غلام احمد پرویز
دانش بُرہانی
داخلی وجدانیت کی رو سے
خیر وشر کا دوسرامعیار عقل استدلال (Reason) ہے۔اب یہ دیکھنا ہے
کہ کیا عقل خیر وشر کا معیار بن سکتی ہے ؟ ہم دیکھ چکے ہیں کہ میکانکی تصور حیات
کے مطابق عقل ہی کو انسان کا راہ نما سمجھا جاتا ہے ۔ پھر اخلاقی دنیا میں افادی
نظریہ بھی عقل ہی کو امام مانتا ہے ۔کیونکہ جب وہ کہتا ہے کہ اعمال کے اچھے یابُرے
ہونے کا معیار ان کے نتائج ہیں تو نتائج عقل ہی کو رو سے پرکھے جائیں گے ۔داخلی
وجدانیت اخلاق کے متعلق ان دونوں نظریوں سے الگ تصور رکھتی ہے لیکن حیرت ہے کہ خیر
وشر کے لئے یہ نظریہ بھی عقل ہی کو معیار تصور کرتاہے۔ عقل کے متعلق بھی ہم گذشتہ
صفحات میں ضمنی طور پر بحث کرچکے ہیں لیکن اب اس ضمن میں ذرا تفصیلی گفتگو کی
ضرورت ہے۔
پہلاسوال یہ ہے کہ انسان
کے پاس عقل ہی ہے یا اس کے علاوہ کچھ اور بھی؟
آپ ایک شخص سے گفتگو
کررہے ہیں ۔کوئی معاملہ متنازعہ فیہ ہے۔اچھی بھلی معقول باتیں ہورہی ہیں کہ آپ کو
فریق ثانی کی کسی حرکت پر تاؤآجاتا ہے او رآپ نہ آگاہ دیکھتے ہیں نہ پیچھا تڑاق سے
ایک چیت رسید کردیتے ہیں وہ آگ بگولہ ہوجاتا ہے ۔دونوں گتھم گتھا ہوجاتے ہیں ،کپڑے
پھٹ جاتے ہیں زخم آجاتے ہیں۔ بمشکل بیچ بچاو کرادیا جاتاہے ۔ کچھ عرصہ کے بعد جب
آپ کاغصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے تو آپ سوچتے ہیں کہ میں نے یہ کیا حرکت کی تھی او راپنی
اس حرکت پر بڑے نادم ہوتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ اس واقعہ میں
آپ پر دوحالتیں گذری ہیں ایک وہ جب آپ غصہ سے پاگل ہوکر فریق مقابل سے لپٹ گئے تھے
۔اس وقت آپ کے ہوش وحواس ٹھکانے نہ تھے او ردوسری حالت وہ جب آپ نے ٹھنڈے دل سے
سوچنا شروع کیا۔
جذبات:۔۔۔۔۔غصہ کی کیفیت
کیا تھی؟ فریق ثانی کی کسی حرکت یا بات سے آپ کے جذبات بھڑک اٹھے ۔اسی کا نام غصہ
تھا اور جب جذبات ٹھنڈے ہوگئے تو آپ نے پھر عقل وخرد کی رو سے سوچنا شروع کردیا۔
لہـٰذا
ظاہر ہے کہ انسان میں ایک چیز ہے جسے جذبات کہا جاتاہے اور دوسری چیز ہے جسے عقل
کہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ عقل کا کام
کیا ہے او راس کادائرہ عمل کیا ؟
عقل کا دائرہ عمل:۔۔۔۔۔۔۔
آپ کے ہاں جاتے ہیں او راس کے کمرے میں ایک نادر تصویر دیکھتے ہیں جو آپ کی نگاہوں
کی جذب کرلیتی ہے ۔آپ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح آپ اس تصویر کو حاصل کرلیں۔ آپ
کا تصویر کو دیکھ کر ٹھٹک کر رہ جانا ،تصویر کاآپ کے دل میں اتر جانا آپ کے دل میں
یہ آرزو پیدا ہوجاتاکہ یہ تصویر آپ کو مل جائے ، تمام باتیں جذبات سے متعلق میں آپ
اس کے لئے کوئی دلیل دے سکتے کہ وہ تصویر آپ کو کیوں پسندآئی ہے۔ اس پسندیدگی نے
ایسی شدّت کیوں اختیار کرلی ہے کہ آپ کا دل اس کے لئے بیتاب ہورہاہے ۔وہ آپ کے
تصورات پر ہر وقت کیوں چھارہی ہے یہ باتیں ‘‘دل کی دنیا’’ سے متعلق ہیں اور دل کی
دنیا ‘‘ دماغ کی دنیا’’ سے الگ ہوتی ہے۔
اس کے بعد آپ سوچتے ہیں
کہ اس تصویر کو حاصل کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے اب یہاں سے آپ کے ‘‘ذہن کی دنیا’’
کی ابتدا ہوتی ہے ۔ اب عقل سامنے آتی ہے وہ مختلف تراکیب پیش کرتی ہے۔تصویر کے
مالک سے درخواست کرنی چاہئے کہ وہ آپ کی تصویر ہدیتہ دے دے ۔اسے آمادہ کرناچاہئے
کہ وہ اسے آپ کے ہاتھوں فروخت کردے۔ تصویر کو چُرا لیناچاہئے چُرایا کس طرح جائے ؟
اس کا انجام کیا ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ تدابیر آپ کے سامنے آتی ہے آپ ان میں ایک ایک
کاجائزہ لیتے ہیں ۔اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتے ہیں اس کے نتائج دعواقب کو
سوچتے ہیں ۔ یہ سب کچھ عقل کے کرشمے ہیں۔
لہٰذا عقل کا کام یہ ہے
کہ آپ کے جذبات کی تسکین کے لئے سامان وذرائع فراہم کرے ۔ یہ جذبہ کس قسم کا ہے اس
سے عقل کو کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ وہ آپ کے اس جذبہ کے جواز
کے لئے دلائل بھی بہم پہنچائے جس شخص کے پاس وہ تصویر ہے اسے اس کی قدر معلوم نہیں
۔ اس کے نزدیک سب تصویر کرسکتی ہے میری نگاہیں جانتی ہیں کہ مصور نے اس تصویر میں
کس طرح اپنے خون جگر کی آمیزش کی ہے۔ اس قسم کی تصویر قدرشناس نگاہوں کے سامنے
ہونی چاہئے اس سے نہ صرف میرے ذوق جمالیات تسکین ہوئی بلکہ خود تصور کی بھی عزّت
افزائی ہوگی۔ وہاں کسی دن کوئی بچہ یونہی اس تصویر کو پھاڑ دے گا اور دنیا ایک
نادر شے سے محروم ہوجائے گی میں اسے جان سے بھی زیادہ عزیز رکھوں گا‘‘ دقس علیٰ
ہٰذا۔
یہ سب دلائل عقل کے فراہم
کردہ ہیں لیکن کس لئے؟ محض اس لئے کہ آپ کا دل چاہتا ہے کہ اس تصویر کو حاصل کرلیا
جائے یہ ہے عقل کا کام !چنانچہ (H.C. Warren) کی (Dictionary
Of Psychology)
میں عقل (Rationalisation) کی تعریف ہی یہ لکھی ہے۔
عقل اس ذہنی عمل کانام ہے
جو اس کام یا رائے کے جواز کے لئے خوش آئند دلائل تراشے جودرحقیقت کسی اور ہی جذبہ
کے ماتحت پیدا ہوا ہو خواہ اس شخص کو جس کی عقل یہ کچھ کررہی ہے اس کا احسا تک بھی
نہ ہو کہ اس کا م کا جذبہ محر کہ کچھ او رہے او ریہ دلائل عقل کی فسوں سازی ہے۔
جذبات کی لونڈی:۔۔۔۔یعنی
بعض اوقات عقل، جذبات کی تسکین کے سلسلہ میں خود اس شخص کو بھی دھوکا دیتی ہے جس
کے لئے یہ سب کچھ کررہی ہوتی ہے وہ اسے دکھادیتی ہے کہ تمہارافیصلہ یکسر صحیح اور
حق بجانب ہے اس کی عقل اس طرح جذبات کے تابع رہتی ہے کہ خود صاحب جذبات کو بھی
محسوس نہیں ہونے دیتی کہ اس کے جذبات غلط ہیں جس کی وہ تسکین چاہتا ہے ۔جوڈ کے
الفاظ میں ‘‘عقل اس قوت کا نام ہے جس سے ہم اپنے آپ کو یہ دھوکا دے سکتے ہیں کہ جس
بات کو ہم صحیح ماننا چاہتے ہیں وہ درحقیقت صحیح ’’۔اسی بنا پر جوڈ عقل کو ‘‘جذبات
کی لونڈی’’ قرار دیتا ہے: (Guide To The Philosophy
Of Morals And Politics: p. 40)
علم تجزیہ نفس کے امام
فرائڈ نے مختلف مجرموں کی نفسیاتی تحلیل کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ انہو ں نے
اپنے لئے ایسے عقائد وضع کررکھے ہوتے ہیں جو ان کے جرائم کے لئے وجوہِ جواز مہیا
کرتے رہتے ہیں اور اس طرح یہ لوگ اپنے جرم کو قابل سرزنش عمل خیال نہیں کرتے ۔اس
لئے فرائڈ،جو عقل کو انسانی معاملات کا حاکم اعلیٰ قرار دیتا تھا عقل دلائل کے
متعلق اس نتیجہ پر پہنچاتھا کہ عقل ان عقائد کے لئے جو ہم رکھنا چاہیں دلائل فراہم
کردیتی ہے۔(The Future Of Anillusion) عقل او رجذبات کی
کشمکش کے سلسلہ میں اوسپنسکی لکھتا ہے کہ ‘‘عقل کبھی جذبات پر غالب نہیں آسکتی ایک
جذبہ کو دوسراجذبہ ہی مغلوب کرسکتا ہے’’۔ ( Tertium
Organum: p. 196)
راشڈل اس باب میں لکھتا
ہے کہ:۔
نہ اخلاقیات کے متعلق او
رنہ ہی علم انسانی کے کسی دوسرے شعبہ میں یہ کہا جاسکتا ہے عقل ہمیں دھوکا نہیں
دیتی ۔
دوسرے مقام پر راشڈل
لکھتا ہے کہ :۔
اگر علم کی دنیا میں ہمیں
آخر الامرجذبات تک ہی پہنچنا تھا تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ حق و باطل کے متعلق
بھی جذبات ہی کو معیار قرار دیا جائے۔۔۔ لیکن جذبات کو اپنے سوا کسی اورچیز کی
تصدیق کرہی نہیں سکتے ۔(194-95)
لہٰذا عقل کا کام جذبات
کے تقاضوں کی تسکین کا سامان فراہم کرنا ہے جوڈ کے الفاظ میں :۔
انسان کی عقل اس کے جذبات
کے تابع اسی طر ح چلتی ہے جس کتے کے پاؤں اس کی ناک (سونگھنے کی قوت) کے پیچھے
پیچھے چلتے ہیں ۔(Decadence)
یہ کیفیت عوام ہی کی نہیں
بڑے بڑے مفکّرین تک کا بھی یہ ہی عالم ہے کچھ عرصہ پہلے ( Unesco)نے ایک کمیٹی بٹھائی
تھی کہ وہ ڈیموکریسی کے اصولوں کاجائزہ لے ۔1951ء میں اس کمیٹی کی رپورٹ شائع ہوئی
جس میں موضوع پیش نظر کے متعلق دنیابھر کے سیاسی مفکّرین کے خیالات و آراء کو یکجا
جمع کردیا گیا ۔ رپورٹ کے آخری باب میں ان تمام خیالات کا تجزیہ کرکے دکھایا گیا
ہے کہ یہ مفکّرین کس نتیجہ پر پہنچے ہیں اس باب میں رپورٹ زیر نظر میں لکھا ہے کہ
:۔
مختلف نظریوں کا تقابل اس
لئے بھی مشکل ہے کہ بعض مفکّرین (مثلاً نیٹشے، سپنسگلر اور سورہ کن وغیرہ کا خیال
ہے کہ انسان کوئی بات بھی سوچے وہ اس میں ان ہی نتائج پر پہنچے گا جو اس کے حق میں
مفید ہوں گے یا اس ثقافت کے حق میں ہوں گے جسے اس نے وراثتاً حاصل کیا ہے یا اس کے
حیاتیاتی میلانات کی تائید کریں گے۔
(Democracy In A World Of Tension)
یہاں تک ہم نے یہ دیکھ
لیا کے عقل اپنے فیصلے آزادانہ نہیں کرسکتی، اس کا کام جذبات کی تسکین کے لئے
سامان وذرائع فراہم کرنا ہے جذبات کیا ہے؟ اس کے متعلق پروفیسرمیکڈوگل ( McDougall) کہتاہے کہ ہمارے
جذبات حیلّت (Instinct) کانام ہیں اور
یہی جبلّی جذبات تمام
انسانی اعمال کے محرّک ہوتے ہیں۔۔۔۔نفس انسانی کے تمام پیچیدہ عمیرہ افعال ان ہی
جبلّی جذبات کی تسکین کے لئے اسباب بہم پہنچا نے کے ذرائع ہیں ۔ ان جبلی جذبات کو
الگ کردیجئے تو انسانی جسم یکسر معطل ہوکر رہ جائے گا یہ بالکل جامدد خامد ہوجائے
گا اس گھڑی کی طرح جس کافزٹوٹ گیا ہو۔
دوسرے مقام پریہی پروفیسر
لکھتا ہے کہ سوسائٹی یا مملکت کا قیام عقل پر نہیں ہوتا اس لئے کہ انسانی اعمال کی
محرک عقل نہیں ہوتی جذبات ہوتے ہیں۔
نوع انسانی بہت کم باشعور
واقع ہوئی ہے ۔اس کی نقل و حرکت کابیشتر مدار ان جذبات پر ہوتا ہے جن سے معقولیت
کو کوئی واسطہ نہیں ہوتا ۱۔
تحفظ مفاد خویش :۔۔۔۔ان
جبلی جذبات (Instincts) میں سب سے بنیادی جذبہ تحفظ ذات (Preservation
Of Self)کا
ہوتا ہے چیونٹی کا راستہ روکئے پھر دیکھئے کہ وہ بھی اپنی ننھی سی جان بچانے کے
لئے کس طرح مضطرب دبے قرار دکھائی دیتی ہے ، ہر حیوان اپنی جان بچانے کے لئے آخری
حربہ استعمال کرلیتا ہے صحن میں بلّی کو ‘‘چھی’’ کیجئے تو وہ بھاگ جاتی ہے ۔لیکن
اسی بلّی کو کمرے میں بند کیجئے جہاں اسے اپنی جان کو خطرہ محسوس ہو، پھر دیکھئے
کہ وہی بلّی کس طرح شیر بن کر جھپٹتی ہے یہی جبلّت ہے جو حیوان سے انسان میں آتی
ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
تفصیل کیلئے دیکھئے (Social Psychology) اور (The
Group Mind)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی ‘‘تحفظ خویش’’
کاجذبہ انسان کی حیوانی زندگی کی سطح سے متعلق ہے۔عقل کا کام یہ ہے کہ وہ تحفظ
خویش کے لئے ہر ممکن ذریعہ اور سامان فراہم کرتی رہے ۔لیکن عقل چونکہ ہر شخص
انفرادی ہوتی ہے۔ اس لئے عقل کا فریضہ صرف اس شخص کی جان کی حفاظت ہوتا ہے جس کی
وہ عقل ہوتی ہے ۔میری عقل جان کے تحفظ کی فکر کرے گی ۔ آپ کی عقل آپ کی جان کی حفاظت
کی فکر۔ اب غور کیجئے کہ جب بہت سے انسان ایک جگہ رہتے ہوں اور انہیں محسوس ہوجائے
کہ تحفظ نفس کے سامان محدودہیں تو پھر کس طرح ہر شخص کی عقل یہ کوشش کرے گی کہ وہ
اپنے لئے زیادہ سے زیادہ سامان جمع کرلے۔ اسے اس کی قطعاً فکر نہ ہوگی کہ اس سے
دوسروں پر کیا اثر پڑے گا۔ یہ عقل کے دائرہ فرائض سے باہر ہے ۔ اس کا کام ہی
اتناہے کہ وہ اپنی ذات کے تحفظ کا سامان کرے پھر حیوان اور انسان میں ایک بڑا فرق
او ربھی ہے۔ ایک گائے جب اپنا پیٹ بھر کر آرام سے جگالی کرنے بیٹھ جاتی ہے تو اسے
اس کی قطعاً پرواہ نہیں ہوتی کہ باقیما ندہ چارہ کون لے جارہا ہے جس کا جا چاہے لے
جائے وہ یہ سو چتی ہی نہیں کہ یہی چارہ شام کے وقت اس کے کام آئے گا حیوانات کو
مستقبل کی فکر نہیں ستاتی ان میں مستقبل سوچنے کامادہ ہی نہیں ہوتا لیکن ان کے
برعکس انسان کی یہ حالت ہے کہ اس کاکبھی پیٹ ہی نہیں بھرتا ۔ہمیشہ اپنے لئے زیادہ
سے زیادہ جمع کرنے کی فکر کرتا رہتاہے اورجب اپنی زندی کے لئے سامان واسباب کی طرف
سے مطمئن ہوجاتاہے تو پھر آنے والانسلوں کے لئے سامان فراہم کرنے کی فکر میں لگ
جاتاہے۔ اب ذرا تصور میں لائیے ایسی دنیا کو جس میں بہت سے انسان اکٹھے بستے ہیں
او ران میں سے ہر ایک کی عقل کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے لئے زیادہ سے زیادہ سامان
معیشت اکٹھا کرلے، اس دنیا میں ہوگا کیا؟ عقل کی عقل سے لڑائی ہوگی۔ اسی کو(Battle
Of Wits)
کہتے ہیں۔ جس کی عقل زیادہ کا م کرے گی وہ سب کچھ سمیٹ لے گا ۔ کہئے کہ جب عقل کا
فریضہ یہ ہوتو پھر عقل کبھی اخلاقیات کامعیار بن سکتی ہے ؟ اخلاقیات کا تقاضا عدل
ہے اورعقل کا تقاضا سلب ونہب اخلاقیات ایثار وقربانی چاہتے ہیں اور عقل تحفظ خویش
۔اخلاقیات ہمدردی سکھاتے ہیں او رعقل کا فریضہ خود غرضی ہے ۔ اس سے یہ کہنا مقصود
نہیں کہ عقل کوئی قابل مذمّت اور باعث نفرت شے ہے ۔ہر چیز کا ایک فریضہ ہوتا ہے او
راس فریضہ کی ادائیگی اس کا منصب اوّلین وہ اس دائرہ کے اندر محدود ہے لیکن اگر آپ
اسے اس کے دائرے سے کھینچ کر دوسرے دائروں میں لے جائیں گے تو وہ مذموم قرار
پاجائے گا ۔آگ کا کام حرارت بہم پہنچانا ہے ۔ وہ چیزوں کو گرم کردیتی ہے۔ آپ اگر
پانی ٹھنڈا کرنے کیلئے دیگچی آگ پر رکھ دیں تو ٹھنڈا نہیں ہوگا ،گرم ہوجائے گا
لیکن یہ قصور آپ کا ہے آگ کا نہیں۔ اسی طرح عقل کااپنا فریضہ ہے اگر آپ سے
اخلاقیات کے دائرہ میں لے جائیں گے تو جہاں کوئی شے اس کے فریضہ سے ٹکڑا ئے گی وہ
اسے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرے گی۔ لہٰذا ہمارے اعمال کی بنیاد جذبات پر ہویا
بظاہر عقل پر بات ہی ہے ۔ ان دونوں کامقصد مفادِخویش کا تحفظ ہے۔(Evelyn
Underhill)
کے الفاظ میں :۔
ہر عمل جو اراتاً سرزد ہو
بظاہر کتنا ہی معقول (ہنی برعقل) کیوں نہ نظر آئے درحقیقت ہمارے مفاد پر مبنی ہوتا
ہے۔ او رمفاد کے لئے ضروری ہے کہ اس کی بنیادی جذبات پر ہو قوت ارادہ کو آمادہ
برعمل کرنے کیلئے مفاد کا احساس نہایت ضروری ہے اس کے سوا اس کے لئے اور کوئی جذبہ
محّرک ہوسکتا ۱۔
(Mysticism)
عقل کبھی جذبات پر غالب
نہیں آسکتی ،لیکن جذبات کی شدّت عقل کو مغلوب کرلیتی ہے یہاں تک کہ بعض اوقات عقل
اپنے بنیادی فریضہ (تحفظ خویش) کی ادائیگی سے بھی قاصر رہ جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ
انسان خود کشی کرلیتا ہے لیکن حیوانات خود کشی کرنے پر قادر قاری نہیں کیونکہ ان
میں جبلّت خود ہی عقل کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔
ان تصریحات سے ظاہر ہے کہ
خیر وشر اور حق و باطل کے امتیاز کے لئے عقل کبھی معیار نہیں قرار پاسکتی مکیس
پلانک کے الفاظ میں:۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
جذبات کس طرح بلند ہوسکتے ہیں اوراس مقام تک پہنچ سکتے ہیں۔ جہاں ان میں ایک قسم
کی مفاد پرستی کا شائبہ نہیں رہتا ۔یہ چیز اپنے مقام پر بیان کی جاے گی۔ اسی بناء
پر اوسپنسکی جذبات کودوقسموں میں تقسیم کرتاہے ۔ خالص جذبات او رمخلوط جذبات مثلاً
کسی سے ہمددی کرنے میں اگر شہرت کاجذبہ بھی شامل ہے تو وہ اسے مخلوط جذبہ قرار
دیتا ہے لیکن اگر اس میں کسی دوسرے جذبہ کا شائبہ نہیں تو وہ خالص جذبہ ہے۔ دیکھئے
(Tertium Organum: p. 202-206)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص
خواہ کتنا ہی عقلمند کیوں نہ ہو اپنے شعوری افعال کے فیصلہ کن محرکات کا متعلق محض
علّت ومعلول کے قانون کی رو سے کبھی صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتا۔ اُس کے لئے کسی
اور قانون کی ضرورت ہے۔یعنی قانون اخلاقیات کی یہ وہ قانون ہے جس کی جگہ نہ تو
بلند ترین عقل لے سکتی ہے او رنہ ی لطیف ترین تجزیہ نفس۔
(Universe In The Light Of Modern Physics)
ہمارے جذبات و خیالات
اخلاقیات،اخلاقی اصولوں کے معیار نہیں بن سکتے۔اس لئے کہ پروفیسر (Susan
Stebbing)
کے الفاظ ‘‘ہمارے خیالات اور جذبات اس قسم کے ہوتے ہیں جس قسم کے ہم خود ہیں۔’’(Ideals
and Illusions:p 123)
اسی بنا پر پروفیسر براڈ
(Broad) نے کہا ہے کہ :۔
اخلاقیات میں ‘‘داخلی
فیصلے کا نظریہ’’ اس کے سوا کچھ نہیں کہ فیصلہ دینے والا اس چیز کے متعلق صرف اپنے
ذاتی میلانات ورجحانات کااظہار کررہا ہوتا ہے۔
(Quoted By Joad In-Decadence)
باقی رہی عقل سو اس کے
صحیح مقام کے متعلق برگستان کے الفاظ غور کے قابل میں وہ لکھتا ہے:۔
اس سے کسے انکار ہوسکتا
ہے کہ عقل انسان کا امتیازی نشان ہے یہ بھی ہر ایک کو تسلیم ہے کہ عقل متاعِ گراں
بہا ہے ایسے ہی جیسے فن لطیفہ کا کوئی شاہکار گراں قدر ہوتاہے لیکن یہ چیز محتاج
وضاحت ہے کہ عقل کے فیصلے کس صورت میں مطلق او رواجب التّعمیل قرار پاتے ہیں عقل
تو صرف دلائل فراہم کرتی ہے جن کی تردید دوسرے دلائل سے ہوسکتی ہے ؤ۔اس لئے اس پر
اصرار کرنا غلطی ہے کہ ہماری اورآپ کی عقل ایسی گراں بہا ہے کہ وہ مجبوراً ہم سے
اپنی عظمت کا ااعتراف کرالے او ر اپنے فیصلوں کو منوالے ہمیں اس کے ساتھ یہ بھی
کہنا ہوگا کہ عقل و بصیرت کے پیچھے وہ انسان ہیں جنہوں نے نوع انسانی کو خدائی رنگ
میں رنگ دیا اور اس طرح عقل کو لاہوتی سند عطا کردی یہ وہگرانقدر ہستیاں ہیں جو
ہمیں ایک مثالی معاشرہ کی طرف کشاں کشاں لے جاتی ہیں۔
(Bergson In ''The Two Sources Of Morality
And Religion'')
یہ انسان کون ہیں؟ اس کا
تعلق دوسرے گوشہ سے ہے ۔اس وقت اپنی گفتگو کو مبحث زیر نظر تک محدود رکھنا چاہتے
ہیں ۔
‘‘عقل ’’ کے میدان سے آگے بڑھنے سے پیشتر اس کے ایک اہم گوشے پر
نظر ڈالنا ضروری ہے او روہ گوشہ ہے ۔کانٹ Kant کے نظریہ اخلاق سے
متعلق ۔
کانٹ کا نظریہ
اخلاق:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مغربی مفکّرین میں جو مرتبہ کانٹ کا ہے وہ ارباب فکر سے پوشیدہ
نہیں ۔ اس کی فکر دوسوسال سے عالم افکار کو متاثر کئے چلی آرہی ہے اوراس میں کوئی
کلام نہیں کہ بعض گوشوں میں اس کے مقام کی بلندی ابھی مسلم و بلاحریف سے عقل محض (Pure
Reason)
پر اس کی تنقید فکری دنیا میں کلاسک کے درجہ حاصل کرچکی ہے ۔اس کے باوجود وہ
اخلاقیات کامعیار عقل ہی کو قرار دیتا ہے لیکن اس عقل کو عقل محض سے الگ تصورکرتا
ہے او راسے ‘‘عمل عقل’’ (Practical Reason) سے تعبیر کرتاہے۔
کانٹ کانظریہ اخلاق مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ ۱:۔
(i) اس دنیا میں بلکہ اس دنیا سے باہر بھی کوئی چیز نہیں جسے بلا
مشروط محض کہا جاسکے سوائے نیک ارادہ (Good Will) کے۔
یہ کانٹ کے نظریہ
اخلاقیات کے بنیادی پتھّر ۔اس کی ساری عمارت اسی بنیاد پر استوار ہے۔ کانٹ کے
نزدیک نہ تو اعمال کے خیر و شر ہونے کا معیار اس کے نتائج ہیں ( اس لئے وہ افادی
نظریہ اخلاقیات کا بطلان کرتا ہے) اورنہ ہی اس کے خیال میں دنیائے حیات کے عقلی
تجارت (Empirical Experiences) خیر وشر کے متعلق
کوئی یقینی معلومات بہم پہنچا سکتے ہیں ۔ خیر محض فقط ‘‘نیک ارادہ’’ کا نام ہے۔ اس
مسلّمہ کے دو ٹکڑے ہیں ۔ایک (Will) اور دوسرا نیک (Good) ۔اب سوال یہ پیدا
ہوتا ہے کہ ارادہ (Will) کسے کہتے ہیں اور (Good Will) کسے کہتے ہیں شق
اوّل کے متعلق کانٹ لکھتا ہے کہ :۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
اس وقت میرے سامنے یہ دوکتابیں ہیں:۔
(Kant Critique Of Practical Reason And
Other Works On The Theory Of Ethics Translated By T.H. Abbot)
(The Catagorical Imperative--H.J.Palton)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(2) کائنات میں ہر شے قانون کے تابع سرگرم عمل ہے لیکن یہ خصوصیت
صرف انسان (صاحب عقل) کو حاصل ہے کہ وہ قوانین کے تصورات (Conceptions
Of Laws)کے
مطابق عمل کرتاہے ۔یعنی اصولوں کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان صاحب ارادہ (will) ہے لیکن چونکہ
اصولوں سے اعمال کا مستنبط کرنا عقل کا کام ہے اس لئے ارادہ (will) عملی عقل (Practical
Reason)
کا دوسرانام ہے۔
یعنی کانٹ کے نزدیک عملی
عقل ہی انسانی ارادہ کا دوسرا نام ہے۔ جب انسان کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو و ہ
گواہی عملی عقل کے فیصلے کو بروئے کارلانے کاعزم کرتا ہے۔ (Palton) کے الفاظ میں
‘‘کانٹ کے نزدیک ارادہ کے معنی ہیں وہ قوت جس کی روسے انسان کسی قانون کے تصور
(اصول) کے مطابق کام کرنے کا تہیہ کرے۔’’(82)
یہ توہوئی کانٹ کے نزدیک
ارادہ (Will)کی تعریف اب یہ دیکھئے کہ اس کے نظریہ کی رو سے نیک ارادہ (Good
Will)
کی تعریف کیا ہے اس کے نزدیک:
(3)وہ ارادہ جو کسی کام کو صرف اس لئے کرتاہے کہ اس کا کرنا فرض (Duty) ہے،نیک ارادہ ہے۔
یعنی ہر قسم کے افادی
تصور سے بے نیاز ہوکر فرض کو محض فرض سمجھ کر ادا کرنا، نیک ارادہ ہے ۔کانٹ کہتا
ہے کہ جس عمل میں (خواہ وہ کتناہی نیک کیوں نہ ہو) ذرّہ بھر بھی صلہ کی امید یا
معاوضہ کاتصور شامل ہو جائے، وہ عمل ‘‘عمل خیر’’ نہیں رہتا ۔اس کے نزدیک عمل خیر
کی قیمت (Value) وہ اصول ہوتاہے جس کے مطابق وہ عمل ظہور میں آتا ہے ۔اس نظریہ کے
ماتحت ‘‘کانٹ کے نزدیک ’’اصول بھی دوقسم کے ہیں ۔ایک وہ جو انسان کو کسی مقصد کے
حصول کے پیش نظر آمادہ عمل کریں۔ انہیں کانٹ مادی اصول (Material
Maxims)
قرار دیتا ہے او ردوسرے وہ جو کسی مقصد کے تصور کے بغیر آمادہ عمل کریں ان کا نام
غیر استدلال اصول (A Proiri Maxims)ہے۔ اس کے نزدیک ‘‘احساس فرض’’ اس دوسری قسم کا اصول فراہم کرتاہے
۔ اس اصول کو وہ اصول مطلق یا امر غیر مشروط (Catagorical
Imperative)
کہتا ہے ۔کانٹ کانظریہ اخلاقیات اسی ‘‘امر غیر مشروط’’ کی توضیح و تفسیر ہے۔
اس کے نزدیک ۔
‘‘امر غیر مشروط’’ سے مفہوم یہ ہے کہ اس سے ایسا کام ظہور میں آئے
جس سے کسی مقصد کا حصول مقصود نہ ہو بلکہ وہ کام اپنی ذات میں واجب العمل ہو۔
کانٹ کے نزدیک اس قسم کے
فریضہ کی ادائیگی ایک ایسی انبساطی کیفیت پیدا کردیتی ہے جو اپنا صلہ آپ ہو جاتی
ہے او رچونکہ یہ کسی ایک فرد کامقصود نہیں بلکہ تمام نوع انسانی کا مقصود ہے اس
لئے اس کے نظریہ کی رو سے اوّلین اصول اخلاقیات یہ ہوناچاہئے کہ
(4) اس طرح عمل کروگویا تمہارے اس عمل کے اصول نے تمہارے ارادہ کی
بنا پر عالمگیر قانون فطرت بن جاتاہے۔
‘‘عالمگیریت ’’ سے مفہوم کانٹ کا دوسرا اصول اخلاق ہے۔یعنی :
(5)انسانیت کو خواہ وہ تمہاری ذات کے اندر ہو یا کسی دوسرے شخص کے
اندر ہمیشہ صود با لذّات سمجھو اسے کبھی کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ نہ تصور کرو۔
اور تیسرا اصول یہ کہ :۔
(6)ہمیشہ اس طرح عمل کرو جسے تم مملکت مقاصد (Kingdom
Of Ends)
کے ایک فرد ہو۔
لیکن یہ مقاصد کیا ہیں جو
افادیت کے تصور کے بغیر اپنا صلہ آپ ہیں ؟ کانٹ کہتاہے کہ یہ وہی اصول یا قوانین
ہیں جب تک انسان عملی عقل کی روسے پہنچتا ہے ۔ وہ عقل جو جذبات سے ملّوث نہ ہو۔ اس
کانام کانٹ کی اصطلاح میں قانون حریّت (Law Of Freedom)ہے۔یعنی :۔
وہ قانون جس کی رو سے ایک
صاحب عقل انسان اس وقت عمل کرتا ہے جب اس کی عقل اس کے جذبات و میلانات پر پورا
پورا اقتدار رکھتی ہے۔
ان تصریحات کی روشنی میں
کانٹ کے نظریہ کی رو سے ۔
خیر (Good) وہ ہے جسے ایک صاحب
عقل وارادہ جذبات پر پورا پورا اقتدار رکھتے ہوئے لازمی طور پر اختیار کرے گا اور
شروہ جس سے اس قسم کاارادہ لازمی طور پر رہے گا ۔( Paloton:
p. 103)
اگر ہم کانٹ کے نظریہ اور
مختصر الفاظ میں بیان کریں تو اس کا لب لباب یہ ہوگا کہ اس نظریہ کی رو سے
(ا) خیر کی بنیاد نیک ارادہ ہے۔
(ب) انسان کو اصولوں کے مطابق کا م کرنا چاہئے جو ہر انسان کے لئے
نافذالعمل ہوں۔
(ج) ان اصولوں کے مطابق عمل کسی مقصد کے حصول کے تصور سے نہیں کرنا
چاہئے بلکہ انہیں فرض سمجھ کر ادا کرناچاہئے۔
(د) یہ اصول انسانی عقل کی رو سے حاصل ہوں گے جو جذبات سے ملّوت نہ
ہوں۔
اس نظریہ کی پہلی تین
شقیں نہایت صاف اور واضح ہیں لیکن چوتھی شق نہ صرف مبہم ہے بلکہ نا ممکن بھی ۔ اور
چوتھی شق ہی سب سے اہم تھی یعنی سوال یہ تھا کہ ہم ان اصولوں کو کہا سے لیں جن کے
متعلق ہم کہہ سکیں کہ یہ اپنی ذات میں خیر محض (Absolute
Good)
ہیں ۔کانٹ کہتاہے کہ یہ اصول اس عقل انسانی کو رو سے حاصل ہوں گے جو جذبات سے
ملّوث نہ ہو۔ لیکن ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ عقل کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ
جذبات سے متاثر نہ ہو۔ متاثر ہونا تو ایک طرف عقل کا تو فریضہ ہی جذبات کی تسکین
کا سامان فراہم کرتاہے ۔لہٰذا عقل کے متعلق یہ تصور کرنا کہ وہ جذبات پر غلبہ حاصل
کرلے گی او ران سے اس طرح غیر ملّوث رہے گی کے اس میں ان کا لطیف ترین شائبہ بھی
نہ رہے قیاس محال ہے اس قسم کی عقل انسانی عقل ہو ہی نہیں سکتی ۔(کانٹ کے اس نظریہ
پر راشڈل کی تنقید قابل غور ہے)۔
تیسرا سوال:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:
اب ہم تیسرے سوال کی طرف آتے ہیں کہ جب نہ انسانی ضمیر ،خیر وشر کا معیار ہوسکتی
ہے اور نہ ہی انسانی عقل، تو پھر کیا خیر وشر کہیں موجود گی الخارج ہیں یعنی وہ (Objectiovely
Exist)کرتے
ہیں او روہ اپنا معیار آپ ہیں؟ اور اگر وہ کہیں موجود ہیں تو ان کا ذریعہ حصول کیا
ہے؟
‘‘مال صدقہ جان ، جان صدقہ آبرو’’۔ یہ مثل آپ نے زندگی میں سینکڑوں
بار سنی ہوگی ۔ہمارے گھروں میں اسے عام طور پر دہرایا جاتا ہے ۔ اس کامطلب بھی
واضح ہے مالی ودولت سے کون محبت نہیں رکھتا کون نہیں چاہتا کہ اس کے پاس بہت سا
روپیہ آجائے اور جب روپیہ آجاتا ہے تو انسان اسے نہایت حقاظت سے رکھتا ہے ،لیکن جب
آدمی کی جان پر بنتی ہے تو وہ جان بچا نے کی خاطر سارا مال خرچ کردیتا ہے ۔ اس قسم
کے واقعات عام طور پر اخبارات میں آتے رہتے ہیں کہ گاؤ ں کے ساہوکار کے گھر
ڈاکوآئے ،پستول اس کی چھاتی پر رکھا او رکہا کہ تجوری کی چابیاں نکال ۔اس نے جھٹ
سے چابیاں نکال کر ڈاکوؤں کے حوالہ کردیں۔ یہ اس نے کیوں کیا؟ وہ تو مال سے بہت
محبت رکھتا تھا ۔لاکھوں روپے جمع تھے لیکن اپنی ذات پر چھ آنے روز سے زائد صرف
نہیں کرتا تھا ، اب اس نے سارا مال کیوں ڈاکوؤں کے حوالے کردیا؟ ظاہر ہے کہ اس نے
یہ کچھ جان بچانے کی خاطر کیا۔ اس سے معلوم ہواکہ اس کے نزدیک جان کی قیمت مال سے
زیادہ تھی۔
جان صدقہ آبرو:۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جان فی الواقعہ بڑحی قیمتی متاع ہے جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ ایک ننھی سی
چیونٹی بھی اپنی جان بچانے کے لئے ہزار ہاتھ پیر مارتی ہے انسانی عقل جان ہی کے
تحفظ کے لئے ہے۔لیکن ہم یہ واقعات بھی روز سنتے ہیں کہ فلا شخص نے اپنی بیوی او
راس کے آشنا کو قتل کردیا او رخود تھانے جاکر جرم کا اقبال کرکے ہنسی خوشی پھانسی
کے تختہ پر چڑ ھ گیا ۔ یہ کیا ہوا؟ اس نے جان جیسی عزیز ترین متاع اس طرح کیوں
ہاتھ سے دے دی؟ اپنی عزت کی خاطر یعنی اس کے نزدیک عزت کی قیمت جان سے بھی زیادہ
تھی۔ غور کیجئے تو یہ حقیقت ابھر کر سامنے آجائے گی کہ زندگی او راس کی تمام
رعنایاں ‘‘قیمت’’ کے جذبہ ہی کی تبسم فروشیاں ہیں ۔دنیا کی تمام تگ و تاز اس کی
رنگینیاں اور شادابیاں سب اقدار (Values) کی رہین و منت ہیں
۔رگ کائنات میں تمّوج ہے تو انہی سے اور فضائے ہستی میں تحرّک ہے تو انہی کی بدولت
انسانی زندگی او راس کی تمام جاذہیتیں اقدار (Values) ہی سے وابستہ ہیں۔
اگر انسان کے سامنے اقدار (Values) نہ رہیں تو شوخیوں
اور شگفتگیوں کا یہ پرُکیف و بہار آگیں مرقّع بے ورنگ خاکہ سے زیادہ کچھ نہ رہے
۔بقول غالب
گرعشق نہ بودے وغم عشق نہ
بودے
ایں ھاسخن نغزکہ گفتے کہ
شنودے
مختلف اقدار:۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن
ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ قدر (Value) اور قدر (Value) میں فرق کتنا ہے
۔مال بھی ایک قدررکھتا ہے ۔لیکن وہ جان کی حفاظت کا ذریعہ ہے ۔لہٰذا اس کی یہ قدر
(Value)ذریعاتی Instruments ہے ذاتی (Intrinsic) نہیں جان کے متعلق
یہ قیاس کیا جاسکتاتھاکہ اس کی قیمت ذاتی ہے لیکن اوپر کی مثال سے ہم نے دیکھا ہے
کہ اگر چہ بڑی حد تک اس کی قیمت ذاتی ہے ۔ لیکن ایک مقام ایسا بھی آجاتا ہے جہاں
اس کی قیمت بھی ذاتی کے بجائے ذریعاتی (Insttmental) ہوجاتی ہے۔یعنی جان
اپنے سے زیاد ہ قیمتی شے آبرو کے تحفظ کاذریعہ بن جاتی ہے اوپر کی مثال میں آبرو
کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کی قیمت ذاتی ہے لیکن یہ بھی ہمارے مشاہدہ میں آتا
ہے کہ بعض لوگ مال کو جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں اورجان کو آبرو سے زیادہ
عزیز ایک شخص وہ ہے جو اپنی بیٹی کے برُقعہ کی طرف گھور کر دیکھنے والے کے چھُر ا
گھونپ دیتا ہے اور دوسرا وہ ہے جو اپنی بیٹی کوخود قحبہ خانے لے جاتاہے ۔یعنی دنیا
میں مختلف آدمی ہر ایک قدر کو الگ الگ اہمیت دیتے ہیں۔
اسی ضمن میں ایک چیز اور
بھی دیکھتے ہم روز یہ سنتے ہیں کہ آج سونے کا بھاوچڑھ گیا ہے ۔کل اس کا بھاؤگر گیا
تھا۔ کل سونا نوّے روپے تولہ تھا ۔آج 95 روپے ہوگیا ،یعنی سونے کی قیمت اضافی (Relative) ہے جو ہمارے مصالح
اوراحوال وظروف کے مطابق گھٹتی بڑھتی رہتی ہے لیکن سونے کی رنگت خارجی احوال و
ظروف کے ساتھ ساتھ نہیں بدلتی ۔وہ بہر حال او رہر جگہ ایک جیسی ہے اس قسم کی قدر
کو حقیقی قدر (Real Value) کہتے ہیں ۔انہی مثالوں سے آپ اخلاقی اقدار کااندازہ لگالیجئے
لہٰذا اخلاقیات میں اصل سوال اقدار کا ہے۔ افادی نقطہ نگاہ سے ہر قدر اضافی (Relative) اور ذریعاتی (Instrumental) ہوتی ہے۔ یعنی
اخلاقی اقدار کسی مقصد کے حصول کاذریعہ ہوتی ہیں اور جس حد تک کوئی قدر مقصد پیش
نظر کے حصول میں مُمد ہوتی ہے اسی حد تک اسے خیر (Good) کہا جاتا ہے ۔
مستقل اقدار:۔۔۔۔۔۔۔ لیکن
خارجی وجدائیت (Objective Intuitionism) کے نظریہ کی رو سے
اخلاقی اقدار حقیقی ،مستقل اورمطلق (Real, Permanent And
Absolute)
ہوتی ہیں۔ راشڈل اس باب میں لکھتا ہے:۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ قانون
اخلاق اپنا حقیقی وجود رکھتا ہے اور اخلاقیات مطلق ہیں یعنی کوئی ایسی شے ضرور ہے
جسے ہم اخلاقی فیصلوں میں صداقت مطلق یاکذِبِ مطلق کہہ سکتے ہیں خواہ ہم یا کتنے
ہی او رانسان انہیں ایسا نہ مانیں ۔اخلاقیات سے جو مفہوم ہمارا ہے اس کی بنیاد اسی
عقیدہ پر ہے اس قسم کے غیر مشروط ،موجود فی الخارج ، مطلق ، اخلاقی قانون بطور ایک
نفسیاتی حقیقت تو ضرور موجود ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس قسم کا قانون اخلاق ملے
گا کہاں سے ؟ یہ قانون کسی انسانی شعور میں ملنے سے رہا۔ انسان اخلاقی مسائل کے
متعلق الگ الگ نگاہ رکھتا ہے اور اس امرکی ہمارے پاس کوئی خارجی دلیل نہیں کہ دنیا
کے تمام انسان کبھی اخلاقیات میں ایک ہی نگاہ رکھیں گے۔ (The
Theory Of Good And Evil: Vol.II-p.211) اسی تفصیل کو اس نے ایک فقرہ میں یوں سمٹا دیا ہے کہ :۔
اخلاقیات سے مفہوم ہی یہ
ہے کہ دنیا میں اقدار کے لئے ایک مطلق معیار ہے جو ہر انسان کے لئے یکسا ں ہے۔
(286)
(That There Is One Absolute Standard Of
Values Which Is the Same for All Rational Beings Is Just What Morality Means)
(The Theory Of Good And Evil-Vol.II p.286 )
اور
اخلاقی فیصلہ کا مطلب یہ
ہے کہ وہ مقصود ومنتہیٰ جس کی طرف ہم اپنی تمام ترکوششوں کو لے جاناعمل خیر سمجھتے
ہیں ایک مطلق قدرکھتا ہلے۔
(The Theory Of Good And Evil -Vol.II p.287)
لیکن
یہ قدر مطلق زیدیا بکرکے
دل کے اندر نہیں ہوتی۔
(The Theory Of Good And Evil - Vol.II p.
212)
(Martin Buber) اسی باب میں لکھتا ہے کہ :۔
مستقل اقدار کے یہ معنی
نہیں کہ ہر شخص خود فیصلہ کر ل کہ مستقل قدر کیا ہے ۔ڈان جون کے نزدیک زیادہ سے
زیادہ عورتوں کو اپنے دام فریب میں لے آنا مستقل قدر ہے او رایک ڈکٹیٹر کے نزدیک
قوت کا حصول مستقل قدر ۔ مستقل اقدار کو عالمگیر ہوناچاہئے جسے ہر شخص تسلیم کرے
اور ان کامعترف ہو۔(Between Man And Man) اس کے بعد راشڈل
کہتاہے کہ اس قسم کے مطلق اقدار کاعلم حقیقت (Reality) کے متعلق صحیح علم
کے بغیر ناممکن ہے چنانچہ وہ لکھتا ہے ۔
یہ ناممکن ہے کہ حقیقت (Reality) کے متعلق ہمارا نقطہ
نگاہ علم الاخلاق کے بنیادی مسائل پر اثر انداز نہ ہو او راخلاقیات کے متعلق ہمارا
یہ تصور حقیقت کو مثاتر نہ کرے۔
(The Theory Of Good And Evil. II, p. 192)
اب بات یوں بنی کہ جب تک
حقیقت ُ(Reality) کا علم نہ ہو ہم نہیں کہہ سکتے کہ اخلاق کی قدر مطلق کیا ہے لہٰذا
اخلاقیات میں اک حقیقت بنیادی شرط ہے۔
ادراک حقیقیت کاایک ذریعہ
وہ ہے جسے ہم میکانکی تصوحیات کے باب میں پیش کر چکے ہیں اور جس کی رُو سے سمجھا
جاتاہے کہ مادی کائنات کا محسوس علم ہی حقیقت کاعلم ہے لیکن راشڈل کہتاہے کہ یہ
تصور بنیادی طور پر غلط ہے اس لئے کہ
ایک مطلق اخلاقی قانون یا
اخلاقی مطمح نگاہ مادی اشیاء میں موجود ہی نہیں سکتا ۔
( The Theory Of Good And Evil - Vol, II, p.
214)
اس کے بعد راشڈل لکھتا ہے
کہ مستقل او رمطلق اقدار کو ماننے کے لئے کن باتوں کو ماننا ضروری ہے ؟
وہ کہتا ہے کہ :۔
(1)سب سے پہلے یہ ماننا ضروری ہے کہ کائنات بلا مقصد پید ا نہیں کی
گئی بلکہ اس کی تخلیق مقصد یہ ہے کہ وہ سامان فراہم کرے جس سے روح انسانی اپنے
مقصود تک جاسکے۔
(The Theory Of Good And Evil- Vol.II.
p.253)
(2) دوسرے یہ ماننا ضروری ہے کہ نفس انسانی
(ا) ایک مستقل حقیقت۔
(ب) اس کی یہ حقیقت روحانی ہے ۔یعنی اس کی اپنی زندگی مستقل ہے اور
مادی جسم کے تغیرات
اس پر اثر انداز نہیں
ہوسکتے ۔
(ج) یہ اپنے تمام افعال کا سبب آپ ہے ۔یعنی انسانی اعمال اس کے نفس
کی کیفیات کے مظہر ہوتے ہیں۔
(The Theory Of Good And Evil. II, p.
200-205)
(3)تیسرے یہ ماننا ضروری ہے کہ انسان کے موجود عمل اس کے مستقبل
کومتاثر کرتے ہیں ۔یعنی جس قسم کے اس کے اعمال آج ہوں گے اسی قسم کا اس کا ‘‘کل’’
ہوگا ۔ بالفاظ دیگر اس کے لئے تسلسل حیات پر ایمان رکھنا ضروری ہے جو شخص صرف
موجود زندگی کا قائل ہے وہ پیش یا افتادہ مفاد کے پیچھے لگارہے گا او رمستقل اقدار
کو کچھ اہمیت نہیں دے گا کیونکہ مستقل اقدار انسانی سیرت کی تعمیر کرتی ہیں اور
سیرت کی تعمیر کی اہمیت اسی صورت میں سمجھ میں آسکتی ہے جب انسان زندگی کو مستقل
اورمسلسل سمجھے ۔ورنہ جویہ سمجھے کہ میری سانس کے ساتھ ہی میری سیرت کاخاتمہ
ہوجائے اسے تعمیر سیرت کے لئے سرکھپانے کی ضرورت ہے۔
اور
(4) سب سے ضروری یہ کہ خدا پر ایمان لاناہوگا ۔ اسلئے کہ اخلاقی
آئیڈیل نفس (Mind) کے علاوہ کہیں موجود ہی نہیں ہوسکتا او رایک مطلق اخلاقی آئیڈیل
نفس مطلق ہی میں موجود ہوسکتا ہے جو ہر حقیقت کاسرچشمہ ہے۔ہمارا نفس جس منتہیٰ کو
ہماری سیرت کامقصودقرار دے وہ اس نفس(مطلق) کابھی منتہیٰ ہوناچاہئے جو ہمارے نفس
کا سرچشمہ ہے۔لہٰذااخلاقی قوانین کے مستقل او رمطلق ہونے کے لئے خداپر ایمان
لانیفک ہے۔
(The Theory Of Good And Evil - Vol. II,
pp. 212-220)
آپ نے دیکھا ہوگا کہ ان
بنیادی معتقدات (Postulates) میں عمووی حیثیت خدا اور آخرت پر ایمان کو حاصل ہے۔خدا کے حکیم
ماننے میں کائنات کابالمقصد ہونا اور از خود مقصود ہوجاتاہے او رآخرت پر ایمان کے
معنی یہ ہیں کہ نفس انسانی جسم کی موت کے ساتھ فنانہیں ہوجاتا ۔ڈین ۔انج کے الفاظ
میں:۔
خدا پر ایمان مرکز ہے اور
بقائے حیات پر ایمان محیط ۔ بس تمام مسئلہ اخلاقیات کی یہی کلید ہے ۔ وہ مستقل
اقدار جن کے توسط سے ہم خدا تک پہنچ سکتے ہیں ابدی اورغیر فانی ہیں جو فی الحقیقت
موجود ہے کبھی فنا نہیں ہوسکتا ۔( God And The Astronomer -
p. 276)
ایڈنگٹن اس حقیقت کو ان
الفاظ میں بیان کرتاہے:۔
ہمارے سامنے دو متبادل
سوالات ہیں یا تو مطلق اقدار کاکوئی وجود نہیں اور ہمارے ضمیر کے فیصلے حرف آخر
ہیں جن کی کہیں اپیل نہیں ہوسکتی اور یا مطلق اقدار ہیں اگر مطلق اقدار ہیں تو پھر
ہمیں یہ ماننا ہوا کہ یہ اقدار اس ذات کاہلکا سا پرتو ہیں جو انہیں مطلقیت کی
حیثیت عطا کرتی ہے۔۔۔۔اس میں شبہ نہیں کہ اس آخری کڑی میں جاکر منطقی دلائل میں
الجھا ؤ سا پڑجاتا ہے لیکن یہ الجھاؤ تو خود مادی دنیا کے متعلق بھی پڑتا ہے ہم
صرف مفرضہ (Data) کی بنیاد پر ہی دلائل پیش کرتے ہیں او رمادی دنیا میں ابتدائی
مفروضات (Datas) عقل کی رو سے نہیں حاصل ہوتے بلکہ غیر عقلی طریق ہی سے حاصل ہوتے
ہیں۔ اس کے بغیر ہم مادی دنیا کے متعلق بھی ذرا آگے نہیں بڑھ سکتے ۔
(The Nature Of Physicl World: pp 371-72)
برائٹ مین کے نزدیک
‘‘قانون فطرت کی وحدت اس امر کی دلیل ہے کہ اقدار کا سرچشمہ بھی ایک ہی ہے’’۔ حتیٰ
کہ(H.N. Wieman) کے الفاظ میں خدا کی تعریف (Definition) ہی یہ ہے کہ وہ
‘‘کارگہ فطرت میں اقدار کا سرچشمہ ہے۱۔’’
(God Is The name Of All Value-Producing
Processes In The Nature)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان تصریحات سے یہ حقیقت
آپ کے سامنے آگئی ہوگی کہ تحقیقات جدیدہ کی رو سے نظریہ اخلاقیات کے لئے ضروری ہے
کہ ہم اسے تسلیم کریں کہ اخلاقی قانون مستقل او رمطلق اقدار کانام ہے او رمستقل او
ر مطلق اقدار کا تصور ہی پیدا نہیں ہوسکتا ۔جب تک انسان خدا اور حیات اُخروی پر
ایمان نہ لائے ۔اگر خدا اور آخرت پر ایمان نہ رہے تو مطلق اور مستقل اقدار کا تصور
ہی باقی نہیں رہتا ۔اور جب مطلق اقدار کا تصور نہ رہے تو اخلاقیات کی ساری عمارت
نیچے آگرتی ہے کیونکہ اخلاقیات کا قصر فلک بوس تو قائم ہی انہی بنیادوں پر ہے اسی
بنا پر (Dostoievsky) نے لکھا ہے کہ‘‘ اگر خداکے وجود کو تسلیم نہ کیا جائے تو دنیا
میں سب کچھ جائز ہوجاتا ہے۲۔’’
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
(Brightman--A Philosophy Of Realigion: p 119-124)
۲
(Quoted By Lesliepaul In The ''Meaning Of Human
Existence'': p. 177)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے شروع میں جو مثال
دی تھی اسے ایک مرتبہ پھر سامنے لائیے ۔ایک شخص کے پاس کسی کی امانت رکھی ہے اور
وہ آدمی فوت ہوجاتا ہے او راب دنیا میں کسی شخص کو اس کاعلم نہیں جن کے پاس یہ
امانت ہے وہ خدا کو نہیں مانتا مستقل اقدار کا قائل نہیں ،تسلسل حیات پر اس کا
یقین نہیں ۔اب سوچئے کہ وہ کون سا جذبہ ہے جس کے ماتحت یہ شخص اس روپے کو جاکر
متوفّی کے ورثا کودے دے گا؟ آپ کہیں گے کہ دیانتداری سے انسان کو اطمینان حاصل
وہتا ہے او راسی اطمینان کی خاطر یہ شخص دیانت دار رہے گا لیکن جو کچھ گذشتہ صفحات
میں ہمارے سامنے آچکاہے اس کے پیش نظر وہ ‘‘دل کی خلش’’ جس سے بچنے کا نام
‘‘اطمینان قلب’’ ہے۔محض سوسائٹی کی پیداکردہ ہے۔ اس لئے ضمیر کی آواز کو (Internalised
Society)
کہا جاتا ہے ۔ اس سے زیادہ اس کی حقیقت کچھ نہیں ۔اگر اس شخص کا ماحول ایسا ہے جس
میں اس قسم کی بددیانتی کو معیوب نہیں قرار دیا جاتایا اس کے دل نے سوسائٹی کا اس
قسم کا اثر نہیں لے رکھا تو اسے اس بددیانتی پر کسی قسم کی خلش ہی پیدا نہیں ہوگی۔
اس لئے اس کے سامنے اخلاقیات کا سوال ہی نہیں آئے گا۔ یہ اس موضوع کا سلبی پہلو ہے
۔اب ایجابی پہلو کی طرف آئیے ایک شخص سے کہا جاتاہے کہ سیلاب کے مصیبت زدگان کی
مدد کے لئے چندہ دیجئے ۔آپ غور کیجئے کہ وہ کونسا جذبہ ہے جو اسے اس ایثار کے لئے
آمادہ کرے گا؟ آپ کہیں گے کہ انسانی ہمدردی لیکن انسانی ہمدردی جذبہ انسان کے دل
میں کیوں پیدا ہوا ؟ جن کے دل میں یہ جذبہ پیدا نہیں ہوتا وہ کہتے ہیں کہ اس قسم
کاجذبہ اعصاب کی کمزوری کی علامت ہے جس کا طبی علاج کراناچاہئے ۔آپ اگر اس گوشے کو
اور سمٹا تے چلے جائیں گے تو آخر الامر ایک جذبہ باقی رہے گا جس کی بنا پر یہ شخص
اس مقصد کے لئے چندہ دے گا او روہ ہے اپنی عزّت (نام کی شہرت) سوسائٹی میں مقبولیت
او ریہ ظاہر ہے کہ اخلاقیات کے لئے یہ محرکات کچھ حیثیت نہیں رکھتے ۔ اس لئے
اخلاقی بنیادوں کے لئے مستقل اقدار پر ایمان نہایت ضروری ہے ۔ اس کے یہ معنی نہیں
کہ مستقل اقدار کو اس لئے ماننا ضروری ہے کہ ان کے بغیر اخلاقیات کی عمارت تعمیر
نہیں ہوسکتی ۔مستقل اقدار تو بہر حال اپنا وجودرکھتی ہیں۔ انہیں تسلیم کرنے سے
انسانی معاشرہ پر ہ اثر پڑتا ہے جس کاذکر اوپر کیا جاچکا ہے۔
مستقل اقدار کا سرچشمہ
کیا ہے؟:۔۔۔۔۔۔۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مستقل اقدار ہیں کیا او ریہ ملتی کہاس
سے ہیں؟ یعنی ایک شخص خدا کو مانتاہے ،تسلسل حیات کا بھی قائل ہے مطلق اقدار کے
وجود کو بھی تسلیم کرتاہے اب اسے کس طرح معلوم ہو کہ مستقل اقدار کیا ہیں؟ اس ضمن
میں ہمارے سامنے دو نظریئے آتے ہیں ۔بعض مفکرین نے مستقل اقدار خود ہی متعین کردی
ہیں۔ مثلاً قدیم یونان میں عقل، جرات، ضبط او رعدل کو مستقل اقدار تسلیم کیا
جاتاتھا۔ ہمارے دور میں پروفیسر (Sidgwick) کے نزدیک مستقل
اقدار تین ہیں: (Becevolence) (Prudence) اور (Equity) پہلی دو سے مراد ہے
زیادہ سے زیادہ انسانوں کا بھلا اور تیسری قدر سے مفہوم یہ ہے کہ ‘‘کسی ایک فرد کی
بھلائی کی ذاتی قیمت اتنی ہی ہے جتنی کسی دوسرے فر د کی اسی قسم کی بھلائی کی۔’’
(راشڈل جلد اوّل ، صفحہ 147)
پروفیسر (Whitehead) صداقت (Truth) حسن (Beauty) او ربھلائی (Goodness) کو مستقل اقدار
قرار دیتاہے ۔( Adventures Of Ideas: p. 345)پروفیسر جوڈبھی اس
سے متفق ہے وہ (Goodness)کو اخلاقی نیکی (Moral Virtue) کے نام سے تعبیر
کرتا ہے۔
(Guid to The Philosophy Of Morals And
Poliics: p. 439)
سیموئیل بٹلر کے نزدیک
صداقت (Veracity) عدل ( Justice) اور فلاحِ عامہ (ـCommon
Good)
مستقل اقدار ہیں ۔( Freed: p. III )ڈریش صرف رحمدلی (Pity) اور فرض کو مثال
مطاع تصور کرتاہے ۔ (Problems Of Individuality) (Soren
Kierkegarrd)
کے نزدیک ۔
اخلاق کیریکٹر کانام ہے
اور کیریکٹر وہ ہے جو انسان کی ذات کے اندر منقوش ہے کیریکٹر درحقیقت داخلیت کانام
ہے ۔بداخلاقی بھی توانائی کی حیثیت سے کیریکٹر ہے۔لیکن اگر کوئی شخص نہ تو اچھے
اخلاق کامالک ہے او رنہ ہی بُرے اخلاق کا تو وہ انسان نہیں حیوان ہے۔(The
Presentage)
کیریکٹر کسے کہتے
ہیں؟:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں سے ایک او رالجھا ؤ شروع ہوگیا کہ کیریکٹر کسے کہتے ہیں
۔باردیو کے نزدیک۔
اپنے آپ پر قابو رکھنے
کانام کیریکٹر ہے۔۔۔۔اوراس کامظاہرہ ماحول کی کیفیت کی نسبت سے ہوتاہے۔ مزاج تو
قدرت کاعطیہ ہے لیکن کیریکٹر حاصل کیا جاتاہے ۔
(Slavery And Freedfom)(Kerschens Teiner)کہتا ہے کہ کیریکٹر
کی دوقسمیں ہیں ایک عام مفہوم میں جب کامطلب ہے‘‘ انسانی ماحول کے متعلق انسان کا
وہ رویہ جومستقل ہو او ر اس کامظاہرہ اس لئے اعمال سے ہوتا رہے اور دوسرا خاص
مفہوم (جسے وہ اخلاقی کیریکٹر کہتا ہے) جس کامطلب یہ ہے کہ ‘‘انسان اپنے تمام
اعمال میں مستقل اقدار کو ہمیشہ ترجیح دے’’۔
(The Concept And Deucation Of Character)
(Advnture Of Ideas: p. 333) کے نزدیک بھی
‘‘کیریکٹر ضبط خویش کا نام ہے۔ اس کے بغیر انسانی قلب اور شخصیت دونو ں غیر متوازن
ہوجاتے ہیں۔’’ (The Only way) ،مارٹن بوبر کے نزدیک:۔
خیر کے معنی ہیں ایسا سفر
جس میں ہر قدم منزل مقصود کی طرف اٹھے او رشر کے معنی ہیں انسانی ممکنات کا بگولے
کا سار قص دنیا میں انسانی ممکنات کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا ۔لیکن اگر
یہی قوّتیں ایک خاص سمت کی طرف جانے میں استعمال نہ کی جائیں اور ایک دوسرے میں
الجھی رہیں تو ہر طرف فساد ہی فساد رونما ہوجاتا ہے۔(Between
Man And Man)
سطور بالا میں آپ نے
دیکھا ہے کہ مختلف مفکّرین کے نزدیک مستقل اقدار کو ن کون سی ہیں ۔لیکن انہوں نے
صرف چند اصطلاحات کو پیش کردیا ہے۔ ان اصطلاحات کے متعلق اوّل تو یہ دیکھئے کہ یہ
مبہم ہیں اور واضح اور متعین طور پر معلوم نہیں ہوسکتا کہ ان کامفہوم کیا ہے۔ ان
کا جو مفہوم خود واضعین اصطلاحات نے بیان کیا ہے وہ ان اصطلاحات کی وضاحت کے بجائے
انہیں او رمبہم بنا دیتا ہے ۔مثلاً وہائٹ ہیڈ کے نزدیک جب ظاہر (Appearance) حقیقت (Reality) کے ساتھ ہم آہنگ (Conform) ہوجائے تو اسے
صداقت (Truth) کہتے ہیں ۔
(Adventure Of Ideas: p. 300)
اور
کسی تجربہ میں مختلف
عناصر کے باہمی توازن کا نام حسن (Beauty) ہے۔(324)
اور جب صداقت حسین ایک
جاجمع ہوجائیں تواس سے (Goodness) پیدا ہوجاتی ہے ۔یہ ظاہر ہے کہ اس وضاحت سے مزید ابہام پیدا
ہوگیا ۔مثلاً صداقت کی تعریف کو دیکھئے ۔ ا س تعریف کی رو سے ظاہر کا حقیقت کے
ساتھ ہم آہنگ ہوجانا صداقت کہلاتا ہے ۔لیکن ہمیں جب تک یہ معلوم نہ ہوجائے کہ
حقیقت(Reality) کیاہے۔ ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ظاہر حقیقت کے ساتھ ہم آہنگ
ہوچکاہے یا نہیں۔
سو پہلی چیز تو یہ ہے کہ
یہ اصطلاحات خود محتاج معافی ہیں لیکن اس سے بھی اہم سوال دوسرا ہے ۔ او روہ یہ کہ
ان مفکرین کے پاس اس کیا دلیل ہے کہ یہ مستقل اقدار ہیں؟ مستقل یا مطلق قدر کے
معنی یہ ہیں کہ زمانہ کے تغیّرات اور احوال و ظروف کے تبدّلات اس پر کسی صورت سے
بھی اثرانداز نہ ہوں وہ زمان و مکان کی حدود سے بالا ہو اوراس کی قیمت خود اس کی
اپنی ذات ہو۔ اس قسم کی اقدار ذہن انسانی کی پیداوار ہو لیکن سکتیں خواہ وہ ذہن
میں کتنے ہی بڑے مفکّر کا کیوں نہ ہو۔
اس لئے دوسرا نظریہ ی ہے
کہ مطلق اقدار صرف نفس مطلق (یعنی خدا کی طرف سے مل سکتی ہیں ۔اس کے علاوہ ان کا
سرچشمہ کوئی نہیں ہوسکتا یہا ں سے مذہب کی دنیا شروع ہوتی ہے جس کی بنیاد اس عقیدہ
پر ہے کہ مطلق اقدار کا علم خدا کی طرف سے بذریعہ وحی ملتی ہے اور ا کے باہر یہ
علم کہیں او رنہیں ہوتا ۔اس کے متعلق تفصیلی گفتگو کا مقام آگے آئے گا۔
سابقہ تصریحات کی روشنی
میں ہم اس مقام تک پہنچ گئے ہیں کہ مستقل اقدار یا خیر مطلق یا حق مطلق صرف خدا کی
طرف سے مل سکتی ہے۔ اس نقطہ سے فلسفہ اخلاقیات کایک نہایت اہم سوال پیدا ہوتا ہے
جو درحقیقت اصل موضوع سے بھی کہیں زیادہ مشکل ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ
شرکا خالق کون
ہے؟:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (1) جب ہم خیر مطلق (Absolute Good) کا وجود تسلیم کرتے
ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ ہم اس کے بالمقابل شرمطلق (Absolute
Evil)
کا وجود بھی تسلیم کریں۔
(2)اور جب ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ خیر مطلق خدا کی طرف سے ملتا ہے
تو کیا شرمطلق کا خالق بھی خدا ہی ہے۔
(3) کیا یہ عقیدہ کہ خدا نے شر کو بھی پیدا کیاہے خدا کے متعلق غلط
تصور نہیں پیدا کرتا؟
(4) اگر یہ مانا جائے کہ شر کو خدا نے پیدا نہیں کیا تو پھر خالق
شرکی او رکو ماننا پڑے گا ۔یہ ثنویت (Dualism) کاعقیدہ ہے جس پر
مذہب زرتشتی کی بنیاد ہے یعنی اہرہن ویزداں دو مستقل قوتوں کے وجود کا تسلیم کرنا۔
یہ سوالات وہ ہیں جنہوں
نے اس وقت سے انسانی فکر کو غلطاں وپیچاں بنا کر رکھا ہے جب سے اس نے نظریہ
اخلاقیات کے متعلق سوچنا شروع کیا ہے۔ جب انسان دیکھتاہے کہ دنیا میں ہر طرف دکھ،
درد، مصائب ، آلام، غریبی، تباہ کاری،بربادی پھیلی ہوئی ہے جب وہ محسوس کرتاہے کہ
ہر جگہ ظلم، استبداو،بے انصافی کا دور دورہ ہے۔ہر طاقتور کمزور کا گلا گھونٹ رہا
ہے ، ہر آہنی پنتجہ مظلوم کو گوشت نوچ رہا ہے ہر تیز دانت غریب کا کلیجہ چبا رہاہے
تو وہ کائنات کے اس تصور سے گھبرا تا ہے ۔ وہ پوچھتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ خدا کی
مرضی سے ہورہا ہے اگر اس کی مرضی سے ہورہا ہے توخدا بڑا ہی ظالم ہے اور اگر اس کی
مرضی کے خلاف ہورہاہے تو وہ بڑاہی کمزور ہے ۔دونوں صورتوں میں خدا خدا نہیں ہوسکتا
۔ ان سوالات نے انسانی ذہن کو س قدرچکّر دیئے ہیں کہ ان سے گھبرا کر اس نے کہیں
گوتم بُدھ کی طرح دنیا تیاگ کربن باس اختیار کرلیا او رکہیں نیلشے کی طرح قوت او
رفقط قوت کو حقیقت او رباقی سب کچھ توہم پرستی سمجھ لیا کہیں اس نے ہندوؤں کی طرح
سڑکو محض فئریب (مایا) تصور کر کے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے میں حفاظت کا
سامان ڈھونڈلیا اور کہیں مجوسیوں کی طرح ‘خیر اور شر کے لئے دو الگ الگ مستقل
قوّتیں تسلیم کرکے اس تضاد میں تو افق پیدا کرنے کی خود فریب کوشش کرنے لگ گیا۔لیکن
فکر انسانی نے اس گتھی کو جس قدر سلجھا نے کی کوشش کی یہ اسی قدر اورالجھتی چلی
گئی ۔ہمارے لئے یہ مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کہ ہم مختصر الفاظ میں بتاسکیں کہ اس
بارے میں اس وقت تک کیا کچھ سوچا گیا ہے اور اس کے لئے کیا کیا دلائل کئے گئے ہیں
۔ اس مقام پر صرف اتنابتا یا جاسکے گا کہ اس بارے میں انسانی فکر نے کون کون سے
راستے اختیار کئے ہیں او روہ راستے اسے کس کس مقام تک لے گئے ہیں۔
سیلاب سے تباہی آجاتی ہے
ہیضہ سے گھرو کے گھر خالی ہوجاتے ہیں ۔لہٰذا سیلاب اور وبا شر ہیں۔
کوئی شخص میرا حق دبا
لیتاہے ۔یہ بھی شر ہے پہلی قسم کے شر کو فطری شر (Natural
Evil)اوردوسری
قسم کو اخلاقی شر (Moral Evil) کہا جاتاہے ۔ثانی الذکر کو مذہب کی اصطلاح میں گناہ کہتے ہیں۔
پہاڑو ں پر زور کی بارش
ہوتی ہے۔ پانی کی طغیانیاں جنگلوں اور صحراؤں کو جل تھل کردیتی ہیں لیکن ہمیں
احساس تک نہیں ہوتا کہ کوئی شر واقع ہوتا ہے ۔لیکن جونہی وہ سیلاب آبادیوں کا رُخ
کرتاہے سارے ملک میں قیامت برپا ہوجاتی ہے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ شراس وقت شر بنتا ہے
جب اس سے انسان متاثر ہوتے ہیں۔ جنگ میں سانپ اپنی زندگی جیتا اور اپنی موت مرجاتا
ہے۔لیکن وہ جو نہی کسی انسان کوڈس لیتاہے تو اس کا زہر شر بن جاتاہے ۔لہٰذا شرکا
تعلق انسان سے ہے فطرت سے نہیں۔
ہم اپنے بیمار بچے کو
غلطی سے دوا کی جگہ سنکھیا دے دیئے ہیں۔ وہ مرجاتاہے ۔دوسرا شخص کسی کے بچے کو جان
بوجھ کر سنکھیا دے دیتاہے جس سے وہ ہلاک ہوجاتا ہے ۔نتیجہ کے اعتبار سے دونوں
افعال شر میں داخل ہیں لیکن اوّلالذکر کو کو غلطی کہیں گے اور ثانی الذکر کو جرم
لہٰذا بعض شرذہنی (Intellectual Evil) ہوتاہے اور بعض
اخلاقی شر (Morak Evil)
ان مبادیات کے بعد آگے
بڑھئے۔
راہزن کے حق میں رات کا
اندھیرا خیر ہوتاہے ۔راہر د کے حق میں شر اس سے ایک مکتب فکر کا خیال ہے کہ کوئی
شے فی ذاتہ شر نہیں ہوتی شر محض اضافی ہے۔
ہیکل کانظریہ ہے کہ
کائنات کی کسی شے کو اگر جزواً جزواً دیکھا جائے تو اس کے الگ الگ حصے شر کے لئے
بنیادیں کھدنا ، چونا پسنا ،اینٹ او رپتھر کے ڈھیر لگ جاناالگ الگ شرہیں لیکن
عمارت بتمامہ خیر ہے ۔ اس لئے اس کا خیال ہے کہ شر، خیرناتمام کا نام ہے۔
ایک نظریہ یہ ہے کہ خیر
کی قیمت اور اہمیت نکھر کر سامنے نہیں آسکتی جب تک اس کے مقابل میں شر کا وجود نہ
ہو۔بیمار ی کا وجود صحت کی قدر کراتا ہے ۔بھوک کی تکلیف کھانے کی اہمیت بتاتی ہے
۔تاریکی سے روشنی مطلع انوار بنتی ہے ،سیاہ پس منظر تصویر کے خط وخال نکھارتا ہے
۔بقول غالب
لطافت بے کثافت جلوہ پیرا
ہو نہیں سکتی
چمن زنگا رہے آئینہ باد
بہاری کا
ایک نظریہ یہ کہ انسان
سمجھتاہے کہ کائنات میں جو کچھ ہورہا ہے سب اس کے لئے ہورہا ہے ۔
اس کے سوا کائنات میں او
رکوئی بستاہی نہیں ۔لہٰذا جو چیز اس کے لئے باعث نقصان ہوجاتی ہے ،یہ اسے شر مطلق
قرار دے دیتاہے اورنہیں سوچتا کہ ہوسکتا ہے کہ یہی چیز دوسری مخلوق کے لئے نفع
رساں ہو۔ انسان کو اس قدر کوتاہ نظر واقع ہوا ہے کہ اگر بارش سے کسی کا کاروبار
ایک دن کیلئے بند ہوجائے تو وہ بارش کو کوسنے لگ جاتاہے (اور ا کا بس چلے تو وہ
اسے فوراً بندکرادے) لیکن وہ اتنا نہیں سوچتا کہ وہ سارا اناج جس پر اس کی (اور اس
کے ساتھ کروڑوں اور انسانوں کی) زندگی کا دارومدار ہے اسی بارش کے ذریعہ پیدا ہوگا
۔لہٰذا جس چیز کو انسان شر تصور کرتاہے ہوسکتاہے کہ وہ کائنات کی دیگر مخلوق کے
لئے خیر ہو۔
ااسی سے ملتا جلتا نظریہ
یہ ہے کہ کائنات کا ایک مقصد ہے او رجو کچھ کائنات میں ہورہا ہے وہ اس مقصد کی
تکمیل کے لئے ہے لیکن ہماری نگاہ صرف پیش پا افتادہ مصلحت ہی کو دیکھ سکتی ہے
۔کائنات کی مصلحت کلّی کا ہم احاطہ نہیں کرسکتے ۔
خیر وشر کے مسئلہ کی
پیچیدگیوں سے گھبرا کر ہندو فلسفہ نے اس کا آسان حل سوچ لیا اس فلسفہ کی رو سے
شرکاوجود ہی کہیں نہیں ۔یہ محض فریب نگاہ ہے سراب ہے ،مایا کاجال ہے ۔ وجود صرف
خیر ہی کا ہے۔ اندھیرا فقط روشنی کے نہ ہونے کا نام ہے۔ ان کے نزدیک ،چونکہ مادہ
شر کامظہر ہے اس لئے اس فلسفہ کی رو سے مادی دنیا سب سراب ہے اور انسانی شعور کو
تخلیق ،شعور کو ختم کردیجئے دنیا کاوجود ختم ہوجائے گا اس لئے
چشم بند وگوش بندولب یند
نہ رہے بانس نہ بجے
بانسری۔
اس کے برعکس شوپنہارکا
فلسفہ یہ کہتا ہے کہ دنیا میں خیر کا وجود ہی نہیں ۔سب شر ہی شر ہے ۔خیر ہمارے
فریب نفس سے پیدا ہوتا ہے ۔چنانچہ اس کے نزدیک ‘‘فلسفہ او رمذہب موت کی تخلیق
ہیں’’ ۔اگر موت نہ ہوتی تو ان چیزوں کا وجود ہی نہ ہوتا ۔برٹرینڈ رسل اس باب میں
اپنی کتاب (Mysticism And Logic) میں لکھتا ہے۔
تصوف (باطنیت) کاعقیدہ ہے
کہ شر کا وجود محض فریب ہے ۔لیکن کبھی خیر کے متعلق بھی اس کا یہی عقیدہ ہوتا ہے۔
بالعموم اس کا رجحان اس طرف ہے کہ حقیقت جہاں بھی ہے خیر ہے یونانی مفکّر ہراقلیطس
کے ہاں دونوں نظریات پائے جاتے ہیں وہ کہتاہے کہ ‘‘خیر اور شر اصل میں دونوں ایک
ہیں ‘‘اور کہیں کہتاہے کہ ‘‘ خدا کے نزدیک تو ہر شے خیر اور حق وعدل ہی ہے لیکن
انسان بعض چیزوں کو حق قرار دے دیتا ہے اور بعض کو باطل ’’ اسپنوڑا کے ہاں بھی اس
قسم کیا ثنوت پائی جاتی ہے لیکن جب وہ اس خیر کا ذکر کرتاہے جس کاتعلق صرف انسانی
دنیا سے نہیں تو اس کے لئے وہ ‘‘تکمیل’’ کی اصطلاح استعمال کرتاہے وہ کہتاہے کہ
‘‘میرے نزدیک حقیقت او رتکمیل ایک ہی چیز ہے’’ لیکن دوسری جگہ یہ کہتا ہے کہ ‘‘خیر
سے میری مراد وہ کچھ ہے جس کے متعلق ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے
نفع رساں ہے ۔ (31)
ہندو مت(نیز تصوف) کے اس
نظریہ کے برخلاف (کہ شر کا وجود ہی نہیں) اور شو پنہا کے اس نظریہ کے خلاف (کہ خیر
کا وجود ہی نہیں) ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ خیر بھی حقیقی وجود رکھتاہے اور شر بھی
دونوں فی الحقیقت موجود ہیں۔جوڈ اس نظریہ کا حامل ہے اور راشڈل بھی ۔
(Guide To Philosophy Of Ethics And Nordas:
p.450)
ثانی الذکر کا یہ عقیدہ
ہے کہ شر کا وجود تکمیل خیر کا ذریعہ ہے ۔اس مفروضہ کی بنا پر دنیا میں جس قدر شر
پایا جاتاہے اس کے متعلق یہی سمجھناچاہئے کہ اس کا وجود اس خیر کثیر کیلئے ضروری
ہے جسے فطرت بروئے کار لانا چاہتی ہے (جلد دوم ص 236) فطرت کے پروگرام کے مطابق
خدا، انسانوں کے ہاتھوں اس خیر کثیر کو بڑھاتا جائے گا او راس کے ساتھ ہی شر کی
ضرورت کم ہوتی جائے گی ۔حتیٰ کہ تکمیل خیر کے بعد شر کی ضرورت باقی نہیں رہے گی
اور یوں شر ختم ہوجائے گا۔ (ایضاً ص 355)
اسی سے ملتا جلتاہے وہ
سرامکتب فکر ہے جو یہ کہتا ہے کہ سلسلہ ارتقاء منفی اور مثبت قوّتوں کی کش مکش سے
جاری ہے، نہر کی روانی کے لئے ضروری ہے کہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر اس کی راہ میں
پتھروں کی ٹھوکریں (Falls) بنادی جائیں تاکہ اس کی رفتار میں تیزی پیدا ہوتی رہے ۔شر ان
موانع کانام ہے جن سے خیر کی نمود ہوتی ہے ۔
اوسپنسکی کے الفاظ میں:۔
کائنات میں دو قسم کے
طریق کا ر جاری ہیں تخریبی اعمال اور تعمیر ی اعمال ۔دن دونوں کا وجود ضروری ہے اس
لئے کہ اگرتخریبی اعمال نہ ہوں تو تعمیری نتائج مرتّب ہی نہ ہوسکیں ۔تخریبی اعمال
تو وہ مسالہ ہیں جن سے تعمیری اعمال کی عمارت وجود کو ش ہوتی ہے ۔تخریب سے تعمیر
ہوتی ہے لیکن اس کے بعد ہر تعمیر پھر رفتہ رفتہ تخریبی مراحل میں سے گزرتی ہے۱۔
(A New Model Of The Universe: p.24)
اس نظریہ کی رو سے
ارتقائے کائنات کا سلسلہ اسی طرح جاری ہے لیکن جب کھی ایسا ہو کہ کوئی طریق کار (Process) تخریب پرجاکر رُک
جائے تو اسے شر کہتے ہیں ۔وہائٹ ہیڈ کے الفاظ میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
اس نظریہ کی بنیاد درحقیقت ہیگل کے فلسفہ پر ہے جس کی تشریح کمیونزم کے عنوان میں
آئے گی کیونکہ وہی اس کا صحیح مقام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی تجربہ میں جب تخریبی
عنصر غالب آجائے تو اسے شرکہتے ہیں ۔
(Adventures Of Ideas:p.345)
میسن اس نظریہ کی شدّومد
سے تائید کرتاہے او رکہتاہے کہ خیروشر کی جس کشمکش سے عالم آفاق میں ارتقائی عمل
جاری ہے اسی کشمکش سے خود انسان کی اندرونی دنیا میں بھی تعمیر ذات کاعمل جاری ہے
جیساکہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں میسن کانظریہ یہ ہے کہ روح خالص (Pure
Spirit)
نے آپ پر جو قیود عائد کرکے مادی پیکر اختیار کرلیا وہی روح یا توانائی اپنے
تخلیقی تحّرک (Creative Impetus) سے رفتہ رفتہ مادہ سے پھر روح کی لطافتیں اختیار کرتی اور اس طرح
مادہ کی چار دیواری سے بلند ہوتی جاتی ہے۔ مادی موانعات روح کے ارتقا کے راستہ میں
حامل ہوجاتے ہیں ۔لیکن اس کا تخلیقی تحرّک ان تمام موانع پر غلبہ پاکر آگے برھنے
کی کوشش کرتاہے ۔جب کبھی ایسا ہوجائے کہ کسی روح ،مادی موانعات کے نیچے دب کررہ
جائے تو اس وقت ان موانعات کو شر کہا جائے گا چونکہ میسن کے نظریہ کا یہ حصہ بڑا
دلچسپ ہے ۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے اسی کے الفاظ میں پیش کیا جائے ۔ وہ کہتا ہے
کہ:۔
تخلیقی تحّرک رو ح کی
تخلیقی آزادی کو رفتہ رفتہ آگے بڑھارہا ہے جو شے اس مقصد کی راہ میں حائل ہوتی ہے
ہم اسے شر کہتے ہیں تخلیقی آزادی تعمیرذات ہی کے راستے آگے بڑھ سکتی ہے ۔اس لئے جو
شے تعمیرذات کی راہ میں حائل ہوتی ہے وہ شر بن جاتی ہے لہٰذا جب انسان تخلیقی
کاروبار میں مادہ کو صرف میں لائے تو ایسا کبھی نہیں ہوناچاہئے کہ مادہ کی
قدروقیمت اس کے اس غیر شعوری احساس پر ‘غالب آجائے کہ جو کچھ اس کی ذات مادی ذرائع
سے پیدا کرتی ہے ۔ اس کی ذات کی اپنی قیمت ان سب سے زیادہ ہے۔ سائنس انسان کی
نظروں سے یہ اہم حقیقت کے مسئلہ کو نہ تو سائنس حل کرسکتی ہے نہ ہی مذہب ۔۔۔۔۔
سائنس یہ نہیں بتاسکتی کہ روح کا سرچشمہ کیا ہے اور وہ مادہ یہ نہیں بتا سکتاہے کہ
مادہ کا سرچشمہ کیا ۔ اس لئے نہ سائنس نہ مذہب روح او رمادہ میں توافق پیدا کرسکتے
ہیں۔لہٰذا شر کے مسئلہ کاحل پیش نہیں کرسکتے لیکن جب اس مسئلہ کو ‘‘تخلیقی آزادی’’
کے نظریہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو سارامسئلہ حل ہوجاتا ہے اس نظریہ کی رو سے شر
سے مفہوم ہوتے ہیں وہ موانع جو تخلیقی تحرّک کے راستے میں حائل ہوتے ہیں۱۔۔۔۔ یا یوں سمجھئے کہ
شعور ذات ،ان مشکلات کو جو تخلیقی تحّرک آزادی کی جستجو کی راہ میں پیش آتی ہے شر
کا نام دے دیتاہے ۔۔۔۔ اس نظریہ کی رو سے شر کوئی مقرر شدہ شے نہیں رہ جاتی ہے۔(ص
207-9)
(Creative Freedom: p. 207-209)
مارٹن بوبر ’خیروشر کے
تضاد میں توافق کی صورت پیدا کرنے کی کوشش یوں کرتاہ ۔
خیر وشر دومتصادم وچیزوں
کے نام ہیں جس طرح دایاں او ربایاں یا ااوپر او رنیچے تضادات کانام ہے۔ خیر سے
مفہوم ہے وہ قوت جو ہمیں منزل حیات کی طرف لے جائے اور شر سے مراد ہے انسانی قوتوں
کا (منزل کی سمت نہیں بلکہ) بگولے کی طرح رقص کرنا۔
(Between Man And Man)
یہاں تک ہم نے شر کے اس
حصہ سے بحث کی ہے جس کا تعلق فطرت سے ہے۔ باقی رہا اخلاقی شر (یعنی جسے گناہ کہا
جاتاہے) سویہ ظاہر ہے کہ وہ انسانی اختیار وارادہ کامظہر ہے ۔اس ضمن میں ولیم جمیز
(William James) اپنی مشہور کتاب(The Varieties Of Religious
Experience)
میں لکھتا ہے کہ :۔
بعض لوگ وہ ہیں جن کے
نزدیک شر سے مرادیہ ہوتی ہے کہ انسان اپنے ماحول کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہوسکے ۔ اس
قسم کے شر کا علاج ہوسکتا ہے یعنی ماحول کو بدل دینے سے یا اپنے آپ کو بدل لینے سے
یا دونوں کو اس طرح بدل دینے سے کہ باہمی تضاد کی کوئی شق باقی نہ رہے ۔لیکن بعض
لوگ ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک شر محض خارجی ماحول سے عدم توافق کانام نہیں بلکہ وہ
کہتے ہیں کہ شر انسان کی ذات کے اند پیوست ہے جسے نہ تو ماحول کی تبدیلی ہی زائل
کرسکتی ہے او ر نہ ہی انسان کی داخلی تبدیلی (یعنی ان کے نزدیک انسان فطرتی طور پر
بدواقع ہوا ہے) اس لئے مافوق الفطرت مدد کی ضرورت ہے۔(ص۔131-132)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
‘‘ شیطان ’’عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی راستہ روکنے والا مزاحمت کرنے والا(The
Hinderer)
ہے۔( بحوالہ (Buber) ص 208)
یہ کہ انسان کی فطرت میں
شر ہے اور ہر انسان پیدائشی طور پر برُی طینت کاواقع ہواہے ۔ عیسائیت کا اصول مذہب
ہے ان کے نزدیک اس شر کا علاج حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کفارہ سے ہوسکتا ہے
۔لہٰذا فطرت انسانی کے بنیادی شر کے ازالہ کے لئے جناب مسیح کی الوہیت اور تصلیب
پر ایمان لانا ضروری ہے۔
لیکن اب خود یورپ کے
مفکّرین اس نتیجہ پر پہنچ رہے ہیں کہ ‘‘ فطری گنہگاری کا عقیدہ باطل اور ہزار
خرایبوں کا موجب ہے’’۔ چنانچہ (R.F.Johnson) اپنی کتاب(Confucianism
And Modern China)
میں لکھتا ہے کہ :۔
ازلی گناہ کا عقیدہ
درحقیقت ازلی خرابی ہے جس کی وجہ سے ہم ہر قسم کے خیر سے بیزاراور ہر قسم کے شر کی
طرف مائل رہتے ہیں۔
سرہنری جونس اپنی کتاب (A
Faith That Enquires) میں اس عقیدہ کی تردید کرنے کے بعد فطرت انسانی کے نیک ہونے کا
اعلان کرتاہے ۔( Sir James Irwine) نے سینٹ اینڈ ریوز کے گرجے میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ :۔
جو چیز میرے دل میں سب سے
زیادہ اہمیت لئے رہتی ہے وہ یہ ہے کہ میرے تجربہ نے میرے اس احساس کو اور بھی شد
ید کردیا ہے کہ انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے نیک ہے ۔
مشہور عالم نفسیات (William
MC Dougall)
اپنی کتاب (Character And The Conduct Of Life) میں لکھتا ہے کہ :۔
اب دور حاضر کے بچے کی
عزت نفس کو شروع ہی سے اس عقیدہ ے ٹھیس نہیں لگائی جاتی کہ وہ فطرتاً بدواقع ہوا
ہے بلکہ اب اس کی تربیت اس کلّیہ کے ماتحت عمل میں آتی ہے کہ وہ فطرتاً ناک ہے اور
شُستہ اورمہذّب ماحول میں وہ یقینا نیکی، سچائی اور حسن کامتلاشی ہوگا۔ یہ یقینا
فوز عظیم ہے۔
مسٹر (A.E.
Tayler)
لکھتا ہے کہ ‘‘ یہ عقیدہ ایک بطلان ہے’’ اور
میں کسی ایسے سائنٹیفک
اور خدا کی طرف دعوت دینے والے مذہب کو خوش آمدید کہوں گا جو ہمیں فطرت انسانی پر
ایسی مضحکہ انگیز تہمت پر ایمان رکھنے کی ضرورت سے بچا لے۔ (Mind:
July 1912)
عیسائیت نے شر کو انسان
کی فطرت میں مستقل طور پر داخل کردیا تھا۔ اس کے برعکس افلاطون (Plato) نے کہا کہ :۔
فطرت انسانی میں خدا ئی
صفات شامل ہیں ۔
(The Works Of Plato----Protagoras)
اس کے برعکس (Ortegay
Gaesset)
اپنے مقالہ (History, As A System) میں لکھتا ہے کہ :۔
انسان کو فطرت کچھ نہیں
اس کی صرف تاریخ ہے۔
(Quoted By Ernst Cassirer In 'An Essay On
Man')
یہ ہیں شر کے متعلق نہایت
مختصر الفاظ میں مختلف نظریات علامہ اقبال ان متضاد نظریات پر بحث کرنے کے بعد
لکھتے ہیں کہ :۔
ان متشائم اور متفاؤل
نظریات (Passimism And Optimism) نے جو سوالات
پیداکردیئے ہیں کائنات کے متعلق ہمارے علم کی موجود ہ سطح ان کاآخری دریافت کرنے
سے قاصر ہے۔ہماری ذہنی ساخت ایسی ہے کہ ہم اشیائے کائنات کاصرف جزئی مطالعہ کرسکتے
ہیں ہم ان تمام قوتو ں کو تماماً نہیں دیکھ سکتے جو ایک طرف تباہیاں لاتی ہیں اور
دوسری طرف زندگی کے آسرے اور اس کی نشوونما کے ذرائع بنتی ہیں۔(خطبات77)
اس کے بعد وہ بتاتے ہیں
کہ قرآن کی تعلیم اس باب میں کیا ہے ۔لیکن اس تشریح کا یہ موقع نہیں ۔یہ حصہ اپنے
مقام پر آئے گا۔
(Gaesses) نے کہاہے کہ ‘‘ انسان کی فطرت کچھ نہیں، اس کی صرف تاریخ ہے۔’’
تو اگر چہ اس نے یہ بات اپنے ایک خاص مقصد کے ماتحت کہی ہے لیکن اس کے باوجود اس
میں بہت بڑی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ‘‘فطرت انسای’’ کے متعلق افلاطون سے
لے کر اس وقت تک اتناکچھ کہا جاچکاہے کہ اسے سنتے سنتے انسان کے کان بہرے ہوجاتے
ہیں۔ لیکن اس طرف کسی کا خیال نہیں گیا کہ جسے انسان کی فطرت کہاجاتاہے وہ درحقیقت
اس جبلّت کے مظاہرے ہیں جو انسان کی اس زندگی میں رونما ہوتے ہیں جو حیوانی سطح پر
ہے ۔یایو ں کہئے کہ یہ چیز انسان کے ‘‘حیوانی حصہ’’ سے متعلق ہے جہاں سے انسان کی
زندگی شروع ہوتی ہے وہاں کوئی ایسی چیز نہیں جسے اس کی لگی بندھی فطرت کہا جاسکے ۔
اس کے اندر ممکنات کی ایک دنیا آباد ہے جنہیں بروئے کارلانے کے لئے اسے بہت سی
قوّتیں ملی ہیں ۔ وہ اس باب میں آزاد ہے کہ ان ممکنات میں سے جسے چاہے اپنے لئے
منتخب کرے اور پھر اس کے حصوں کے لئے کوششیں کرے۔یعنی انسان اس باب میں آزاد ہے کہ
وہ اپنے لئے جو راستہ چاہے منتخب کرے ۔ وہ کسی خاص راستے پر چلنے کے لئے مجبور
نہیں پیدا کیا گیا ۔اگر اسکی کوئی متعین فطرت تسلیم کرلی جائے تو اسے مجبورماننا
پڑے گا او راگر سے مجبور مان لیا جائے تو ‘‘اخلاقیات’’ کی ساری عمارت نیچے آگرتی
ہے۔ اخلاقیات کااطلاق کسی آزاد کے اعمال پر ہی ہوسکتا ہے ۔مجبور خیر اور شر کے
حدود سے باہر ہوتا ہے ۔اگر بکری کسی دوسرے کے کھیت میں گھُس جائے تو آپ بکری کو
قابل مواخذہ قرار نہیں دیتے ۔ بکری کے مالک پر مقدمہ چلاتے ہیں ۔اگر کوئی پاگل کسی
کے پتھرماردے تواے سزا کے لئے جیل خانے نہیں بھیجتے علاج کے لئے پاگل خانے بھیجتے
ہیں۔ سانپ کبھی عدالت میں پکڑکر نہیں لائے جاتے ۔اس لئے یہ سب ان افعال میں مجبور
ہوتے ہیں او رمجبور نہ نیکی کا ذمہ دارہوتاہے نہ بدی کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرآن کریم اخلاقیات کے
مسئلہ کوبڑی آسانی سے حل کردیتاہے اس کی رو سے
(1) انسان صرف اس کے طبیعی جسم کا نام نہیں ، جسم کے علاوہ ایک اور
شے بھی ہے جسے انسانی ذات (Human Personality) کہتے ہیں ۔اگر
انسانی ذات کی صحیح نشو ونما ہوجائے تو یہ موت کے بعد زندگی کا مزید ارتقائی منازل
طے کرنے کے قابل ہوجاتاہے ۔
(2) جن اعمال سے انسانی ذات کی نشو ونما ہووہ خیر ہیں اور جن سے اس
کی نشو ونما رُک جائے وہ شر ہیں
(3) انسانی ذات کی نشو ونما ان مستقل اقدار کے مطابق زندگی بسر
کرنے سے ہوتی ہے جو وحی کے ذریعے تمام نوع انسانی کی راہ کے لئے ملی ہیں اور جو
اپنی مکمل شکل میں قرآن میں محفوظ ہیں۔
(4) ان اقدامات کے مطابق زندگی اجتماعی معاشرہ میں ممکن ہے انفرادی
طور پر نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتدائی صفحات میں ہم
دیکھ چکے ہیں کہ کائنات اور انسان کامعاملہ تین شقوں میں بٹ جاتاہے ۔
(1) انسان اور کائنات کاباہمی تعلق
(2) انسان او رانسان کاباہمی تعلق ۔اور
(3) انسان کااپنی ذات سے تعلق۔
شق اوّل کے متعلق ہم
‘‘طبیعیات ’’ کے ضمن میں گفتگو کر چکے ہیں شق دوم کا تعلق سیاسیاست سے ہے اور شق
سوم کامذہب سے۔آئندہ صفحات میں پہلے سیاسیات کا عنوان سامنے آئے گا اور اس کے بعد
مذہب کا اسلام ان تینوں شقوں کا مجموعہ ہے جو باہم دگر خدا کے تصور کے شیرازہ سے
بندھی ہوئی ہیں ۔ اس کے متعلق دوسری جلد میں گفتگو ہوگی۔
اب آئیے سیاسیات کی طرف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(5) اس اجتماعی معاشرہ کے سامنے اصول یہ ہوتاہے کہ
مَا یَنفَعُ النَّاسَ
فَیَمکثُ فِی الاَرضِ(13/17)
(دنیا میں بقا اور دوام صرف اس کے لئے ہے جو نوعِ انسانی کے لئے
نفع بخش ہو)۔‘‘نفع بخشی ’’ میں افراد انسانیہ کی جسمانی پرورش مضمر صلاحیتوں کی
نشو ونما اور انسانی ذات کا ارتقا سب آجاتا ہے (تفصیل ان امور کی دوسری کتاب میں
ملے گی)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسرا باب ختم
----------
( جاری)
--------------
Part: 1- 'What did the man think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Preface—Part 1 انسان نے کیا سوچا
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism