(Human thought's attempts to
address the most significant aspects of life)
(زندگی کے اہم حقائق کے متعلق انسانی فکر کی کاوشیں)
غلام احمد پرویز
طلوع اسلام ٹرسٹ ۔ 25 ۔بی
گلبرگ 2
لاہور۔ 54660
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جملہ حقوق محفوظ
نام
کتاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان نے کیا سوچا
مصنف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پرویز
شائع
کردہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔طلوع اسلام ٹرسٹ (رجسٹرڈ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔B۔25 گلبرگ II لاہور۔54660
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔email:
trust@toluislam.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔web:
www.toluislam.com
ایڈیشن اول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1955ء
ایڈیشن
ششم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جنوری 2000ء (بلاترمیم)
مطبع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عالمین پریس،لاہور
(طلوع اسلام ٹرسٹ کی مطبوعات سے حاصل شدہ جملہ آمدن قرآنی فکر عام
کرنے پرصرف ہوتی ہے۔)
پیش لفظ
انسان دنیامیں رہتاہے اس
کے سامنے قدم قدم پر زندگی کے مسائل آتے ہیں ان مسائل کی نوعیت کتنی ہی مختلف او
ران کی شکلیں کیسی ہی متنوع کیوں نہ ہوں ان کاتعلق ان تین شقوں میں سے کسی ایک شق
سے ضرورہوگا یعنی(i) انسان اور خارجی کائنات سے متعلق مسائل ۔(ii) انسان اورانسان کے
باہمی معاملات اور (iii) انسان کی اندرونی دنیا کی کشمکش۔ ان مسائل کے حل کے لئے انسان کو
عقل وشعور اورفہم وفراست کی قوت دی گئی ہے۔ انسان کی پوری تاریخ ،عقل کی ان کوششوں
کی داستان ہے جو اس نے ان مسائل کے حل دریافت کرنے کے سلسلے میں کی ہیں عقل کی ان
کوششوں کی داستان ہے جو اس نے ان مسائل کے حل دریافت کرنے کے سلسلے میں کی ہیں عقل
کاطریق تجرباتی ہے ۔وہ مسئلہ پیش نظر کے لئے ایک طریق تجربتاً اختیار کرتی ہے۔اس
میں بے حد محنت صرف ہوتی ہے۔ وقت لگتا ہے جانیں ضائع ہوتی ہیں ۔بعض اوقات خون کا
ندیاں بہہ جاتی ہیں ۔بستیوں کی بستیاں تباہ ہوجاتی ہیں۔ قوموں کی قومیں ہلاک
ہوجاتی ہیں ۔پھر کہیں صدیوں کے بعد جاکر معلوم ہوتا ہے کہ وہ تجربہ کیسا رہا۔اکثر
اوقات وہ تجربہ غلط ثابت ہوتا ہے ۔اس لئے انسانی فکرکو ایک نیا تجربہ اختیار
کرناپڑتا ہے۔ اگر وہ کامیاب ثابت ہوتاہے تو جس وقت اس کی ابتداء ہوئی تھی اس وقت
سے لے کر اس کی آخری منزل تک پہنچتے پہنچتے دنیا کے آگے نکل چکی ہوتی ہے۔اس کے
تقاضوں میں تبدیلیاں پیدا ہوچکی ہوتی ہیں اس لئے انسانی فکر کو اپنے فکر کو اپنے
تجربے پرمزید اضافے کرنے پڑتے ہیں ۔عقل انسانی اس طرح رفتہ رفتہ بتدریج ، منزل بہ
منزل ،طبقاً عن طبق تجرباتی طریق سے زندگی کے مسائل کے حل میں آگے بڑھتی آرہی
ہے۔خون کے دریا پیرتی ،آگ کی خندقیں پھاندتی ،مصیبتوں کے پہاڑوں پر سے گذرتی
،مشکلات کے سمندروں کو عبور کرتی، ٹھوکریں کھاتی ، ہڈیاں تڑواتی،اپنے ہمت شکن اور
حوصلہ فرساسفر کو طے کرتی چلی آرہی ہے۔
ایک مکتب فکر یہ کہتاہے
کہ چونکہ انسان کے پاس عقل کے علاوہ اور کوئی ذریعہ علم نہیں اس لئے اس کے سوا اور
کوئی چارہ کارنہیں کہ انسان ان تمام جگر سوز مشقتوں کو برداشت کرے او رناکام تجارب
کی صعوبتیں برداشت کرتا ہوا ،عقل کی رہنمائی میں زندگی کا سفر کرتا رہے۔
لیکن ایک دوسرا گروہ ہے
کہ جو یہ کہتاہے کہ زندگی کے مسائل کے لئے انسان کو تنہاعقل کے تجرباتی طریق کے
سپرد نہیں کیا گیابلکہ ایک اور ذریعہ علم بھی ہے جس کی رو سے یہ صحیح اورغلط راستے
میں فوراً امتیازکرسکتا ہے۔ اس طرح ناکام تجارب کی مصیبتوں سے بچ کر امن دعافیت سے
منزل مقصودتک پہنچ سکتا ہے۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ انسان اس قدر جان کا مشقتو سے بچ
جاتا ہے بلکہ جوراستہ عقل کے ناکام تجارب کی رو سے صدیوں میں طے ہوتا تھا، وہ چند
لمحوں میں طے ہوجاتا ہے۔
طے شو د جادۂ صدسالہ بآ
ہے گاہے
لیکن یہ ذریعہ علم ہر
انسان کے اندر اس طرح وویعت کرکے نہیں رکھ دیا گیا جس طرح حیوانات میں جبلّت (Instinct) ہے۔ اس کاعلم خاص
خاص افراد انسانیہ کی وساطت سے نوعِ انسانی کو دیا گیا ہے اس کانام وحی ہے ۔اگر
انسانی عقل (ناکام تجرباتی طریق کار کی بجائے) وحی کی روشنی میں شاہراہِ زندگی پر
گامزن ہوتو جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے ،انسان بیحد مشقتوں سے بچ جاتا ہے اور اس کی
تمام توانائیاں (جو اس کی ناکام تجارب کی نذر ہوجاتی تھیں) زندگی کے تعمیری نتائج
مرتب کرنے میں صرف ہوتی ہیں اور اس طرح انسانیت برق رفتاری سے اپنی منزل مقصودکی
طرف بڑھتی چلی جاتی ہے۔
وحی عقل انسانی کو مرد
ودقرار نہیں دیتی نہ ہی اس کی تحقیر وتذلیل کرتی ہے۔ وہ عقل کا بڑاحترام کرتی ہے
وہ کہتی ہے صرف یہ ہے کہ جس طرح انسانی آنکھ کے لئے سورج کی روشنی کی ضرورت ہے اسی
طرح عقل کے لئے وحی کی روشنی کی ضرورت ہے۔تنہا عقل کی رو سے زندگی کے معاملات کا
حل تلاش کرنے اور اس تلاش میں عقل کو وحی کی روشنی میں چلانے کافرق ایسا ہی ہے
جیسا ایک اندھے اورآنکھوں والے کا ، نئے نئے راستوں پر سفر کرنے کافرق۔
یہ ہے اس دوسرے گروہ
کادعویٰ
ان دونوں گروہو کے نقاطِ
نظر کومعلوم کرلینے کے بعد اب آگے بڑھئے۔ جس مقام پر ہم آج کھڑے ہیں،اگر وہاں تک
پہنچ کرعقل انسانی (ہزارنام تجارب کے بعدہی سہی) انسانی زندگی کے تما م مسائل کا
حقیقی حل دریافت کرچکی ہے تو پھر یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ انسان کوعقل کی راہ
اختیار کرنی چاہئے یا وحی کی ،وحی کامنشا بھی تو زندگی کے مسائل حل کرناتھا۔ وہ
مسائل اگروحی کی مددکے بغیر حل ہوچکے ہیں تو معاملہ ختم ہوا ،اب عقل اور وحی کی
بحث ہی بیکار ہے۔
لیکن اگر انسان عقل ابھی
تک زندگی کے مسائل کا حقیقی حل دریافت نہیں کرسکیاور ہنوز اپنے تجربات کے بھنورہی
میں سرگرداں ہیں۔تو پھر یہ سوال واقعی قابل غور ہے کہ انسان اسی طریق کار کو جاری
رکھے یا وحی کے دعوے کوبھی آزمادیکھے۔لہٰذاسب سے پہلا غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا
آج عقل کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ تمام انسانی مسائل کااطمینان بخش حل دریافت کرچکی ہے۔
اگرعقل کا اعتراف یہ ہوکہ
وہ ابھی تک ان مسائل کاحل دریافت نہیں کرپائی تو پھر دوسرا سوال یہ پیدا ہوگاکہ
وہی کے اس دعوے کاثبوت کیا ہے کہ اس کی راہ نمائی ان مسائل کاحقیقی حل پیش کردے
گی؟
وحی کی طرف دعوت دینے
والوں کیلئے ان دونوں کاسوالوں کااطمینان بخش جواب دیناضروری ہے یعنی ان سوالوں
کاجواب کہ کیاعقل انسانی مسائل حیات کا حل موجود ہے! اس کے بغیر وہ دنیاسے علیٰ
وجہ البصیرت وحی کی صداقت کونہیں منواسکتے۔ اس کے لئے ضرور ی ہے کہ پہلے انسانی
زندگی کے اہم اوربنیادی مسائل کو متعین کیا جائے اور اس کے بعد یہ دیکھاجائے کہ ان
علوم وفنون کے جوائمہ فکر آج موجودہیں، ان کاکیادعویٰ ہے؟ کیا ان کا یہ دعویٰ ہے
کہ ان مسائل کو اطمینان بخش حل دریافت ہوچکا ہے یا وہ ان ناکام تجارب کے ہاتھوں
خود نالاں ہیں اور ان کے حقیقی حل کی تلاش میں سرگرداں وحیراں ۔اس سے ہمیں پہلے
سوال کاجواب مل جائے گا۔ باقی رہادوسراسوال سو اس کے لئے یہ دیکھنا ہوگا کہ فکر
انسانی نے جوتجربے اختیار کئے اور وہ آخرکارناکام ثابت ہوئے ،ان کے متعلق وحی نے
کیا کہہ رکھاتھا اگر ان کی بابت وحی نے پہلے ہی کہہ رکھا ہو کہ ان تجربوں کانتیجہ
تعمیرہی نہیں تخریبی نکلے گا ، تو اس سے ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ وحی کی
روشنی فی الواقعہ عقل کو ان مصیبتوں سے بچاسکتی ہے جو اسے ناکام تجارب کے ہاتھوں
اٹھانی پڑتی ہیں۔
میں نے قرآن کو اسی انداز
سے سمجھا ہے اور اس کی صداقتوں پر اسی طریق سے ایمان لایا ہوں ظاہر ہے کہ یہ ایک
دن کا کام نہ تھا۔ میں نے اپنی پوری زندگی اس میں صرف کردی ہے۔ میں نے انسانی
زندگی کے اہم مسائل میں سے ایک ایک مسئلہ کو لیا اور یونان کے فلاسفروں سے لے کر
اس وقت تک ان کے متعلق مختلف ائمہ فکر نے جو کچھ کہا ہے اس کابغائرمطالعہ کیا۔ اس
طرح ایک ایک مسئلہ کے متعلق انسانی فکر کے اہم گوشے میرے سامنے آگئے۔ اس کے بعدمیں
نے انسانی فکر کی اس اڑھائی ہزارسال کی کدو کاوش کامطالعہ قرآن کی روشنی میں کیا(
یا قرآن کامطالعہ اس فکر کی روشنی میں) ۔ قرآن کااس طرح مطالعہ کرنے کانتیجہ یہ
نکلا کہ اس کا ایک ایک دعوےٰ زندہ حقیقت بن کر سامنے آگیا۔ اس کے بعد میرے لئے
زندگی کے مختلف مسائل کے متعلق قرآن کی رہنمائی کاتعین کچھ مشکل نہ رہا۔مجھے قرآن
کی صداقتوں پر جویقین اس طرح حاصل ہوا ہے، وہ نہ زبان سے بیان ہوسکتا ہے نہ قلم سے
ادا،میں اس نعمت کبریٰ پر (جومیرے نزدیک ساری دنیاکی نعمتوں سے بلندہے) علم و
ایقان کے اس سرچشمہ حقیقی کی بارگاہ صمدیت میں قدم قدم پر سجدہ ریزہوں کیونکہ اس
کی عطا کردہ توفیق(وجنون) کے بغیر اس مسافت کاقطع کرنامیرے حیطہ تصور میں بھی نہیں
آسکتا تھا۔
مدّت سے میراجی چاہتا تھا
کہ جس انداز سے میں نے قرآن سمجھا ہے،اس میں دوسرے ارباب ذوق و فکر کو بھی شریک
کرسکوں لیکن یہ مرحلہ بجائے خودبڑا ہمت طلب تھا، علاوہ دوسری مشکلات کے اس میں ایک
وقت یہ بھی پیش آگئی کہ تقسیم ہند کے بعد، کم وبیش وہ تمام کتابیں جن سے میں نے
فکر انسانی کے مختلف گوشوں کامطالعہ کیاتھا، ہندوستان میں رہ گئیں اور میرا انحصار
بیشتر ان یادداشتوں پر رہ گیا جو میں نے وقتاً فوقتاً اپنے پاس رکھ لی تھیں، یہاں
آنے کے بعد ان کتابوں میں سے اکثر ایسی تھیں جن کے آسانی سے مل سکنے کاسوال ہی
پیدا نہیں ہوتا تھا تقسیم کے بعد بھی ان عنوانات پر جو کتابیں شائع ہوئیں وہ یہاں
کسی لائبریری میں نہیں مل سکتی تھیں۔ اس لئے انہیں ( اپنی بساط کے مطابق) ذاتی طور
پر منگاناپڑا۔ یہ مواقع ہمت شکن تھے۔ لیکن مقصد پیش نظر کی اہمیت بار بار تقاضا
کرتی تھی کہ اس کتاب کامرتب کرنانہایت ضروری ہے۔ بالآخرمقصد کی اہمیت مواقع پرغالب
آگئی اوربتوفیق ایزدی یہ کتاب مرتب ہوگئی۔ باوجودضروری کتابوں کی عدم موجودگی کے
میرے پاس مسالہ (MATERIAL) اتناتھا کہ اس سے ہرعنوان،ایک مستقل تصنیف بن سکتا تھا لیکن
چونکہ میرامقصد ان مسائل پرمستقل تصانیف مرتب کرنانہیں تھا اس لئے سارے مسالہ میں
سے صرف اتناحصہ لیا گیا جسے ضروری سمجھا گیا۔شروع میں میراارادہ یہ تھا کہ فکر
انسانی کی ان کوششوں کا ذکر اور اس کے بعد مسائل حیات کے متعلق قرآن کی تصریحات
ایک ہی جلد میں آجائیں لیکن اس انتخاب و اختصار کے باوجود فکر انسانی کے متعلق حصہ
ہی اتناضخیم ہوگیا کہ اس میں قرآنی تصریحات کی گنجائش نہ رہی۔لہٰذا کتاب کو دو جلد
وں میں تقسیم کردیناپڑا۔ جلد اوّل کاعنوان ہے،‘‘ انسان نے کیا سو چا؟’’ اور جلد
دوم میں یہ بتایا جائے گا کہ ان مسائل کے متعلق ‘‘خدا نے کیاکہا۔’’ ان دونوں جلدوں
کی میری مسلسل تصنیف معارف القرآن کے سلسلہ ہی کی ایک کڑی سمجھئے۔
جلد پیش نظر کے ضمن میں
دو ایک امور کی صراحت ضروری ہے۔ایک تو یہ کہ مسائل متعلقہ کے ضمن میں جو کچھ
لکھاگیا ہے اس سے مقصود ان مسائل کی فکری تاریخی نہیں ،مقصود صرف یہ بتاناہے کہ
انسانی فکر نے ان مسائل کے متعلق عام طور پر کیا سوچا ہے اور وہ آج کس مقام پڑ
کھڑا ہے۔دوسرے یہ کہ کسی ایک شخص کے لئے (اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور) ہے کہ وہ
زندگی کے تمام گوشو ں سے متعلق علوم وفنون پر منتہیانہ نگاہ رکھتا ہو۔ میں نے ان
مختلف علوم کامطالعہ ایک طالب علم کی حیثیت سے از خود کیا ہے۔ میرے مطالعہ میں
غلطی کابھی امکان ہے اور سہو کابھی۔ لہٰذا آپ آئندہ اوراق کامطالعہ کرتے وقت اس
حقیقت کو نظر انداز نہ کریں اورجہاں آپ کو کوئی بات غلط نظر آئے مجھے اس سے مطلع
فرمادیں۔ اس نقطہ کو بھی پیش رکھے کہ اس کتاب میں میرا مخاطب طبقہ وہ نہیں جو ان
علوم وفنون کاماہر ہے۔میرنے اوّلین مخْاطب وہ لوگ ہیں جو ان علوم سے واقف نہیں اس
لئے میں نے کوشش کی ہے کہ اسلوب بیان ایساطالب علمانہ رکھاجائے جس سے ایکبتدی بھی
بات سمجھ سکے۔
بعض احباب ‘‘معاشیات’’ سے
متعلق باب میں تشنگی محسوس کریں گے۔ اس وجہ یہ ہے کہ معاشیات پر میں ایک الگ کتاب
‘‘نظام ربوبیت’’ شائع کرچکا ہوں اور ‘‘ذاتی ملکیت’’ کے تصور کے متعلق ایک جداگانہ
کتاب کی تصنیف میرے زیرنظر ہے۔ ان کتابوں سے معاشیات کے باب کی کمی کی تلافی
ہوجائے گی۔
جو حضرات مغربی علوم سے
براہ راست واقف نہیں ان کے لئے میری اس کوشش ناتمام کی افادیت واضح ہے۔ میں چاہتا
تھا کہ یہ حضرات (جو قرآن سے ذوق رکھتے ہیں)معلوم کرسکیں کہ ان کے زمانے کے تقاضے
کیا ہیں اور ان کے متعلق انسانی فکر نے کیا کچھ سوچا ہے اورعقل انسانی آج کس مقام
پر کھڑی ہے اس لئے کہ میرے نزدیک ، قرآن کو کبھی سمجھا نہیں جاسکتا جب تک ہم اپنے
زمانے کے تقاضوں کو نہ سمجھ لیں۔ اس کتاب عظیم (یعنی قرآن) کی نوعیت عجیب وغریب ہے
۔ اس نے انسانی زندگی سے متعلق ابدی حقائق کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ اس سے ہر
زمانے کے انسان اپنے اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں ۔ اور
جوں جوں زمانہ آگے بڑھتا جاتا ہے اس کے حقائق منکشف ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے
کہ کسی ایک دورکافہم قرآن ہمیشہ کے لئے راہنمائے حیات نہیں بن سکتا۔ یعنی قرآن کو
مستقل راہنمائی کا سامان اپنے اندر رکھتا ہے۔ لیکن مختلف زمانوں کے انسان اپنے غور
وفکر سے جو راہنمائی اس سے حاصل کرتے ہیں، وہ ان کے زمانے کے تقاضوں اور اس زمانے
کی علمی سطح کے مطابق ہوتی ہے۔اسے ابدیت کی حیثیت حاصل نہیں ہوسکتی۔بنا،بریں ’ جو
لوگ چاہتے ہیں کہ قرآن سے رہنمائی حاصل کریں ان کے لئے ضروری ہے کہ اپنے زمانے کے
تقاضوں اور اس دور کی فکری کاوشوں سے متعارف ہوں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ محنت
اور کاوش ان حضرات کے سامنے ایک نئی دنیا کا باب کھول دے گی اور ان معلومات کے بعد
وہ قرآن کوبہتر انداز سے سمجھ سکیں گے۔
باقی رہے وہ حضرات جو
مغربی علوم سے واقف ہیں ، سو ضروریات زمانہ ہر شخص کو اتنی فرصت کہاں دیتی ہیں کہ
وہ مختلف گوشوں کے علوم وفنون کامسلسل مطالعہ کرسکے۔وہ زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتا
ہے کہ (اگرچہ اتناکچھ کرنے والے بھی بہت کم ملتے ہیں)کہ انہیں جس خاص شعبے سے ذوق
وشغف ہے اس میں مسلسل مطالعہ جاری رکھیں ۔لہٰذاایسے حضرات کے لئے میری یہ کوشش اس
لئے مفید ثابت ہوسکے گی کہ وہ ان علوم کے علاوہ جن سے انہیں ِشغف ہے دوسرے علوم سے
بھی کسی نہ کسی حد تک متعارف ہوجائیں گے۔اور اس کے بعد جب ان کے سامنے دوسری جلد
آئے گی تو وہ قرآن حقائق کو بہتر طور پر سمجھ سکیں گے۔
اگرمیری ان کوششوں سے چند
نفوس بھی ایسے پیدا ہوگئے جن کے دل میں قرآن کی رہنمائی کا یقین علیٰ وجہ البصیرت
ابھر آیا، تو میں سمجھو ں گاکہ مجھے میری دیدہ ریزیوں اور جگر سوزیوں کاصلہ مل گیا
حقیقت یہ ہے کہ قرآن سے میرا عشق مجھے مجبور کرتاہے ایک ایک کاہاتھ پکڑو ں اور اس
سے التجاکروں کہ جو کچھ میں نے دیکھا ہے تم بھی ایک نظردیکھ لو!
محبت چوں تمام افتدار
قابت ازمیاں خیز د
بطوف شعلۃ پردانہ می سازد
اور چونکہ میرا یہ عشق
خالی جذبات پر مبنی نہیں،بصیرت پر مبنی ہے۔اس لئے میری اپیل بھی محض عقیدت سے نہیں
،بصیرت سے ہے بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ انسانی زندگی کے مسائل کا حل قرآن کے علاوہ
او رکہیں سے نہیں مل سکتا ۔ اس یقین کو عام کرنا میری زندگی کامقصد ہے۔
وَمَا تَوفِقیِ الاَّ
بِاللہِ العَلِیِّ العَظِیم
آخر میں اپنے صدیق عزیز
،ڈاکٹر رضی الدین صدیقی ،وائس چانسلر، پشاور یونیورسٹی کاسپاس گذار ہوں کہ انہوں
نے اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجوداس کتاب کے مسوّدہ کو دیکھا اور کئی ایک مقامات
پر میری رہنمائی فرمائی،لیکن اس کااظہار واعتراف ضروری ہے کہ اس میں جو تسامحات
ہیں وہ ان میں شریک نہیں۔اس کی ذمہ داری تمام تر مجھ پر ہے۔
ہمارے ہاں لیتھوں کی
چھپائی کے جو نقائص (اور مصائب)ہیں ان سے وہی حضرات واقف ہوسکتے ہیں جنہیں اس
طباعت سے واسطہ پڑتاہے ۔ اس اعتبار سے میرا خیال تھا کہ اس کتاب کو ٹائپ میں طبع
کرایا جائے ۔ اس لئے بھی کہ اس میں انگریزی کے الفاظ بڑی کثرت سے آئے ہیں۔لیکن
چونکہ ابھی تک عام نگاہیں ٹائپ کے حروف سے مانوس نہیں اس لئے مجھے یہی مشورہ دیا
گیا کہ اسے اپنی دوسری تصانیف کی طرح خط نستعلیق ہی میں چھپوا یا جائے۔ بنا بریں
اس میں جو کتابت کی غلطیاں یا طباعت کے نقص رہ جائیں ،انہیں گوارا فرمائیے۔
کتاب کی کاپیاں ستمبر
1954میں طباعت کے لئے تیار ہوچکی تھیں لیکن طباعت کی مجبوریوں کی وجہ سے کتاب
دسمبر1955 سے پہلے نہ چھپ سکی۔
کتاب کے پہلے دوباب
،مادّہ اور ان کے خواص سے متعلق ہیں یہ موضوع خشک اور فنی ہے جو احباب اس موضوع سے
دلچسپی نہ رکھتے ہوں وہ کتاب کو تیسرا باب سے شروع کرسکتے ہیں ۔(ابتدائی ابواب میں
انگریزی کے بعض الفاظ بھی صاف نہیں ،آگے چل کر یہ نقص رفع ہوگیا ہے)۔
پرویز
(12 - 6 - 55)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ
(طبع ثانی)
جب 1956 ء میں یہ کتاب (پہلی
مرتبہ) شائع ہوئی تو مجھے اس کی توقع نہیں تھی کہ یہ زیادہ مقبول ہوگی۔ اسلئے کہ ایک
موضوع بڑا خشک او رفنی سا تھا اور دوسرے اس کے مضامین مشکل اوردقیق تھے ۔ لیکن جس تیزی
سے اس کا نکاس ہوا اس سے تعجب اورتعجب سے کہیں زیادہ خوشی ہوئی خوشی اس سے کہ ہمارے
ہاں ارباب فکر و نظر کی اتنی کمی نہیں جتنی نظر بظاہر دکھائی دیتی ہے چنانچہ اس کتاب
کا پہلاایڈیشن جلد ختم ہوگیا اوراس مانگ برابر بڑھتی گئی۔ میں اس دوران میں اس قدر
مصروف تھا (اور یہ مصرورفیتیں روز بروز زیادہ ہوتی چلی جارہی تھیں) کہ کتاب کی نظرثانی
کیلئے جلدی وقت نہ نکال سکا۔ اس وجہ سے اس کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت میں تاخیر ہوگئی
جس کے لئے میں ارباب ذوق سے معذرت خواہ ہوں ۔
نظر ثانی کے وقت کتاب کے متن
میں زیادہ تبدیلیاں نہیں کی گئیں ،البتہ ایک ضروری اضافہ کیا گیا ہے پہلے ایڈیشن میں‘ہر
عنوان کو ’مفکرین کے خیالات وآراء تک محدودرکھا گیا تھااور اس بات کا ضمنی ذکر بھی
نہیں آیا تھا کہ قرآن کریم اس باب میں کیاکہتا ہے۔ یہ اس لئے کہ (جیسا کہ آپنے ‘‘پیش
لفظ’’ میں دیکھا ہوگا)پروگرام یہ تھا کہ قرآنی نقطہ نگاہ دوسرے حصے میں پیش کیا جائے
(جس کاعنوان خدانے کیاکہا’’؟تجویز کیا گیا تھا) ۔لیکن کتاب کے مطالعہ کے بعد اکثرقارئین
نے لکھا کہ قرآن نقطہ نگاہ تفصیل کے ساتھ بیشک دوسرے حصے میں پیش کیا جائے ۔لیکن یہ
نہایت ضروری ہے کہ اس کتاب میں اہم مقامات پر مختصر الفاظ میں بتادیا جائے کہ اس ضمن
میں قرآن کی تعلیم کیا ہے۔ان احباب کا یہ تقاضااتنی شّدت اختیار کرگیا کہ مجھے اپنا
خیال بدلنا پڑا۔ زیر نظر ایڈیشن میں آپ کو اہم مقامات پر قرآنی تعلیم سے متعلق جو اضافے
نظر آئیں گے وہ اسی کانتیجہ ہیں۔ لیکن یہ اضافے اشارات کی حد سے آگے نہیں بڑھنے پائے۔
(جیسا کہ آپ نے ‘‘پیش لفظ’’ میں دیکھا ہوگا) ابتداًء میری تجویز یہ
تھی کہ کتاب کے دوسرے حصہ کانام ‘‘خدا نے کیا کہا؟’’ رکھا جائے ۔ یہ نام کتاب کے پہلے
حصے( انسان نے کیا سوچا؟) کی نسبت سے بڑا موزوں تھا۔ لیکن اب اس میں تبدیلی کی ضرورت
محسوس ہوئی ہے۔ اس کی وجہ درج ذیل ہے۔
اسلامی لٹریچر میں (دنیا کے
کسی ملک اور کسی زبان میں بھی) کوئی (انسانی) کتاب ایسی نہیں، جسے (کسی مسلم یاغیر
مسلم کے سامنے) یہ کہہ کر پیش کیاجاسکے کہ یہ کتاب آپ کو بتادے گی کہ اسلام کیا ہے۔
یہ صورت حالات جس قدر تاسف انگیز اورعبرت ناک ہے اس کااندازہ کیاجاسکتاہے۔ مجھے ایسی
کتا ب کی ضرورت کا (ازخود) شدّت سے احساس تھا لیکن یہ احساس اور بھی تیز ہوجاتا تھا
جب غیر مسلم (بالخصوص یورپ اورامریکہ کے ریسرچ اسکالرز) میرے پاس آتے ہیں ان کے سامنے
اسلام کو اس حقیقی خط و خال میں پیش کرتا ۔ وہ اس سے بڑی دلچسپی کااظہار کرتے اور اس
کے بعد کہتے کہ ہمیں ایسی کتاب دو(یا تجویز کرو) جس سے ہمیں معلوم ہوسکے کہ حقیقی اسلام
کیا ہے ۔ ان کے اس سوال پر مجھے لازماً یہی کہنا پڑتا کہ ہمارے ہاں ایسی کوئی کتاب
نہیں ، کہنے کو تو میں یہ کہہ دیتا لیکن اس سے جو کچھ میرے دل پر گزرتی، اس کاانداز
ہ میں ہی لگا سکتا ہوں ۔ یوں اس قسم کی کتاب کی ضرورت کا احساس تیز سے تیز تر ہوتا
چلاگیا۔
‘‘انسان نے کیا سوچا’’؟ کی اشاعت کے بعد جب میں نے ‘‘خدا نے کیا کہا؟’’
کومرتب کرناشروع کیا تو میں نے دیکھا کہ اگر اس کی ترتیب میں تھوڑی سی تبدیلی کردی
جائے تو یہ کتاب وہی کتاب بن سکتی ہے جس کی ضرورت کا احساس میرے دل کو طلسم پیچ وتاب
بنارہا تھا ۔ چنانچہ میں نے مجوزہ کتاب کی ترتیب پر از سر نوغور کرناشروع کیا اور اس
کاایسا خاکہ مرتب کیا جس سے یہ ایک طرف ‘‘انسان نے کیا سوچا؟’’ کا دوسراحصہ بھی قرار
پا جائے اور دوسرے طرف ایک ایسی (فی واتہــ
مکمل) کتاب بن جائے جسے یہ کہہ کر پیش کیا جاسکے کہ اس سے معلوم ہوجائے گاکہ حقیقی
اسلام کیا ہے، اس ضرورت کے پیش نظر اس کا کتاب کا نام:
اسلام کیا ہے؟
تجویز کیا گیا ۔ اس کتاب کا
مسودہ (قریب قریب) تیار ہے اور (اگر حالات مساعدر ہے تو) امید کی جاسکتی ہے کہ یہ جلدی
شائع ہوجائی گی۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ کتاب (اردو کے علاوہ) دنیا کی اور زبانوں ’ بالخصوص
انگریز اورعربی میں شائع ہوجائے۔وما توفیقی باللہ العلی ا لعظیم۔
(سابقہ ) ‘‘ پیش لفظ’’ میں آ پ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ تجویز یہ تھی
کہ اس کتاب ‘‘انسان کیا سو چا ؟’’ کو لیتھو کے بجائے ٹائپ میں چھپوایا جائے،لیکن پھر
ایسا نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن لیتھوکی چھپائی نے کتاب کی جو حالت کردی تھی اس کے پیش
نظر اسی وقت فیصلہ کرلیا گیا تھا کہ اس کادوسراایڈیشن ٹائپ ہی میں شائع کیا جائیگا۔
چنانچہ یہ ایڈیشن ٹائپ میں چھا گیا ہے جو یقینا لیتھو سے بہتر ہے۔ہمارے ہاں ٹائپ کی
چھپائی لیتھو کے مقابلہ میں بہت گراں ہے،لیکن کتاب کی افادی حیثیت نظر خرچ کی اس زیادتی
کو برداشت کرلینامناسب سمجھاگیاہے۔( اب تو‘‘سلیم کے نام خطوط’’کی دونوں جلدیں بھی ٹائپ
ہی میں چھاپی گئی ہیں)۔
زیرنظر کتاب کا ہر باب فی
ذاتہ مکمل ہے’ اس لئے آپ کو جس موضوع سے زیادہ دلچسپی ہو اسے آپ ’ سیاق وسباق سے قطع
نظر’ سب سے پہلے زیر مطالعہ لا سکتے ہیں ۔ پہلے دو باب ‘‘طبیعیات ’’ سے متعلق ہونے
کی وجہ سے زیادہ فنی اور اصطلاحی ہیں ،آپ چاہیں تو انہیں سب سے آخر پرھ لیں۔
جیسا کہ آپ کتاب کے مطالعہ
سے اندازہ لگا سکیں گے، اس کی تالیف میں سینکڑوں کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے ۔ ان
میں سے اہم کتابوں کے اقتباسات شروع میں دے دی جائے جن کے اقتباسات کتاب میں درج ہیں۔
چنانچہ زیر نظر ایڈیشن میں اس فہرست کا اضافہ کردیا گیا ہے۔
آخر میں ’ میں ان الفاظ کو
پھر دہرادینا چاہتا ہوں جومیں نے کتاب کے پہلے ایڈیشن میں لکھے تھے کہ:
اگر میری ان کوششوں سے چند
نفوس بھی ایسے پیدا ہوگئے جن کے دل میں قرآن کی رہنمائی کا یقین علیٰ درجہ البصیرت
ابھر آیا تو میں سمجھوں گا کہ مجھے دیدہ ریزیوں اورجگر سوزیوں کاصلہ مل گیا۔
نومبر1959 پرویز
25، بی ، گلبرگ۔2۔ لاہور
----------------
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism