غلام احمد پرویز
زماں زماں شکندآں چہ می تراشد
عقل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق
(1) طبیعات (Physics)
دیکھئے ! وہ آراکش لکڑی چیر
رہے ہیں۔لکڑی کے تختے الگ ہوجاتے ہیں اوران میں سے لکڑی کابرادہ چھن چھن کر نیچے گر
رہا ہے ۔ یہ برادہ کیا ہے؟ لکڑی ہی کے باریک ذرّات ہیں۔ اگر ان ذرّات کو باریک سے باریک
ترکرتے جائیں حتیٰ کہ وہ اتنے باریک ہوجائیں کہ اس کے بعد ان کا اور باریک ہوناممکن
نہ رہے تو برادہ کی اس آخری صورت کو ‘ دیمقریطس کے مکتب فکر کی زبان میں ‘ اجزائے لایتجزی
یا (Atoms) کہیں گے لیکن لکڑی کے یہ ذرّات کتنے ہی باریک اورلطیف کیوں نہ ہوجائیں
رہیں گے تو بہر حال لکڑی ہی۔یعنی جو خصائص لکڑی کے ہوں گے وہ ہی ان ذرّات کے ہوں گے
۔لوہے کے باریک ذرّات لوہا ہوں گے ۔سونے کے ذرّات سونا، لکڑی کے ذرّات لکڑی۔ انہی ذرّات
کو اکٹھا کردیجئے پھر سے لوہے ‘سونے او رلکڑی کے ٹکڑے سامنے آجائیں گے۔ یہ تھا مادہ
کاتصور(Atoms) کے نقطہ نگاہ کے مطابق ۔لیکن انیسویں صدی کے آخر اوربیسوی صدی کے
شروع میں طبیعات (Physics) میں ایسے نئے نئے انکشافات ہوئے ہیں کہ ان کی روشنی میں مادہ کا یہ
تصور یکسر باطل قرار پاگیا۔ پانی کا ایک قطرہ لیجئے اس کے خصائص (Characteristics) اور لزوم (Properties) سے آپ واقف ہیں۔ اس
قطرہ آب کو کسی معمل (Laboratry) میں لے جاکر اس کاتجزیہ (Analysis) کیجئے ۔ یہ سیال پانی
گیس میں تبدیل ہوجائے گا اور یہ گیس دو قسم کی ہوگی ۔ آکسیجن اور ہائیڈروجن آکسیجن
ایک ایٹم اورہائیڈروجن دوایٹم ۔ ان کے مرکّب کانام ہے پانی کا ایک سالمہ (Molecule) ایک آکسیجن کے ایٹم
کامزید تجزیہ کیجئے تو یہ برقیہ (Electrons) میں تبدیل ہوجائے گا۔
مادہ کی حرکتِ محض:۔۔۔برقیات
کیا ہے؟ بجلی (Electricity) کی مثبت او رمنفی قوتیں ! سرآلیورلاج کاخیال تھا کہ ان برقیات (Electrol) کامزید تجزیہ کیا جائے
تو یہ ایتھر کی توانائی (Etherial Energy) میں تبدیل ہوجائیں گے۱ ۔اور ایتھر کے متعلق آکسفورڈ
یونیورسٹی کے پروفیسرٹرنر(H.H.Turner) کاخیال ہے کہ اس کاکوئی
وجود ہی نہیں۲
۔لہٰذامادہ تجزیہ کرتے جائیے تو وہ آخر الامرخالی توانائی (Energy) رہ جاتاہے یا محض حرکت
(Pure Motion) یہ حرکت محض (Pre Motion) کیا ہے؟اس کاتصور ہی
انسان کے لئے ناممکن ہے اس لئے کہ ہم حرکت کاتصور متحرک اشیاء کے ذریعہ کرسکتے ہیں
۔متحرک شے کے بغیر محض حرکت ‘ ہمارے حیطہ خیال میں بھی نہیں آسکتی ۔لہٰذاجدید طبیعات
کی رو سے مادہ کی اصل و بنیاد ‘‘غیر مادی’’ ہے۔ اور انسانی دماغ چونکہ کسی ‘‘غیر مادی’’
شے کااحاطہ نہیں کرسکتا ۔ اس لئے اب دنیا ئے طبیعات میں مادی کائنات کے متعلق تمام
گفتگو اشارات (Symbols) کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ پروفیسر میکڈوگل(William
Mcdougall) نے
1924 میں (British Association for the Advancement
Of Science) کے
سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہاتھا:۔
تیس چالیس سال قبل جب میں
نے سائنس کامطالعہ کیا تو یہ کہنے کے لئے کہ انسان کی زندگی کاکوئی مقصد نہیں،بڑی جرأت
درکار تھی ۔لیکن آج حالات کسی قدر بدل چکے ہیں۔آج بڑے بڑے ائمہ طبعیات ہمیں متنبہ کررہے
ہیں کہ یاد رکھو! فزیکل سائنس کے اصول انسانی زندگی کی تعبیر کے لئے یکسر ناکافی ہیں۔۔۔۔۔۔
آج یہ مادی کائنات جس کے متعلق کہاجاتا تھا کہ یہ سخت مادی ذرّات سے مرتب ۔۔۔۔۔ حرکت
اور توانائی کا گہوارہ بن چکی ہے جس میں ہر شے، ہر آن بدلتی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔ آج مادی
ذرّات (Atoms) ختم ہوچکے ہیں ۔مادہ نے محض توانائی کی صورت اختیار کرلی ہے اور توانائی
کے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ کیا ہے ۔بجزاس کے کہ اس میں مزید تغیرّات اورارتقاء
کے امکانات ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
(The Latest Ideas In Physics)
۲
(Introduction to the Foundations of Einsteins Theory
Of Gravitation)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی سال امریکن کیمیکل سوسائٹی
کو خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ملیکن (R.A.Milikan) نے کہا کہ :۔
ہم سب متفق ہیں کہ جہاں تک
طبیعات کی سائنس جاچکی ہے اس کی رُو سے اب دو ہی بنیادی عناصر کا وجود نظرآتاہے۔یعنی
مثبت اورمنفی برقیات یہی برقیات (Electrons) تمام کائنات کی تعمیر
کامسالہ دکھائی دیتے ہیں۔
یہ 1924 ء کی بات تھی۔ اس
کے بعدمادہ کے متعلق مزید انکشافات عجیب و غریب نظریات پیدا کردیتے ہیں ۔ مشہور عالم
ریاضیات ، سرجیمز جینس لکھتا ہے:۔
دور حاضر کے طبیعات کارجحان
اس طرف ہے کہ یہ تمام مادی کائنات سوائے لہروں (Waves) کے او رکچھ نہیں۔ یہ
لہریں دوقسم کی ہیں ۔ محصور لہریں (Bottled Up Waves) جنہیں ہم مادہ کہتے
ہیں ۔ اور آزاد لہریں جنہیں روشنی کہا جاتاہے ۔فنائے مادہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوگاکہ
ان محصورلہروں کو آزاد کردیا جائے کہ وہ فضاکی پہنائیوں میں منتشر ہوجائیں۔ ان تصورات
کے ماتحت یہ تمام کائنات سمٹ سمٹا کر فقط ‘‘دنیائے نور’’رہ جاتی ہے۔ مکتوم یامشہود
(The Mysterious Universe) ۔
بلکہ مربوط حوادث:۔۔ یہاں
تو پھر بھی مادّہ کوتوانائی یا روشنی کی لہروں سے تعبیر کیا گیا ہے۔آئن اسٹائن کے نظریات
نے اسے اوربھی سمٹادیا ہے اور اب یہ سمجھا جاتاہے کہ مادہ درحقیقت مربوط حوادث (Inter-Related
Events) ہیں۔
برٹرینڈرسل کے الفاظ میں نظریہ اضافیت نے زبان کو ‘‘زمان۔مکان’’ (Time--Space) میں سمو کر مادیت کے
روایتی تصور کو فلا سفروں کے دلائل سے کہیں زیادہ مجروح کدیا ہے۔ عقل عامہ کے نزدیک
مادہ وہ ہے جو زمان میں قائم اور مکان میں گردش کرتاہے۔ لیکن اضافیت کے قائل (علمائے
طبیعات) کے نزدیک یہ تصورات باطل ہے۔ اب مادہ کاتصور مختلف مادی خصوصیات کا حامل ٹھوس
نہیں رہابلکہ مربوط حوادث کا مجموعہ بن چکا ہے۔۱
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
(Quoted By Iqbal In His Lectures:p.49-53)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی آئن سٹائن کی تحقیق کی
رو سے مادہ کوئی ایسی شے نہیں جوٹھوس اور جامد وجودرکھتی ہو بلکہ وہ چند مربوط حوادث
یا منجمد خیالات (Condensed Thoughts) کا مجموعہ ہے جس کی اصل ‘حرکت یا توانائی ہے۔لہٰذاطبیعی سائنس نے
اب تمام اشیاء کو حرکت میں تبدیل کردیا ہے۔۔۔۔ کائنات جوہمیں اشیاء کامجموعہ نظر آتی
ہے ایک ٹھوس شے نہیں جو فضا میں پڑی ہے۔ یہ شے (Thing) ہے ہی نہیں بلکہ عمل
(Action) ہے یا حوادث (Events) کی عمارت۱۔
چنانچہ برٹرینڈرسل نے تو یہاں
تک کہہ دیا ہے کہ ‘‘مادہ ایک سہل سافارمولا(Formula) ہے جسے اس لئے وضع کرلیا
گیا ہے کہ کسی ‘‘مادی ’’حادثہ کے متعلق بتایا جاسکے کہ یہ کس طرح وقوع پذیر ہوگیا۔
حالانکہ اس میں مادہ کہیں ہوتا ہی نہیں۔۔۔ مادہ اس خلاء میں حوادث کی مجرّد ریاضی خصوصیات
کانام ہے’’۔یا (Ouspensky) کے الفاظ میں محض ایک (Condition) ۳
۔ جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں آدمی اندھا ہے تو یہ اندھا پن (Blindness) کوئی مادی شے نہیں بلکہ
ایک (Condition) ہوتی ہے۔
تصریحات بالا سے یہ حقیقت
ہمارے سامنے آگئی کہ طبیعات کے متعلق جدید تحقیقات کی رُو سے یہ کائنات اس قسم کی مادی
کائنات نہیں رہی جس قسم کا تصور اس سے پہلے چلا آتا تھا۔ جب مادہ کی اصل بنیاد کے متعلق
ایسی تبدیلی پیدا ہوگئی ہے تو ظاہر ہے کہ زندگی اور شعور کے متعلق بھی سابقہ تصورات
میں تبدیلی واقع ہوئی ہوگی۔ اس تبدیلی کے متعلق آئندہ صفحات دیکھئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱(Quoted
By Iqbal In His Lectures:p.4953)
۲(''Matter
Is An Abstract Mathematical Characteristic Of Events In Empry Space''
Ahwwn:p.203)
۳(Materiality
Is The Condition Of Existence In '' Time And Space'')
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی اورشعور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔2۔۔۔۔۔۔۔
(Life and Consciousness)
میکانکی تصور کائنات کی رو
سے
(i) مادی ذرّات اور توانائی کسی نہ کسی طرح وجود میں آگئے تھے۔
(ii)ان کے امتزاج سے مادی اشیاء مرتّب ہوگئیں او رمادہ کے ارتقاء سے کسی
نہ کسی طرح زندگی ظہور میں آگئی۔
(iii) اور زندگی نے اپنے ارتقائی منازل طے کئے تو اس میں کسی نہ کسی طرح
سادہ شعور (Simple Consciousness) پیدا ہوگیا اور اس کے مزید ارتقاء سے شعورذات (Simple
Consciousness )(Self Consciousness)۔
زندگی مادّہ کی پیداوار نہیں:۔۔۔
لیکن طبیعات کے متعلق جدید تحقیقات نے یہ بتایا ہے کہ زندگی مادہ سے پیدا ہوسکتی ہے
او رنہ ہی شعور اس طرح وجود میں آسکتا ہے۔(J.S.Haldance) ہمارے دور کا بہت بڑا(Biologist) ہے۔ وہ اپنی تصنیف
(The Philosophical Basis Of Biology) میں رقمطراز ہے:۔
اب اس حقیقت کے تسلیم کرلینے
میں کوئی دِقّت نہیں کہ(جیسا کہ نیوٹن کے اصولوں کے ماتحت سمجھا جاتا تھا) زندگی محض
طبیعاتی او رکیمیاوی کیفیات کی پیداکردہ نہیں بلکہ ان مادی کیفیات سے پہلے موجود تھی،
او ر ہمیشہ سے موجود تھی۔ اور اس امرکے باور کرنے میں بھی کوئی دشواری نہیں کہ اس مادی
کائنات کے پیچھے ایک اوردنیا ہے جس کی تعبیرات کی روشنی میں ہمارے حیاتیاتی اصولوں
کو عملاً منطبق کرناچاہئے۔(30) ۔لہٰذا زندگی کے مسئلہ کوطبیعیاتی او رکیمیاوی مسئلہ
سمجھناہی نہیں چاہئے (11)۔زندگی اورانسانی ذات (Personality)کاوجوداس حقیقت کی دلیل
ہیں کہ ہماری کائنات کی محض مادی تعبیر ناممکن ہے اور یہ تعبیر ناممکن ہی رہتی ہے۔خواہ
ہم زمانہ (Time) کے اعتبار سے کتنے ہی پیچھے او رمکان (Space) کے اعتبار سے کتنے ہی
اونچے کیوں نہ چلے جائیں ۔زندگی کو پیچھے لے جانے سے اس کی مادی تعبیر کبھی نہ مل سکے
گی۔ نہ ہی انسانی ذات کو پیچھے لے جانے سے ہم کسی ایسے مقام تک پہنچ سکیں گے جہاں ہم
کہہ سکیں کہ انسانی ذات اس طرح مادہ سے پیداہوگئی:۔ (122)
پروفیسر ہالڈین اپنی ایک دوسری
تصنیف (The Science And Philosophy) میں لکھتاہے کہ یہ ممکن
ہے کہ ہم انسان تجزیہ کریں تو اس سے یہی نظر آئے گا کہ یہ ‘‘طبیعیاتی کیمیاوی مشین’’
(Phusico-Chemical Machine) ہے جو مختلف اجزا (Parts) کامجموعہ ہے لیکن اس‘‘مشین’’
کے انہی اجزا کوجب ہم دوبارہ جمع کرتے ہیں تو یہ کبھی زندہ نہیں ہوسکتی۔ زندہ جسم انسانی
کسی ایسی شے سے زندہ ہے جو اس کے کسی حصہ (Part) میں موجود نہیں۔ اس
کے اپنے الفاظ ہیں:۔
ہم زندہ جسم انسانی کو ایک
مشین کی طرح پاتے ہیں جسے اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ وہ اپنی ان قوتوں کو بحال رکھتاہے
جن سے وہ زندہ ہے یا وہ قوتیں اس نظم و ترتیب کو علیٰ حالہ قائم رکھتی ہیں لیکن جب
ہم ان قوتوں کابغائر مطالعہ کرتے ہیں تویہ نظر آتا ہے کہ یہ سب خود زندہ ہیں (جزواًیا
تماماً) یعنی ان میں قوت اورحرکت کسی اور مربوط قوت کی پیدا کردہ ہے جوانہیں سرگرم
عمل رکھتی ہے۔اورنہ صرف یہ کہ مربوط انہیں سرگرم عمل رکھتی ہے ۔ او رنہ صرف یہ کہ یہ
مربوط قوت انہیں سرگرم عمل رکھتی ہے بلکہ ایک فرد میں یہ سب قوتیں اسی مربوط کی پیدا
کردہ ہیں۔یہ مربوط قوت کیاہے اورکہاں سے آئی؟اس کاجواب میکانکی تصور حیات کے ہاں کچھ
نہیں۔(29)
یہی پروفیسر ایک او رجگہ لکھتاہے:
یہ ضروری ہے کہ زندگی کو ایسی
شے سمجھا جائے جو علم الحیات (Biology) کے نقطہ نگاہ سے خارجی
حقیقت رکھتی ہے۔(Is Objectively real) ہم اس حقیقت کو عام طبیعیاتی او رکیمیائی تصورات کی رو سے بیان ہی
نہیں کرسکتے۔ اسلئے کہ یہ تصورات صرف انہی مظاہر پر منطق(Apply) ہوسکتے ہیں جوزمان اورمکان
میں الگ الگ ہوتے ہیں۔ لیکن جن مظاہرکانام زندگی ہے وہ الگ الگ نہیں کئے جاسکتے ۔ بلکہ
وہ تو اس وحدیت کے مظاہر ہیں جسے ہم زندگی کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ بہ حیثیت ایک
سائنس کے ، علم الحیات کامدار تصورحیات پر ہے۔اس تصور کو چھوڑدیا جائے تو علم الحیات
محض منتشربے ربطہ طبیعیاتی اورکیمیاوی مشاہدات کامجموعہ بن کر رہ جائے گی۔ جنہیں ہم
نہایت مبہم طورپر پیش کرسکیں گے ۔مبہم طور پر اس لئے کہ یہ مشاہدات اس رابطہ کے متعلق
کچھ نہیں کہہ سکیں گے جس سے زندگی قائم ہے۔
(ThePhilosophy Of A Bilologist P.49)
پروفیسر ہالڈین کا ایک اقتباس
علاّمہ اقبال نے اپنے خطبات میں درج کیا ہے جو اس موضوع پر مزید روشنی ڈالنا ہے ۔وَھُوَھٰذا۔
ان تصریحات یہ واضح ہے کہ
اگر چہ ہم ایک زندہ جسم میں ایسی باتیں دیکھتے ہیں جنہیں اگر بنگاہ تعمق نہ دیکھا جائے
تو سطحی طور پر انسان اس نتیجہ پر پہنچ جاتاہے کہ انسانی طبیعیاتی او رکیمیاوی میکانکیت(Mechanism) ہے لیکن ان کے ساتھ
ہی اس میں ایسی باتیں بھی ہیں(مثلاًیہ کہ ایک زندہ جسم خود کفیل ہوتاہے اور یہ اپنے
جیسا اور پیدا کرسکتاہے) جن کے پیش نظر زندگی کی میکانکی تعبیر ناممکن ہوجاتی ہے ۔
میکانکی تصور حیات رکھنے یہ کہتے ہیں کہ زندہ جسم کی مشینری اس انداز کی ہوتی ہے کہ
یہ اپنے آپ کو خود (Maintain) کرسکتی ہے اپنی کمی کو خود پورا کرسکتی ہے او راپنے جیسی مشینری بھی
بناسکتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انتخاب طبیعی کے طول طویل طریق سے زندہ جسم کی
یہ میکانیت ارتقائی طور پر ظہور میں آگئی ہے۔آئیے ہم انکے اس نظریہ کوپرکھ کردیکھیں
۔جب ہم کسی حادثہ (Event)کو میکانکی انداز میں بیان کریں گے تو اس سے معلوم یہ ہوگا کہ ہم اس
مشین کے کچھ پرُزے (Part) ہیں جو اپنے اندر سیدھے سادے سے خصائص رکھتے ہیں اوران خصائص کے ربط
ونظم سے یہ حادثہ ظہور میں آجاتاہے۔ اس کاخلاصہ یہ ہے کہ ہم نے یہ فرض کرلیا ہے کہ
اس مشین کے پرُزوں کی چند خصوصیات ہیں اور یہ پرُزے جب بھی ایک خاص انداز سے باہم دِگر
مربوط ہوتے ہیں یا ایک دوسرے پر رد ّعمل کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ ہمیشہ ایک جیسا نکلتا
ہے۔لہٰذا میکانکی تعبیر کے لئے ضروری ہے کہ اس مشین کے پرُزے موجودد ہوں او ران خصائص
کابھی علم ہو ۔جب تک ان پرُزوں کی تصریحات اوران کے باہمی ربط کا علم نہ ہو میکانکی
توضیع بے معنی ہوجاتی ہے۔ لہٰذایہ مفروضہ کہ کوئی ایسی مشین بھی ہوسکتی ہے جو اپنے
آپ کوآ پ ہی(Mainatain) کرے اور اپنے جیسی مشینری اور پیدا کردے ایک ایسی شے کو فرض کرلینا
ہے جس کامفہوم ہی کچھ نہیں، ماہرین علم الاعضاء بعض اوقات بڑی بے معنی اصطلاحات استعمال
کرتے ہیں۔ لیکن ان میں سب سے زیادہ بے معنی اصطلاح ہے۔۔۔
ایک ایسی مشین کا تصور اپنے
آپ کوبرابر خود ہی (Maintain) کررہی ہے اورپھر اپنے اندر سے اپنے جیسی مشین بھی پیدا کئے جارہی
ہے ایک ایسا تصور ہے جو اپنی تردید آپ کرتا ہے ۔جو مشین اپنے آپ کو (Reproduce) کرسکتی ہے ایسی مشین
ہوگی جس کے کوئی (Parts) نہ ہوں۔ لہٰذا اس پر مشین کے لفظ کااطلاق ہی نہیں ہوسکے گا۔
پروفیسر ہالڈن کی ہم نوائی
میں پروفیسر ہل (A.V.Hill) اپنے ایک لیکچر میں حیاتیات کے متعلق بیان کرتا ہے:۔
میں آج آپ کے سامنے یہ نہیں
کہناچاہتا (اس لئے کہ آپ اس سے پہلے متعددبار اس غلط نظریہ کو سن چکے ہیں) کہ مسئلہ
حیات موجودہ زمانہ کی طبیعیات او رکیمیا سے سمجھا جاسکتا ہے خواہ سمجھانا والاکیسا
ہی ذی فہم کیوں نہ ہو،ایساممکن ہی نہیں ۔ آیا مستقبل کے علم طبیعیات اورکیمیا کے ذریعے
ایسا ممکن ہوگا، اس کے متعلق میں قیاس آرائی نہیں کرناچاہتا جب علم طبیعیات کے حوادث
غیر متعین ہوجائیں۔۔جب کیمیا ، خود طبیعیات بن جائے ،اس وقت صورت حالات اور ہوجائے
گی۔ لیکن اس وقت تک میں (Haldane) کی ہمنوائی میں یہی
کہتارہوں گا کہ جب ہم علم حیات( یا اشیا ء کی قوت نمو) کوتماماً دیکھتے ہیں تو ہمارے
سامنے بالکل ایک نئی صورت آجاتی ہے ایسی صورت جس کی وحدت اوربنیادی فطرت ایسی ہی اہم
ہے جیسی طبیعیات کے کسی اورتصورکی:
اوسپنسکی لکھتا ہے : ۔(The
Physical Reasonableness Of Life)
زندگی معمّہ ہے:۔۔ ہماری سائنس
،زندگی اوراس کی ابتدا کے متعلق کچھ نہیں بتلا سکتی۔ یہ معمّہ، معمّہ ہی رہ جاتا ہے
۔ایک زندہ جسم زندہ خلیہ (CELL) زندہ مادہ حیات (Protoplasm) میں کچھ ایسی چیز ہے
جسے سمجھا نہیں جاسکتا ۔یہی وہ ناقابل فہم شے ہے جو ذی حیات مادہ کو غیر ذی حیات مادہ
سے متمیز کرتی ہے۔ ہمیں اس شے کاتعارف صرف اس عمل (Function) سے ہوتاہے۔ اس کے اعمال
میں سب سے اہم عمل ‘ تولید ذات(Self Reproduction)ہے۔ یہ چیز غیر ذی حیات
جسم مردہ خلیہ اور مُردہ مادہ میں نہیں پائی جاتی ۔ایک ذی حیات جسم اپنے آپ کو لامحدود
طور پر (Multiply) کرتا چلا جاتا ہے او راس کے لئے غیر ذی حیات مادہ کو اپنے اندر جذب
کرتارہتاہے ۔یہی زندگی کاعمل ہے جس کی ماہیت سمجھا ئی نہیں جاسکتی ۔ لیکن اتناتویقینی
ہے کہ مادیئین کایہ تصور غلط ہے کہ زندگی میکانکی قوتوں کے نتیجہ کا نام ہے (Tertium
Organum:p.103)
اسی بنا پر یہ مفکر آگے چل
کر لکھتا ہے:
بے شمارمسائل ایسے ہیں کہ
سائنس جنہیں حل کرنے کی کوشش تک بھی نہیں کرسکی۔ وہ مسائل جن کے سامنے عصر حاضر کاسائنسدان
اپنے تمام علوم وفنون کے آلات وادویات کے باوجودایسا ہی بے بس دکھائی دیتاہے جیسا زمانہ
قدیم کاکوئی وحشی یا چار برس کابچہ۔
زندگی او رموت ‘زماں ومکاں
’ شعور وغیرہ کے مسائل اسی قسم کے مسائل ہیں ۔( ایضاً 212)
اس حقیقت کو (Viscount
Samuel) نے
ان الفاظ میں دہرایا ہے کہ ‘‘زندگی اور نفس انسانی’’ کے متعلق آج ہمارا علم قریب قریب
اسی مقام پر ہے جہاں مادّہ کے متعلق ہماراعلم تین چار صدیاں پیشتر تھا۔ (Belief
And Action) لائپنرگ
یونیورسٹی کے فلسفہ کا پروفیسر ہینس ڈریش (Hans Driesch) مدّت العمر کے غور وفکر
کے بعد اس نتیجہ پرپہنچا ہے کہ زندہ جسم اپنی توانائی (Vital
Power) کے
زور پر زندہ ہے اورمتحرک رہتاہے یہ تو انائی از خود کچھ نہیں کرسکتی ۔ اس کے لئے ایک
ایسے واسطہ (Agent) کی ضرورت ہے جو اس پر تسلط (Control) رکھ سکے۔(Controlling
Authopity) کوڈریس
(Entelechy) قرار دیتا ہے۱
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
دیگر مفکّرین او رماہرین سائنس اس کاکیانام رکھتے ہیں ، اس کی تفصیل سابقہ باب میں
نظر سے گزرچکی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ـڈریش
کانظریہ:۔۔(مزید توضیع ذراآگے چل کر آئے گی) اس (Entelechy) میں یہ قوت تصرف (Control) کہاں سے آجاتی ہے؟ اس
کے متعلق ڈریش لکھتا ہیکہ‘‘ہم اتناہی جانتے ہیں کہ زندگی ہمارے سامنے موجود ہے اور
یہ مادی اجسام میں نسلاً بعدنسل منتقل ہوتی چلی آرہی ہے اوریہ مادّی تسلسل بہر حال
کسی ضابطہ(Control) کے تابع ہی جاری رہ سکتا ہے (اس کانام ہم نے (Entelechy) رکھ لیا ہے)’’۔
(The Problem of Individaulity:p.38)
زندہ جسم کا تجزیہ کرنے کے
بعد سانئس اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ جسم چھوٹے چھوٹے خلیات (Life
Cell) کا
مجموعہ ہوتاہے ۔سائنس کے انکشافات یہاں تک توپہنچ چکے ہیں لیکن یہ خلیات زندہ کس طرح
ہوگئے؟ اس سوال کاجواب نہیں مل سکا۔ خلیات (Cell) کے مطالعہ پر (E.B.
Wilson)کی
کتاب (The Cell In Development And Inheritance) بڑی مستند تصنیف سمجھی
جاتی ہے۱
۔ اس باب میں ولسن لکھتا ہے کہ:۔
ولسن کا خیال:۔۔زندہ اجسام
او رغیر ذی حیات مادہ میں ایک خلا(Gap)ہے۔ سوال یہ تھا کہ اس خلا کو کس طرح پرُ کیا جائے۔ ایسا دکھائی دیتاتھا
کہ خلیات کا مطالعہ اس خلا کو پرُ کردے گا۔ لیکن ہوا یہ کہ اس سے اس خلا کی وسعت او
ربڑھ گئی اور زندگی کی بلند سطح تو ایک طرف اس کی پست ترین شکل اورغیر ذی حیات میں
جو بعد تھا وہ اور کشادہ ہوگیا۔
‘‘زندگی’’ کے متعلق گذشتہ ایک سو سال میں سائنس کے محققین نے کیا کچھ
کہا ہے، یہ ایک مستقل تصنیف میں بتایا جاسکتا ہے ۔مقصد پیش نظر کے لئے صرف اسی قدر
بیان کردینا کافی ہوگا کہ انیسویں کے وسط میں ہکسلے (Huxley) نے اپنی کتاب (Elementary
Physiology) میں
خالص میکانکی نظریہ پیش کیا تھا۔ جس طرح نیوٹن نے غیر ِذی حیات اشیاء کے متعلق اپنا
نظریہ نقل پیش کیا تھا اس کے بعد (Clud Bernard) نے اپنے تجارت کی روشنی
میں ہکسلے کے میکانکی تصور کی تردید کی۔ اس کے بعد ڈریش کی (Vitalistic
Theory)سامنے
آئی جس کا ذکر اوپر آچکا ہے ۔ڈریش نے جس واسطہ کا نام (Entelechy) رکھا تھا۔(C.M.
William) نے
اسے (Genetic Energy) سے تعبیر کیا۔(Henslow) نے اس کا نام (The
Property Of Self Adaptation) رکھا۔ (Edward Cope) سے تعبیر کیا اور (William
McDougal) نے
اسے (Soul) کہہ کر پکارا ۔ ان سب کا ماحصل یہ ہے کہ زندگی کے متعلق نیوٹن او
رہکسلے کا میکانکی نظریہ غلط ہے۔ چنانچہ پروفیسر ہالڈین اس باب میں کہتا ہے:۔
علم الاعضا ء کے متعلق تحقیقات
اس نقطہ تک لے گئی ہیں جہاں گذشتہ صدی کا میکانکی تصور زندگی کے متعلق صحیح علم دینے
سے قاصر ہے۔۔۔۔ چنانچہ ہمیں اب صاف صاف اعلان کردینا چاہئے کہ نیوٹن کا میکانکی نظریہ
زندگی کے علم کے لئے کسی صورت میں بھی بنیاد نہیں بن سکتا ۔ (Gifford
Lectures)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
اگرچہ یہ کتاب 1897ء میں شائع ہوئی تھی لیکن علمی حلقہ میں اس کی عظمت کا آج تک اعتراف
کیا جاتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برگسان :۔۔ہمارے دور میں جن
فلسفہ دانوں نے اپنے نقطہ نگاہ سے زندگی کے مسائل پر غور کیا ہے ان میں برگسان کا ایک
خاص مقام ہے ۔ برگسان کے خیال کے مطابق ،مادہ ، زندگی اور شعور میں کیا تعلق ہے۔ اس
کے متعلق ذرا آگے چل کر بیان کیا جائے گا۔ اس مقام پر ہم صرف وہ مثال بیان کرنا کافی
سمجھتے ہیں جس سے برگسان نے مادہ او رزندگی کے باہمی تعلق کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
وہ کہتا ہے کہ ایک خطِ مستقیم (Straight Line) او رمنحنی خط (Curve) میں کوئی تعلق نہیں
ہوتا لیکن جب ہم کسی منحنی خط کا بہت چھوٹا سا حصہ لیں تو وہ خطِ مستقیم ہوگا۔ اس مشارکت
کی بنا پر اگر کوئی یہ کہے کہ منحنی خط (Curve) خطِ مستقیم (Straight
Line) ہی
سے مرکب ہوتا ہے تو ایک اعتبار سے اس کا یہ کہنا درست ہوگا۔ لیکن صرف اسی وقت تک جب
اس کی نگاہ منحنی خط کے ایک ایک نقطہ (Point) کو الگ الگ کر دیکھے
۔ اس اعتبار سے تو منحنی خط او رمستقیم خط دونوں نقاط ہی کا مجموعہ کہلائیں گے ۔ لیکن
اگر منحنی خط کو پورے کاپورا سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ منحنی خط
مستقیم خطوط ہی سے مرتّب ہے۔بناء بریں:۔
یہ کہنا کہ زندگی طبیعیاتی
او رکیمیاوی اجزاء سے مرکب ہے ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہہ دے کہ منحنی خط مستقیم خطوط
سے مرکّب ہوتاہے۔( Creative Evolution:p.53)گلاسکو یونیورسٹی کا
پرنسپل او روائس چانسلر جون کیئرڈ (JOHN CAIRD) اپنے لیکچرر میں لکھا
ہے :۔ آج تک اس امر کی کوئی ایک مثال بھی نہیں پیش کی جاسکی کہ زندگی محض کیمیاوی عناصر
(Chemical Constituents) سے پیدا ہوگئی ہو۔ لہٰذا یہ قیاست کہ زندگی کا ارتقاء کسی او رزندگی
کے اثرکے بغیر بھی ممکن ہے،بلا دلیل ہے (Protoplasm) کو جسے مادہ حیات قرار
دیا جاتاہے ۔محض کیمیائی مرکّبات کی سطح پر نہیں رکھا جاتا ۔ وہ مادہ حیات جس کا تجزیہ
کیا جاسکتا ہے او رجس کے کیمیائی اجزاء معلوم ہوسکتے ہیں ‘ زندہ نہیں ’ بلکہ مردہ ہوتاہے
۔ اس کے برعکس وہ مادہ حیات جسے زندگی کہا جاسکتاہے ،اگر چہ انہی اجزا کا مجموعہ ہوتاہے
جو مرُدہ مادہ حیات میں پائے جاتے ہیں لیکن اس سے ایسے خواص و اعمال کا مظاہرہ ہوتا
ہے جو بالکل جدید ہوتے ہیں اور جنہیں اس کے کیمیائی اور طبیعاتی اجزاء کی طرف کبھی
منسوب نہیں کیا جاسکتا ۔اگر کوئی شے کسی ایک وقت میں ایسے خواص کا مظاہرہ کرتی ہے جو
یکسر کیمیائی او رمیکانکی ہوں۔ اور دوسرے وقت میں ایسے خواص کا جن سے وہ اپنے آپ کو
جیتے جاگتے بڑھنے پھولنے والے جسم میں تبدیل کرلے یا ایسے افعال کا جن سے دوہ دوسری
چیزوں کو اپنا جزربدن بنا سکے او رپھر اپنے جسم سے کچھ او رپیدا کرسکے تو اس کا منطقی
نتیجہ یہ ہے کہ دوسری صورت میں جو نئی چیزیں اس میں پیدا ہوتی ہیں ان کا سبب کوئی ایسا
جدید عنصر ہے جو پہلی صورت میں اس میں موجود نہ تھا جب کہ اس سے محض کیمیائی یا میکانکی
عمل ظہور میں آتاتھا۔
(Introduction to The Philosophy of
Religion:p.96)
دور حاضر کے ان طبیعی انکشافات
کی روشنی میں علاّمہ اقبالؒ زندگی کے متعلق لکھتے ہیں کہ:۔
زندگی کا مسئلہ ایک منفرد
(Unique) مسئلہ ہے او راس کے تجزیے کے لئے میکانکی تصور بالکل ناکافی ہے۔ڈریش
کی اصطلاح میں اس کی (Factual Wholeness)ایک ایسی وحدت ہے جو
کہ ایک او رنقطہ نگاہ کے مطابق کثرت بھی ہے۔ زندگی ایک مقصد کو لئے ہوئے نشو ونما پاتی
ہے اور اس مقصد کے لئے اپنے ماحول سے تطابق اختیار کئے جاتی ہے( خواہ یہ تطابق نئے
عادات و اطوار اختیار کرنے سے حاصل ہو یا قدیم عادات میں ردّ وبدل کرلینے سے ) ۔ اس
طرح زندگی ایک ( ـCareer) کی حامل بن جاتی ہے
او ر مشین کے لئے (Career)کا تصور ہی نا ممکن ہے۔(Career) کے حامل ہونے کا مطلب
یہ ہوا کہ اس کی عملی قوتوں کا سرچشمہ بہت دور زمانہ ماضی میں واقع ہے جس کی ابتداء
ایک روحانی حقیقت (Spirtual Reality) سے ہوئی ہے جسے کوئی
مکانی تجربہ( Special Experience) دریافت نہیں کرسکتا ۔البتہ وہ حقیقت اپنے آپ کو مکانی تجربہ پر واشگاف
کرسکتی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ زندگی ایک بنیادی حقیقت ہے او رطبیعیاتی اور کیمیاوی طریق
عمل کی ابتداء سے پہلے سے موجود ہے۔ اس طریق عمل کے متعلق اتنا سمجھ چھوڑناچاہئے کہ
یہ زندگی کا ایک متعین عمل ہے جو اس نے ارتقا کے طولانی دور میں اختیار کرلیا ہے۔
( Reconstruction Of Religious Thougts In
Islam: p.42)آگے
چل کر لکھتے ہیں کہ میکانکی تصور حیات کے ماتحت یہ ماننا پڑتا ہے کہ زندگی بے اختیار
و ارادہ ہے اور ایک مشین کی طرح خارجی قواعد و ضوابط کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی لیکن
ہم دیکھتے ہیں کہ زندگی میں خود آمادگی (Spontaniety) ہے او ریہی خود آزمادگی
کا شدّت احساس ہے جس سے یہ دنیا ئے اختیار و ارادہ کا مرکزی نقطہ بن گئی ہے۔لہٰذا یہ
مشینی عمل کی زنجیروں کے دائرہ سے باہر ہے۔
اس لئے سانئس زندگی کا احاطہ
کرہی نہیں سکتی (سائنس صرف مشینوں کا احاطہ کرسکتی ہے جو بندھے ہوئے قواعد کے ماتحت
نقل و حرکت کرتی ہیں)علم الحیات کا وہ ماہر جو چاہتا ہے کہ زندگی کی میکانکی تعبیر
مل جائے وہ اس لئے ایسا کرتاہے کہ وہ اپنے مطالعہ کوزندگی کی ابتدائی او رپست سطح تک
محدود رکھتا ہے جہاں وہ دیکھتا ہے کہ زندہ اشیاء کا طور طریق مشین سے ملتا جلتا ہے
۔اگر وہ اس زندگی کا مطالعہ کرے جس کا مظہر خود اس کی ذات ہے یعنی وہ اپنے اس دل کامطالعہ
کرے جو اپنے لئے آپ فیصلے کرتاہے۔ کسی چیز کو اختیار کرتا ہے کسی کو مسترد کردیتا ہے۔سوچتا
ہے ،ماضی او رحال کاجائزہ لیتا ہے او رابھر نے والی قوتوں کے ساتھ مستقبل کا تصور کرتاہے
تو وہ یقیناً اس کا مر کااعتراف کرلے گا کہ زندگی کے متعلق اس کا میکانکی تصور بالکل
ناکافی ہے۔ (ایضاً 48)
زندگی کے متعلق او رتو اور
خود ڈارون (جس نے ارتقاء کا میکانکی تصور پیش کیا تھا ) اپنی کتاب (Origin
Of Species) میں
لکھتا ہے کہ:۔
میں نے ارتقا ئی تبدیلیوں
کے متعلق لکھا ہے کہ وہ یوں ہی اتفاقیہ (By Chance) وجود میں آگئیں ۔یہ
الفاظ مغالطہ پیدا کرنے والے ہیں۔ ان سے مفہوم صرف اس قدر ہے کہ ہم ان تبدیلیوں کے
اسباب و مکمل معلوم کرنے سے قاصر ہیں۔
اس کے بعد وہ اس کتاب کے آخری
باب میں لکھتا ہے:۔
اس تصور میں کتنی بڑی عظمت
پوشیدہ ہے کہ خالق کائنات نے زندگی کے اندر اس قدر گوناگوں توانائیاں مضمر رکھ دیں۔خواہ
یہ زندگی ابتداء کسی ایک پیکر میں پھونکی گئی تھی یا زیادہ پیکروں میں او راس کے بعد
اس طویل المیعاد عرصہ میں جب کہ یہ کرہ قوانین ثقل وکشش کے مطابق مصروف گردش کررہا
ہے‘ زندگی اس قدر متنوع پیکروں میں بایں حسن ورعنائی جلوہ بار ہوتی رہی ہے او رہوتی
جارہی ہے۔
یہ توڈارون نے کہا تھا لیکن
خود ہمارے زمانہ کا ماہر ارتقاء (Simpson) زندگی کی ابتداء او
رسلسلہ علّت ومعلول کی اوّلین کڑی کے متعلق لکھتا ہے ۔
زندگی کی ابتداء کیسے ہوگئی
؟ نہایت دیانتداری سے اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں اس کا کچھ علم نہیں۔۔ اس معمہ کو حل
کرنے کی کوشش کی جارہی ہے او ررفتہ رفتہ اس کے قریب پہنچا جارہاہے۔۔۔۔ لیکن اس معمہ
کا آخری نقطہ (یعنی زندگی کانقطہ آغاز) وہ مقام ہے جو سائنس کی دسترس سے باہر ہے۔ او
رشاید انسان کے حیطہ ادراک ہی سے باہر ۔۔۔ کائنات کے آغاز او رسلسلہ علّت ومعلول کی
اوّلین کڑی کا مسئلہ لاینحل ہے اور سائنس اس تک نہیں پہنچ سکتی۔۔ یہ اوّلین کڑی راز
ہے او رمیرا خیال ہے کہ ذہن انسانی اس راز کو کبھی نہیں پاسکے گا ۔ہم اگر چاہیں تو
اپنے اپنے طریق پر اس علّت اولیٰ کے حضور اپنا سر جھکا سکتے ہیں ۔لیکن اسے اپنے ادراک
کے دائرے میں کبھی نہیں لا سکتے۔
(The Mening Of Evolution:pp.134,135)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Part: 1 – 'What did the man think?' By Ghulam Ahmad Parwez:
Preface—Part 1 انسان
نے کیا سوچا
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism