غلام احمد پرویز
جدید تخلیق
میکانکی تصور حیات نے کہا
تھا کہ کائنات میں مادہ کی تبدیلیاں ہورہی ہیں ۔جدید تخلیق نہیں ہوتی ۔لیکن دورِ
حاضر کے مکتشفین اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ سلسلہ ارتقاء کے ساتھ ساتھ جدید تخلیق
کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔چنانچہ (Ernst Cassirer) اپنی شہرہ آفاق
کتاب (An Essay On Man) میں لکھتاہے کہ :۔
سلسلہ ارتقا ء کے باب میں
اب یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ ارتقاء کے معنی یہ نہیں کہ اب تخلیق جدید (Original
Creation)
نہیں ہورہی ۔فجائی ارتقاء (Emergent Evolution) درحقیقت تخلیق جدید
ہی ہے ۔ اس انکشاف نے ڈارون کے نظریہ ارتقاء میں اہم تبدیلی پیدا کردی ہے۔
اور (Simpson) جس کا ذکر اوپر
آچکاہے لکھتا ہے کہ :۔
سلسلہ ارتقا ء میں یہ
رجحان نظر آرہا ہے کہ زندگی کے تمام ممکن گوشوں میں جدید اضافے ہورہے ہیں۔ اضافے
اور پھر ان اضافوں میں کثرت ۔( The Meaning Of
Evolution:p.25)
مادّہ اور صورت:۔۔ ارسطو
نے کہا تھا کہ ہر شے دو عناصر سے مرکّب ہوتی ہے ایک مادہ (Matter) اور دوسرا صورت (Form)‘‘صورت’’ (Form)سے اس کی مراد تھی
وہ آخری شکل جس تک مادہ اپنے ارتقائی منازل طے کرکے پہنچ سکتا ہے ۔مادہ کی ابتدائی
حالت میں صورت (یعنی اس کے ارتقاء کی امکانی انتہا) اس کے اندر پوشیدہ ہوتی ہے۔
ارتقاء کے بعد یہ مضمر صورت مشہور ہوجاتی ہے لیکن اس ‘‘صورت’’ (Form) کے صفات مادہ کے
صفات سے مختلف ہوتے ہیں۔ دور حاضر ہ کے سائنسدان اسی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان
کرتے ہیں کہ ایک مرکّب (Compound) کے خواص اس کے اجزا ء کے خواص سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ پانی
،ہائیڈوجن اور آکسیجن سے مرکّب ہوتاہے ۔ لیکن پانی کے خواص ان دواجزا ء کے خواص سے
بالکل مختلف ہوتے ہیں ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آکسیجن او رہائیڈروجن نے پانی میں
تبدیل ہوکر ایک ‘‘صورت’’ اختیا رکی ہے ۔ اگر پانی کا تجزیہ کرکے اسے پھر آکسیجن او
رہائیڈروجن میں تبدیل کردیا جائے تو ان اجزاء میں مرکّب کی صورت (Form) باقی نہیں رہے گی
۔صورت (Form) کس طرح اختیار کرلیتے ہیں ۔پروفیسر جو ڈ اس مقام پر لکھتا ہے کہ
اسی سے زندگی اور شعور کا اندازہ کرلینا چاہئے ۔(Decadence)
ہمارے دور میں مادی نظریہ
کائنات کی بُت شکنی میں سب سے کاری ضرب پروفیسر ایڈنگٹن نے لگائی اس کی کتاب (The
Nature Of Phyysical World) دیکھئے وہ مادی دنیا کے ڈانڈے کسی مادراء المادی (روحانی دنیا سے
جاکر ملادیتا ہے وہ کہتاہے کہ:۔
خود طبیعی سائنسدان اب
اپنی خارجی دنیا تصور کچھ اس قسم کا پیش کرتاہے جسے ہم ‘‘باطنی دنیا’’ کہنے پر
مجبور ہوجاتے ہیں ۔ یہ تصور اس تصور کے یکسر خلاف ہے جو ان سائنسدانوں کی طرف سے
کچھ عرصے پہلے پیش کیا جاتا تھا او رجس کی رو سے یہ کہا جاتاتھا کہ وہی چیزمبنی بر
حقیقیت ہوسکتی ہے جس کا ماڈل ایک انجینئر بنادے۔
دوسرے مقام پر لکھتا ہے
:۔
اب طبیعی سائنس اپنے
دائرہ کو اس حد تک محدود کرلیا ہے کہ اس کے پس منظر کو روحانی تصور کے ساتھ ہی پرُ
کیا جاسکتا ہے۔
مسئلہ شعور:۔۔۔۔ اس مقام
تک ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ جدید تحقیقات کی رُو سے زندگی مادہ کی پیداوار نہیں قرار
دی گئی بلکہ یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ زندگی مادہ سے الگ اپنا وجود رکھتی ہے۔زندگی
کی ابتدا کیسے ہوگئی ، اس کا سرچشمہ کہا ں ہے؟ یہ سوالات ایسے ہیں جن کا جواب
تحقیقات جدیدہ بھی نہیں دے سکیں ۔ اس کے بعد ہمارے سامنے شعور کا سوال آجاتا ہے
۔شعور (Consciousness) میں زندگی کی ابتدائی سطح پر شعور محض (Simple
Consciousness)
انسانی فکر (Human Thought And Intellect) اور شعور ذات (Self
Consciousness)
سب کچھ آجاتا ہے ڈاکٹر (Bucke)
شعور کے اقسام:۔۔۔ شعور
کو تین سطحوں میں تقسیم کرتا ہے۔ شعور سادہ۱ ، جو حیوانات میں پایا جاتاہے۔ شعور ذات
جو عام انسانوں میں پایا جاتاہے اور کائناتی شعور (Cosmic
Consciousness)
جو انسانوں میں سے برگزیدہ ہستیوں کو حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اوسپنسکی شعور کو چار
سطحوں پر تقسیم کرتاہے۔ ابتدائی شعور جو اس کے نزدیک کیڑوں مکوڑوں کو حاصل ہوتاہے
۔ جنہیں وہ (One-Dimensionnal Creatures) قرار دیتا ہے ۔پھر
شعورِ سادہ جو اس کے نزدیک عام حیوانات کو حاصل ہوتا ہے جنہیں (Two
Dimensional Animals) کہا جاتاہے۔ پھر شعورِ ِذات جو انسان کی خصوصیت ہے جسے وہ (Three
Dimensional Being)
کہہ کر پکارتا ہے اور اس کے بعد شعور اعلیٰ جو موجودہ انسانی سطح سے بلند اگلی
ارتقاء منزل میں حاصل ہوگا جس کا نام ( Four Dimensional
world)
ہے۔
میکانکی تصور حیات کی رُو
سے غیر ذی حیات مادہ میں کسی نہ کسی طرح زندگی پیدا ہوگئی ہے اور پھر زندگی اپنے
ارتقائی مراحل طے کرتی ہوئی اس مقام تک آگئی ہے جہاں اس میں شعور پیدا ہوگیا ۔ یہ
شعور اسی طرح میکانکی قوانین کا پابند ہے جس طرح غیرذی حیات مادہ۔ وہ کہتے ہیں کہ
شعور دماغ ہی سے پیدا ہوتاہے ۔ اور دماغ چونکہ مادی چیز ہے اس لئے شعور مادہ کی
پیداوار ہے۔لیکن تحقیق جدید نے اس تمام مفروضہ کو غلط ثابت کردیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
(Richard Maurice Buke Author Of Cosmic ''Consciusness'')
۲(
C.F.
Tertium Organum By P.D.Ouspensky)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب یہ نظریہ قائم ہواہے کہ
شعور دماغ کی پیداوار نہیں۔ شعور اپنی ہستی الگ رکھتا ہے لیکن دماغ وہ ذریعہ یا
آلہ ( Instrument) ہے جس کی وساطت سے (Through Which) شعور اپنے آپ کو
مشہود (Manifest) کرتاہے۔جیسے آپ کا ریڈیو سیٹ ،جب سیٹ درست حالت میں ہو تو اس میں
سے آواز آتی ہے لیکن وہ آواز سیٹ کی پیداوار نہیں ہوتی ۔آواز فضا کی لہر وں میں
الگ موجود ہوتی ہے لیکن وہ اپنا مظاہرہ ریڈیوسیٹ کی وساطت سے کرتی ہے۔ جب سیٹ خراب
ہوجائے تو اس میں سے آواز آنی بند ہوجاتی ہے حالانکہ فضا میں وہ آواز اب بھی اسی
طرح موجود ہوتی ہے جس طرح پہلے موجود تھی۔ جو تعلق ریڈیوسیٹ اور فضا میں بکھری
ہوئی آواز کا ہے وہی تعلق دماغ اور شعور کا ہے۔ شعور اپنے طور پر موجود ہوتا ہے ،
صرف اپنا مظاہرہ دماغ کے ذریعے کرتا ہے۔
انسانی شعور کے ‘‘مقام’’
کو نفس انسانی (Mind) یا (Psyche)کہا جاتا ہے۔ نفس انسانی مادہ کی پیداوار نہیں ہوتا۔ یہ اپنا تشخص
الگ رکھتا ہے ۔ اس کے اسی تشخص کا نام انسانی انا یا ایغو (I
or Ego)
ہے نفس انسانی اور دماغ انسانی (Brain) کے باہمی تعلق کی بابت
اوسپنسکی لکھتا ہے:۔
اگر ہم دماغ کو شعور کے
نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو دماغ اس خارجی دنیا کا ایک جزو نظر آئے گا جو شعور سے الگ
واقع ہے۔ اس لئے نفس انسانی اور دماغ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہمارا
تجربہ او رمشاہدہ بتاتا ہے ، نفس انسانی، دماغ کی وساطت سے ہی عمل پیرا ہوتا ہے
۔لہٰذا دماغ وہ منشور (Prism) ہے جس میں سے نفس انسانی کی شعاعیں گزرتی ہیں اور ان کا ایک حصہ
ہمارے سامنے شعور یا فکر کی صورت میں ہویدا ہوجاتا ہے ۔ یا بالفاظ دیگر یوں سمجھئے
کہ دماغ وہ آئینہ ہے جس میں نفس انسانی کا عکس ہماری اس دنیا کے سامنے آجاتاہے جو
ابعادِثلاثہ (Three-Dimensions) سے مرکّب ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری مادی کائنات میں بھی پورے
کا پورا نفس انسانی دماغ کے ذریعے منعکس ہوکر سامنے نہیں آجاتا بلکہ اس کا محض ایک
حصہ سامنے آتاہے ۔ یہ ظاہر ہے کہ اگر آئینہ ٹوٹ جائے توف اس کے اندر کاعکس بھی ٹوٹ
جائے گا۔ یا اگر آئینہ میں کوئی اور نقس آجائے تو عکس بھی صاف نہیں دیکھائی دے گا۔
لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ اگر آئینہ ٹوٹ جائے تو وہ شے بھی فنا ہوجائے گی
جس کا عکس آئینہ کے اندر نظر آتا تھا ۔لہٰذا دماغ مختل ہوجانے سے نفس انسانی پر کچھ
اثر نہیں پڑتا ۔صرف اس کے عکس یعنی شہود (Manifestation) پر اثر ہوتا ہے او
رہوسکتا ہے کہ یہ شہود بعض اوقات بالکل غائب ہی ہوجائے (لیکن نفس انسانی اپنی جگہ
پر قائم رہے گا)۔ (Tertium Organum: p.164)
نفس انسانی:۔۔۔ ایک چیز
قابل غور ہے آپ اپنے بچپن کی عمر سے اس وقت تک کی زندگی پرغورکیجئے ۔ علم الابدان
کے ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ انسانی جسم میں ہر آن تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ حتیٰ کہ
یہاں تک کہا جاتاہے کہ سات سال کے بعد انسان کے پرانے جسم میں سے کوئی چیز بھی
باقی نہیں رہتی ۔رفتہ رفتہ بتدریج غیر محسوس طور پر سابقہ جسم کی جگہ ایک نیا جسم
لے لیتا ہے، بعض اوقات یہ تبدیلی ایسی نمایاں ہوتی ہے کہ (مثلاً) آپ نے کسی بچہ کو
بیس برس کے بعد دیکھا تو آپ مشکل پہچان سکیں گے کہ یہ وہی بچہ ہے۔
بدلے کچھ ایسے طور سے بے
طور ہوگئے
تم تو شباب آتے ہی کچھ
اور ہوگئے
محض شاعر ی نہیں بلکہ ایک
حقیقت ہے کہ بچپن کے بہت کم انداز ہیں جو شباب میں باقی رہتے ہیں۔ شباب کے بعد جب
بڑھاپا آتاہے تو جوانی ایک خواب سے زیادہ دکھائی نہیں دیتی ۔بچپن سے بڑھاپے تک
انسان کچھ کا کچھ ہوجاتاہے۔ کسی ساٹھ برس کے بوڑھے کے سامنے اس کی چار برس کی عمر
کی تصویر لائیے۔ وہ پہچان نہ سکے گاکہ تصویر کس کی ہے؟ آپ کو بتاناپڑے گا کہ یہ
جناب ہی تشریف فرماہیں ۔لیکن ان تمام تبدیلیوں کے باوجود ایک چیز ایسی بھی ہے جو
غیر متبدّل رہتی ہے اور یہ چیز وہ ہے جسے آپ ‘‘میں’’ کہتے ہیں ۔آپ ساٹھ برس کی عمر
میں بھی جب اس زمانہ کی باتیں کریں گے جب آپ دس برس کے بچے تھے (اور جس زمانہ کی
اپنی تصویر بھی آپ نہیں پہچان سکے تھے) تو آپ یہی کہیں گے کہ میں فلاں مدرسے جایا
کرتا تھا۔ ایک دن میں نے یہ کیا۔ایک دن وہ کیا۔ میری فلاں سے لڑائی ہوگئی۔ میں
فلاں کادوست تھا ۔غور کیجئے کہ یہ ‘‘ میں’’ کیا ہے جس کاتذکرہ آپ کررہے ہیں (اور
اس کا آپ تذکرہ ہی نہیں کررہے بلکہ جب آپ کہتے ہیں کہ میں نے دس برس کی عمر میں
سانپ مارا تھا تو اس بہادری کا آخر آپ اپنے اندر آج بھی محسوس کرتے ہیں۔ جو کام آپ
کے ‘‘میں’’ نے دس برس کی عمر میں کیا تھا ،آپ کا ساٹھ برس والا ‘‘میں’’ اپنے آپ کو
اس کام کے (Credit) کا جائز حقدار سمجھتا ہے اور حقدار سمجھنے کی بات بھی ہے ۔یہ
‘‘میں’’ ابھی تک وہ کیفیت محسوس کرتاہے جو پچاس برس اُدھر پیدا ہوئی تھی یہ جو
اکثر شب تنہائی میں کچھ
دیر نیند سے پہلے
گذری ہوئی دلچسپیاں بیتے
ہوئے دن عیش کے
بنتے ہیں شمع زندگی اور
ڈالتے ہیں روشنی
میرے دل صد چاک پر
تو ان گذری ہوئی دلچسپیوں
او ربیتے ہوئے عیش کے دنوں کی داستان کسی ‘‘غیر’’ کی داستان نہیں ہوئی بلکہ آپ کی
اپنی داستان ہوتی ہے۔ حالانکہ آج تک یہ داستان ایک رنگین فلم کی طرح آپ کی آنکھوں
کے سامنے گذرہی ہے ۔ آپ کے اس جسم کا کوئی ذرّہ بھی باقی نہیں رہا جس جسم کے ساتھ
یہ دلچسپیاں گذری تھیں اور جس نے عیش کے وہ دن دیکھے تھے ۔لیکن اس کے باوجود اسے
آپ اپنی ہی داستان سمجھتے ہیں اور اس بدلے ہوئے جسم کے علی الرغم آپ کے اندر کچھ
ہے جو ان کی یاد سے آج بھی اسی طرح کیف اندوز ہورہا ہے جیسے اس گذرتے ہوئے زمانے
میں لذّت یاب ہوتا تھا ۔یہ ‘‘میں’’ آپ کے ‘‘اندر’’ بدستور رہتا ہے خود وہ پہلا جسم
رہے یا نہ رہے۱۔
آپ کہیں گے کہ بات تو یہ
ہورہی تھی کہ دورِ حاضرہ کے طبیعاتی انکشافات اور فکری نتائج اب یہ تسلیم کررہے
ہیں کہ شعور مادہ کی پیداوار نہیں بلکہ نفس انسانی کا عملی مظاہرہ ہے او رنفس
انسانی مادہ کی دنیا سے باہر کی چیز ہے۔لیکن اس میں ہم نے یہ ‘‘شاعری ’’ کیا شروع
کردی؟ لیکن اس شاعری کا اصل موضوع سے ایک خاص تعلق ہے جس کی وجہ سے اس کاذکر ضروری
سمجھا گیا ۔ ہم نے کہا کہ ہمارے اندر کوئی شے ایسی ہے جو جسمانی تغیرات کے باوجود
اپنی جگہ غیر متبدّل او رمسلسل موجود رہتی ہے۔ اگر یہ چیز جسم کے طبعی افغال ہی کا
نتیجہ ہوتی تو جسم کے ساتھ ساتھ یہ بھی بدلتی جاتی ۔اس سے ظاہر ہے کہ یہ شے (جسے
‘‘میں’’ یا انسانی انا کہا جاتاہے ) جسم انسانی یادماغ کی پیداوار نہیں۔
یہ محض حافظہ کا کرشمہ
ہے:۔۔۔ لیکن میکانکی تصورحیات کے داعی کہتے ہیں کہ یہ صرف آپ کا حافظ (Memory) ہے جو گذری ہوئی
باتوں کو یادرکھتا ہے اور حافظہ دماغ کا فعل ہے اور دماغ مادی چیز ہے۔ اسی لئے جسے
آپ انسانی انا کہتے ہیں وہ یادداشت کے سوا کچھ نہیں بعض اوقات کسی حادثہ سے دماغ
پر ایسا اثر پڑتا ہے کہ حافظہ مٹ جاتاہے او راس شخص کو اپنی سابقہ زندگی کا کوئی
واقعہ بھی یادنہیں رہتا ۔حتیٰ کہ وہ اپنے بیوی بچوں کوبھی نہیں پہچانتا اپنے متعلق
یہ بھی نہیں بتا سکتا کہ وہ کس کا بیٹا ہے ۔کہاں پیدا ہوا ۔یعنی وہ سب کچھ جس کا
تعلق اس کے ‘‘میں’’ سے تھا گم ہوجاتا ہہے۔ اس کا سابقہ ‘‘میں’’ فنا ہوجاتا ہے اور
اب ایک نئے ‘‘میں’’ کی تخلیق شروع ہوجاتی ہے ۔ اس لئے یہ ‘‘میں’’ حافظہ سے زیادہ
او رکچھ نہیں۔ انسانی دماغ کی ساخت ایسی واقع ہوئی ہے کہ جسم انسان کی تبدیلیوں سے
حافظہ کے ریکارڈ روم پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
نفس انسانی کے متعلق تفصیلی بحث باب ہفتم ،عنوان ‘‘فردوش گم گشتہ’’ میں دیکھئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
التبہ اگر دماغ کے خلّیات
(Brain Cells) کو وہ حصہ کمزور ہوجائے جس کا تعلق حافظہ سے ہے تو انسان کا
حافظہ بگڑ جاتاہے اور ان کی تقویت سے اس کا حافظہ پھر ٹھیک ہوجاتاہیے۔ یہ بات
چونکہ ہمارے روزمرّہ کے مشاہدہ کی ہے اس لئے اس سے مستخر جہ نتیجہ بڑا دقیع او
ردلائل پر مبنی دکھائی دیتا ہے ۔
لیکن دور حاضرہ کی تحقیق
یہ ہے کہ خود حافظہ بھی دماغ کی پیداوار نہیں ۔ اس کی تخلیق کا سرچشمہ نفس انسانی
ہے البتہ نفس انسانی اپنی اس تخلیق کو دماغ کے ریکارڈ روم میں محفوظ رکھتا ہے او
ریہ ظاہر ہے کہ ریکارڈ روم میں چوری ہوجانے یا اسے آگ لگ جانے سے اس کے اندر رکھا
ہوا ریکارڈ تو ضـائع
ہوجائے گا ، جن ہاتھوں نے وہ ریکارڈ مرتّب کیا تھا ان پر اس کا کچھ اثرنہیں پڑے
گا۔ نہ ہی اس ریکارڈ کی گم گشتگی یا اتلاف سے یہ نتیجہ اخذ کیا جائے گا کہ یہ سب
ریکارڈ روم ہی کی پیداوار تھا کیونکہ ریکارڈ روم کے تباہ ہونے کے ساتھ ہی یہ بھی
تباہ ہوگیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
برگسان کی تحقیق:۔۔۔۔
برگسان نے اس مسئلہ کو اپنی فکری تحقیق کا خاص موضوع بنایا اس باب میں اس کی کتاب
(Matter And Memory) قابل قدر تصنیف ہے۔ اس کتاب میں وہ دو نظریوں سے بحث کرتاہے۔ ایک
یہ کہ حافظہ محض دماغ کا فعل ہے اور مدرکات (Perceptions) یعنی وہ چیزیں جو
حواس کے ذریعہ ہمارے سامنے آتی ہیں اور یادداشت (یعنی وہ چیزیں جو حافظہ کی مدد سے
ہمارے ذہن میں آتی ہیں) (Recollection) میں صرف شدّت (Intensity) کا فرق ہے۔’’ اور
دوسرا نظریہ یہ کہ ‘‘حافظہ دماغ کے عمل کا نتیجہ نہیں اور مدرکات اور ذہنی یاد
داشتوں میں صرف درجہ (Degree) کا فرق نہیں بلکہ نوع (Kind) کا فرق ہے’’۔ (pp.314-15) اس کے بعد وہ ان
دونوں نظریوں کا شرح وبسط سے تجزیہ اور مطالعہ کرتا ہے او رآخر الامرکہتا ہے کہ :۔
آپ نے اب سمجھ لیا ہوگا
کہ حافظہ کیوں دماغ کا فعل نہیں ہوسکتا ۔دماغ حافظہ کے تسلسل کو قائم رکھتا ہے او
راسے مادی قالب میں سمو کر اس قابل بنادیتا ہے کہ یہ حال (Present) پر اپنا تصرف کرسکے
، لیکن خالص حافظہ روحانیت کا مظہر ہے حافظہ کی دنیا درحقیقت روح کی دنیا ہے (232)
اور اس کتاب کا خاتمہ الفاظ پر کتاہے:۔
حقیقت یہ ہے کہ روح (Spirit) مادہ سے ان مدرکات
کو مستعار لیتی ہے (جوحواس کے ذریعہ مرتّب ہوتے ہیں) یہ مدرکات روح کے لئے غذا کا
کام دیتے ہیں۔ وہ ان مدرکات پر اپنی حریّت (Freedom) کا ٹھپہ لگادیتی ہے
اور انہیں پھر مادہ کو واپس دے دیتی ہے۔(232)۔
برگسان تو اس کا بھی قائل
نہیں کہ ‘‘ انسانی جسم’’ حافظہ کو دماغ کے خلیات یا اعصاب کے توشہ خانہ میں
میکانکی طور پر محفوظ رکھتا ہے۔(231) وہ اس کا قائل ہے کہ یہ چیز یں محض حرکات کی
صورت میں سامنے آتی رہتی ہیں۔( یہ بحث چونکہ ہمارے موضوع سے خارج ہے اس لئے اسے
تفصیلاً بیان کرنے کی ضرورت نہیں )۔
اوسپنسکی کا نظریہ:۔۔۔۔۔
اوسپنسکی اس سے بھی آگے جاتاہے اور کہتا ہے کہ دماغ کے خلیات (Brain
Cells)
جسم کے دوسرے خلیات سے بالکل مختلف ہوتے ہیں اور ان کی ساخت اور نشو ونما ایک راز
ہے۔ وہ اپنی کتاب (A New Model Of The Universe) میں لکھتا ہے:۔
انسانی جسم کی زندگی میں
دماغ خلیات کی تاریخ زندگی ایک بہت بڑا راز ہے۔ سائنس اسے کم و بیش ثابت کرچکی ہے
او راب اس نتیجہ کو بطور حقیقت ثابتہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ دماغی خلیات اسی طرح
اپنے آپ کو نہیں بڑھاتے جس طرح جسم کے دوسرے خلیات اپنی افزائش کرتے ہیں ایک نظریہ
کے مطابق دماغ کے خلیات تمام کے تمام عمر کے بہت ابتدائی حصہ میں (بیک وقت) ظاہر
ہوجاتے ہیں۔ دوسرے نظریہ کے مطابق یہ بارہ برس کی عمر تک بڑی مقدار میں پیدا ہوتے
رہتے ہیں ۔لیکن یہ کس طرح پیدا ہوتے ہیں او رکس چیز سے پیدا ہوتے ہیں ۔اسے کوئی
بھی نہیں جانتا ۔منطقی دلیل کی رو سے سائنس کو یہ تسلیم کرلینا چاہئے تھا کہ دیگر
خلیات کے مقابلے میں دماغی خلیات ناقابل فنا (Immortal) ہیں (20)
اوسپنسکی کا یہ نظریہ ’علم
الحیات کے انکشافات کی روشنی میں کس حدتک قابل قبول ہے، ہمیں سردست اس سے غرض
نہیں۔ اس مقام پر صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ دورِ حاضر ہ کی فکری تحقیق اس نتیجہ پر
پہنچی ہے کہ حافظہ دماغ کافعل نہیں۔لہٰذا میکانکی تصور حیات کے حاملین کا یہ
کہنادرست نہیں کہ ‘‘میں’’ (I) کا تسلسل اور استقلال (Continuity And
Permanance)
یا اس کی انفرادیت وتشخص (Individuality And
Uniqueness)
کا مدار حافظہ پر ہے اور حافظہ چونکہ مادی دماغ کی پیدوار ہے۔ اس لئے انسانی انا (
Self)یا نفس (Mind) بھی مادہ ہی کامظہر
ہے اس سوال پر بحث کرتے ہوئے کہ انسانی فکر (Intellect) مادہ کی میکانکی
ارتقاء کی پیداوار ہوسکتی ہے یا نہیں (Wildon Carr) لکھتا ہے ۔
اگر فکر انسانی مادی
ارتقاء کی پیداوار ہے تو مبداء حیات اور ماہیت حیات سے متعلق تمام میکانکی تصور
مہمل ہوجاتاہے او رصاف ظاہر ہوجاتاہے کہ جو اصول سائنس نے اختیار کیاہے اس پر
نظرثانی کی ضرورت ہے۔ جو نہی یہ اصول الفاظ میں بیان کیا جائے اس کا تناقض سامنے
آجاتا ہے بھلا یہ کیونکر ممکن ہے کہ خود فکر جوادراک حقیقت کا ایک انداز ہے نتیجہ
ہو ایک ایسی چیز کے ارتقا کا جس کا وجود محض ایک مجرد تصور ہے‘ اسی انداز ادراک کا
جسے فکر کہتے ہیں۔ اگر فکر ارتقائے حیات سے وجود میں آئی ہے تووہ تصور حیات جس کی
رو سے فکر کا یہ سبب ادراک حقیقت کے انداز کے مرتقی ہونا ممکن ہے ایک مقرون فعل (Concerte
Activity)
ہوناچاہئے کہ صرف ایک مجرّد میکانکی حرکت کا تصور جس کا خیال فکر نے مشمول ادراک
کے تجزیہ کے ذریعہ قائم کرلیا ہے۔ علاوہ بریں اگر فکر ارتقائے حیات کا نتیجہ ہے تو
وہ قائم بالذّات نہیں بلکہ اس کا انحصار ہے اس شے کے عمل پر جس سے اس کے ارتقاء
پائی جاتی ہے تو پھر ان حالات میں سائنس کو کیا حق ہے کہ وہ علم کے موضوعی پہلو
کونظر انداز کرکے مفروضی ادراک کو قائم بالذّات سمجھ بیٹھے غرضیکہ حیاتیات کا صریح
تقاضا ہے کہ سائنس کے اصول پرنظرثانی کی جائے۔
ہکسلے نے لکھا تھا کہ
‘‘شعور بھی اسی طرح مادہ کے ایک عمل کانام ہے جس طرح حرکت۔‘‘ لیکن اس کی تردید میں
ٹنڈل (Tyndall)لکھتا ہے کہ ‘‘یہ چیز تصور میں بھی نہیں آسکتی کہ دماغ کی طبیعی
ہیّت شعور پیدا کرسکتی ہے(C.F.Caird:p 103)
۔۔۔۔۔۔۔
مغربی مفکّرین کے نتائج
فکر اور وہاں کے ادئیین کے طبیعی انکشافات پر سیر حاصل بحث کرنے کے بعد علامہ
اقبالؒ اپنے خطبات میں لکھتے ہیں کہ :۔
شعور انسانی زندگی کے
خالص روحانی اصول کی ایک قسم ہے جو جوہر نہیں بلکہ ایک اصول نظام ہے۔ایک خاص فطرت
جو مشین کی فطرت سے یکسر مختلف ہے جسے خارجی قومیں متحرک رکھتی ہیں لیکن چونکہ
(محسوسات کا خوگر انسان) خالص ۱
روحانی توانائی کا تصور نہیں کرسکتے جب تک ہم اس کے ساتھ ان محسوس عناصر کو نہ
ملالیں جن کے ذریعے وہ اپنے آپ کو منکشف کرتی ہے ہم اس عناصری امتزاج ہی کو روحانی
توانائی کی اساس قرار دے لیتے ہیں۔( خطبات39)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱ان
صفحات میں آپ کے سامنے بار بار ‘‘روح’’ اور ‘‘روحانی اصطلاحات ’’ آتی رہیں گی ، ان
سے مفہوم وہ روح (Soul) (باقی اگلے صفحہ پر)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دورِ حاضر کی دنیائے
سائنس میں میکس پلانک (Max Plank) کے نام سے کون واقف نہیں ۔ پروفیسر (J.W.N.Sullivan) نے اس سے پوچھا کہ
‘‘ کیا آپ کا خیال ہے کہ شعور کا مسئلہ مادہ او رمادی قوانین کی رو سے سمجھا
جاسکتاہے؟ اس کے جواب میں میکس پلانک نے کہا کہ :۔
میں شعور کو بنیاد خیال
کرتا ہوں۔مادہ شعور کی پیداوار ہے ۔ہم شعور سے پیچھے نہیں جاسکتے ہر وہ شے جس کے
متعلق ہم گفتگو کرتے ہیں ۔ہر وہ شے جو موجود ہے شعور کا اثبات کرتی ہے۔
(Philosophical Aspects Of Modern
Science--JOAD)
یعنی انیسویں صدی کے
مادئیین یہ کہہ رہے تھے کہ شعور بھی مادہ ہی کی پیدوار ہے اور اب بیسویں صدی کے
ماہرین أمنس کہتے ہیں کہ خود مادہ ،شعور کی پیداوار ہے جیمز جینس تک کو اعتراف ہے
کہ :
شعور بنیادی حقیقت
رکھتاہے او رمادی کائنات اس سے وجود پذیر ہوئی ہے۔اور (Schrodinger) کو اس پر اصرار ہے
کہ :۔
شعور کو کبھی طبیعی
اصطلاحات میں سمجھایا نہیں جاسکتا کیونکہ شعور کی حقیقت بنیادی ہے۔
(Quoted By Marshall Urbane In ''Human And
Detty'':p.366)
(Aldous Huxley) اپنی کتاب (Means And Ends)میں پروفیسر (Broad)کے خیالات کی
ترجمانی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ :۔
بہر حال اسے تسلیم کرنا پڑے
گا کہ نفس انسانی (اس کا نام کچھ ہی رکھ لیجئے ) جسم انسانی سے الگ اپنا وجود
رکھتا ہے اورجسمانی زندگی کے کوائف و قوانین کے تابع نہیں ۔
اور پروفیسر (Cassirer) اس باب میں رقمطراز
ہے:۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں جس کا تصور ہمارے
یہاں عام طور پر پایا جارہاہے ۔مغرب میں(Matter) کے مقابلہ میں (Spirit) کا لفظ بولا جاتاہے
جس سے مقصود غیر مادی (Immaterial) اشیاء ہوتی ہیں چونکہ اس لفظ کے لئے ہمارے ہاں روح سے الگ
اورکوئی اصطلاح مروّج نہیں اس لئے اس کا ترجمہ روح کیا جائے گا جہاں جہاں یہ لفظ
آئے آپ اس مفہوم کو سامنے رکھئے۔
انسانی زندگی میں نت نئی
تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن انسان کی حقیقی قدر وقیمت کا راز اس داخلی نظام میں
ہے جو تغیرات سے ماورا ہے۔۔۔ فلہٰذا انسان اس طبیعی دنیا ہی ککا باشندہ نہیں ۔اس
کے ماورا اس کی ایک اور دنیا بھی ہے جسے اشارات (Symbols) کی دنیا کہتے ہیں (Anessay
On Man)
یہ وہ ‘‘ اشارات کی
دنیا’’ ہے جس کے متعلق ایڈنگٹن لکھتا ہے کہ :۔
قوت ،توانائی ،ابعاد، یہ
سب اشارات (Symbols) کی دنیا سے متعلق ہیں یہی و ہ تصورات ہیں جن سے ہم نے طبیعات کی
خارجی دنیا تخلیق کی ہے۔ ان کے علاوہ ہمارے پاس اور تصورات ہیں کون سے؟ (لیکن )طبیعات
کی دنیاکے اسباب و ذرائع ختم کرچکنے کے بعد جب ہم اپنے شعور کی دنیا کی انتہائی
گہرائیوں میں پہنچتے ہیں ۔ وہ دنیا جہاں سے ہماری ذات کا اعلان ہوتاہے، وہاں ہم
ایک نئے منظر میں داخل ہوتے ہیں او رخود اپنی ذات سے اشارات (Symbols) لے کر ایک نئی دنیا
کی تخلیق کرتے ہیں جس کی بنیاد (ماوراء المادہ) روحانیت پر ہوتی ہے۔
(Science And The Unseen World) مغربی مکتشفین اسے
‘‘روحانی دنیا’’ کہتے ہیں ۔چنانچہ (H.P.Newsholme) اپنی کتاب (Health
Disease And Integration) میں لکھتا ہے:۔
اگر علم الطّب چاہتا ہے
کہ وہ دریافت کرے کہ انسانی زندگی کے ثبات میں استحکام کس طرح پیدا ہو سکتا ہے تو
اسے اس کے طبیعی ’ذہنی اور جذباتی تقاضوں کے ساتھ اس کے ان روحانی تقاضوں کا بھی
مطالعہ کرناہوگا جو زندگی کی گہرائیوں میں کار فرما رہے ہیں۔ اسے انسان کی جسمانی
او رذہنی زندگی تک ہی محدود نہیں رہنا ہوگا۔
(Quoted By Alexander Loveday In ''The Only
Way'')
نفس انسانی کے متعلق مزید
بحت چند صفحات آگے چل کر ملے گی۔
ہم اوپر دیکھ چکے ہیں کہ
مفکرین مغرب کے نزدیک شعور کی دو قسمیں یا سطحیں ہیں۔
شعور ذات :۔۔۔۔ایک شعور
سادہ (Simple Consciousness) اور دوسرا شعورذات (Self Consciosness) یا یوں کہئے کہ ایک
شعوروہ جس کا مظاہرہ حیوانات میں (یا بعض مکتشفین کے نزدیک نباتات میں بھی) ہوتا
ہے اور دوسرا شعور وہ جو انسان سے مختص ہے ۔ ان میں سے ایک مکتب فکر کا خیال یہ ہے
کہ جس طرح شعور سادہ ، مادہ کے میکانکی ارتقاء کا نتیجہ نہیں اسی طرح انسانی شعور
حیوانی شعور کی ارتقاء یا فتہ شکل نہیں ۔یعنی ان دونوں میں محض مداج (Degrees) کا فرق نہیں بلکہ
یہ دونوں الگ الگ نوعیت رکھتے ہیں ۔پرنسپل کیرڈ نے اپنے لیکچرز ( Introduction
To The Philosophy Of Religion)میں اس موضوع پر عمدہ بحث کی ہے۔ وہ پہلے غیر ذی حیات (Inoroanic) اور ذی حیات (Organic) چیزوں میں امتیازکے
سلسلے میں لکھتا ہے:۔
غیر ذی حیات اشیاء کی
ہستی نہیں یکسر خارج سے دی گئی ہوتی ہے او ریہ ہستی خارج ہی سے متعین کردہ ہوتی ہے
، وہ چیز یں جو کچھ ہوتی ہیں انہیں ویسا ہی بنایا گیا ہوتاہے اور ان میں جو
تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں وہ یکسر خارجی اثرات کا نتیجہ ہوتی ہیں جن پر انہیں کسی
قسم کا قبضہ و اختیار نہیں ہوتا۔ لیکن ذی حیات کی صورت میں یہ بات نہیں ہوتی ۔ ان
کی ہستی نہ تو شروع ہی سے تکمیل یافتہ ہوتی ہے نہ خارج سے متعین اور ان پر مسلط
کردہ ۔ ان میں اپنی ذات کی تکمیل کاعمل جاری رہتا ہے۔
اس کے بعد وہ ذی حیات
اشیاء میں نباتات او رحیوانات او رانسان میں فرق کرتے ہوئے کہتا ہے ۔
انسان کے علاوہ دوسری چیز
یں اگر خارجی فطرت کو مسخّر کرتی ہیں تو ان کا یہ فعل طبعاً ہوتاہے نہ وہ اس کا
ارادہ کرتی ہیں او رنہ ہی انہیں اپنی اس تسخیر کا احساس ہی ہوتاہے ۔ ان میں نہ تو
اپنے مستقبل کا احساس ہوتاہے او رنہ ہی تکمیل جسم کے لئے اپنی آخری منزل تک پہنچنے
کی جدوجہد شعوری طور پرہوتی ہے فطرت کے خلاف ان کی جنگ وجدال درحقیقت فطرت کی ایک
اندھی قوت کی دوسری اندھی لیکن کمزور قوّت کے خلاف جنگ وجدال ہوتی ہے۔ ان کے برعکس
انسان کا عالم ہی دوسرا ہے اس کی صورت میں وہ جدّوجہد جو انسان اور اس کی خارجی
دنیا میں رونما ہوتی ہے (یعنی اس کی خارجی ہستی او راپنے نصب العین کے مطابق زندگی
میں تصادم و تزاحم ) یہ سب کچھ شعوری طور پر ہوتا ہے او ریہ تصادم ایک اندھی فطرت
کا دوسری اندھی فطرت سے تصادم نہیں ہوتا بلکہ جذبات او رعقل کا تصادم ہوتاہے یعنی
انسان کی داخلی دنیا کی جنگ ۔(248-49)
وہ اسی سلسلہ میں آگے چل
کر لکھتا ہے:۔
ایک حیوان ایک تاثر یا
جذبہ سے ایک دوسرے جذبہ تک ۔یعنی ایک خواہش کی تسکین سے دوسری خواہش تک اس طرح
پہنچ جاتاہے کہ وہ نہ تو ان کا باہمی مقابلہ کرتاہے او ر نہ ہی ان کا ایک جگہ
احاطہ کرتاہے۔ اس لئے ان حوادث (Events) سے اس کے شعور کی
کوئی مسلسل داستان مرتب نہیں ہوتی۔ نہ اس کا کوئی ماضی ہورتاہے نہ مستقبل ۔اگر چہ
ہم باہر والے یہی سمجھتے ہیں کہ اس کی زندگی ایک مسلسل وحدت ہے۔ درحقیقت ایک ایسی
وحدت ہوتی ہے جس کا اسے خود کوئی احسا س نہیں ہوتا۔اگر انسان میں حیوان سے زیادہ
کچھ اور نہ ہوتا تو انسان بھی حیوان کی طرح اپنی فطری خواہشات کی تشکین سے کامل
مسرت کی زندگی بسر کر لیتا جو صرف خارجی اسباب سے متاثر ہوسکتی لیکن انسان کی تو
یہ کیفیت نہیں۔(253)
ان توجیہات کے بعد پرنسپل
مذکور اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ انسانی شعور حیوانی شعور ہی کی ترقی یافتہ صورت
نہیں بلکہ انسان میں حیوان سے الگ کچھ او ربھی ہوتا ہے۔ یہ حقیقت کہ انسان محض
حیوان کی ترقی یافتہ شکل نہیں بلکہ اس میں حیوانات سے الگ کچھ او ربھی ہے محض فلا
سفر رہی کا خیال نہیں بلکہ طبیعی ارتقاء کے ماہرین (جوخدا ک بھی قائل نہیں) وہ بھی
اپنی مادی تحقیقات کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انسان دوسرے حیوانات سے ایک
بالکل الگ مخلوق ہے چنانچہ اس باب میں (Simpson) لکھتا ہے:۔
انسان صرف حیوان نہیں
:۔۔۔۔ یہ ٹھیک ہے کہ انسان بھی ایک حیوان ہے لیکن یہ کہنا ٹھیک نہیں کہ انسان صرف
حیوان ہے۔۔۔۔ اگر یہ کہا جائے کہ انسان صرف حیوان ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگاکہ ہم
ان تمام خصائص کے وجود کاانکار کرتے ہیں جو صرف انسان کے اندر ہیں او رباقی حیوانات
میں سے کسی میں موجود نہیں ہیں۔۔۔۔ اس حقیقت کا اعتراف کرنا نہایت ضروری ہے کہ
انسان ایک حیوان تو ہے لیکن اس کی ہستی کی انفرادیت کی بنیاد وہ خصوصیات ہیں جن
میں کوئی اور حیوان اس کا شریک نہیں، فطرف میں انسان کا مقام اوراس مقام کی
بلندترین اہمیت انسان کی حیوانیتکی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی انسانیت کی وجہ سے۔۔۔
انسان ایک بالکل نئی قسم کا حیوان ہے ۔ایک ایسا حیوان جس میں اگرچہ طبیعی ارتقاء
کا سلسلہ بھی جاری رہا لیکن اس میں ایک بالکل نئی قسم کا ارتقاء بھی نمودار ہورہا
ہے۔(137-39)
برگسان کا نظریہ:۔۔۔ اس
حقیقت کے متعلق کہ (انسان کا شعور حیوانی شعور ہی کی ترقی یافتہ شکل نہیں بلکہ ایک
جداگانہ چیز ہے) برگسان لکھتا ہے :۔
جس بنیادی غلطی نے ارسطو
سے لے کر آج تک فلسفہ فطرت کو مکّدر کررکھا ہے وہ یہ ہے کہ اس فلسفہ کی رو سے
نباتی احساس حیوانی جبلّت اور انسانی شعور کو ایک ہی میلان (Tendency) کے تین درجے تسلیم
کہا جاتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک عمل کی تین مختلف شاخیں ہیں جو ایک دوسرے
سے یکسر الگ الگ ہیں۔ ان میں باہمی فرق نہ تو درجات (Degrees) کا ہے او رنہ ہی
شدّت (Intensity) کا۔ ان میں نوعی فرق(Difference Of
Kind)
ہے۔
(Creative Evolution p.142)
اس سے ذرا آگے چل کر
لکھتا ہے:۔
اصل یہ ہے کہ شعور کوئی
بھی ایسا نہیں ہوتا جس می حیوانی جبلّت کا کچھ نہ کچھ شاتبہ نہ ہو او رکوئی جبلّت
(Instinct)ایسی نہیں ہوتی جس کے گرد شعور (Intellect)کا ہالہ نہ ہو۔شعور
کا یہی ہالہ ہے جو اس قدر غلط قہمیوں کا باعث بن رہا ہے ۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ
کرلیا جاتاہے کہ شعور اور جبلّت ایک ہی نوع کی دو قسمیں ہیں (اور شعور جبلّت ہی کی
ترقی یافتہ شکل کا نام ہے) اور ان دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ شعور زیادہ پیچیدہ
اور مکمل ہوتاہے۔حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کا ساتھ اس لئے ہوتا ہے کہ یہ ایک دوسرے
کی مؤید (Complimentary) ہوتی ہیں او ریہ اسی لئے ہوتی ہیں کہ وہ دومختلف چیزیں ہیں۔(143)
برگسان حیوان کی جبلّت (Instinct) اور انسان کے فکر و
شعور (Intelligence) میں امتیاز کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ‘‘جبلّت صرف اپنے جسم کے
اوزاروں سے کام لینا جانتی ہے اور شعور جسمانی اوزاروں (ہاتھ پاؤں وغیرہ) سے الگ
مادّی اوزار بنانا او رانہیں استعمال کرنا بھی جانتا ہے ،جسمانی اوزاروں کی ساخت
بڑی پیچیدہ لیکن ان کا استعمال بڑا آسان او ران کا طریق عمل، یعنی جوکچھ وہ کرسکتے
ہیں، متعین ہوتاہے۔ اس کے برعکس انسان کے خود ساختہ اوزار ساخت کے اعتبار سے خواہ
سادہ اور آسان ہوں، ان سے جو کام لئے جاسکتے ہیں ان کا میدان بڑا وسیع ہوتا ہے
۔(صفحہ 147-48)
برگسان اپنی ایک کتاب ( Two
Sources Of Morality And Religion) میں لکھتا ہے کہ ‘‘حیوانات کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انہیں مرنا
بھی ہے لیکن انسان کو اپنی موت کا یقین ہوتاہے’’( 119-20)اس لئے حیوان حال سے
مستقبل پر نگاہ رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے یہ صرف انسانی شعور کا خاتمہ ہے۔
تو ان گذری ہوئی دلچسپیوں
او ربیتے ہوئے عیش کے دنوں کی داستان کسی ‘‘غیر’’ کی داستان نہیں ہوئی بلکہ آپ کی
اپنی داستان ہوتی ہے۔ حالانکہ آج تک یہ داستان ایک رنگین فلم کی طرح آپ کی آنکھوں
کے سامنے گذرہی ہے ۔ آپ کے اس جسم کا کوئی ذرّہ بھی باقی نہیں رہا جس جسم کے ساتھ
یہ دلچسپیاں گذری تھیں اور جس نے عیش کے وہ دن دیکھے تھے ۔لیکن اس کے باوجود اسے
آپ اپنی ہی داستان سمجھتے ہیں اور اس بدلے ہوئے جسم کے علی الرغم آپ کے اندر کچھ
ہے جو ان کی یاد سے آج بھی اسی طرح کیف اندوز ہورہا ہے جیسے اس گذرتے ہوئے زمانے
میں لذّت یاب ہوتا تھا ۔یہ ‘‘میں’’ آپ کے ‘‘اندر’’ بدستور رہتا ہے خود وہ پہلا جسم
رہے یا نہ رہے۱۔
آپ کہیں گے کہ بات تو یہ
ہورہی تھی کہ دورِ حاضرہ کے طبیعاتی انکشافات اور فکری نتائج اب یہ تسلیم کررہے
ہیں کہ شعور مادہ کی پیداوار نہیں بلکہ نفس انسانی کا عملی مظاہرہ ہے او رنفس
انسانی مادہ کی دنیا سے باہر کی چیز ہے۔لیکن اس میں ہم نے یہ ‘‘شاعری ’’ کیا شروع
کردی؟ لیکن اس شاعری کا اصل موضوع سے ایک خاص تعلق ہے جس کی وجہ سے اس کاذکر ضروری
سمجھا گیا ۔ ہم نے کہا کہ ہمارے اندر کوئی شے ایسی ہے جو جسمانی تغیرات کے باوجود
اپنی جگہ غیر متبدّل او رمسلسل موجود رہتی ہے۔ اگر یہ چیز جسم کے طبعی افغال ہی کا
نتیجہ ہوتی تو جسم کے ساتھ ساتھ یہ بھی بدلتی جاتی ۔اس سے ظاہر ہے کہ یہ شے (جسے
‘‘میں’’ یا انسانی انا کہا جاتاہے ) جسم انسانی یادماغ کی پیداوار نہیں۔
یہ محض حافظہ کا کرشمہ
ہے:۔۔۔ لیکن میکانکی تصورحیات کے داعی کہتے ہیں کہ یہ صرف آپ کا حافظ (Memory) ہے جو گذری ہوئی
باتوں کو یادرکھتا ہے اور حافظہ دماغ کا فعل ہے اور دماغ مادی چیز ہے۔ اسی لئے جسے
آپ انسانی انا کہتے ہیں وہ یادداشت کے سوا کچھ نہیں بعض اوقات کسی حادثہ سے دماغ
پر ایسا اثر پڑتا ہے کہ حافظہ مٹ جاتاہے او راس شخص کو اپنی سابقہ زندگی کا کوئی
واقعہ بھی یادنہیں رہتا ۔حتیٰ کہ وہ اپنے بیوی بچوں کوبھی نہیں پہچانتا اپنے متعلق
یہ بھی نہیں بتا سکتا کہ وہ کس کا بیٹا ہے ۔کہاں پیدا ہوا ۔یعنی وہ سب کچھ جس کا
تعلق اس کے ‘‘میں’’ سے تھا گم ہوجاتا ہہے۔ اس کا سابقہ ‘‘میں’’ فنا ہوجاتا ہے اور
اب ایک نئے ‘‘میں’’ کی تخلیق شروع ہوجاتی ہے ۔ اس لئے یہ ‘‘میں’’ حافظہ سے زیادہ
او رکچھ نہیں۔ انسانی دماغ کی ساخت ایسی واقع ہوئی ہے کہ جسم انسان کی تبدیلیوں سے
حافظہ کے ریکارڈ روم پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
نفس انسانی کے متعلق تفصیلی بحث باب ہفتم ،عنوان ‘‘فردوش گم گشتہ’’ میں دیکھئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
التبہ اگر دماغ کے خلّیات
(Brain Cells) کو وہ حصہ کمزور ہوجائے جس کا تعلق حافظہ سے ہے تو انسان کا
حافظہ بگڑ جاتاہے اور ان کی تقویت سے اس کا حافظہ پھر ٹھیک ہوجاتاہیے۔ یہ بات
چونکہ ہمارے روزمرّہ کے مشاہدہ کی ہے اس لئے اس سے مستخر جہ نتیجہ بڑا دقیع او
ردلائل پر مبنی دکھائی دیتا ہے ۔
لیکن دور حاضرہ کی تحقیق
یہ ہے کہ خود حافظہ بھی دماغ کی پیداوار نہیں ۔ اس کی تخلیق کا سرچشمہ نفس انسانی
ہے البتہ نفس انسانی اپنی اس تخلیق کو دماغ کے ریکارڈ روم میں محفوظ رکھتا ہے او
ریہ ظاہر ہے کہ ریکارڈ روم میں چوری ہوجانے یا اسے آگ لگ جانے سے اس کے اندر رکھا
ہوا ریکارڈ تو ضـائع
ہوجائے گا ، جن ہاتھوں نے وہ ریکارڈ مرتّب کیا تھا ان پر اس کا کچھ اثرنہیں پڑے
گا۔ نہ ہی اس ریکارڈ کی گم گشتگی یا اتلاف سے یہ نتیجہ اخذ کیا جائے گا کہ یہ سب
ریکارڈ روم ہی کی پیداوار تھا کیونکہ ریکارڈ روم کے تباہ ہونے کے ساتھ ہی یہ بھی تباہ
ہوگیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
برگسان کی تحقیق:۔۔۔۔
برگسان نے اس مسئلہ کو اپنی فکری تحقیق کا خاص موضوع بنایا اس باب میں اس کی کتاب
-----------------
Part: 1- 'What did the man think?' By Ghulam Ahmad Parwez:
Preface—Part 1 انسان
نے کیا سوچا
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism