New Age Islam
Thu May 15 2025, 03:13 PM

Books and Documents ( 27 Sept 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 5, Economics — Part 12 انسان نے کیا سوچا : باب پنجم، معاشیات

غلام احمد پرویز

منشور اشتراکیت:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مارکس کے فلسفہ کے مبادیات آپ کے سامنے آچکے اسی فلسفہ کی بنیادوں پر اس نے تحریک اشتراکیت کی بنیاد رکھی ۔اس تحریک کامنشور مارکس او راس کے رفیق کارفریڈرک انجلز کی مشترکہ کوشش کانتیجہ (یہی وہ منشور ہے جس کاذکر (LEAGUE OF THE JUST) کے سلسلہ میں پہلے آچکا ہے ) انجلز اس منشور کے انگریزی ترجمہ (شائع شدہ 1818ء) کے مقدمہ میں لکھتاہے:۔

تاریخ کے ہر دور میں معاشی پیداوار اور تبادلہ طریق او روہ معاشرتی نظام جو اس طریق پیداوار تبادلہ کالازمی نتیجہ ہوتا ہے وہ بنیادی ہوتی ہیں جن پر اس دور کی سیاسی او رذہنی رتاریخ کی عمارت استوار ہوتی ہے اور جن کی روشنی میں اس دور کی تاریخ کی صحیح تعبیر کی جاسکتی ہے۔

لہٰذا (اس قبائلی زندگی کو چھوڑ کر جب زمین مشترکہ ہوتی تھی) انسانی تاریخ طبقاتی جنگ کی تاریخ ہے یعنی لوٹنے والو ں او رلٹنے والوں کے درمیان جنگ۔حاکم ومحکوم کے مابین پیکار۔

یہ طبقاتی نزاعات سلسلہ ارتقاء کی کڑیاں ہیں جن میں اب وہ منزل آگئی ہے جس میں مزدور وں کامجبور ومقہور طبقہ اپنے آپ کو سرمایہ داروں کے پنجہ آہنی سے نہیں چھڑاسکتا تادقت یہ کہ تمام انسانی معاشرہ کو ان درندوں کے مظالم سے نجات نہ دلائی جائے۔

اس کے بعدخود اشتراکی منشور شروع ہوتا ہے جس کے پہلے صفحہ پر یہ عبارت ملتی ہے۔

انسان نے اس وقت تک جتنے معاشرے کئے ہیں ان سب کی تاریخ طبقاتی نزاع کی تاریخ ہے۔ غلام اور آقا امرا وجمور سرمایہ دار اور مزدور ہمیشہ ایک دوسرے کے مخالف اور باہم برسرپیکار رہے ہیں۔ یہ لڑائی صدیوں سے یونہی مسلسل جاری ہے کبھی اس کی آگ دھیمی پڑ جاتی ہے اور مخفی طور پر اندر ہی اندر سلگتی رہتی ہے اور کبھی اس کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں۔پھراس کا انجام یا تو یہ ہوتا ہے کہ ایک انقلاب پورے معاشرے کو بدل ڈالتاہے یا پھر دونوں برسرپیکار طبقے مٹ جاتے ہیں۔

انجلز دوسرے مقام پر اس نظریہ کی توضیح ان الفاظ میں کرتاہےء۔

تاریخ کے ماوی تصور کی ابتدا ء اس مقدمہ سے ہوتی ہے کہ انسانی زندگی کے اسباب معیشت کی پیدوار کا طریق او رپیدا شدہ اشیاء کی تقسیم اور تبادلہ درحقیقت معاشرہ کی ساری عمارت کی بنیاد ہے ۔یعنی تاریخ انسانی میں دولت کی تقسیم اور سوسائٹی کی طبقاتی تفریق کا دارومدار صرف اس بات پر رہا ہے کہ اس معاشرہ میں کسی قسم کی پیداوارہوتی رہی ہے اور اس پیداوار کاتبادلہ کس اندازمیں کیا جارہاہے بناء بریں تاریخ کا کوئی معاشرتی تغیر یا سیاسی انقلاب ہو اس کی علّت ادنیٰ انسانی فکر میں باعدلاو رابدی صداقتوں کے متعلق انسانی بصیرت میں تلاش نہیں کرنی چاہئے ۔ یہ تلاش کرنی چاہئے پیداوار کے وسائل اور ھوق تقسیم پیداوارمیں بالفاظ دیگر ان اسباب کیا تلاش فلسفہ کی رو سے نہیں بلکہ معاشیات کی رو سے کرنی چاہئے۔ (یہ رتصور جو روز بروز بڑھے چلاجارہا ہے) کہ موجودہ معاشرتی نظام غیر معقول اور بے انصاف ہوچکا ہے۔ معقولیت پسندی اب غیر معقولیت بن چکی ہے او رجسے پہلے خیر کہا جاتاتھا ابشر تسلیم کیا جاتا ہے اس امرکی دلیل ہے کہ وسائل پیداوار اور ان کی تقسیم ہم آہنگی اختیار کرچکا تھا اب ان معاشی تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں رہا، اسی سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ ان تمام تضادات سے جو ہمارے معاشرہ میں اس طرح ابھر کر سامنے آگئے ہیں نجات حاصل کرنے کاطریقہ بھی ان وسائل پیداوار ہی کے اندر مل سکے گا جو پہلے وسائل سے مختلف ہوچکے ہیں۔

مارکس اپنی کتاب (THE POVERTY OF PHILOSOPHY) میں لکھتا ہے:۔

وسائل پیداوار کی تبدیلی سے انسانی معاشرہ میں بھی تبدیلی آجاتی ہے ۔ہاتھ کی چکی گاؤں کا سردار پیدا کرتی ہے انجن سے چلنے والی چکّی صنعتی سرمایہ دار پیدا کرتی ہے۔۔۔۔ لہٰذاانسان کے تمام معاشرتی تصورات معاشی تاریخ کے عبوری پیدوار ہیں۔

اشتراکی منشور میں مارکس لکھتا ہے:۔

میں تاریخ میں جس نظریہ کا اضافہ کرناچاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ (1) انسانی طبقات مادی پیداوار کے مختلف پہلوؤں سے وابستہ ہیں(2) طبقاتی نزاع کافطری نتیجہ مزدوروں کی آمریت ہوگا،اور (3) یہ آمریت درحقیقت ایک عبوری دور ہوگا ۔جس کے بعد تمام طبقات کی تفریق مٹ جائے گی اور ایک آزاد اور ہمولہ معاشرہ کاقیام عمل میں آجائے گا۔

ان تصریحات سے آپ نے دیکھ لیا ہوگا کہ مارکس کے فلسفہ اشترکیت کی رو سے انسانی زندگی کا سارا مسئلہ فقط ‘‘روٹی’’ کامسئلہ ہے ۔انسان آب دگل کی پیداوار ہے روٹی کے آسرے جیتا ہے ۔اس کی تہذیب اس کا تمدن ، اس کا معاشہ ، اس کے تمام ذہنی تصورات اور قلبی رجحانات سب کے سب اس کے معاشی طرززندگی کے ساتھ وابستہ ہیں ۔ نہ کہیں خدا کا وجود ہے نہ کائنات میں کوئی غیر متبدّل قوانین کا ر فرما ہیں ، نہ مستقل او رمطلق اقدار ہیں نہ کہیں خبر ہے نہ شر حتیٰ کہ نہ انسان کی جمالیاتی نگاہ اور ذوق حسن (AESTHETIC TASTE) کوئی اہمیت رکھتا ہے ، نہ اس کے جذبات کی دنیا کہیں بستی ہے ، انسان ایک حیوان ہے جس کا مقصد زندگی کھانا ، کھاکر زندہ رہنا او رعمر طبعی کے بعد مرجانا ہے ،بلکہ حیوان سے بھی بدتر کیونکہ جنگل کے حیوانات کو اپنی خوراک کے لئے کبھی اس قدر تگ و تاز اور جدّوجہد نہیں کرنی پڑتی جتنی انسان کو کرنی پڑتی ہہے ۔ہیگل کا ایک شاگرد تھا (FEUERBACH) یہ اس دور کا متشدّد مادہ پرست تھا اس لئے مارکس او رینگلز کا بڑا محبوب ۔اس کا قول ہے کہ جو کچھ انسان کھاتاہے اسی کانام انسان ہے (MAN IS WHAT HEEATS) وہ اپنی کتاب (ESSENCE OF CHRISTIANITY) میں لکھتا ہے:۔

انسان اور فطرت کے باہر کسی شے کا وجود نہیں ہمارے مذہبی تصورات نے جن ہستیوں کو پیدا کررکھا ہے وہ ہمارے ذہن کے تراشیدہ افسانے ہیں۔

اس سے ظاہر ہے کہ مارکس کے نشتر تنقید کی پہلی زد ، مذہب کی رگِ جان پرپڑی ہوگی۔ ایسا ہی ہوا تھا چنانچہ وہ اپنی کتاب (CRITIQUE OF THE PHILOSOPHY OF LAW OF HEGEL) میں لکھتا ہے:۔

مذہب انسانی ذہن کی پیداوار ہے انسان مذہب کی پیداوار نہیں ۔مذہب سے وہی انسان وابستہ رہ سکتا ہے جو یا تو ابھی تک اپنے مقام انسانیت سے بے خیر ہے یا جس نے اس مقام کو پاکر پھرسے اسے کھودیا ہے مذہب مظلوموں کی سسکیاں ایک پتھر کی دنیا کاقلب او ران حالات کی روح ہے جن میں روحانیت کانام نہیں مذہب کے فنا میں حقیقیانسانی مسرت کا راز پنہاں ہے اخلاقیات مذہب ما بعد الطّبعیات اور دیگر تمام تصورات سب کے سب حقیقی آزادی کے دشمن ہیں ان کی کوئی تاریخ نہیں تاریخ صرف انسان کی ہے۔

اور وہ اپنی معرکہ آرا کتاب (CAPITAL) میں لکھتا ہے:۔

اخلاقیات ،مذہب،مابعد الطبّعیات اور اسی قسم کے دوسرے تصورات اپنا آزاد وجود کہیں نہیں رکھتے ۔ان کی نہ کوئی تاریخ ہے نہ نشوونما ۔بجز اس کے کہ انسان جب اپنے معاشی ذرائع کو نشوونمادیتا ہے تو اس حقیقت کے ساتھ ساتھ اپنے افکار و تخیلات کو بھی بدلتا رہتا ہے ( انہی کا نام مذہب و اخَلاقیات ہے ) شعور انسانی زندگی پر محاکمہ نہیں کرتا ۔انسانی زندگی شعور کاتعین کرتی ہے۔

اس فلسفہ کی خامیاں :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے مختصر الفاظ میں مارکس کافلسفہ۔ اگرآپ میں فلسفہ پر بنگاہ تعمق غور کریں گے تو یہ حقیقت اُبھرکرآپ کے سامنے آجائے گی کہ اس فلسفہ کی بنیادیں بڑی کمزورہیں یہی وجہ ہے کہ مغرب کے بیشتر مفکّرین کے نزدیک مارکس کاشمار فلاسفرزمیں ہوہی نہیں سکتا ۔اسے ان کے خیال کے مطابق زیادہ سے زیادہ ایک معاشی انقلاب پسندکی حیثیت دی جاسکتی ہے ۔اس فلسفہ کی بدیہی کمزوریاں واضح ہیں۔مثلاً:۔

(i)مارکسزم کی رو سے دنیا میں طبقاتی جنگ وپیکار یونہی ہنگامی طور پر جاری وساری نہیں بلکہ وہ ایک منظم مربوط اور منطقی صورت میں چلی آرہی ہے ۔ایک طبقہ پیدا ہوتاہے پھر اسی میں سے اس کی ضد پیدا ہوجاتی ہے ۔ان دونوں کی کشمکش سے ایک تیسرا طبقہ پیدا ہوتا ہے جو پہلے دو طبقات کے محاسن اپنے اندر لے لیتا ہے ۔اور ان کی خرابیاں پیچھے چھوڑ دیتاہے۔ پھر یہ طبقہ آئندہ جدل و پیکار کی پہلی کڑی بن جاتا ہے ۔ اس نظم وضبط کے ساتھ یہ سلسلہ برابر چلاآرہا ہے اور اس طرح انسان کامعاشی نظام اپنی ارتقائی منازل طے کرتا ایک مثالی نصیب العین کی طرف بڑھے جارہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے مربوط اور مرتّب نظم وضبط کے ساتھ کوئی تحریک چل نہیں سکتی تا وقتیکہ اس کے پیچھے کوئی بااختیار صاحب ارادہ قوت نہ ہو جو حوادث عالم کو اس طرح ایک شاہراہ پر چلاتی جائے لیکن مارکس کسی ایسی قوت کا قائل ہی نہیں جب اس سے پوچھئے کہ اس سلسلہ کے پیچھے قوت محڑکہ کون سی ہے تو اس کے جواب میں وہ کہتا ہے کہ یہ سب کچھ ‘‘ تاریخ کی قوّت’’ سے ہورہا ہے۔اب یہ ظاہر ہے کہ ‘‘ تاریخ کی قوت’’ ایک نہایت مبہم اصطلاح ہے۔تاریخ تو خود رفتار حوادث کانام ہے۔کبھی رفتار بھی اپنی قوت ااپ ہوسکتی ہے ؟ لہٰذا اس مقروضہ کی بنیادہی غلط ہے۔

(ii)مارکس کے فلسفہ کی رو سے طبقاتی نزاع کا یہ سلسلہ ‘‘تاریخ کی قوت‘‘ سے چلاآرہا ہے اور اسی طرح چلا جائے گا تاآنکہ یہ اس منزل تک نہ پہنچ جائے جہاں طبقات کی تفریق باقی نہ رہے اور ایک لاجماعتی معاشرہ (CLASSLESS SOCIETY) کاقیام عمل میں آجائے ۔یہ ایک اٹل تحریک ہے جو نہ کسی کے روکے رُک سکتی ہے نہ کسی کے چلائے چل سکتی ہے ۔اس سے ظاہر ہے کہ مارکس کے نزدیک اس تحریک کے چلانییاآگے بڑھانے میں انسانی قوت ارادہ وعمل کاکوئی دخل نہیں بلکہانسان‘‘تاریخ کی قوت’’ کے سامنے بے بساورمجبورہے، لہٰذامارکس کا یہ فلسفہ جبر کافلسفہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی مارکس اور اس کے متبعین مزدور طبقہ کو جگاتے اور اُکساتے ہیں کہ اٹھو اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں سے اقتدار چھین کر رزق کے سرچشموں پر خود قابض ہوجاؤ۔اب سوال یہ ہے کہ جب یہ انقلاب تاریخ کی قوت سے خو دبخود وعمل میں آکر رہے گاتو اس کے قیام کے لئے اس قدر چیخ وپکار اور ایسی جدّوجہد کی ضرورت کیا ہے؟ ‘‘تاریخ کی قوت’’ اپنے پروگرام کے مطابق یہ سب کچھ خود بخودکردے گی۔اس میں انسانی ارادہ اور عمل کا تو کوئی دخل ہی نہیں یہ وہ سوال تھا جس نے خود مارکس کوبھی پریشان کررکھا تھا ۔چنانچہ اس باب میں ا کے ہاں متضاد نظریئے ملتے ہیں ۔وہ کہیں تو یہ کہتا ہے کہ انسان کے اعمال و افعال ،مادی پیداوار پر فیصلہ کن اثر کرتے ہیں ‘‘ او ر کہیں یہ کہ ’’ انسان اپنی تاریخ آپ بناتا ہے لیکن جن احوالوکوائف سے وہ اس تاریخ کو بناتا ہے ان کے انتخاب میں اس کے ارادہ کو کوئی دخل نہیں ہوتابلکہ صرف انہی کوائف سے بناتا ہے جو خود بخوداس کے سامنے موجود ہوتے ہیں۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ مارکس کے فلسفہ کی رو سے انسان مجبورمحض رہ جاتا ہے لیکن اگرانسان مجبور ہے تو پھر اشترا کی انقلاب کے داعیان کے لئے بڑی مشکل کاسامناہوجاتا ہے ۔ وہ لوگوں کو اس انقلاب کے لئے اُبھارہی نہیں سکتے۔ اس لئے انہیں لامحالہ انسان کو بااختیار ماننا پڑتا ہے۔ مارکس کا فلسفہ اپنے اس اندرونی تضاد کاکوئی حل پیش نہیں کرسکا۔

(iii)اور آگے بڑھئے مارکس کے فلسفہ کی رو سے جدل مادیت کا یہ سلسلہ جنگ وپیکار جاری رہے گاتاآنکہ لاجماعتی معاشرہ کا قیام عمل میں آجائے ۔ظاہر ہے کہ جب انسانی معاشرہ میں طبقات کی تفریق باقی نہ رہے گی تو پھر نہ یہ نزاع باقی رہے گی او رنہ ہی اس نزاع پر متفرع سلسلہ ارتقاء اب سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟ مارکس کے فلسفہ کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ دنیا میں کوئی شے ایک حالت پر نہیں رہ سکتی ہر شے میں پیہم او رمسلسل تغیر واقع ہورہا ہے ۔تو ظاہر ہے کہ معاشرہ کی دو لاجماعتی حالت جس پر موجودہ سلسلہ جنگ و جدل منتج ہوگا؟ جامد نہیں رہ سکتی اس میں بھی تغیر واقع ہوگااور ضرور ہوگا(مارکس کافلسفہ یہی کہتا ہے) مارکس خود کہتا ہے کہ ‘‘ اس وقت سابقہ تاریخ کا خاتمہ ہوجائے گا اورنئی تاریخ کی ابتداء ہوگی ؟ اس باب میں :

مارکسزم کے متبعین کا جواب یہ ہے کہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ تغیر کسی قسم کا ہوگا؟ ممکن ہے کہ اس وقت طبقاتی تفریق کو چھوڑ کر کسی اور بنیاد پر انسانی نزاع شروع ہوجائے لیکن اس کے متعلق ہم کچھ نہیں جانتے۔

(THE MEANING OF MARXISM BY C.D. COLE: p. 275)

اوسپنسکی مادی نظریہ حیات پر تنقید کرتاہوالکھتاہے:۔

ہاں ، اچھا !! آخرلامر ہر ایک انسان کو اچھی سے اچھی روٹی مل جائے گی اور اس کی نگہداشت کے سامان بھی موجود ہوں گے لیکن اس کے بعدپھر کیا؟ ہم فرض کئے لیتے ہیں اگرچہ ایسا فرض کرنا ناممکنات میں سے ہے کہ مادی کلچر انسان کو ایک قابل رشک مادی زندگی عطا کردیتا ہے۔مادی تہذیب پر بہار آجاتی ہے۔

لیکن اس کے بعد پھرکیا ؟

کیا اس کے بعد انسان زمین میں آرپار سوراخ کرنے میں مصروف ہوجائیں گے ؟ لیکن اس کا کچھ مطلب؟

(TERTIUM ORGANUM: P. 278-279)

بعینہ یہی تنقید مارکسزم کی رو سے ‘‘لاجماعتی معاشرہ’’ پر منطبق ہوتی ہے۔ موجودہ کش مکش کی انتہا ایک جماعتی معاشرہ لیکن اس کے بعد پھر کیا؟ عام مادیت تو کہہ سکتی ہے کہ اس کے بعد جمود یعنی جب انسان ایسا معاشرہ قائم کرلے جس میں تمام افراد مرفہ الحال ہوں تو یہ معاشرہ علی حالہ قائم رکھا جائے گا لیکن مارکسزم کی رو سے کوئی شے علیٰ حالہ قائم رہ ہی نہیں سکتی اسے آئندہ جدل کی نئی کڑی بننا ہے اس لئے اس مقام پر پہنچ کر مارکس ازم عجیب الجھن میں پھنس جاتی ہے جس سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں ملتی۔

تصریحات بالا سے آپ نے دیکھا ہوگا کہ فلسفہ مارکس ازم کی بنیادمیں ایسی کمزوریاں ہیں جن کی رو سے یہ کبھی محکم فلسفہ زندگی بن ہی نہیں سکتا۔ اصل یہ ہے کہ مارکس نے اپنے مارک نے اپنے مقصود کو فلسفیانہ رنگ دینے کی کوشش کی ہے اس کامقصود اس کے فلسفہ کا نتیجہ نہیں ہے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ غریبوں اور مزدوروں کی کس مپرسی کی حالت سے وہ اس درجہ متاثر ہوا کہ اس کے دل میں سرمایہ داری کے خلاف انتقام کے شعلے بھڑک اٹھے اس نے جب معاشرہ کی اس حالت پر غور کیا تو اسے محسوس ہوا کہ عیسائیت نے دوہزاربرس سے غریبوں اور کمزوروں کو آسمانی بادشاہت کے حسین خوابوں میں اس درجہ مست کر رکھا ہے کہ سرمایہ داروں کے لئے ان کی خون آشامی بڑی آسانی ہوگئی ہے۔

اس کی ذمّہ دار عیسائیت ہے:۔۔۔۔۔۔ اس سے اس کے دل میں عیسائیت کے خلاف جذبات نفرت و انتقام مشتعل ہوگئے۔دماغ اس نے پایا تھا فلسفانہ اور متاثرتھا ہیگل کے فلسفہ اضداد سے اس نے اپنے ان احساسات و تاثرات کو جذباتی رنگ کے بجائے فلسفانہ اندازمیں پیش کرنے کی کوشش کی ۔حقیقت یہ ہے کہ مغرب میں مذہب کے خلاف جس قدر ردّ عمل پایا جاتاہے اس کے ذمہ داری عیسائیت ہے۔ وہ علم کی دشمن عقل کی دشمن ،ذوق جمالیات کی دشمن اور سب سے بڑھ کر غریبوں اور کمزوروں کی دشمن ہے ۔ وہ تو ہم پرستی سکھاتی ہے علم و عقل کی تضحیک کرتی ہے۔ دنیااور اس کی خوشگوار یوں سے متنفّر بناتی ہے اور غریبوں کو ان کی غریبی پر مبارک باد دیتی اور اس طرح عملاً نظام سرمایہ داری کے استحکام کا ‘‘ خداوندی انتظام کردیتی ہے۱؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ جو کچھ عیسائیت کے متعلق کہا گیاہے وہ خود مسلمانوں کے اس مذہب پر بھی صادق آتاہے جسے ملاّئیت پیش کرتی ہے۔ لیکن عیسائیت جو کچھ پیش کرتی ہے وہی اصل عیسائیت ہے۔ اس کے برعکس اسلام سے بالکل مختلف ہے جو کچھ ملاّپیش کرتاہے ۔لہٰذا مارکس نے جوکچھ مذہب کے خلاف کہا ہے وہ عیسائیت ،ملاّئیت، برقہجنیت پر تو صاد ق آتا ہے لیکن اسلام سے بہت بلند ہے(تفصیل اس کی اپنے مقام پر ملے گی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برفو (ROBERT BRIFFCULT) اس باب میں لکھتا ہے:۔

عیسائت کا جرم یہ ہے کہ اس نے اپنی ساری تاریخ ہمیشہ استبداد کا ساتھ دیا ہے اور اسے قوت ہم پہنچانے کاذریعہ بنی ہے ۔ سوائے اس حالات کے جہاں خود کلیسا کامفاد غریبوں کے مفاد کے ساتھ وابستہ ہوگیاتھا اس نے کبھی اپنا اثر وقوت کمزوروں کی آزادی اور مستبدقوتوں نے مظالم کی روک تھام میں صرف نہیں کیا۔ اس کے برعکس اس نے ہمیشہ جوروستم اور جبرواستبداد کی حمایت کی ہے۔

اس کے بعد برفوہسپانیہ کے پروافیسر (DR.FALTA DE.GRACIA) کے یہ الفاظ کرتاہے:۔

عیسائیت میں عدل کا تصور بھی اسی طرح نامانوس ہے جس طرح ذہنی دیانت کایہ اس کے تصور اخلاق سے یکسر باہر کی شے ہے ۔عیسائیت نے ان لوگوں سے توشفقت وہمدردی کا اظہار کیا ہے جن پر ظلم وستم ہوں۔ لیکن خود ظلم وستم سے ہمیشہ تسامح برتا ہے۔اس نے ان لوگوں کو جو ظلم و استبداد کے بوجھ کے نیچے دبے ہوئے ہوں جنہیں مصائب وشدائد کے ہجوم نے گھیر رکھا ہو، دعوت دی ہے اور انہیں آئین محبت کی تعلیم دی ہے ۔انہیں رحم و عفو کاسبق سکھایا ہے انہیں خدا کی ربوبیت کی یاددلائی ہے۔لیکن مذہب و اخلاق کے اس طوفان میں جس کے متعلق کہا جاتاہے کہ وہ اخَاقی ضوابط کی معراج کبریٰ ہے عام انصاف اورعام دیانت کے لئے کوئی جگہ نہیں مسیح مقدس جو رواستبداد کے ستائے ہوئے مظلوم انسانوں کے درمیان آسمان سے اترتا ہوا فرشتہ دکھائی دیتاہے جو ان کی طرف فار قلیط کاپیغام رحمت و شفقت پہنچاتا ہے لیکن اس جو رواستبداد کی علّت معلوم کرنااس کے دائرہ شعور سے باہر ہے ۔خیر وشر کا صحیح تصور اس کے حیطہ نگاہ سے خارج ہے ۔یہ ظلم وستم اس کے نزدیک خدا کی طرف سے گناہگار وں کے لئے ابتلا وآزمائش ہے نظام عالم کا خاصہ ہے اسی حکومت کا فیصلہ ہے جو دنیا میں خدا ئی حقوق کی بنا پر قائم ہے۔ سینٹونسنٹ فرانس کے اس قید خانہ کامعائنہ کرتاہے جو دنیا میں جتیا جاگتا جہنم ہے ۔ وہ وہاں محبت کاپیام عام کرتا ہے او ر گناہ گاروں کو توبہ کی تلقین کرتاہے لیکن وہ ظلم و استبداد جس پر اس جہنمکاقیام ہے اس کا اسے احساس تک نہیں ہوتا ۔ظالموں کے پنچہ ظلم و استبداد میں جکڑ ی ہوئی انسانیت کی چیخیں نکلتی ہیں ۔انسانو ں کی زندگیاں اور قلوب واذہان غلامی کی زنجیروں میں بندھے رہیں ۔ ان کی ہڈیاں چٹختی رہیں وہ مٹ جائیں ۔فنا ہوجائیں عیسائیت کی رو ح انہیں جاکر تسلی دے گی ۔ لیکن یہ اس کے حیط تصور میں بھی نہیں آئے گا کہ اس ظلم و ستم کو کس طرح سے مٹایاجائے جس کی وجہ سے انسانیت ان مصائب کاشکار ہورہی ہے ان چیزوں کااسے احسا س ہی نہ ہوگا ۔ان مظالم کے استیصال اور ان سے انسانوں کی نجات کی ذمّہ داری کی طرف سے یہ باکل آنکھ بند کئے رہے گی۔ عدل و انصاف او رحق و باطل کی طرف سے عیسائیت کی روح یکسر بے حس ہے۔یہ تصور اس کے نزدیک ایسا ہی اجنبی ہے جیسا صداقت کاتصور وہ ہمیشہ عفو،برداشت رحمدلی کاسبق پڑھاتی رہی لیکن عدل و انصاف کی اسے کبھی یاد نہ آئی ، زندگی او اس کی تمام خودداریوں کاترک۔۔۔ تدسیہ آرزو۔۔۔ عام مدافعت خاموش اطاعت ایک گال پر طمانچہ کھاکر دوسرا سامنے کردینا ۔ غرض کہ اس قسم کے متشدد(غیر فطری ضابطہ اخلاق کاطوفان عیسائیت کے شعور کو مشتعل کرسکتاتھا لیکن ظلم و استبداد او رجو روستم کے کسی منظر سے وہ متاثر نہیں ہوسکتی تھی۔’’ (THE MAKING OF HUMAMNITY: p. 322-33)

یہ ہے وہ عیسائیت جو یورپ کامذہب تھی، اگر مارکس اسے کمزوروں کے لئے ‘‘افیون’’نہ کہتا تو اور کیاکرتا! یہ تھا وہ مذہب جس کے خلاف ردّ عمل کانام مارکس کافلسفہ ہے۔چنانچہ لینن لکھتاہے :۔

سرمایہ داری کی غیر مرئی قوتوں نے ذہن انسانی میں ایک ڈر کی صورت پیدا کردی ہے جس سے ایک حاکم اعلیٰ کے تخیل کی بنیاد پڑی ۔اسے انسان نے خدا کے نام سے پکارنا شروع کردیا۔ سو جب تک خدا کا تخیل ذہن انسانی سے فنا نہ کردیاجائے یہ لعنت کسی طرح دورنہیں ہوسکتی۔

(C.F. HAMMER AND SICKLE-MARk PATRICK) ایک او رجگہ لکھتا ہے :۔

‘‘مذہب لوگوں کے لئے افیون ہے’’ اس لئے مارکس ازم کی رو سے دنیا کے تمام مذاہب اور کلیسا سرمایہ داری کے آلہ کار ہیں جن کے اوسط سے مزدور جماعت کے حقوق کو پاما ل کیاجاتاہے اور انہیں فریب دیا جاتا ہے لہٰذا نفس مذہب کے خلاف جنگ کرنا ہر اشتراکی کے لئے ضروری ہے تاآنکہ دنیا سے مذہب کا وجود ہی مٹ جائے۔

(LABOUR MONTHLY---DECEMBER 1926)

میکیاولی نے لکھاہے کہ حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ مذہب اور اخلاق کواپنی قوت کے استحکام کے لئے بطور ذرائع استعمال کریں۔ مارکس نے کہا کہ مذہب اور اخلاق کانام صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہئے کیونکہ ان ہی کے بل بوتے پر سرمایہ داری کانظام قائم رہتاہے چنانچہ لینن اپنی ایک تقریر میں نوجوانوں کو مخاطب کرکے کہتاہے کہ :۔

ہم ان تمام اخلاقی حدود وشرائع کی مذمّت کرتے ہیں جو کسی مافوق الفطرت عقیدہ کانتیجہ ہوں ہمارے خیال ہیں اخلاق کانظریہ ہمیشہ جماعت کے مفاد کی جنگ کے ماتحت ہوناچاہئے ۔ہر وہ حربہ جو قدم خاصبانہ نظام معاشرت کے خلاف او رمزدوروں کی تنظیم کی تائید میں استعمال کرناضروری سمجھا جائے عین اخلاق اشترکیئین کااخلاق و شریعت تو صرف اس قدر ہے کہ ڈکٹیٹر کی قوت وسطوت کااستحکام و استبقاء کس صورت سے ہوسکتا ہے اس کے خلاف جو کچھ ہے سب ناجائز ہے چنانچہ جماعتی مفاد کی خاطر جرائم کا ارتکاب دروغ بانی فریب وہی عین حق و صداقت ہے نہیں! بلکہ معاندین کے خلاف کذب و افتراء ہی بعض اوقات سب سے اہم حربے ہوتے ہیں۔

(GANDHI AND LENON: BY R.F. MILLER)

یہ فریب دہی اور دروغ دشمنوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ عند الضرورت خود اپنی جماعت کے افراد سے بھی انہی حربوں سے کام لیا جاسکتا ہے ۔چنانچہ (GALLANCZ) اپنی کتاب (OUR THREATENED VALUE) میں لکھتا ہے کہ (D.G. LUMKNZ) سے پوچھا گیا کہ کیا اشتراکی جماعت کے لیڈروں کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی جماعت کے افراد سے بھی کذب و فریب دہی سے کا م لیں؟ تو اس کے جواب میں اس نے کہا کہ :۔

اشتراکی اخلاق کی رو سے یہ فریضہ سب سے اہم ہے کہ اسے تسلیم کیا جائے کہ عندالضرورت بدیانتی او ربے ایمانی سے کام لیا جاسکتا ہے یہ سب سے بڑی قربابی تھی جس کاہم نے انقلاب نے مطالبہ کیا تھا۔

اب رہاطریق کارسو اس کے متعلق لینن اپنی کتاب (STATE AND REVOLUTION) میں لکھتا ہے کہ:۔

سرمایہ داری نظام حکومت کی جگہ اشتراکی حکومت کا برسر اقتدار آجانا تشدّد آمیز انقلاب کے بغیر ناممکن ہے۔

اسی کتاب میں‘ دوسری جگہ’ انجلز کے ایک مقالہ کا اقتباس دیتے ہوئے لینن لکھتا ہے :۔

انقلاب ایک ایساعمل ہے جس کی روسے آبادی کاایک حصہ دوسرے حصہ پر اپنا اختیار و تسلط قوت و استیلا ،فوک شمشیر ،گولیوں کی بوچھاڑ اور آتشیں گولوں کے دھماکوں سے زبردستی کراتا ہے ۔

ڈکٹیٹر شپ کے متعلق (STALIN) اپنی کتاب (LENINISM) میں خودلینن کے حوالہ سے لکھتا ہے کہ :۔

ڈاکٹیٹر ایسی مختار عام ہستی کانام ہے جس کا وجود قاطبتہً قوتوں کے ہجوم پر مبنی ہو ۔ ایسی مطلق العنان ہستی جو کسی قانون او رضابطہ کی پابند نہ ہو۔ آئینی نظام حکومت کاعلمبردار سن لیں او رخوب غور سے سن لیں کہ ڈکٹیٹر شپ کے معنی ہیں‘‘قوت’’ غیر محدود اور قاہرہ قوت جو جبرو اکراہ پر مبنی ہو اورجسے آئین دوستور اور قانون وشریعت سے کچھ سروکار نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 مارکس کامعاشی نظام:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے شروع میں لکھا تھا کہ مارکس کافلسفہ اشتراکیت ایک چیز ہے اور دوسری چیز ہے وہ معاشی نظام جس کے بنیادی خطوط مارکس نے متعین کئے اور جس پر آج کل روس میں تجربہ ہورہا ہے ۔مارکس نے اس معاشی نظام کی بنیادیں اپنے فلسفہ پر رکھی ہیں اس لئے یہ نظام اس فلسفہ ہی کا برگ وبار کہلاسکتا ہے ۔لیکن اگر کوئی چاہے تو اس معاشی نظام کو اس کے فلسفہ سے الگ بھی کرلیا جاسکتا ۔ یہ نظام کیا ہے اس کے متعلق مارکس لکھتا ہے :۔

سرمایہ داروں نے جو ظلم وتشدد برپا کررکھا ہے اس کاواحد علاج یہ ہے کہ دنیا سے جماعتی تفریق کو مٹادیا جائے عمرانی زندگی کے مصائب و آلام صرف جماعتی امتیاز ات کی بنا پر ہیں اور اس کا ازالہ مزدوروں کی جماعت کا برسر اقتدار آکر،عالمگیر یکسانیت ومساوات پیدا کرنا ۔۔۔ اس تحریک کامقصد یہ ہے کہ دنیا سے ذاتی ملکیت اور شخصی اور انفرادی حقوق کے خیال کوفنا کردیا جائے او راس طرح جس مزدوروں کی جماعت کو تسلط حاصل ہوجائے تو تدریجاً سرمایہ داروں کے تمام املاک و خزائن پر قبضہ کرلیا جائے۔۔۔یہ مقاصد صرف اس طرح حاول ہوسکتے ہیں کہ موجودہ نظام معاشرت کو مسلّح قوت کے ذریعہ تباہ و برباد کردیا جائے۔

یعنی سرمایہ داری اور غریبی کے امتیازات کو دور کرکے معاشی یکسانیت اور مساوات پیداکرنا اس میں کوئی کلام نہیں کہ وسائل پیدا وار (رزق کے سرچشموں ) کا افراد کی ملکیت میں دے دینا انسانیت کے خلاف سب سے بڑا جرم ہے۔ انسانی معاشرہ کی تمام ناہمواریاں (جسے قرآن فساد کی اصطلاح سے تعبیر کرتاہے) اس سے پیدا ہوتی ہیں اور فساد کا لازمی نتیجہ (قرآن کے الفاظ میں’’) ‘‘یَسفِکُ الدِّمَاء’’ خوں ریزی ہے ۔برگسان کے الفاظ میں ‘‘جنگ کی بنیاد ملکیت کا تصور ہے’’( THE TWO SOURCES: p. 273)وسائل پیداوار میں سب سے اہم مقام زمین کو حاصل ہے ،گالڈ کی تحقیق سے انسان کی ابتدائی قبائلی زندگی میں زمین فراد کی ملکیت میں نہیں ہوتی تھی۔

یہ خیال کہ زمین کسی فرد کی ملکیت ہوسکتی ہے ،ابتدائی ذہن میں انسانی قطعاً موجود نہیں یہ کہا جاتاہے کہ قدیم زبان میں‘‘ ملکیت’’ کے لئے کوئی لفظ ہی نہ تھا۔ وہ صرف ‘‘تعلق’’ کا لفظ جانتے تھے۔ ان کے نزدیک زمین افراد کی ملکیت میں نہیں ہوتی تھی بلکہ تمشع کے لئے ہوتی تھی جب کسی نے اس سے فائدہ اٹھایا وہ پھر قبیلہ کی ملکیت میں چلی گئی۔

(MAN,NATURE AND TIME: p. 153)

افلاطونی اشتراکیت:۔۔۔۔۔۔۔۔ہم دیکھ چکے ہیں کہ افلاطون نے جس مثالی مملکت کا تصور پیش کیا تھا اس میں افراد مملکت کو تین طبقات میں تقسیم کیا تھا سب سے نیچے مزدوروں کاطبقہ ان کے اوپر سپاہیوں کا

طبقہ ان کے اوپر سپاہیوں کاطبقہ اور سب سے اوپر محافظین مملکت (فلاسفرز) کاطبقہ ۔طبقہ محافظین کے متعلق نے قانون بنایا تھا کہ ان کی ذاتی ملکیت کچھ نہ ہوتا کہ وہ طمع او رلالچ کی لعنتوں سے پاک رہیں۔ ان کی ضروریات زندگی کی اہم رسانی مزدوروں کا طبقہ کرتارہے اور وہ بھی وسائل پیداوار کے مالک نہ ہوں۔ محافظین کے طبقہ کے متعلق تو اس نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ان میں عورتیں بھی مشترکہ ملکیت میں ہونی چاہئیں( جس طرح ایرانی مزوکیت میں تھا) ۔افلاطون کے نظریہ کی رو سے تمام بچے ملکیت کے بچے تصور ہوں گے اور سب کی تعلیم ایک جگہ اور ایک جیسی ہوگی کچھ عرصہ کے بعد امتحان ہوگا۔ اور طبقہ دوم و سوم کے وہ بچے جو ہر تدبرّ وذہانت کانمایاں ثبوت دیں محافظین کے بچوں میں شامل کردیئے جائیں گے ۔ یہ گروہ دوسرے گروہ سے الگ کرلیا جائے گا ۔ انہیں تدبیر مملکت کی تعلیم دی جائے گی ۔ اور دوسرے گروہ کو جسمانی تربیت دی جائے گی۔ ان میں سے پھر سپاہیوں اور مزدوروں کے طبقات کو الگ کردیا جائے گا۔ (واضح رہے کہ ماہرین فنون لطیفہ ، مصور ، شاعر، موسیقی نوازا فلاطون کی ریاست میں بار نہیں پاسکیں گے)۔ آپ نے دیکھ لیا کہ افلاطون کی ریاست میں اشتراکیت (COMMUNISM) کاابتدائی تصور موجود تھا۔ ارسطو نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ ‘‘اصل خرابی ملکیت سے نہیں پیدا ہوتی بلکہ ا س کی وجہ انسانی سرشت کی بدنہادی ہے۔’’ لیکن وہ یہ بھول گیا کہ انسان کے لئے فساد اورخرابیوں کے جس قدر زیادہ مواقع بہم پہنچا ئے جائیں گے اتنی ہی زیادہ خرابیاں اس سے سرزد ہوں گی یعنی آپ انسان کے لئے جس قسم کا معاشرہ قائم کریں گے اسی قسم کے اعمال ظہور میں آئیں گے۔ زمین پر افراد کی ملکیت برفو کے الفاظ میں ‘‘زمین ہی پر ملکیت نہیں رہتی بلکہ اس پر کام کرنے والے مزدور یا مزدوروں کی محنت سب پر ملکیت کے مترادف بن جاتی ہے۔’’( صفحہ 105 ) مارکس کے سامنے یہی سرمایہ دارانہ نظام تھا جس میں وسائل پیداوار افراد کی ملکیت میں ہوتے ہیں اور وہی مزدور وں کی محنت پر تصرف رکھتے ہیں ۔ اس نے اس کا علاج یہ سوچا کہ ایک ایسا معاشرہ قائم کردیا جائے جس میں معاشی مساوات ہو اور اس طرح سرمایہ دار و مزدور کی تفریق مٹ جائے اور چونکہ ایسامعاشرہ قائم نہیں ہوسکتا جب تک موجود ہ معاشرہ مٹایا نہ جاے اس لئے موجود دہ معاشرہ مقدم ہے۔ اس مقصد کو مسلح قوت اور آتشیں انقلاب کے ذریعہ حاصل کرناہوگا ۔چنانچہ لینن اپنی کتاب (STATE AND REVOLUTION) میں لکھتا ہے :۔

سرمایہ داری نظام حکومت کی جگہ اشتراکی حکومت کابرسراقتدار آجانا تشدد آمیز انقلاب کے بغیر ناممکن ہے۔

اسی کتاب میں دوسری جگہ ہےء۔

انقلاب ایک ایسا عمل ہے جس کی رو سے آبادی کاایک حصہ دوسرے حصہ پر اپنا اختیار و تسلط قوت و استیلاء نوک شمشیر گولبوں کی بوچھاڑ اور آتشیں لوگوں کے دھماکوں سے زبردستی کراتا ہے۔

ڈکٹیٹر شپ کے متعلق لکھتا ہے۔۔۔۔:۔

ڈکٹیٹرایسی مختار عام ہستی کا نام ہے جس کا وجود قاطبتہً قوتوں کے ہجوم پر مبنی ہو۔ اسی مطلق العنان ہستی جو کسی قانون او رکسی ضابطہ کی پابند نہ ہو۔ آئینی نظام حکومت کے علمبردار سن لیں او رخوب غور سے سن لیں کہ ڈاکٹیٹر شپ کے معنی ہیں‘‘قوت’’ غیر محدود اور قاہرہ قوت جو جبر داکراہ پر مبنی ہو اور جسے آئین ودستور اور قانو ن شریعت سے کچھ سروکار نہ ہو۔

لیکن کمیونزم کی رو سے ڈاکٹیٹر شپ کی حکومت بھی ایک عبوری چیز ہے ۔جب کمیونزم اپنی مکمل شکل میں نافذ ہوجائے گی تو اس وقت کسی شکل کی حکومت باقی نہیں رہے گی ۔لینن کے الفاظ میں :۔

کمیونزم کی رو سے کسی قسم کی مملکت کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی ۔۔۔ جب تک مملکت کا وجود باقی ہے آزادی حاصل نہیں ہوسکتی جب مکمل آزادی حاصل ہوجائے گی اس وقت مملکت کا وجود ختم ہوجائے گا۔

(STATE AND REVOLUTION)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کمیونزم ہمارے دور کا اہم ترین موضوع ہے جس کے موافق او ر مخالف اتنا کچھ لکھا گیا او رلکھا جارہا ہے کہ اس کا احاطہ ناممکن ہے ۔کمیونزم کے فلسفہ کی کمزوریوں کے متعلق پچھلے صفحات میں کچھ اشارات کئے جاچکے ہیں ،باقی رہا اس کامعاشی نظام سو اس کے متعلق دشواری یہ ہے کہ اس کی تائید میں بالواسطہ یا بلاواسطہ روس سے لٹریچر شائع ہوتا ہے او رچونکہ اشتراکیئین اپنے مسلک کی پرستش مذہبی جنون کے ساتھ کرتے ہیں اس لئے اس نظام کے مخالفین اس لٹریچر کی صداقت کے متعلق بدظن رہتے ہیں ۔دوسری طرف مخالفین چونکہ نظام سرمایہ داری کے مؤیدین ہوتے ہیں اس لئے ان کی مخالفت بھی ‘‘ مذہبی تعصب’’ کی حیثیت اختیار کرجاتی ہے۔ ابھی پچھلے دنو ں (1950ء) روسی نظام کے خلاف ایک کتاب THE GOD THAT FAILED کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس کے موئف پانچ چھ اہل قلم ہیں جو خود کمیونسٹ تھے لیکن اب کمیونزم سے ‘‘تائب’’ ہوئے ہیں۔ہرچند انہوں نے کوشش کی ہے کہ اس موضوع پر غیر جانبدارانہ (IMPARTILLY) بحث کی جائے لیکن بایں ہمہ اس میں بھی جانبداری کا رنگ نظر آرہا ہے ۔ بنا ء بریں اس نظام کی مخالفت میں جو کچھ لکھا گیا ہے ہم اسے یہاں پیش کرنا مفید مطلب نہیں سمجھتے ۔اس نظام کے متعلق ہم تفیصل سے اس وقت گفتگو کریں گے جب ہم ‘‘اسلام کامعاشی نظام’’ سامنے لائیں گے ۔اس وقت ہم صرف ایک نقطہ کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں جس کاتعلق اس نظام سے زیادہ اس فلسفہ سے ہے جس پر اس نظام کی عمارت استوار ہے۔

جذبہ محّرکہ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نظام اشتراکیت کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ ہر شخص سے اس کی استعداد کے مطابق کام لیا جائے اور اس کی ضروریات کے مطابق اسے معاوضہ دیا جائے ۔ایک شخص کے کام کی قیمت پانچ روپے ہے اور اس کی ضروریات سات روپے میں پوری ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ شخص اس نظام میں بہت خوش رہے گا لیکن ایک شخص کے کام کی قیمت سات روپے ہے او راس کی ضروریات دور وپے ہی میں پوری ہوجاتی ہیں،یہ دیکھتا ہے کہ اسے دن بھر محنت کرنی پڑتی ہے اور شام کو اس کی کمائی میں سے پانچ روپئے کسی او رکو دے دیئے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ شخص اس نظام میں کیوں رہے ؟ وہ کیوں نہ سات کے سات روپئے اپنی ِذات پر خرچ کرے یا اگر اسے دوروپے روز ہی خرچ کرنے ہیں تو وہ کیوں سارا دن محنت کرے وہ ایک دوگھنٹے کام کرے جس سے اسے دوروپے کی یافت ہوجائے اور باقی وقت آرام کرے۔

بالفاظ دیگر سوال یہ ہے کہ وہ کون ساجذبہ ہے جس کے ماتحت یہ شخص اس قدر ایثار کرتارہے اور اس میں اطمینان محسوس کرے۔

واضح رہے کہ وہ شخص (فلسفہ کمیونزم کی رو سے) نہ اخلاقیات کا قائل ہے نہ خدا پر ایمان رکھتا ہے، نہ اس کے نزدیک کوئی مستقل اقدار ہیں ،نہ مادیت سے ماوراء کوئی دنیا اس کے نزدیک ہر فرد کی زندگی اپنی اپنی ہے اور جسم کی پرورش انسانی زندگی کا منتہیٰ ۔اس سے زیادہ نہ انسانی زندگی کے کوئی اور تقاضے ہیں نہ ہی اس کے بعد آگے بڑھنے کاکوئی تصور ۔آپ موافق یا مخالف میلانات کو ایک طرف رکھ کر سو چئے کہ اس قسم کا تصور حیات رکھنے والے انسان کے لئے وہ کون سا جذبہ محِّرکہ (INCENTIVE) ہے جس کی رو سے وہ اپنی زندگی پیہم مشقّت میں گزار دے او راس محنت کاماحصل دوسروں کو دیتاچلا جائے! مقصد کے بغیر کیا ہے آپ کہیں گے کہ نوع انسانی سے ہمدردی انسان کافطری جذبہ ہے ۔اس کے تقاضے سے یہ ایثار عمل میں آئے گا ۔لیکن یہ مفروضہ ہی غلط ہے کہ نوع انسانی کی ہمدردی انسان کی فطرت کا تقاضا ہے ۔اگر یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہوتا تو دنیا میں نظام سرمایہ داری کا وجود ہی نہ ہوتا۔ اس کا تو وجود ہی اس کی دلیل ہے کہ انسان خود عرض واقع ہوا ہے۔ آپ کہیں گے کہ چلئے ! یہ تقاضا اس کی فطرت کانہ سہی لیکن اس میں پیدا تو کیا جاسکتا ہے ؟ لیکن سوال پھر یہی ہے کہ یہ تقاضا پیدا کس جذبے کے ماتحت کیا جاسکتاہے ؟ جوں جوں آپ اس مسئلہ پر غو ر کرتے جائیں گے اس نظام کی بنیادی کمزوری آپ پر بے نقاب ہوتی جائے گی۔ اس وقت جذبہ محرّکہ صرف سرمایہ داری کے خلاف منافرت اور جوش انتقام ہے ۔جب سرمایہ داری مٹ جائے گی تو یہ جذبہ محرّکہ بھی ختم ہوجائے گا سوچئے کہ اس کے بعد کس جذبہ کے ماتحت آپ انسان کو آمادہ کرسکیں گے کہ وہ پیداوار (PRODUCTION) کے لئے اپنی پوری استعداد صرف کردے جب کہ اس کی ذاتی ضروریات بہت کم محنت کرنے سے پوری ہوجاتی ہوں۔

پھر سوچئے کہ جب ایسا معاشرہ قائم ہوجائے گا جس میں ہر شخص کی ضروریات زندگی پوری ہوتی چلی جائیں گی تو اس کے بعد انسان کے سامنے مقصد حیات کیا رہ جائے گا ۔معاشرہ جو کام اس کے لئے تجویز کرے گا وہ اس کا کو ایک مشین کی طرح کردیا کرے گااور جو کچھ معاشرہ کی طرف سے اسے ملے گا اسے کھا کر زندہ رہے گا۔ بس یہ رہ جائے گی زندگی تانگے کے گھوڑے کی طرح۔صبح مالک نے گھاس دانہ کھلا کر تانگے میں جوت لیا وہ دن بھر لگام کے اشارے پر اِدھر اُدھر سے اِدھر تانگا کھینچتا رہا۔شام کو اپنے تھان پر آکر پھر گھاس کھالی اور سوگیا۔

ہمارامقصد یہ نہیں کہ معاشرہ کی ناہمواریاں تو باعث ننگ انسانیت ہیں ۔ ان کے دُور ہونے میں انانیت کی نشوونما کاراز پوشیدہ ہے۔ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ جس فلسفہ کی بنیادوں پر اس معاشی نظام کی عمارت قائم کی گئی ہے وہ فلسفہ اس قدر نامحکم اور خلاف حقیقت ہے کہ اس پر قائم کردہ نظام کبھی نہیں چل سکتا جیسا کہ پہلے کہا جاچکا ہے ، اس وقت یہ نظام فقط جذبہ انتقام اور منافرت کے زور سے چل رہا ہے ۔لیکن تخریبی جذبات کسی نظام کی محکم بنیاد نہیں بن سکتے ۔ یہ ہے اشتراکی نظام کی اصل خرابی اس میں ایک نو انسانوں کو مشین بنا دیا جاتاہے ( اور یہ ہر مادی فلسفہ زندگی کا خاصہّ ہے) اور اس مشین کو مستقل طور پر چلانے کے لئے اس میں کوئی قوت محّڑکہ نہیں ۔

جب اسلام کا عنوان سامنے آئے گا تو اس وقت آپ دیکھئے گا کہ وہ ان معاشی ناہمواریوں کا کیا علاج تحویز کرتاہے او رپھر اس نظام ربوبیت کو قائم رکھنے او رآگے بڑھانے کے لئے کون سی قوّتیں پیداکرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خلاصہ مبحث:۔۔۔۔۔۔۔ گزشتہ صفحات میں جو کچھ لکھا گیاہے اس سے آپ نے اندازہ لگالیا ہوگا کہ معیشت کا مسئلہ گزشتہ دواڑھائی ہزار سال میں مختلف مراحل سے گزرتا ہمارے دور میں اس مقام تک آپہنچا ہے جہاں دو متضاد معاشی نظام ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں ایک کا نام ہے نظام سرمایہ داری (CAPiTALISM) او راس کے مدّمقابل ہے نظام اشتراکیت (SOCIALISM) جو اپنی متشدّد شکل میں کمیونزم بن جاتی ہے۔نظام سرمایہ داری کی بنیاد اس نظریہ پر ہے کہ افراد کو ذاتی ملکیت کا غیر محدود حق حاصل ہے او ریہ ملکیت روزمرّہ کی اشیائے ضروریات تک ہی محدود نہیں بلکہ وسائل پیداوار (زمین وغیرہ) بھی سب اس میں شامل ہیں۔ افراد اس معاملہ میں آزاد ہیں کہ وہ (قیمت اداکرکے) جس چیز کو چاہیں اپنی ملکیت میں لے آئیں ۔پھر اس چیز سے جس طرح جی چاہے متمتع ہوں۔ جسے چاہیں اس سے فائدہ اٹھانے دیں جس پر چاہیں اس کے دروازے بند کردیں جوجی میں آئے بنائیں او رانہیں جن داموں چاہیں فروخت کریں۔ معاشرہ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ افراد کی اس آزادی میں کسی قسم کی مداخلت کرے، اس نظام کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ نظام عین فطرت انسانی کے مطابق ہے اس لئے مختلف اشیاء کو ‘‘میری’’ کہنا انسان کی فطرت کا بنیادی جذبہ ہے ۔اور ‘‘مبری اشیاء’’ ایک دوسرے سے بڑھ جانے (مسابقت) کا جذبہ اس کی تمام توانائیوں کا محّرک ۔لہٰذا حکومت کوکوئی حق نہیں کہ وہ انسانی فطرت کے ان جذبات کی تسکین میں خواہ مخواہ مزاحمت کرے۔ اسے صرف یہ دیکھنا چاہئے کہ مختلف سرمایہ دار حکومت کے عائد کردہ ٹیکسوں کو باقاعدہ ادا رکرتے ہیں یا نہیں ۔ اس کے بعد حکومت کا فریضہ یہ ہے کہ وہ ان معاہدات کی نگہداشت کرے جو سرمایہ دار او رمزدوروں کے درمیا (اُجرت وغیرہ کے معاملہ میں ) طے پاتے ہیں ۔حکومت کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ یہ معاہدے اس قسم کی شرائط پر مشتمل ہونے چاہئیں ۔ ان معاہدوں کا پس منظر یہ ہوتا ہے کہ پہلے مزدور وں کے لئے ایسے حالات پیدا کردیئے جاتے ہیں جن سے وہ فاقوں مرنے لگ جائیں۔ جب وہ بھوک سے تنگ آجائیں تو ان کے سامنے کا م کی شرائط رکھ دی جائیں۔ اس شرائط نامہ پر دستخط کرنے کو تراضی مابین (MUTUAL AGREEMEENT) کہا جاتا ہے۔ چونکہ (اشتراکیت کی رو کے عام ہوجانے کی وجہ سے) مزدوروں میں کچھ احساس پیدا ہورہا ہے جس کی وجہ سے وہ کبھی کبھی سرمایہ داری کے راستے میں کچھ مشکلات پید کردیتے ہیں اس لئے نظام سرمایہ داری کا اصول یہ ہے کہ مشین زیادہ سے زیادہ لگائیں جائیں تاکہ انہیں کم از کم انسانوں سے واسطہ پڑے چنانچہ اس ضمن میں ( ERIC GILL) اپنی مشہور کتاب ( MONEY AND MORALS) میں لکھتا ہے :۔

ہمیں کارخانوں میں انسانوں کی ضرورت نہیں مشینیں اس سے بہتر ہیں ۔ ان کی ایجاد سے انسانی محنت میں بڑی بچت ہوجاتی ہے ۔لہٰذا ہمیں مشین کونہیں، انسانوں کو ختم کرناچاہئے ۔یہ انسان جنہیں ہم دنیا سے مٹادینے کے خواہشمندہیں وہ انسان ہیں جوکارخانوں میں کام کرتے ہیں ۔نہ کہ وہ انسان جوگلی محلّوں میں بستے ہیں ۔یہ انسان تو ہمارے ساتھی ہیں۔ہمارے دست ہیں کیونکہ وہ ہمارا مال خریدتے ہیں۔آج کل سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ چیزوں کے پیداوار کرنے میں انسان محنت میں کس طرح زیادہ سے زیادہ بچت کی جائے اور اس کے برعکس ان چیزوں سے استعمال کرنے والوں کی تعدادمیں کس طرح زیادہ سے زیادہ اضافہ کیاجائے او ران کی خریدنے کی قوت کوبڑھایا جائے یہی ہمارا بنیادی مسئلہ ہے ،جڑبھی یہی ہے اور شاخ بھی یہی ہے۔

xxxxxxxxxxxxxx

آپ پہلے دیکھ چکے ہیں کہ ریکارڈ و نے کہا تھا کہاگر پیداوار زیادہ ہوجائے تو سرمایہ دار کا منافع کم رہ جاتا ہے ۔اس اصول پر آج کل کے نظام سرمایہ داری میں کس طرح عمل کیا جارہا ہے اس کااندازہ اس سے لگائیے کہ جب برازیل میں کافی زیادہ مقدار میں پیدا ہونے لگ گئی تو وہاں کے سرمایہ داروں نے مِل بیٹھ کر مشورہ کیا کہ اس زائد پیداوارکو کیا کیا جائے ۔انہوں نے سوچا کہ اسے زمین میں دفن کردیا جائے لیکن چالیس لاکھ بوریوں کو زمین میں دفن کرنے کیلئے کافی رقبہ درکار تھا۔اس پر سوچا گیا کہ اسے سمندر میں غرق کردیا جائے ۔چونکہ سبز پودے کاجلانابھی آسان نہیں ہوتا ، اس لئے اس کے لئے مٹی کے تیل کی ضرورت پڑی ۔چنانچہ اس پر تقریر دولاکھ پونڈ کاتیل صرف کیا گیا ۔ اور یہ کچھ انہیں ہرسال کرنا پڑتا ہے تاکہ کافی کی قیمت نہ گرجائے (INSIDE LATIN AMERICAL) اسی طرح ایک اور پول کی بندرگاہ سے ایک سال قریب دس لاکھ سنگترے سمندر میں بہادینے پڑے تاکہ رسد بڑھنے نہ پائے۱؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂(AN INTRODUCTION TO SOCIALISM BY MUKERJEE)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ہے وہ نظام ِ سرمایہ داری جس کے خلاف ،اشتراکیت کا ردّ عمل شروع ہوا اشتراکیت نے اس مسئلہ کا حل کیا سوچا؟ اس کے متعلق پچھلے صفحات میں تفصیل سے بیان کیا جاچکا ہے ۔نظام سرمایہ داری اوراشتراکیت کے تقابل میں کوئی دقت نہیں پیش ااسکتی ۔اسلئے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ لیکن ان میں جو قدرمشترک ہے وہ یہ ہے کہ ان دونوں کی بنیاد مادہ پرستی (MATERIALISM) پر ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں ، نظام سرمایہ داری کی بنیاد ہی فلسفہ مادیت پررکھی گئی تھی۔ اس میں کسی مستقل قدر کادخل ہی نہیں ۔ہر فردکااپنااپنا مفاد اورمختلف افراد میں تنازعہ للبقا (STRUGGLE FOR EXISTENCE) کے اندھے اصول کی بنائپر سابقت کی کشمکش بس یہ ہے اس نظام کا عروۃ الوثقیٰ۔دوسری طرف اشتراکیت ہے جو خدا کے وجود ہی کی قائل نہیں ۔لہٰذااس اعتبار سے یہ دونوں نظام ایک جیسے ہیں بلکہ نظام سرمایہ داری ، اشتراکیت سے بھی بدتر ہے۔ اس لئے اشتراکیت میں کھلے بندوں خدا کا انکار ہے لیکن سرمایہ داری کے نظام کی حامل وہ اقوام ہیں جو زبان سے خدا کا اقرار کرتی ہیں لیکن اپنے نظام میں اس کاکوئی عمل دخل نہیں سمجھتیں ۔لہٰذااس میں خدا سے عملاً انکار بھی ہے اور فریب دہی کا موقع بھی یہی وہ فریب دہی ہے جس کی بنا پر نظام سرمایہ داری تمام دنیا کے خدا پرستوں سے اپیل کرتاہے کہ وہ اشتراکیت کی مخالفت میں اس کاساتھ دیں دیکھنے والی آنکھیں دیکھتی ہیں کہ خدا سے نہ انہیں کچھ واسطہ ہے نہ انہیں ۔

یہ ہیں چکی کے دوپارٹ جن میں اس وقت انسانیت ،محض روٹی کے مسئلے کی خاطر بُری طرح پس رہی ہے۔ انسانیت کی تاریخ میں اس سے تاریک تر دور شاید ہی کبھی آیا ہو۔ اور انسان کا عجز ،فہم اور افلاس تدبّر بھی اس سے زیادہ بے نقاب شاید ہی کبھی ہوا ہو۔

عقل انسانی کی اس درجہ بے چارگی اور بے بسی ہی سے اب یہ توقع ہورہی ہے کہ انسانیت پھر پلٹالے گی اور یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گی کہ کیا عقل کے علاوہ کوئی او ر ذریعہ بھی ہے جن سے ان مصائب کا حل مل سکتا ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قرآن نے معاشی مسئلہ کاحل بھی بڑا آسان دیا ہے جیسا کہ ہم سابقہ (سیاسیات) میں دیکھ چکے ہیں ،قرآن کی رو سے مملکت کافریضہ یہ ہے کہ تمام افراد معاشرہ کی بنیادی ضروریات زندگی بہم پہنچائے اور ان کی مضمر صلاحیتوں کی نشو ونما کا سامان مہیا کرے ۔ظاہر ہے کہ مملکت اپنی اس عظیم ذمہ داری سے عہدہ برا ہو نہیں سکتی جب تک و سائل رزق اور زرائع پیداوار مملکت کی تحویل میں نہ ہوں ۔لہٰذاان وسائل اور ذرائع پر(فرد یا جماعت کی) مملکت کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

یہ ہے کہ جس قدر کوئی فرد کسی دوسرے کی پرورش کیلئے دیتاہے اسی نسبت سے اس کی ذات کی نشو ونما ہوتی ہے لہٰذا اسلامی معاشرے میں ہر فرد زیادہ سے زیاد ہ محنت کرتاہے اوراس کے ماحصل میں سے زیادہ سے زیادہ دوسروں کی پرورش کے لئے دے دیتا ہے تاکہ اس کی ذات کی نشو ونماہوتی جائے ۔تفصیل ان امور کی میری کتاب ‘‘نظام ربوبیت’’ میں دیکھئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Part: 1- 'What did the man think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Preface—Part 1 انسان نے کیا سوچا

Part: 2 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: First Chapter on Mechanical concept of life—part 2 انسان نے کیا سوچا: باب اوّل،میکانکی تصوّر حیات

Part: 3 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 3 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

Part: 4 – 'What Did The Man Think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 4 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

Part: 5 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 5 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

Part: 6 –  'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 6 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

Part: 7 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 3, Ethics — Part 7 انسان نے کیا سوچا : باب سوم، اخلاقیات

Part: 8 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 3, Ethics — Part 8 انسان نے کیا سوچا : باب سوم، اخلاقیات

Part: 9 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 4, Politics — Part 9 انسان نے کیا سوچا : باب چہارم، سیاسیات

Part: 10 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 4, Politics — Part 10 انسان نے کیا سوچا : باب چہارم، سیاسیات

Part: 11 –  'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 5, Economics — Part 11 انسان نے کیا سوچا : باب پنجم، معاشیات

URL: https://www.newageislam.com/books-documents/ghulam-ahmad-parwez-man-think-economics-part-12/d/130763

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..