غلام احمد پرویز
اس باب میں ہم دیکھ چکے
ہیں کہ سائنس کی دنیا میں انیسویں صدی تک جو بنیادی اصول بطور مسلمات تسلیم ہوتے
چلے آرہے تھے بعد کے انکشافات نے انہیں کس طرح بدل دیا اور ان کی جگہ ایسے اصولوں
نے لے لی جن سے انسانی فکر، کائنات او ر خود انسان کے متعلق ایک جداگانہ زاویہ سے
سوچنے لگا۔ اس وقت تک کی بحث کے نتائج یہ ہیں کہ:۔
حاصل مبحث:۔۔۔۔(1)
میکانکی تصور حیات کی رو سے مادہ کو مادی شکل کامستقل جوہر سمجھا جاتاتھا لیکن
تحقیقات جدیدہ کے رو سے مادہ روشنی کی لہریں ،مربوط حوادث یامنجمد خیالات خیال کیا
جانے لگاہے اور اصطلاح فرق کو چھوڑ کر اب اس حقیقت کے اعتراف پر سب متفق ہیں کہ
مادہ کی ابتداء مادی کائنات سے نہیں ہوئی اس کی اصل ‘‘روحانی’’ دنیا سے متعلق ہے
جو مادہ کے بجائے مطلق توانائی حرکتِ محض یاروح خالص سے معمور ہے۔ اس دنیا کانام
‘‘غیب کی دنیا’’ یا غیر مرئی قرار دیا جارہاہے ۔
(2) اس غیب کی دنیا کا علم ہمارے حواس کے
ذریعہ ممکن نہیں۔
(3) زندگی مادہ کی پیداوار نہیں،بلکہ اس کا
تعلق بھی اسی غیب کی دنیا سے ہے۔
(4) شعور زندگی کے ارتقاء سے وجود میں نہیں
آیا بلکہ اس کا تعلق بھی اسی غیر مرئی عالم سے ہے۔
(5) میکانکی تصور حیات کی رو سے یہ مانا
جاتاتھا کہ فطرت کے قوانین علّت ومعلول کی جامد کڑیوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ
قوانین ‘‘اندھی فطرت کی اندھی قوت’’ کے ماتحت ایک مشین کی طرح کام کئے جارہے ہیں۔
ان میں نہ تغیر وتبدّل ہوسکتا ہے نہ حکّ واضافہ ۔لیکن اب تحقیقات جدیدہ کی رو سے
فکر انسانی یہ تسلیم کررہاہے کہ خود طبیعیات کی دنیا میں بھی قوانین فطرت متعین
نہیں ہیں بلکہ حوادث اس طرح رونما ہوتے ہیں کہ ان کے ظہور میں آنے سے پہلے ان کے
متعلق کبھی حتم و یقین سے کچھ کہا ہی نہیں جاسکتا۔
(6) سائنس کی رو سے پیدا شدہ تصورات کوئی
مستقل حیثیت اختیار نہیں کرسکے بلکہ ان میں آئے دن تبدیلیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔
نہ ہی ا ب علمائے سائنس کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے تصورات مطلق اور قول فیصل کی
حیثیت اختیار کرسکتے ہیں۔
(7) بناء بریں سائنس اب معترف ہے کہ وہ
کائنات کی حقیقت کاعلم بہم نہیں بچا سکتی۔ جب اس کے تجارب کے نتائج آخر ی اور
یقینی صورت اختیار کرلیں گے اس وقت بھی زیادہ سے زیادہ حقیقیت کے ایک پہلو کے
متعلق جزئی طور پر علم بہم پہنچا سکے گی۔ حقیقت کا کلّی ادراک اس کے بس کی بات
نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گذشتہ صفحات میں جو گفتگو
ہوئی ہے ان میں اکثر اس قسم کے الفاظ آپ کی نظروں سے گذرے ہوں گے کہ ‘‘سائنس نے اب
فلاں بات کا انکشاف کیا ہے۔’’‘‘ تحقیقات جدید نے یہ ثابت کردیا ہے۔’’ ‘‘ارباب فکر
نے اب یوں کہا ہے۔’’‘‘ جدیدنظریات نے اس طرح قدیم نظریات کا ابطال کیا ہے۔’’ ‘‘
فلاں تصور کی رو سے یہ معلوم ہوتا ہے ’’ ۔وغیرہ وغیرہ ۔ ان بیانات سے ظاہر ہے کہ
انسان اپنی تحقیقات ،تجارب، مشاہدات ، فکر وغیرہ کے ذریعے حاصل کرتا ہے ۔یہاں سے
یہ اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ انسانی علم کے ذرائع کیا ہیں؟
انسانی علم کے ذرائع:۔۔۔۔
او ران ذرائع سے جس قسم کا علم حاصل ہوتاہے اس کی حقیقت کیا ہوتی ہے؟ علم کی دنیا
میں یہ سوالات بڑے اہم اور بنیادی ہیں اور جب تک ان کے متعلق کچھ صحیح اندازہ نہ
ہوجائے، ہم مبحث زیر نظر میں آگے نہیں بڑھ سکتے ۔لہٰذا اب ہمیں ان سوالات کے متعلق
مختصر الفاظ میں گفتگو کرنی چاہئے۔ واضح ہے کہ یہ موضوع طبیعیات اور حیاتیات سے
زیادہ فلسفہ اور منطق سے متعلق ہیں لیکن چونکہک ہمارے دور میں فلسفہ اور طبیعیات
کچھ اس طرح باہمدگرممزوج ہوچکے ہیں کہ انسانی فکر میں یہ تانے بانے کا کام دے رہے
ہیں ۔ اس لئے ہم نے مناسب سمجھا ہے کہ ان سوالات کو اسی مقام پر سمجھ لیا جائے۔
میز سخت ہے شربت میٹھا ہے
چنبیلی اچھی خوشبو دار ہے ،لالہ کا رنگ سرخ ہے بلبل کا چہچانا خوش آئند ہے۔آپ کے
پاس ان تنائج پر پہنچنے کا ذریعہ کیا ہے؟ ظاہر ہے آپ نے میز کو ہاتھ سے چھوا۔شربت
کو زمان سے چکھا ۔چینبیلی کے پھول کو سونگھا ۔لالہ کو دیکھا۔۔ بلبل کاچہچہانا سنا
۔لہٰذا ان چیزوں کے متعلق آپ کا ذریعہ علم آپ کے حواس ہیں۔ حواس کے ذریعہ جو
معلومات حاصل ہوں وہ مدرکات یا (Perceptions) کہلاتی ہیں۔لہٰذا خارجی دنیا کے متعلق آپ کا ذریعہ علم مدرکاتی (Perceptual) ہے۔ مدرکاتی معلومات کے متعلق آپ کو کسی قسم کا شک و شبہ نہیں
ہوتا اس لئے کہ آپ انہیں براہ راست حاصل کرتے ہیں۔ یہ آپ کا روز مرّہ کا معمول
ہے۔لیکن کچھ وقت کے لئے ذرا اس ‘‘معمول’’ پر گہری نگاہ ڈالئے اور پھر دیکھئے کہ آپ
کی ان یقینی ‘‘معلومات ’’ کی حقیقت کیا رہ جاتی ہے۔‘‘ شربت میٹھا ہے ‘‘لیکن یہی
شربت اس وقت پیجئے جب صفرادی بخار سے آپ کے منہ کا مزاکڑوا ہورہا ہو، یہ شربت حنظل
جیسا تلخ ہوجائے گا۔
حواس ذریعہ علم :۔۔۔
‘‘چنبیلی خوشبودار’’ لیکن اسی چنبیلی کو زکام کی حالت میں سونگھئے بالکل کاغذ کے
پھول بن جائیں گے ۔‘‘پانی گرم ہے’’۔ اپنا ہاتھ برف میں رکھ کر پھرپانی میں ڈالیے
پانی گرم ہوگا۔ لیکن یہی ہاتھ سے تاپ کر اسی پانی میں ڈالئے وہی پانی ٹھنداہوجائے
گا ۔لہٰذا پانی نہ گرم ہے نہ ٹھنڈا ۔یہ آپ کا احساس ہے جو اسے گرم یا ٹھنڈا بتارہاہے۔
اور آگے بڑھئے ۔آپ آگ کے
سامنے کھڑے ہیں اور آگ کی حرارت کو محسوس کررہے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ حرارت آگ سے
نکل رہی ہے کچھ دیر کھڑے رہئے تاکہ آپ کے ہاتھ میں جلن پیدا ہوجائے۔ جلن سے درد
پیدا ہوجائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ درد بھی آگ ہی میں تھا ؟ او راگر یہ درد آگ
میں نہیں تھا ، آپ کے احسا س سے پیدا ہوگیا ہے تو اس کا کیا ثبوت ہے کہ حرارت آگ
میں تھی، آپ کے احساس کی نہیں تھی۔
آپ کے ہاتھ ہتھیلی پر
پیسہ رکھا ہے آپ کہتے ہیں کہ پیسہ گول ہے ۔اسی پیسہ کو میز پر رکھ کر ایک طرف سے
دیکھئے ۔پیسہ بیضوی دکھائی دے گا فرمایئے گول ہوتا ہے یا بیضوی۔
ان مثالوں سے آپ نے دیکھا
ہوگا کہ خارجی دنیا کی اشیاء وہی کچھ بن جاتی ہے جو کچھ اانہیں ہمارا‘‘ دل’’ بناکر
دکھائے ، جب ‘‘دل’’ اپنے خیالات میں جذب ہوتو نہ میز سخت محسوس ہوتی ہے نہ لالہ
سُرخ دکھائی دیتا ہے نہ بلبل کی آواز سنائی دیتی ہے ، نہ چنیبلی کی خوشبوکچھ اپنا
اتاپتا دیتی ہے۔
دل کی دنیا:۔۔۔۔ان تجربوں
کی دنیا میں مفکرین کا ایک گروہ اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ خارجی دنیا کے متعلق ہمیں
جو کچھ معلومات حواس کے ذریعہ حاصل ہوتی ہیں ان کا دارومدار تمام وکمال ہمارے نفس
(Mind) پر ہے۔ یہ ‘‘دل کی دنیا’’ ہے جس سے باہر کی
کائنات زندہ او رمتحرک ہے۔‘‘دل کی دنیا’’ بدل جانے سے باہر کی دنیا خود بخود بدل
جاتی ہے ۔لہٰذا وجود صرف ہمارے ‘‘دل’’ کاہے ‘خارجی اشیا اپنی ذات میں موجود ہی
نہیں ۔ خارجی دنیا کے متعلق ہمارا علم درحقیت اپنی ہی کیفیات کا علم ہوتا ہے جنہیں
تصورات (IDEAS)کہتے
ہیں ،مفکرین کے اس گروہ کو (Subjective Ideaalists) کہتے ہیں ۔لاک ، برکلے او رہیوم اسی مکتب فکر کے امام ہیں ، ان
کے خیال کے مطالق ہمارے دل میں حرارت کا خیال (IDEA) آگ کی حرارت بن جاتا ہے ۔سرخ رنگ کا خیال لالہ کو احمر یت عطا
کردیتا ہے، میٹھا س کا خیال شہد کو شیرینی بخش دیتا ہے۔ ورنہ اسی اصل کے اعتبار سے
نہ آگ گرم ہوتی ے نہ لالہ سرخ ،نہ شہد شیریں ، نہ نمک نمکین پر وفیسر وائٹ ہیڈ کے
الفاظ میں :۔
‘‘اس طر ح ہم خارجی دنیا کی اشیا ء میں جو
خصوصیات دیکھتے ہیں وہ درحقیقت اشیا کی خصوصیات نہیں ہوتیں، وہ تو خالصتہً ہمارے
‘‘دل’’ کی پیداوار ہوتی ہیں ۔فطرت مفت میں ان خصائص کے لئے مستحق تبریک وتحسین
قرار پاجاتی ہے ۔حالانکہ اس ستائش و تہنیت کا سزا دار خود ہمارا ‘‘دل ’’ ہے۔ نہ
پھول اپنی شام جاں نواز کے لئے درخور تحسین ہے،نہ عندلیب اپنے نغمہ دل ربا کے لئے
اورنہ آفتاب جہاں تاب اپنی نور افگنی کے لئے کسی تعریف و توصیف کامستحق ہے۔
شاعریوں ہی ان اشیاء کے حسن و جمال کے اترانے گاتے رہتے ہیں۔ انہیں اپنی غزلوں کا
مخاطب فطرت کو نہیں خود اپنی ذات کو بنا یا چاہئے او راپنے قصائد کو ممدرح خود
اپنے ‘‘دل’’ کو قرار دینا چاہئے ۔فطرت تو یکسر بے آب ورنگ واقع ہوئی ہے نہ اس میں
چنگ ورباب ہے نہ رنگ وشباب یہ سب کچھ ہمارے اپنے اندر ہے۔’’۔
(Science And The
Modern World)
ساری دنیا من کی دنیا
ہے:۔
میں اب سمجھا کہ دنیا کچھ
نہیں دنیا مرادل ہے بدل جانے سے اس کے رنگ
ہراک چیز کا بدلا
خارج میں نہ بہار ہے نہ
خزاں نہ نغمہ نہ فغاں
نہ کلی ہے وجہ نظر کشی نہ
کنول کے پھول میں تازگی
فقط ایک دل کی شگفتگی
،سبب نشاطِ بہار ہے
اس لئے حسن و جمال اور
رنگ ونغمہ خارجی دنیا میں تلاش نہیں کرناچاہئے دل کی دنیا میں ڈھونڈنا چاہئے ۔
ستم است گرہوست کشدکہ بہ
سیر سردوسمن ورآ
توز غنچہ کم نہ ومیدہ
دردل کشا بہ چمن ورآ
لاک(1632-1704ء) کا خیال
تھا کہ خارجی کائنات موجود تو ہے لیکن وہ نہیں جس کا علم ہمیں حواس کے ذریعہ ہوتا
ہے اس کے اپنے خواص اور جوہر ہیں جو محسوسات کے دائرہ میں نہیں آتے۔برکلے
(1685-1753ء) اس سے آگے بڑھا او را س نے کہا کہ ذاتی خواص تو ایک طرف خارجی دنیا
کی اشیاء کا جوہر (Substance)
بھی نہیں ہوتا ان سب کا وجود نفس (Mind) میں ہوتا ہے ۔انسانی نفس میں یا پھر خدا کے نفس (Mind) میں اس مکتب فکر کا تیسرا پیام برہیوم (1711-1776)ہے وہ اور امور
میں تو بالعموم لاک او ربرکلے سے متفق ہے۔لیکن برکلے کے ‘‘خدا کے تصور ’’ سے انکار
کرتا ہے۔ وہ نفس انسانی ہی کو مانتا ہے ۔البتہ اس کے مدرکات کو دوحصوں میں تقسیم
کردیتا ہے ۔ وہ مدرکات جنہیں نفس انسانی بڑی شدّت سے محسوس کرتاہے۔ ہیوم کے نزدیک
نقوش (Impressions) کہلاتے ہیں اور وہ جنکا اثر مدہم ہوتاہے
تخیلات (IDEAS)
نقو ش کا تعلق جذبات (Feelings)
سے ہے اور تخیلات کافکر (Thought) سے ۔ یہ نظر یہ ایک وقت تک خاصا مقبول رہا لیکن کانٹ نے اس کی
تردید کی۔ او رکانٹ کی تائید میگل نے کی۔ ان مفکّرین کے نزدیک یہاں تک تو درست ہے
کہ خارجی اشیاء خود ہمارے تخیلات (IDEAS) ہی کا پرتو ہیں ۔لیکن یہ اس سے انکار کرتے ہیں کہ ان کا انحصار
کسی خاص فرد کے تخیلات تمام نوع انسانی کے دل میں موجود ہیں لہٰذا یہ تخیلات خارج
میں موجود ہیں ہرفرد کے پیداکردہ نہیں ۔ اس اعتبار سے اس مکتب فکر کا نام (Objective
Idealism) قرار پایا ۔
(IDEALISM) انیسویں صدی کے آخر تک خاصی مقبول رہی لیکن بیسویں صدی میں اس
خلاف رحجان پیدا ہو او ررفتہ رفتہ اس کی تردید سے ایک نیا مکتب فکر ظہور میں آگیا
۔ اسے (Modern Realism)
کہتے ہیں ۔ ان کے نزدیک یہ تصور غلط ہے کہ اشیاء کا وجود محض مشاہدہ کرنے والے کے
‘‘دل ’’کی پیداوار ہوتا ہے ۔ اشیاء موجود فی الخارج ہیں۔ اس مکتب فکر کے نمائندے
پروفیسر (G.E.MOORE)
برٹرینڈرسل ،پروفیسر (G.D.BROAD)
وغیرہ ہیں۔ لیکن یہ صرف اس حد تک ہی آپس میں متفق ہیں کہ اشیاء موجودفی النحارج
ہوتی ہیں۔ جب یہ سوال سامنے آتا ہے کہ حواس ان اشیاء کے متعلق کس قسم کا علم فراہم
کرتے ہیں تو ان میں سے ہر مفکر الگ الگ باتیں کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں تک تو بات صرف اتنی
تھی کہ ماہیت اشیاء (The Intrinsic Nature Of Things) کے متعلق ہم معلومات حاصل کرسکتے ہیں یا نہیں، اب ایک اور سوال
سامنے آتاہے اور وہ ہے یہ کہ ہم جس قدر علم حاصل کرسکتے ہیں اس کا ذریعہ (یا یوں
کہئے کہ طریقہ) کیا ہے؟
ہمارے سامنے سڑک کے اس
پار ایک مکان جل رہا ہے ۔میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ مکان میں آگ لگ رہی
ہے ۔ میں کہتاہوں کہ ‘‘مکان جل رہاہے’’ یہ تیرا مشاہدہ ہیہ ۔میری آنکھوں دیکھا
واقعہ ہے ۔
میں کمرے میں بیٹھا لکھ
ررہاہوں کہ سڑک سے فائر انجن کی گھنٹی کی آواز سنائی دیتی ہے ۔و ہ آواز ایک خاص
سمت کی طرف جارہی ہے میں بیٹھے بیٹھے کہہ دیتا ہوں کہ کہیں آگ لگ گئی ہے ۔ظاہر ہے
ک آگ کو میں نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ۔فائز بریگیڈ کی گھنٹی سے میں
استدلالاً(By Reasoning)اس
نتیجہ پر پہنچ گیا ہوں کہ کسی جگہ آگ لگ گئی ہے ۔مفکر ین کا ایک گردہ ہے جو کہتا
ہے کہ استدلال (Reason)
ہی اصل ذریعہ علم ہے او راس ذریعہ سے ایک مفکر اپنے کمرے میں بیٹھا بلامشاہدات
،کائنات کی حقیقت کاعلم حاصل کرسکتا ہے اس مکتب فکر کے مفکرین کانام ( Rationalists) ہے۱۔
ان کا یہ کہنا ہے کہ جس طرح ریاضی کے بعض بنیادی اصول ہیں۔ مثلاً یہ کہ کسی عدد کو
دگنا کیجئے جواب ہمیشہ جُفت (Even) میں آئے گا ۔یا مثلّث کے زاویوں کا مجموعہ دوقالموں کے برابر
ہوتاہے۔ یہ اصول کسی دماغ کے وضع کردہ نہیں۔ یہ کس طرح وجود میں آگئے ہمیں اس کے
متعلق کچھ علم نہیں ۔لیکن یہ اصول موجود ہیں انہیں (Necessary
Facts) کہا جاتا ہے۔ ان اصولوں کی روشنی میں ایک
ماہر ریاضیات اپنے کمرے میں بیٹھا طبیعیات کے بڑے بڑے مسائل کا حل دریافت کرلیتاہے
۔ اسی طرح استدلال کے بھی کچھ غیر متبدّل اصول ہیں۔ ان اصولوں کی روشنی میں ایک
مفکر کائنات کے متعلق صحیح علم حاصل کرسکتا ہے ۔ان بنیادی اصولوں کو (Apriori) کہتے ہیں ۔ یعنی ایسے اصول جو اس استدلال کے لئے بنیادی طور پر
موجود ہوں مثلاً جب آپ اخلاقیات (Ethics) سے بحث کرتے ہیں تو آپ کو یہ ماننا پڑتاہے کہ (1) انسان اپنے
اعمال کے خود ذمّہ دار ہے اور (2) ہر انسان کے کچھ فرائض ہوتے ہیں ۔جب تک آپ ان
مفروضات کو بطور مسلّمات نہ مان لیں آپ علم الاخلق کے متعلق کوئی بحث ہی نہیں
کرسکتے۔ اس مکتب فکر کو عام طور پر(Aristotelian-Kantian) ‘‘ارسطوکانٹ’’ گروہ کہاجاتا ہے ان کے برعکس دوسراگروہ (Platonic-Hegelian) (افلاطون ہیگل) گروہ کہلاتاہے جو استدلال کا تو قائل ہے لیکن اس
قسم کے مسلمات(Apriori)
کا قابل نہیں ۔ اس کے نزدیک ہر مسلمہ اضافی ( Relative) حیثیت رکھتا ہے مطلق (Absolute) نہیں ہوسکتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
واضح رہے کہ یہ (Rationalism)
اس تحریک سے بالکل الگ چیز ہے جو (Rafionalistic Movement) کے نام سے یورپ میں شروع ہوئی تھی او رجس کادعویٰ تھا کہ عقل
انسانی ہی ادراک کی حقیقت کا واحد ذریعہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان
کے مقابل میں دوسرا گروہ ہے جو کتہا ہے کہ ‘‘مکان کو آگ لگ گئی ہے’’۔ اسی صورت میں
ممکن ہے جب کسی نہ اس کا مشاہدہ کیا ہو، یعنی ان کے نزدیک مشاہدہ (Observation) ہی واحد ذریعہ علم ہے۔ اس مکتب فکر کانام (Empiricists) ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مشاہدات کے ذریعہ ہم ایسے اصول مرتّب کرسکتے
ہیں جن کی روشنی میں ہم صحیح نتیجہ تک پہنچ سکیں لیکن یہ اصول مشاہدہ کے بع دہی
مرتّب ہوسکتے ہیں میں نے جب فائربریگیڈکی گھنٹی کو سن کر کہہ رہاتھا کہ کہیں آگ لگ
گئی ہے تو یہ اس لئے کہ متواتر تجربہ (یا مشاہدہ) کے بعد یہ طے پا گیا تھا کہ
فائرم بریگیڈاسی وقت کہیں جاتا ہے جب وہاں آگ لگ گئی ہو۔ اور فائر بریگیڈ والے فلا
ں انداز کی گھنٹی بجاتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ان امور کے مشاہدہ ( یا تجربہ) کے
بغیر اس نتیجہ تک پہنچنا نا ممکن تھا کہ کہیں آگ لگ گئی ہے۔
یہاں تک آپ نے دیکھ لیا
ہوگا کہ ( Rationallism)
کی روسے بعض بنیادی اصولو ں کو بطور مسلّمات ( یا معتقدات)(As
eliefs) ماننا پڑتا ہے ۔لیکن اہل تجارت ومشاہدات ان
معتقدات کے قائل نہیں ، ان کے نزدیک علم کی بنیاد یکسر مشاہدات و تجارب ہیں۔
ان دونوں گروہوں میں بڑی
شدید بحث چلی آتی ہے ۔(Ratinalists)
کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے کہ تجربہ او رمشاہدہ سے علم حاصل ہوتاہے لیکن یہ علم صرف
ان بنیادی مسلمات کی تائید کرتاہے جن کی بناء پر یہ تحربات عمل میں آتے ہیں ۔ اس
گروہ کا ابوالآبار ارسطو (Aristotle) ہے ۔ وہ کہتاہے کہ سائنس کا طریق استدلال بذریعہ مثال اور تجربہ
(یعنی (Demonstrative)
ہے۔ سائنس حوادثات کامشاہدہ کرتی ہے پیش نظر معلومات (Information) استخراج نتائج کرتی ہے۔ او راس طرح ان تنائج سے اپنے دعوے کا
ثبوت بہم پہنچاتی ہے لیکن دوچیزیں ایسی ہیں کہ سائنس ان کا ثبوت اس طرح بہم نہیں
پہنچا سکتی ۔اوّل وہ اپنے بنیادی مسلمات (Postulates) کو اس طرح ثابت نہیں کرسکتی اسے انہیں بطور مسلمات تسلیم کرنا
پڑتاہے ۔طبیعیات کو یہ تسلیم کرنا پڑتاہے کہ ایسی کائنات موجود ہے۔ جو زمان ومکان
کے اندر گھر ی ہوئی ہے ۔ ووسرے یہ کہ سائنس ان اصولوں کو ثابت نہیں کرسکتی جن کی
رو سے وہ اپنے (Data)سے
نتائج مستنبط کرتی ہے یہ صرف منطق (LOgic) کے ذریعہ ہوسکتاہے ۔او رمنطق کے اصول تجارب و مشاہدات کے ذریعہ
ثابت نہیں کئے جاسکتے ۔مثلاً
(استقرائی اصول :۔۔۔(ا) جب پانی کی حرارت 100
سینٹی میٹر گریڈ تک پہنچ جاتی ہے تو ہو بھاپ بننے لگتا ہے ۔ہم نے تجربہ کو بار بار
دہرایا ہے او رہر بار اس نتیجہ پر پہنچے ہیں منطق میں اس طریق عمل کا نام (Inductive
Principle) استقرائی اصول ہے۔ ہمارا یہ نتیجہ ہمارے
تجربہ کا پیدا کردہ نہیں ۔ یہ چیز پانی کے اندر ازخود موجود تھی،ہم نے تجربہ سے اس
کو بے نقاب (Discover)
کیا ہے۔ اس اصول کے لئے (کہ پانی ایک سو درجہ حرارت پر پہنچ کر بھاپ بن جاتا ہے(
ہمیں یہ چیز بطور مسلمہ مانتی ہوگی کہ پانی میں یہ خاصیت ہے کہ وہ سو درجہ حرارت
پر پہنچ کر بھاپ بن جاتاہے ۔
(ب) زید، عمر سے بڑا ہے او رعمر’ بکر سے
بڑاہے اس لئے زید ’ بکر سے بڑا ہے۔ یہ طریق استدلال ’استخراجی (Deductive) کہلاتاہ اس طریق سے ہم نتیجہ مستخرجہ تک اسی صورت میں پہنچ سکتے
ہیں کہ ہم تسلیم کرلیں کہ (ا)زید ’عمر سے بڑا ہے اور (ب) عمر’بکر سے بڑا ہے۔ ان
چیزوں کو ہم نے ثابت نہیں کیا بلکہ بطور اصول موضوعہ ( Postulates) مان لیا ہے ۔ اس کے بعد ہم نتیجہ مستخرجہ تک پہنچ سکتے ہیں۔
ارسطو کہتاہے کہ (Data) سے نتائج اخذ کرنے کے بعد یہ اصول ہمیں بطور مسلمات ماننے ہوں گے
اسی کو (A Priori)
کہا جاتا ہے ۔ یہ اصول کسی تجربہ یا مشاہدہ کی رو سے وضع نہیں کئے گئے بلکہ یہ
ازخود موجود تھے تجربہ کے یہ اصول (Self Evident) ہوگئے۔
اگر چہ ارسطو نے
‘‘مسلمات’’ کے ازخود ہونے کو منطق کے ذریعہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔لیکن اس باب
میں علمائے ریاضیات جس انداز سے بحث کرتے ہیں وہ زیادہ مدلل او رمسکِت ہے۔ وہ کہتے
ہیں کہ ریاضی کے مسلّمات ایسے ہیں جو نہ تجربات و مشاہدات کی تخلیق میں نہ ہی کوئی
دلیل ان کی تردید کرسکتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ (مثلاً کسی عد د کا دوگنا ہمیشہ جفت
ہوگا ۔یہ اصول کسی تجربے ے پیدا نہیں کیا یہ ازخود موجود ہے معلوم نہیں انسانی نفس
نے ان اصولوں کو کیسے پالیا ۔ ان تک پہنچنے کا استدلال طریق تو ہے نہیں۔ ا س لئے
یہی ماننا پڑتاہے کہ نفس انسانی نے کسی طرح انہیں غیر استدلالی طور پر ازخود پالیا
۔لیکن اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ یہ مسلمات اس قدر غیر متبدّل او ریقینی ہیں کہ
ہم انہیں کائنات کے لاانتہا مسائل کے لئے استعمال کے جاتے ہیں اور کائنات کی ہر شے
ان مسلمات کے مطابق ٹھیک اترتی ہے ۔ اس سے وہ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ان مسلمات
اور خارجی کائنات کا سرچشمہ ایک ہی ہے او رچونکہ ان مسلمات کو نفس انسانی نے صحیح
مان کر اپنارکھا ہے،اس لئے ان مسلمات نفس انسانی او رکائنات کا سرچشمہ ایک ہی ہے
چنانچہ سر جیمز جینس کہتاہے کہ ریاضی کے ان محیّر العقول اصولوں کی روشنی میں
انسان لامحالہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ کائنات کسی عظیم الشان ‘‘ماہر ریاضیات’’
کی تخلیق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاصل مبحث:۔۔۔یہ حصہ کچھ
زیادہ خشک او رفنی سامعلوم ہوگا ۔لیکن اس کے مستخر جہ تنائج ہمارے مقصد پیش نظر
کیلئے بڑی اہمیت رکھتے ہیں ۔ حاصل بحث یہ ہے کہ :۔
(ا) ایک گروہ کاخیال یہ ہے کہ یہ اشیاء خارج
میں موجود ہیں اور ہرشے میں اس کی اپنی خاصیت ہے۔
(ب) لیکن دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ خارج میں
نہ کوئی شے موجود ہے او رنہ ہی ان اشیاء کے اپنے خواص ہیں ۔ ان اشیاء کا وجود بھی
ہمارے ‘‘دل’’ کا پیدا کردہ ہے اور ان کو یہ خواص بھی اسی سے عطا ہوتے ہیں۔
(2) جہاں تک ذرائع علم کا تعلق ہے:۔
(ج)ایک گروہ کا خیال ہے کہ ہمارے مشاہدات و
تجربات ہی علم کا واحد ذریعہ ہیں لیکن
(د) دوسرا گروہ کہتاہے کہ علم کا ذریعہ
استدلال ہے جس سے مفہوم یہ ہے کہ ہمیں بعض اصولو ں کوبطور مسلّمات تسلیم کرنا
پڑتاہے او رپھر ان مسلّمات کی روشنی میں حواس کے ذریعہ حاصل شدہ معلومات سے نتائج
اخذ کرنے ہوتے ہیں ۔جب تک ان مسلّمات کو بطور معتقدات نہ مانا جائے سائنس کا علم
آگے بڑھ ہی نہیں سکتا ۔
(ر) اس دوسرے گروہ میں ایک گروہ۔
(1) ان مسلمات کو منطق کی رو سے ثابت کرتاہے
۔لیکن
(2) دوسرا گروہ کہتاہے کہ یہ مسلمات ریاضی کی
دنیا سے متعلق ہیں جنہیں انسانی نفس نے بغیر دلیل صحیح تسلیم کررکھا ہے اور چونکہ
تمام کائنات ان اصولوں پر پوری اُترتی چلی جارہی ہے اس نے ثابت ہوتاہے کہ نفس
انسانی او رکائنات کا سرچشمہ ایک ہی ہے۔
یہ سب کچھ مشہور کائنات
کے متعلق ہے باقی رہی غیب کی دنیا سواس کے متعلق جیسا کہ پہلے دیکھ چکے ہیں سائنس
کے پاس کوئی ذریعہ علم نہیں ۔ساری بحث کاملخص یہ ہوا کہ
(1) غیب کی دنیا کے متعلق سائنس کے پاس کوئی
ذریعہ معلومات نہیں اور
(2) مشہور دنیا کے متعلق بھی جب تک ایسے
مسلمات بطور اصول تسلیم نہ کئے جائیں جو تجربہ اور مشاہدہ کی پیداوار نہیں ہیں۔
یعنی معلومات حاصل کی ہی نہیں جاسکتیں۔
انسانی فکر کی کم
مائگی:۔۔۔۔۔ جب انسانی فکر کی یہ تہی مائگی ان امور سے متعلق ہے جو طبیعیات کی
سرحد کے اندر واقع ہیں تو ظاہر ہے کہ ان امور کے متعلق جو طبیعیات کی حدود سے باہر
ہیں یہ کس قدر علم حاصل کرسکا ہوگا؟ طبیعیات کے حدود سے ماوراء شعبہ علم کو مابعد
الطّبیعیات۔۔۔۔۔(Metaphysics)
کہتے ہیں ۔ما بعد الطبیعیات کی دنیا میں فکر انسانی کیا کچھ کرسکا ہے اس کے متعلق
پروفیسر جوڈنے دلچسپ انداز میں لکھا ہے ۔وہ کہتاہے کہ اندازہ ہے کہ
(1) روئے زمین پر زندگی کے آثار قریب
1,200,00,000سال پیشتر نمودار ہوئے ۔
(2) انسانی زندگی قریب دس لاکھ سال پہلے
نمودار ہوئی۔
(3 ) انسانی تہذیب قریب تین ہزار سال پیدا
ہوئی
وہ لکھتاہے کہ اس حساب سے
یوں سمجھئے کہ اگر روئے زمین پر زندگی کی نمودار کو سو سال کا عرصہ کہئے ، تو
انسانی زندگی کا عرصہ ایک ماہ رہ جاتاہے اور انسانی تہذیب دو گھنٹے سے ذرا زیادہ
کی عمر کی رہ جاتی ہے۔
اس کے بعد وہ کہتاہے کہ
اگر مستقبل کو دیکھا جائے تو علمائے طبیعیات کے قیاس کے مطابق جتنے عرصہ سے روئے زمین
پر زندگی موجود ہے اس سے ہزار گنا زیادہ عرصہ تک روئے زمین پر آبادی کے امکانات
ہیں۔اس کے بعد وہ کہتاہے کہ آپ خود ہی اندازہ لگالیجئے کہ اس دوگھنٹے میں انسان
کیا کچھ معلوم کرسکا ہے او رابھی اسے کتنا کچھ معلوم کرنا ہے۔
ان تصریحات کی روشنی میں
ارباب فکر کے نزدیک مابعد الطبیعیات کے متعلق انسانی علم چند اصطلاحات سے آگے نہیں
بڑھ سکا اور حقیقت یہ ہے کہ جب خود طبیعیات (مادہ ’ زندگی’ شعور) کے متعلق انسانی
علم کی اس وقت تک تہی و امنی کا یہ عالم ہے کہ مابعد الطبیعیات کے متعلق اس کے علم
کی حقیقت کیا ہوسکتی ہے ؟
استنتاجی نظریہ فکر
:۔۔۔۔ان حقائق کے پیش نظر انیسویں صدی کے آخیر میں امریکہ میں ایک نئی تحریک پید
ہوئی ۔ جسماستنتاجیت یا (Pragmatism) کہتے ہیں ، اس انداز فکر کا ماحصل مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ ہم
جانتے ہیں اور نہ جان سکتے ہیں کہ ‘‘حقیقت’’ کیا ہے اور ‘‘مطلق صداقت’’ (Absolute
Truth) کسے کہتے ہیں ۔ ہمارے پاس درست او رغلط کے
پرکھنے کا ایک ہی معیار ہے او روہ یہ کہ ہر نظریہ کو تجربہ میں لاکر یہ دیکھ لیا
جائے کہ اس کے نتائج کیسے ہیں ۔اگر اس کے نتائج فکر کی دنیا میں فائدہ رساں ہیں تو
وہ نظریہ درست ہے ۔اگر ایسانہیں تو وہ نظریہ غلط ہے، ‘‘صداقت ’’سے مفہوم یہ ہے کہ
وہ ہمارے مقصد کو آگے بڑھاتی ہے یا نہیں ۔ اور ‘‘ ہر شے کی کسوٹی انسان ہے’’ ۔ یہ
ہیں استنتاجی نظریہ کے عمود 1878 ء میں (Charles S.Pearse) نے اس کا پہلی بار تعارف کرایا ۔ اس کے بعدولیم جمیز، شلر (Schiller) اور جان ڈیوی (John Dewy) نے اسے آگے بڑھایا اور آج یہ امریکہ میں مقبول نظریہ فکر ہے ۔ اس
میں شبہ نہیں کہ علم انسانی سے مقصود‘‘ماینفعد النّاس’’ ہونا چاہئے لیکن انسان کے
لئے کیا چیزیں نفع بحش ہے اس کا فیصلہ کس طرح سے کیا جائے ؟ یہ سوال ‘‘اخلاقیات’’
سے متعلق ہے جہاں پہنچ کر ہم دیکھیں گے کہ استنتاجی مکتب فکر بھی اس اصول کا جواب
پیش نہیں کرسکتا۔
یہ ہے رموزِ کائنات اور
غوامضِ حیات دریافت کرنے کے سلسلے میں انسانی فکر کی اس وقت ک کی جدّ وجہد اور یہ
ہیں اس جدّوجہد کے نتائج!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میکانکی تصور کائنات کے
ضمن میں ہم نے یہ بھی دیکھا تھا کہ اس تصور کی رو سے نہ کائنات کا کوئی خالق ہے او
رنہ ہی اس کی تخلیق سے کچھ مقصد ہے۔ بس یوں سمجھئے کہ کائنات نہیں ایک ہوائی جہاز
ہے جو نہ معلوم کس طرح حرکت میں آکر فضا میں گردش کررہا ہے نہاس میں کوئی (Pilot) ہے نہ (Conductor) اس کی مشین اپنے پرزوں کے نظم و ضبط سے از خود چل رہی ہے جس سے
یہ طیارہ فضا میں رقص کررہا ہے اندھا دھند اڑے چلا جارہا ہے بلامقص بلامنزلہ جب اس
کا پٹرول ختم ہوجائے گا تو اس کی حرکت ساکن ہوجائے گی او ریہ کہیں ٹکڑا کرپاش پاش
ہوجائے گا بس یہ ہے سلسلہ کائنات میکانکی تصور حیات کی رو سے۔
ہم دیکھ چکے ہیں کہ بعد
کی تحقیقات نے میکانکی تصور حیات میں بنیادی تبدیلیاں پیدا کردی ہیں لیکن ابھی یہ
دیکھنا باقی ہے جہ جہاں تک کائنات کے مقصد کا تعلق ہے اس باب میں تحقیقات جدیدل
کارخ کس طرف ہے ! اس میں شبہ نہیں کہ جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے ،حقیقت
کائنات کے متعلق انسانی علم ابھی اپنے عہد طفولیت سے بھی آگے نہیں بڑھا ۔لیکن بایں
ہمہ دیکھنا یہ ہے کہ انسان جس قدر علم حاصل کیا ہے اس کی رو سے کیا ابھی تک اسی
خیال پر قائم ہے کہ کائنات فضا میں ایک اندھے طیارے کی طرح گردش کررہی ہے یا اس
تصور میں بھی کوئی تبدیلی پیدا ہوئی ہے؟
کائنات کا مقصد:۔۔۔۔۔
میکانکی تصور حیات کی بنیادی غلطی یہ تھی کہ اس کی رو سے کائنات کو ایک ناقابل
تقسیم وحدت One Single Whole
کے بجائے ،مختلف عناصرکاڈھیر سمجھا جاتاتھا۔ ظاہر ہے کہ اس تصور کی رو سے پوری
کائنات میں کسی مقصد کی تلاش ہی عبث تھی لیکن تحقیقات جدید ہ یہ بتارہی ہیں کہ
کائنات مختلف عناصر و اجسام کا ڈھیر نہیں بلکہ ایک وحدت عظیم ہے۔ڈریش (Hans
Driesh) اپنی کتاب (The
Problem Of Individuality) میں اس موضوع پر بحث کرتا ہوا لکھتا ہے کہ
یہ نظریہ کہ تمام کائنات ایک منظم وحدت ہے ۔ وحدت نظم (Monism
Order) کی اصطلاح سے تعبیر کیا جاناچاہئے ۔ اس کے
بعد وہ لکھتا ہے کہ وحدت نظم کا یہ تصور نظم کائنات کے متعلق دیگر تمام تصورات کو
منسوخ کردیتا ہے اس کی روح سے کائنات میں الگ الگ نظام کہیں باقی نہیں رہتے بلکہ
تمام کی تمام کائنات وحدت نظم کا مظہر بن جاتی ہے ۔ اس وحدت نظم کے پیش نظر
‘‘قوانین فطرت’’ کے تصور میں بھی تبدیلی کرنی پڑے گی، کیونکہ اس صورت میں فطرت میں
متعدد ‘‘قوانین ’’ نہیں بلکہ صرف ایک قانون کا ر فرما نظر آئے گا او ریہی وہ واحد
قانون ہوگا جس کی روشنی میں ہم کائنات کے متعلق وہ سب جان لیں گے جس کا جان لینا
انسان کے لئے ممکن ہے۔(صفحہ 63-64)۔
(Simpson) اس باب میں لکھتا ہے:۔
نظریہ ارتقاء سے ہمیں سب
سے پہلا عظیم الشان سبق یہ ملا کہ حیات ایک ہے ۔یعنی وحدت حیات کا سبق ۔ یہ عقیدہ
عیسائیت او ردیگر مذاہب میں بھی پایا جاتا ہے کہ تمام انسان آپس میں بھائی بھائی
ہیں لیکن ارتقاء کانظریہ ہمیں اس سے بھی آگے لے گیا ۔ اس نے بتایا کہ نہ صرف تمام
انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں بلکہ تمام اشیائے کائنات میں یہی رشتہ اخوّت کار
فرما ہے اس طرح کہ اس سب کا اوّلین سرچشمہ بھی ایک ہے او ریہ سب ایک ہی طریقہ سے
مختلف گوشوں میں نشوونما پاکر اپنی موجودہ حالت تک پہنچی ہیں ۔ انسان کائنات ہی کا
ایک جزو ہے اس لئے اس کا رشتہ تمام زندگی (Life And Habit) سے ہے۔(36)۔
وحدت نظم:۔۔۔۔۔۔۔۔مانچسٹر
یونیورسٹی کا اناٹومی پروفیسر (F.W.Jones) اپنی کتاب (Design And Purpose) میں اس موضوع پر شرح وبسط سے گفتگو کرکے بتاتا ہے کہ کائنات میں
کس طرح وحدت نظم موجود ہے او ریہ تمام نظام کس طرح ایک سوچی سمجھی ہوئی تدبیر Plan کے ماتحت سرگرم عمل ہے ۔بحث کے دوران میں وہ (Thomas
Dwight) کے حوالہ سے لکھتا ہے :۔
اگر اس بات کو بفرض تسلیم
بھی کرلیا جائے کہ اس قسم کا حیرت انگیز منظم پلان Plan محض اتفاق (Chance) کی پیداوار ہے تو بھی اس قسم کے بے شمار منظم Plans) کا اسی طرح موجود ہونا اس مفروضہ کو مہمل قرار دے دیتا ہے ۔ ہم
ذی حیات اور غیر ذی حیات دونوں میں تحّیر انگیز نظم دیکھتے ہیں ، جوں جوں ہم عناصر
اور ان کے مرکّبات کے متعلق قوانین کا مطالعہ کرتے ہیں یہ حقیقت اور بھی واضح
ہوجاتی ہے کہ ساری کائنات میں ایک ہی قانون نافذ العمل ہے۔(59)۔
سیموئیل بٹلر اسی حقیقت
کو یک مثال سے سمجھاتاہے ۔ وہ کہتاگ ہے کہ انسانی جسم خلیات (Cells) کا مجموعہ ہے ہر ایک (Cell) اپنی اپنی جگہ اپنے مفوضہ فرائض کی سر انجام دہی میں مصروف ہے
لیکن نہ تو ہمیں کبھی ان خلیات (Cells) کا احساس ہوتاہے اور نہ ہی یہ خلیات (Cells) جانتے ہیں کہ انسانی جسم کا یہ نظام جو انہی خلیات پر مشتمل ہے
کیا ہے او ر کس طرح مصروف عمل رہتاہے ۔ اسی طرح ہم اس کائنات کے عظیم ‘‘جسم کے (Cells) ہیں لیکن ہمیں کچھ معلوم نہیں کائنات ایک عجب وغریب نظام کے
مطابق چلی جارہی ہے ۔ہمیں اپنا ہی علم ہے جس کائنات کے ہم خلیات ہیں اس کے نظم کا
کچھ علم نہیں لیکن علم ہو یانہ ہو یہ کائنات ایک ذرّہ سے آفتاب تک ایک عظیم القدر
او رمحّیرالعقول نظام کے ماتحت مصروف کار ہے۔
(C.F. Life And
Habit-Quoted By F.W.Jones)
کچھ عرصہ ہوا ایک کتاب
شائع ہوئی تھی (The Great Design)
اس کے ایڈیٹر نے دنیا بھر کے ائمہ فکر و نظر کو دعوت دی تھی کہ وہ اپنے اپنے شعبہ
علم کی تحقیقات کو سامنے رکھ کر غیر جانبدارانہ طور پر یہ بتائیں کہ ان کے نزدیک
اس کائنات میں کوئی نظم وربط ہے یا یہ سلسلہ یونہی اندھا دھند چلے جارہا ہے ۔۰چنانچہ اس کی دعوت پر
مختلف علوم وفنون کے ماہرین لے الگ الگ مقالے لکھے جو اس کتاب میں جمع کردیئے گئے
نباتات ، حیوانات، انسانیت ، طبیعیات ، حیاتیات، نفسیات، فلکیات،وغیرہ تمام شعبوں
کے ماہرین کے مقالات ان میں سے ہر مقالہ میں یہ بتایا گیا کہ سائنس کی تحقیقات اس
حقیقت کو دن بدن بے نقاب کئے جاری ہیں کہ یہ تمام سلسلہ کائنات ، عجیب وغریب نظم
وضبط کے ماتحت جاری و ساری ہے او رجیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہرہ ہے یہ سب کچھ حیرت
انگیز (Design)
کے مطابق ہورہا ہے جس میں کہیں کوئی سقم نہیں، کوئی جھول نہیں کوئی دراڑ نہیں ،
کوئی سلوٹ نہیں۔
مقصد:۔ ۔۔۔ مَاتَری خَلقِ
الرّحمّٰنِ مِن تفٰوُتِِ اس (Design) اور (Plan)
کا تقاضا ہے کہ کائنات کے سامنے کوئی مقصد بھی ہو، اس لئے کہ جب تک کسی چیز کاکوئی
مقصد نہ ہو اس میں ڈیزائن اور پلان کا تصور بے معنی ہوجاتا ہے ۔ڈیزائن اور پلان
ہمیشہ کسی مقصد کے حصول کے لئے عمل میں آتا ہے اسی لئے اب آئمہ فکر کائنات کو ذی
مقصد (Purposeful) تسلیم کررہے ہیں ۔ ان کے نزدیک یہ تکونی
سلسلہ یونہی ہنگامی طور پر وجود میں نہیں آگیا ۔ بلکہ ایک مقصد کے ماتحت عمل میں
لایا گیا ہے۔پال (Leslie Paul)
اپنی کتاب (The Meaning Of Human Existence) میں نظریہ ارتقاء بر بحث کرتاہوا لکھتا ہے کہ اتقاء ممکن ہی اسی
صورت میں ہوسکتاہ جب یہ تسلیم کیا جائے کہ ہرنامی (Organic) شے زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کے لئے جدّوجہد (Struggle) کررہی ہے ۔ اسی خصوصیت کی رو سے ان اشیاء کو (Dynamic) کہا جاتا ہے لیکن (Dynamic) ہونے سے بھی یہ لازم آجاتا ہے کہ ان کی توانائی انہیں ایک خاص
سمت (Direction) کی طرف لے جارہی ہو۔ اسلئے کہ اگر ان کی
حرکت وعمل کے لئے کوئی سمت متعین نہیں ہوگی تو ضروری نہیں کہ اس حرکت کا نتیجہ
ارتقا ء ہی ہو۔ عدم سمت کی صورت میں ہوسکتا ہے کہ یہ سب توانائی (Energy) یونہی دوری گردش میں ضائع ہوجائے ۔اس کے بعد پال لکھتا ہے۔
یہ بات توبڑی غیر معقول
سی نظریاتی ہے کہ ایک طرف تویہ تسلیم کرلیا جائے کہ زندگی (Dynamic) ہے وہ ایک خاص سمت میں حرکت کررہی ہے تاکہ وہ باقی رہے اور آگے
بڑھے۔
یہ بات توبڑی غیر معقول
سی نظریاتی ہے کہ ایک طرف تو یہ تسلیم کرلیا جائے کہ زندگی (Dynamic) ہے وہ ایک خاص سمت میں حرکت کررہی ہے تاکہ وہ باقی رہے اور آگے
بڑھے اور اس کے ساتھ ہی یہ کہا جائے کہ زندگی کے پیش نظر مقصد کوئی نہیں۔ اگر مقصد
نہیں تو پھر جہد (Struggle)
کاتصور ہی باقی نہیں رہتا ۔ اسی منطقی توجیہہ کانتیجہ ہے کہ جولین ہکسلے یہ کہنے
پر مجبور ہوگیا ہے کہ ‘‘میکانکی فکر کی جدید کامیابی یعنی ڈارون کے نظریہ ارتقاء
نے اب انسان کو یہ ضمانت دے دی ہے کہ انسان سے باہر ایک قوّت ہے جو اس سللسہ کو
‘‘خیر’’ کی طرف بڑھائے جارہی ہے’’ ۔لیکن تعجب ہے کہ اس کے ساتھ ہی ہکسکے یہ بھی
کہتاہے کہ یہ ‘‘ارتقاء کی اندھی قوت ہے’’۔ اگر یہ قوت خیر کی طرف لئے جارہی ہے تو
پھر یہ اندھی کیسے ہے؟ اسی طرح جب کوئی نامی جسم اپنی بقا ء وارتقاء کے لے جدّوجہد
کرتاہے تو اسے کسی صورت میں بھی مشین نہیں کہا جاسکتا ۔(71-72)
اس باب میں پروفیسر جونز
(F.W.Jones) کی تصریحات او ربھی حقیقت کشا ہیں ۔ وہ
لکھتا ہے کہ :۔
کسی زمانہ میں کسی طرح
کسی جگہ توانائی (Energy)
وجود میں آگئی ۔لیکن اس وقت بھی توانائی ایک نظم رکھتی تھی۔یہ نظم منفی او رمثبت Electrix
Charges کا تھا جن میں باہمی ایک گہرا ربط تھا۔ اسی
توانائی سے ایٹم آگے بڑھے او رمنظم تبدیلیوں کے بعدغیر ذی حیات عناصر میں تبدیلی
ہوگئے لیکن یہ غیر ذی حیات عناصر ،مستقل او رغیر متبدّل نہ تھے ہم جانتے ہیں کہ ان
میں آئے دن تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں۔ پھر ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان غیر مادی
عناصر میں کچھ اس قسم کی ترتیب پیدا ہوئی کہ یہ ارتقاء کی اگلی منزل کے قابل بن
گئے۔ یہ کس طریق سے یا کس کی ہدایت کے مطابق ہوا ہم نہیں کہہ سکتے پھر ہم یہ تسلیم
کرتے ہیں او رجدید سائنس اس کی تائید کرتی ہے کہ ایٹم کے سالمات (Molocules) بنے سے فطری طور پر ان میں زندگی کی نمود ہوگئی اس لئے ہم جانتے
ہیں کہ زندگی نے ارتقا ئی منازل طے کی ہیں۔لہٰذا زندگی کے پیش نظر مقصد ہے زندگی
ایک جوئے رواں ہے ۔ اس میں تسلسل ہے ہم تو یہ کہتے ہیں کہ جب غیر ذی حیات مادہ کو
زندگی کے استقبال کے لئے تیار کیاگیا تو وہ بھی ایک مقصد کے ماتحت تھا۔ اب ان
تصورات کو آگے بڑھائیے ہم نظام شمسی میں ایٹم دیکھتے ہیں ۔لیکن کائنات کے بڑے بڑے
ساالمات (Molecules)
کو ہم نہیں دیکھ سکتے ۔اگر ہم انہیں دیکھ پاتے تو ان کے ذریعہ ہمیں کائناتی حیات
او رکائناتی مقصد بھی نظر آنے لگ جاتا ۔اگر ہم کسی طرح اس سلسلہ کو آگے بڑھا سکیں
تو اس سے کائناتی شعور کا ارتقا بھی سمجھ میں آجائے ۔ ممکن ہے کہ کوئی انسان اس
کائناتی شعور یا نفس کائنات (Cosmic Mind) کا ندازہ کرسکے لیکن اگر وہ اس کا اندازہ کرسکے تو اس کی سمجھ
میں آجائے گا کہ اسی روح کائنات سے توانائی نے اپنا وجود مقصد او ربقا پائی ہے۔ یہ
سب کچھ انسانی حیطہ تصور سے باہر ہے او رسائنس کی تحقیقات سے تو کہیں باہر۔۔۔۔۔۔۔
اس تسلسل کو جاری رکھئے تو پھر اسے تصور کرنے کی بھی جرات کیجئے کہ کس طرح توانائی
کی ابتداء سے (جس کاتصور بھی ممکن نہیں)اس کی انتہا تک (جس کاپھر تصور نا ممکن ہے)
کائنات کا سلسلہ ایک متعین راہ پر چلا جارہا ہے۔
یہ تصور کہ کائنات ایک
مقصد کے ماتحت وجود میں لائی گئی ہے اور اب یہ اس مقصد کے حصول کے لئے جانب منزل
رواں دواں چلی جارہی ہے خود انسانی زندگی پر کس درجہ اثر انداز ہوتاہے اور اس میں
کس قدر خوشگوار انقلاب پیدا کردیتا ہے اس کے متعلق پروفیسر جونز لکھتا ہے:۔
اگر انسان نے اپنے فکر
میں یہ تبدیلی پیدا کرلی کہ انسانی زندگی بلامقصد نہیں تو اس سے نوع انسانی کو بے
حد فائدہ پہنچے گا ۔ انسانی زندگی کو بامقصد تسلیم کرنے سے یہ بھی تسلیم کیا جائے
گاکہ تمام ذی حیات اشیاء اور غیر ذی حیات اشیاء غرضیکہ پوری کی پوری کائنات بامقصد
ہے۔ ایسا ہوسکتاہے کہ ایک دن انسان شاہراہِ حیات پر اس طرح گامزن ہو کہ اسے نظر
آئے کہ اس کے ساتھ تمام سلسلہ کائنات اسی منزل کی طرف جارہا ہے جو اس کامنتہا ئے
نگاہ ہے او ریہ اس کاروانِ حیات کایک راہ رو ہے۔ اس شاہراہ کائنات پر تمام افراد
کاروا ں کے حقوق یکساں ہیں۔ اس شاہراہ کے منتہیٰ کاہمیں علم نہیں۔لیکن اس سے ہم
حقیقت کا احساس توکرسکتے ہیں کہ یہ چیز کائنات کے بس میں نہیں کہ وہ اس راہ اور اس
پر چلنے والے افراد کارواں کو فنا کرسکے۔۔۔۔۔ تاریخ کے جس دور سے ہم گزررہے ہیں اس
میں یہ احساس بھی ضروری ہوگیا ہے کہ کائنات کایہ تمام عظیم القدر سلسلہ ایک مقصد
کاثبوت پیش کررہا ہے۔ او رہر انسانی زندگی خواہ وہ کسی قدر غیر اہم کیوں نہ ہو اس
کائناتی مقصد کا جُز و ہے۔(Design And Purpose)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصریحات بالا سے ہم نے
دیکھ لیا کہ انسانی فکر کا رُخ اب اس طرف ہے کہ یہ سلسلہ کائنات یونہی اندھا دھند
نہیں چلا جارہا ۔کائنات ایک مقصد کے ماتحت پیداکی گئی ہے اور اس مقصد کی طرف کشاں
کشاں جارہی ہے ۔انسان بھی اسی کائنات کا ایک جزوہے ۔ اس لئے یہ بھی سلسلہ کائنات
کے ساتھ اسی منزل کی طرف رواں دواں جارہا ہے ۱۔
یہ مقصد کیا ہے؟ اس کا
روان کائنات کی منزل کون سی ہے؟ انسان کا اس قافلہ میں کیا مقام ہے؟ یہ سوالات
ایسے ہیں جن کے جواب کا موقع نہیں یہ چیز اپنے مقام پر آئے گی ۔ اس وقت تو صرف ہم
کو اتنا دیکھنا ہے کہ سائنس کاسابقہ تصور کہ کائنات ایک بلا مقصد مشین ہے کس طرح
خود سائنس کی تحقیقات کی رو سے باطل قرار پاچکی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
کائنات کے متعلق قرآن کریم میں ہے وما خلقنا اشماء والارض وما بینھما با طلا۔
کائنات کی پستیوں او ربلندیوں کو او رجو کچھ ان کے درمیا ن ہے انہیں ہم نے بلامقصد
پیدا نہیں کیا۔ذلک ظن الذین کفردا(37-27) جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کائنات یونہی
بلامقصد پیداہوگئی ہے او رکافر یعنی حقیقت کا انکار کرنے والے ہیں۔ خلق اللہ
السموت والارض بالحق ۔ اللہ نے کائنات کو بطور ایک حقیقت کے مقصد کے ساتھ پیدا کیا
ہے۔ان فی ذلک لایۃ للمومنین ۔(29-44) اس میں ان لوگوں کے لئے جو حقیقت پر یقین
رکھتے ہیں ،بڑی بڑی نشانیاں ہیں وہ مومنین کا شعار یہ بتاتا ہے کہ وہ اٹھتے
،بیٹھتے ،لیٹے ،ہر وقت قوانین خداوندی کو سامنے رکھتے ہیں اور تخلیق کائنات پر غور
وفکر اور تجربات و مشاہدات سے اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ۔ربّناماخلقت ھٰذا
باطِلاً(3-191) خدانے کائنات کی کسی شے کو بلامقصد پیدا نہیں کیا۔( تفسیر ان امور
کی‘‘ سلیم کے نام خطوط’’ میں دیکھئے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی
اب کائنات کے متعلق تصور (Mechanical) کی جگہ(Theological) ہو چکا ہے جس سے مفہوم یہ ہے کہ کائنات ایک مشین کی طرح اسباب
وعلل (Causes) کے دھکے سے نہیں چل رہی بلکہ اپنے پیش نظر
مقصد کی کشش سے آگے بڑھ رہی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اسی ایک فرق سے انسانی فکر و نظر
او ر خود اس کے معاشرے میں کتنا بڑا فرق پیدا ہوجاتا ہے ۔ اس لئے جب اس کائنات کے
متعلق یہ تصور پیدا ہوجائے (یایوں کہئے کہ اس حقیقت کا انکشاف ہوجائے) کہ یہ یونہی
ہنگامی طور پر مصروف گردش نہیں بلکہ ایک مقصد کے حصول کے لئے کسی منزل کی طرف بڑھے
جارہے ہیں اور اس کا ہر قدم ‘‘اس منزل’’ کی طرف اٹھ رہاہے تواس سے یہ حقیقت بھی
سامنے آجائے گی کہ انسان بھی (جو اس کائنات کے اندر ہے) یونہی ہنگامی طور پر وجود
میں نہیں آگیا بلکہ اس کی تخلیق بھی ایک مقصد کے ماتحت ہوتی ہے اور اسے بھی ایک
خاص منزل کی طرف بڑھنا ہے۔ اگر یہ حقیقت انسان کے سامنے آجائے تو پھر اس کی حرکت
‘‘آوارگی’’ نہیں رہتی بلکہ متعین سفر بن جاتی ہے جس میں چلنے والے کاہر قدم اپنی
منزل کی طرف اٹھتا ہے۔لہٰذا کائنات کے متعلق صحیح حقیقت کا سامنے آنا خود انسانی
زندگی کے تعین مقصد کے لئے نہایت ضروری ہے ۔اگر انسانی زندگی میں مقصد کا تعین
ددنہ ہوتو پھر آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ انسان ترقی کررہا ہے یا پستی کی طرف
جارہا ہے ۔اس لئے کہ ترقی کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا ہو او
رپستی کے معنی یہ ہیں کہ اس کا مقدم منزل سے دور ہٹ رہاہو۔ اگر اس کی منزل کا تعین
ہی نہ ہو تو پھر اس بات کومتعین ہی نہیں کرسکتے کہ وہ منزل سے دور ہٹ رہاہے یا اس
کے قریب آرہاہے ۔یعنی یہ نہیں کہا جاسکتاکہ وہ ترقی کررہاہے یا تنزّل کی طرف جارہا
ہے ۔مقصد کا عدم تعین ہی ہے جو انسان کو اس بڑے فریب میں مبتلا رکھ چھوڑ تاہے کہ
وہ تباہی او ربربادی کے جہنم کی طرف جارہا ہوتا ہے او ربزعم خویش سمجھتا یہ ہے کہ
وہ بڑی ترقی کررہا ہے اس سے ظاہر ہے کہ کائنات کے لئے منزل کا تعین کس قدر ضروری
ہے لیکن یہ چیزیں اپنے مقام پر آئیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کائنات کے متعلق عصر حاضر
کے مفکرین کی تحقیقات کیا ہیں؟ انہیں آپ گذشتہ صفحات میں دیکھ چکے ہیں یہ حصہ
خارحی کائنات (عالم آفاق) سے متعلق تھا۔ اب یہ سوال سامنے آتا ہے کہ خود انسان کی
اپنی دنیا کے متعلق مفکر ین کی تحقیقات کیا ہیں۔ یہ حصہ زیر نظر حصہ سے بھی زیادہ
اہم ہے اس لئے کہ ہماری عملی مشکلات کا آغاز وہاں سے ہوتاہے جہاں ایک انسان کو
دوسرے انسان سے سابقہ پڑتا ہے۔
اسی مقام سے معاشرتی ،
معاشی، تمدّنی، سیاسی الجھنوں کی ابتداء ہوتی ہے او رانہی الجھنوں کاحل انسان کی
بنیادی ضرورت ہے ۔انسان کے باہمی معاملات سے متعلق اصولی شعبہ علم کو اخلاقیات (Ethics) کہا جاتا ہے ۔ اس لئے اب ہم خارجی کائنات سے بڑھ کر انسانو ں کی
دنیا کی طرف آتے ہیں او راس میں سب سے پہلے اخلاقیات سے بحث کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Part: 1- 'What did the man think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Preface—Part 1 انسان نے کیا سوچا
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism