New Age Islam
Thu May 15 2025, 12:46 PM

Books and Documents ( 3 Oct 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 7, The ideal world of Western thinkers— Part 15 انسان نےکیاسوچا :باب ہفتم، مفکرین مغرب کے تصو رات کی مثالی دنیا

غلام احمدپرویز

باب ہفتم

فردوس گُم گشتہ

(مفکرین مغرب کے تصو رات کی مثالی دنیا)

ازدام ودو ملولم وانسا نم آرزوست

فردوس گُم گشتہ

(حسین خوابوں کی دنیا)

سابقہ عنوان میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ مفکّرین مغرب اپنی تہذیب کے ہاتھوں کس درجہ تنگ آچکے ہیں اور اپنی موجودہ حالت سے کس قدر مایوس اور اس معاشرہ سے کس طرح نالاں ہیں۔ وہ عصر حاضر کی پیدا کردہ دنیا ہی سے بیزار ہوچکے ہیں ۔کیونکہ انہیں اس میں ہر طرف تباہی اور بربادی کے سامان نظر آرہے ہیں۔وہ آل دنیا کو اپنے ہاتھوں برباد کرکے اس کی جگہ ایک نئی دنیا کی تخلیق چاہتے ہیں جس میں انسان سُکھ کا سانس لے سکے ۔موجودہ معاشرہ کے خلاف مفکّرین مغرب کا یہ ردّ عمل یکسر قابل فہم ہے اور اس کی جگہ ایک جدید نظام کے قیام کی تمنا بالکل فطری ۔موجودہ معاشرہ کے خدّوخال تو ہم دیکھ چکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جس قسم کے مثالی معاشرہ (Ideal Society) کا تصور ان مفکّرین کے دامن نگاہ کو صحن گلستان وکف گلفروش بنائے ہوئے ہے۔

مثالی معاشرہ:۔۔۔۔۔۔۔ اس معاشرہ کے بنیادی خطوط کیا ہیں یعنی لوگ اپنی موجودہ دنیا سے تنگ آکر کس قسم کی نئی دنیا بسا نا چاہتے ہیں ؟ یہ سوال بعد میں آئے گا کہ اس قسم کی مثالی دنیا کا قیام ممکن بھی ہے یا نہیں اور اگر ممکن ہے تو کس طرح سب سے پہلے تو یہ متعین کرنا ضروری ہے کہ بالآخر ان کا تخیل کس قسم کے معاشرہ کو انسان کے لئے جنت ارضی قرار دیتا ہے ۔

لیکن ظاہر ہے کہ موجودہ معاشرہ انسانوں ہی سے بگڑا ہے اور جس معاشرہ کا تصور اس وقت مفکّرین مغرب کی نگاہوں میں ہے وہ بھی انسانوں ہی سے مرتّب ہوگا۔ انسان سے خارج معاشرہ کا وجود ہی نہیں ہوسکتا ۔ اس لئے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ خود انسان کے متعلق ان مفکّرین کا نظریہ کیا ہے؟ میکانکی نظریہ حیات کے ماتحت انسان آب و گل سے مرکّب مشین کانام ہے جو سرتاسرخارجی قوتوں کے زور سے متحرک رہتا ہے او رانہی اسباب کے ماتحت اپنی طبعی زندگی پوری کرکے نیست ونابود ہوجاتا ہے ۔ اس سے زیادہ نہ اس کی زندگی کا کوئی مقصد ہے نہ اس کی نگاہ کاکوئی منتہیٰ اب دیکھنا یہ ہے کہ انسان کے متعلق فکر جدید نے کیا تصور دیا ہے۔ اس کے بعد یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ معاشرہ کس قسم کا ہے جسے مفکّرین مغرب دنیا میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

اس کے بعد یہ دیکھا جائے گا کہ اس معاشرہ کے قیام کے لئے یہ لوگ کیا ذرائع تجویز کرتے ہیں او رپھر یہ کہ کیا ان ذرائع سے اس مقصد کا حصول ممکن ہے؟ او راگر ممکن نہیں تو پھر اصل سوال کیا ہے؟

اور اس کا حل کیا؟

پہلے دیکھئے کہ انسان کے متعلق فکر جدید کیا نظریہ پیش کرتی ہے۔

انسان:۔۔۔۔۔۔ ہم نے یہ کہا ہے مثالی معاشرہ سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ خود انسان کے متعلق اب مفکّرین مغرب کا ـزاویہ نگاہ کیا ہے؟ یہ اس لئے ضروری ہے کہ شین کے الفاظ میں جب کسی (ARCHITECT) سے کسی مکان کانقشہ بنانے کے لئے کہاجائے تو سب سے پہلے وہ یہ پوچھے گا کہ اس مکان میں رہے گا کون؟ اگر وہ مکان مجرموں کی رہائش کے لئے بنانا ہے تو وہ جیل خانہ کا نقشہ تیار کرے گا ۔اگر مکان کی ضرورت کتّوں کے لئے ہے تو وہ سگ خانہ کانقشہ تیارکرے گا۔ اس لئے معاشرہ کو جدید خطوط پرمتشکل کرنے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ جن انسانوں کو اس معاشرہ میں رہنا ہے ان کی فطرت کیسی ہے ؟ انیسویں صدی کے آخر پر یہ سمجھا یاگیا تھا کہ معاشرہ اس حیاتیاتی انسان (BIOLOGICAL MAN) کی خاطر وجود میں آتاہے ۔جس کی اصل قدیم الایّام کی دلدل ہے اور جس کی بلند ترین شاخ ، بقا للا صلح کے قانون کے مطابق مرتّب ہوگی۔ ہربرٹ اسپنسر نے کہا کہ معاشرہ کا وجود کشمکش او رمسابقت کی نسبت سے مرتّب ہوتا ہے۔ اس کشمکش میں کمزور انسان فنا ہوجاتے ہیں تاکہ طاقتور انسانوں کی نسل آگے بڑھے ۔ہمارے دور میں پہلے یہ کہاگیا کہ معاشرہ فرائڈ کے تصور کے انسان کی خاطر ہے جس کے ارادے اخلاقی قانون کے ماتحت نہیں بلکہ لاشعوری جذبات کے مطابق ہونے ہیں ایک دوسرا گروہ کو ‘‘معاشی انسان’’ کے لئے وجود میں لاتا ہے جس کے تمام افعال ذاتی مفاداور منافع کے جذبات سے متعین ہوتے ہیں۔ ان کا یہ خیال ہے کہ طبقاتی نزاع تاریخی قوت کے بل بوتے پر آخر الامر ایک لاجماعتی معاشرہ پیدا کردے گی۔ فرائڈ کے نظریہ کے مطابق انسان کا اختیار وارادہ نفسیاتی قوتوں نے سلب کرلیاتھا۔

(PHILOSOPHY OF RELIGION: p. 36)

انسان کے متعلق جدید تصور:۔۔۔۔۔۔یہ تو تھا انسان کا تصور میکانکی نظریہ حیات کے ماتحت ۔اب یہ دیکھنا ہے کہ فکر جدید نے اس تصور میں کیا تبدیلی پیدا کردی ہے ۔ میکانکی نظریہ یہ کہتاہے کہ انسان مادی عناصر کی ترتیب سے ظہور میں آگیا ہے ۔چونکہ مادہ میں ہر آن تغیّرات واقع ہوتے رہتے ہیں اس لئے انسان بھی ہر آن تبدیل ہوتا رہتا ہے او رآخر الامرمادی اجزاء کے تشتت انتشار سے اس کا خاتمہ ہوجاتاہے۔ اب یہ تسلیم کیا جارہا ہے کہ ۱؂:۔

ہر انسان دوہستیوں کا مجموعہ ہے ۔ایک وہ جو جمادات ، نباتات ، حیوانات کا مرکّب ہے ۔یعنی وہ انسان جو زمان ومکان کی دنیا میں رہتا ہے اور دوسرا وہ جس کی دنیاا س سے الگ ہے۔اوّل الذکر انسان ماضی سے متعلق ہے ۔ثانی الذّکر مستقبل کا انسان ہے۔۔۔۔ انسانی انا میں اس ماضی اور مستقبل کی کشمکش جاری رہتی ہے ۔ انسانی روح درحقیقت اس کشمکش کی رزمگاہ ہے نیٹشے نے زرتشت کی زبان سے اسی حقیقت کا اعلان کیا تھا جب اس نے کہا تھا کہ ‘‘میں دیروزد امروز ہوں ۔لیکن مجھ میں کچھ ایسا بھی ہے جو فرد ا اور مستقبل سے متعلق ہے۔

(TERTIUM ORGANUM)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ نفس انسانی (انسانی ذات یا انا) کے متعلق بحث اس سے پہلے باب دوم (عصر حاضر کے مادیئین ) میں آچکی ہے۔ اس حصہ کو ایک مرتبہ پھر سامنے لانا چاہئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسان میں جد قدر حصہ ‘‘جمادات و نباتات و حیوانات’’ کا ہے اس میں ہر آن تغیّرات نمودار ہوتے رہتے ہیں ۔لیکن اس کے جس حصہ کا تعلق ‘‘انسانیت’’ سے ہے (جسے اوسپنسکی نے ‘‘مستقبل’’ کی اصطلاح سے تعبیر کیا ہے) اس کا تشخص مستقل ہے اسے خارجی تغیرات سے غیر متاثر رکھا جاسکتا ہے ۔اوسپنسکی نے اپنی آخری عمر میں ایک باطنیت کے حامل مفکّر کی شاگردی اختیار کرلی تھی جس کا نام ہے ۔( G. GURJIEFF)اس کے فلسفہ باطنیت کو آج کل یورپ میں خاصی اہمیت حاصل ہورہی ہے چنانچہ حال ہی میں( 1950 ء میں )اس کی پہلی کتاب (ALL AND EVERYTHING) کے نام سے شائع ہوئی ہے جسے بڑی شہرت دی جارہی ہے ۔ اوسپنسکی نے اپنی آخری تصنیف (IN SEARCH OF THE MIRACULOUS) میں گورچیف کے فکر کی ترجمانی کی ہے۔ چنانچہ وہ موضوع زیر نظر پر گورجیف کی زبان سے کہتا ہے کہ :۔

مثلاً آپ رات کو تہیہ کرکے سوتے ہیں کہ میں صبح پانچ بجے اُٹھ بیٹھوں گا۔ پانچ بجے صبح آپ کی آنکھ بھی کھل جاتی ہے۔ لیکن بستر سے باہر نکلنے کو آپ کا جی نہیں چاہتا ،آپ بدستور لیٹے رہتے ہیں ۔ گورچیف کہتا ہے کہ بتائیے ،سوتے وقت تہیہ کرنے والا ‘‘میں’’ او رصبح کے وقت اس عزم کے انحراف کرنے والا‘‘ میں’’ کبھی ایک ہوسکتے ہیں ؟ یا مثلاً آپ کسی شخص سے ایک وعدہ کرتے ہیں او رآدھ گھنٹے بعد اس وعدہ کے خلاف کام کرتے ہیں ؟ یا مثلاً آپ کسی شخص سے ایک وعدہ کرتے ہیں اور آدھ گھنٹے بعد اس وعدہ کے خلاف کام کرتے ہیں تو کیا آپ کا وعدہ کرنے ولا‘‘میں’’ اور وعدہ توڑنے والا ‘‘میں’’ ایک ہوسکتے ہیں ؟ اس قسم کی مثالوں کے بعد گورجیف کہتا ہے کہ:۔

یہ سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے کہ انسان ہمیشہ وہی رہتا ہے انسان ہمیشہ بدلتا رہتا ہے (53) اس کے بعد گورجیف سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا انسان موت کے بعد بھی زندہ رہ سکتا ہے ؟ اس کے جواب میں وہ لکھتا ہے:۔

اگر انسان ہر آن بدلتا رہتا ہے اگر اس میں کوئی ایسی شے نہ ہو جو خارجی تغیرّات سے متاثر نہ ہوتو اس کا مطلب یہ ہوگاکہ اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جو موت کا مقابلہ کرسکے۔ لیکن اگر وہ خارجی اثرات سے آزاد ہوجائے اگر اس میں اس شے کی نمود ہوجائے تو اپنی زندگی جئے تو یہ ‘‘شے’’ کبھی مر نہیں سکتی ، عام حالات میں ہم ہر ثانیہ مرتے رہتے ہیں ۔خارجی حالات بدلتے ہیں اور ان کے ساتھ ہی ہم بھی بدل جاتے ہیں ۔ یعنی اس طرح ہمارے بہت سے انا فنا ہوجاتے ہیں ۔لیکن اگر انسان اپنے اندر مستقل انا کو اپنے اندر نشو ونما سے لے تو یہ خارجی تغیرّات سے غیر متاثر رہ سکتا ہے او راس طرح طبعی جسم کی موت کے بعد بھی زندہ رہ سکتا ہے۔( 101)

اقبال ؒ کے الفاظ میں

ز ندگانی ہے صدف قطرہ نیساں ہے خودی

وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کرنہ سکے

ہوا گر خود نگر وخود گروخود گیر خودی

یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی نہ مرسکے

انسانی ذات:۔۔۔۔۔۔۔ پروفیسر وہائٹ ہیڈ اس ‘‘تغیر ناآشنا’’ مستقل غیر متبدّل ‘‘شے’’ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ‘‘کوئی فلسفہ بھی ہوا ہے تشخص ذات کے متعلق کوئی نہ کوئی نظریہ رکھنا ہی پڑیگا ایک خاص مفہوم کے مطابق ہر انسان کی زندگی میں پیدائش سے موت تک وحدت رہتی ہے’’ (THE ADVENTURE OF IDEAS: p. 241)

(BRIGHTMAN) اس ‘‘شے’’ کو جو انسان کے اندر از خود موجود ہوتی ہے ۔ذات (SELF) کے الفاظ سے تعبیر کرتا ہے اور جب یہی شے اپنی نشو ونما سے پختگی حاصل کرلیتی ہے تو اسے تشخص (PERSONALITY) کہہ کر پکارتا ہے۔(A PHILOSOPHY OF RELIGION) ۔وہ بھی راشڈل کی ہمنوائی میں کہتا ہے کہ :۔

اخلاقی نظام کا دارومدار ہی اس مسلّمہ پر ہے کہ ‘‘میں’’ اپنے تمام گذشتہ فیصلوں او رمعاہدوں کا ذمّہ دار ہوں۔ اس لئے اگر کچھ عرصہ کے بعد ‘‘میں’’ وہی نہیں رہتا جو پہلے تھا تو اس صورت میں اپنے سابقہ فیصلوں اور معاہدوں کا ذمّہ دارہی قرار نہیں پاتا تو پھر ان فیصلوں کی خلاف ورزی اور ان معاہدوں کی شکست کاالزام مجھ پر کیسے عائد ہوسکتا ہے۔(196)

ان تصریحات سے واضح ہے کہ فکر جدید کی رو سے انسان ثبات (PERMANENCE) اور تبدل (CHANGE) سے مرکّب ہے۔( BARDYAEU) کے الفاظ میں:۔

دنیا میں جس قدر تغیرّات رونما ہوتے ہیں ان کے متعلق انسان کا انداز نگاہ دہراہونا چاہئے ۔ زندگی تغیرّات کانام ہے جدّت کے بغیر زندگی کچھ نہیں ،لیکن صرف تغیر کاتصور فریب انگیز ہے۔تشخص ذات کے لئے تغیرّ اور جدّت کی بھی ضرورت ہے ۔لیکن اس میں ایک ایسی شے بھی ہے جو مستقل اور تغیر ناآشنا ہے۔ اس کے بغیر تشخص ذات کا تصور ناممکن ہے لہٰذا اپنی ذات کی نشوونما میں انسان کو خود اپنی ذات سے فریب دہی نہیں کرنی چاہئے یعنی اسے مستقل شے کو کبھی نظر انداز نہیں کرناچاہئے جو اسے ابدی طور پر ملی ہے۔ زندگی میں یہ چیز نہایت ضروری ہے کہ تغیرات کے اس پیہم عمل میں جس سے جدّت نمودار ہوتی ہے ، استقلال ذات کے ساتھ امتزاج کیا جائے۔(THE DIVINE AND THE HUMAN)

اسی لئے جو ڈ کہتاہے کہ انسان کا مطالعہ بہ تمام وکمال کرناچاہئے ۔یعنی اس کے تغیرات آشنا حصہ کابھی او راس شے کابھی جسے تغیرات سے غیر متاثر رکھا جاسکتا ہے۔

انسان کے متعلق صحیح علم اس کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے مطالعہ کے مجموعہ کانام نہیں انسان کے متعلق صحیح علم اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے کہ انسان کا یہ تمام وکمال مطالعہ کیا جائے۔ یہ تمام وکمال مطالعہ اس کی ذات کے مطالعہ کا نام ہے۔ اس لئے کہ انسانی ذات ہی کو مکمل انسان کہا جاسکتا ہے ۔اگر چہ انسان کے مختلف حصے اسی ذات کے اجزا ء ہوتے ہیں لیکن اس کی ذات ان اجزاء کے مجموعہ سے کچھ زیادہ ہوتی ہے۔ انسانی ذات کا مطالعہ سائنس کی روسے نہیں کیا جاسکتا ۔(GUIDE TO THE MARALS AND POLITICS)

اقبال اس فرق کو ان الفاظ میں بیان کرتاہے:۔

خدا کی مخلوق میں انسان ہی اس قابل ہے کہ وہ شعوری طورپر اپنے خالق کی حیات تخلیقی میں شرکت کرسکے۔ اس میں یہ جوہردویعت کیا گیا ہے کہ یہ ایک بہتر دنیا کا تصور کرسکے او رجوکچھ موجود ہے اسے وہ کچھ بنادے جو اسے ہونا چاہئے۔( خطبات 41)

اسی بناپر اوسپنسکی کہتا ہے کہ ‘‘فطرت کی تمام بادشاہتیں انسان کے اندر ہیں۔ انسان خود ایک چھوٹی سی کائنات ہے۔ اس کے اندر مسلسل موت اورمسلسل پیدائش کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ایک ہستی کا دوسری ہستی کو ہڑپ کرجانے کا پیہم سلسلہ طاقتور کا کمزور کونگل جانے کاسلسلہ ارتقاء اور تنزل کاسلسلہ بڑھنے پھولنے پھلنے او رمرجانے کا سلسلہ ۔غرضیکہ انسان کے اندر جمادات سے لے کر خدا تک سب کچھ موجود ہوتا ہے۔(A NEW MODEL OF THE UNIVERSE)

اسی لئے وہ گورجیف کے الفاظ میں لکھتا ہے کہ :۔

یہ ناممکن ہے کہ ہم انسان کا مطالعہ کئے بغیر کائنات کامطالعہ کرسکیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی ناممکن ہے کہ ہم انسان کا مطالعہ کائنات کا مطالعہ کئے بغیر کرسکیں۔ انسان تو کائنات کا عکس ہے اس کی تخلیق انہی قوانین کی رو سے عمل میں آتی ہے جن قوانین کی رو سے کائنات کی تخلیق عمل لائی گئی تھی۔ لہٰذا یہ اپنی ذات کے مطالعہ سے کائنات کے مطالعہ کرسکتا ہے ۔یعنی ان تمام قوانین و ضوابط کا مطالعہ جن کے ماتحت اس کا رخانہ عالم کا سلسلہ چل رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ کائنات اوراس کے قوانین کامطالعہ کرنے سے ان قوانین کا مطالعہ کرلے گاجن کے تابع اس کی اپنی زندگی بسر ہونی چاہئے۔۔۔۔ اس لئے مطالعہ فطرت او رمطالعہ ذات ،متوازی طریق پر ساتھ ساتھ ہوتا جائے تاکہ ایک دوسرے سے مدد لے سکے۔(IN SEARCH OF MIRACULOUS: p.75)

انسانی ذات کا ارتقاء:۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں تک ہم نے دیکھ لیا کہ فکر جدید کی رو سے انسان محض مادی عناصر کا مرکّب نہیں جس میں ہر آن تغیرّ واقع ہوتا رہتا ہے بلکہ اس کے اندر ایک چیز ایسی بھی ہے جو مستقل بالذّات ہے او راسے خارجی تغیرّات سے غیر متاثر رکھا جاسکتا ہے ، اب سوال یہ ہے کہ وہ شے جس حالت میں انسان کے اندر پیدائش سے موجود رہتی ہے اسی حالت میں ہمیشہ رہتی ہے یا اس میں نشو ونما (DEVELOPMENT) بھی ہوتا ہے جس سے اس میں پختگی آتی جاتی ہے ۔اسی کو اس کا ارتقاء کہہ لیجئے ۔ یہ مفکرین اب اس نتیجہ پرپہنچے ہیں کہ انسانی ذات یا تشْخص (PERSONALITY) میں نشوونما کے امکانات ہوتے ہیں اور اسی کا نشو ونما اور تکمیل درحقیقت مقصود زندگی ہے ۔اوسپنسکی اس باب میں (گرجیف کے الفاظ میں) کہتا ہے کہ ایک انسانی جسم کی پرورش ہے جو میکانکی طور پر ہوتی رہتی ہے اور دوسرا ہے اس کی ذات کا نشوونما سو:۔

انسانی ارتقاسے مفہوم یہ ہے کہ ان قویٰ او رممکنات کا نشوونما پانا جواز خود نشوونما نہیں پاسکتیں یعنی جن میں میکانکی طور پر بالیدگی پیدا نہیں ہوتی۔ صرف ان نہج کی نشوونما صرف اسی انداز کی بالیدگی انسان کا حقیقی ارتقا ء کہلاسکتی ہے ۔اس کے علاوہ کسی اور چیز کو انسانی ارتقاء نہیں کہا جاسکتا ۔

(IN SEARCH OF THE MIRACULOUS: p. 133)

ان ارتقائی منازل کے متعین برگسان لکھتا ہے کہ اس مقصود یہ ہے کہ ‘‘انسان ان حدود سے آگے بڑھ جائے جو مادی فطرت نے نوع انسانی پر عائد کررکھی ہیں’’۔

(THE TWO SOURCES OF RELIGON AND MORALITY: p 208)

مادیت پر اس تغلّب کا نام برگسان کی اصطلاح میں رجعت الی اللہ۱؂ہے۔(GETTING BACK TO THE GOD)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ برگسان نے اس مقام پر قرآنی آیات کا لفظی ترجمہ کردیاہے جن میں انسانی زندگی کامقصود رجعت الی اللہ قرار دیا گیا ہے (تفصیل ان آیات کی اپنے مقام پرآئے گی) ۔علامہ اقبالؒ اس باب میں لکھتے ہیں کہ ‘‘قرآن کا ارشاد ہے کہ تمہارا منتہیٰ خدا کی طرف ہے۔’’ یہ آیت قرآنی فکر کی بہت بڑی گہرائیوں کو اپنے اندر لئے ہے۔ اس لئے اس میں اس حقیقت کی طرف بہ نضِ صریح اشارہ ہے کہ ارتقائے انسانیت کارُخ ستاروں کی طرف نہیں بلکہ لامنتہیٰ کائناتی حیات اور دنیائے روح کی طرف ہے۔(خطبات 125)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(ایضاً 246) اوسپنسکی کہتاہے کہ اس ارتقاء سے مفہوم انسان کا فوق البشربن جانا ہے او ریہی ارتقاء کا بلند ترین مقام ہے۔(THE NEW MODEL OF THE UNIVERSE)

برگسان کے نزدیک یہ ارتقا ء عمل پیہم کی رو سے مرتّب ہوتا ہے۔ اور اپنی مایہ ناز تصنیف (CREATIVE EVOLUTION) میں لکھتا ہے:۔

یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ جو کچھ ہم کرتے ہیں وہ موقوف ہوتا ہے اس بات پر کہ ہم کیا ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ہی یہ کہنا بھی درست ہے کہ ہم جو کچھ بنتے ہیں وہ اعمال ہی سے بنتے ہیں ۔اس اعتبار سے ہم مسلسل تخلیق ذات کرتے رہتے ہیں۔(7)

ڈین انج لکھتا ہے کہ اس کا راز مستقل اقدار کے حصول کی کوشش میں ہے کیونکہ یہی نصب العین ہے جس کے حصول میں انسانی طمانیت مضمر ہے۔ اس کے الفاظ میں:۔

انسان ایک عجیب وغریب حیوان ہے کیونکہ اس میں شہید ہونے کی بھی صلاحیت ۱؂ ہے ۔اس کے لئے اتنا ہی کافی نہیں کہ اس کی مادی ضروریات پوری کردی جائیں ۔اس کیلئے ایک نصب العین کی ضرورت ہے جس کے لئے یہ جئے اور جس کے لئے اگر ضرورت ہوتو یہ جان بھی دے دے۔ اس سے مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں مستقل اقدار بھی ہیں(جن کی خاطر انسان جان تک دے دیتا ہے) جسمانی زندگی اور اس کی لذّات کا شمار ان مستقل اقدار میں نہیں ہوسکتا۔

(THE FALL OF IDOLS: p. 236)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ تمام حیوانات میں صرف انسان ہی خود کشی کرنے پر قادر ہے ۔یعنی اپنی مرضی سے جان دینا ۔یہی جان دینا جب نصب العین یا کسی بلند قدر کی خاطر ہوتو اسے شہادت کہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مستقل اقدار کے تعاقب وحصول کا نام ہی اخلاقیات (EITHICS) ہے۔ اس لئے انسان کی موجودہ مادی زندگی کے بعد مزید ارتقائی منازل مادی سطح پرنہیں ۔بلکہ اخلاقیات کی سطح پرہوگی۔پروفیسر (J. ARTHUR THOMSON) اپنی کتاب (THE GOSPEL OF EVOLUTION) کے خاتمہ پر لکھتا ہے:۔

ہم یہ کہنے کی جرأت کرسکتے ہیں کہ ہکسلے نے یہ خلط کہا تھا کہ‘‘کائناتی تجربہ کا اخلاقی مقاصد سے کچھ واسطہ نہیں’’۔ اس کے برعکس ہم پروفیسر (PATRICK GEDDES) سے متفق ہیں کہ ‘‘فطرت درحقیقت اخلاقی عمل ہی کی مادی شکل کانام ہے۔’’ اگر یہ صحیح ہے تو حقیقت ارتقاء کی کتاب مقدس کا نہایت اہم جزو ہے حیوانات سے ہمارا تعلق اب ہمیں ملائکہ کی طرف لے جارہا ہے۔

اور انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں ارتقا ء کے عنوان پر مقالہ کا خاتمہ ان الفاظ پر ہوتا ہے:۔

حبّ وطن مذہب ،آرٹ سائنس او رلٹریچر کابھی (میزان)بقا میں بڑاوزن ہے او ریہ سلسلہ ارتقاء میں بڑا مفید کام کرتے ہیں۔ (اس سلسلہ میں) اخلاق کسی غیر متعلق خارجی قوت کی حیثیت نہیں رکھتا جو ایک مفید اور بیگانہ اخلاق آفاقی نظام کے خلاف برسرپیکار ہے ۔ بلکہ یہ خود ارتقاء کی تخلیق ہے اور سلسلہ ارتقاء کے تدریجی تغیرّات کو صحیح سانچے میں ڈھالنے کے لئے ایک اہم قوت ہمیں امید بلکہ یقین ہے کہ وہ تہاذیب جو عدل وحریّت ،آئین و انضباط او رمستحکم اخلاقیات پر مبنی ہیں۔ آخر الامرسب سے زیادہ کامیاب او ردیر پا ثابت ہوں گی۔

پروفیسر جوڈارتقاء کی اگلی منازل کو نفسی اور ذہنی ترقی سے تعبیر کرتاہے۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے :۔

انسانیت کے ارتقا ء کی اگلی منزل طبعی نہیں۔بلکہ نفسی اور ذہنی ہوگی پہلے پہل انسان ارتقاء کی منزلیں طے کرکے حیوانیت سے انسانیت کے مقام پر آیا۔پھر اس نے صنعت وحرفت کی مدد سے اپنے آپ کو آلات واسباب سے آراستہ کیا ۔ہمارے اس دور میں انسان نے صنعت وحرفت میں پورا کمال حاصل کرلیا ہے۔ اب اس کیلئے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اس منزل سے آگے بڑھے اور جس طبیعی ارتقاء نے اسے مجبور کردیا تھا کہ وہ حیوان سے ترقی کرکے انسان کے درجے میں قدم رکھے، پھر اس کی جبلّی ضرورتوں نے اس سے اوزار اور آلات بنوائے اور وہ مشین اور اسٹیم کا خالق بنا۔ اسی طرح وہ آج مجبو ر ہے کہ اپنا قدم آگے بڑھائے او راس کا یہ قدم مادی نہیں بلکہ نفسی اور ذہنی ترقی کی طرف ہوگا ۔( ماہنامہ ‘‘کتاب’’ فروری 1943ء)

اوسپنسکی (گورجیف کے الفاظ میں )کہتا ہے کہ اس ارتقاء کے لئے ضبط نفس نہایت ضروری ہے ۔اس لئے کہ ‘‘جو انسان اپنے آپ پریعنی جو کچھ اس کے اندر ہورہاہے اس پر ضبط نہیں رکھ سکتا وہ کسی چیز پر قابو نہیں رکھ سکتا۔

(IN SEARCH OF MIRACULOUS: p. 56)

راشڈل کہتا ہے کہ صحیح ضابطہ اخلاق ‘‘ایسا بن جاؤ’’ کے اصول میں ہے نہ کہ ‘‘ایسا کرو’’ کے احکام میں یعنی انسان ضابطہ اخلاق کا عملی پیکر بن جائے۔ اس کو تعمیر ذات کہتے ہیں ۔برگسان کہتاہے کہ اس کے لئے عمل تخلیق ضروری ہے یہی انسانی زندگی کا مقصود ہے او راسی راستہ سے یہ ارتقائی منازل طے کرسکتاہے ۔جو ہستی آزادانہ طور پر ارتقاء پذیر ہوتی ہے ہو ہر آن کوئی نہ کوئی نئی چیز تخلیق کرتی رہتی ہے۔

(MATTER AND MEMORY: p. 297)‘‘تخلیق ’’ سے برگسان کا مفہوم کیا ہے۔ اس کی تشریح وہ دوسری جگہ ان الفاظ میں کرتاہے:۔

اس سے مقصو د ہے نوع انسانی کی تخلیق کی تکمیل یعنی انسانیت کو وہ کچھ بنا دینا جو کچھ ہ فی الفور بن جاتی اگر اس میں اتنی قدرت ہوتی کہ یہ انسان کی مدد کے بغیر آخری شکل اختیار کرلے۔

(THE TWO SOURCES OF MORALITY AND RELIGION: p. 223)

عمل تخلیق مسلسل:۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر انسانیت کو اختیار ہوتا کہ وہ اپنی تکمیل آپ کرلے تو اس کی تکمیل یافتہ شکل جس قسم کی ہوتی، اسے وہی کچھ بنادینا ،یہ ہے تخلیق سے مفہوم ۔انسانیت کو اس کے منتہیٰ تک پہنچا دینا یہ ہے مقصود زندگی اس لئے کہ انسان کامستقبل خود اس کے ہاتھ میں ہے ۔چنانچہ برگسان لکھتاہے:۔

آج نوع انسانی خود اپنی ترقی کے بوجھ کے نیچے دبی، کچلی ہوئی ،مصروف آہ دفغاں ہے ۔یہ اس لئے کہ انسان کو اس کا احساس نہیں کہ اس کا مستقبل خود اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اس کے لئے سب سے پہلے اس امر کا فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ انسان زندہ رہنا چاہتا ہے یانہیں ۔پھر اس کے بعد یہ کہ انسان محض زندہ ہی رہنا چاہتا ہے یا اس سے آگے۔ بڑھ کر فریضہ کائنات کی تکمیل کے لئے بھی جدّوجہد کرنے کو تیار ہے؟ فریضہ کائنات کیا ہے؟ صفات الوہیت رکھنے والی ہستیوں کی تخلیق۔( 36)

انسانی تخلیق کے متعلق (BERDYAEU) لکھتا ہے کہ :۔

 یہ دنیا لحمکنات کی دنیا ہے ۔ یہ مکمل شدہ جامدو ساکت نہیں۔ اس میں امر تخلیق جاری رہے گا اور انسانوں کے ہاتھوں جاری رہے گا ۔اسے ممکنات سے پردہ کشائی کرنی ہوگی اور ہر مُضمر کو مشہود کرکے دکھاناہوگا۔ یہ امر تخلیق صرف خدا کی طرف سے انسان کی طرف نہیں آتا بلکہ خدا انسان سے تخلیقی جدّتوں کا تقاضا کرتا ہے۔ وہ انسانی آزادی کے کارناموں کامنتظر رہتا ہے۔(53)

اس قوت تخلیق کا مقام کیا ہے؟ اس کے متعلق (LESLIE PAUL) کہتا ہے کہ :۔

علم کائنات سے اوپر صرف ایک ہی قوت باقی رہ جاتی ہے اور وہ ہے قوت تخلیق ۔اگر ہم خدا کو اس سے مستثنیٰ کردیں تو یہی ایک قوت ایسی ہے جس سے کائنات کا احاطہ کیا جاسکتا ہے۔

(THE MEANING OF HUMAN EXISTENCE: p. 98)

انسان ، خدا کا رفیق بن جاتا ہے:۔۔۔۔۔۔۔ قوت تخلیق خود انسان کے اندر کیا انقلاب پیدا کرتی ہے اس کے متعلق (MARTIN BUBBER) اپنی دلچسپ کتاب (I AND THOD) میں لکھتاہے کہ ‘‘قوت تخلیق ہم پر اثر انداز ہوتی ہے ۔وہ اپنے آپ کو جلا کر خود ہمارے اندر جذب ہوجاتی ہے او راس آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں سے ہماری تخلیق نوگرتی ہے۔ ہم اس کے آتشیں جلال کے حضور کانپتے ہیں گڑگڑ اتے ہیں سربستجو ہوجاتے ہیں لیکن اس کے بعد ہم خود تخلیق میں شریک ہوجاتے ہیں ہم خالق سے جا ملتے ہیں ۔اس کے معاون اور رفقا کی حیثیت سے ۔’’(83)

باردیو نے اوپر کہاہے کہ‘‘خدا انسان کے آزادی کے کارناموں کامنتظر ہے ’’۔ اور (BUBBER) کہتاہے کہ ان تخلیق کارناموں سے جو انسان کی آزادی کا فطری نتیجہ ہیں، انسان خود خدا کا رفیق بن جاتاہے ۔ علامہ اقبال نے بہت پہلے اس حقیقت کو اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ کائنات میں سلسلہ تخلیق خدا کی صفت خابقیّت کی بناء پرجاری وساری تھا۔ اس میں کوئی شے صاحب اختیار و ارادہ نہ تھی کہ خدا کے اس امرت کو ینی کی راہ میں حائل ہوجاتی یا اس کے پیش نظر مقصد کی تکمیل میں اس کا دست وبازو بنتی ۔اس نے انسان کو صاحب اختیار ارادہ پیدا کیا ۔اب یہ بھی ہوسکتاتھا کہ اس مقصد کی تکمیل کے لئے خدا کا معاون ورفیق بن جائے، لیکن یہ بھی تو ہوسکتاتھا کہ اس کے پروگرام کی راہ میں حائل ہوکر کھڑا ہوجائے۔ اس حقیقت کے پیش نظر علامہ اقبال کہتے ہیں کہ ‘‘انسان کو صاحب اختیار و ارادہ پیدا کرکے خدا نے بڑا (RISK) لیاہے ۔لیکن اس (RISKٌ) سے یہ بھی مترشح ہوتاہے کہ خدا کو انسان پر کتنا بڑا بھروسہ ہے’’۔ (خطبات 81)۔یہ اعتماد وبھروسہ ہی توتھا ۔جس کی بناء پر خدا نے انسان کو تمام کائنات سے مختص کر کے اپنی خاص قوت کا ایک حصہ عطا کردیا۔ یہ قوت اختیار و ارادہ کی قوت تھی ۔انسان سے پہلے یہ خصوصیت صرف ذات خداوندی کیلئے مخصوص تھی۔اب اس میں انسان بھی شریک ہوگیا۔ اختیار وارادہ خدا ہی کاعطا فرموددہ سہی لیکن ہے تو خدائی قوتوں میں سے ایک بڑی قوت پھر اللہ نے یہ بھی نہیں کہا کہ جب چاہئے وہ اس عطیہ کو واپس لے لے گا ۔نہیں! انسان سے یہ قوت واپس نہیں لی جائے گی۔ ان امور سے واضح ہے کہ خدا نے انسان کو اتنی بڑی قوت دے کر جہاں ایک خطرہ کا امکان پیداکرلیا ہے وہاں اسے اس کی ذات پر بھروسہ بھی کس قدر ہے۔ اب انسان خدا کے اس اعتماد کو اسی صورت ہی میں پورا کرکے دکھا سکتا ہے جب یہ اس کے تخلیق پروگرام میں اس کادست و بازوبن جائے چنانچہ علامہ اقبالؒ لکھتے ہیں۔

‘‘اس ارتقائی تبدیلی کے طریق ونہج میں خدا خو بند کا رفیق کارہوجاتا ہے بشرطیکہ انسان اس میں سبقت کرے ۔ان اللہ لا یغیرمابقوم حتی یغیر اما بانفسھم (13/11) لیکن اگر وہ اس باب میں سبقت نہیں کرتا اگر وہ اپنی خودی کی مخفی قوتوں کو بروئے کار نہیں لاتا ۔اگر وہ ابھرنے والی زندگی کے اندر ونی تلاطم کا احساس نہیں کرتا تو اس کی روح پتھر کی سی تساوت اختیار کرلیتی ہے اور وہ (انسان نہیں رہتا بلکہ) جامدمادہ کی صورت اختیار کرلیتا ہے’’(خطبات تشکیل جدید، علامہ اقبال 11-12)

دوسری جگہ اس حقیقت کی وضاحت ان الفاظ میں فرماتے ہیں:۔

’’خدا کی تمام مخلوق میں انسان ہی اس قابل ہے کہ وہ شعوری طور پر اپنے خالق کی حیات تخلیقی میں شرکت کرسکے۔ اس میں یہ جوہر ودیعت کیا گیاہے کہ یہ ایک بہتر دنیا کا تصور کرسکے اور جو کچھ موجود ہے اسے وہ کچھ بنادے جو اسے ہونا چاہئے’’۔

(HANS-DRIESH) لکھتا ہے کہ خدا کے تخلیق پروگرام میں شرکت سے ’’ہم خدا کے سپاہی بن جاتے ہیں ۔’’۱؂(THE GREAT DESIGN)۔ اس باب میں (LISLIE PAUL) نے اقبال ہی کے الفاظ کو دہرایا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ قرآن اسی لئے مومنین کی جماعت کو حزب اللہ کہتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 جب کہا ہے کہ:۔

انسان اپنی زندگی میں فطری عمل ارتقا ء کے خلاف چلتا ہے ۔و ہ اس کاانتظار نہیں کرتا کہ حوادث عام اپنے طریق پر اس کے مقصد کی سمت چلیں نہ ہی وہ زمانہ کا انتظار کرتاہے کہ وہ اس کاسازگار ہو وہ حوادث کو مجبور کردیتا ہے کہ وہ اس کے پروگرام کے مطابق چلیں۔ وہ جس چیز کی خواہش رکتاہے اس کے مطابق اپنا پروگرام مرتّب کرلیتا ہے او رپھر عملی تخلیق سے اپنے ماحول پرغلبہ پاکر اسے اپنا سازگار بنالیتا ہے۔۔۔۔ جو کچھ اس کائنات میں انسان کے ہاتھوں سے وجود میں آیا ،فطرت کا عمل تخلیق وارتقاء انہیں کروڑوں برس میں بھی پیدا نہیں کرسکتا ۔’’( THE MEANING OF HUMAN EXISTENCE: p. 157-158)

اسی قسم کے انسان کے متعلق (BERDYAEU) لکھتاہے کہ :۔

یہی وہ انسان ہے جو تاریخ او رکائنات کی زندگی میں جیتا ہے او راس میں باعمل ومتحرک رہتا ہے لیکن تاریخ او رکائنات سے اثر پذیر نہیں ہوتا ۔بلکہ انہیں اپنے ارادوں کے مطابق ڈھال لیتا جو اس کے گردوپیش ہوں بلکہ تمام نوع انسانی کے مقدرّات کی ذمہ داری اپنے سر لے لیتاہے۔(131)

(THE DIVINE AND HUMAN: p. 131)

(SHEEN) حیوان اور انسان میں فرق ہی یہ بتا تا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ :۔

جمادات او رحیو انات کی زندگی کا مقصد خدا کی طرف سے عائد کردہ ہوتاہے ۔اس مفہوم کے اعتبار سے وہ ایک متعین پروگرام کے مطابق چلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان کے برعکس انسان اپنے اختیار و ارادہ کے بنا پر اپنامقصد او رنصب العین آپ متعین کرنے پر قادر ہے۔

(PHILOSOPHY OF RELIGION: p. 284)

مثالی معاشرہ:۔۔۔۔۔۔۔یہ ہے فکر جدید کے مطابق انسان کا تصور ۔اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ان افراد پر مشتمل جس قسم کے معاشرہ کا تصور ؂فکر جدید پیش کررہاہے، اس معاشرہ کی خصوصیت ،نہج ترقی او رمقصودو مفہوم کیاہے۔جوڈ اس باب میں لکھتا ہے ء۔

مثالی معاشرہ وہ ہے جس میں ہرشخص وہ کام کرناچاہئے جسے وہ حق سمجھتاہے او رہر شخص اسی کو حق سمجھے جو درحقیقت حق ہے۔ بالفاظ دیگر وہ معاشرہ جس میں لوگ ان کاموں کو حق سمجھیں اور ان پرعادتاً پابند ہوں جو بہترین نتائج کے حامل ہوں یعنی جو مستقل اقدار ،حسن ، صداقت ،اخلاقی ،محاسن اور انبساط کے مظہرہوں ۔جن معاشرہ کے افراد ان اقدار کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دیں گے اور ان پر عمل پیراہوں گے وہی معاشرہ بہتر ین معاشرہ ہوگا۔

(GUIDE TO THE PHILOSOPHY OF MORALS AND POLITICS: p. 467-469)

راشڈل مثالی معاشرہ کے متعلق لکھتا ہے:۔

مثالی معاشرہ ایسی کیفیت کانام ہے جس میں ہرفرد معاشرہ کی بہبود کے لئے وہی کچھ کرے جو معاشرہ اس فرد کی بہبود کے لئے کرتاہے اور اس طرح ان ‘‘مقاصد کی مملکت ’’ کا قیام عمل میں آجائے جو کانٹ کے نظریہ کے ماتحت نوع انسانی کے بلند ترین مقاصد ہیں۔

(THE THERY OF GOOD AND EVIL: VOL. I, p. 100)

راشڈل دوسری جگہ لکھتا ہے کہ ‘‘معاشرہ کا فریضہ یہ ہے کہ وہ تمام نوع انسانی کے افراد کی بہبود کا انتظام ان کی ذاتی استعداد اورقدروقیمت کے مطابق کرے۔’’(181)یعنی ایسا معاشرہ جس میں ہر فرد کے ذاتی استعداد اور مضمر جو ہروں کے نشوونما کاپورا پورا انتظام موجود ہو۔(LESLIE PAUL) کہتاہے کہ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ فرد اپنا تعلق مستقل اقدار کے سرچشمہ ،یعنی خدا سے قائم کرے اور پھر اس تعلق کی نسبت سے معاشرہ کا جائزہ لیتارہے (211)۔یعنی معاشرہ کے اعمال کے پرکھنے کا معیار فرد ہوناچاہئے اور فرد کو اپنا تعلق مستقل اقدار سے قائم رکھنا چاہئے ۔اسی نکتہ کے متعلق اوسپنسکی لکھتا ہے کہ ہر فرد کو چاہئے کہ وہ دیگر افراد اور کائنات کے متعلق اپنے ذاتی جذبات کو الگ رکھ کر ایک خارجی مستقل معیار کے مطابق احساسات قائم کرے(TERTIUM ORGANUM) وہ کہتا ہے۔

انسانوں کو ایک دوسرے کے سمجھنے میں غلط فہمیاں اسلئے پیدا ہوجاتی ہیں کہ وہ مختلف جذبات کے ماتحت زندگی بسر کرتے ہیں۔ اگر ان کے جذبات میں ہم آہنگی پیدا ہوجائے تو وہ ایک دوسرے کو بالکل صحیح طور پر سمجھنے لگ جائیں ۔(198)

اوسپنسکی اپنے اس دعوے کی تائیدمیں لکھتا ہے کہ آپ دیکھئے شراب پینے والے ایک دوسرے کے یار ہوتے ہیں۔ یہ اس لئے کہ شراب ان تمام افراد میں ایک جیسے جذبات بیدار کرتی ہے ۔اسی طرح بھنگ پینے والے ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں کیونکہ برگِ حشیش ان سب کو ایک ہی قسم کی تصوراتی جنت میں لے جاتے ہیں۔لہٰذا باہمی تعلقات کیلئے جذبات کی ہم آہنگی نہایت ضروری ہے۔ اس ضمن میں اوسپنسکی (گور جیف کے الفاظ میں) کہتا ہے کہ وہ شخص جو جاگنا چاہتاہے اسے ایسے اشخاص تلاش کرنے چاہئیں جو اس کی طرح جاگناچاہتے ہیں ۔ اس گروہ کو پھر باہمی تعاون سے کام کرنا چاہئے۔’’

(IN SEARCH OF THE MIRACULOUS: p. 222)

یعنی معاشرہ کی تشکیل وعدت مقصد کے ماتحت ہونی چاہئے (BRIGHHTMAN) ایسے مثالی معاشرہ کے متعلق لکھتا ہے کہ :۔

یہ معاشرہ ان آزاد لوگوں پر مشتمل ہوگا جو ایک معقول اور قابل قدر واحد نصب العین کے حصول کے لئے باہمی تعاون و تناصر سے کام لیں ۔و ہ نصب العین جس کی بنیادیں خدا کے ایمان پر استوار ہوں۔

(THE PHILOSOPHY OF RELIGION: p. 146)

لیکن اس معاشرہ کے پیش نظر صرف اپنے گروہ کی نشووارتقاء ہی کا خیال نہیں ہوناچاہئے ۔مقصود تمام نوع انسانی کا ارتقا ہونا چاہئے کیونکہ:۔

اگر نوع انسانی کاارتقاء نہیں ہوگا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حیات نامی کا ارتقا ء رک جائے گا اور اس طرح کائنات میں تخلیقی شعاع کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔ اگر انسانیت کا ارتقاء نہ ہوتو اس مقصد کے پیش نظر جس کے لئے اس کی تخلیق ہوئی تھی ۔ایسی انسانیت بیکار ہوجاتی ہے او ربیکار ہونے کا مطلب اس کی فنا ہے۔ اس طرح سلسلہ ارتقاء کے رُک جانے کا مفہوم انسانیت کی فنا ہوگا۔

(IN SEARCH OF THE MIRACULOUS: p. 306)

اس باب میں لکھتا ہے کہ:۔

میرا خیال ہے کہ انسان کے تمام فرائض کو ان چند الفاظ میں یوں سمیٹا جاسکتاہے ۔‘‘زیادہ زندگی، تمہارے اپنے لئے بھی اورتمہارے ہمسایہ کیلئے بھی۔’’ میرا خیال ہے کہ اگرچہ انسان پریشانیوں ،تکلیفوں اور مصیبتوں میں گھرا ہوا ہے۔ بایں ہمہ وہ اس فریضہ کو سر انجام دے سکتاہے اور اس طرح آہستہ آہستہ اپنی منزل تک پہنچ سکتا۔

(RELIGIOON WITHOUT REVELATION)

برفو (BRIFFAULT) اپنے مخصوص انداز میں لکھتا ہے:۔

تم ماحول کو بدل دو او رماحول خود بخود بدل دے گا۔ انسان اس دنیا کی مخلوق ہوتاہے جس میں وہ رہتاہے جس قسم کی وہ دنیا ہوگی اسی قسم کا انسان ہوگا۔۔۔ اخلاق اس کانام نہیں کہ تم اپنے زمانہ کی اخلاقی اقدار سے ہم آہنگ ہوجاؤ ۔ اخلاق کا مطلب یہ ہے کہ تم اس اخلاقی ضابطہ کی غیر اخلاقی شقوں کے خلاف آواز بلند کرو ۔ذاتی اخلاق بڑی چیز ہے لیکن دنیا کا اخلاق صرف ذاتی اخلاق سے کبھی آگے نہیں بڑھا۔ یہ اس طرح آگے بڑھے گا کہ انسانی مفاد کے تصادم پر معقول پسندی سے تنقید کی جائے او راس طرح ماحول میں تبدیلی پیدا کردی جائے ۔(347)

راشڈل کہتاہے کہ صحیح اخلاقی معیار یہ ہے کہ تم تمام نوع انسانی کی مسّرتوں میں کس قدر اضافہ کرتے ہو۔۔(VOL. I, p. 119)۔ کانٹ نے اسی چیز کو اصل الاصول اخلاق قرار دیا تھا جب اس نے کہا تھا کہ:۔

اس طرح کام کرو گویا تم او رتمام افراد انسانیت ، ذاتی قیمت کے اعتبار سے برابر ہوتو تم ایک ایسے معاشرہ کے فرد بن جاو جس میں ہر فرد دوسرے فرد کے مفاد کی قیمت اپنے مفاد کی قیمت کے برابر سمجھتا ہے۔

(THE CATEGORICAL IMPERATIVE)

راشڈل دوسری جگہ لکھتا ہے کہ مثالی معاشرہ میں حالت یہ ہونی چاہئے کہ ء۔

میں کسی دوسرے کی نشوونما کی فکر کروں اور اسی میں اپنا مفاد اور خیر سمجھوں اور اسی طرح وہ میری نشوونما کی فکر کرے اور اسی میں اپنی مفاد اور خیر سمجھے۔ (VOL. II, p. 77)

اس طرح راشڈل کے الفاظ میں ہوگا یہ کہ دوسرے کی نشو ونما اپنی نشو ونماپر ترجیح حاصل کرے گی(85)۔

آغاز کار:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن گرجیف کا خیال ہے کہ تمام نوع انسانی کا نشوونما وارتقاء ایک محدود گروپ (طبقہ) کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے ۔یعنی سب سے پہلے اس ایک گروپ کو ارتقائی منازل طے کرکے عام سطح سے بلند ہوناچاہئے ۔پھر تمام انسانیت کو اس کے پیچھے چلناچاہئے ۔ وہ کہتا ہے۔

انسانیت کا ارتقاء ایک مخصوص گروپ کی وساطت سے ہی عمل میں آسکتا ہے ۔یہ گروپ باقی نوع انسانی پر اثر انداز ہوگا اوراس کی راہ نمائی کرے گا۔

(ALL AND EVERYTHING: p. 3096)

گورجیف کہتاہے کہ اگر ودنیا میں اس قسم کے دوسو باشعور انسان بھی مل جائیں جو اس طرح وحدت مقصد سے پہلے اپنے اندر ارتقائی کیفیات پیدا کریں اور اس کے بعد نوع انسانی کی راہ نمائی کابیڑہ اٹھائیں تو وہ ساری دنیا میں انقلاب برپا کرسکتے ہیں (310)لیکن اوسپنسکی کا اپنا خیال یہ ہے کہ ہردور میں ارتقاء صرف ایک مخصوص طبقہ کا ممکن ہے عوام ہمیشہ اپنی سطح پررہتے ہیں۔ وہ (THE NEW MODEL OF THE UNIVERSE)

میں لکھتا ہے:۔

عام نقطہ نگاہ سے یا تو زندگی کو بلامقصد سمجھا جاتاہیے اوریا تمام انسانوں کے ارتقاء کا تصور کیا جاتا ہے ۔لیکن تمام انسانوں (MASSES) کے ارتقاء کا تصور ایساہی افسانوی ہے جیسے (مثلاً) یہ سمجھ لیا جائے کہ جسم انسانی کا ہر خلیہ یا کسی درخت کا ہر ذرّہ ارتقائی منازل طے کرتاجائے گا ۔ایسا سمجھنے والے نہیں سوچتے کہ عوام کے ارتقاء کا یہ مطلب ہوگا کہ درخت کی جڑیں ‘تنا،شاخیں، پتےّ، سب کے سب پھول اور پھل بن جائیں ۔یعنی سارا درخت ہی پھول اور پھل میں تبدیل ہو جائے (یہ ناممکن ہے پھول او رپھل کے لئے درخت کی جڑوں ،تنے ، شاخوں ، پتوں کااپنی جگہ رہنا ضروری ہے:۔ (122)

یعنی اوسپنسکی کے نزدیک مثالی معاشرہ وہ ہوگا جس میں عوام اپنی سطح پر رہیں لیکن ایک خاص گروہ ارتقائی منازل طے کرکے بلند ہوجائیں ۔راشڈل نے جب کہا تھا کہ مثالی معاشرہ میں ہر فرد کی ذاتی استعداد کی پوری پوری نشوونما ہونی چاہئے ۔ تو اس کے پیش نظر بھی یہی تھا کہ چونکہ افراد ذاتی استعداد کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں اس لئے ترقی سے مفہوم یہ نہیں کہ تمام کے تمام انسان ایک ہی بلند ی پر پہنچ جائیں گے ۔ بلکہ یہ کہ ہر انسان جس بلندی تک پہنچنے کی استعداد اپنے اندر رکھتا ہے اس بلندی تک ضرور پہنچ جائے ۔وہائٹ ہیڈ کے پیش نظر بھی ایسا ہی تصور تھا جب اس نے کہا تھا کہ:۔

انسانی کیریکٹر کے مختلف ٹائپ میں ۔آزادی سے مفہوم یہ ہے کہ ہر ٹائپ کے اندر ضروری ربط و توازن قائم رہے اوراس کے ساتھ ہی معاشرہ کا عمومی نصب العین بھی تباہ نہ ہونے پائے۔ معاشرہ کا ایک عمومی نصب العین تو یہ بھی ہے ان مختلف (TYPES) کے گروہ باہم دگر اس طرح مربوط ومتعاون ہوں کہ وہ معاشرتی زندگی کے مخلوط قالب (COMPLES PATTERNS)کی نشوونما کا ذریعہ بن جائیں۔ اس طرح انفرادیت ،باہمی تعاون سے توانائی حاصل کرتی ہے۔ اور آزادی کو وہ قوت میسر آجاتی ہے جو اس کی تکمیل کے لئے ضروری ہوتی ہے۔

(ADVENTURES OF IDEAS: p. 86)

اسی بنا ء پر وہائٹ ہیڈ کہتاہے کہ ایک بہترین معاشرہ وہ ہوسکتاہے جس میں ہر ایک کام ان افراد کے سپرد ہوں جو اس کے لئے موزوں ترین ہوں۔فلہٰڈا:۔

اگر یہ دیکھنا ہو کہ کوئی معاشرہ کس قسم کا ہے تو یہ دیکھنا چاہئے کہ اس میں کس کس قسم کے کام کس کس قسم کے لوگوں کے سپرد ہیں۔(99)

وہائٹ ہیڈ کہتاہے کہ اس قسم کے باہمی تعاون وتناصر کیلئے ضبط اور ایثار نہایت ضروری ہے ۔اسی ضبط اور ایثار سے انسان اپنی ذات سے آگے بڑھ کر نوع انسانی سے محبت کرنا سیکھتاہے ۔مثلاً ماں کی محبت کہ جس میں اپنی تمام خواہشات کو بچہ کی نشوونما کی طرف منتقل کردیا جاتا ہے۔(373)

لہٰذُا اس حقیقت کو اصول سمجھ لینا چاہئے کہ زندگی کی تکمیل کا راز اپنی ذات سے ماوراء مقاصد کے حصول میں ہوتا ہے۔(373)

افراد کے ضبط وایثار سے معاشرہ کا توازن قائم رہتاہے ۱؂ اور اس طرح معاشرہ آگے ترقی کرتا جاتاہے ۔اسی اعتبار سے برگسان مثالی معاشرہ کے متعلق کہتاہے:۔

کہ یہ ایسا معاشرہ ہوتاہے جو ہر وقت آگے بھی بڑھتا جاتاہے اور ہر وقت اپنا توازن بھی قائم کئے ہوتا ہے۔(CREATIVE EVOLUTION: p. 106)

لیکن اس کے ساتھ ہی برگسان یہ بھی کہتاہے کہ:۔

ایسے معاشرہ کاقیام ناممکن ہے۔(160)

اس میں شُبہ نہیں کہ ایسے معاشرہ کے قیام میں بہت سی مشکلات حائل ہوتی ہیں ۔لیکن ایسے معاشرہ کا قیام ممکن ہے اور یہ صرف قرآن کی رو سے قائم ہوسکتاہے ۔قرآن کی تعلیم کامنشاء ایسے معاشرہ کاقیام ہے۔یہ معاشرہ کس قسم کا ہوگا؟ اس میں افراد معاشرہ کے فرائض کیا ہوں گے اور واجبات کیا؟ وہ کون سا جذبہ محّرکہ ہوگا جس کے ماتحت اس معاشرہ کا ہر فرد پوری پوری محنت سے کام کرے گا ۔لیکن اس کے بعد اپنی محنت کے ماحصل کو نوع انسانی کی روش اور نشوونما کے لئے کھلا چھوڑدے گا اور خود صرف اتنالے گا جتنا اس کی ضروریات کی کفالت کرسکے ۔نیز یہ کہ خود یہ معاشرہ اپنے افراد کو ضروریات زندگی کی طرف سے پورا پورا اطمینان دلاکر ان کی مضمر قوتوں کو کس طرح بروئے کار لاتا جائے گااورایسا کرنے کیلئے اس کے پاس سامان زیست کہا سے آئے گا ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر اس قلب کو وقف اضطراب رکھتے ہیں جس میں زندگی کے اس بنیادی مسئلہ کا حل دریافت کرنے کی تڑپ ہو۔ اس مسئلہ پر میں نے اپنی کتاب ‘‘نظام ربوبیت’’تفصیل سے بحث کی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ اسے قرآن ‘‘احسان ’’ کی جامع اصطلاح سے تعبیر کرتاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قرآن کی رو سے ‘ جو انسان ’ انسانی ذات کو تسلیم نہیں کرتے اور زندگی صرف طبعی جسم کی زندگی کو سمجھتے ہیں وہ درجہ حیوانیت (ANIMAL REVE) پرزندگی بسر کرتے ہیں ۔ سانی سطح پر آتے ہی نہیں (6-12)۔ جو معاشرہ اس قسم کے انسانوں پرمشتمل ہوگا وہ جہنم کے انسانیت سوز عذاب میں مبتلا رہے گا ۔ جنتی معاشرہ وہ ہے جس میں انسان مستقل اقدار پرایمان رکھے اور انسانی ذات کی نشوونما کو مقصود حیات قرار دے۔ چونکہ مستقل اقدار صرف وحی کی رو سے مل سکتی ہیں اوروحی ،اپنی آخری شکل میں قرآن کے اندر محفوظ ہے۔اسلئے وہی نظام جنتی معاشرہ کا ضامن ہوسکتا ہے جو قرآنی خطوط پر متشکل ہو۔ تفصیل ان امور کی دوسری کتاب میں ملے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Part: 1- 'What did the man think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Preface—Part 1 انسان نے کیا سوچا

Part: 2 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: First Chapter on Mechanical concept of life—part 2 انسان نے کیا سوچا: باب اوّل،میکانکی تصوّر حیات

Part: 3 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 3 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

Part: 4 – 'What Did The Man Think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 4 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

Part: 5 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 5 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

Part: 6 –  'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 6 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

Part: 7 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 3, Ethics — Part 7 انسان نے کیا سوچا : باب سوم، اخلاقیات

Part: 8 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 3, Ethics — Part 8 انسان نے کیا سوچا : باب سوم، اخلاقیات

Part: 9 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 4, Politics — Part 9 انسان نے کیا سوچا : باب چہارم، سیاسیات

Part: 10 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 4, Politics — Part 10 انسان نے کیا سوچا : باب چہارم، سیاسیات

Part: 11 –  'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 5, Economics — Part 11 انسان نے کیا سوچا : باب پنجم، معاشیات

Part: 12 – What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 5, Economics — Part 12 انسان نے کیا سوچا : باب پنجم، معاشیات

Part: 13 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 6, WESTERN CIVILISATION —Part 13 انسان نے کیا سوچا :باب ششم، تہذیب فرنگ

Part: 14 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 6, WESTERN CIVILISATION — Part 14 انسان نے کیا سوچا :باب ششم، تہذیب فرنگ

URL:  https://www.newageislam.com/books-documents/ghulam-ahmad-parwez-man-think-ideal-world-part-15/d/130810

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..