غلام احمد پرویز
عالم الغیب
اشیائے کائنات کہ کنہّ و
حقیقت کے متعلق البتہ سائنس نے یہ اعتراف کرلیا ہے کہ ہماری محسوس دنیا کے علاوہ
ایک غیر محسوس وغیرہ مشہود ‘‘دنیائے غیب’’ ہے۔ شجر کائنات کا جڑیں اسی‘‘ غیب کی
دنیا’’ میں ہیں۔ ہم صرف اس کے تنے شاخوں اور پتوں ہی کو دیکھ سکتے ہیں اس ‘‘غیب کی
دنیا’’ کے اپنے قوانین ہیں۔ اورانہی قوانین کی رُو سے وہاں کے معاملات طے پاتے ہیں
۔ اس ‘‘غیب کی دنیا’’ کے متعلق ہم اس سے پہلے ایڈنگٹن کی بعض تصریحات دیکھ چکے ہیں
۔ وہ نقطہ زیر نظر کے متعلق لکھتا ہے۔
میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ سائنس
کے تحقیق جدید کی رُو سے حقیقت (Reality) اس دنیائے محسوسات
سے وابستہ نہیں ۔ اس اعتراف کے پیش نظر فلسفہ مادیت اپنی حقیقت مادیت جیسا نقطہ
نگاہ ہی پیش کرتے ہیں۔ اب عام میلان یہ ہے کہ اشیائے کائنات کے متعلق یہ نہ کہا
جائے کہ یہ مادّہ کے مظاہرہیں اس لئے کہ اب دنیا ئے طبیعیات میں مادّہ کی کوئی
اہمیت ہی نہیں رہی۔ اب کوشش یہ کی جاتی ہے کہ ہر شے کو قوانین فطرت کا مظہر قرار
دیا جائے۔ قوانین فطرت سے مراد اس قسم کے قوانین ہیں جیسے جیومیٹری میکانکس اور
طبیعیات کے قوانین ہوتے ہیں ۔ان کا سلسلہ آخر لامرریاضی کی مساوات (Mathermatical
Equatioin)
تک پہنچ جاتاہے۔ یہ سادہ الفاظ میں یوں کہئے کہ ایسے قوانین جو انسانوں کے بنائے
ہوئے قوانین کی طرح توڑے نہیں جاسکتے ۔آج ماذّیت سے مراد اسی قسم کے قوانین فطرت
ہیں۔۔۔۔ (ان تحریحات کی روشنی میں ) سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ‘‘غیب
کی دنیا’’ بھی انہی قوانین کے تابع چل رہی ہے یا اس کے کوئی او رقوانین ہیں۔ حقیقت
یہ ہے کہ قوانین فطرت بھی ‘‘غیب کی دنیا’’ پر منطبق نہیں ہوسکتے (ہم سمجھنے کی
خاطر) ان قوانین کو محض اشارات (Symbols) کے ذریعہ اس دنیا
پر منطبق کردیتے ہیں۔ اس دنیا او راس دنیا میں ایک قسم کی وحدت ضرور پائی جاتی ہے
لیکن یہ وحدت قوانین فطرت کی رُو سے قائم نہیں ہے۔
(Science And The Unseen World: p.32)
اس موضوع پر (Max
Plank)
نے اپنی کتاب (Universe In The Loght Of Modern Physics) میں بڑی نکات آفریں
بحث کی ہے جس کا ملخّص یہ ہے کہ ‘‘طبیعیات کے تمام تصورات ا س دنیا سے اخذ کئے
جاتے ہیں جس کا علم ہمیں اس حواس کے ذریعہ ہوتا ہے لیکن ہماری عقل ہمیں بتاتی ہے
کہ یہ طیبعیات کے قوانین جنہیں قوانین فطرت کہا جاتاہے )اس وقت سے موجود ہیں جب اس
خطہ زمین پر ہنوز زندگی کی لمود نہیں ہوئی تھی۔ او ریہ قوانین نوع انسانی کے خاتمہ
کے بعدبھی رہیں گے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ اس دنیائے محسوسات کے علاوہ ایک حقیقی دنیا
بھی ہے جو انسان کے علم و تصورات کے تابع نہیں’’۔
یہ تصریحات ہمیں جن تنائج
تک پہنچاتی ہیں وہ یہ ہیں کہ :،۔
(1) دنیائے محسوسات کے علاوہ ایک او ردنیا بھی ہے جہاں اس دنیا کے
قوانین نافذ العمل نہیں ہوسکتے اس دنیا کے اپنے قوانین ہیں۔
(2) مادّیت سے اب مفہوم یہ ہے کہ یہ تمام سلسلہ کائنات قوانین فطرت
کے تابع چل رہا ہے ۔اور قوانین فطرت میں کوئی تغیر ت تبدل نہیں ہوتا۔
شق(2) کے متعلق ہم
میکانکی نظریہ کائنات کے عنوان میں جزئی طور پر گفتگو کرچکے ہیں جس سے یہ نتیجہ
اخذ کیا گیا تھا کہ اس تصور کے ماتحت انسان ایک مجبور محض مشین بن کر رہ جاتا ہے
صاحب اختیار وارادہ انسانی نہیں رہتا ۔اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ سائنس کی جدید
تحقیقات کی رُو سے :۔
(ا) اس مادی دنیا کا اس غیر مادی دنیا کے ساتھ تعلق کیا ہے ۔ اور
(ب) ٓیا یہ تصور کہ قوانین فطرت اٹل ہیں ۔اس لئے جبر کانظریہ (Determinism) ایک حقیقت ہے ابھی
تک اپنی جگہ پر قائم ہے یا اس میں تبدیلی واقع ہوچکی ہے؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں دنیاؤں کا باہمی
تعلق:۔۔۔پہلے یہ دیکھئے کہ اس وقت تک کی تحقیق کے مطابق مادہ کا اس غیر مادّی ونیا
کے کیا تعلق ہے ؟ یہاں تمہید اس حقیقت کو ایک مرتبہ پھر دہرا دینا ضروری معلوم
ہوتا ہے جس کی طرف ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں یعنی اس بحث کے سلسلہ میں مادہ (Matter) کے مقابل میں روح (Spirit)کالفظ بولاجاتاہے
۔یہاں روح سے مراد وہ دنیا ہے جسے ایڈنگٹن نے غیر مرئی یا نامشہود (Un-Seen) دنیا کہہ کر پکارا
ہے ۔چونکہ مغربی لغت میں اس کے سوا کوئی او رلفظ نہ تھا اس لئے انہیں مجبوراً (Spirit) کا لفظ استعمال
کرنا پڑا ۔قرآن میں دنیا ئے مشہور کے لئے خلق اوردنیائے نا مشہود کے لئے امر کی
اصطلاحات آئی ہیں ۔(علامہ اقبالؒ کے الفاظ ہیں) برنجل پیٹیسن (Bringle
Pattison)
متاشف ہے کہ انگریزی زبان میں صرف (Creation) کا لفظ ہے جو خلق
او رامر کے بنیادی فرق کو کسی صورت میں ظاہر نہں ی کرسکتا او ریہ امتیاز صرف عربی
زباا ہی کو حاصل ہے کہ اس میں اس فرق ک لئے دو الگ الگ الفاظ موجود ہیں۔بہر حال
کہنا یہ ہے کہ آئندہ سطور میں جہاں روح ، روحانی او رروحانیت کے الفاظ آئیں ان سے
مفہوم یہی دنیا ئے نامشہور (Unseen Or Spirityal
World)
لی جائے نہ کہ روح کا کوئی او رمتدادل تصور ۔
میسن اس موضوع پر بحث کرتا
ہواکہ مادہ کا تجزیہ کرتے جائیے ، آپ آخر الامر اس مقام پر پہنچ جائیں گے جہاں
مادہ فقط توانائی(Energy) یا حرکت محض (Pure Movement) رہ جاتا ہے لکھتا
ہے کہ:۔
مادہ کی انجمادی حالت (Solidity) اس کی عارضی شکل
ہے۔ مادہ ابتداء میں ٹھوس تھا ہی نہیں۔ موجودہ سائنس کی اصطلاح مادہ کی ابتداء
مادیت سے زیادہ روحانیت کے قریب ہے ۔جب سائنس کہتی ہے کہ مادہ اپنی مادی حالت سے
ایتھر کی توانائی میں تبدیل ہوجاتا ہے یا ایتھر سے آگے بڑھ کر اپنی ہستی حرکت محض
میں گم کردیتاہے تو اس وقت سائنس اپنی ہستی حرکت محض میں گم کردیتا ہے تو اس وقت
سائنس اپنی اصطلاحات چھوڑ کر روحانی دنیا کی اصطلاحات اختیار کرلیتی ہے ۔مادہ کا
ظاہری پیکر جو ہمیں اس کی روحانی ابتداء کے متعلق شبہ میں ڈال دیتا ہے وہ ارتقائی
نتائج میں جو‘‘ تخلیقی توانائی ’’ کی نشونما (Development) میں ممدو معاون
بنتے ہیں ۔ (37) ( ـCreative
Freedom)
میسن مادہ کے سرچشمہ کانام روح خالص (Pure Spirit) رکھتا ہے او رجس
جذبہ کے ماتحت یہ روح خالص ارتقائی منازل طے کرتی ہے اسے وہ تخلیقی توانائی (Cretive
Aceivity)
یا تخلیقی جذبہ (Creative Impetus) کہہ کر پکارتاہے ۔چنانچہ اس باب میں وہ لکھتا ہے کہ :۔
ہستی کی ابتداء کے لئے
روح خالص کو اپنی آزادی مطلق (Absolute Freedom) کو مقید کردینا پڑا
اور اس طرح اس نے اپنے آپ کو ایک نئی سمت میں آگے بڑھایا ۔بنا بریں ہم کہہ سکتے
ہیں کہ ہستی کے مادی آغاز کا بنیادی اصول دباؤ (Suppression) ہے اضافہ (Addition) نہیں (یعنی روح
خالص نے اپنی آزادی کو دبایا او ریوں اپنے آپ پر قیود عائد کرکے مادہ کا محسوس
پیکر اختیار کرلیا (17) (Creative Freedom) باردیو (Nicholas
Berdyeau)
اسی کو ‘‘روحانی اصولوں کی خارجیت’’ (Exteriorisation And
Objectivisation Of Spiritual Principles) کے الفاظ سے تعبیر کرتا ہے۱۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
( The Divine And The Human: p.51)
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہکسلے (Julian
Huxely)
اس کے متعلق لکھتا ہے کہ اس میں طریق سے ‘‘روح’’ مادہ کی وساطت سے اپنے آپ کو ( Realise) کررہی ہے’’
(Religion Without Revvlation:p.84)
پروفیسر ہالڈین (جس کاذکر
اس سے پہلے آچکا ہے) اس کے متعلق لکھتا ہے کہ :۔
یہ کائنات ہر قسم کے
انتشار کی نمود کے باوجود خاد کا تدریجی مظہر ہے ۔
(The Philosophical Basis Of Biology: p.
125)
علامہ اقبالؒ اس ضمن میں
لکھتے ہیں:۔
ایٹم کا جوہر اس کی ہستی
سے وابستہ نہیں۔ اس کامطلب یہ ہے کہ ہستی وہ خصوصیت ہے جو خدا کی طرف سے ایٹم کو
عطا ہوتی ہے۔ اس خصوصیت کی موہبت سے پہلے ایٹم خدا کی تخلیقی توانائی میں بے جان
پڑا رہتا ہے او راس کی ہستی سے مفہوم صرف اس قدر ہے کہ یزدانی توانائی نے مرئی شکل
اختیار کرلی۔۔۔۔۔ یہ کائنات اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ مادی ایٹم کی میکانکی حرکت
سے لے کر نفس انسانی میں فکر کی آزاد حرکت تک سب کا سب کیاہے؟ اس ‘‘انائے اکبر’’
کا انکشاف ذات۔ (خطبات ۔85-86)
علاّمہ اقبالؒ نے اس باب
میں جو تفصیلی بحث کی ہے اس کا ملخّص یہ ہے کہ کائنات کی ابتداء (Materialsation
Of Spirit)
سے ہوئی اور اب کائنات میں (Spiritualisation Of
Matter)
عمل اتقاء جاری ہے جس کی رو سے رفتہ رفتہ وہ قیود اٹھ رہی ہیں جو (Spirit) نے از خود اپنے آپ
پر عائد کرلی تھی او راس طرح مادہ پھر لطیف سے لطیف تر صورت اختیار کئے جاتا ہے
مادّہ کیا ہے؟:۔۔۔۔ لیکن(Spirit) کے مادہل کے ساتھ
اس تمسّک سے اس میں تشخّص (Personality)پیدا ہوجاتی ہے اور
یہ تشخص یا انفرادیت (Individuality) مادّہ کے انتشار کے بعد بھی قائم رہتاہے تفصیل ان امور کی آگے چل
کر ملے گی ۔ اس وقت صرف اتناسمجھ لیناکافی ہے کہ ان تصریحات کی رو سے مادّی کائنات
بیش ازیں نیست کہ (Spirit) نے اپنے آپ پر قیود طاری کرکے مرئی شکل اختیار کرلی ہے ۔ واضح
رہے کہ (Spirit) یا یزدانی توانائی سے مراد خود ذات خداوندی نہیں بلکہ اس ذات کی
تخلیقی توانائی ہے۔
یہ تو رہا مادّہ کے متعلق
۔‘‘نفس انسانی’’ کے متعلق نظریہ فجائی ارتقا ء (Emergent
Evolution)
کا مخرح پروفیسر مارگن ( C.L.Loyd Morgan) لکھتا ہے۔
میں اپنے اس عقیدہ کا
اعتراف کرتا ہوں کہ اس ارتقاء کو ایک ‘‘نفس اعلیٰ ’’ (Supreme
Mind)
کا مظہر یا عکس سمجھنا چاہئے ۔ وہ ‘‘نفس اعلیٰ’’ جو ان تمام اشیاء کا خالق ہے جسے
ہم ‘‘جدید’’ سے تعبیر کرتے ہیں۔ میں اس ارتقائے نفس کے اندر یہی دیکھتا ہوں کہ
اوپر سے نیچے اور اوّل سے آخر تک ایک عظیم الشّان اسکیم (تدبیر) عمل پیرا ہے۔میرا
یہ بھی عقیدہ ہے کہ فطرت کی ہر شے میں یہ ارتقائی بالیدگی خدائی عاملیت (Divine
Agecy)
کا ہی مظاہرہ ہے۔ او رچونکہ اس سلسلہ ارتقا میں نفس انسانی بلند ترین مقام پر ہے
۔لیکن (جیسا کہ میرا عقیدہ ہے) یہ ‘‘نفس اعلیٰ’’ لامحدود او رزماں کی قیود سے بے
نیاز ہے اس کی ذات کے لئے اول ‘‘اور ’’آخر’’ اور‘‘جدّت’’ اور ‘‘اعادہ’’ کے الفاظ
ان معافی میں استعمال نہیں کئے جاسکتے ۔ جن معافی میں یہ نفس انسانی سے بحث کرتے
وقت استعمال ہوتے ہیں۔۔۔۔ وہ ‘‘روح خالق’’ جو قدیم او رواجب الوجود ہے ارتقاء کی
پیداوار نہیں بلکہ وہ ایسی ذات ہے کہ خود ارتقاء کی بڑھتی ہوئی صورت اس کا پرُتو
ہے۔
دوسرے مقام پر لکھتا ہے:۔
میرا عقیدہ ہے کہ
جانداروں میں یہ ارتقائے نفس خدا کی قوت تخلیق او رہدایت کارہین منّت ہے لیکن اس
سے یہ مطلب نہیں کہ خود خدا بھی اسی ارتقائے نفس کانتیجہ ہے خدا کی ذات سب سے قدیم
۔۔۔ اور زمان ومکان کی حدود سے بالا ہے۔( The Great Design)
پروفیسر ایڈنگٹن جس کے
تصور‘‘دنیائے غیب’’ کا ذکر پہلے آچکا ہے اپنی معرکہ آراتصنیف(The
Nature Of The Physical World) کے‘‘ نتائج ’’میں لکھتا ہے کہ اس تصور کے خلاف یہ اعتراض کیا
جائے گا کہ اس سے مافوق الفطرت عنصر (Supernaturalism) کاعقیدہ لازم آتا
ہے۔ اس کے جواب میں وہ بدلا ئل لکھتا ہے کہ اگر عقیدہ قابل اعتراض ہے تو موجودہ
سائنس کو اپنے بہت سے مسلّمات سے ہاتھ دھولینے پڑیں گے ۔ اس لئے کہ اب تو طبیعیات
کی بنیاد ہی مافوق الفطرت عناصر پر رکھی جارہی ہے (تفصیل کے لئے دیکھئے کتاب مذکور
صفحات 247-48)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا نتیجہ:۔۔۔۔ گذشتہ
تصریحات سے یہ حقیقت ہمارے سامنے آگئی کہ تحقیقات جدید ہ کی رو سے مادہ دنیائے
روحانت ہی کی ایک ابھری ہوئی شکل ہے۔ اس تصور نے انسانی فکر میں ایک بہت بڑاانقلاب
پیدا کردیا ہے۔ اس سے پیشتر مادہ کے متعلق انسانی فکر ہمیشہ دونتائج پر پہنچ کررہ
جاتاتھا ۔ اوّل وہ نتیجہ جس تک یہ افلاطونی تصور کی رو سے پہنچتا تھا جیسا کہ پہلے
لکھا جاچکا ہے ۔یونان کی افلاطونی حکمت کی رو سے یہ مادی کائنات اپنا وجود نہیں
رکھتی ۔اس کے نزدیک کائنات فریب نگاہ ہے۔ سراب ہے‘‘چھلا وہ ہے’ (یاہندی فکر کی
اصطلاح میں مایا ہے)۔ مادّہ کے متعلق اس تصور نے مادہ کی طرف سے بے اعتنائی کا رجحان
پیدا کردیا ۔ بے اعتنائی رفتہ رفتہ نفرت کی صورت اختیار کر گئی اور نفرت نے ترک
مادہ (یا ترک دنیا) کا جذبہ پیدا کردیا۔ اس جذبہ کو تقدس کا رنگ دیا گیا تو اس کا
نام باطنیت (Mysticism) یا تصوف قرار دیا گیا ۔ یہی تصوف ،مختلف لباسوں میں یونانی
اشراقیئین سے لے کر آج تک انسانی فکر وعمل کی دنیا کو قبرستان بنانے کا موجب بنے
چلا آرہا ہے ۔ دوسری طرف مادہ پرستوں کایہ عالم تھا کہ انہوں نے ساری کائنات کو
مادّیت ہی کامظہر سمجھ رکھا تھا اور روح کا نام تک بھی ان کی روح کو فنا کردیتا
تھا ۔انہیں اس کے ذکر تک سے چِڑ پیدا ہوچکیتھی۔لیکن طبیعیات کی جدید تحقیق نے مادہ
کے متعلق انسانی نگاہ کو زاویہ بدل دیا ہے اب نہ تو مادہ کوئی ایسی شے ہے جو روح
کی نقیض ہوبلکہ یہ روح ہی کی ایک مرئی ومشہود صورت کا نام قرار پاگیا ہے۔ لہٰذا اب
‘‘روحانی مدارج’’ طے کرنے والوں کو ‘‘مادی آلائشوں’’ سے قطعاً ڈر نے کی ضرورت
نہیں۔ اب مادّیت کے پیکر روحانیت کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتے بلکہ اس کے لئے ممدو
معاون بنتے ہیں ۔ دوسری طرف نہ ‘‘روح’’ ہی کوئی ایسا تو ہم پرستانہ تخیل ہے جسے
تسلیم کرلینے سے سائنس شرمائے ۔بلکہ روح کی دنیا خود مادہ کی اساس و بنیاد قرار پاگئی
ہے مادّہ کی اس نئی تعبیر سے انسانی فکر کی بہت سی مشکلات کاحل مل گیا ہے ( تفصیل
ان امور کی ذرا آگے چل کر ملے گی) ۔چنانچہ اب اور تو او رمادّہ سے سب زیادہ نفرت
پیدا کرنے والے مذاہب (عیسائیت کامبلّغ(Dean Inge) بھی اس حقیقت کے
اعتراف پر مجبور ہوگیا ہے کہ:۔
زمان ومکان کی دنیا غیر
حقیقی دنیا نہیں بلکہ یہ حقیقی دنیا کا جزئی مظاہرہ ہے اور اس کی ناممکن مشہودیت (God
And The Astronomers:p:13)
مذہب اور سائنس:۔۔۔ اس
بنا پر علامہ اقبال سائنس کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ ‘‘حقیقت کے مختلف گوشوں کے
مطالعہ کا نام ہے’’ لیکن اس میں نقص یہ ہے کہ حقیقت کو تماماً وکمالاً نہیں دیکھ
سکتی ۔ اس کے مختلف شعبے اپنی اپنی دنیا میں الگ الگ مصروف مشاہدات و تجربات رہتے
ہیں ۔اس لئے وہ حقیقت کے متعلق کلّی ادراک حاصل نہیں کرسکتے ۔ بنا ء بریں
مذہب کو سائنس سے خائف
ہونے کی کوئی وجہ نہیں ۔مذہب کا مقصود حقیقت کا کلّی تجربہ ہے اس لئے انسانی تجارب
کی دنیا میں اسے مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہئے او ر جس کی پوزیشن یہ ہو وہ حقیقت کا
جزئی مطالعہ کرنے والی سائنس سے کیوں گھبرائے ۔
(Lectures:p.40)
دوسری جگہ لکھتے ہیںء۔
سائنس کے لئے ناگریز ہے
کہ وہ حقیقت کے کسی ایک رخ کو اپنے مطالعہ کیلئے منتخب کر لے او رباقی رُخوں کو
چھوڑدے ۔ لہٰذا اگرسائنس یہ دعویٰ کرے کہ حقیقت کے جن پہلوؤں کا اس نے انتخاب کیا
ہے وہی پہلو حقیقی ہیں تو اس کا یہ دعویٰ باطل ہے۔(Lectures:
p.107)
یعنی سائنس ’فطرت کا مطالعہ کرتی ہے اور فطرت (Nature) حقیقت ہی کے ایک
گوشے کا نام ہے ۔ اسی لئے علامہ اقبالؒ کے نزدیک ‘‘ذات حداوندی سے نیچر کا وہی
تعلق ہے جو انسانی ذات سے اس کے کیریکٹر کا تعلق ہے اس کو قرآن نے ‘‘فطرت اللہ’’
کہہ کر پکارا ہے۔’’(Lectures: p. 54)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جسم او رنفس کا
تعلق:۔۔۔۔۔ یہاں تک ہم نے دیکھ لیا کہ تحقیقات جدیدہ کی رو سے مادی اور روحانی
دنیاؤں کا باہمی تعلق کیا ہے۔ یہیں سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جسم انسانی اور
نفس انسانی (Body And Mind) کا باہمی تعلق کیا ہے۔ یہ سوال مدّت سے مفکّر ین کی توجّہات کا
مرکز بنے چلا آرہا ہے۔ خالص میکانکی نقطہ نظر سے اس کے متعلق پہلے بحث ہوچکی ہے
۔اب ہم جدید زاویہ فکر کی روشنی میں اس کے متعلق گفتگو کریں گے۔ واضح رہے کہ اس
باب میں ‘ جسم او رنفس’ اور زندگی اور مادہ کے باہمی تعلق اورردّ عمل کے متعلق بحث
سامنے آجائے گی۔
برگسان اپنی کتاب تخلیقی
ارتقاء (Creative Evolution) کے دوسرے باب میں زندگی اور مادہ کے باہمی تعلق کیے نسبت اپنے
مخصوص تشبیہانہ انداز میں بحث کرتا ہوا لکھتا ہے کہ اگر زندگی توپ کے گولے کی طرح
ایک متعین سمت میں حرکت کرتی تو مسئلہ ارتقاء کوسمجھنے میں دشواری نہ ہوتی لیکن
زندگی توپ کے گولے کی طرح نہیں بڑھتی ۔بم کے گولے کی طرح چھٹتی ہے جس کے مختلف
ٹکڑے فضا میں بکھر جاتے ہیں۔ پھر ان میں ہر ٹکڑا اسی طرح پھٹتا ہے اور یہ سلسلہ
لامتناہی طور پر آگے بڑھتا جاتاہے۔ بم کے پھٹنے میں دوقوّتیں کام کرتی ہیں، ایک تو
بارود کی راہ میں حائل ہے ۔جب تک یہ ‘‘پھیلنے اور روکنے والی’’ دونوں قومیں ایک
دوسرے کے ساتھ نہ ہوں، بم ،بم نہیں بن سکتا ۔زندگی کی قوت نمود بم کا بارود ہے او
رمادہ کی (Resistance) قوت اس بم کافولاد ی خول ۔زندگی اپنی داخلی اور خارجی قوتوں کے
زور پر آگے بڑھتی ہے ۔لہٰذا ان میں باہمی عداوت اور مخاصمت کا تعلق نہیں ۔ برگسان
کے الفاظ میں :۔
زندگی کے سامنے پہلا
مرحلہ مادی موانع پر غالب آنا تھا اس کے لئے زندگی نے ٹکراؤ کی شکل اختیار نہیں کی
بلکہ جھکاؤ کی راہ اختیار کی۔ اس نے اپنا سرنیچے کرلیا او رمادہ کے ساتھ ہی مل گئی
اوراس طرح کسی حد تک طبیعیاتی او رکیمیاوی قوتوں کے سامنے جھک گئی اور ایک حد تک
مادہ کی راہ ہی چل نکلی لیکن اس کا یہ ساتھ چلنا مادہ سے کچھ حاصل کرکے پھر الگ
ہوجانے کے لئے تھا۔
(Creative Evolution:p.104)
اس لئے زندگی جب کسی نامی
جسم میں مشہور ہوتی ہے تواس سے یہ مقصود ہوتاہے کہ وہ مادی دنیا سے کچھ اخذ
کرناچاہتی ہے( 143) لیکن اس سے نزدیک کو زندگی اور مادہ کی ثنویت (Dulaism) کی طرف منتقل نہیں
ہونا چاہئے۔
ثنویت کا تصور صحیح
نہیں:۔۔۔ثنویت کا تصور تو اسی وقت ختم ہوگیا جب ہم نے دیکھ لیا کہ مادہ کی اصل بھی
مادی نہیں بلکہ ‘‘روحانی’’ ہے او ریہی زندگی او رشعور کی اصل ہے ۔ اس تصور کی ر و
سے زندگی او رمادہ کی بدیہی اور مرئی مغائرت ختم ہوجاتی ہے ۔جیسا کہ ہم پہلے دیکھ
چکے ہیں، کائنات کے میکانکی تصور کی رو سے یا تو زندگی اور شعور کو مادہ ہی کی
تخلیق ماننا پڑتا ہے (جیسا کہ انیسویں صدی تک کے علماء طبیعیات مانتے چلے آئے تھے)
او ریا زندگی او رمادہ کی ثنویت کا قائل ہونا پڑتا ہے (جیسا کہ ڈیکارٹ نے کیا )
لیکن جب یہ مان لیا جائے کہ مادہ کی اصل روحانی ہے تو پھر نہ زندگی مادہ کی
پیداوار رہتی ہے اور نہ ہی زندگی اور مادہ میں ثنویت کا سوال باقی رہتا ہے اس تصور
کے پیش نظر ہمارے دور میں پروفیسر (A.N. White Head) نے ڈیکارٹ کے تصور
ثنویت کی تردید بڑی شدّومد سے کی ہے و ہ اس تصور کو ایسا زہر قرار دیتا ہے ‘‘ جس
نے بعد کے فکر انسانی کو برُی طرح مسموم کردیا ہے’’۔ وائٹ ہیڈ کے نزدیک زندگی اور
مادہ دو مختلف چیزیں نہیں بلکہ کائنات کا عملی طریق کار ہیں ایک ہی کپڑے کا
تانابانا ہیں۔اسی بنا پر وہ اپنی قابل قدر تصنیف (Adverture
Of Ideas)
میں لکھتا ہے کہ ‘‘اس دنیا میں نقوس او راجسام کو کسی طرح الگ کیا ہی نہیں
جاسکتا’’۔ لیکن اس کے ساتھ وائٹ ہیڈ اسے بھی تسلم کرتاہے کہ ‘‘روح کو اس طرح الگ
بھی کیا جاسکتاہے کہ اس کی ہستی کاگ مدار جسمانی نظام پر نہ رہے’’(267) یعنی زندگی
نظام جسمانی کے منتشر ہوجانے سے ختم ہوجاتی ہے۔
میکس پلانکMax
Plank)
دنیائے حقیقت اور دنیا ئے محسوس کے باہمی تعلق کی کیفیت کو ایک او رپیرایہ میں
بیان کرتاہے۔ وہ لکھتا ہے کہ طیبعیات کے تمام تصورات دنیائے محسوس سے اخذ کردہ
ہوتے ہیں لیکن عقل ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ قوانین فطرت اس زمین پر زندگی کی نمود
سے پہلے بھی موجود تھے اور اس کے بعد بھی رہیں گے اس لئے اس محسوس دنیا کے علاوہ
ایک حقیقی دنیا بھی ہے جو انسان کے تصورات کے تابع نہیں( اس قدراقتباس پہلے بھی
دیا جاچکا ہے )۔ اس کے بعد وہ لکھتاہے کہ اس محسوس دنیا اور حقیقی دنیا کے علاوہ
ایک اور دنیا کابھی ادراک کرے اور دوسرے یہ کہ وہ محسوس دنیا (کے طبعی افعال کو)
حتیّٰ الامکان سادہ طریق سے بیان کرے۔لیکن بعض لوگ ایسے ہیں جو طبیعیات کی دنیا کے
داخلی وربط سے بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ دنیا ئے حقیقت سے اپنا
رشتہ منقطع کرلیتے ہیں لیکن ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ اس رشتہ کا سراغ مل جائے جو
دنیائے حقیقت او رمحسوس دنیا کو مربوط رکھتا ہے ۔جس زمانہ میں طبیعیات کی دنیا کچھ
مستحکم سی شکل میں سامنے آتی ہے تو یہ یقین پیدا ہوجاتاہے کہ دنیائے حقیقت معقول (Rational) ہے لیکن جب اس کی
شکل بہہم اور غیر متعین سی سامنے آتی ہے تو لوگ محسوسات کی دنیا کے پیچھے لگ جاتے
ہیں ، انہی کو(Positivists) کہا جاتاہے ۔
یعنی میکس پلانک کے نزدیک
جو ں جوں دنیا ئے طبیعیات کا علم واضح ہوتا جائے گا، حقیقی دنیا کا معقولیت نمایاں
ہوتی چلی جائے گی۔ اس لئے دنیا ئے طبیعیات اور حقیقی دنیا وہ متخاصم دنیائیں نہیں
بلکہ طبیعیات کی دنیا حقیقی دنیا ہی کا پرتوہے۔
باقی رہا یہ کہ نفس
انسانی کس طرح انسانی جسم کی مشینری کو اپنے فیصلوں کو بروئے کارلانے کا ذریعہ
بناتا ہے ، اس کے متعلق اس وقت تک کی تحقیقات کچھ نہیں بتاسکتی ۔(Charles
Sherring)
کے الفاظ ہیں:۔ (The Brain And Its Mechanism)
دل اوردماغ کا باہمی
کیاہے؟ اس کے متعلق صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ عقیدہ لاینحل ہے بلکہ یہاں تک کہ
ہنوز وہ بنیادبھی معلوم نہیں ہوسکتی جہاں سے اس سوال کے حل کی ابتداء کی جاسکے۔
دوسری طرف ‘‘طبیعی
تبدیلیاں کس طرح نفسیاتی تجارب پیدا کرتی ہیں اسے نہ کوئی شخص محسوس کرسکتا ہے او
رنہ ہی حیط تصور میں لاسکتا ہے’’۔
(Lord Balfour In The Foundations Of Belief)
اسی لارڈ بالفور کے الفاظ
میں :۔
جس فعالی یا الفعالی
تجارب سے انسانی شعور معمور ہوتا ہے نفس انسانی ککا (Character) ان سے بالکل الگ
ہوناچاہئے اسے تو فقط روح ہوناچاہئے جوطبعی خصائص و تجارب کے مجموعہ کانام نہیں
ہوسکتا ۔نہ ہی روح صرف جوہر کا نام ہے۔ اس کی ایک انفرادیت ہوتی ہے جو یکتا بھی
ہوتی ہے او رناقابل بیان بھی ۔
(Theism And Thought)
وہی روح جس کے متعلق
برگسان ،افلاطون کی ہم نوائی میں کہتا ہے کہ
روح ایک ایسی چیز کا نام
ہے جو منتشر (Decompose) ہے اس لئے کہ یہ غیر منقسم نہیں ،بسیط (Simple) ہے۔ یہ (Incorruptible) ہے اس لئے کہ یہ
غیر منقسم (Indivisible) ہے او راپنی ذات کے اعتبار سے ناقابل فنا (Immortal) ہے۔
(The Two Sources Of Religion And Morality:
p. 251)
ہم نے اس وقت تک مادہ(
یاطبعی جسم) سے ماوراء جس چیز سے بحث کی ہے اسے شعور (Consciousness) یا (Mind) سے تعبیر کیا ہے
لیکن سطور بالا میں اسے نفس یا روح کے نام سے بھی پکارا گیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ
انسان کے اندر جو چیز طبعی جسم کے ماوراء ہے اسے مختلف اصطلاحات سے تعبیر کیا
جاتاہے ۔ مثلاً انسانی نفس (Self) یا انا (I) یا ایغو(EGO) یا انفرادیت (Individuality) یا ذات (Personality) نام مختلف ہیں، بات
ایک ہی ہے ۔ہماری زمانے میں انسانی ذات کے متعلق اتناکچھ جاچکاہے (یا لکھا جارہاہے
) جتناکچھ انیسویں صدی میں میکانکی نظریہ حیات کے متعلق بھی نہیں لکھا گیا ہوگا۔
ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ انسانی جسم ہر آن بدلتارہتا ہے ۔حتیًّٰ کہ کچھ عرصہ کے
بعد سابقہ جسم کی جگہ ایک بالکل نیا جسم وجود میں آجاتاہے او ریہ سلسلہ تغیر تبدل
مسلسل جاری رہتاہے ،لیکن اس کے باوجود ہم میں ایک ایسی چیز بھی ہے جو ان تبدیلیوں
سے متاثر نہیں ہوتی۔ وہ انسان کی ‘‘میں’’ ہے ‘‘میں’’ غیر متبدّل رہیتی ہے ۔حقیقت
یہ ہے کہ تبدیلی (Change)کے معنی یہ ہیں کہ جس شے میں تغیر واقع ہوتا ہے اس کی پہلی حالت
یکسر معدوم ہوجاتی ہے ۔ یعنی (It Ceases To Exist) او راس کے بعدو ہ
شے از سر نو ایک نئی حلت میں پیدا ہوتی ہے ۔لیکن انسانی ذات کی خصوصیت (برگسان کے
الفاظ میں) یہ ہے کہ (We Change Without Ceasing) ہم می ں تغیر آتاہے
معدوم ہوئے بغیر۔
اس لئے باردیو(Nicholas
Bardyaev)
برگسان کی ہم نوائی میں کہتاہے کہ (Personality Is
Changelessness In Change) انسانی ذات تغیرات کے ہجوم میں عدم تغیر کانام ہے ۔
انسانی ذات اپنا مستقل
وجود رکھتی ہے او رکسی کُل کا جُزو نہیں ہوتی۔اس باب میں ہاردیولکھتاہے ۔
ایک ذات کا تعلق دوسری
ذات سے’ خواہ وہ ذات’ ذاتِ خداوندی ہی کیوں نہ ہو، جزو اور کُل کاتعلق نہیں ہوتا ۔
ہر ذات اپنا مستقل وجود رکھتی ہے او رکسی دوسری ذات میں مدعم نہیں ہوسکتی
جُزوکاکُل کے ساتھ تعلق ریاضی کا تعلق ہے، جس طرح جسم کے کسی عضو کاتعلق جسم کے
ساتھ حیاتیاتی تعلق ہے (کسی ذات کا دوسری ذات کے ساتھ تعلق اس قسم کانہیں ہوتا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱(Slavery
And Freedom)
ان امور کا تذکرہ میری دوسری تصانیف مثلاً ‘‘نظام ریوبیت’’‘‘ سلیم کے نام خطوط’’
اور‘‘من ویزداں’’ میں تفصیل سے آیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد باردیو لکھتا ہے
کہ ‘‘انسانی ذات کی انفرادیت خود اس فرد سے بلند درجے کی ہوتی ہے’’۔ جہاں تک خدا
کا تعلق ہے ’ باردیو لکھتا ہے کہ
خدا اور انسان کا تعلق
سبب اور مسبّب کا تعلق نہیں یہ بھی نہیں کہ ایک خاص ہے اور دوسرا عام ۔ نہ ہی ان
کا تعلق مقصد اور ذریعے کا ہے او رنہ ہی غلام اوراور آقا کا ۔ ہم اس تعلق کی کوئی
مثال پیش نہیں کرسکتے۔ اس قسم کا تعلق نہ تو آفاقی کائنات میں کسی جگہ نظر آتا ہے
او رنہ ہی انسان کی زندگی میں خدابے شک مقصود ہے لیکن انسانی ذات اس مقصد کے حصول
کا ذریعہ نہیں علم الہیّات کا یہ عقیدہ کہ خدانے انسان کو اپنی حمدوستائش کے لئے
پیدا کیا ہے’ انسانیت کی ذلّت ہے۔ نہیں! یہ خود خدا کے بھی شایانِ شان نہیں ۔ اس
حقیقت کو کبھی نظر انداز نہیں کرناچاہئے کہ جو عقیدہ انسان کے لئے وجہ ذلّت ہو وہ
خدا کے لئے بھی باعث ذلّت ہوتاہے۔لہٰذا نسانی ذات کا خدا سے تعلق مقصد اور ذریعے
کا نہیں ۔ ہر ذات مقصود بالذّات ہوتی ہے۔ وہ اپنا مقصد آپ ہوتی ہے۔
البتہ یہ حقیقت ہے کہ
انسانی ذات نہ اپنی نشو ونماحاصل کرسکتی ہے او رنہ ہی تکمیل جب تک ماورائے انسان
اقدار موجود نہ ہوں۔ یعنی جب تک خدا موجود نہ ہو ۔
میکانکی تصورحیات کے
متعلق بحث کرتا ہوا باردیو لکھتاہے :۔
جو چیز انسان میں میکانکی
طورپر کام کرتی ہے۔ جس کی حرکت محض مشین کی ہے۔ اس کا نسانی ذات سے کچھ تعلق
نہیں۔‘‘ خدا کاعکس’’ او ر‘‘میکانکی عکس’’ بالکل متضاد چیزیں ہیں۔
موت کے متعلق باردیو
لکھتا ہے :۔
موت انسان کاخاتمہ نہیں
کرتی، وہ صرف خارجی دنیا کے وجود کاخاتمہ کرتی ہے۔
پروفیسر (Erwin
Schrodinger)
نے ایک چھوٹی سی لیکن بڑی اہم کتاب لکھی ہے۔
(What Is Life) وہ اس کتاب کا خاتمہ پر لکھتا ہے :۔
‘‘میں’’ کسے کہتے ہیں؟
اگر آپ ‘‘میں’’ کا تجزیہ
کریں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ انسانی تجارب اور حافظہ سے کچھ زیادہ کا نام ہے۔ یہ وہ
پردہ ہے جس پر انسانی حافظہ اور تجربہ کے نقوش جمع ہوتے ہیں ۔اگر آپ اپنی داخلی
دنیا کا غور سے مطالعہ کریں گے تو آپ پر یہ حقیقت منکشف ہوجائے گی کہ جسے آ پ
‘‘میں’’ کہتی ہیں اور اس بنیاد کانام ہے جس پر تجربے اور حافظے کی عمارت اٹھتی
ہے۔۔اگر کوئی ماہر عمل تنویم ایسا بھی کرے کہ تمہاری تمام سابقہ یادداشت یکسر ذہن
سے محوہو جائے پھر بھی تم دیکھوگے کہ اس سے تمہاری ‘‘میں ’’ کی موت واقع نہیں
ہوجائے گی۔ ۔لہٰذا انسانی ذات کی ہستی کبھی ضائع نہیں ہوتی، نہ ہی یہ کبھی ضائع ہوگی۔
جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے
ہیں ، برگسان اس سے بھی آگے جاتاہے اور کہتاہے کہ حافظہ مادہ کی تخلیق ہے ہی نہیں
انسانی ذات کے علم کے متعلق جوڈ لکھتا ہے کہ :۔
انسان کا حقیقی علم اس کی
زندگی کے مختلف شعبوں کے علم کا مجموعہ نہیں خواہ یہ علم کتنا ہی جامع اور صحیح کیوں
نہ ہو ۔ انسان کے متعلق صحیح علم کے معنی ہیں انسان کا تماماً علم ۔اور ا س قسم کا
علم اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ اس کی ذات کاعلم ہو۔ اس لئے کہ انسانی ذات ہی سے
نوانسان کی تکمیل ہوتی ہے۔ انسانی ذات، انسان کے تمام اجزاء کو اپنے اندر سمولیتی
ہے اور ان کے مجموعہ سے کچھ الگ ہوتی ہے۔انسانی ذات کا علم سائنس کے احاطے سے باہر
کی چیز ہے ۔ اس لئے نہیں کہ سائنس انسانی ذات کا تجزیہ کرکے اس کے الگ الگ اجزا کا
علم حاصل کرنا چاہتی ہے او رایسا کرناناممکن ہے (علم تجزیہ نفس کے ماہرین ایسا
کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کوشش میں انسانی ذات پھسل کر ان کے ہاتھوں سے صاف
نکل جاتی ہے ،بلکہ اس لئے کہ اس کوشش کے ماحصل کو علم کہا ہی نہیں جاسکتا ۔
(Philosophical Aspects Of Modern Science)
(نفس انسانی کے متعلق مزید بحث آئندہ باب (فردوس گم گشتہ) میں ملے
گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنوان پش نظر میں دو سوال
زیر بحث تھے۔
اوّل یہ کہ مادی دنیا کا’
غیر مادی دنیا سے کیا تعلق ہے اور دوئم یہ کہ کیا تحقیقات جدیدہ قوانین فطرت کو
غیر متبدّل قرار دیتی ہے یا اس سے کچھ الگ پوزیشن اختیار کرتی ہیں۔
قوانین فطرت سے کیا مراد
ہے؟:۔۔پہلے سوال کے متعلق گذشتہ صفحات میں بحث ہوچکی ہے۔ اب دوسرا سوال ہمارے
سامنے آتاہے ۔ اس سوال کو اچھی طر ح سمجھنے کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ قوانین
فطرت (Laws Of Nature) کہتے کسے ہیں ۔اس عنوان پر (White
Head)
نے اپنی کتاب (Advertures Of Ideas) کے ساتویں باب میں بڑی دلچسپ بحث کی ہے جس کا ملخّص ذیل کی سطور
میں پیش کیا جاتاہے ۔ اس مفکر کے نزدیک آج کل قوانین فطرت کے متعلق چار چاند
متدادل ہیں:۔
(1)(Laws
Of Immanence)
اس نظریہ سے مفہوم یہ ہے کہ کائنات میں کوئی شے اپنی ذاتی خصوصیت کی بنا پر قائم
نہیں بلکہ ہر شے اپنی ہستی کیلئے دوسری اشیاء کی محتاج ہے۔لہٰذا تمام اشیاء میں
باہمی رابطہ ہے۔اشیاء کی ماہیت سمجھنے سے مفہوم یہ ہے کہ ہم اس بنیادی رابطہ کو
سمجھ لیں جس سے یہ اشیاء باہم وگرامربوط ہیں۔ اسی رابطہ کو قانون فطرت کہتے ہیں
۔لہٰذا علمائے سائنس کاکام یہ نہیں کہ وہ فطرت کے افعال کے متعلق اپنے مشاہدات
قلمبند کرتے جائیں بلکہ ان کا فریضہ ہے کہ وہ ربط دروں کی تلاش کریں۔
(2 ) (Imposed Laws) اس نظریہ کاملخّص یہ ہے کہ ہر شے ایک منفرد خصوصیت رکھتی ہے اور
اس ہستی ابھی خصوصیت سے قائم ہے ۔لہٰذا اپنی ہستی کے لئے کوئی شے کسی دوسری شے کی
محتاج نہیں۔ لیکن ان تمام اشیاء پر خارج سے ایک قانون عائد کردیا گیا ہے کہ وہ
باہم و گرربط وضبط رکھیں۔ اس خارج سے عائد کردہ قانون کانام قانون فطرت ہے۔ نیوٹن
اور ڈیکارٹ وغیرہ کے نزدیک ، یہ خارجی قانون خدا کا عائد کردہ ہے یا یوں سمجھئے کہ
خدا ہے۔ الہٰیات میں اس تصور کو (Deism) سے تعبیر کیا جاتا
ہے ۔یعنی (God As A Person) کا تصور جو کائنات سے باہر بیٹھا (اپنے قوانین کی رُو سے کائنات
کا مشینری چلارہا) ہے۔
(3) (Observed Order Of Succession)نظریہ سے مقصود یہ
ہے ک ہمارا کام یہ ہے کہ ہم دیکھتے جائیں کہ کائنات میں کیا کچھ ہورہا ہے اور جس
طرح کوئی واقعہ ہوتاچلا جائے اس کے متعلق اپنے مشاہدات قلمبند کرتے جائیں۔ ان
مشاہدات کے رو سے جو نتائج مرتّب ہوں وہی قوانین فطرت ہیں (یہ میکانکی قوانین
کانظریہ ہے او راسے سائنس کی دنیا میں ( Positivism) کہا جاتا ہے)۔
(Conventional Interpretation) یہ درحقیقت الگ
نظریہ نہیں بلکہ حکمائے یونان ومصر کے اتباع میں ایک قسم کا تقلید ی مسلک ہے۔ اس
لئے بحث صرف اوّل الذَکرتین نظریوں تک ہی محدود ہوجاتی ہے۔
مندرجہ بالانظریوں میں
تیسرا نظریہ علمائے سائنس کے نزدیک سب سے زیادہ قبول رہا ہے اور اسی کی بناء پر سائنس
کے میکانکی قوانین مرتّب ہوتے ہیں۔ پہلی نظریہ بھی ایک حد تک مشاہداتی نظریہ ہی ہے
لیکن وہ مشاہدہ کے بعد نتائج کے لئے مابعد الطبیعات ( Metaphusics) کی دنیا میں چلا
جاتاہے ۔نظریہ دوم کی رو سے یہ تسلیم کرنا پڑتاہے کہ فطرت کے قوانین خارج سے عائد
شدہ ہیں ۔ اس لئے وہ غیر متبدّل ہیں لیکن سوال یہ نہیں کہ فطرت کے قوانین کی اصل
کیا ہے ۔بلکہ سوال یہ ہے کہ ان قوانین کے متعلق جو کچھ سائنس اس وقت تک دریافت کر
چکی ہے وہ حتمی او ریقینی ہے یا اس میں تبدیلیاں ہوتی جاری ہیں۔ اگر ان میں
تبدیلیاں ہوتی جارہی ہیں تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سائنس کے مکتشفات یقین کے درجہ
تک پہنچ چکے ہیں۔ لہٰذا انہی کی بنیادوں پر زندگی کے مسائل کو حل کرنا چاہئے ۔
جبریت و عدم جبریت:۔۔۔ اس
سوال میں سب سے نمایاں سوال جبریت (Determinism) یا عدم جبریت (In-Determinism) یعنی مادہ کے افعال
متعین ہیں یا غیر متعین جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں ۔میکانکی تصور کائنات کی رُو
سے یہ تمام افعال علّت ومعلول کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے قلہٰذا متعین ہیں۔ لیکن اب
بیسویں صدی میں طبیعیات سے متعلق مزید تجارب و مشاہدات نے اس تصور میں نمایاں
تبدیلی پیدا کردی ہے۔ یہ تبدیلی علم الحیات (Biology) اور طبیعیات(Physics) دونوں میں ہوئی ہے۔
علم الحیات میں ڈارون کا نظریہ ارتقاء ایک حقیقت ثابتہ کی طرح تسلیم ہوتا چلا آرہا
تھا ۔ اس نظریہ کی رُو سے کائنات میں عمل ارتقاء لگے بندھے میکانکی اصولوں کے
مطابق جاری ہے ۔یہ اصول علّت ومعلول کی کڑیوں سے اس طرح بندھے ہیں کہ ان میں کہیں
کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ۔ اسی میکانکیت کے پیش نظر پروفیسر ٹینڈل (Tyndal) نے 1874 ء میں برٹش
ایسوسی ایشن کے اجلاس میں کہا تھا کہ ‘‘سائنس کی رو سے ہم اس قابل ہوجائیں گے کہ
ہم اوّلیں ہیولیٰ کائنات کے ایٹم سے لے کر برٹش ایسوسی ایشن کے اجلاس تک کے تمام
ارتقائی سلسلہ کا بیک وقت جائزہ لے سکیں ’’۔ ڈاردن کی (Origin
Of Species)
کے بعد ہربرٹ اسپنسر نے بقاء للا صلح (Survival Of The
Fitest
----------------
Part: 1- 'What did the man think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Preface—Part 1 انسان نے کیا سوچا
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism