غلام احمد پرویز
باب چہارم : سیاسیات
مسلماں فقر و سلطانی بہم کرد ضمیرش باقی وفانی بہم کرد
ولیکن الاما ں از عصر حاضر کہ سلطانی بہ شیطانی بہم کرد
سیاسیات
اخلاقیات میں ہم دیکھ چکے
ہیں کہ اوّل تو ‘‘اچھے او ربُرے’’ کے متعلق انسانوں کے نظریات مختلف ہیں، او رجہاں
اس باب میں نظری طور پر اتفاق بھی ہے وہاں بھی ضروری نہیں کہ ہر شخص اچھے کاموں پر
کار بند ہو اور بُرے کاموں سے اجتناب کرے۔یہ ظاہر ہے کہ انسانوں کوباہم مل جل کر رہنا
ہے جس کی وجہ سے ایک کاواسطہ ددسرے سے پڑتا ہے۔ اب اگر مختلف تمدّنی امور میں تمام
انسانوں کو ان کے اپنے فیصلوں پر چھوڑ دیا جائے تو معاشرتی زندگی محال ہوجائے۔ لہٰذا
نظام معاشرت کے انتظام کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسا انتظام کیا جائے جس سے انسانو
ں کے باہمی معاملات قاعدے او رقانون کے مطابق طے پاتے رہیں ۔ اس نظام کانام سیاسیات
(Politics)ہے۱۔انگریزی
لفظ ( Politics) کے معنی ہیں پالیسی (Policy) سے متعلق او رپالیسی
کے معنی ہیں انتظام۔
پالیٹکس سے مراد
لہٰذا سیاست یا پالٹیکس سے مراد
ہے وہ شعبہ علم (سائنس) جو انسانی نظام باہمی سے متعلق ہے اس موضوع پر فلسفیانہ بحث
سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پالیٹکس کی مختلف اصطلاحات اور اجزائے ترکیبی کامختصر
الفاظ میں تعارف کرادیا جائے تاکہ اصل مبحث کے سمجھنے میں وقت نہ پیش آئے۔ یہ اصطلاحات
( اور ان کامفہوم) وہ ہیں جو آج کل مغرب میں رائج ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
پالیٹکس کو پولیٹیکل سائنس یا پولیٹیکل فلاسفی بھی کہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) مملکت (State) وہ بلند معاشرتی داراہ
جو انسان کے تمدنی معاملات کو قانون اور ضابطہ کی رو سے سرانجام دینے کے لئے وجود میں
آتاہے ،مملکت کہلاتا ہے ۔مملکت کے کم از کم اجرائے ترکیبی :۔
(ا) آبادی (ب)
علاقہ
(ج) وحدت نظام اور (د)
اقتدار اعلیٰ ( Sovereignity) ہیں۔
(2) حکومت (Government) اس مشینری کا نام ہے
جو مملکت کے فیصلوں کو نافذ کرنے کا موجب بنتی ہے۔
(3) دستور (Constitution) اس مجموعہ ضوابط کانام
ہے جو (ا) مملکت کے نظام ۔ (ب) تقسیم اختیارات اور (ج) مختلف حکومتوں کے باہمی تعلقات
سے اصولی بحث کرے۔
(4)قوم (Nation) کے تصور کی جامع تعریف مشکل ہے ۔انگریزی لفظ نیشن کا مادہ لاطینی
لفظ (Natus) ہے جس کے معنی ‘‘پیدا ئش’’ ہیں ۔لہٰذا ابتداء ‘‘نیشن کا لفظ ایک نسل
کے لوگوں کے لئے بولاجاتا تھا۔ (چنانچہ اب بھی بعض مملک میں قوم کی تشکیل نسلی امتیاز
ہی سے ہوتی ہے) لیکن سیاسیات حاضرہ میں نیشن کامفہوم اس ابتدائی تصور سے وسیع ہوگیا
ہے او راس سے بالعموم مراد ہوتی ہے ایک خطّہ زمین میں بسنے والے انسانوں سے جو ایک
حکومت کے تابع رہیں (واضع رہے کہ یہ مفہوم بھی جامع نہیں ،عمومی ہے) اور نیشنلزم (وطنیت)
سے مفہوم ہے ان لوگوں کی وجوہِ جامعیت نیشلزم کے لئے بالعموم دو شرائط لانیفک سمجھی
جاتی ہیں ایک ‘‘باہمگی’’ (Gregariousness) اور دوسرے جذبہ بے ہمگی
(Exclusiveness) ثانی الذکرجذبہ سے مقصودہے کہ ایک نیشن اپنے آپ کوخود مختار تصور
کرتی ہے اور کسی او رنیشن کے فرد کو اپنے اندر شامل کرتی ہے او رنہ اسے حق دیتی ہے
کہ وہ ان کے معاملات میں دخل اندازی کرے تاآنکہ وہ اپنی قومیت (Nationality) نہ بدل لے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی ملکت کامطالعہ کرنے کیلئے
عام طور پر تین راہیں اختیار کی جاتی ہیں اوّل تاریخی یعنی یہ دیکھنا کہ اس مملکت کاماضی
کیا تھا ۔ دوسرے تحلیلی(Analytical) یعنی یہ دیکھنا کہ اس مملکت کے موجودہ اجزائے ترکیبی کیسے ہیں اور
تیسرے اخلاقی سیاست (Politico-Ethical) یعنی یہ فیصلہ کرناکہ
اس مملکت کو کیسا ہوناچاہئے ۔شق سوم ‘‘ہونا چاہئے’’ کاسوال آجاتاہے او رہم سابقہ باب
میں دیکھ چکے ہیں کہ ‘‘ہونا چاہئے’’ (Ought To Be) کا تعلق اخلاقیات سے
ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں اخلاقیات کا متزاج سیاست سے ہوتا ہے (تفصیل آگے چل کر آئے گی)۔
مملکت کے ابتدائی تصورات:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوع انسانی میں مملکت کاتصور کس طرح پیدا ہوا یعنی متفرق اور منتشر افراد نے کس طرح
سوچا کہ انہیں مل جل کر ایک مملکت قائم کرنی چاہئے؟ اس سوال کے متعدد جوابات دیئے جاتے
ہیں لیکن مغربی مفکّرین سیاست نے اس باب میں پانچ نظریئے قائم کئے ہیں۔
(1) سرقبیلی حکومت (Patriarchal) یعنی سب سے پہلے مختلف
افر اد نے قبائلی زندگی اختیار کی ۔ اس انداز زندگی میں قبیلہ کا بزرگ یعنی مورثِ اعلیٰ
،واجب الاحترام سمجھا جاتاتھا او راس کے فیصلے سب کے لئے واجب الاتباع تھے۔ یہاں سے
ایک مختصر سی خاندانی مملکت کا تصور پیدا ہوا۔
(2) مادی حکومت (Matriarchal) بعض قبائلی میں ،مرد
کی جگہ سب سے بزرگ عورت کو بلند تری مقام دیا جاتاتھا اور اس کے فیصلے سب کے لئے موجب
اطاعت تصور کئے جاتے تھے ۔ یہ تھی قبائلی حکومت کے شاذسی شکل تھی۔
(3) خدائی اختیار ات کانظریہ:(Theory
Of Divine Rigjts)
انسان کو ابتدائی زندگی میں پروہتوں (Priests) کوبہت مقام حاصل تھا۔
وہ مافوق الفطرت قوتوں کے حامل اور دیوتاؤں کی اولاد یا ان کے نائب تصور کئے جاتے تھے۔ہر
شخص ان سے ڈرتا او رکانپتا تھا اور ان کے حکم کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہیں کرسکتا
تھا۔ رفتہ رفتہ پروہتوں کے انہی اختیارات نے اجتماعی شکل اختیار کرلی۔ او رسمجھ لیا
گیا کہ انہیں دیگر انسانوں پر حکومت کا حق حاصل ہے۔ یہ تھی ‘‘ الوہیاتی اختیارات’’
کے تصور کی ابتداء عیسائیت نے اس تصور سے بڑا فائدہ اٹھایا او رپادریوں نے نمائندگان
خداوندی کی حیثیت سے باضابطہ حکومت شروع کردی۔ بادشاہوں نے دیکھا کہ لوگوں سے اپنی
اطاعت کرانے کا یہ طریق بہت آسان اور کامیاب ہے اس لئے کہ اس میں جسموں کے بجائے دلوں
پر فرمانروائی ہوتی ہے۔ جس کے لئے نہ فوج کی ضرورت پڑتی ہے ،نہ پولیس کی چنانچہ انہوں
نے بھی نیابت خداوندی کا دعویٰ کردیا اور رفتہ رفتہ یہ تسلیم کرالیا کہ بادشاہ ‘‘خداوندی’’
اور ‘‘ایشو کااوتار’’ ہوتا ہے ۔خدائی اختیارات کا یہ تصور مملکت کے استحکام موجب بن
گیا۔
(4) نظریہ قوت :۔ یعنی کسی قبیلہ یا قوم میں جو شخص جسمانی طور پر سب
سے زیادہ طاقتور تھا اس نے دوسروں کو دبالیا او را س طرح اپنی فرمانروانی قائم کرلی
(غور کیجئے تو یہی ایک نظریہ ہے جو شروع سے اس وقت تک مسلسل کافرما ہے ۔قوت کے اسلوب
و انداز اور ذرائع و اسباب بدلتے رہے ہیں ۔اصول ہر جگہ یہی رہا ہے کہ ‘‘جس کی لاٹھی
اس کی بھینس’’ ۔آج بھی یہی او رآج سے پانچ ہزار سال پہلے بھی یہی تھا۔ جہاں کہا جاتا
ہے کہ ہمارے یہاں یہ اصول نہیں ہیں وہاں دھوکا دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔اس کا نام
ذہبنی استیلا ُ(تغلّب) ہے جسے Briffault بریفلٹ (Power
Thought) کواصطلاح
سے تعبیر کرتاہے۔
(5)نظریہ میثاق:۔ (Theory Of Contract) یعنی یہ نظریہ کہ مختلف
افراد باہمی رضا مندی سے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم سب مل کر ایک اجتماعی نظام قائم کریں۔
یہ افراد کے فرائض وواجبات ہوں گے اور یہ مملکت کے فرائض وواجبات ۔یہ نظریہ یونان قدیم
کے وقت سے چلا آرہاتھا لیکن اسے اٹھارہویں صدی میں یورپ میں ہابز (Hobbes) ،لاک (Lock) اور وسو (Rousseau) نے خاص طور پر فروغ
دیا موجودہ ‘‘ڈیماکریسی کی بنیاد اسی نظریہ پر ہے’’ لوگوں کی حکومت باہمی رضا م مندی
سے۔’’
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرد اور مملکت کاتعلق:۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو رہے مملکت کے تصور کے متعلق مختلف نظریات جہاں تک مملکت اور افراد کے تعلق کا
حصہ ہے اس باب میں بھی مختلف نظریات میں مثلاً
(1) نظریہ وحدت(Monistic Theory) یعنی افراد مملکت کا
جزوہوتے ہیں اور اپناکوئی الگ وجود نہیں رکھتے۔
(2) نظریہ افرادیت (Mohadistic Theory) جس کی رو سے یہ تسلیم
کیا جاتاہے کہ مملکت محض افراد کے مجموعہ کانام ہے ۔ ان حقیقی وحدت نہیں ہے۔
(3) نظریہ ثنویت (Dualistic Theory) افراد کا جداگانہ وجود
ہے لیکن وہ اپنی فلاح و بہنود کے لئے معاشرہ مملکت کے محتاج بھی ہیں۔
(4) نظریہ نامیت (Orgainc Theory) یعنی مملکت اور افراد
کی مثال جسم اور اس کے مختلف اعضا ء جو ارح کی ہے۔جسم اعضا کے مجموعہ کانام ہے لیکن
وہ خود عضو نہیں ۔ اعضاء جسم ہی کے ذریعہ سے زندہ اور قائم ہیں لیکن کوئی عضو فی ذاتہ
جسم نہیں۔
(5) نظریہ افادیت (Utilitarian Theory) مملکت کا وجود زیادہ
سے زیادہ افراد کی زیادہ سے زیادہ مرفہ الحال کے لئے ہے۔
(6) نظریہ مطّقیت(Absolute And Idealist
Theory) مملکت
اپنا مستقل اور مطلق وجود رکھتی ہے۔ افراد کے ارادے اور خواہشات ان کی انفرادیت اور
تشخص سب مملکت کے سامنے سجدہ ریز ہونے چاہئیں۔ مملکت کے مقابلہ میں فرد کا کوئی حق
نہیں ہے۔ (ہیگل اس نظریہ کا حامل تھا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انواع حکومت:۔۔۔۔ جس طرح مملکت
کو مختلف نظریوں کے ماتحت تقسیم کیا گیا ہے اسی طرح ‘‘حکومت کو بھی مختلف اسالیب کے
مطابق مختلف انواع میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔اس تقسیم کو بھی عام طور پر مملکت ہی کی
تقسیم کہتے ہیں لیکن چونکہ اس کا تعلق درحقیقت انداز وطریق حکومت سے ہے اس لئے اسے
‘‘حکومت کی تقسیم’’ سے تعبیر کرنا زیادہ موزوں نظر آتاہے ۔یونان قدیم میں ارسطو نے
حکومت کو تین انواع میں تقسیم کیا تھا۔ (1) شخص واحدہ کی حکومت ف(2) چند افراد کی حکومت
اور (3) بہت سے افراد کی حکومت ۔میکیاولی (Machiavelli) نے ان تین انواع پر
ایک نوع کااضافہ کیا جسے وہ ‘‘مرکب حکومت’’ قرار دیتا ہے۔
جین بوڈن (Jean
Bodin) اسلوب
حکومت کی اس طرح تقسیم کرتاہے ء۔
(1)ملوکیت (Monarchy) جس کی تین قسمیں:
(ا) استبداد (Despotism) جس میں رعایا کو غلام
تصور کیا جاتا ہے۔
(ب) تاج سے وفاداری (Royal Monarchy) جس میں بادشاہ ‘ قوانین
وضوابطہ کی رو سے حکومت کرتا ہے اور
(ج) قہرمانیت ( Tyranny) جس میں حکومت بادشاہ
کی مفاد پرستوں او رکامرانیوں کے لئے ہوتی ہے۔
(2) امراء کی حکومت (Aristocracy) اور
(3) جمہوریت (Democracy ) عوام کی حکومت ۔
جرمن سیاستدان بلنچلی (Bluntschli) اس پر چوتھی نوع ‘‘
تھیاکریس’’ کابھی اضافہ کرتا ہے یعنی خدائی اختیارات کے مطابق حکومت۔
ہمارے زمانہ میں جمہوری انداز
حکومت کی بھی مختلف اقسام ہیں۔مثلاً (ا) وحدانی Unitary جس میں تمام مملکت ایک وہی وحدت تصور ہوتی ہے اور
(ب) وفاقی (Federal) جس میں مملکت کی مختلف وحدتیں (Units) مرکز ہی کو حاصل ہوتاہے
۔پھر ان میں سے ہر ایک اسلوب حکومت یا تو پارلیمانی (Parliamentarian) ہوگا اور یا غیر پارلیمانی
۔پارلیمانی انداز حکومت میں ، ہیئت اجزائیہ (Executive) لیجسلیچر کے سامنے جوابدہ
ہوتی ہے او رلیجسلیچرکے صوابدید کے مطابق قائم یا برطرف کردی جاسکتی ہے لیکن غیر پارلیمانی
انداز میں، ہیئت اجزائیہ لیجسلیجر کے ماتحت نہیں ہوتی بلکہ ایک مدت معینہ کیلئے (جس
کا تعین دستور مملکت کی رو سے ہوتا ہے)قائم رہتی ہے ۔انہی میں سے ایک انداز صدارتی
حکومت (Presidential Form Of Govt) کا ہے جس میں ایک مدّت
معینہ کیلئے صدر حکومت کوتمام اختیارات تفویض کردیئے جاتے ہیں او رلیجسلیچر کا اس پر
کوئی اقتدار نہیں ہوتا۔
عصر حاضر میں جمہوری انداز
حکومت کے برعکس آمرانہ حکومتیں بھی قائم ہونے لگی ۔اٹلی اورجرمنی کے سابقہ اور روس
کے حالیہ ڈاکٹیٹراسی اسلوم حکومت کے نمائندے تھے اور ہیں۔ جن مملکتوں میں زندگی کے
ہر شعبے پر مملکت کا اقتدار ہوتاہے انہیں مملکت (کُلّی) ( Totalitarian
State)کہاجاتا
ہے ۔
یہ ہیں مختصر الفاظ میں مختلف
اسالیب حکومت ۔اس با ب میں ہم نے صرف نمایاں اسالیب کے تعارف ہی پراکتفادہ کیا ہے ،
ان کی تفاصیل میں نہیں گئے۔ کیونکہ ہمارے مقصد کے لئے اسی قدر تعارف کافی ہے ۔
مملکت او رحکومت کے ان طرق
و اسالیب کے تعارف کے بعدآپ اصل سوال کی طرف آئیے۔
مملکت یا حکومت کا طریق و
انداز کچھ بھی ہو، سوال یہ ہے کہ کسی ایک انسان یا انسان کی جماعت کو کیا حق پہنچتا
ہے کہ وہ دسرے انسانوں سے اپنے فیصلے منوائے ؟ آپ صبح سے شام تک محنت کر کے کچھ کماکر
لاتے ہیں ۔ ایون حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ فیصلہ کرتے ہیں کہ اس میں سے چوتھا حصہ لے
لیا جائے آپ کا اکلوتا بیٹا سینکڑو ں منتوں اور ہزاروں دعاؤں کے بعد پروان چڑھتا ہے
۔آپ اسے پڑھا لکھا کر ہونہاربناتے ہیں ۔
مملکت کے اختیار کی اصولی
بحث:۔۔۔۔۔۔۔۔ سارا خاندان اس کے مستقل کی طرف آنکھیں لگائے بیٹھا ہے۔ماں اس چاند سے
مکھڑے کا بیاہ رچانے کی فکر میں ہے کہ اتنے میں حکم آجاتاہے کہ اس لڑکے کو میدان جنگ
میں بھیج دوجہاں اس کا سینہ دشمن کی گولیوں کانشانہ بنے۔ آپ اس حکم کے خہلاف ایک لفظ
بھی زبان تک نہیں لاسکتے ،خواہ حکومت کسی غیر کی ہو یا آپ کی اپنی۔
سوال یہ ہے کہ یہ ادارہ اس
قسم کا حکم دینے کااختیار کس طرح رکھتا ہے او رآپ اس حکم کی تعمیل کے لئے کس حد تک
مکلّف ہیں؟ ہمیں اس سوال کو سامنے رکھ کر مختلف نظریات و تصورات کاجائزہ لیناچاہئے
اور پھر دیکھنا چاہئے کہ فکر انسانی اس اصول مسئلہ کو کس حد تک حل کرسکا ہے۔
حکمائے یونان میں‘ افلاطون
(Plato) نہ صرف فلسفہ ہی میں امام تصور کیا جاتاہے بلکہ سیاست میں بھی اس
کا خاص مقام ہے (اگر چہ ان دونوں میدانو ں میں اسے سخت ٹھوکریں لگی ہیں) اس کا نظریہ
سیاست یہ ہے کہ انسان مدنی الطبع واقعہ ہوا ہے اس لئے اسے مل جل کر رہنا ہے ،مل جل
کر رہنے کا لازمی نتیجہ ہے کہ معاشرہ میں تقسیم عمل کا اصول کا ر فرما ہو۔ وہ کہتا
ہے کہ یہ تقسیم عمل پیدائیش کے اعتبار سے ہونی چاہئے کیونکہ مختلف انسان پیدائشی طور
پر مختلف قسم کی صلاحیتیں رکھتے ہیں۔
افلاطون کا نظریہ:۔۔۔۔۔ بعض
ذہنی اعتبار سے بلند پایہ ہورتے ہیں بعض جرأت و بسالت کی خصوصیات رکھتے ہیں او ربعض
معاشی پیدا وار اور دوسرے چھوٹے چھوٹے کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔چنانچہ اس نے معاشرہ
کو تین طبقات میں تقسیم کیا ہے۔ ایک اہل فکر و نظر اور ارباب حل و عقد جنہیں وہ پاسبان
(Guardian) کہہ کر پکارتاہے ۔دوسرے سپاہی اور تیسرے عوام۔ اس کے نزدیک پہلاطبقہ
ارباب حکومت کاہے ۔ دوسرا فوج اور تیسرا طبقہ حرفہ ،کسانوں مزدوروں اور غلاموں پر مشتمل
ہے۔ یہ تقسیم بعینہ ہندو معاشرہ میں دونوں (Caste) کی تقسیم ہے۔برہمن،
کھشتری ، دیش اور شودر ۔برہمن کابیٹا برہمن ، کھشتری کا کھشتری ، شودر کا بیٹا شودر
۔البتہ افلاطون بعض خصوصی حالات میں اس میں استثنا کا بھی قائل ہے ۔کیونکہ وہ کہتا
ہے ک کبھی کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ پست درجہ کی نوع میں خلاف معمول اچھے دل و دماغ
کابچہ پیدا ہوتاہے لیکن ایسا شاذ ہی ہوتاہے ۔اصول وہی پیدائشی تقسم کا ہے ۔ ا س مفروضہ
کے بعد افلاطون کہتاہے کہ جو انسان جس طبقہ سے متعلق ہے ۔ اس طبقہ کا کام کرنا اس کے
لئے عین تقاضا ئے فطرت ہے۔ اس لئے مملکت کا فریضہ ہے کہ اس کی فطرت کا تقاضا پورا کرنے
کے لئے اسے اسی قسم کے کاموں پر لگائے ۔اور اس شخص پر واجب ہے کہ وہ ان فیصلوں کو اپنا
فریضہ سمجھ کر واجب الاتناع تسلیم کرے۔ افلاطون کے نزدیک بہترین مملکت اسی اصول کے
ماتحت متشکّل ہوسکتی ہے او رمملکت مثالی (Ideal) اس وقت ہوسکتی ہے جب
ارباب حکومت سب کے سب فلاسفرز ہوں ۔ افلاطون نے اپنی مثال مملکت کا خاکہ اپنی مشہور
کتاب ‘‘ریاست’’( Republic) میں کھنچا ہے۱۔اس
میں عدل کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ ‘‘وہ طاقتور کے مفاد کا نام ہے’’ وہی جس کی بازگشت
نیٹشے کے فلسفہ اخلاق میں سنائی دیتی ۲
ہے اور جس کی بنیادوں پر میکیا ولی او رمینڈول (Mandeville-
1670-1733) نے
اپنے نظریات سیاست کی عمارت استوار کی ہے۔
افلاطون کے مثالی ریاست میں
معاشی نظام کم و بیش اشترا کی نظام سے ملتا جلتا ہے لیکن اس کی تفصیل ‘‘کمیونزم’’ کے
عنوان میں ملے گی۔
ارسطو کانظریہ :۔۔۔۔۔۔۔ افلاطون
کے بعد حکمائے یونان میں ارسطو (Aristotal) کانظریہ سیاست قابل
مطالعہ ہے جسے اس نے اپنی کتاب (Politis) میں پیش کیا ہے۔ اس
نظریہ کی رو سے مملکت کا فریضہ یہ ہے کہ وہ افراد مملکت کے لئے‘‘ بہترین زندگی ’’ کے
وسائل پیداکرے ۔ افلاطون کی طرح وہ بھی افراد مملکت کو تین طبقات میں تقسیم کرتاہے۔
اگر چہ اس کا معیار تقسیم ذرا مختلف ہے وہ کہتاہے کہ ‘‘بہترین زندگی’’ کامستحق ایک
ہی طبقہ ہے او رہو ہے ارباب فکر ونظرکاطبقہ جسے وہ ‘‘ طالب علموں کاطبقہ’’ لکھا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
ہمارے دورمیں (G.L.Dickinson) افلاطون کابڑا امداح گزراہے ۔اس کی کتاب (After
Two Thousand Years) عصر حاضر کی روشنی میں افلاطون کے تصور مملکت کی بہترین تعببر ہے
لیکن (Pauper) نے (The Enemies Of Open Society) میں افلاطون پر ایسی
سخت تنقید کی ہے جس سے اس کی کچھ حیثیت ہی باقی نہیں رہتی اور بات ہے بھی کچھ ایسی
ہی
۲
دیکھئے (Beyond Good And Evil)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا طبقہ اس کے نزدیک غلاموں
کا ہے،جس کا فریضہ پہلے کی ضروریات زندگی فراہم کرتاہے ۔ ان دونوں کے درمیان وہ عام
انسانوں کاطبقہ وضع کرتاہے جن کی سطح حیوانی زندگی سے زیادہ بلند نہیں ۔ یہ لوگ ہیں
جو مختلف قسم کے کاروبار کرکے کھائیں پئیں ،اولاد پیدا کریں او رمرجائیں ۔ارسطو ، افلاطون
کے نظریہ اشتراکیت کی حمایت نہیں کرتا او رذاتی مملکیت کو ‘‘بہترین زندگی’’ کے لئے
ممدّومعاون سمجھتا ہے ۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ چونکہ ارباب فکر کی تعداد کبھی زیادہ
نہیں ہوسکتی اس لئے مملکت کا مختصرہونا نہایت ضروری ہے ۔ اس کی مملکت کا خلاصہ ‘‘ذہنی
عیاشی’’کرنے والے چند افراد کا مجموعہ ہے جو
بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے
ہوئے
اور غلاموں کا طبقہ ان کی
ضروریات زندگی بہم پہنچاتارہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے مملکت کے جس قدر متنوع
تصورات اوپر بیان کئے تھے ، اگر آپ بغور دیکھیں گے توہمارے زمانہ میں ان میں سے دو
تصور ایسے رہ گئے ہیں جو اہمیت رکھتے ہیں ۔ ایک ڈیماکریسی کا تصور جس کی بنیاد نظریہ
میثاق (Theory Of Contract) پر ہے او ردوسرا نظریہ کُلّی جس سے مراد یہ ہے کہ تمام حقوق بحق مملکت
محفوظ ہوتے ہیں اور فرد کو کوئی حق حاصل نہیں ہوتا۔ یہ نظریہ ،آمرانہ انداز حکومت پر
منتج ہوتا ہے۔ بادشاہوں کی شخصی حکومتیں آج مہذّب دنیا میں اساطیرالاوّلین قرار پا
چکی ہیں۔ (ان کاکہیں وجود باقی ہے تو (خیر سے) مسلمانوں کے ممالک میں یعنی ان مسلمانوں
کے ممالک میں جو دنیا سے ملوکیت کی لعنت مٹانے کے لئے آئے تھے) تھیا کریسی کا تصور
بھی عہد پارینہ کی داستان بن چکا ہے ۔وائیکونٹ سیموئیل عیسائیت پر بحث کرتاہوالکھتا
ہے:۔
اس نے سلاطین کے آسمانی حقوق
کے عقیدہ کی تائید گی اس لئے یورپ کی تاریخ میں اس عقیدہ نے جس قدر تباہیاں پھیلائیں
ان کی ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی ہے (Belief And Action)
لہٰذا ہمیں انہی دونظریوں
کے متعلق گفتگو کرنی چائیے جن پر عصر حاضر کی سیاست کامدار ہے ۔ ان دو نظریوں میں بھی
نظرہ میثاق کو تقدّم حاصل ہے اس لئے کہ اس کی بنیادوں پر نظام جمہوریت استوار ہے جسے
ہمارے ز مانہ میں خدا کی رحمت تصور کیا جاتا ہے ۔دوسرے نظریہ کی حامل ، جرمنی کی نازی
ازم او راٹلی کی فسطائیت تھی جن کاجنگ (دوسری عالمگیر جنگ) نے خاتمہ کردیا۔ روس کانظام
اپنی معاشی خصوصیات کی بناء پر منفرد ہے اس لئے اس کا تذکرہ کمیونزم کے عنوان کے تحت
کیا جائے گا جو ہمارے زمانہ میں سب سے زیادہ بھڑکتا ہوا موضوع ہے۔ اندریں حالات ہم
نظریہ کلّیت کے متعلق مختصر انداز میں او رنظریہ میثاق کے متعلق تفصیلی طور پر گفتگو
کریں گے۔
اقتدار اعلیٰ کا سوال:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ان نظریات کے متعلق گفتگو کرنے سے پیشتر ایک اہم نقطہ کی وضاحت بھی ضروری ہے اور
وہ یہ ہے کہ کسی مملکت میں اقتدار اعلیٰ ( Sovereign Power) کے حاصل ہوسکتی ہے
۔ اس لئے کہ سیاست میں بنیادی سوال تو اقتدار اعلیٰ ہی کا ہے ۔باقی تمم امور اسی محور
کے گرد گھومتے ہیں ۔ اقتدار اعلیٰ کا تصور سب سے پہلے فرانسیسی مفکّر (Bodin-
1530-1596) نے
پیش کیا ۔ اس کے نزدیک اقتدار اعلیٰ سے مفہوم وہ ‘‘مرکز’’ ہے جو مملکت کی تمام قوتوں
کا سرچشمہ او رسارے اختیارات کامنبع ہے۔دیگر قوائے مملکت ذاتی قوت نہیں رکھتے ۔ان کے
پاس اقتدار اعلیٰ کی تفویض کردہ قوت ہوتی ہے۔ اقتداراعلیٰ اپنے اختیارات کسی سے نہیں
لیتا۔ نہ ہی اس کے فیصلوں کی کہیں اپیل ہوسکتی ہے ۔جب میکیاولی کے سامنے یہ سوال پیش
ہوا تو اس نے کہہ دیا کہ سوال یہ نہیں کہ اقتدار اعلیٰ کے حاصل ہوناچاہئے ۔ اصل سوال
یہ ہے کہ مقتدر اعلیٰ ہے کون؟ سواس کاجواب اس کے نزدیک صاف تھا کہ مقتدر اعلیٰ بادشاہ۱ ہوتاہے ہابز (Hobbes) نے کہا کہ نہیں سوال
یہ ہے کہ اقتداراعلیٰ کا مالک کون ہوناچاہئے اور جواب یہ ہے کہ ‘‘فرماں روا’’ (Ruler) ہوناچاہئے ۔
لاک (Lock) کا خیال ہے کہ اقتدار
اعلیٰ افراد کی اکثریت کے پاس ہوناچاہئے لیکن روسو کے نزدیک اقتدار اعلیٰ مملکت کے
تمام افراد کی مشترکہ ملکیت ہے۔(Bentham) ۲
اس باب میں لاک کا ہم نوا ہے ۔ J.S. Mill بینتھم کی تائید کرتا ہے ۔ لیکن اس ترمیم کے ساتھ
کہ اقتدار اعلیٰ ‘‘اہل دماغ’’ کے پاس ہوناچاہئے نہ کہ اکثریت کے پاس مل کی مشہور کتاب
(Essay On Liberty) اس باب میں بڑی معرکہ آراء تصور کی جاتی ہے جہاں تک آزادی خیال کاتعلق
ہے بل نو تو یہاں تک کہتاہے کہ :۔
اگر تمام نوع انسانی کا فیصلہ
کچھ ہوا اور دنیا میں صرف ایک انسان فیصلہ اختلاف رکھتا ہو تو نوع انسانی کو اس ایک
فرد کی آواز کو دبانے کا حق اس سے کچھ زیادہ نہیں ،جتنا اس شخص کو تمام نوع انسانی
کی آواز دبانے کا حق ہے اگر اس کے پاس ایسا کرنے کی طاقت ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
میکیاولی بادشاہ کے لئے (Prince) کا لفظ استعمال کرتاہے
۔ یہی اس کی کتاب کا نام ہے۔
۲
اس کی کتاب (Fragment Of Government) اس موضوع پر عمدہ تصنیف
ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیماکریسی ، اقتدار اعلیٰ
کی حامل اکثریت ہی کو قرار دیتی ہے ۔ ان تمام نظریات کے خلاف ، مارکس کا نظریہ یہ ہے
کہ اقتدار اعلیٰ اس طبقہ کو حاصل ہوتاہے جس کے پاس وسائل پیداوار ہوں۔ نظام سرمایہ
داری میں سرمایہ دار طبقہ کو اشتراکی نظام میں مزدور وں کو۔
نظریہ کُلّی :۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے
بعدنظریہ کلّیت کی طرف آئیے ۔ اس نظریہ کو مثالی نظریہ (Idealistic
Theory) بھی
کہتے ہیں۔اس نظریہ کی رو سے یہ تسلیم کیا جاتاہے کہ مملکت ایک زندہ شے ہے۔ اپنی جداگانہ
ہستی اور تشخّص رکھتی ہے ۔ ہر زندہ اور صاحب شعور شے کی طرح اس جذبات خواہشات اور ادارے
ہوتے ہیں۔ اس کے حقوق اور اختیارات لامحدود ہیں۔ انسان نے جس قدر اجتماعی اداروں کی
طرح ڈال دی ہہے۔ مملکت ان کی آخری شکل کانام ہے ۔باقی اداروں میں شمولیت اور علیحدگی
ایک فرد کے اپنے اختیار کی بات ہے لیکن نہ مملکت کے دائرہ میں آنا افراد کے اختیار
میں ہے نہ اس سے باہر نکلنا ان کے بس میں۔ او رسب سے بڑی بات یہ ہے کہ مملکت اپنے معاملات
میں اخلاقی نظریوں کی پابند نہیں ہے ۔ اس کی مصلحت کوشی اور مفاد بینی ،خود ایک ضابطہ
اخلاق ہے اور اس ضابطہ کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہوسکتی جب کبھی افراد او رمملکت میں
اختلاف ہوتو مملکت ہمیشہ حق بجانب اور افراد قصوروار تسلیم کئے جائیں گے۔ مملکت کے
حقوق مطلق (Absolute) ہیں۔
تصریحات بالا سے آپ نے دیکھ
لیا ہوگا کہ اس نظریہ کی رو سے مملکت کو الوہیاتی مقام تفویض کر دیا گیا ہے ۔چنانچہ
اس زاویہ فکر کو (Divinisation Of State) کہتے ہیں۔اس میں مملکت
ایک ‘‘معبود’’ بن جاتی ہے او رمملکت سے وفا شعاری اس ‘‘معبود’’ کی پرستش یہ ایک ‘‘مذہب’’
ہے جس کے تمام آئین وقوانین ہیں۔ اس نظریہ کی بنیادی دلیل ،دلیل نہیں بلکہ ایک تشبیہہ
۱ ہے ۔ اس نظریہ کے حائل کہتے
ہیں کہ مملکت اور افراد کی مثال انسانی جسم اور اس کے اعضا کی سی ہے ۔ اعضائے جسمانی
اپناجداگانہ وجود نہیں رکھتے ۔ وہ صرف جسم کے حصے ہیں اور ان کی زندگی اور موت جسم
کے ساتھ وابستہ ہے۔ ان کا فریضہ جسم کے لئے سامان زیست وصحت بہم پہنچانا ہے ۔ اس سے
خودان کی اپنی زیست اور صحت کاانتظام ہوجاتا ہے ۔کوئی عضو جسم سے الگ ہوکر زندہ رہ
ہی نہیں سکتا ۔جسم کی مصلحت اعضا ء کی مصلحت ہے اس لئے جسم سے الگ اعضا کے لئے کوئی
اپنے اصول و ضوابط بھی نہیں ہوسکتے۔ نہ ہی اعضا اپنی مرضی سے اس جسم کے حصے بنتے ہیں۔
ا س تشبیہہ سے وہ مملکت کی
کلّیت کے حق میں تمام دلائل فراہم کرتے جاتے ہیں اور انہی دلائل سے اپنے نظریہ کی مواقف
میں نتائج مستبنط کرلیتے ہیں۔لیکن اس ضمن میں وہ ایک بنیادی فرق کو نظر انداز کر دیتے
ہیں اور وہ یہ کہ افراد اپنامستقل وجود اور تشخّص رکھتے ہیں اور مملکت وجود میں نہیں
آسکتی جب تک افراد پہلے سے موجود نہ ہوں اور تشکیل مملکت کاعزم نہ کریں ۔مملکت نہ ہوتو
بھی افراد زندہ رہ سکتے ہیں لیکن مملکت کبھی وجود میں نہیں آسکتی جب تک افراد موجود
نہ ہوں۔ اس لئے مملکت کا وجود ،افراد کے جداگانہ وجود کار ہین منت ہے۔لہٰذا مملکت اور
افراد کی مثال جسم اور اعضاء کی سی نہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ افراد باہمی رضا مندی سے
اپنے آپ کو ایک اجتماعی ادارہ کی صورت میں متشکل کرلیں اوراس ادارہ کی صحت اور زندی
(استحکام وبقا) کیلئے باہم دگر اس طرح تعاون وتناصر سے کام لیں جس طرح جسم انسانی کے
اعضاء کامل اتحاد سے سرگرم عمل رہتے ہیں ۔ مملکت کی شکل افراد کے مقصد پیش نظر کے بروئے
کار لانے کا ایک عملی طریق ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
جن نظریات کا مدار علم و بصیرت سے زیادہ جذبات پر ہوتاہے ان میں دلائل کے بجائے تشبیہات
سے کام لیا جاتاہے اور چونکہ تشبیہہ مجرد فکر (Abstract
Thinking) کومجازی
پیکر میں سامنے لے آتی ہے اس لئے عوام کے لئے بڑی دلکش اور واضح دلیل بن جاتی ہے ۔
تصوف کامدار بھی زیادہ ترتشبیہات پر ہے ۔‘‘وحدت وجود ’’کانظریہ تمام تشبیہات کے پردوں
میں پیش کیا جاتا ہے۔‘‘ وہی رام ہے وہی رحیم ہے۔نام الگ الگ ‘بات ایک ہی ہے ’’ اسے
ایک ہیت میں سمجھا دیا جاتا ہے ہے کہ
جمنا ایک گھاٹ بہتیرے
کہت کبیر سمجھ کے پھیرے
دلائل کے بجائے تشبہات سے
کام لینے کانام شاعری ہے اس نے تصوف کا مدار ہی شاعری پر ہے او رشاعری کا تصور پر حزیں
کے الفاظ تصوف برائے شعر گفتن خوب است
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح قافلہ مسافروں کے منزل
مقصود تک پہنچنے کا آسان او رپرُ امن ذریعہ بن جاتاہے ۔ قافلہ کامقصود افراد قافلہ
سے الگ کچھ نہیں ہوتا ۔اسی طرح مملک کا وجود افراد مملکت کی نشو ونما اور فلاح و ارتقاء
کاایک ذریعہ ہوتا ہے اس سے الگ مملکت کا کوئی مقصود نہیں ہوتا۔ یہ مثال (کہ افراد اعضاء
ہیں اور مملکت جسم ) اور حقیقت افلاطون کے نظریہ تقسیم کے لئے وضع کی گئی تھی۔ اس کے
نظریہ کی رو سے غلام ساری عمر غلام رہتا ہے او رحاکم ساری عمر حاکم ۔یہی حالت جسم کے
اعضاء کی ہے۔ پاؤں ہمیشہ پاؤں رہتا ہے اور دل ہمیشہ دل ۔یہ کبھی نہیں ہوتا کہ پاؤں
اپنی صلاحتیں بڑھا کر دل کی جگہ لے لے۔ ہر عضو کا اپنااپنا مقام ہے اور اس مقام میں
کبھی تبدیلی نہیں ہوسکتی اسلئے کسی عضو کو اس کی آرزو ہی نہیں کرنی چاہئے کہ میں فلاح
عضو بن جاؤں او رنہ اس کی حسرت کہ میں دیکھ کیوں نہ بن گیا ۔یہ ہے حقیقی مفہوم اس مثال
سے اور اس مفہوم کی لغویت ظاہر ہے ۔یہ استبداد کی انتہائی شکل ہے۔
نظریہ میثاق:۔۔۔۔۔۔۔ اب آئیے
نظریہ میثاق معاشرہ(Theory Of Social Contralct) کی طرف ۔ اس نظریہ کی
رو سے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ مملکت اور افراد مملکت میں ایک میثاق ہوتاہے جس کی رو
سے افراد اپنے ذمہ کچھ فرائض لے لیتے ہیں او ران کے بدلتے ہیں مملکت اپنے ذمے افراد
کے حقوق لے لیتی ہے ۔لیکن مملکت کوئی االگ چیز نہیں ہوتی جس سے افراد معاہدہ کرتے ہیں
بلکہ وہ ایک اجتماعی ادارہ ہوتاہے ۔ خود افراد ہی پر مشتمل ہوتاہے اس مقام سے اس نظریہ
کی پیچیدگی شروع ہوتی ہے ۔یعنی اگر مملکت اور افراد دو الگ الگ پارٹیاں ہوں تو ان کے
بامیں معاہدہ کا تصور سمجھ میں آسکتا ہے ۔لیکن جب خود افراد ہی مملکت ہوں تو افراد
کا اپنے ساتھ ہی معاہدہ کرنا کچھ عجیب سانظر آتا ہے ۔ یعنی اس صورت میں معاہدہ کے فریقین
کی بجائے صرف ایک ہی فریق رہ جاتاہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک دوسرا فریق موجود نہ
ہو معاہدہ کا تصور ہی باطل ہوتا ہے۔ اس دشواری کے پیش نظر یہ موضوع ذرا تفصیلی گفتگو
کا محتاج ہے۔ اس کے لئے ہمیں دیکھنا ہوا کہ اس باب میں اس نظریہ کے حاملین کیا کہتے
ہیں ۔اس ضمن میں ہمارے سامنے سب سے پہلے ہابز(Hobbes
1588-1679) آتا
ہے۔
ہابز کانظریہ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہابز کے نظریہ کے مطابق انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے مدنی الطبع نہیں بلکہ تنہائی
پسند ہے ۔عصر تمدّن سے پہلے جب انسان فطرت کے مطابق زندگی بسر کرتاتھا تو وہ زندگی
انفرادیت کی زندگی تھی۔ ہر شخص اپنے اپنے مفاد کی فکر میں رہتا تھا ۔ اس کے بعد ہابز
کہتا ہے انسان نے دیکھا کہ اس طرز زندگی میں بہت سے خطرات ہیں اس لئے اس نے خطرات سے
حفاظت کی تدبیر سوچی ۔اس جذبہ کے ماتحت افراد نے مل کر فیصلہ کیا کہ انہیں اجتماعی
طور پر رہناچاہئے ۔اس اجتماعیت کے لئے انہوں نے سو چا کہ باہمی تصادم کو مٹانے کے لئے
ضروری ہے کہ ہر فرد اپنے اختیارات کو کسی خاص فرد یا افراد کے مختصر سے مجموعہ کے سپرد
کردے۔ یہ فرد (یا افراد کامجموعہ) ان اختیارات کی رو سے تمام افراد کی حفاظت (Secutity) کا انتظام کرے۔
اس مختصر سے تعارف سے آپ نے
دیکھ لیا ہوگا کہ ہابز نے اس معاہدہ کے لئے ‘‘ فریق ثانی’’ پیدا کرلیا ہے۔ اور اس معاہدہ
کی ایک ہی شق ہے او روہ یہ کہ افراد داپنے تمام اختیارات کسی ایک فرد(یا افراد کے مجموعہ)
کے سپرد کردیں اور اس کے بدلہ میں وہ فرد (یا مجموعہ افراد) ان افراد کی حفاظت و صیانت
کا ذمہ لے ۔ چنانچہ ہابز کہتاہے ک اس معاہدہ کے بعد یہ مقتدر اعلیٰ جو کچھ کرتاہے وہ
درحقیقت ان افراد ہی کے اختیارات کا استعمال کرتاہے ۔ یہ مقتدر اعلیٰ اپنے فیصلوں میں
کسی آئین و ضوابط کا پابند نہیں۔ اس لئے اس کے فیصلے افراد متعلقہ کے لئے ضابطہ اخلاق
و قانون بن جاتے ہیں حتیٰ کہ دوسری مملکتوں کے ساتھ معاملات میں بھی کوئی متفقہ علیہ
ضابطہ اخلاق نہیں بلکہ صرف معاہدہ ضروری ہوتا ہے او رمعاہدات کے متعلق خود ہابز کے
الفاظ یہ ہیں کہ ‘‘تلوار کے بغیر معاہدات خالی الفاظ وہ جاتے ہیں جن میں اپنی حفاظت
کی کوئی قوت نہیں ہوتی’’ ۔لہٰذا اس ‘‘مقتدراعلیٰ’’ کی قوت ہی ضابطہ اخَلاق ہے۔
لاک کانظریہ:۔۔۔۔۔نظریہ میثاق
کا دوسرا پیامبر لاک(Lock - 1632-1704) ہے۔ انسانی فطرت کے
متعلق لاک کانظریہ ،ہابز کے بالکل برعکس ہے ۔لاک کے نزدیک جب انسان قانون فطرت کے مطابق
زندگی بسر کرتاتھا کہ یہ بڑاامن پسند ، صلح جُو ، مرفّہ الحال ، مطمئن او رمرنجاں مرنج
تھا۔ اس کے نزدیک انسان کے لئے یہی قانون فطرت ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ قانون عین
مطابق عقل (Reasonable) ہے۔ لیکن (لاک کے نزدیک) بعض انسان ایسے پیدا ہوگئے جنہوں نے عقل
کے بجائے جذبات سے کام لینا شروع کردیا۔ اور اس طرح انسان کی فطری زندگی میں بگاڑ شروع
ہوگیا ۔ اس بگاڑ کو سنوارنے کے لئے انسانوں نے باہمی معاہدہ کیا کہ ہمیں ایسا انتظام
کرناچاہئے جس سے وہی فطری زندگی پھر سے عود کر آئے ۔ اس انتظار کے لئے انہوں نے سوچا
کہ ایک جج ایسا ہونا چاہئے جو تصادم مفاد کے معاملات کا تصفیہ کردے۔ لاک کے نزدیک اکثریت
کا فیصلہ اس قسم کا حاکم اعلیٰ ( جج) بن سکتا ہے ۔ اس مقصد کے لئے وہ تجویز کرتاہے
کہ حکومت ملک کے نمائندگان پر مشتمل ہونی چاہیئے اور اسے اکثریت کی رائے تے تمامامور
کے فیصلے کرنے چاہئیں ۔ اس حکومت کو بھی قانون کا پابند ہوناپڑے گا ۔ اور جب کوئی حکومت
اپنے فرائض کی سر انجام دہی میں ناکام یا نا اہل ثابت ہوگی تو اس کی جگہ دوسری حکومت
قائم کردی جائے گی۔ بالفاط دیکر حکومت ہمیشہ ۔ افراد ملکت کے سامنے جوابدہ ہوگی۔ لاک
کے الفاظ ہیںء۔
کسی حکومت کو یہ حق حاصل نہیں
کہ وہ کچھ جی میں آئے کرتی رہے۔ قانون فطرت ، دہ ابدی قانون ہے جو تمام انسانو ں پر
یکساں طور پر منطبق ہوتا ہے خواہ قانون ساز ہوں یا قانون کے تابع۔
لاک کے نزدیک یہ ‘‘قانون فطرت’’
خدا کا بنایا ہوا ہے اور اسی سے مل سکتاہے ۱۔ اس قانون کے بنیادی اصول کے متعلق وہ لکھتاہے
کہ انسانوں کی جس فطری حالت کا ہم ذکر کررہے ہیں اس کا انحصار قانون فطرت کے نفاذ پر
ہے اور وہ قانون یہ ہے کہ چونکہ تمام انسان برابر ہی اور ہر فر دانسانی آزاد ہے اس
لئے کسی انسان کو یہ نہیں چاہئے کہ وہ کسی دوسرے انسان کو جان صحت آزادی یا املاک کے
معاملہ میں اذّیت پہنچائے۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ لاک درحقیقت
موجود ہ جمہوری انداز حکومت کا ابوالآبار ہے ۔ اس انداز حکومت میں ‘‘اکثریت کا فیصلہ’’
قانون کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ اصول کہا ں تک ٹھیک ہے اس کے متعلق ذرا آگے چل کر بحث
ہوگی جہا ں ڈیماکریسی پر گفتگو کریں گے۔
رُوسو کا نظریہ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظریہ میثاق کا تیسرا علمبردار روسو (Rousseau-1712-1788) ہے۔ روسو کے نزدیک انسان
کی فطری زندگی اگرچہ وحشیانہ تھی لیکن اس میں ہر انسان آزاد ، مرفّہ الحال اوف خوش
باش تھا۔ اس کے بعد تمدّن کی زندگی آگئی او راس نے انسان سے اس کی فطری آزادیاں اور
خوش حالیاں چھین لیں۲۔
اب زندگی اس قدر پیچیدہ ہوگئی ہے کہ انسان کے لئے پھر سے فطری زندگی حاصل کرنا ،ناممکن
ہے، لہٰذا اب کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ‘‘تہذیب’’ نے جو کچھ انسان سے چھیناہے اسے کسی
نہ کسی حد تک پورا کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
لاک نے اپنے نظریہ کو (Treatise On Government)کے نام سے شائع کیا تھا۔
۲
دیکھئے (Discourses On Inequality By Rousseau)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا طریقہ معاشرتی میثاق
ہے جس کی تشریح اس نے اپنی کتاب (The Social Contract) میں کی ہے۔ روسو یہ
کہتاہے کہ ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ اس کی آزادی برقرار رہے لیکن تمدّن کی زندگی میں
یہ نا ممکن ہوچکا ہے ۔ اس لئے اس کا علاج یہ ہے کہ تمام انسان مل کر اپنی اپنی انفرادیت
کو ایک اجتماعی معاشرہ میں جذب کردیں۔ اس طرح معاشرہ کے احکام کی اتّباح ہر فرد کی
اپنی ذات کی اتباع ہوگی اور کوئی فرد کسی دوسرے فرد کا محکوم نہیں ہوگا ،روسوکے الفاظ
میں:۔
اس معاہدہ کی روسے ہر فرد
اپنے تمام حقوق واختیارات سمیت اپنے آپ کو اجتماعیت کے حوالے کردیتا ہے ۔چونکہ تمام
افراد اسی طرح اپنے آپ کو اجتماعی معاشرہ کے حوالے کردیتے ہیں اس لئے ہر ایک کے لئے
حالات یکساں ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔ اس طرح ،یہ تمام انسان اس معاہدہ کے بعد اپنے آپ کو جس
حالت میں پاتے ہیں وہ اس حالت سے کہیں بہتر ہوتی ہے جس میں اس معاہدہ سے پہلے تھے۔
اس معاہدہ سے انہو ں نے کچھ کھویا نہیں بلکہ نفع بخش تبادلہ کیا ہے۔
اس اجتماعی معاشرہ کا نام
روسو کی اصطلاح میں ‘‘ اجتماعی ارادہ (General Will) ہے ۔ وہ کہتاہے کہ ہر
فرد کے دو ‘‘ارادے’’ ہوتے ہیں۔ ایک ذاتی اور ایک بحیثیت شہری ہونے کے اجتماعی ہوسکتا
ہے کہ کسی وقت انسان کا ذاتی ارادہ ،اجتماعی ارادہ سے ٹکرا جائے ۔ایسی صورت میں ذاتی
ارادہ کواجتماعی ارادہ کے تابع رکھنا ہی عین آزادی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
اس ‘‘اجتماعی ارادہ’’ کی تعبیر ( Expressoin) کس طرح سے ہو؟ اس کے
لئے روسو کے ذہن میں ایسا نظام جمہوریت ہے جس میں ہر مسئلہ کے متعلق ہر فرد کی رائے
دریافت کی جائے۔ روسو کے نزدیک ایسا انداز حکومت جس میں چند افراد کے انتخاب سے سمجھ
لیا جائے کہ وہ عوام کی نمائندگی کرتے ہیں، بڑا پرُ فریب اسلوب حکومت ہے۔لہٰذا وہی
حکومت اجتماعی ادارے کو صحیح تعبیر کر سکتی ہے جس میں ہر فرد کو اظہار رائے کا موقع
حاصل ہو۔ یہ ہوسکتا ہے کہ کسی مسئلہ کے حل کے لئے تمام افراد متفق اللّسان نہ ہوں۔
ایسی صورت میں روسو کہتاہے کہ اکثریت کا فیصلہ ہی قول فیصل ہوگا۔‘‘ اجتماعی ارادہ جس
قدر وسیع ہوتا جائے گا اسی قدر عقل سے قریب تر ہوجائے گا۔ آواز حلق درحقیقت خدا کی
آواز ہوتی ہے’’۔
لیکن جب رو سو نے یہ کہا کہ
‘‘اجتماعی ارادہ ’’ معلو کرنے کے لئے تمام افراد مملکت سے استصواب ضروری ہے ،تو اسے
خود ہی خیال آگیا کہ نا ممکن العمل ہے۔لہٰذا سوال پیدا ہوا کہ اس کے لئے کیا صورت اختیار
کی جائے گی ۔چنانچہ وہ لکھتاہے :۔
مجھ سے پوچھا جائے گا کہ
‘‘اجتماعی ارادہ’’کومعلوم کرنے کی صورت کیا ہوگی؟ کیا ہر موقعہ پر تمام کی تمام قوم
کو اکٹھا کیا جائے گا؟ بالکل نہیں! اسے بہت کم اکٹھا کرناچاہئے ۔اوّل تو اس لئے کہ
یہ بھی ضروری نہیں کہ تمام افراد کا اجتماعی بھی ‘‘ اجتماعی ارادہ’’ کی صحیح تعبیر
کرسکے۔ دوسرے یہ کہ بڑی بڑی اقوام میں یہ ناممکن العمل بھی ہوگا ، جن اقوام میں حکومت
نیک نہاد ہوگی وہاں اس کی ضرورت ہی نہیں پیش آئے گی اس لئے کہ ارباب حکومت اچھی طرح
جانتے ہیں کہ اجتماعی ارادہ کا وہی فیصلہ ہوگا جس سے مفاد عامہحاصل ہو۔
یعنی بات سمٹ سمٹا کر یہاں
تک آپہنچی کہ آخری فیصلہ کا مدار باب حکومت کی اس صوابدیدہ پر ہگا کہ کون سی بات مفاد
عامہ کے حق میں ہے۔یہی فیصلہ‘‘ اجتماعی ارادہ’’ بن جائے گا وہ اجتماعی ارادہ جسے
‘‘خدا کی آواز ’’کہا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے دیکھا کہ نظریہ میثاق
کے پیامبر وں میں لاک کا نظریہ ایسا ہے جو آج کل عام طور پر رائج ہے اور جسے نظام جمہوریت
(Democracy) کہاجاتا ہے ۔یہ نظریہ درحقیقت لاک اور روسو کے نظریوں کا امتزاج ہے
یعنی اس کی بنیاد تو روسو کے اس تصور پر ہے کہ ‘‘آواز خلق درحقیقت خدا کی آواز ہوتی
ہے’’ ۔ او راس کی عملی شکل لاک کے اس تصور پر ہے کہ ‘‘اکثریت کی آواز خلق کی نمائندگی
کرتی ہے’’۔
جمہوریت :۔۔۔۔۔۔ جمہوریت وہ
نظام حکومت ہے جس پر انسان اپنی مدّت العمر کے تجارب کے بعد پہنچا ہے او رمغربی مفکّرین
کے نزدیک اس سے بہتر نظام حکومت کا تصور ناممکن ہے۔اس نظام کو آیۂ رحمت اور کفیل برکات
و سعادت سمجھا جاتا ہے ۔ اس کی تائید کرنے والوں کو حق وصداقت کے شاہد او رنوع انسانی
کی فلاح وبہبود کا معاون خیال کیا جاتاہے او راس کی مخالفت کرنے والوں کو انسانیت کامجرم
اور خدا کا دشمن تصور کیا جاتاہے ۔ اسے انسانی ذہن کے سامنے کچھ اس انداز سے پیش کیا
جاتا ہے گویا اسے آسمانی سند حاصل ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا اتنی مدّت کے تجربہ
نے اس نظام حکومت کو فی الواقع بہترین نظام ثابت کیا ہے اور اس بارے میں مغرب کے موجودہ
مفکّرین کا خیال کیا ہے۔
ڈیماکریسی کی بنیاد حسب ذیل
مفروضات پر ہوتی ہے۔
(1)اس انداز حکومت میں حاکم او رمحکوم کا امتیاز باقی نہیں رہتا
۔‘‘ اس میں عوام کی حکومت’’ عوام کے مفاد کی خاطر عوام ہی کی وساطت سے ’’ کا اصول کار
فرما ہوتاہے ۔
(2) عوام کامنشاء ان کے نمائندگی کے ذریعہ معلوم ہوسکتا ہے۔
(3) کسی چیز کے صحیح اور غلط ہونے کا معیار ان نمائندگان کی کثرت رائے
پر ہوتا ہے ۔
(4) اقلیت کے اکثریت کے فیصلے صحیح تسلیم کرنے پڑتے ہیں۔
کچھ عرصہ ہوا لندن یونیورسٹی
کے پروفیسر (Alfred Cobban) نے (The Crisis Of Civilisation) کے نام سے ایک کتاب
لکھی تھی۔
الفریڈکوبن کی تنقید:۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس میں موجود تہذیب مغرب کے زوال کے اسباب پر بحث کرتاہوا لکھتا ہے کہ مغرب کی تباہی
کا ایک بڑا سبب ان کا انداز جمہوریت ہے۔ چنانچہ اس ضمن میں وہ کہتا ہے۔
ہم اپنی دلیل کو دوفقروں میں
سمیٹ دیتے ہیں ۔ڈیماکریسی کا اصول یہ بتایا جاتا ہے کہ اس میں اقتدار اعلیٰ عوام کو
حاصل ہوتا ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ عمومی منشا ء (General
Will) اپنا
مستقل وجود رکھتا ہے ۔اس نظریہ کو صحیح تسلیم کرنے کا منطقی نتیجہ آمریت ہے۔تاریخ شروع
سے اخیر تک یہی بتاتی ہے۔(67)
پروفیسر کو بن کا مطلب یہ
ہے کہ اگر تسلیم کیا جائے کہ عمومی منشا ء اپنا الگ وجود رکھتا ہے تو پھر اس عمومی
منشا کا مظہر کثرت آراء ہی کو کیوں قرار دیا جائے۔ اگر عوام کسی ایک شخص پر اعتماد
کرلیں تو اس فرد واحد کو اس عمومی منشا کا ذریعہ تعبیر کیوں نہ مان لیا جائے۔پروفیسر
مذکور کا دعویٰ یہ ہے کہ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ عمومی منشا کا نظریہ آخرلا مر ڈکٹیٹر
شب پر منتج ہوتاہے۔ باقی رہا حاکم و محکوم کا امتیاز سواس کے متعلق پروفیسر کو بن لکھتا
ہے۔
اس نظریہ کو اگر بنظر امعان
دیکھا جائے تو ‘‘عوام کے اقتداراعلیٰ’’ کا فریب نکھر کر سامنے آجاتا ہے اگر سیاست کونظری
حیثیت سے نہیں بلکہ عملی حیثیت سے دیکھا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ حاکم اور محکوم
کو ایک ہی تصور کرنا ،عملی ناممکنات میں سے ہے ۔ عملاً حکومت افراد کے ایک طبقہ پر
مشتمل ہوتی ہے اور رعایا ، افراد کے دوسرے طبقہ کانام ہوتاہے ۔جب معاشرہ اپناابتدائی
قبائلی زندگی سے ذرا آگے بڑھ جائے تو پھر حاکم او رمحکوم کبھی ایک نہیں ہوسکتے ۔ یہ
سمجھ لینا کہ دونوں ایک ہی ہیں ، مملکت میں بدترین قسم کی آزادی اختیارات پیدا کردیتا
ہے۔(68)
اس نظریہ کے متعلق کہ صحیح
وہ ہے جسے اکثریت صحیح کہہ دے پروفیسر مذکور لکھتاہے ۔
عوام کے اقتدار اعلیٰ کے نظریہ
کی تائید میں روایتی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حکومت یا تو قوت سے قائم کی جائے گی یا
باہمی رضامندی سے اور چونکہ یہ غلط ہے کہ جس چیز کو قوت صحیح کہہ دے وہ صحیح ہو اس
لئے یہی درست ہے کہ حکومت کو باہمی رضا مندی پر مبنی ہوناچاہئے ۔لیکن یہ دلیل نہ تو
منطقی طور پر صحیح ہے نہ ہی صداقت پر مبنی ۔اگر کسی غلط بات کو لاکھ آدمی بھی صحیح
کہہ دیں تو وہ صحیح نہیں ہوسکتی ۔۔۔۔فیصلہ وہی صحیح ہوسکتا ہے جو درحقیقت صحیح ہو نہ
کہ وہ جسے وہ لوگ صحیح کہنا شروع کردیں۔ روسو کہتاہے کہ ‘‘ منشائے عمومی’’ ہمیشہ صحیح
ہوگا ورنہ منشائے عمومی کہلا نہیں سکے گا۔اگریہ صحیح ہے تو پھر اکثریت اوراقلیت کا
سوال ہی باقی نہ رہا۔ سوال یہ رہ گیا کہ جو چیز اخلاقی بنیادوں پر درست ہے وہی صداقت
ہے(خواہ اس کی تائید میں ایک ہاتھ بھی نہ اٹھے) (76)
اس کے بعد پروفیسر کو بن لکھتا
ہے:۔
اقتدار اعلیٰ لفظی طور پر
بڑا بلند آہنگ تصور ہے۔ لیکن اس کا صحیح مفہوم صرف اسی صورت میں سمجھ میں آسکتا ہے
جب ہم یہ دیکھیں کہ روزمرّہ کی زبان میں اس کا مطلب کیا ہے۔ؤ‘‘ اقتدار اعلیٰ’’ سے مفہوم
‘‘اختیارات مطلقہ’’ ہے یعنی بلاحدود دقیود حکومت خواہ ایسی حکومت ایک فرد کی ہو یا
ایک جماعت کی۔ اس لئے ‘‘اقتدار اعلیٰ’’ کے نظریہ کو محض ایک نظری سوال سمجھ کرنظرانداز
نہیں کردینا چاہئے آج اس مفروضہ کو حقیقت ثابتہ تسلیم کرلیا جاتاہے کہ قوم کو ‘‘اقتدار
اعلیٰ’’ حاصل ہے اور اس کے بعد بحث صرف اس مسئلہ کے متعلق رہ جاتی ہے کہ اختیارات کسی
فرد و احد کے ہاتھ میں ہونے چاہئیں یا کسی نمائندہ جماعت کے ہاتھ میں لیکن ہمیں غور
کرناچاہئے کہ ‘‘اقتداعلیٰ’’ کا تصور صحیح بھی ہے؟ یہ ہے اصل مسئلہ یعنی یہ سوال کہ
آیا قانون کا سرچشمہ عوام ہی کامنشا ء ہے ( خواہ اس کی تعبیر ایک فرد کے ذریعے ہو یاایک
جماعت کے ذریعے ) یا اس کے علاوہ کوئی اور سرچشمہ ہے۔(58)
یعنی پروفیسر کو بن کے نزدیک
اصل سوال یہ نہیں کہ قانون کی تدوین کا حق کسی ایک فرد کو ہے یا کسی نمائندہ اسمبلی
کو ۔اصل سوال یہ ہے کہ کیا انسانوں کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ بلا حدود دقیود قوانین
وضع کریں اور جس بات کو خود صحیح سمجھیں اسے اختیار کرلیں او رجسے غلط سمجھیں اسے ردّ
کریں ۔پروفیسر مذکور آگے چل کر لکھتا ہے کہ انسانوں کو یہ حق حاصل ہی نہیں۔ تمام قوانین
اپنی اصل کے اعتبار سے پہلے ہی مدوّن شدہ ہیں۔ انسانوں کو فقط ان قوانین کو نافذ کرنا
ہے۔ ان اصولی قوانین کاسرچشمہ پروفیسر کو بن کے نزدیک قانون فطرت ہے۔
آپ نے یہ دیکھ لیا کہ پروفیسر
کوبن کے نزدیک وہ بنیادہی غلط ہے جس پر ڈیماکریسی کی عمارت استوار ہے ۔ انسانوں کو
اصول قوانین وضع کرنے کا اختیارہی نہیں اور حق ، حق رہتاہے خواہ اس کی تائید میں ایک
ہاتھ بھی نہ اٹھے او رباطل ،باطل ہوتاہے خواہ اسے سوفیصد ی تائید حاصل ہوجائے۔
پروفیسر ایوئنگ کی تنقید:۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر (A.C. Ewing) نے 1947 ء میں ایک نہایت
عمدہ کتاب بہ عنوان (The Individual The State And World
Government) شائع
کی ہے۔اس میں اس نے ڈیماکریسی کے متعلق بڑی شرح و بسط سے بحث کی ہے۔ اسی بحث کے دوران
میں وہ لکھتا ہے کہ روسو نے یہ سمجھا تھا کہ نظام جمہوریت میں استبداد یا غصب حقوق
کا خطرہ نہیں ہوگا کیونکہ لوگ اپنے اوپراستبداد یا خود اپنے حقوق کا غصب کبھی روانہ
رکھیں گے لیکن ۔اگر روسو عصر حاضر میں جمہوری نظام کے عملی تجربہ سے پہلے اپنی کتاب
نہ لکھتا تو وہ نظام جمہوریت کے متعلق کبھی ایسی خوش فہمی سے کام نہ لیتا (116)
اس کے بعد پروفیسر مذکور لکھتاہے
۔
نظام جمہوری کے حق میں بہت
کچھ کہا جاسکتاہے اس لئے کہ (ا) یہ نظام باہمی رضامندی کی حکومت کے قریب تر چلا جاتاہے
۔(ب) یہی وہ نظام ہے جس میں تمام مختلف مفاد کو نمائندگی حاصل ہوجاتی ہے اور (ج) جو
سیاسی آزادی اس نظام کی رو سے حاصل ہوتی ہے اس کا اثر انسانی کیرکٹر پر بہت اچھا اثر
پڑتا ہے ۔لیکن ان دلائل سے یہ کبھی ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ جمہوری انداز حکومت نوع
انسانی کے لئے بہترین نتائج کاحامل ہے ۔ان دلائل سے اتناہی ثابت ہوسکتاہے کہ اس نظام
کے بہت سے فائدے ہیں ۔لیکن دوسری طرف اس کے نقصانات ان فوائد سے بھی بڑھ کر ہیں۔ڈیماکریسی
کے خلاف سب سے بڑی اصولی دلیل ایسی واضح ہے جس کی لمبی چوڑی تشریح کی ضرورت ہی نہیں۔ڈیماکریسی
کے معنی ایسا انداز حکومت ہیں جس میں ہر انسان دخیل ہوتاہے لیکن ‘‘گورنمنٹ’’ ایک خاص
فن ہے اور بڑی مشکل سائنس اور ہر شخص میں نہ اس کی صلاحیت ہو ہوسکتی ہے نہ اس کا مذاق
نہ اس کے لئے فرصت نہ میلان کہ وہ اس فنی سائنس میں درک حاصل کرلے جس طرح ہر عطائی
فن طب کا ماسٹر نہیں ہوسکتا ۔لہٰذا جمہوریت کے معنی ایسے لوگوں کی حکومت ،جو فن حکومت
کے ماہر نہیں ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھئے طب کے کسی اہم سوال کے متعلق عوام کی کثرت
رائے سے فیصلہ کرلیا جائے اور ان آراء میں ماہر فن ڈاکٹر کی رائے بھی ایک ہی شمار کی
جائے ۔ (123-24)
جوڈ کی رائے :۔۔۔۔۔۔ڈیماکریسی
کے خلاف یہی اعتراض افلاطون نے کیا تھا ۔اس نے کہا تھا کہ نظام حکومت جیسے اہم فریضہ
کو عوام کے سپرد کرنابہت بڑی حماقت ہے اسے ملک کے بہترین افراد کے سپرد کرناچاہئے تاکہ
وہ اپنی دانش اور آرا ء سے عوام کی سطح کو بلند کرتے جائیں لیکن جو ڈ (جوڈیماکریسی
کا بہت بڑا حامی ہے) افلاطون کی اس دلیل کی مخالفت کرتا ہوا لکھتا ہے کہ :۔
جس طرح ایک مڑ ا ہوا پاؤں
،قاعدے کے مطابق بنے ہوئے سیدھے جوتے میں کسی آرام محسوس نہیں کرسکتا ۔اس کے لئے اس
قسم کاٹیڑھا بیڑا جوتا ہوناچاہئے ۔اسی طرح جس قسم کے انسان ہوں اس قسم کی حکومت ہونی
چاہئے ۔پست سطح کے انسان بلند سطح کے انسانوں کی حکومت میں کبھی خوش نہیں رہ سکتے
۔لہٰذانہیں آزاد چھوڑ دینا چاہئے کہ وہ اپنے مزاج کے مطابق خود حکومت بنالیں۔
(Guide To Philosophy Of Morals And Plotycs
- pp. 789-790)
اس دلیل کا طفلانہ پن ایسا
واضح ہے کہ اس کی تردید میں کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ
مریضوں کو اپنی دوا اور غذا کے متعلق خود فیصلہ کرنا چاہئے کیونکہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ
دواانہیں ناگوار گذرے ی او رغذا خوش ذائقہ معلوم نہیں ہوگی ۔ اس لئے وہ اسے مرغوب خاطر
نہیں پائیں گے ! حکومت کا مقصد عوام کی سطح کو بلند کرنانہیں بلکہ جس طرح وہ مطمئن
ہوں اس کے مطابق سامان و ذرائع بہم پہنچانا ہے۔ اس دلیل کا بوداپن اس سے بھی ظاہر ہے
کہ خود جوڈ کو (کچھ عرصہ بعد) اصولی جمہوریت کے خلاف لکھنا پڑا ۔چنانچہ وہ اپنی کتاب
(Decadence) میں لکھتاہے کہ سائنس کی رو سے ہر چیز کی قیمت اس کی کمیت (Quanitity) کے لحاظ سے مقرر ہوئی
ہے کیفیت (Quality) کی رو سے نہیں ۔ سائنس کے عام ہونے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسی اصول کو
سیاست پر منطبق کرلیاگیا۔ چنانچہ جمہوری انداز حکومت میں فیصلے ‘‘سروں کی گنتی’’ سے
ہونے لگے۔ ہر سر ایک ووٹ خواہ ایک سر مفکّر کا اور دوسرے گدھے کا کیوں نہ ہو۔ حالانکہ
یہ حقیقت ہے۔
کہ از مغز دوصد خر فکر انسانے
نمی آید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مختلف مدبرّین کے خیالات
نظام جمہوریت کے متعلق مشہور
اطالوی مدبرّ ،میزینی ( Mazzini) نے لکھاہے ۔
اس میں شبہ نہیں کہ عام رائے
دہندگی کااصول بہت اچھی چیز ہے۔ یہی وہ قانونی طریق کار ہے جس سے ایک قوم تباہی کے
ملسل خطرات سے محفوظ رہ کر اپنی حکومت آپ قائم رکھ سکتی ہے۔ لیکن ایک قوم میں جس میں
وحدت عقائد نہ ہو جمہوریت اس سے زیادہ او رکیا کرسکتی ہے کہ وہ اکثریت کے مفاد کی نمائندگی
کرے او راقلیت کو مغلوب رکھے ۔ ہم یا تو خدا کے بندے بن سکتے ہیں یا انسان کے وہ ایک
انسان ہو (ملوکیت) یا زیادہ (جمہوریت) بات ایک ہی ہے۔ اگر انسانوں کے اوپر کوئی اقتداراعلیٰ
نہ ہوتو پھر کونسی چیز ایسی رہ جاتی ہے جو ہمیں طاقتور افراد کے تغلّب سے محفوظ رکھ
سکے ؟ اگر ہمارے پاس کوئی ایسا مقدس اور ناقابل تغیر قانون نہ ہو جو انسانوں کا وضع
کردہ نہ وہ، تو ہمارے پاس وہ کونسی میزان رہ جاتی ہے جس سے ہم یہ پرکھ سکیں کہ فلاں
کام یا فیصلہ عدل پر مبنی ہے یا نہیں خدا کے علاوہ جو بھی حکومت قائم ہو اس میں نتائج
کی حقیقت ایک ہی رہتی ہے۔ خواہ اس کانام بوناپارٹ رکھ لیں یا انقلاب (Revolution) اگر خدادرمیان میں نہ
رہے تو اپنے زمانہ سطوت کے ہر ایک مستبدبن جائے گا۔۔۔۔ یاد رکھئے کہ جب تک کوئی حکومت
خدا کے قوانین کے مطابق نہیں چلتی اس کا کوئی حق مسلم نہیں حکومت تو منشائے خداوندی
کی ترویج و تنقید کے لئے ہے اگر وہ اپنے اس فریضہ کی سر انجام دہی میں قاصر ہے تو تمہارا
یہ حق ہی نہیں بلکہ فریضہ کہ ایسی حکومت کو بدل ڈالو۔
(Quoted By Grifftth ''Interpretters Of
Man: p. 46-47)
یہ انیسویں صدی میں لکھا گیا
تھا۔ او رآج فرانس کامفکّر رینی گوین (Rene Guenn) لکھتا ہے:۔
اگر لفظ جمہوریت (Democracy) کی تعریف یہ ہے کہ لوگ
خود اپنی حکومت آپ قائم کریں تو یہ ایک ایسی چیز کا بیان ہے جس کا وجود ناممکنات سے
ہے اور جو نہ کبھی پہلے وجود میں آئی ہے اور نہ آج کہیں موجود ہے۔ ایسا کہنا ہی جمع
بین النقیضین ہے کہ ایک ہی قوم بیک وقت حاکم بھی ہو اور محکوم بھی۔۔۔حاکم او رمحکوم
کا تعلق دو الگ الگ عناصر کے وجود کامتقاضی ہے۔ اگر حاکم نہیں تو محکوم بھی نہیں ۔ہماری
موجودہ دنیا میں جو لوگ (کسی نہ کسی طرح) قوت اور اقتدار حاصل کرلیتے ہیں ان کی سب
سے بڑی قابلیت اس میں ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں یہ عقیدہ قائم کردیں کہ (ان
پر کوئی حاکم نہیں بلکہ) وہ خوداپنے آپ پر حاکم ہیں۔۔۔۔ عام رائے دہندگی (Universal
Suffrage) کااصول
اسی فریب دہی کی خاطر وضع کہا گیا ہے (اس اصول کی رو سے) سمجھا یہ جاتاہے کہ قانون
اکثریت کی مرضی سے وضع ہوتا ہے۔ اور اس حقیقت کو انظر انداز کردیا جاتا ہے کہ اکثریت
کی یہ مرضی ایک ایسی شے ہے جسے نہایت آسانی سے ایک خاص رُخ پر بھی لگا یا جاسکتاہے
او ربدلا بھی جاسکتا ہے۔
(The Crisis Of The Modern Worls: p. 106)
ڈین انج (Dean
Inge) اپنی
کتاب (The Fall Of Idols) میں ڈیماکریسی کے خلاف مختلف مفکّرین او رمدبرّین کے اقوال نقل کرتاہے
۔ایک اقتباس ہے۔
آزاد لوگ جنگ کے زیادہ متمنّی
ہوتے ہیں او رجمہوریتیں مطلق العنان بادشاہوں سے زیادہ اپنے جذبات کی غلام ۔(Mirabeau)
ایک اور
جمہوریت نظری طور پر تو اپنے
آپ کو مثالی نظام محسوس کرسکتی ہے لیکن عملی طور پر ایک ناممکن نظریہ ہے ۔( Irving
Babbit)
اور خود انج کے الفاظ میں
:
ایک مکمل جمہوریت بھی اس حد
تک جمہوری نہیں ہوسکتی جس حد تک نظریہ جمہوریت اسے جمہوری بناتاہے ۔(110)
مینکن(H.L.
Mencken) اپنی
کتاب Teatise On Right And wrong میں لکھتا ہے :۔
تمام ناکامیوں میں سب سے بڑی
ناکامی خود انسان کی ہے۔ اس انسان کی جو سب سے زیادہ مدنی الطبع حیوان اور سب سے زیادہ
عقلمند ہے۔ اور وہ ناکامی یہ ہے کہ یہ اپنے لئے آج تک کوئی ایسانظام وضع نہیں کرسکا
جسے دور سے بھی اچھی حکومت کہا جاسکے ۔ اس نے اس باب میں بڑ ی بڑی کوششیں کی ہیں۔ بہت
سی ایسی جوانی الواقعہ محیّر العقول ہیں او ربہت سی ایسی جو بڑی جرأت آزما تھیں۔لیکن
جب ان کی عملاً تنفیذ کا وقت آیا تو نتیجہ حسرت ویاس کے سوا کچھ نہ تھا ۔ اس کا سبب
یہ تھا کہ نظری طور پر حکومت کا خاکہ کھینچ لینا اور بات ہے او ر عملی طور پر اے نافذ
کرنا او ربات ۔ نظری طور پر حکومت اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ افراد مملکت کی ضروریات
زندگی مہیا کرنے کا ذریعہ ہے او رارباب حکومت پبلک کے خدّام ہیں۔ لیکن درحقیقت حکومت
کا فریضہ پبلک کی خدمت نہیں بلکہ سلب ونہب ہے۔۔۔۔۔ اس باب میں مختلف اسالیب حکومت میں
سب سے زیادہ ناکام نظام جمہوریت رہا ہے۔ جمہوری نظام کے ارباب حل و عقد خوب جانتے ہیں
کہ حکومت کی بنیاد معقولیت پر ہونی چاہئے ۔لیکن ان کا جذبہ محرّکہ کبھی معقولیت پسندی
نہیں ہوتا۔ ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ جو عنصربھی باہر سے زیادہ دباؤ ڈال سکے اس کا ساتھ
دیا جائے۔ چنانچہ اس ہتھکنڈے سے وہ ان لوگوں کے توسط سے جو فی الحقیقت پبلک کے دشمن
ہوتے ہیں غیر مختتم عرصہ تک برسراقتدار رہتے ہیں۔ (23)
پروفیسر (Susan
Stebbing) جو
ڈیموکریسی کی بڑی حامی تھی عملی ڈیماکریسی کے سلسلہ میں لکھتی ہے کہ مغربی ممالک میں
اس وقت تک کی ڈیماکریسی کے متعلق صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ یہاں ڈیماکریسی کی سیاسی
مشینری نصب ہوسکی ہے اور لوگ اسی سے مطمئن ہیں۔
(Ideals And Illusion: p. 153)
پروفیسر (Yvesr
Simon) نے
فلسفہ جمہوریت سے متعلق
(Philosophy Of Democratic Government) ایک قابل قدر کتاب لکھی
ہے ۔ وہ اس کتاب میں جمہوریت کی بڑی مدافعت کرتاہے لیکن اس کے باوجود اسے بھی تسلیم
کرنا پڑا کہ :۔
ممتاز گروہوں کے نمائندوں
پر مشتمل حکومت اچھی چیز ہے بشرطیکہ یہ لوگ مملکت کے تمام افراد سے رابطہ قائم رکھ
سکیں لیکن اس قسم کا رابطہ نہ صرف مشکل ہے بلکہ شاذ ہی حاصل ہوتا ہے ۔
اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی:۔۔۔۔۔۔۔1947
میں اقوام متحدہ کی تقافتی مجلس (UNESCO) نے ایک تحقیقاتی کمیٹی
میں غرض سے مقرر کی کہ وہ جمہوری انداز حکومت نے کے متعلق سائنٹیفک انداز سے چھان بین
کرے۔اس کمیٹی نے دنیا بھر کے مفکرین و مدبرّین سے جمہوریت سے متعلق مقالات حاصل کئے
او رانہیں ایک کتابی شکل میں شائع کردیا ۔ اس کانام ہے (Democrcy
In A World Of Tension) اس کمیٹی نے سب سے پہلے یہ سوال پیش کیا تھا کہ ‘‘جمہوریت’’ (Decmocracy) کامفہوم کیا ہے جوابات
کی اکثریت میں اعتراف کیا گیاہے کہ یہ لفظ بالکل مبہم (Ambiguous) ہے۔ آج تکاس کامفہوم
ہی متعین نہیں ہوسکا چنانچہ ا کے بعد ان مقالہ نگاروں نے اس لفظ کے وہ معانی اور تعبیرات
لکھی ہیں جو مختلف اطراف و جوانب سے آج تک پیش کی جاتی رہی ہیں۔ان کی حالت یہ ہے کہ
ایک تعبیر سے دوسری تعبیر او رایک مفہوم سے دوسرامفہوم نہیں ملتا۔ بعض نے یہاں تک کہہ
دیا ہے کہ ‘‘ دور حاضرہ میں سب سے زیادہ مہمل لفظ جمہوریت ہے’’۔ اس کے بعد یہ سوال
سامنے آتا ہے کہ کیا اکثریت کا فیصلہ ہمیشہ درست ہوتاہے اور اس کے خلاف احتجاج کرنا،جمہوریت
کے خلاف ہے ۔ اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ ‘‘ یہ سمجھنا غلط ہے کہ اکثریت کا فیصلہ
غلطی سے پاک ہوتاہے اور وہ غلط بھی ہوسکتاہے ۔ اسلئے اقلیت کو حق حال ہے کہ وہ اکثریت
کے فیصلے کے خلاف ایجی ٹیشن کشرے او راکثریت کے سابقہ فیصلے کوبدلوادے۔’’
یہ ہے‘‘جمہوریت’’ کے متعلق
دور حاضرہ کے مفکّرین و مدبرّین کی فکری کاوشوں کا ماحصل ۔
حقیقت یہ ہے کہ نظری اعتبار
سے یہ کتناہی خود آئند او رجاذب نگاہ کیوں نہ ہو، عملاً جمہوری نظام کسی صورت میں بھی
‘‘ جمہوری’’ نہیں ہوسکتا ۔ اس کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ اس میں تصور کر لیا جاتا ہے
کہ اس میں حاکم ومحکوم کی تمیز مٹ جاتی ہے ۔مثلاً انتخابات کے وقت میں ایک شخص کے حق
میں ووٹ دیتاہوں اس ووٹ سے مقصد کیا ہوتا ہے؟ یہی کہ دو یا دو سے زیادہ امیدواروں میں
سے (جو انتخاب کے لئے مقابلہ کررہے ہیں) میرے نزدیک فلاں شخص بہتر ہے ۔میرے اس فیصلے
سے نہ رتو وہ شخص پوری قوم میں سے بہترین فرد بن سکتا ہے اور نہ ہی اس کا مطلب ہے کہ
وہ ہر معاملہ میں میرے منشاء کی تعبیر کرسکتا ہے ، اسمبلی میں کوئی مسئلہ پیش ہوتا
ہے او راس کے حق میں رائے دیتا ہے ۔ؤاس سے یہ کیسے لازم آگیا کہ اس نے اس باب میں میر
رائے کا اظہار کیا ہے۔ ممکن ہے کہ میری رائے اس کی رائے کے خلاف ہوؤ۔لہٰذا منتخب شدہ
ممبران کے متعلق یہ کہناکہ ہر مسئلہ میں ان کی رائے درحقیقت ان لوگو کی رائے ہے جنہوں
نے اس کے حق میں ووٹ دیا تھا، انسانی فکر وآراء کے متعلق بڑی خود فریبی ہے۔ جمہوری
نظام کی دوسری خرابی یہ ہے کہ اس میں اقلیت کو اکثریت کا محکوم ہونا پڑتاہے حالانکہ
کسی اصول کے ماتحت یہ درست نہیں کہ کسی جگہ کی اکثریت کو یہ حق دے دیا جائے کہ وہ جو
جی میں آئے کرے، اقلیت کو ان کافیصلہ بہر حال ماننا پڑے گا او راس فیصلے کو بدلوانے
کی آئینی شکل ایک ہوگی اور وہ یہ کہ اقلیت کسی نہ کسی طرح اکثریت میں تبدیل ہوجائے
۔ اور تیسری خرابی (جو سب سے بڑی ہے) یہ ہیے کہ اس نظام میں حق و باطل کے لئے کوئی
مستقل ، خارجی او رمطلق (Permanent, Objecxtive
And Obsolute) معیار
نہیں ہوتا بلکہ حق وہ ہوتاہے جسے 51 حق کہہ دیں او رباطل ہو جس کی تائید میں صرف
49 ہاتھ اٹھیں ایسے فیصلوں کے رو سے سوال یہ نہیں ہوتا کہ مثلاً شراب فی ذاتہ اچھی
چیز ہے یا برُی ۔اگر ایک مرتبہ (امریکہ کی پارلیمانی) کثرت رائے نے شراب کی ممانعت
کا فیصلہ کردیا تو وہ ممنوع قرار پاگئی اور اس کا استعمال جرم اور دسری مرتبہ زیادہ
ہاتھ اس کی تائید میں اٹھ گئے تو وہی شراب جو کل تک بیزار خرابیوں کا باعث تھی۔ آب
حیات بن گئی ۔ اس سے آپ نے اندازہ لگالیا ہوگا کہ جمہوری نظام میں مستقل اقدار کا تصور
نہیں رہتا اور چونکہ اخلاقیات کا دارومدار ہی مستقل اقدار کے تصور پر ہے اس لئے سیاست
،اخلاقیات سے الگ رہتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخلاق و سیاست:۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں
سے ہمارے سامنے ایک اور اہم سوال آگیا ۔یعنی یہ کہ کیا سیاست بنیادی اور بڑا ضروری
ہے او راس کے صحیح جواب پر، نوع انسانی کی تباہی اور بربادی یا فلاح و بہبود کا دارو
مدار ہے۔
حکمت یونان کی رو سے اخلاق
اور سیاست اس طرح دو الگ الگ شعبے نہیں تھے افلاطون اور ارسطو کی تصنیفات کو دیکھئے
ان اخلاقیات اور سیاسیات اس طرح باہمدگرممزوج ہیں کہ جب تک ان کے اخلاقی نظریات پیش
نظر نہ ہوں ان کے سیاسی تصورات سمجھ میں نہیں آسکتے ۔ اور جب تک سیاسی نظریات سامنے
نہ ہوں ان کے اخلاقی نظام کی تصویر ذہن میں نہیں آسکتی۔ لیکن اس کے بعدعیسائیت آئی
اور اس نے اخلاق اور سیاست کو الگ کردیا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام دیگر حضرات انبیاء
کریم کی طرح ایک ہت بڑی انقلاب آفریں ہستی تھے لیکن ان کے بعد رومی سلطنت نے اس انقلابی
جماعت کو استبداد کے پنجہ آہنی سے دبانے میں اس قدر شدّت اور سختی سے کام لیا کہ ان
کا شیرازہ منتشر ہوگیا اور ان لوگو ں نے اسی میں عافیت سمجھی کہ اپنے آپ کو سیاست سے
یکسر الگ کرکے گوشہ نشینی اور ترک دنیا کی زندگی اختیار کرلی جائے۔ رہبانیت کے زہدو
انزوا کی زندگی ان کے اسی فیصلہ کا نتیجہ تھی چنانچہ اس کے بعد سینٹ پال کی عیسائیت
کی رو سے خدا اور قیصر کی الگ الگ مملکتیں قائم ہوگئیں ۔خدا کی بادشاہت آسمانوں پر
اور قیصر کی مملکت زمین پر۔ زمین کی سلطنت میں خدا پرستوں کا کوئی حصہ نہ رہا نہ ہی
انہیں اس سے کچھ وواسطہ رہا۔ انسانی زندگی کا مقصود انفرادی نجات قرار پا گیا اور اس
نجات کا مقام موت کے بعد کی دنیا۔ لہٰذا نجات کے طالبوں کے لئے اس دنیا سے نفرت او
رآنے والی دنیا سے محبت لازمی قرار پا گئی ۔ جوڈ کے الفاظ میں ۔
عیسائیت کے رو سے انسانی زندگی
کا حقیقی مسکن یہ دنیا نہیں بلکہ آنے والی دنیا ہے آخری دنیا خبر محض کی مظہر ہے اس
کے برعکس یہ دنیا شرد فساد کی دنیا ہے۔ اس دنیا کی حیات ابدی ہے یہ دنیا محض عبوری
حیثیت رکھتی ہے ۔انسان کے لئے یہ دنیا اگلی دنیا کے لئے تیاری کامقام ہے۔ اس دنیا میں
کوئی شے بالکلیہ خیر اور طیّب نہیں یہاں جو کچھ اچھا نظر آتاہے وہ اسی صورت میں اچھا
ہے جب کہ وہ ان نعماء کے حصوں کا ذریعہ بن سکے جس کا وعدہ اگلی دنیا میں کیا گیا ہے(
129)
(Guide To Philosophy Of Morals And
Politics: p. 129)
اس انداز فکر کا لازمی نتیجہ
یہ تھا کہ سلطنت تمام اخلاقی قیود سے بے لگام ہوگئی او راخلاقیات کا ذریعہ محض پندو
نصائح (Sermons) رہ گئے ۔ شکست خوردہ عیسائیت کے اس غلط فیصلے نے انسان کو جس قدر
نقصان پہنچایا ہے اس کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ۔ذی اقتدار لوگوں کو ایک مرتبہ کھلی
چھُٹی دے دیجئے اس کے بعد ان پرکسی قسم کی ہلکی سی پابندی عائد کرنا بھی مشکل ہوجاتا
۔
میکیاؤلی کا نظریہ:۔۔۔۔۔۔
اخلاق و سیاست کی علیحدگی کی یہ خلیج دن بدن وسیع ہوتی چلی گئی تانکہ سولہویں صدی کے
شروع میں میکیاؤلی (Machiavell - 1469-1527)نے اس ‘‘ رجعی طلاق’’
کو ‘‘بائن’’ میں تبدیل کردیا ۔میکیاولی کے نظریہ سیاست کی رو سے سیاست کے اپنے ضوابطہ
اخلاق ہیں او راپنے معیار اقدار ہر وہ حربہ جس سے سلطنت کی قوّت بڑھے مستحق ستائش ہے
اور ہر وہ فریب جس سے کامیابی حاصل ہوجائے درخور ہزار تبرتک وتحسین یہی جائز و ناجائز
کامعیار او رحق و باطل کا پیمانہ ہے۔ ہیکیاؤلی کہتاہے کہ جس طرح پانی اپنی سطح سے اونچا
نہیں جاسکتا اسی طرح انسان اپنی حیوانی سطح سے بلند ہوہی نہیں سکتا۱
اس قسم کی کوششیں غیر فطری
ہیں اور تحفظ ذات چونکہ انسان کی حیوانی فطرت کے تقاضا ہے۔ اس لئے ہر وہ کوشش جو اس
تقاضے کو پورا کرنے میں ممدّو معاون ہو، محمود ہے اورجو اس کے خلاف ہو ہو مذموم
۔‘‘قوثت کا نام عدل و انصاف ہے اور حق اسی کا ہے جس کے پاس قوت ہے’’۔یہ ہے میکیاؤلی
کا بنیادی اصول سیاست مملکت تمام اخلاقی حدود وقیود سے بلند ہوتی ہے۔ ہابز نے تو اتنا
ہی کہا تھا کہ ‘‘جنگ کے زمانے میں ایک مدبّر کے لئے بہترین آلات قوت مکر و فریب ہیں’’
۔لیکن میکیاولی کہتاہے کہ اس باب میں جنگ اور امن کے زمانہ کی تمیز غلط ہے جنگ ہو یا
امن مملکت کے لئے سب سے زیادہ موثر ہتھیار قوت اور فریب ہیں۲۔
دی پرنس(The
Prince) میکیاولی
سیاست کا صحیفہ ہے اس میں میکیاولی لکھتا ہے ۔
بادشاہی کے لئے صفت روباہی
نہایت ضروری ہے تاکہ وہ دجل وفریب کے جال بچھا سکے ۔ اس کے ساتھ خوئے شیری بھی تاکہ
وہ بھیڑیوں کو خائف رکھ سکے۔ صرف شیرکی قوت کا فی نہیں اس لئے عقل مند بادشاہ وہ ہے
کہ جب دیکھے کہ کوئی عہد یا معاہدہ اس کے اپنے مفاد کے خلاف جاتاہے یا جن وجوہات کے
پیش نظر وہ معاہدہ کیا تھا، وہ باقی نہیں رہیں ، تو اسے بلاتامُل توڑ ڈالے۔ لیکن یہ
بھی ضروری ہے کہ اس قسم کی عہد شکنی کے لئے نہایت نگاہ فریب ولائل بہم پہنچائے جائیں
(Chapeter 18th)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱(The
Individual And The State By Roberth Murray: p. 89)
۲(The
Individual And The State By R.H. Murray: p. 91)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسریہ مقام پر لکھتا ہے
۔
جو بادشاہ اپنے پاؤں مستحکم
رکھنا چاہتاہے اس کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ بدی کس طرح کی جاتی ہے او را س کا کون
سا وقت سب سے زیادہ موزوں ہے۔ اس میں خوبیوں کا ہونا ضروری نہیں ۔البتہ یہ ضروری ہے
کہ بظاہر معلوم ہو کہ اس میں خوبیاں موجود ہیں۔ بظاہر ایسا دکھائی دے کہ وہ بڑا رحم
دل ‘وفاشعار’ نیک اطوارمذہب پرست، صداقت پسند ہے۔ اس میں چنداں مضائقہ نہیں کہ اس میں
ان میں سے کوئی خوبی سچ مچ ہوجائے لیکن یہ نہایت ضروری ہے کہ اس کے دل کی حالت ہمیشہ
اسی ہے کہ جونہی وہ دیکھے کہ مصلحت وقت کا تقاضا ہے کہ اس خوبی کو یکسر الگ کردیا جائے
تو وہ بلاتامل وتوقف اس کے خلاف عمل کرسکے۔ (Chapter
18th)
میکیاولی کی یہ کتاب سولہویں
صدی میں شائع ہوئی تھی ۔اس کے نظریہ سیاست نے کسی قدر مقبولیت حاصل کی ہے اس کا اندازہ
اس سے لگائیے کہ اس وقت سے آج تک اس کی کتاب مغربی سیاست ‘‘مقدس’’ کتاب کی حیثیت رکھتی
ہے ۔یورپ کے بڑے بڑے فرماں رواں اس کتاب کو سفر وحضر میں اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ (Thomas
Cromwell) تو
اسے تکیہ کے نیچے رکھ کر سویا کرتا تھا ۔ہنری سوم اس ‘‘نسخہ کیمیا’’ کو ہمیشہ اپنی
جیب میں رکھتا تھا۔ حتیٰ کہ جب وہ قتل ہوا ہے تو اس وقت بھی اس کی جیب سے یہ کتاب نکلی
تھی ۔بیکن لکھتا ہے۱۔
کامیابی کو سب سے بڑا راز
یہ ہے کہ تم اپنے عزائم کو چھپاؤ اور اپنے کیئر کو ہمیشہ زیر نقاب رکھو۔۔۔۔ صحیح حکمت
عملی یہ نہیں کہ پہلے سے ہی متعین کرلیا جائے کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ حکمت عملی یہ ہے
کہ حسب موقع جو صورت اپنے فائدے کی نظرآئے اختیار کرلی جائے۔ اسی لئے میں تم سے ہمیشہ
کہا کرتا ہوں کہ دوسری سلطنتوں سے معاہدات کرکے اپنے ہاتھ نہیں باندھ لینے چاہئیں
۔اپنے آپ کو ہمیشہ آزاد رکھناچاہئے ۔ میکیاولی نے کہا تھا کہ جو سلطنت اپنے مفاد سے
غافل ہوجاتی ے آخر الامرتباہ ہوجاتی ہے۔ میں اگرچہ (طبعاً) ایسے اصول کو پسند نہیں
کرتا لیکن میکیاولی سے متفق ہونے پر مجبور ہوں۲۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
(The Individual And The State By Murray:p. 208)
۲
(The Individual And The State By Murray:p. 212)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے متعلق ویکمین (H.O.
Wakeman) اپنی
کتاب (The Ascendancy Of Force) میں لکھتا ہے۔
اس کے فریڈرک دی گریٹ کی ،
حکمت عملی میں کشادہ نگہی کی ذرا سی چمک بھی باقی نہ رہی تھی اس کی ہوس رانیوں کو بلندنصب
العین کاکوئی ذرّہ بھی چھو نہیں سکا تھا ۔اخلاقی حقوق کا ادنیٰ سا پاس بھی اس کے فیصلے
پر اثر انداز نہیں ہوسکتا تھا۔مکافات عمل کا دور کا خیال بھی اس کے کسی عمل کو روک
نہیں سکتا تھا۔
اس مکتب فکر کے ایک اور متبع
Rumelin--1875 کے الفاظ میں مملکت کی بنیادی فریضہ کااپنے مفاد
کا تحفظ ہے او راپنی قوت کی نشو ونما اسے کسی مملکت کے مفاد کا خیال صرف اسی صورت میں
رکھناچاہئے جبکہ اس سے اس کے اپنے مفاد کے خلاف زدنہ پڑتی ہو۔مملکت کا استحکام ہر اخلاقی
تقاضے پر مقدم ہے اوراس لئے اس کے لئے ہر قربانی جائز (C.F.
Murray: p. 216)
ہمارا خیال ہے کہ میکیاؤلی
سیاست کی ہمہ گیری کے لئے سابقہ سیاسین او رگذشتہ بدبرّین کے اقوال و خیالات سے کہیں
زیادہ بّین ثبوت عصر حاضر کے مدبرّین اور ساسین کے اعمال و افعال ہیں۔ آج ساری سیاست
کامدار، مکروفریب اور خدع ودجل پر ہے۔ بڑے بڑے مشاہیرعالم اپنے وعدوں سے اس بے باکی
اور صفائی سے مُکر جاتے ہیں کہ انسان محوحیرت رہ جاتاہے ۔زبان پر کچھ ہے دل میں کچھ
ہے۔ کانفرنسوں میں تقریریں اور بیانات دیں گے تویوں نظر آئے گاگویا۔
سارے جہاں کا درد انہی کے
جگر میں ہے
اور اس کے بعد عمل دیکھئے
تو ۔
آستیں میں دشنہ پنہا ں ، ہاتھ
میں خنجر کھُلا
سیاست حاضرہ کاسار مدار بددیانتی
،بدمعاملگی ، وعدہ خلافی، فریب دہی، روباہ بازی پر ہے جو سب سے زیادہ کامیابی سے دھوکا
دے سکتاہے وہی سب سے بڑا مدبرّ ہے ۔ جو سب سے زیادہ صفائی سے لوٹ سکتا ہے وہی سب سے
بڑا دانا ہے ۔ اس میکیاؤلی سیاست کا نتیجہ یہ ہے Wqakenman کے الفاظ میں:۔
قومیں ایک دوسرے کے سامنے
وحشی درندوں کی طرح کھڑی ہیں اور ان کے سامنے صرف ایک اصول رہ گیا ہے کہ ‘‘جس کی لاٹھی
اس کی بھینس’’
(Quoted By Spalding In 'Civilisation In
East And West')
جوڈ کے الفاظ میں :۔
پرائیویٹ زندگی کے اخلاق کا
ضابطہ کچھ اور ہے او رامور مملکت کے لئے ضابطہ کچھ اور ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ
اپنی نجی زندگی میں دیانتدار رحمدل اور قابل اعتماد ہیں، ان کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ
جب انہیں اپنی مملکت کے نمائندہ کی حیثیت سے دوسری مملکت کے نمائندوں سے معاملہ کرنا
ہو تو وہاں سب کچھ کرگزرنا ثواب ہے جسے وہ اپنی نجی زندگی میں نہایت شرمناک تصور کرتے
تھے۔ (Guide To Morals Etc: p. 13)
اس لئے کہ لارڈ گرے کے الفاظ
میں ‘‘سلطنتوں کے معاملات اخلاقی ضابطوں کی رو سے طے نہیں پاسکتے’’۔ (Ideals
And Illusions: p. 13) اسی لئے وال پول نے لکھا تھا کہ ‘‘نیک آدمی کبھی بڑی سلطنت کو بچا
نہیں سکے’’۔ اس لئے کہ سلطنتوں کو بچانے کے لئے جس حد تک چلے جانا بعض اوقات ضروری
ہوجاتاہے نیک آدمی وہاں تک نہیں جاسکتے ۔ (ایضاً 14)
(Cavour) جسے متحدہ اطالیہ کامعمار کہا جاتاہے کہا کرتاتھا کہ ء۔
اگر ہم وہی کچھ اپنی ذات کے
لئے کریں جو کچھ ہم نے مملکت کے لئے کیا ہے تو ہم کتنے بڑے شیاطین کہلائیں ۔ (Foreign
Affairs -- July 1952)
حالانکہ:۔
کسی قوم میں کبھی دو قسم کے
اخلاق نہیں ہوسکتے ۔ارباب سیاست کے لئے الگ او رباقی لوگوں کے لئے الگ یادرکھئے ایک
طبقہ کی اخلاقی حالت ہمیشہ دوسرے طبقہ کی اخلاقی حالت کا عکس ہوتی ہے۔ (Mason
In 'Creative Freedom:p.250)
لارڈرسل لکھتاہے کہ:۔
سیاسی اخلاق کے بغیر قومیں
تباہ ہوجاتی ہیں اور ذاتی اخلاق کے بغیر ان کا وجود بے معنی ہوتاہے اسلئے ایک اچھی
دنیا کے لئے سیاسی اور پرائیویٹ اخلاق دونوں کی ضرورت ہے۔
(Authority And The Individual)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( جاری)
--------------
Part: 1- 'What did the man think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Preface—Part 1 انسان نے کیا سوچا
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism