غلام احمد پرویز
دو اخلاقی نظرئیے
آپ نے غور کیا ہے کہ ‘‘دو
اخلاقی ضابطے’’ رکھنے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے۔قدیم روما میں اپنے قبیلہ میں چوری
کرناجرم تھا لیکن قبیلہ سے باہر چوری کرناجرم نہ تھا ۔ دنیا قبائلی زندگی سے آگے
بڑھی توقومی دو ائرمیں بٹ گئی ۔‘‘قوم’’ کیا ہے ، قبیلہ ہی کی ایک پھیلی ہوئی شکل
کانام ہے۔ اس لئے جو آئین دو ساتیر قبائلی زندگی میں کارفرما تھے وہی شعوری اور
غیر شعوری طور پر قومی زندگی پر بھی مستولی ہیں۔ قبائلی عصبیت کو اب وطنیت کانام
دے دیا گیا ہے۔ فرق صرف الفاظ میں ہے روح وہی ہے۔قبائلی مفاد کے تحفظ نے اب حب
الوطنی (Patriotism) کا پیکر اختیار کرلیا ہے۔ وہی اصطلاحات کا فرق،ورنہ جذبہ دونو ں
جگر ایک ہی ہے۔‘‘ اپنے قبیلہ میں چوری جرم دوسروں کے ہاں مستحسن ’’ ہمہ یہی قومیت
کا بنیادی اصول ہے حقیقت یہ ہے کہ بایں ادعائے علم وعقل انسان ابھی تک اپنے عہد
جہالت سے آگے نہیں بڑھ سکا ۔اس کے ظواہر میں چمک دمک ،صفائی ، روشنی
،تابندگی،درخشندگی آگئی ہے لیکن اس کے تصورات کے بواطن ابھی تک اسی ظلمت و تاریکی
تنگ نظری اور کوتاہ دامنی ،تعصب اور خود غرضی کی سیاہ چادروں میں لپٹے پڑے ہیں
تمام دنیا کے انسان ایک ہی اصل کی شاخیں او رایک ہی درخت کے پتے ہیں ۔لیکن انسان
نے دریاؤں او رپہاڑوں کی غیر فطری حدوں سے اس وحدت کے اس طرح ٹکڑے ٹکڑے کر رکھے
ہیں کہ دریا کے اس پاربسنے والے انسانوں کو انسان نہیں جانور تصور کرتاہے۔ ان
دونوں کے دلوں میں پیدائشی عداوت ہوتی ہے وہ ایک دوسرے کے مفاد کے دشمن اور ایک
دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے ہیں۔ یہ اسے تباہ کرنے کی فکر میں وہاسے برباد کرنے کی
سوچ میں۔
نیشنلزم کیا
ہے؟:۔۔۔۔انسانیت کی اس غیر انسانی تقسیم و تفریقکانام نیشنلزم ہے جسے یورپ صدیوں
سے اپنے تدبّر او رہنرمندی کی معراج اور انسانیت کے لئے آیہ رحمت تصور کئے چلا
آرہا تھا۔ لیکن خود یورپ کے تجربے نے اسی آیہ رحمت اور لوائے سعادت کے جو بھیانک
نتائج پیش کئے ہیں انہیں دیکھ کر اب وہاں کے مفکّرین او رمدبّرین کی اس طرح چیخیں
نکل رہی ہیں جیسے کوئی شخص درخت کے ساتھ بندھا ہوا ہو اور سامنے آتش فشاں پہاڑ
لاوے کا سیلاب بلا اُمنڈ ھے چلا آرہا ہو۔ بعینہ یہی حالت آج مغرب کے اس حساس قلوب
کی ہورہی ہے جو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ نیشنلزم کا آتشیں سیلاب کس طرح
پوری کی پوری دنیا کو راکھ کاڈھیر بنا دینے کے لئے ایک بچھرے ہوئے شیر کی طرح دھاڑ
تا چلا آرہا ہے او راس مہیب عفریت بے پناہ کے سامنے ان کی بے بسی کایہ عالم ہے کہ
نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے
نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے
سب سے پہلے یہ دیکھئے کہ
نیشنلزم کی بنیاد کس جذبہ پر ہے؟ پروفیسر کو بن (جس کا ذکر پہلے آچکاہے) اپنی کتاب
(The Crisis Of Civilisation) میں لکھتا ہے:۔
قومیت پرستی کا احساس
نفرت سے پیدا ہوتاہے اور عداوت پر پرورش پاتاہے ۔ ایک قوم کو اپنی ہستی کا احساس
ہی اس وقت ہوتاہے جب وہ کسی دوسری قوم سے متصادم ہو۔ پھر ان اقوام کاجذبہ عداوت
وپیکار اپنی قومی وحدت کی تکمیل پر ہی ختم نہیں ہوجاتا ۔جوں ہی کوئی قوم اپنے حق
استقلال اور خود مختاری کو مسلّط کرلیتی ہے تو پھر ان اقوام کو دبانا شروع کردیتی
ہے جو اپنے لئے خود مختاری کی مدّمی ہوں۔۔۔۔ان تمام وجوہات کی بناپر اس نتیجہ پر
پہنچا جائے گا کہ کسی نظام حکومت کے لئے قومیت پرستی کی بنیاد بڑی خطرناک ہے۔(166)
(Pillsberg) اس باب میں لکھتا ہے:۔
قومیت ایک تشکیل اور
جامعیت میں سب سے موثر جذبہ نفرت کا ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ قریب قریب تمام
قومیں بڑی بڑی لڑائیوں یا دوسری قوموں سے طول طویل مخاصمت کی پیداکردہ ہیں۔
(Pillsburg: p.83)
نیشنلزم کی تباہ
کاریاں:۔۔۔۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ جس چیز کی بنیاد باہمی نفرت پر ہو اس کا لازمی نتیجہ
جنگ اور خونریزی ہوگا۔چنانچہ اس باب میں میسن لکھتا ہے کہ :۔
جنگ کی بنیاد نیشنلزم ہے
جس طرح افراد میں باہمی تنازع کی بنیاد جذبہ انانیت ہوتا ہے ۔ارتقا ‘ے جنگ کی ساری
تاریخ کا سراغ اسی بنیاد سے لگ سکتا ہے۔
فلسفہ اجتماعیات کا عالم
پروفیسر (William Brend) اپنی کتاب (Foundations Of human
Conflicts)
کے مقدمہ میں (1944میں) لکھتا ہے کہ اغلب یہی ہے کہ موجودہ جنگ کے بعد اقوام یورپ
چند سال تک عملی نبرد آزمائی میں نہ الجھیں گی کیونکہ ان میں سے بعض توبہت تھکی
ہوئی ہوں گی او ربعض کو ان کے فاتحین دبا کر رکھیں گے لیکن قومیت پرستی (Nationalism) یعنی وہ جذبہ جو
جنگ کااصلی ذمہ دارہے باقی رہے گا۔ اس لئے مستقبل میں جنگ کے امکانات کو ختم کرنے
کے لئے آج کی سیاست دانی کی پرکھ اسی سے ہوگی کہ موجودہ جنگ کے بعد قومیت پرستی کے
اس جذبہ کے متعلق کیا تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔
نیشنلزم کی غیر فطری
تقسیم انسانیت کے متعلق یہی پروفیسر اپنی کتاب میں لکھتا ہے:۔
آج ایک برّاعظم کی مثال
یوں سمجھئے کہ ایک زرخیزکھیت ہے جس میں انسانوں نے نہایت نامعقولیت سے دیواریں
کھڑی کررکھی ہیں۔ یعنی وادیوں کے اطراف وجوانب ،سڑکیں، دریاوعیرہ جن کامصرف اس کے
سوا او رکچھ نہیں کہ انہوں نے ایک گروہ کو دوسرے سے الگ کر رکھا ہے ۔اور جذبہ
وطنیت وہ سیمنٹ ہے جو ان زندہ اینٹوں کو باہمدگربوط کئے ہے جس سے انسان خود ساختہ
جیل خانوں میں محبوس ہیں۔(57)
ذرا آگے چل کر یہی
پروفیسر لکھتا ہےء۔
وطنیت کی جذبہ اتحاد
انسانی کے راستہ میں سب سے بڑا پتھر ہے۔۔۔ انسان کے سامنے دوہی رائے ہیں یا تو یہ
کہ وہ اپنی قومی فوقیت کو قائم رکھنے او راس طرح دنیا میں جنگ کا سلسلہ جاری رہے
اور یا کسی قسم کے بین الاقوامی اتحاد کا راستہ اختیار کرے۔
تاریخ قومیت کا عالم (Frederick
Hertz)
اپنی کتابا (Nationality In History And Politics) میں رقمطراز ہے کہ
تاریخ بتاتی ہے کہ مختلف
اقوام میں باہمی لڑائیوں کا سبب اس کے سوا شاید ہی کچھ اور ہو کہ یہ قومیں انسانوں
کی مختلف جماعتیں جنہوں نے اپنے اپنے الگ نام رکھ لئے تھے (اسی کانتیجہ ہے کہ )
ایک انگریز کے نزدیک کسی فرانسیسی ،ہسپانوی یا اطالوی کا نام نفرت اور تحقیر کا
خیال پیدا کرتاہے ۔ لیکن خالی انسان کالفظ اگر اس کا اطلاق صحیح طور پر کیا جائے
،جذبہ احترام پیدا کرنے میں کبھی ناکام نہیں رہتا (328)
( Adam De Hegedus) نے (The State Of The World) کے نام سے (1946 ء
میں) ایک اہم کتاب شائع کی تھی جس میں دوسری عالمگیر جنگ کے بعد دنیا کے اضطرابی
جہنم کا جائزہ لیا گیا تھا ۔ اس کتاب میں وہ لکھتا ہے:۔
مسئلہ کس قدر پیچیدہ کیوں
نہ ہو یہ واقعہ ہے کہ ہمارے درو کی دونوں عالمگیر لڑائیاں نیشنلزم کی پیدا کردہ
ہیں۔ او ریہی چیز ہمارے زمانہ میں سب سے بڑی سیاسی قوت ہے ان دونوں لڑائیوں کی تہہ
میں وہی اصول کار فرما تھا جس کی رو سے دنیا کو آزاد قومی مملکتوں میں تقسیم
کردیاگیا او رجس کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ مختلف مملکتیں ایک دوسرے سے بڑھنے کی فکر
کرتی ہیں اور اس طرح ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں ان حالات میں کبھی صالح معاشرتی
نظام قائم ہی نہیں ہوسکتا ۔
اور رونا صرف یہی نہیں کہ
یہ دو عالمگیر لڑائیاں کیوں ہوگئیں رونا تو اس بات کا ہے کہ جب دنیا میں جنگ نہیں
ہورہی ہوتی اس وقت بھی امن قائم نہیں ہوتا ۔(11-12)
آگے چل کر لکھا ہے کہ :۔
نیشنلزم انسانی تاریخ میں
سب سے بڑا مفسدہ ہے اس لئے کہ اس سے پہلے کوئی فساد انسانیت نہ عالمگیر ہوا کرتا
تھا نہ انسانی زندگی پر محیط کُلّی ۔
برٹرینڈرسل اپنی تازہ
کتاب The Hopes For A Changing World--1953 میں لکھتا ہے۔
ہمارے زمانہ میں جو چیز
معاشرتی روابطہ کو قومی حدود سے آگے بڑھانے میں مائع ہے وہ نیشنلزم ہے ۔ اس لئے
نیشنلزم نوع انسانی کی تباہی کے لئے سب سے بڑی قوت ہے۔( پھر تماشایہ ہے کہ )
ہر شخص تسلیم کرتاہے کہ
دوسرے ملکوں کی نیشنلزم بڑی خراب چیز ہے لیکن اس کے اپنے وطن کی نیشنلزم بہت اچھی
ہے۔
نیشنلزم ایک مذہب
ہےء۔۔۔۔۔ بڑحی مصیبت یہ ہے کہ یورپ نے نیشنلزم کومحض ایک سیاسی مسلک کی حیثیت سے
اختیار نہیں کر رکھا بلکہ اسے مذہب کی پوزیشن دے رکھی ہے وہاں ‘‘وطن’’ ایک
دیوتاسمجھا جاتا جس کی پرستش ہوتی ہے اور جس طرح ازمنہ مظلمہ میں مذہب کے نام پر
انسانی خون بہایا جاتا تھا آج انسانی جانیں وطنیت کے دیوتا کی بھینٹ چڑھائی جاتی
ہیں۔( Aldous Huxley) اپنی کتاب ( The Perennlal Philosophy) میں لکھتا ہ:۔
نیشنلزم ایک بُت پرستانہ
،مشرکانہ مذہب کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ ایسا مذہب جو فساد اور تفریق انسانیت کے
لئے ایسا طاقتور ہے کہ کوئی توحید پرست مذہب ،فلاح ووحدت انسانیت کے لئے اس
کامقابلہ نہیں کرسکتا ۔نیشنلزم یانسل پرستی کا جذبہ بالکل پاگلوں کامسلک
ہے۔(203-184)
اس کی وضاحت اس نے اپنی
دوسری کتاب (Science Liberty And Peace) میں اس طرح کی ہے:۔
لارڈایکٹن نے 1862ء میں
لکھا تھا کہ نیشنلزم کا مقصود آزادی یا خوشحالی نہیں اس کے نزدیک مملکت ہی تمام
مقاصد کامعیار ہوتی ہے اس لئے وہ مملکت کی خاطر سب کچھ قربان کردیتی ہے اس لئے اس
کا انجام مادی اخلاقی ہر قسم کی تباہی ہوگا ایکٹن کی یہ پیش گوئی کس طرح پوری ہوتی
چلی جارہی ہے نیشنلزم نے جس قدر مادی نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی شاید پوری کی
پوری نسل بھی نہ کرسکے باقی رہی اخلاقی رہی اخلاقی تباہی سویہ تباہی لاکھوں مردو ں
،عورتوں ، بالخصوص بچوں کیلئے ناقابل تلافی ہے نیشنلزم کی طرف سے جسے ہم نے وحدت
انسانیت اور خدا کے عقیدہ کو چھوڑ کر ایک بت پرستانہ مذہب کی حیثیت سے اختیار کر
رکھا ہے۔ہمیں صرف یہی دو تحفے نہیں ملے ۔اس کی وجہ سے ساری دنیا قریب پچاس ٹکڑوں
میں تقسیم ہوچکی ہے جنہیں اقوام عالم کہا جاتاہے ۔ان میں سے ہر قوم کا ‘‘مملکتی مذہب’’
ہے یعنی خدا کی بجائے قوم کی پرستش جسے اعلیٰ اقدار کامظہر سمجھا جاتا ہے ۔
لہٰذاان پچاس دیوتاؤں میں سے ایک دیوتا کا پچاری باقی انچاس پچاریوں کو ملیکش
تصورکرتا ہے نیشنلزم اخلاق کی تباہی کاباعث اس طرح بنتی ہے کہ اس کی رو سے عالمگیر
انسانیت خدا ئے واحد اور احترام آدمیت کے تمام عقائد باطل قرار پا جاتے ہیں اور ان
کے بجائے علیحدگی ،تکبّر انانیت خود اکتفایت کے عقائد پیدا ہوجاتے ہیں جن کانتیجہ
نفرت اورجنگ کا جواز ہی نہیں بلکہ وجوب ہوتاہے۔
یہی ہکسلے اپنی ایک او
رکتاب (Ends And Means)میں نیشنلزم او را س کی تباہ کاریوں کے متعلق لکھتا ہےء۔
ہرنیشنلزم ایک بت پرستانہ
مذہب ہے جس میں مملکت نے خدا کی حیثیت اختیار کررکھی ہے۔۔۔ یہ خدا بڑے سخت فرائض
عائد کرتاہے او ربڑی عظیم قربانیاں مانگتا ہے چونکہ نوع انسانی کے دل میں نیکی کی
تڑپ اور عطش ہے اس لئے وہ اس خدا کی پرستار بن جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ اس کی پرستش
کی ایک وجہ او ربھی ہے اور وہ یہ کہ اس سے انسان کے اسفل جذبات کی تسکین ہوجاتی ہے
۔نفرت اور دشمنی کے جذبات کی تسکین نیز جرائم کی لذّت۔
ذرا آگے چل کر یہی مصنّف
لکھتا ہے:۔
لیگ آف نیشنز نے ‘‘قوم’’
کی جو تعریف متعین کی ہے اس کی رو سے قوم کے معنی ہیں‘‘ایسی سوسائٹی جسے جنگ کے
لئے منظم کیا جائے’’۔۔۔۔ (جہاں تک اخلاق کاتعقل ہے) اس باب میں کمیونسٹ ہوں یا
نازی فاشسٹ ہوں یا عدم نیشنلسٹ ،سب یکساں ہیں۔ سب کا ایمان یہ ہے کہ حصول مقصد کے
لئے ہر قسم کا ذریعہ اختیار کرلینا جائز ہے اور سب کے نزدیک ‘‘مقصد’’ سے مراد ہے
انسانوں کے ایک گروپ کا دوسرے گروپ پر غلبہ وتسلّط ۔اس غلبہ وتسلّط کے لئے ہر قسم
کی تشدّد اور فریب جائز ہے۔ یہ سب یہی وعظ کہتے ہیں کہ ہر فرد کو اپنا سب کچھ
اسٹیٹ کے سپرد کردینا چاہئے ۔
ہاردیو (Nicoles
Berdyaev)
اپنی کتاب (Salvery And Freedom) میں لکھتا ہےء۔
اس سے زیادہ نفرت انگیز
تصور او رکیا ہوسکتاہے کہ اسٹیٹ یا سوسائٹی یا نیشن کو خدا بنالیا جائے او رپھر اس
کی اس حیثیت کو اس امر کی دلیل قرار دے دیا جائے کہ اسے فرد غلبہ و استیلاء کاحق
حاصل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاست کاتمام تر مدار جھوٹ پر ہے۔ اس لئے انسانی اخلاق
کامطالبہ ہونا چاہئے کہ دنیاسے سیاست کے وجود کو جتنا کم کیا جاسکے کردیا جائے
۔سیاست ہمیشہ انسان کو غلامی کامظہر ہوتی ہے۔حیرت یہ ہے کہ شرافت و صداقت کو تو
خیر چھوڑئیے ۔سیاست تو عقل کوبھی مظہر نہیں ہوتی ۔ان بڑے بڑے مدبّرین اور سیاستدانوں
کو دیکھئے حرام جوان میں سے کسی نے کبھی کوئی بات عقل شعور کی کی ہو۔
نیشنلزم کے متعلق ڈین انج
لکھتا ہے کہ ء۔
ہمارے سامنے ایک باطل
مذہب ہے یعنی مذہب نیشنلزم ۔یہ مذہب لامذہبیت سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔(The
Fall Of Idols: p. 133)
اسی مذہب کی تباہ کاریوں
کے متعلق انج لکھتا ہے کہ:۔
نیشنلزم محارب(Non-Combatant) طبقہ میں کوئی فرق
ہی نہیں رہتا ۔(187)
نشنلزم اور جنگ:۔۔۔۔۔ اس
حقیقت کا اندازہ (کہ نیشن نام ہی ایسی سوسائٹی کا ہے جسے جنگ کے لئے منظم کیا
جائے) اس سے لگائے کہ مغرب کے مدبرّین کے نزدیک جنگ ایک اصول ثابتہ اور انسانی
فطرت کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ مسولینی کاقول تھا کہ :۔
میرے نزدیک جنگ بالکل
اخلاقی چیز ہے ۔مفاہمت سے بھی زیادہ اخلاقی مرد کے لئے جنگ ایسی چیز ہے جیسے عورت
کے لئے حمل ۔
ہٹلر کا عقیدہ یہ تھا
کہ:۔
اب ایک نئی دنیا وجود میں
آچلی ہے جس میں جنگ ایک بنیادی اصول کی حیثیت رکھتی ہے جنگ ہی ہر شے کے ناپنے کا
پیمانہ ہے او رقانون وہی ہے جسے ایک سپاہی وضع کرے۔فرد اور معاشرہ کے صرف وہی کام
قابل ستائش ہوسکتے ہیں جو جنگ کی تیاری میں مدد دیں۔
رسکن کا قول ہے کہ :۔
انسان کے تمام اخلاق
اعلیٰ اور صلاحیتوں کی بنیاد جنگ ہے
ڈاکٹر لے (LEY) کا قول ہے کہ :۔
جو قومیں ہمیشہ امن میں
رہتی ہیں ان کے جوہر مردانگی ختم ہوجاتے ہیں۔
(HEINRICH HAUSER) کا قول ہے کہ :۔
ہمیں چاہئے کہ ان تمام
اداروں کو توڑ دیں جو انسان کو امن اور حفاظت کی ضمانت دیتے ہیں۔ زندگی صرف اس وقت
محکم او رسادہ ہوسکے گی ۔ جسے بربریت کہا جاتاہے وہ حقیقت زندگی کی اس قوت کانام
ہے جو اپنی تجدید آپ کرتی ہے۱۔
انہی خیالات کی بنا پر
ڈین انج نے یورپ کے متعلق لکھا ہے کہ :۔
یورپ کو اس تباہی سے کوئی
نہیں بچا سکتا سوائے اس کے کہ یہ پھر ہوش میں آجائے (اور نیشنلزم کی لعنت کو چھوڑ
دے) ورنہ اگر اقوام کے فیصلوں پریہ بھوت اسی طرح سوار رہا تو مستقبل بڑا تاریک او
رپرُ خطرنظر آتاہے ۔ (200)
ہر ٹز (HERTZ) لکھتاہے کہ :۔
دور حاضر کی قومیت پرستی
مذہب کے باب میں اپنے آپ کو عجیب الجھن میں پائی جاتی ہے ۔ایک طرف اس کی یہ حالت
ہے کہ وہ اپنے متبعین کے جذبہ اطاعت ووفاکیشی کو خدا او رقوم کے درمیان باٹنے کے
لئے تیار نہیں ۔ یہ قوم کو ایک بُت بناتی ہے او رقومیت پرستی کو خود مذہب کی حیثیت
دیتی ہے ۔لیکن دوسری طرف نیشنلسٹ طبقہ میں اتنی جرأت بھی نہیں کہ وہ اپنی مذہب
دشمنی کااظہار کھلے بند وں کریں۔کیونکہ اس سے ان کے بہت سے متبعین کے جذبات مجروح
ہونے کا اندیشہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
(Decandence) (Joad)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(J.M. Murray) نے ایک دلچسپ کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے (ADAM
AND EVE)
اس میں وہ انسانیت کے لئے ایک جدید معاشرہ کا تصور پیش کرتاہے ۔ اس ضمن میں لکھتا
ہے کہ:۔
چونکہ انسانوں کے دلوں
میں سے خدا کا عقیدہ نکل گیا ہے اس لئے اس خالی مکان پر نیشنلزم کے شیطان نے قیضہ
کرلیا ہ۔ اب انسانوں کو ایک ایسے مذہب کی ضرورت ہے جو نیشنلزم کے جدبہ غالب
آسکے۔(66-67)
امریکہ کامشہور تہذیبی
مورخ (GEORE A. DORSEY) اپنی کتاب (CIVILISATION) کا خاتمہ ان الفاظ
پر کرتاہے :۔
میں خوش ہو ں کہ زندہ ہوں
مجھے امریکی ہونے پر فخر ہے۔لیکن مجھے اس سے بھی زیادہ فخر ایک انسان ہونے پر ہے
(اس لئے کہ ) آج ہماری قومیت پرستی، نوع انسانی کی بدترین دشمن اورتہذیب کے لئے
شدید خطرہ ہے۔( 958)
مذہب قومیت پرستی میں
‘‘حب الوطنی’’ کے جذبہ کو بلند ترین خصوصیت انسانیت سمجھا جاتا ہے او رمحب وطن (PATRIOT) کو نہایت عقیدت
واحترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتاہے لیکن ( HEGEDUS) کہتا ہے ۔
محب وطن انسانی خواہ وہ
کتنا ہی سچا محبت وطن کیوں نہ ہو انسانی ترقی کابدترین دشمن او رمقصد حیات کا سخت ترین
غدّار ہوتاہے ۔ (53) (The State Of The World: p. 53)
عام طور پر کہا جاتاہے کہ
انسان چونکہ فطرۃً مدنی الطبع واقعہ ہوا ہے اس لئے وطن اور اپنی قوم سے محبت اس
فطرت کا تقاضا ہے ۔لیکن اب مغربی مفکّرین رفتہ رفتہ اس نتیجہ پر پہنچ رہے ہیں کہ
یہ خیال غلط ہے۔ ان کے نزدیک (وطنیت او رقومیت کا جذبہ غیر فطری ہے اور انسانیت کی
پست سطح کی یادگار ۔۰چنانچہ
(HEGEDUS) لکھتاہے کہ:۔
انسان مدنی الطبع حیوان
ہے جو اپنے جبلی تقاضا کی بنا پر جماعتی زندگی بسر کرتاہے ۔یہ جبلّت اس کی خصوصیات
میں سے ہے ۔ اس کیلئے جماعتی زندگی ہی میں زندہ رہنا ممکن ہے ۔۔۔۔ قوی گروہ میں
رہنا اسی لحاظ سے فطری تقاضا قرار دیا جائے گا لیکن یہ سب تقاضے ناتمام ہیں انسان
کی جماعت تمام نوع انسانیت ہے اور یہی اس کی فطرت کا تقاضا ہے ۔
(The State Of The World: p. 96)
بنا بریں (HEGEDUS) لکھتا ہے کہ :۔
سب کچھ سن لینے کے بعد یہ
حقیقت باقی رہ جاتی ہے کہ نیشنلزم انسانی سیرت کی اساسی خصوصیت نہیں بالفاظ دیگر
یہ انسان کی فطرت کا تقاضا نہیں۔
وطن کی حقیقت کے متعلق
مشہور فرانسیسی مورّخ رینان (ESSAY ON NATIONALITY) میں لکھتا ہے کہ :۔
انسان کی روح دریاؤں کے
رُخ او رپہاڑوں کی سمتوں میں مقید نہیں ہوسکتی ۔وطن کی سرزمین انسان کے لئے جائے
قیام اور کشمکش وکاروبار کے لئے ایک میدان مہیا کردیتی ہے لیکن انسان (اس کیلئے)
روح مہیا کرتاہے اس مقدس تشکیل کے لئے جسے قوم( یا ملّت) کہا جاتا ہے ۔آدمی ہی سب
کچھ ہے مادی اسباب میں سے کچھ بھی اس کے لئے کافی نہیں ہوسکتا ۔
انسانی برادری کی یہی
عالمگیریت ہے جس کے متعلق گوئٹے لکھتاہے کہ:۔
قومی منافرت کا جذبہ ایک
تعجب انگیز چیز ہے ۔یہ جذبہ تہذیب کی پست ترین سطح پر سب سے شدید اور سنگین شکل
میں ملے گا ۔لیکن انسانی تہذیب کی بلند ترین سطح پر ایک مقام ایسا آجاتا ہ جہاں یہ
بالکل غائب ہوجاتا ہ ۔وہاں ہم قومیت کے تصور سے بلند ہوکر ہمسایہ اقوام کی خوشی
اور غم کااحساس اس طرح کرتے ہیں گویا وہ خود ہی ذات کی خوشی یا غم ہے۔( C.F.
HERTZ)
اس گروہ بندانہ زندگی کی
تلخ اور تباہ کن نتائج اس قدر واضح او ربیّن طور پر سامنے آچکے ہیں کہ اور تو اور
ہندو قوم کے ارباب سیاست بھی اب کہنے لگ گئے ہیں کہ انسان کا مطح نگاہ انسانی
مساوات ہوناچاہئے حالانکہ ان کے مذہب اورمعاشرہ کا تمام دار ومدار ذات کی تفریق (CASTE
SYSTEM)
پر ہے جسے وہ سابقہ جنم کے اعمال کی بنا پر خدائی تقسیم لہٰذا اٹل اور غیر متبدّل
قرار دیتے ہیں اور بھارت ورش کے باہر انسانی آبادی کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کرتے
۔چنانچہ پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب ( THE
DISCOVERY OF INDIA) کے مقدمہ میں لکھا ہے :۔
ذات پات کی تمیز نے صرف
یہی نہیں کہ کیا بعض جماعتوں کو دبائے رکھا ۔ بلکہ یہ بھی کہ صنعت وحرفت سے علم
کوالگ کر چھوڑا اور فلسفہ کو زندگی کے عملی مسائل کے پاس نہ آنے دیا۔یہ درحقیقت
امرا ء کے طبقہ کی اختراع تھی جسے روایات کی سند سے مستحکم کرلیا گیا تھا۔ اب اس
مطح نگاہ کو یکسر بدل دیناچاہئے کیونکہ یہ زمانے کے مقتضیات او رجمہوری اصول کے
بالکل منافی ہے۔۔۔۔ ہندوستان میں ہمارا نصب العین مساوات ہوناچاہئے۔ ا س کامطلب یہ
نہیں او رنہ ہی اس کا یہ مفہوم ہوسکتاہے کہ ہر فرد کو جسمانی ذہنی یا روحانی طور
پر مساوی تسلیم کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو مساوی مواقع بہم پہنچا ئے
جائیں اور کسی فردیا جماعت کے راستہ میں کوئی سیاسی ، معاشی یا معاشرتی رکاوٹ حائل
نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نوع انسانی پر ایمان رکھیں اور اس حقیقت کو تسلیم
کریں کہ کوئی نسل یا گروہ ایسا نہیں کہ اسے مواقع بہم پہنچا دیئے جائیں او روہ اس
پر بھی ترقی نہ کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس حقیقت کو محسوس کرلیں کہ کسی گروہ
کا تنزل اس کی کسی داخلی کمی کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ محض اس لئے ہوتا ہے کہ اسے
مدّت دراز تک ترقی کے مواقع بہم نہیں پہنچائے گئے اور دوسری جماعتوں نے اسے دبائے
رکھا ہے۔
یعنی یہ لوگ بھی اب ‘‘نوع
انسانی پر ایمان’’ رکھنے کی تلقین کررہے ہیں۔
یہ ہے وہ نیشنلزم جسے
یورپ ابھی کل تک انسانی معاشرہ کی بہترین شکل میں فوزد فلاح انسانیت کاعمدہ ترین
ذریعہ قرار دیتا تھا ۔چنانچہ اس کی تباہ کاریوں سے تنگ آکر اب یورپ نے نیشنلزم کی
جگہ انٹر نیشنلزم (بین الاقوامیت) کی مطح نگاہ بنایا ہے اور نوع انسانی کے مصائب و
نوائب کا حل بین الاقوامی اداروں کی وساطت سے تلاش کرنے کی فکر میں ہے۔ حسب حادت
اب یورپ نے اس کا ڈھنڈ ورا پیٹنا شروع کردیا ہے کہ انسان کو جس فردوس گم گشتہ کی
تلاش تھی ،بالآخر اس نے اسے پالیا ہے پہلے لیگ آف نیشنز کے متعلق یہ کچھ کہا جارہا
تھا اور اس کی ناکامی کے بعد اب اقوام متحدہ کو معبود بنایا جارہا ہے۔
انٹر نیشنلزم:۔۔۔۔۔۔ پہلے
پہل لفظ (INTERATOINAL) بنتھم (BENTHAM) نے 1780ء میں وضع
کیا تھا لیکن (INTERNATIONALISM) کا لفظ ایک غیر معروف ناولسٹ (MARIA
GIANT)
نے اپنی کتاب (THE SUN-MAID) میں 1876ء میں استعمال کیا۔ گویا انیسویں صدی کے آخر تک یورپ
ہنوز اس لفظ سے بھی آشنا نہ تھا ۔ اس اصطلاح کی سیاسی اہمیت پہلی جنگ کے بعد لیگ
اوف نیشنزکی تشکیل سے ہوئی ۔یعنی سیاسی اعتبار سے اس کی عمر ابھی تیس سال سے بھی
زیادہ کی نہیں۔یہ عرصہ قوموں کی تاریخ میں ایک لمحہ سے بھی زیادہ نہیں ہوا کرتا
لیکن اتنے سے مختصر عرصے میں بھی انٹر نیشنلزم کے جونتائج سامنے آچکے ہیں اور ان
کے پیش نظر یورپ کے مفکّرین اس کی کامیابی کے متعلق ابھی سے مایوس ہوچکے ہیں ۔اس
کی وجہ بالکل بدیہی ہے ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ انسان میں خوئے درندگی نیشنلزم کے
جذبہ سے پیدا ہوتی ہے ۔انٹر نیشنلزز کا تصور اس مفروضہ پر قائم ہے کہ اکیلا بھیڑیا
تو درندہ کہلاتاہے لیکن اگر بہت سے بھیڑیوں کو اکٹھا کردیا جائے تو سب کے سب
بکریاں بن جاتے ہیں ۔کس قدر غلط ہے یہ مفروضہ مسٹر (EMERY
REVES)
نے (THE ANATOMY OF PEACE) کے نام سے ایک مختصر لیکن مفیدکتاب لکھی ہے اس کے ایک باب کا
عنوان ہے‘‘ فریب بین الاقوامیّت ’’ اس باب میں لکھتا ہے:۔
لیگ آف نیشنز ناکام رہ
گئی اس لئے وہ انٹر نیشنلزم کے علط عقیدہ پرقائم ہوئی تھی اس عقیدہ پرکہ مختلف
قوموں کے درمیان صلح قائم رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے نمائندوں کو ایک جگہ جمع
کردیا جائے تاکہ وہ اپنے اخلاقی معاملات کا تصفیہ بحث وتمحیص کے ذریعہ کرلیا کریں
(کس قدر غلط تھا یہ تصور ) ان تنازعات کا حل ممکن ہی نہیں جب تک قوموں کے باہمی
تعلقات کی بنیادیں اصلاح نہ ہوجائے (اور وہ بنیاد ہے۔نیشنلزم )۔ (161)
اس باب کے آخر میں مسٹر (REVES) لکھتا ہے :۔
ہم انٹر نیشنلزم سے کافی
کھیل چکے ہیں ۔جو مسئلہ دنیا کے سامنے پیش ہے وہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو قوموں کے
حل کرنے کا ہو( وہ خود قوموں کا پیدا کردہ ہے)۔ وہ مسئلہ یہ ہے کہ نیشنلزم کے
نظریہ نے انسانی معاشرہ میں ایک فساد برپا کردیا ہے لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ خود
نیشنلزم خواہ وہ انٹر نیشنلزم ہی کیوں نہ بن جائے اس کاحل دریافت کردے۔ اس مسئلہ
کا حل انسانی عالمگیریت (UNIVERSALISM) میں ہے۔ ایک ایسا
عقیدہ یا تحریک جس کا مقصد یہ ہو کہ وہ قومیت اور بین الاقوامیت کی سطح سے اوپر
جاکر خالص انسانی سطح پر دنیا میں امن قائم کرنا چاہتی ہے۔( 164) FREDERICH
HERTZ جس
کا ذکر پہلے آچکا ہے اس موضوع پر بحث کرتاہوا لکھتا ہے ء۔
اب اس حقیقت کو ہر ایک
محسوس کررہا ہے کہ خالی انٹر نیشنلزم کی کوئی مشینری کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرسکتی
اگر اس میں صحیح روح نہیں ہے لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ روح کس طرح پیدا
ہو او رقوموں میں کس طرح پھونکی جائے۔ اس کے لئے بڑے بڑے بلند آہنگ وعادی کچھ کام
نہیں دے سکتے نہ ہی یہ کہہ دینا کافی ہے کہ قومیں از خود اپنے اندر اس روح کی
تعلیم عام کریں ۔ اس کے لئے ایک عملی اسکیم اور تربیت کرنے والوں کی جماعت کی
ضرورت ہے۔۔۔۔یہ تعلیم وحدت انسانی کے جذبہ کو پیداکرنے کے لئے ہوگی ۔اس کے لئے
اسکول بھی صحیح مقام نہیں ۔ اس کا تعلق زندگی کے تمام اہم سیاسی، معاشی اور
معاشرتی معاملات سے ہے اور اس صورت میں ممکن ہے کہ دنیا کی تمام اقوام اپنے اپنے
ہاں ایک جیسے معاشی او رمعاشرتی نظام قائم کرلیں ۔ (خاتمہ کتاب، 412)۔
لیکن پروفیسر آئن سٹائن
کے نزدیک اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک مرکزی ادارہ کے پاس عسکری قوت ہو او روہا ں سے
بین الاقوامی تنازعات کے فیصلے ہوا کریں۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب (OUT
OF MY LATER DAY)
میں لکھتا ہے کہ :۔
میرے نزدیک ان الجھنوں کا
صرف ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ ہر مملکت کو یہ حق ہوناچاہئے کہ وہ دوسری مملکتوں
کے ساتھ اختلافی مسائل کا حل بین الاقوامی ادارہ عدل کی وساطت سے کراسکے ۔اس مرکزی
ادارہ کے پاس اتنی عسکری قوت ہونی چاہئے کہ وہ کسی کو دوسری مملکت کے خلاف جنگ
کرنے سے جبراً روک سکے۔
سیاست عالم کے متعلق دنیا
اس وقت تک انٹر نیشنلزم کے مسلک تک پہنچ سکی ہے۔ یہ مسلک کس حد تک نوع انسانی کے
مسائل کا تسلی بخش حل پیداکرسکتاہے ۔اس کے متعلق خود ارباب سوال یہ ہے کہ اگر یہ
مقام بھی انسانی مسائل کاحل نہیں پیش کرسکتا تو پھر ان مسائل کاحل کہاں سے ملے گا۔
اس کا جواب آپ کو دوسری
جلد میں ملے گا جہاں قرآنی نظام سے بحث ہوگی۔لیکن اس مقام پر اتنا کہہ دینا غیر
محل نہ ہوگا کہ خود مغرب کے مفکّرین مسلمانوں کو متبہ کررہے ہیں کہ ہم تو نیشنلزم
کی وجہ سے تناہ ہوئے ہیں تم اس جہنم میں کیوں داخل ہوتے ہو جب کہ تمہارے ہاں نوع
انسانی کی عالمگیر مواخات کا بنیاد ی تصور موجود ہے۔ پروفیسر ٹوئن بی (ARNOLD
J. TOYNBEE)
جو ہمارے زمانہ میں تاریخ تہذیب کی بلند ترین اتھارتی ہے اپنی کتاب (THE
WORLD AND THE WEST) میں لکھتا ہے کہ:۔
مغرب میں بعض دوسرے
تصورات بھی ہیں جن کا باعث فوز وفلاح ہونا بے حد مشکوک ہے۔ ان میں سے ایک ہماری
نیشنلزز ہے۔تُرک او ربعض دوسرے اسلامی ممالک نیشنلزم کے تصور سے بھی اسی طرح متاثر
ہوتے چلے جارہے ہیں جس طرح او رمغربی تصورات سے ہمیں اپنے آپ سے پوچھناچاہئے کہ جن
مسلمانوں کا مذہبی عقیدہ یہ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان بلالحاظ اختلاف نسل، رنگ،
زبان، عادات وغیرہ محض مسلمان ہونے کی حیثیت سے بھائی بھائی ہیں ان میں بھی اگر
نیشنلزم کا ایسا تنگ نظر عقیدہ رائج ہوگیا تو دنیا کا حشر کیا ہوگا؟ آج جب کہ
مغربی صنعت کاری کی وجہ سے دنیا میں فاصلہ کا تصور آہستہ آہستہ ہٹتا جارہا ہے او
رجب کہ ہمیں اس کی سخت ضرورت ہے کہ دنیا کو روسی معاشرہ سے بچا لیا جائے، مسلمانوں
کا اخوت باہمی کا عقیدہ یقیناً مغرب کی تنگ نظر قومیت پرستی کے عقیدہ سے کہیں بہتر
ہے اور یہی عقیدہ موجودہ زمانہ کے تقاضوں کو پورا کرسکتا ہے برعکس مغربی عقیدہ کے
جس نے یورپ میں محض قومیت کے معیار پردرجنوں آزاد مملکتوں کو پیدا کررکھا ہے جس
میں سے ہر ایک دوسری سے الگ ہے ۔دوسری عالمگیر جنگ کے بعد یورپ کی جو حالت ہوچکی
ہے ۔اس میں یورپ کے اندر کم وبیش 40 آزاد مملکتوں کا وجود ایک ایسا بڑا خطرہ ہے جس
کا کوئی علاج ہی نہیں ہوسکتا ۔( خود یورپ کی تباہی کا تو یہ عالم ہے لیکن) یورپ کی
تہذیب نے لوگوں کی آنکھوں کو ایسا چندھیا دیا ہے کہ وہ اس کے تصورات حیات کو
آنکھیں بند کئے اپنائے چلے جارہے ہیں ۔ہمیں کم از کم مسلمانوں سے تو یہ توقع رکھنی
چاہئے کہ و ہ اپنے عالمگیر مودّت و اخوّت کے تصور کو چھوڑ کر یورپ کا ایسا تنگ
نظری کا تصور اپنے ہاں رائج نہیں کریں گے ۔ایک عالمگیر برادری کا تصور ویسے تو
انسانی فلاح کے لئے ہمیشہ ضروری رہا ہے لیکن اس ایٹم کے دور میں اس کی اہمیت اور
ضرورت او ربھی شدید ہوگئی ہے۔(30-31)
یہ ہے وہ نتبیہ جو مغرب
کی طرف سے مسلمانوں کو دی جارہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنیادی حقوق
انسانیت:۔۔۔۔۔۔۔۔ قبل اس کے کہ ہم آگے بڑھیں نظریہ میثاق (CONTRACT
THEORY)
کے سلسلہ کی ایک اور اہم کزی کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتاہے اس کزی کا نام ہے بنیادی
حقوق انسانیت ( FUNDAMENTAL HUMAn RIGHTS) نظریہ میثاق کی
بنیاد ان مفروضات پر ہے کہ :۔
(1) تمدّنی زندگی بسر کرنے سے پہلے انسان فطری حالت میں رہتاتھا۔
(2) اس فطری حالت میں انسان کچھ حقوق رکھتا تھا جنہیں ہنوز کسی نے
غصب نہیں کیا تھا۔
(3) جب انسان کو اپنے ان فطری حقوق کے تحفظ کے متعلق خطرہ لاحق ہوا
تو اس نے معاشرتی زندگی اختیار کی لہٰذا معاشرہ (SOCIETY) کا وجود انسان کے
فطری حقوق کے تحفظ کے جذبہ کا رہین منت ہے۔
(4) بنابریں معاشرہ کا فریضہ ہے کہ انسان کے ان فطری حقوق کا تحفظ
کرے۔
ان مفروضات سے ظاہر ہے کہ
انسان کے بنیادی حقوق سوسائٹی کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ وہ سوسائٹی کی تشکیل سے
پہلے موجود تھے۔ انسان نے باہمی رضا مندی (معاشرتی میثاق) سے معاشرہ کی بنیاد ڈالی
،تاکہ اس کے ان فطری حقوق کی حفاظت ہوسکے۔
ان فطری حقوق کا نام ہے
‘‘ انسان کے بنیادی حقوق’’
ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ
نظریہ میثاق کا اوّلین داعی ہابز تھا۔ ہابز فطری حقوق کو کبھی ‘‘قوانین فطرت’’ کی
اصطلاح سے تعبیر کرتاہے اور کبھی انہیں ‘‘احکام فطرت’’ کہہ کر پکارتا ہے ۔وہ
کہتاہے کہ ‘‘اپنے حکم کو دوسروں سے منوانا ’’ انسان کی فطرت میں داخل ہے،لیکن اس
کے ساتھ ہی قیام امن، انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔یہ بنیادی جذبے ایک جگہ رہ نہیں
سکتے اس لئے کہ جب ہر انسان اپنی مرضی دوسروں سے منوانے پر تُل جائے تو امن کس طرح
قائم رہ سکتا ہے لہٰذا انسان اس دوسرے مقصد کی خاطر اپنے پہلے حق سے دستبردار
ہوگیا’’ ۔بنابریں ہابز کے نزدیک ‘‘قیام امن’’ انسان کا بنیادی حق ہے اور اس حق کے
تحفظ کے لئے انسان اپنے دیگر تمام حقوق سے دستکش ہوجاتا ہے۔
ہابز کے برعکس لاک کا
خیال ہے کہ انسان، معاشرہ (سوسائٹی) کارکن بننے سے اپنے فطری حقوق سے دستکش نہیں
ہوجاتا ۔یہ حقوق ( بجزایک حق کے ) سب برقرار رہتے ہیں او رمعاشرہ کا فریضہ ہے کہ
وہ ان حقوق کی حفاظت کرے۔ یہ فطری حقوق ،زندگی، صحت ،آزادی او راملاک’’ ہیں ان کے
تحفظ کے لئے انسان صرف ایک حق چھوڑتا ہے اور وہ ہے متنازعہ فیہ معاملات میں خود
فیصلہ کرنا ۔لاک کہتاہے کہ تمام متنازعہ فیہ معاملات کا فیصلہ معاشرہ کے سپرد
کردینا چاہئے او ر اس کے بدلہ میں معاشرہ کو ان تمام فطری حقوق کے تحفظ کا ذمہ
لینا چاہئے ۔
نظریہ میثاق کا تیسرا
حامل روسو ہے لیکن ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ روسو اس کا قائل نہیں کہ تشکیل معاشرہ کے
بعد انسان پھر سے فطری زندگی بسر کرسکتا ہے اس کے نزدیک جنت سے نکالے ہوئے آدم کیلئے
دوبارہ حصول جنت ناممکن ہے اس کے لئے اس فردوس گم گشتہ کی بازیابی محال ہے۔لہٰذا
اب فطری حقوق کے تحفظ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔اب افراد معاشرہ کو عمومی منشاء
(GENERAL WILL) کے تابع زندگی بسر کرناہوگی۔ اسی میں اس کی فلاح وبہبود اور تحفظ
حق کا راز ہے۔
ہابز او رلاک کے ہاں فطری
حقوق انسانیت کا تصور مبہم او ربالواسطہ ہے۔ یعنی یہ چیز ان کے نظریہ میثاق کے ایک
منطقی نتیجہ کی حیثیت سے سامنے آتی ہے۔ بجائے خویش ایک مستقل نظریہ کی حیثیت نہیں
رکھتی اسے ایک جداگانہ نظریہ کی حیثیت سے ( TOM
PAINE 1737-1809)نے
پیش کیا جس ک کتاب ( THE RIGHTS OF MAN) آج بھی دلچسپی سے
پڑھی جاتی ہے ۔یہ عجیب بات ہے کہ پین نظریہ میثاق کا مخالف ہے لیکن نظریہ حقوق
فطرت کا سب سے بڑاحامی ۔اس سے اپنی کتاب میں اس موضوع پر دلچسپ بحث کرنے کے
بعد‘‘آزادی ،املاک کی حفاظت او راستبداد کی روک تھام’’ کو بنیادی حقوق قرار دیا
ہے۔ آزادی سے اس کامفہوم ہے کہ یہ شخص کواختیار ہوناچاہئے کہ جو کچھ اس کا جی چاہے
کرے۔ بشرطیکہ اس سے کسی دوسرے کو نقصان نہ پہنچے ۔یہی تھے وہ حقوق جنہیں انقلاب
فرانس کے بعد فرانس کی نیشنل اسمبلی نے اپنے چارٹر میں درج کیا تھا۔امریکہ کامنشور
آزادی 1776ء میں پین ہی کے ‘‘فطری حقوق’’ کے نظریہ پر متفترع تھا۔ اس میں
‘‘زندگی’’ اور ‘‘آزادی’’ کے ساتھ ‘‘حصول مسرت’’ کوبھی بنیادی حق تسلیم کیا جاتا ہے
علمبرداران انقلاب فرانس پر بھی پین کے تصورات کا خاصا اثر تھا۔
ہم ‘‘اخلاقیات ’’ کے
عنوان میں دیکھ چکے ہیں کہ نظریہ افادیت (UTILITARIANISM) کسی مستقل یامطلق
قدر کوتسلیم نہیں کرتا ، ا س لئے اس نظریہ کے حامل (ینتھم) ،اسپنسر وغیرہ) بنیادی
حقوق انسانیت کے تصور کے مخالف تھے۔ لیکن چونکہ ‘‘بنیادی حقوق’’ میں ‘‘ حصول
مسرت’’ کو بھی بطور حق اساسی شامل کی گیاتھا (اور یہی نظریہ افادیت کامحورتھا) اس
لئے اس حق کی انہوں نے بھی تائید کی۔ بنتھم نے اس حق کی خاص طور پر تائید
کی۔اسپنسر نے ‘‘حصول مسرت’’ کے بجائے اس کا نام ‘‘ انسانی نشو ونما’’ رکھا او ریہ
کہاکہ یہ مملکت کا فریضہ ہے کہ افراد مملکت کے اس حق کی نگہبانی کرے۔
‘‘بنیادی حقوق’’ کے ضمن میں انیسو ی صدی کے مفکّرین میں گرین ( T.H.
GREEN: 1836-1882)
کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے ۔گرین کہتاہے کہ یہ نظریہ غلط ہے کہ انسان ،
معاشرتی زندگی سے پہلے فطرت کے مطابق زندگی بسر کرتا تھا اور اسی زندگی کے تقاضے
اس کے ‘‘فطری حقوق’’ ہیں جن کا تحفظ معاشرہ کا فریضہ ہے ۔اس کانظریہ یہ ہے کہ
معاشرہ کا فریضہ یہ ہے کہ ‘‘وہ انسان کو وہ کچھ بنادے جو کچھ وہ اپنے مضمر ممکنات
کی رو سے بن سکتاہے ‘‘یعنی جو کچھ انسان کے اندر ہے اسے پورے طور پر (DEVELOP) کردے۔ یہی انسان کا
فطری حق ہے۔ جوڈ کے الفاظ میں گرین کا تصور تھا کہ معاشرہ ایسے حالات پیدا کردے جس
میں انسان مستقل اقدار کو مشہور بناسکے ۔لیکن گرین کا نظریہ ایک فکری بحث سے آگے
نہ بڑھ سکا۔ اس لئے کہ جس سیاست کی بنیاد اخلاقیات پر نہ ہو اس سے یہ تقاضا کرنا
عبث ہے کہ وہ ایسا ماحول پیدا کردے جو اخلاقی اقدار کو ممکن الحصول بنادے ۔‘‘
بنیادی حقوق’’ کا سوال سیاسیاست ہی ایک شق بن کر آگے بڑھا اور آج بھی اس کے متعلق
اسی نہج سے گفتگو کی جاتی ہے۔
1918ء میں ‘روس کی کانگریس نے مزدوروں او رکسانوں کے سلسلہ میں
بنیادی حقوق کا ایک منشور مرتّب کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ ‘‘اس منشور سے مقصود
یہ ہے کہ انسان کسی دوسرے انسان کو لوٹ نہ سکے۔ معاشرہ کی طبقاتی تقسیم کو ہمیشہ
کے لئے ختم کردیا جائے اور تمام ممالک عالم میں معاشرہ کی تنظیم اشترا کی خطوط پر
کردی جائے۔’’ اس منشور کو رو سے انسان کا بنیادی حق یہی تسلیم کیا گیاہے کہ اس کی
محنت کا ماحصل کوئی دوسرا انسان غصب نہ کرے۔
حق کسے کہتے ہیں:۔
سب سے پہلے یہ سوال پیدا
ہوتاہے کہ موجودہ سیاست کی زبان میں حق (RIGHT) کہتے کسے ہیں۔ڈاکٹر
ایوئنگ (A.C. EWING) اپنی کتاب (THE INDIVIDUAL THE STATE
AND WORLD GOVERNMENt) میں لکھتا ہے کہ :۔
میرے نزدیک حق کی تعریف
یہ ہے:۔
اس امر کی ضمانت کہ اس
شخص کے معاملہ میں عام حالات میں کوئی دوسرا مداخلت نہیں کرے گا۔
(10)
حق کی اس تعریف (DEFINITION) میں ‘‘عام حالات
میں’’( NORMALLY) کا ٹکڑا قابل غور ہے۔ ا س کے یہ معنی ہیں کہ ضمانت عام حالات کے
ماتحت ہی دی جاسکتی ہے اور ایسے خاص حالات پیدا ہو سکتے ہیں جن میں یہ ضمانت منسوخ
ہوجائے گی اور اس خاص شق میں جسے حق تسلیم کیا گیا تھا ،مداخلت جائز قرار پاجائے
گی ۔ بالفاظ دیگر اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاست حاضرہ میں فرد کا کوئی حق ایسا نہیں
جسے مملکت کی طرف سے بطور حق مطلق (ABSOLUTE TIGHT) دیا جائے ۔ یعنی
ایسا حق جسے بلا مشروط دیا جائے اور جسے کسی حالت میں بھی چھینا نہ جاسکے۔ ڈاکٹر
ایوئنگ اس نقطہ پر بحث کرتاہوا اسی نتیجہ پر پہنچا ہے کہ حق مطلق کسی کو نہیں دیا
جاسکتا اور جب تک کوئی حق ،حق مطلق نہیں مشروط ہے ،تو ایسے حق کو حق (RIGHT) کہنا ہی غلط ہے
۔البتہ بعض قوانین ایسے ہیں جنہیں ڈاکٹر موصوف کے نزدیک عالمگیر (UNIVERSAL) قرار دیا جاسکتا ہے
۔مثلاً(i) کسی شخص کو بلا تحقیق و تفتیش مجرم قرار نہ دیا جائے ۔(ii) شہادت کے سلسلہ میں
گواہ پر کسی قسم کی سختی نہ کی جائے ۔(iii) ہر شخص کو اظہار
خیالات کی آزادی ہونی چاہئے اور (iv) پرستش کی بھی آزادی لیکن شق (iii) کے ساتھ یہ شرط بھی
لگا دی گئی ہے کہ ایسے خیالات کا اظہار ممنوع قرار دیا جائے جن سے کسی کی بدنامی
ہوتی ہویا جن سے نقص امن کا خطرہ ہو۔ اسی طرح شق (iv) کے متعلق لکھا ہے
کہ آزادی پرستش پر بھی وہی حدود وقیود عائد کرنی چاہئیں جو آزادی تقریر پر عائد کی
جائیں اس اہم کتاب کا قریباً ایک تہائی حصہ بنیادی حقوق کی بحث پر مشتمل ہے۔لیکن
ہر ایک ‘‘حق’’ کے ساتھ کوئی نہ کوئی شرط ضرور عائد کی گئی ہے۔
یو این (U.N) کا
منشور:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تعین حقوق انسانیت کی ان انفرادی کوششوں کے بعد ،اب ان اجتماعی
کوششوں کی طرف آئیے جسے عصر حاضرہ کی سب سے بڑی کامرانی (ACHIEVEMENT) کہاجاتا ہے ۔ کچھ
عرصہ ہوا مجلس اقوام متحدہ (UNITED NATIONS) نے (HUMAN
RIGHTS COMMISSION)
کے نام سے ایک تحقیقاتی بورڈ قائم کیا تھا کہ وہ کامل غور وخوض کے بعد سفارشات پیش
کرے کہ ‘‘انسانیت کے بنیادی حقوق’’ کیا ہیں ۔ اس بورڈ نے ساری دنیا کے ارباب فکر
ونظر سے مشورہ کے بعد اپنی شفارشات مرتّب کیں۔ان شفارشات کو تمام اقوام عالم کی
نمائندہ جماعت (U.N) نے بڑے غور و فکر سے جانچا پرکھا اوراس کے بعد (1948ء) میں وہ
چارٹر شائع کیا جسے ‘‘منشور حقوق انسانیت’’۔
(DECLARATION OF HUMAN RIGHTS) کے نام سے پکارا
جاتا ہے۔جس منشور کو اس قدر جدّوجہد ، تحقیق وتفتیش ،غور و تدبرّ او ربجٹ و تمحیص
کے بعد مرتب کیا گی ہے او ر جسے اقوام عالم کے نمائندوں نے سرکاری طور پر منظور
کیا ہے اس کے متعلق بجا طور پر کہا جاسکتاہے کہ وہ اس سطح پر صحیح مظہر ہے جس تک
حقوق انسانیت کے مسئلہ کے متعلق انسانی ذہن اس وقت تک پہنچ چکاہے جس زمانہ میں یہ
منشور ہنوز زیر تحقیق تھا، انجمن ، اقوام متحدہ کی (EDUCATIONAL,
SCIENTIFIC, AND CULTURAL ORGANISATION-UNESCO) نے اس موضوع پر ایک سوال نامہ مرتب کیا اوراسے دنیا بھر کے مشہور
ارباب فکر و نظر کے پاس بھیجا کہ وہ ان حقوق کے متعلق اپنی آراء سے مطلع کریں۔ (UNESCO) نے ان میں سے بلند
پایہ مشاہیرے کے مقالات ایک مجموعہ کی شکل میں شائع کردیئے ہیں اس مجموعہ مقالات
کاتعارف (JACQUES MARITAINS) نے لکھا ہے ۔ ان تمام مقالات میں جس چیز کونمایاں طور پر تسلیم
کیا گیاہے وہ یہی ہے کہ انسان کے کوئی حقوق مطلق (ABSOLUTE) نہیں۔( MARITAIN) کے الفاظ میں۔
یہ حقیقت بدیہی ہے کہ
تمام حقوق ، انسانی حقوق ہیں (خدائی حقوق نہیں) او رباقی تمام انسانی حقوق کی طرح
ایسے کہ ان پر حدودوقیود عائد کی جائیں او رانہیں قابل ترمیم تبدیل قرار دیا جائے
حتیٰ کی جن حقوق کو بلا مشروط کہا جاتاہے ان میں بھی ملکیت حقوق اور ان کے استعمال
میں بنیادی فرق ہے ملکیت بجاہے ،لیکن ان کااستعمال ان حدود اور پابندیوں کے مطابق
ہوگا جواز روئے عدل ان پر عائد کی جائیں گی۔(15)
ہسپانیہ کا ممتاز مدبرّ
او رمصنف ( DON SALVADOR DE MADARIAGE) اپنے مقالہ کے شروع
میں لکھتاہے کہ ‘‘یہ بات واضح ہے کہ کسی حق کو حق مطلق نہیں کہا جاسکتا ۔۔۔۔ انسان
مرکب ہے۔ فرد اور معاشرہ سے جس طرح کسی معاشرہ کابلا افراد تصور ہی نہیں کیا جاسکتا
اسی طرح کسی فرد کا بلا معاشرہ تصور نہیں کیا جاسکتا ۔لہٰذا جن چیزوں کو افراد کے
حقوق کہا جاتاہے وہ دراصل ان تعلقات کانام ہے جو ایک فرد کو معاشرہ سے ہوتے
ہیں۔’’(47)
ماڈرن کوارٹرلی (لندن) کا
ایڈیٹر (JHON LEWIS) اپنے مقالہ کی اتبداء ان الفاظ سے کرتاہے۔
اس حققیت کو اب ہر جگہ
تسلیم کیا جاتا ہے کہ حقوق انسانی کے متعلق یہ تصور کہ یہ حقوق مطلق اور فطرت
انسانی کے اندر مضمر ہوتے ہیں اور ان کی ابتداء اس زمانہ سے ہوتی ہے جب انسان نے
ہنوز معاشرہ کی طرح بھی نہیں ڈالی تھی ایک افسانہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ۔اسی
سے حقوق انسانیت کے متعلق ایک سخت غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے۔(54)
شکاگو یونیورسٹی کا
پروفیسر (GERARD) لکھتاہے کہ :۔
انسانی حقوق تو صرف اس
کوشش کا نام ہیں کہ انسان اور اس کے معاشرہ کے باہمی تعلقات کو متعین کردیا جائے ۔
یہ حقوق نہ تو مطلق ہوتے ہیں نہ ایسے کہ انہیں ہمیشہ کے لئے ناقابل تغیر و تبّدل
قرار دے دیا جائے۔
اس کے بعد دیکھئے کہ (U.N) کے منشور میں کن
حقوق کو ‘‘بنیادی حقوق’’ کی حیثیت سے تسلیم کیاگیا ہے۔ یہ حقوق مختصر الفاظ میں
حسب ذیل ہیں۔
فہرست حقوق:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) تمام انسان آزاد پیدا ہوتے ہیں اوراحترام وحقوق کے معاملہ میں یکساں ہیں ۔
(2) یہ حقوق ، نسل ، رنگ، جنس، زبان، مذہب،سیاسی یا دیگر خیالات
،قومی ، یا معاشرتی ،وطن، جائیداد ، پیدائش یا کسی منصب کی تمیز و تفریق کے بغیر
سب کے لئے یکساں طور تسلیم کئے جاتے ہیں۔
(3) زندگی، آزادی اور حفاظت نفس کا حق۔
(4) غلامی کی ممانعت۔
(5) بے رحمی کے سلوک سے حفاظت۔
(6) قانون کی نگاہوں میں یکساں احترام آدمیت۔
(7) عدالت میں ہر ایک سے یکساں سلوک
(8) بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے قومی اداروں سے امداد کا استحقاق
(9) کسی شخص کو بلا قصور گرفتار نہیں کیا جائے گا نہ ہی نظر بند یا
جلاوطن کیا جائے گا ۔
(10)تمام الزمات کے سلسلے میں مقدمات کی پبلک سماعت کا حق
(11) جب تک جرم ثابت نہ ہوجائے، ملزم کو بے قصور تصور کیا جائے۔
ُ(12)مسائل زندگی اور نجی
خط وکتابت میں عدم مداخلت
(13) نقل و حرکت کی آزدای۔
(14) ایک ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں جابسنے کی آزادی۔
(15) حق قومیت۔
(16) شادی کے حقوق۔
(17) حقوق جائیداد۔
(18) خیالات ، ضمیر او رمذہب کی آزادی۔
(19)اظہار خیالات کی آزادی
(20) اجتماع کی آزادی
(21) اپنے ملک کو گورنمنٹ میں شرکت کا حق۔
(22) اپنی تعمیرات ذات کے لئے وسائل وذرائع کی آزادی
(23) اپنی حسب منشاء کا م کاج کی آزادی
(24) آرام اور فرصت کی آزادی
(25) معیار زندگی کاحق۔
(26) حق تعلیم۔
(27) جماعتی ،ثقافتی ز ندگی میں حق شرکت۔
(28) معاشرتی او ربین الاقوامی ادارے کا حق جس میں ان حقوق کے حصول
کی آزادی ہو۔
یہ ہیں حقوق اس کے بعد
ایک شق میں لکھا ہے کہ ان حقفوق کے مقابلہ میں ہر فرد کے فرائض بھی ہیں(لیکن ان
فرائض کی کوئی فہرست نہیں گئی)۔
اور اس کے بعد تحریر ہے
کہ ان حقوق اور اختیارا ت کے حدود کے تابع استعمال کیا جاسکتا ہے جواز روئے قانون
عائد کئے جائیں۔
اقوام متحدہ کایہ منشور
اقوام عالم کے نمائندگا نے منظور کیا ہے، لیکن شکاگویونیورسٹی کا پروفیسر (QUINCY
WRIGHT)
انے مقالہ میں لکھتاہے کہ:۔
تجربہ نے بتایا ہے کہ اس
باب میں کسی قوم پر بھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ہر حالت میں حقوق انسانیت
کااحترام کرے گی۔ گذشتہ دنوں اقلیتوں پر جس قدر مظالم کئے گئے ہیں اس سے انسانی
ضمیر کانپ اٹھتا ہے۔ اگرمجلس اقوام متحدہ فی الواقعی چاہتی ہے کہ ان حقوق کا
احترام ہوتو اسے چاہئے کہ یہ تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لے اور اقوام عالم کے
اقتدار اعلیٰ (SOVEREIGNTY) کے تصور میں اس کے مطابق تبدیلیاں پیدا کردے۔ (15)
جس خدشہ کی طرف پروفیسر (
WRIGHT) نے اشارہ کیا ہے وہ
ایک حقیقت ہے۔ حقوق کی فہرستیں مرتب کردینے سے حقوق کی نگہداشت نہیں ہوجایا
کرتی۔جب تک نظام سیاست میں حاکم اور محکوم کا تصور موجود ہے اس وقت تک انسانی حقوق
کے تحفظ کا مسئلہ لاینحل رہے گا(تفصیل اس کی دوسری جلد میں ملے گی) تحفظ حقوق کے
لئے ‘‘حکومت’’ کے تصور کا مٹانا ضروری ہے او ریہ ہونہیں سکتا جب تک پوری کی پوری
قوم کے سامنے ایک بلند مقصد نہ ہو۔ وحدت مقصد ہی افراد کو اک سطح پر کھڑا کر سکتی
ہے۔وہائٹ ہیڈ کے نزدیک تو آزادی سے مفہوم ہی مقصد کاممکن العمل ہوناہے۔ سو جب تک
تمام افراد کے سامنے ایک ہی مقصد نہ ہو اور وہ مقصد ممکن العمل بھی ہو ، کسی کوبھی
آزادی نصیب نہیں ہو سکتی۔ اور ‘‘وحدت مقصد’’ کی بنیاد مستقل اقدار کے سوا اور کچھ
نہیں۔ اس لئے جب تک انسانی حقوق کامدار، مطلق اقدار کے تصور پر نہ ہو دنیا کاکوئی
منشور او رکوئی دستاویزان حقوق کے تحفظ کی ضمانت نہیں دے سکتی ۔چنانچہ (UNESCO) کے محولہ بالا
مقالات کی تمہید میں خودمسٹر (MARITAIN) لکھتا ہے کہ :۔
انسانیت کے حقوق کی تعریف
(DEFINITION) نہیں بلکہ روزمرّہ کی زندگی میں ان کے استعمال کے مسئلہ پر متفق
ہونے کے لئے سب سے پہلی شرط ی ہے کہ اقدار کے پیمانوں پر متفق ہوا جائے۔ حقوق
انسانیت کے احترام کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں کے نزدیک انسانی زندگانی کا عملی تصور
مشترک ہو۔ اسی کو‘‘ فلسفہ زندگی’’ کہتے ہیں۔ (17)
یعنی احترام حقوق انسانیت
کے لئے ضروری ہے کہ تمام دنیا میں ‘‘فلسفہ زندگی’’ مشترک ہو جب تک ایسا نہیں ہوگا
تحفظ حقوق انسانیت کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاصل مبحث:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گذشتہ صفحات میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے یہ حقیقت آپ کے سامنے آگئی ہوگی کہ
اس وقت تک انسانی کوششیں دنیا میں ایک صحیح سیاسی نظام قائم کرنے میں قطعاً کامیاب
نہیں ہوسکیں۔‘‘ دنیا میں کس قسم کی مملکت صحیح سیاسی نظام کی مظہر ہوسکتی
ہے’’۔مختلف مفکّرین کے ذہنوں نے اس کے نقوش مرتب کئے ہیں او ر انہوں نے عالم تصور
میں اس جنت ارضی کو اپنے سامنے متشکل بھی دیکھا ہے۔لیکن اس قسم کی مثالی مملکت کا
عملی قیام کس طرح ہوسکتا ہے ان میں سے کوئی نہیں بتاسکا ‘‘ کیا ہونا چاہئے؟’’ اس
کے متعلق تو ذہن انسانی میں اب دھندلے سے نفوس اُبھرنے شروع ہوگئے ہیں ۔لیکن یہ کس
طرح ہوسکتا ہے ؟ اس قسم کی عمارت کے لئے کن بنیادوں کی ضرورت ہے اس کے متعلق فکر
انسانی کچھ نہیں کہہ سکا نہ ہی انسانی فکر کے بس کی بات ہے۔مثالی مملکت کی خصوصیات
کیا ہونی چاہئیں اس کے متعلق مسٹر (MCLVER) اپنی کتاب (THE
MODERN STATE)
میں لکھتا ہے :۔
مثالی
حکومت:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس قسم کی مملکت حکم اس لئے دیتی ہے کہ یہ افراد کی خادم ہوتی ہے
یہ تخلیق حقوق کرتی ہے اس لئے نہیں کہ کسی بڑی مسند پر بیٹھی خیرات بانٹ رہی ہے
بلکہ اس لئے کہ یہ معاشرہ میں تخلیق حقوق کاایک واسطہ ہے ۔خادم کبھی اپنے آقا سے
بڑا نہیں ہوسکتا جس طرح دیگر حقوق اضافی اور محدود ہوتے ہیں اسی طرح مملکت کے حقوق
بھی اس کی خدمت کے اعتبار سے اضافی ہونے چاہئیں۔(480)
برگسان لکھتا ہے کہ :۔
(مملکت کا) اقتدار اعلیٰ انسانوں پر نہیں بلکہ اشیاء پر ہوناچاہئے
تاکہ کسی انسان کا دوسرے انسان پر کوئی اقتدار نہ ہو۔
(THE TWO SOURCES OF MORALITY AND RELIGION:
p. 300)
پروفیسر J.D.
MABBOTH
اپنی کتاب (THE STATE AND THE CITIZEN) میں لکھتاہے کہ‘‘
اچھی حکومت اسے کہناچاہئے جس میں تمام افراد کی حفاظت ہو کسی کو کسی سے ڈرنے کی
کوئی وجہ نہ ہو۔ باہمی معاملات میں خوشگوار ی ہو اور افراد کے تنازعات کے فیصلے
عدل کی رو سے کئے جاسکیں۔’’( صفحہ 101-102)آلڈوس ہکسلے کہتاہے کہ انسان اسی صورت
میں آزادی کی زندگی بسر کرسکتا ہے جب کسی انسان کے ہاتھ میں قوت اور اختیار نہ ہو۔
تاریخ میں کوئی زمانہ بھی
ایسا نہیں گذرا جو یہ بتائے کہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں قوت و اقتدار آیا ہو اور ان
میں سرکشی نہ پیدا ہوگئی ہو اور ایسا باور کرنے کے لئے کوئی وجہ موجود نہیں ہے کہ
جو کچھ پیچھے سے ہوناچلا آرہا ہے وہ آج نہیں ہوگا یا آ:ندہ بھی ایسا نہیں ہوتا رہے
گا۔
(SCIENCE, LIBERTY AND PEACE: p.41)
رابرٹ برفو (ROBERT
BRIFFAULT)
کی کتاب تشکیل انسانیت (THE MAKING OF HUMANITY) ہمارے دور کی بلند
ترین کتابوں میں سے ہے ۔برفو اس میں لکھتا ہے کہ ‘‘ یہ بیماری لازمی اور لاعلاج
ہے۔ارادے کتنے ہی نیک کیوں نہ ہوں جب اقتدار ہاتھ میں آجائے تو اس کے مہلک اثرات
سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا’’۔ (81)۔ ‘‘نشہ اقتدار وہ بلاہے جس سے انسانی قلب کی ہر
حرکت آمیز ہوجاتی ہے۔ ہر معاملہ میں تعصّب وخیل ہوجاتا ہے ۔تمام ذہنی سکّے فریب کی
ٹکسال میں ڈھلنے شروع ہوجاتے ہیں ۔پرُ فریب اقتدار دل و دماغ پر مستولی
ہوجاتاہے’’۔ (83)
آگے چل کر برفولکھتا ہے
‘‘ صاحب اقتدار کبھی اخلاقاً درست نہیں رہ سکتا ۔نشہ قوت او رنگاہ کی خرابی دونوں
لازم وملزوم ہیں۔ ایک انسان کادوسرے انسان پر اقتدارواختیار خواہ کسی رنگ میں ہو
استبداد ہے۔ طاقتور ہمیشہ کمزور کے حقوق کوغصب کرتاہے۔ قوت، عدل و انصاف کو پامال
کردیتی ہے اس لئے ظالم دجابر ہوتی ہے۔۔۔ یہ انکشاف آج کانہیں بہت قدی ہے کہ اقتدار
مطلق بنیادی طور پر باطل ہے خواہ یہ کسی کے ہاتھ میں بھی کیوں نہ ہو۔لارڈایکٹن نے
ٹھیک کہا تھا کہ قوت انسان کو خراب کردیتی ہے او رمطلق قوت اسے بالکلّیہ خراب
کردیتی ہے ۔۔۔۔ نشہ اقتدار سے انسان میں معقولیت کے ساتھ سوچنے کی صلاحیت ہی باقی
نہیں رہتی قوت کیسی رنگ میں ہو اس کے یہی نتائج ہوں گے۔ وہ جاہ ومنصبکی ہو یا پنجہ
فولادی کی۔دولت کی ہویا محض ذہنی برتری کی ۔ وفاتری زندگی زندگی میں کسی افسر کی
ہو یا حاکم کی کسی پادری کی ہو یا پروہت کی۔قوت بہر حال قوت ہے اور فساد کی جڑ۔ اس
کالازمی نتیجہ ظلم او ربیدار گری ہوتا ہے اس لئے نہیں کہ ہر شخص فطرۃً بدواقع ہوا
ہے بلکہ اس لئے کہ اس کا نشہ ہی ایسا ہے ۔۔۔۔ اور ان سب میں سب سے زیادہ بدترین
قوت وہ ہے جو اکثریت ،محض اپنی تعداد کے زور پر اقلیت کے خلاف استعمال کرتی ہے(
272-73) ‘‘لہٰذا اخلاقیات نام ہے قوت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا ’’۔
ڈیماکریسی سے مفہوم یہ ہے کہ ہر انسان کے پاس اتنی قوت ہو کہ وہ اختیارات کی غلط
وی کو فوراً روک دے’’۔ (274)
یعنی برفو کے نزدیک مثالی
مملکت وہ ہوسکتاہے جس میں قوت واقتدار کسی انسان کے ہاتھ میں نہ ہو۔ (286) ،اسی
بناء پر (LORD SNELL) لکھتا ہے کہ انسانی حکومتیں کبھی کامیاب ہی نہیں ہوسکتیں اس کے
الفاظ میں:۔
حکومتیں انسانوں پر مشتمل
ہوں گی اور ہر انسان میں وہ کمزوریاں پائی جائیں گی جو نوع انسانی کا خاصہ ہیں اس
کا نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ قوانین وضع کرتے ہیں او رملک کی پالیسی کرتے ہیں وہ
دوسرے لوگوں سے کسی طرح بھی زیادہ شریف یا زیادہ ہوشمند نہیں ہوسکتے۔
(THE NEW WORLD: p. 17)
والٹرلپ مین (WALTER
LIPPMAN)
اسی حقیقت کو ان الفاظ می بیان کرتاہے:۔
انسان اس دنیا کانظم ونسق
اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں جو پہلے ہی سے موجود ہے اس لئے ان کے کنٹرول کے متعلق
زیادہ سے زیادہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایک نظم میں دخل اندازی ہے جو ان کے اختیارات
اور فہم سے بلند ہے۔ (THE GOOD SOCIETY)
اشخاص نہیں بلکہ قوانین
:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( 1)انسان اس قابل ہی نہیں کہ وہ عمدہ حکومت قائم کرسکے۔
(2) کسی انسان کو دسرے انسان پر کوئی اقتدار واختیار نہیں
ہوناچاہئے
(3) صحیح نظم و نسق حیطہ انسانی سے باہر ہے۔
تو پھر نظام مملکت قائم
کس طرح کیا جائے؟ اس سوال کے جواب میں یہ مفکّرین کہتے ہیں کہ حکومت اشخاص کی نہیں
بلکہ قانون کی ہونی چاہئے ( EMERY REVES) کے الفاظ میں:۔
ہماری نجات کا راز لیڈروں
کی دانش اطواری میں مضمر نہیں بلکہ قوانین کی صحت مندی میں مضمر ہے۔( THE
ANOTOMY OF PEACE: p. 20)
لیکن پھر سوال یہ پیدا
ہوتاہے کہ یہ صحیح قوانین لئے کہاں سے جائیں؟ اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ ان کی
بنیاد ضابطہ اخلاق پر ہونی چاہئے ۔(REVES) کہتاہے کہ ‘‘ہمیں
بنیادی اصولوں کااعلان کردینا چاہئے’’ او رپھر اصولوں پر قانون سازی کی بنیاد
رکھنی چاہئے’’ (138) لارڈ اسنل کہتا ہے کہ :۔
ہمارامقصد اوّلین یہ
ہوناچاہئے کہ ہم دیکھیں کہ اس کے بعد ہمارے قومی اور بین الاقوامی معاملات میں
اخلاقی شعور مستقل اور غالب عنصر رہے یہی ایک صورت ہے جس کے مستقل طور پر امن قائم
رہ سکتاہے اور یہی شکل ہے جس سے دنیا زمانے کے دھچکو ں اور زلزلوں کامقابلہ کرسکے
گی۔( 18)
جوڈ اپنی کتاب(GUIDE
TO THE PHILOSOPHY OF MORALS AND POLITICS) کے خاتمہ پر لکھتا ہے :۔
میں پہلے کہہ چکاہوں کہ
اچھی زندگی سے مفہوم یہ ہے کہ انسان مستقل اقدار کوحاصل کرسکے بناء بریں میں کہہ
سکتا ہو ں کہ مملکت کافریضہ یہ ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا کرے جن میں ایک انسان کے
لئے مستقل اقدار کا حصو ل ممکن نہیں ہوجائے۔ سوسائٹی کی ترقی کایہی ایک پیمانہ
ہے۔( 806)
یہ راستہ ہمیں سیاسیات سے
پھر اخلاقیات کے میدان کی طرف لے گیا۔ یعنی دنیا اب جس آخری نتیجہ پر پہنچی ہے وہ
یہ ہے کہ سیاست کی بنیادیں مستقل اقدار پر رکھنی چاہئیں ۔‘‘مستقل ،قدار کیا ہیں او
رکہاں سے مل سکتی ہیں؟’’یہ سوال اخلاقیات کے عنوان میں ہمارے سامنے آیا تھا لیکن
ہم نے اس پر تفصیل بحث ‘‘اسلام’’ کے عنوان پر اٹھاتھی۔اندریں حالات، صحیح مثالی
مملکت کے قیام کا سوال بھی اسی وقت حل ہو سکے گا۔ لیکن اس بحث کو ختم کرنے سے پہلے
اس سمت کی طرف ایک نگاہ ڈال لینی ضروری ہے جس طرف اب انسانی فکر کا رجحان ہے۔
ایک عالمگیر
حکومت:۔۔۔۔۔۔۔۔ اب یہ کہا جارہاہے کہ دنیا کی فلاح وبہبود کاراز وحدت حکومت میں ہے
۔یعنی ساری دنیا کو ایک مرکز کے تابع لے آنے میں جب ساری دنیا پر ایک ہی قانون اور
ایک ہی مرکز کی حکومتہوتی تو تضاداتاور نزاعات کا خود بخودخاتمہ ہوجائے گا۔
پروفیسر الفریڈ کو بن اپنی کتاب کے آخری باب میں لکھتا ہے کہ :۔
دنیا کے مصائب کا جو حل
سامنے آرہاہے وہ یہی ہے کہ ایک عالمگیر مملکت کی تشکیل کی جائے۔ (225)
مسٹر (REVES) لکھتا ہے :۔
کھلے کھلے الفاظ میں
بیسویں صدی کی قیامت خیز یوں کے بعد انسان لامحالہ اسی نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ اس
کا کرّہ ارض کو کسی ایک اقتدار کے تابع لاناضروری ہے ۔ہمارا فریضہ یہ ہے کہ ہم کسی
نہ کسی طرح جمہوری انداز سے اس اقتدار کی تشکیل کریں ا س کے لئے ان بنیادی اصولوں
کا اعلان کرناچاہئے جن پر یہ اقتدار متنوعہوگا اور اس کے بعد لوگوں کو اس کی طرف
راغب کرنا چاہئے تاکہ یہ مقصودخون ریزی کے بغیر حاصل ہوجائے ۔اگر اس مقصد کاحصول
اس طرح ممکن نہ ہوا پھر تاریخ کا فولادی ہاتھ سے مجبور کردے گا کہ ہم اور زیادہ
خون ریزی کریں اور آج سے زیادہ مہلک آلات حربوضرب وضع کریں تاکہ سب سے زیادہ
طاقتور جماعت باقی دنیا کو مغلوب کرکے وحدت اقتدار قائم کرلے۔( 233)
یعنی دنیا کی فلاح کا راز
بہر نوع وحدت مرکز میں ہے۔ اگر دنیا اسے بطیب خاطر قبول کرلے تو ہوا لمراو ۔اور اس
پر خود آمادہ نہ ہوتو پھر تاریخ کے اٹل ہاتھ پنے خوں ریز اور مفسد ہ انگیز طریقوں
سے انسان کو اس منزل تک پہنچا دیں گے۔ منزل بہرحال یہی ہے۔ پروفیسر (HAROLD
LASKI)
نے بھی (HUMAN RIGHTS) میں یہی کہا ہے کہ:۔
دنیا میں اس وقت انسانی
حالت کا تقاضا یہی ہے کہ ایک عالمگیر نظام کی تشکیل کی جائے جس کے اراکین تمام
دنیا کے افراد ہوں۔ (91)
امریکی مدبرّ مسٹر ونڈل
ولکی (WENDELL WILKY) نے ساری دنیا کی سیاحت کے بعد (ONE
WORLD)
کے نام سے جو کتاب لکھی تھی اس میں اس نے اسی قسم کے عالمگیر نظام واحد کی تشکیل
کا نظریہ بھی پیش کیا تھا اس کتاب میں وہ لکھتاہے:۔
اس مقصد یہ ہے کہ اگر چہ
ہماری نشوونما جنگ عظیم سے شروع ہوگئی تھی ۔لیکن ہم اپنی قومیت پرستی کے عہد
طفولیت سے نکل کر جس میں تمام معاملات گھر یلو قسم کے متصور ہوتے تھے اب ایک بالغ
قوم کی حیثیت اختیار کررہے ہیں جس کے پیش نظر بین الاقوامی مسائل اور تمام دنیا کا
تصور ہے۔ (ONE WORLD:p. 133)
اسی طرح مسٹر W.A.
GAULD
اپنی کتاب(MAN, NATURE AND TIME) میں لکھتا ہے :۔
مجھے تسلیم ہے کہ ‘‘ گھر
اوروطن’’ کاخیال سب سے پہلے ہمارے سامنے آتا ہے ۔ لیکن ایک عالمگیر انسانی معاشرہ
کی رکنیت کا تصور ہماری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوناچاہئے۔۔۔۔ ابھی تک اس قسم کے
عالمگیر نظام کا احساس کچھ زیادہ شدّت سے ابھر کر سامنے نہیں آیا۔ اس لئے اس کے
متعلق زیادہ حسن ظن قبل از وقت ہوگا لیکن یہ حقیقت کہ کم وبیش ہر ملک میں ایسے
افراد موجود ہیں جن کے دل میں یہ خیال کروٹیں لے رہا ہے ، اس امرکی ضمانت ہے کہ
کچھ وقت کے بعد یہ خیال عملی شکل اختیار کرلے گا۔(284-281)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصریحات بالا سے آپ نے
دیکھ لیا ہوگا کہ مغرب کس طرح اپنے معاشرتی نظام سے تنگ آیا ہوا ہے لیکن وہ سمجھتا
ہے کہ ان مصائب و نوائب کا حل حکومت کی شکل بدل دینے میں ہے۔کوئی ملوکیت سے
جمہوریت کی طرف آتا ہے کوئی جمہوریت سے آمریت کی طرف جتا ہے کوئی قومیت سے بین
الاقوامیت کی سمت اشارہ کرتاہے ۔کوئی بین الاقوامیت سے عالمگیر نظام اور وحدت مرکز
کے انداز کی حکومت کا تصور لئے بیٹھا ہے۔لیکن ان میں بہت تھوڑے ہی ہیں جو یہ سوچتے
ہیں کہ موجودہ نظام کی خرابی اس کی ہیئت و اسلو ب میں نہیں بلکہ اصل و بنیاد میں
ہے۔ اس لئے حکومت کی ایک شکل کو دوسری شکل میں تبدیل کردینے سے ان مشکلات کاحل
نہیں ہوسکے گا۔ سنکھیا ،سنکھیا ہے خواہ اسے ڈلی کی شکل میں نگل لیا جائے یا
پاؤڈربناکر پھانک لیا جائے ۔جب تک بنیاد دوست نہیں ہوگی اوپرعمارت کبھی درست نہیں
ہوسکتی اسی نقطہ کے متعلق مسٹر(SPALDING) اپنی کتاب (CIVILISTION
IN EAST AND WEST)میں
لکھتا ہے۔
ان سب کو خدا کی متعین
کردہ مستقل اقدار کے مطابق چلنا ہوگا(3/178)
تفصیل ان امور کی دوسری
کتاب میں ملے گی۔
تہذیب مغرب کے لئے (اور
اس کے ساتھ دوسری اور تمام تہاذیب کے لئے جو اس کی نقل کرتی ہیں) خطرہ کاموجب
حکومت کی کوئی خاص شکل نہیں۔ اصلی خطرہ کی بات یہ ہے کہ ان کی ہر حکومت حالص مادی
بنیادو ں پر قائم ہے۔ جب تک یہ بنیاد نہیں بدلتی شکلوں کے بدل دینے سے کچھ حاصل نہیں
ہوگا۔
موجودہ یوروپ دنیا کو ‘‘
ادی انجیل’’ کاسبقدیتا ہے جس سے زندگی سے متعلق وہ تصور پیدا ہوجاتا ہے جس کانتیجہ
انسانی امن کے بجائے درندوں کی جنگ ہے۔ یہ عالمگیر شورش اور عدم اطمینان اسی تصور
کا نتیجہ ہے۔
یہ بنیاد کس طرح بدل
جاسکے گی؟ اس کا جواب جلد دوم میں ملے گا۔
سیاست کے متعلق قرآن کریم
نے بڑا صاف اور واضح نقشہ دیا ہے وہ کہتا ہے کہ :۔
( 1) جیسا کہ سابقہ عنوان کے اخیر میں لکھا جاچکا ہے انسان عبارت
ہے اس کے جسم اور ذات سے ۔
(2) زندگی کامقصد جسم اور انسانی ذات کی نشو ونما ہے۔
(3) یہ نشو ونما اجتماعی معاشرہ میں ممکن ہے۔
(4) وہ معاشرہ جو افراد کے جسم اور ذات کی نشو ونما کی ذمّہ داری
لیتا ہے ،مملکت کہلاتا ہے۔
(5) مملکت کا فریضہ یہ ہے کہ وہ ان مستقل اقدار کو اپنے زمانے کے
احوال و ظروف کے مطابق عمل میں لائے جو انسانوں کو وحی کے ذریعہ عطا ہوئی ہیں اور
جو قرآن میں محفوظ ہیں ۔ یہ اقدار ہمیشہ غیر متبدّل رہیں گی لیکن ان کی چار دیواری
کے اندر رہتے ہوئے جو جزئی قوانین مرتّب ہوں گے، ان میں زمانے کے تقاضوں کے مطابق
تغیر و تبدّل ہوتا رہے گا۔
(6) امور مملکت افراد کے باہمی مشورہ سے طے پائیں گے ۔ اس کی عملی
شکل یہ افراد تجویز کریں گے۔
(7) مملکت کے قوانین ہر شخص پریکساں نافذ ہوں گے اور کوئی ہستی ان
سے بالا یا مستثنیٰ نہیں ہوگی۔
(8) قرآن کی رُو سے کسی انسان کو اس کا حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے
انسانو ں سے اپنا حکم منوائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( جاری)
-----------------
Part: 1- 'What did the man think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Preface—Part 1 انسان نے کیا سوچا
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism