم بے جان
مٹی کا ڈھیر (مادّی دنیا) دیکھ رہے ہیں ، درحقیقت مٹی کا ڈھیر نہیں۔
طبیعیات:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی
اصل ،حرکت محض (PURE MOVEMENT) یا خالص توانائی ۔۔۔۔۔(ABSTRACT ENERGY) ہے۔ فکر انسانی اس
نتیجے تک تو پہنچ گیا ہے۔ لیکن اس کی سمجھ میں یہ نہیں آتاکہ اس حرکت محض یا خالص
توانائی کا سرچشمہ کیاہے اور اس میں گوناگوں نیز نگیاں اورطلسم درطلسم رعنائیاں کس
طرح پیدا ہورہی ہیں ۔آج فکر انسانی اس مقام پر متحیر کھڑی ہے۔
مابعد
الطبیعیات:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر آپ نے دیکھا کہ فکر انسانی نے زندگی اور شعور پر غور کیا
تو پہلے اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ سب کچھ بے جان مادہ میں میکانکی عمل ارتقاء سے
ازخود پیدا ہوگیا ہے۔لیکن اس کے بعد اس نے مزید تجربوں سے خود ہی اپنی رائے بدل لی
او راب اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ زندگی اور شعور مادہ کے میکانکی عمل کا ماحصل نہیں
ہوسکتے اس کا سرچشمہ کہیں اور ہے؟اس کا سرچشمہ کیا ہے؟ اس کے متعلق فکر انسانی
نہیں کہہ سکا ۔آج فکر انسانی اس مقام پر محو حیرت کھڑا ہے اور آگے بڑھنے کی کوئی
راہ نہیں پانا۔
اخلاقیات:۔۔۔۔۔۔ پھر آپ
نے دیکھا کہ فکر انسانی کے سامنے یہ اہم مسئلہ آیاکہ انسان پر اسی قدر مصیبتیں
کیوں آتی ہیں؟ یہ کیوں ایک مجبور و مقہور قیدی کی طرح زندگی کے لولہو میں
جُتارہتاہے ؟ بالآخر اس کا قصور کیا ہے؟ کائنات میں شرکی قوتیں اسطرح بدلگام کیوں
پھر رہی ہیں؟ ان کا علاج کیا ہے؟یہاں ہر طرف خیر ہی خیر کیوں نہیں؟ اس نے ان
سوالات کے مختلف حل سوچے کبھی اس حل کو درست سمجھا لیکن چار ہی قدم پر جاکر معلوم
ہوا کہ وہ حل بجائے خویش ایک معمہ ہے۔ اس نے اسے چھوڑ کر دوسرا حل تلاش کیا لیکن
چند قدم پر جاکر اس سے بددل ہوگیا۔ وہ چلتا چلاتا اس مقام تک پہنچا کہ خیر اسے
کہتے ہیں جو مستقل اقدار سے ہم آہنگ ہواور شر وہ جو ان سے موافقت نہ رکھے۔
لیکن یہاں پہنچ کر اس کے
سامنے یہ سوال اُبھر کر آگیاکہ مستقل اقدار کیا ہیں؟ وہ کیوں مستقل ہیں؟ ان کا
سرچشمہ کیا ہے؟ اسے ان سوالات کا کوئی اطمینان بخش جواب ابھی تک نہیں ملا۔ اسلئے
وہ اس مقام پر ہم تن استعجاب بن کر کھڑا ہے۔
سیاسیات:۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر
انسانی کے سامنے یہ مسئلہ آیا کہ جب انسانوں نے مل جل کر رہنا ہے تو ایسی کونسی
شکل پیدا کی جائے جس میں انسانوں کے مفاد ایک دوسرے سے نہ ٹکرائیں اور وہ امن
واطمینان کی زندگی بسر کرسکیں؟ یہ سوال بڑا ٹیٹرھا تھا اس لئے اسے اس کے جواب کے
لئے بڑی کدّو کاوش کرنی پڑی۔کبھی راستہ اختیار کیا ،کبھی وہ لیکن جو راستہ بھی
اختیار کیا اسے اس میں راہزن ضرو رملے۔ چلتے چلاتے اب وہ اس مقام تک پہنچا ہے کہ
ساری دنیا کے انسانوں کے لئے ایک قانون ہونا چاہئے او رایک ہی نظم ونسق (حکومت)
وہ اپنے اس حل سے ہنوز
مسکرانے بھی نہ پایا تھا کہ اس کے سامنے یہ سوال ہوا بن کرکھڑا ہوگیا کہ وہ
عالمگیر قانون کونسا ہوناچاہئے جو تمام نوع انسانی کے متضاد تقاضوں کو پورا کرسکے؟
ایسا قانون ملے گا کہاں سے اور اس کا کیا ثبوت ہوگاکہ وہ فی الواقعہ ایسا قانون
ہے؟ اس سوال نے فکر انسانی کو ایسا مبہوت کیا ہے کہ کہ وہ اس مقام پر ٹھٹک کررہ
گیا ہیے۔
معاشیات :۔۔۔۔اس سے ملتا
جلتا یہ سوال بھی فکر انسانی کے سامنے آیا کہ دنیا میں انسانی زندگی کی ضروریات کی
چیزیں (غذاوغیرہ) محدود ہیں او رانسان کی ہوس لامحدود ہے۔ اس لئے اس کا انتظار کس
طرح کیا جائے کہ ہر شخص کی ضروریات زندگی بھی پوری ہوتی رہیں او رمعاشرہ کا
کاروبار بھی نہ رُکے سوال تو یہ آسان تھا لیکن اس کے تسلی بخش حل کے لئے انسانی
فکر نے اس قدر چکر کھائے ہیں کہ اس کا بیشتر وقت اور توانائی اس کی نذر ہوگئے اور
اس کے باوجود اسے نہ حل ہونا تھا، نہ ہوا۔ یہ آج بھی ایک دوراہے پر کھڑا ہے جہاں
ایک طرف یہ کہا جاتاہے کہ ایک فرد اپنی محنت اور صلاحیت سے جس قدر کما سکے اسے اس
سے محروم کرنا عدل کے خلاف ہے اور دوسری طرف سے یہ آواز آتی ہے کہ نہیں ہر فرد سے
کام پورا پورا لینا چاہئے لیکن دینا اسے صرف اس کی ضروریات کے مطابق چاہئے ۔انسانی
فکر اس دورہے پر متحیر کھڑا ہے اور ۔
ہر اک سے پوچھتا ہے کہ
جاؤں کدھر کو میں
اندرونی تضادات :۔۔۔۔۔۔ان
تمام راستوں میں فکر انسانی کے سامنے گوناگوں رکاوٹیں آتی رہیں ۔ وہ ان رکاوٹوں سے
پریشان تو ضرور ہوا لیکن اپنی چوکڑی نہیں بھولا،وہ چوکڑی بھولا ایک ایسے راستے
جہاں باہر سے تو کوئی خطرہ اور رکاوٹ دکھائی نہیں دیتی لیکن اندر کی دنیا میں کوئی
ایسا چھلا وہ تھا جو دکھائی تو دیتا نہیں تھا مگر قدم قدم پر اس کا دامن پکڑ کر
بیٹھ جاتا تھا ۔اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ یہ اس کا حریف تازہ کون ہے
جو سامنے نہیں لیکن اس سے اس طرح وبال جان ہوکر لپٹا ہے کہ وہ کہیں جائے اس
کاپیچھا ہی نہیں چھوڑتا؟ یہ میدان تھا انسانی فکر اور اس کے داخلی جذبات کی کشمکش
کا۔ اس میدان میں فکر انسانی برُی طرح جھنجھلااُٹھا ۔ اس لئے اس کشمکش سے پیچھا
چھڑانے کے لئے کئی طریقے اختیار کئے لیکن کوئی کامیاب ثابت نہیں ہوا۔ وہ راستہ کی
سختی مسافت کی درازی کشمکش کی شدّت او راس جدید آویز ش کی مشقّت سے قدر گھبرا یا
کہ اس نے اپنا سفر چھوڑ کر کسی اور طرف چل دینے کا فیصلہ کرلیا۔
اس نے دیکھا کہ ایک طرف
یخ بستہ پہاڑ کے دامن میں ایک سہانا باغ ہے ۔ٹھنڈی چھاؤں سرد ہوائیں، پرُسکون
،خاموش ندی ، ہر طرف سکوت، بالکل سناٹا ،کہیں سے پتہ کھڑکنے تک کی بھی آواز نہیں
آتی ۔وہ کھینچا کھینچا اس طرف چلا گیااور جاتے ہی ایسا سویا کہ اسے نہ اپنی منزل کی
یاد باقی رہی نہ راستہ کا خیال۔
یہ سہانا ،پرکیف، ہوش
رُبا، سکوت افزا، باغ ہے اس باطنیت (MYSTICISM) کا جسے دور حاضرہ
کے تھکے ہوئے مغربی مفکّرین نے مذہب یا خدا کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ فکر انسانی نے
سمجھ لیا ہے کہ بس ! یہ ہے انسانی زندگی کی کشمکش کامقصود او ران تمام سوالات
کاایک مسکت جواب جن سے وہ اس طرح پریشان ہورہاتھا ۔ یہ ہے وہ مقام جہاں فکر انسانی
اس وقت پہنچ رہا ہے۔
باطنیت یا
مذہب:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن انسانی فکر کی زندگی میں یہ پہلا موقعہ نہیں کہ وہ اس قسم کے
سکوت افزا باغ حشیش کو زندگی کا منتہیٰ سمجھ بیٹھا ہے ۔ اس سے پیشتر بھی بارہا
ایسا ہوا ہے کہ وہ جب بھی زندگی کے سخت تقاضوں او ران کی صبر آزماکشمکش سے گھبرا
یا ۔ تو اس نے فراز کی راہ اختیار کی۔باطنیت (یعنی خدا او رمذہب کا انفرادی تصور)
اس راہ فرار کاآخری گوشہ ہے ۔لیکن خود فکر انسانی کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ یہ
گوشہ عافیت بھی انسانی فکر کے لئے کبھی زیادہ عرصہ تک وجہ سکون نہیں بن سکا ۔ کچھ
عرصے کے بعد جب اس کی تکان اُتری ہے تو اس نے پھر سے صحیح اطمینان اور حقیقی سکون
کی تلاش شروع کردی ہے۔ اس لئے مغربی فکر ‘اس وقت کشاکش حیات سے گھبرا کر، مذہب کے
جن فریب انگیز گوشوں میں سامان راحت تلاش کررہا ہے وہ اس کے لئے زیادہ وقت تک وجہ
سکون نہیں بن سکتے ۔ وہ کچھ دیر کے بعد پھر اس مثالی دنیا کی تلاش میں نکلے گا جس
میں ان سوالات کا صحیح معنوں میں اطمینان بخش جواب مل جائے جنہوں نے اسے ساری عمر
اس طرح مضطرب و بیقرار رکھا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہیں انسانی زندگی کے
مختلف سوالات (PROBLEMS) جن کے حل کی تلاش میں فکر انسانی نے اتنی مسافت طے کی ہے اور یہ
ہیں وہ مقامات جہاں پہنچ کر وہ اس وقت انگشت بدنداں کھڑا ہے۔ وہ اس کے بعد پھر آگے
بڑھے گا او ر پھر سفر شروع کردے گا۔ یہ چیز فکر انسانی کی تحقیر نہیں کہ وہ تلاش
حقیقت میں اس طرح مارا مارا کیوں پھررہا ہے ،فکر انسانی کی تمام کوششیں درخورِ
ہزار ستائش ہیں۔ اگر آپ نے یہ دیکھنا ہو کہ وہ شاہراہ زندگی پر کس قدر طوفانی
مسافت طے کرچکا ہے تو اس کے لئے آپ افریقہ کے حبشی یا امریکہ اور آسٹریلیا کے اصلی
باشندوں کو دیکھئے اوراس کے بعد عصر حاضر کے کسی بلند پایہ مفکر اور صاحب ایجادات
سائنٹسٹ کو ۔ ان دونوں کا ذہنی فرق آپ کو صاف صاف بتادے گا کہ انسانی فکر کتنی
لمبی راہیں چل کر یہاں تک پہنچا ہے اور اس کا یہ مسلسل تگ و تاز نوع انسانی کے لئے
کس قدر موجب فخر ناز ہے۔
انسانی فکر کی بنیادی
کمی:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن انسانی فکر کی بنیادی کمی یہ ہے کہ اس کا طریق کار تجرباتی ہے
۔ وہ اپنے لئے ایک راستہ تجویز کرتا ہے، اسے اس وقت کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ راستہ
اسے منزل مقصود کی طرف لے جائے گا یا ہلاکت کے غاروں میں دھکیل دے گا۔ اس راستہ کے
آخری نقطہ تک پہنچنے سے پہلے اس حقیقت کا معلوم کرلینا اس کے بس کی بات ہی نہیں
۔لہٰذا وہ ہر اس راستے پر جو اس کے سامنے آتاہے چل نکلتاہے۔اسے راستے میں رہزنوں
اور قزاقوں سے واسطہ پڑتاہے۔ جنگل کے درندوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کہیں وحشی
انسانوں سے مقابلہ ہوتاہے۔ ان تصادمات میں خون کی ندیاں بہ جاتی ہیں۔ انسانیت کی
ہڈیاں ٹوٹ جاتی ہیں ۔لیکن انسانی فکر آگے بڑھتا جاتاہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ
وہ راستہ اسے صحیح مقام تک لے جاتاہے لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اتنے لمبے سفر کے
بعد اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ راستہ تو کسی اور طرف جارہا ہے ۔ یہ ہیں وہ مقامات
جہاں انسانی فکر اکثر تھک کر بیٹھ جاتا ہے (جس طرح اب مغرب کی فکر اس قسم کی
پناہیں ڈھونڈ رہی ہے)۔
اصل سوال :۔۔۔۔۔۔۔سوال یہ
ہے کہ کیا انسانی فکر کو اس تجرباتی طریق پر چھوڑ دیا جائے یا اس کے علاوہ کوئی
اور طریق کار بھی ہے جس سے انسانیت اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکتی ہے؟ (یعنی اسے اس
مسائل کا قرار واقعی حل مل سکتا ہے جو اس کی زندگی کے تقاضے ہیں) ۔اگر انسان کے
پاس کوئی اور طریق کار ایسا نہیں جو اسے پورے یقین اور عافیت سے منزل مقصو د تک
پہنچا سکے تو پھر اس کے سوا چارہ ہی نہیں کہ انسانی فکر کو اس کے اپنے اختیار کردہ
تجرباتی طریق پر چھوڑ دیا جائے او راس سے جس قدرتباہیوں او ربربادیوں کا سامنا
کرنا پڑے انہیں صبر و سکون سے برداشت کیا جائے۔مجبوری کا دنیا میں علاج کیا ہے؟
لیکن اگر کوئی طریق کار ایسا ہے جس سے انسانیت ، ان تباہیوں سے بچ کر منزل مقصو د
تک پہنچ سکتی ہے تو کونسا پاگل انسان ایسا ہے جو اس راستے کو ترجیح نہیں دے گا؟
بس ! یہ ہے اصل سوال؟
انسانی فکر تو اپنے راستے
کے علاوہ کوئی اور راستہ جانتا ہی نہیں ۔ اس لئے وہ کسی دوسرے راستے کاپتہ نشان
بتا ہی نہیں سکتا۔البتہ ایک گوشہ ایسا بھی ہے جہاں سے یہ آواز آتی ہے کہ میرے پاس
فکر انسانی کی راہ نمائی کا سامان موجود ہے۔میری راہنمائی اسے بتاسکتی ہے کہ جو
راستہ اس کے سامنے ہے وہ اسے صحیح و سالم منزل مقصود تک لے جائے گا یا تباہی
وبربادی کے عمیق غاروں میں دھکیل دے گا۔اگر اس گوشے سے آنے والی آواز کا یہ دعویٰ
صحیح ہے تو پھر خود سلیم کا یہ تقاضا ہوناچاہئے کہ وہ اس راستے کو اختیار کرلے او
رمفت کی بربادیوں سے بچ جائے۔
یہ دعویٰ ہے قرآن کا۔
لیکن یہاں یہ سوال پیدا
ہوگا کہ یہ کیسے معلوم ہوسکے کہ قرآن کی رہنمائی فکر انسانی کو فی الواقعہ عافیت
کی راہوں سے صحیح وسالم منزل مقصود تک لے جائے گی اور ان مسائل کا حقیقی حل بتادے
گی جو اس کیلئے اس درجہ وجہ پریشانی بن رہے ہیں؟
یہ سوال بڑا اہم ہے لیکن
اس کا جواب بڑا صاف ہے۔ ہمارے سامنے فکر انسانی کی تاریخ موجود ہے۔ ہم یہ دیکھ
سکتے ہیں کہ وہ کون کون سی راہیں تھیں جن میں انسان کو تباہی او ربربادی کا سامنا
کرنا پڑا۔ اگر ہم یہ دیکھیں کہ قرآن نے پہلے ہی ان راہوں کے متعلق کہہ دیا تھا کہ
یہ بربادیوں کی راہیں ہیں تو یہ شہادت اس امر کی دلیل ہوسکتی ہے کہ آئندہ کے متعلق
جو کچھ قرآن کہے اس کی صحت وصداقت پر یقین کرلیا جائے۔ فکر انسانی کے لئے مستقبل
کے متعلق اس کے سوا او رکوئی دلیل ہوہی نہیں سکتی۔
لہٰذا ہمیں دیکھنا یہ
ہوگا کہ زندگی کے ان مسائل کے متعلق جن کا ذکر گذشتہ صفحات میں آپ کے سامنے
آچکاہے۔ قرآن کہتاہے تاکہ ہم اس کی روشنی میں فکر انسانی کے طے کردہ راستوں کا
مطالعہ کرکے آئندہ کے متعلق فیصلہ کرسکیں کہ اس سے کس طرح راہنمائی مل سکتی ہے؟
قرآن کی پیش کردہ صداقتوں
پر‘‘ ایمان لانے ’’ کا یہ طریق شاید آپ کو نیا سا نظرآئے لیکن یہ نیا نہیں یہ طریق
بھی خود قرآن ہی کا تجویز کردہ ہے ۔ وہ ماضی کے تجربات کو مستقبل کے فیصلوں کے لئے
دلیل بناتا ہے او راس طرح اپنے ہر دعوے کو علیٰ درجہ البصیرت منواتاہے۔
دوسری کتاب میں جس کی طرف
گذشتہ اوراق میں کئی بار اشارہ جاچکاہے قرآن کے اس عظیم دعوے کو اور اس کے ثبوت
میں اس کی فہم وبصیرت کو مطمئن کرنے والی دلیلوں کو پیش کیا جائے گا۔ آپ انہیں
بغور دیکھئے او راس کے بعد سوچئے کہ وہ کس حسن وخوبی سے انسانی فکر کی راہنمائی
کرکے اسے پرُامن راہوں سے منزل مقصود تک لے جاتاہے او راس کا یہ دعویٰ کس قدر
حقیقت پر مبنی ہے کہ ان راستوں پر چلنے والوں کو ‘‘ نہ کسی قسم کا خوف ہوگا نہ
حزن’’ لاخوف علیم ولا ھم یحزنون (2/62)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دوسری کتاب کا نام
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘اسلام کیاہے؟’’
اس کی تصریح مقدمہ میں کی
جاچکی ہے۔
اس سلسلہ کی میری انگریزی
زبان کی تصنیف۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ISLAM-- A CHALLENGE TO RELIGION)
کامطالعہ بھی مفید رہے گا
پرویز
------------
Part: 1- 'What did the man think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Preface—Part 1 انسان نے کیا سوچا
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism