New Age Islam
Tue Apr 22 2025, 02:53 PM

Books and Documents ( 26 Sept 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 5, Economics — Part 11 انسان نے کیا سوچا : باب پنجم، معاشیات

غلام احمد پرویز

دین آں پیغمبر ناحق شناس

برمساوات شکم دار واساس

تااخوت رامقام اندر دال است

بیخ اُودردِل نہ در آب وگل است

معاشیات

(ECONOMICS)

گذشتہ صفحات میں یہ حقیقت ہمار نظروں سے گذرچکی ہے کہ فکر انسانی نے مسائل زندگی کو سمجھنے او رسلجھانے کے لئے اس وقت تک کیا کچھ کیا ہے اور اس باب میں وہ کس حد تک کامیاب ہوا ہے۔ اس ضمن میں ہم نے طبیعیات ،مابعد الطبیعیات ،اخلاقیات اور سیاسیات کے گوشوں پر نگاہ ڈال لی ہے۔لیکن اب ہمارے سامنے ایک اورگوشہ آتاہے جس نے عصر حاضر میں ایک نمایاں اہمیت حاصل کرلی ہے۔ یہ گوشہ ہے معاشیات کا اس گوشہ کی اہمیت کااندازہ اس سے لگائے کہ ہمارے زمانہ کو کہا ہی معاشیات کازمانہ (AGE OF ECONOMICS) جاتاہے او ریہ اس لئے کہ آج زندگی سے متعلق ہر شے کو معاشی پیمانہ سے ناپا جاتا ہے ۔یہی وہ ‘‘مستقل قدر’’ ہے جسے آج ہر جگہ تسلیم کیا جاتاہے ۔ یہی وہ دیوتا ہے جس کی ہر مقام پر پرستش ہوتی ہے۔ افراد کی عزّت و تکریم کی میزان ہے تو یہی، اور اقوام کی قوت و اقتدار کا معیار ہے تو یہی سائنس، فلسفہ ، اخلاق، سیاست، سب اس سے متاثر بلکہ اس کے تابع ہیں ۔ہنری فورڈ کے الفاظ میں‘‘ جو کچھ معاشی طور پر حق ہے وہی اخلاقی طور پر بھی حق ہے’’۔ لہٰذا آج حق و باطل اور خیر و شر کے پرکھنے کی کسوٹی ہی یہی رہ گئی ہے۔

معاشیات کے لفظی معنی ہیں‘‘ روٹی سے متعلق مسائل’’۔ عَیش روٹی (یا گندم) کوکہتے ہیں ۔عیّاش کے معنی ہیں روٹی بیچنے والا ۔روٹی تو انسان کے ساتھ اس وقت سے لگی ہوئی ہے جب اس نے پہلے پہل آنکھ کھولی لیکن سوال یہ ہے کہ روٹی اس کے لئے ‘‘مسئلہ’’ ُ(PROBLEM) کب سے بن گئی ۔معاشیات اس مسئلہ تاریخ اور اس کے حل کی تدابیر کانام ہے۔ یعنی سامان زیست کی پیداوار اور تقسیم سے متعلق شعبہ علم۔

قدیم تاریخ :۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم تاریخ کے قدیم ترین ادوار میں دیکھتے ہیں کہ انسانوں کی آبادی زمین کے ان خطّوں میں ہوتی تھی جہاں آب وہوا گرم اور پانی کی افراط ہو اور ان طبعی اسباب کی وجہ سے پیدا وار بکثرت ہوجائے ،آبادی کم اور پیداوار زیادہ۔ لہٰذا اس زمانہ میں روٹی کامسئلہ پیدا ہی نہیں ہوتا تھا ۔ اس سے  ذرا آگے بڑھے تو بالادست قوموں نے کمزورقوموں کواپناغلام بنانا شروع کردیا۔یہ غلام ان کے لئے مزدوروں کا کام کرتے تھے اس لئے اس زمانہ میں مزدوری (LABOUR) بھی انسانی تمدّن کاکوئی مسئلہ نہ تھا۔ لہٰذاانسانی تاریخ کے ابتدائی ادوار میں معاشی اقدار پر غور وفکر کرنے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔چونکہ مزدوراور دستکار (اہل حرفہ) بالعموم غلام ہوتے تھے۔ اس لئے ان پیشوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتاتھا ۔زراعت کی  قدر ہوتی تھی قدیم یونانیوں کی طبقاتی تقسیم (جس کاتفصیلی ذکر ذرا آگے چل کر آتا ہے) اور ہندوؤں کی ورنوں (ذاتوں) کی تفریق اس حقیقت پر شاہد ہے ان میں شودر(مزدوراور دستکار) کامقام معاشرہ میں سب سے نیچے تھا۔

جہاں تک باہمی لین دین کاتعلق ہے،یہودیوں ۱؂ کے ہاں سود لینامنع تھا ۔لیکن صرف باہمی لین دین میں ۔اپنی قوم سے باہر اس کی ممانعت نہ تھی ۔قدیم ہندو سوسائٹی میں سود کی ممانعت نہ تھی او رمختلف اجناس میں اس کی شرح مختلف تھی۔ مثلاً سونے کے معاملہ میں سو فی صد اناج پر تین سوفیصدی اور اس کے علاوہ ہر اس چیز پر جو تول کربیچی جائے اصل قیمت کاآٹھ گناسودہوتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ ہم اس کتاب کی زیر نظر جلد میں صرف انسانی فکر کاذکر کررہے ہیں ،آسمانی وحی کانہیں ۔چونکہ یہودی وحی کی روشنی سے فیضیاب تھے اس لئے ان کے معاشی نظام کا یہاں ذکر نہیں کیا جاسکتا ۔سود کے ضمن میں یہودیوں کے متعلق ایک فقرہ بھی اس لئے لکھ دیا گیا ہے کہ یہ تعلیم (اپنوں سے سود نہ لیا جائے اور دوسروں سے لے لیا جائے ) وحی کی تعلیم نہیں تھی۔ ان کے خود ساختہ تھی یعنی انسانی ذہن کی پیداوار۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افلاطون کا معاشی تصور:۔۔۔۔۔۔۔۔ ان قدیم ادوار کے معاشی نظام کے متعلق اس قسم کے اشارات سے زیادہ حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔البتہ یونان کے معاشرہ کے متعلق اس سے زیادہ متعین گفتگو کی جاسکتی ہے ۔اس لئے کہ اس زمانہ کے  مفکّرین کی کتابیں ہمارے پاس موجود ہیں۔ ان میں سب سے پہلے ہمارے سامنے افلاطون (PLATO) آتاہے ۔یہ اپنی کتاب (REPUBLIC) میں لکھتا ہے کہ ‘‘جہاں تک میں دیکھ سکاہوں ‘ مملکت ’ نوع انسانی کی ضروریات کی وجہ سے وجود میں آتی ہے ۔دنیا میں کوئی فرد خود مکتفی نہیں ۔ہم میں سے ہر ایک کی مختلف اور متعدد ضروریات ہیں۔۔۔۔ضروریات کے اختلاف اور تنوع کے لئے ضروری ہے کہ ان کے بہم پہنچانے والے بھی متعدداو رمتنوع ہوں۔ ایک شخص اپنی ایک ضرورت کے لئے دوسرے کامحتاج ہوتاہے اور دوسری اپنی کسی ضرورت کے لئے تیسرے کا دست نگر، جب اس قسم کے تمام افراد ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور دوسرا اپنی کسی ضرورت کے لئے تیسرے کادست نگر ،جب اس قسم کے تمام افراد ایک جا جمع ہوجائیں تو اس کانام مملکت ہوجاتا ہے ۔ یہ تمام افراد مملکت ایک دوسرے سے اپنی اپنی چیزوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ او رایسا کرنے میں ہر ایک فرد سمجھتا ہے کہ اس تبادلہ میں اس کا اپنا دائدہ ہے’’۔ اس  کے بعد افلاطون لکھتا ہے کہ ‘‘ ہمیں اس حقیقت کوسمجھ لیناچاہئے کہ جب ایک شخص وہی کام کرے جس سے اسے فطرتاً مناسبت ہے اور اسے ٹھیک وقت کے مطابق ہے۔’’ اس اصول کے مطابق افلاطون نے اپنی مثالی ریاست میں معاشرہ کی مختلف طبقات میں تقسیم کیا تھا جن میں ایک طبقہ غلاموں کابھی تھا جن کے ذمّے مزدوری اور مختلف قسم کی دستکاریاں تھیں۔

جہاں تک ‘‘ملکیّت ’’ کاتعلق تھا، افلاطون کانظریہ یہ تھا کہ :۔

تم اپنے آپ کو اور اپنی املاک کواپنی ذاتی ملکیت مت تصور کرو ۔ یہ سب کچھ تمہارے خاندان کی مشترکہ ملکیت ہے۔ تمہارے موجودہ خاندان ہی کی نہیں بلکہ ماضی میں گذر ے ہوئے اور مستقبل میں آنے والے خاندان کی بھی۔

لیکن خاندان اور اس کی املاک بھی اس کی ذاتی ملکیت نہیں ۔ یہ سب مملکت کی ملکیت ہیں۔ لہٰذا میں جس اصول پر قانون وضع کروں گا وہ یہ ہے کہ کونسی چیزمملکت اور اس کے بعد خاندان کے اجتماعی مفاد کے حق میں جاتی ہے فرد کے احساسات ان دونوں کے تابع رہنے چائیں ۔

عملاً افلاطون کی اسکیم یہ تھی کہ ہر فرد کو زمین کا ایک ٹکڑا دے دیا جائے جومستقل طور پر اس کی تحویل میں رہے ۔یہ زمین اس کے مرنے کے بعد اس کے صرف ایک وارث کی طرف منتقل ہو۔عام طور پر بڑے بیٹے کی طرف اور اگر بیٹا نہ ہوتو داماد کی طرف یا جسے وہ اپنا متبنیٰ بنا لے ،حقیقت یہ ہے کہ (جیسا کہ آگے چل کر تفصیل سے بتایا جائے گا) ۔افلاطون کے پیش نظر ایک انتہائی درجہ کی کمیونزم (بلکہ مزوکیت) تھی جس میں املاک اور جائیداد کے علاوہ بیویاں او راولاد بھی سب کی مشترکہ تھیں۔ لیکن یہ کمیونزم صرف اوپر دوطبقات ،نگرانِ حکومت (مفکّرین ) اور محافظین (اہل شمشیر) تک محدود تھی۔ نیچے کے طبقوں کااس میں کوئی حصہ نہ تھا۔

افلاطون کہتا تھا کہ امارت اور غربت دونوں حالتوں میں آرٹ کا انحطاط ہوتا ہے۔ امیری میں اس لئے کہ کاریگر سہل نگار ہوجاتا ہے اور غریبی میں اس لئے کہ اس کے پاس ندرت کاری کے لئے سامان ہی موجود نہیں ہوتا ۔ اس دلیل کی بناء پرافلاطون کانظریہ یہ تھا کہ قوم میں نہ تو دولت کی افراط ہونی چاہئے امر نہ ہی افلاس۔

ارسطو:۔۔۔۔۔۔۔مملکت کا جو تصور افلاطون نے پیش کیا تھا۔ ارسطو بھی اس کی تائید کرتاہے۔ وہ بھی مملکت کو فرد اور خاندان دونوں پر فائق قرار دیتاہے ۔ وہ کہتاہے کہ مملکت کل ہے اور افراد اور خاندان اس کُل کے اجزااور یہ ناممکن ہے کہ کل نہ رہے اور اجزاء باقی رہ جائیں (C.F. POLITICS) مملکت کے مقصد کے متعلق ارسطو لکھتا ہے کہ اس کافریضہ صرف یہی نہیں کہ وہ افراد مملکت کو سامان زندگی عطا کرے اس کا فریضہ یہ ہے کہ وہ ان زندگی کو حسین او ر خوشگوار بنائے۔( ایضاً)

جہاں تک کمیونزم کاتعلق ہے‘ارسطو’ افلاطون کے ساتھ پورے طور پر متفق نہیں ۔ وہ عورتوں اور بچوں کے اشتراک کا تو سرے سے مخالف ہے باقی رہی زمین’ سو اس کے متعلق وہ کہتا ہے کہ اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔ (1 ) زمین کے متعین رقبے مختلف افراد کو دے دیئے جائیں لیکن اس کی پیداوار کو تمام افراد کی ضروریات کے لئے یک جا جمع کرلیا جائے۔(2) زمین مشترکہ تحویل میں رہنے دی جائے اور اس پر کھیتی بھی مشترکہ ہو۔ لیکن اس کی پیداوار کومختلف افراد میں بانٹ دیا جائے ۔اور (3) زمین بھی سب کی مشترکہ رہے اور اس کی پیداوار بھی مشترکہ اس کے بعد وہ مشترکہ جائیداد کمیونزم کی خرابیوں کو گناتا ہے اور ذاتی ملکیت کی خوبیوں کو سراہتا ہے۔ آخر الامروہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ مشترکہ ملکیت میں کم از کم چیزیں رکھنی چاہئیں اور زیادہ سے زیادہ چیزیں افراد کی ذاتی مملکیت میں رہنی چاہئیں۔

قدر (VALUE) کے معاملہ میں ارسطو کانظریہ یہ ہے کہ تمام اشیاء کامبادلہ ایک متعین معیار کے مطابق ہوناچاہئے اور وہ معیار ہے انسان کی ضروریات جس چیز کی ضرورت (طلب) یعنی (DEMAND) زیادہ ہو اس کی قیمت بھی زیادہ ہونی چاہئے ۔اشیاء کے تبادلہ کے لئے وہ جنسی تبادلہ (BARTER SYSTEM) کے بجائے سکّوں (CURRENCY) کے ذریعہ تبادلہ کے زیادہ حق میں ہے لیکن سود کو ظلم قرار دیتا ہے۔زراعت او رمویشی پالنے کے کاموں کو وہ فطری پیشے قرار دیتاہے اور ان کی تعریف کرتاہے ۔ کیونکہ ان سے افراد معاشرہ کو سامان زیست حاصل ہوتا ہے ۔افلاس کے متعلق ارسطو کا نظریہ یہ تھا کہ اس سے جرائم اور بغاوت پیدا ہوتے ہیں۔

رومن تہذیب:۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تھا مختصر الفاظ یونانی مفکرین کانظریہ ،مملکت ، زمین اور زر کے متعلق یونانیوں کے بعد ہمارے سامنے رومیوں کی تہذیب آتی ہے۔ لیکن ان کے ہاں معاشیات پر زیادہ غور و فکر نہیں کیا گیا ۔غالباً اس لئے کہ ان کے ہاں دولت کی فراوانی اور غلاموں کی کثرت تھی اور چونکہ مفکّرین ، حاکم قوم سے متعلق ہوتے ہیں۔ اس لئے انہیں اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی کہ روٹی ‘‘ کے مسئلہ پر غور و خوض کریں۔ سود کو ان کے ہاں بھی معیوب سمجھا تھا ،چنانچہ(CICERO) نے (CATO) کویہ قو ل نقل کیا ہے کہ ‘‘ سود اور قتل ’’ ایک ہی چیز ہے ۔زراعت کی ان کے ہاں بھی تعریف کی جاتی تھی ۔ملکیت تمام انفرادی ہوتی تھی لیکن ‘‘فوجی خدمت کادرجہ سب سے اونچا تھا۔

یہ ہیں معاشیات کے متعلق زمانہ قدیم کے ارباب فکر کے مختلف نظریات جو ان کی تحریروں میں ادھر ادھر منتشرطورپر ملتے ہیں ۔ اس لئے کہ اس زمانہ میں معاشیات نے ایک ہی باقاعدہ شعبہ علم کی حیثیت اختیار ہی نہیں کی تھی ۔ اس نے ایک الگ شعبہ علم کی حیثیت یور پ میں سولہویں صدی عیسوی میں اختیار کی۔

مرکنٹلزم:۔۔۔۔۔۔۔۔ اس زمانے کا سب سے پہلا معاشی نظام جو ہمارے سامنے آتا ہے اسے عام طور پر (MERCHANTALISM) کہا جاتا ہے۔ یہ نظام اٹھارویں صدی کے آخر تک رائج رہا۔ اسے بحیثیت ایک معاشی نظریہ کے سب سے پہلے اٹلی کے ایک صاحب قلم(SERRA) نے 1603ء میں پیش کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لوتھر کی اصلاح کلیسا کے بعدیورپ میں(HUMANISM) کے فلسفہ کا دوردورہ تھا۔اس تحریک کامقصودیہ تھا کہ قومیت پرستی کی بنیادوں پر محکم حکومتوں کی بنیاد ڈالی جائے جن میں فرد کوزیادہ سے زیادہ آزادی حاصل ہو اور اس کے محنت اور دولت کے معامل میں حکومت کم از کم دخل دے۔ مرکنٹلزم اس نظریہ سے متاثر تھی اور اس کا مقصدبھی یہ تھا کہ معاشی ترقی کے ذریعہ مملکت کو زیادہ سے زیادہ طاقتور بنایا جائے جس کاسب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ممالک غیر کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تجارت کی جائے تاکہ ان کی دولت اپنے ملک میں آتی جائے اور یہ دولت اپنے ملک میں قیمتی دھاتوں (سونے ، چاندی وغیرہ ) شکل میں جمع رہے۔

جیسا کہ اوپر لکھا جاچکاہے ، اس معاشی نظام پر ‘‘ ہیومن ازم’’ کے فلسفہ کا بڑاثر تھا۔یہ فلسفہ انسان کی مادی ضروریات کو بڑی اہمیت دیتاہے ۔ اس کا تصور یہ ہے کہ ذاتی مفاد(SELF INTEREST ) کے علاوہ اور کوئی جذبہ نہیں جو انسان کو کسی کام پر آمادہ کردے۔ لہٰذا مفادِ خویش اور کم ازکم ایثار ،وہ اصول ہیں جو انسانی زندگی کی راہ نمائی کرتے ہیں۔ چنانچہ (HOBBES) اس بارے میں لکھتا ہے کہ ‘‘ انسان جو کچھ کرتا ہے اپنے مفادکے لئے کرتا ہے ’’ اور (FORTREY) کہتا ہے کہ انسان کا جذبہ محّرکہاس کے مفاد ہوتے ہیں، نہ کوئی دلائل ۔ فائدے کی امید کشش ہے جس کامقابلہ کوئی اورچیز نہیں کرسکتی ’’۔ ہابزتو یہاں تک بھی کہہ گیا ہے کہ انسان کو حیوانات پر شرف ہی یہ حاصل ہے کہ اس کے ہاں ‘‘ذاتی ملکیت’’کا تصور ہے او ریہی وہ چیز ہے جو اس کے لئے فخر و مباہات کاموجب بنتی ہے اور جس کے لئے مختلف افراد میں باہمی مسابقت اور تکاثر کی جدّوجہد جاری رہتی ہے ۔تصریحات بالا سے آپ نے دیکھا ہوگا کہ یورپ میں جس معاشی نظام کی سب سے نمود ہوئی اس کی بنیاد یں مادّیت (MATERIALISM) پر تھیں یہی بنیادیں آہستہ آہستہ اس عمارت میں متشکل ہوئی گئیں جسے بعدمیں نظام سرمایہ پرستی (CAPITALISM) کہنے لگے یہ وہ نظام ہے جس میں ہر فرد کے سامنے اس کا اپنا مفاد ہوتا ہے ۔ چنانچہ اس جذبہ کے ماتحت مرکنٹلزم میں سود کی حمایت کی گئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فزیوکریسی:۔۔۔۔۔۔۔۔ اٹھارویں صدی کے وسط میں مرکنٹلزز کے خلاف شدید ردّ عمل شروع ہوا جسے فرانس کے مفکّرین کے ایک گروہ نے ایک متضاد معاشی نظام کی شکل میں پیش کیا ۔اس کا نام ہے ۔۔۔ (PHYSIOCRACY) جس کے معنی میں ‘‘فطرت کی حکمرانی ’’۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ انسان اگر قوانین فطرت کی اتباع کرے تو وہ اپنا بلند ترین مقام حاصل کرسکتا ہے ۔انہوں نے مرکنٹیلزز کے خلاف زراعت کو بنیادی حیثیت دی اور نیشنلزم کی جگہ انٹر نیشنلزم (بین الاقوامیت) کا تصور پیش کیا۔ ان مفکرین کو ان کے زمانے میں ( THE ECONOMISTS) کہا جاتا تھا۔ اس اعتبار سے اکنامکس کو ایک باقاعدہ سائنس کی حیثیت سے پیش کرنے کا سہرا انہی کے سر ہے۔

ان کا نظریہ یہ تھا کہ انسانوں کے معاشرتی نظام (SOCIAL ORDER) کی تشکیل انسانوں کا کام نہیں یہ اس خلاّقِ فطرت کا کام ہے جس نے کائنات میں طبعی نظام پیدا کررکھا ہے۔ ان کی عقیدہ یہ تھا کہ انسان اسی طرح قوانین فطرت کا پابند ہے۔ جس طرح طبعی قوانین کی پابندی سے فطرت کا توازن قائم ہے ۔جو معاشرہ قوانین فطرت کے مطابق متشکل ہوگا وہی انسانیت کی فوزد فلاح کا موجب ہوگا۔ فرد کے حقوق کے یہ بھی بڑے مؤیدّ تھے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ افراد کے باہمی تعاون پر بڑا زور دیتے تھے۔(QUESNAY) کے الفاظ میں ‘‘عدل سے مفہوم یہ ہے کہ انسان عقل کی روشنی میں فیصلہ کرے کہ اس کا کتنا حصہ ہے اور دوسرے کا کتنا’’ ۔ ان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ فرد کو حکومت کے حدود وضوابطہ کوجس قدر کم کیا جائے گا اسی قدراس کے معاملات آئین فطرت کے مطابق سر انجام پائیں گے ۔چنانچہ (LAISSEZ FAIRE) کا مشہور اصول انہی کا وضع کردہ ہے۔ اس کے معنی ہیں عدم مداخلت ۔اس اصول کی رو سے حکومت کا فریضہ اتنا رہ جاتاہے کہ وہ فرد کی جان آزادی او راملاک کی حفاظت کرے۔ اور اس کے بعد افراد کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرے۔ ذاتی ملکیت کو وہ آئین فطرت کے مطابق قرار دیتے تھے او راس کی سختی سے حمایت کرتے تھے۔ زراعت ان کے نزدیک سب سے معزّز کام تھا ( RICHARD CANTILLON) کے الفاظ میں ‘‘زمین وہ سرچشمہ ہے جس سے تمام دولت پید ہوتی ہے اور محنت وہ قوت ہے جو اس دولت کو زمین سے پیدا کرتی ہے۔’’

( ESSAY UPON THE NATURE OF COMMERCE IN GENERAL)

ظاہر ہے کہ اس اصول کے ماتحت ان کے نزدیک سوسائٹی میں کاشت کار کی حیثیت سب سے بنیادی ہوگی۔ چنانچہ ان کامشہور مقولہ ہے کہ ‘‘غریب کاشت کار ، غریب مملکت ،غریب شاہنشاہ’’۔

جہاں تک اس نظام کے فلسفہ کاتعلق ہے لاک (JOHN LOCKE 1632-1704) اس کا سب سے بڑ ا علمبردار ہے اور اس کے بعد سپنوز (SPINOZA 1632-1677)یہ مفکر قوانین فطرت کے سب سے بڑے مویدتھے۔ لیکن جہا ں تک ان کا معاشی کاتعلق ہے ان میں (ANNE ROBERT JACQUES TURGOT 1727-1781) کو ایک خاص مقام حاصل ہے اور اس کی کتاب (FORMATION AND DISTRIBUTION OF WEALTH) میں اس نظام کے بنیادی خط وخال کو بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے جس کاخلاصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے ۔

ترگاٹ کا نظریہ:۔۔۔۔۔۔ (1)اگر زمین کی تقسیم اس طرح ہو کہ ہر شخص کے پاس صرف اتنی زمین ہو جس سے اس کی اپنی ضروریات زندگی پوری ہوسکیں او راس سے زائد کچھ نہ بچے تو اسی سے ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں کوئی شخص کسی دوسرے کا کوئی کام کرنے پر آمادہ نہ ہوگا ۔ نہ ہی کسی کے پاس اپنی ضروریات سے زائد کچھ ہوگا جس سے وہ کسی دوسرے آدمی کو اُْجرت پر مزدوررکھ لے۔

(2) شروع ہی سے زمین کی تقسیم اس شکل میں ہونی چاہئے تھی لیکن ایسا ہوا نہیں ۔ہوا یہ ہے کہ جس نے جتنی زمین سنبھالی وہ اس کی ملکیت بن گئی ۔لیکن اگر زمین کی تقسیم مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق ہوتی بھی توبھی یہ صورت حالات زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکتی ۔ اس لئے کہ ہر شخص کی ضروریات اس کی اپنی زمین سے حاصل نہ ہوسکتیں ۔اگر وہ گیہوں بوتا تو کپڑوں سے محروم رہ جاتا اور اگر کپاس کی کاشت کرتا تو اسے روٹی نہ ملتی علاوہ بریں زمین جش شکل میں چیزوں کو پیدا کرتی ہے وہ اس شکل میں انسان کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتیں ۔ انسان کپاس کو جسم کے گرد نہیں لپیٹ سکتا ۔ اس کا کپڑابناناپڑتا ہے ۔اب ظاہر ہے کہ اگر یہ کاشت کار اپنی کپاس کاکپڑا بھی خود ہی بننے لگ جاتا تو اس کی زمین دھری کی دھری رہ جاتی ۔ اس وقت کے تحت معاشرہ کو تقسیم عمل کا طریقہ اختیار کرنا پڑا اور یہیں سے افراد معاشرہ مختلف گروہوں میں بٹ گئے ایک کاشتکار وں کا گروہ ایک صنعت وحرفت والوں کا گروہ ۔ایک گروہ ان کا جن کے پاس نہ زمین تھی او رنہ ہی وہ کوئی ییشہ جانتے تھے۔ ان کے پاس صرف اپنی جسمانی محنت تھی جسے وہ دسروں کو دے سکتے تھے۔ یہ مزدوروں کاطبقہ تھا۔

(3)اس نظام میں ہر چند مختلف افراد کی ضروریات ایک دوسرے سے وابستہ تھیں، لیکن یہ ظاہر ہے کہ ان میں کاشت کار کی حیثیت سب سے فائق تھی۔ مثلاً اگر موچی چوتا نہ بنائے تو اس سے کاشت کار کو کچھ کاشت کو کچھ دقّت تو ضرور ہوگی ۔لیکن اس کا کام نہیں رکے گا ۔لیکن اگر کاشت کار غلّہ پیدا کرنا بند کردے تو سارے معاشرے کے کاروبار ختم ہوجائیں ۔نہ کسی کوکھانے کوملے نہ زندگی کی گاڑی آگے چلے۔ علاوہ بریں کاشت کار کے علاوہوہ جس قدر پیشے بھی ہیں ان میں محنت کے معاوضے کا تصفیہ فریقین کی رضامندی سے ہوتا ہے اوراس کا انحصار خرید نے او بیچنے والے کی ضرورت پر ہے۔ اگر خرید نے والے کی ضرورت ،بیچنے والے کی ضرورت سے زیادہ ہے تو چیز کی قیمت زیادہ ہوگی لیکن اگر بیچنے والے کی ضرورت زیادہ ہے تو اس محنت کا معاوضہ کم ہوگا۔ کاشتکار کی پوزیشن ان سب سے مختلف ہے۔فطرت اس کے ساتھ سودا بازی نہیں کرتی وہ اس کی محنت کا پورا پورا معاوضہ دے دیتی ہے وہ کبھی ایسا نہیں کرتی کہ اگر کاشت کار کی ضرورت زیادہ ہے تو اس کی محنت میں سے کچھ دبالے اور غلّہ کم اگائے اور اگر اس کی ضرورت ایسی سخت نہیں تو پھر فصل زیادہ اُگے زمین ہمیشہ اسے اس کی محنت سے زیادہ معاوضہ دیتی ہے او ریہی فاضلہ پیداوار ہے (یعنی اس کی ضروریات سے زیادہ پیداوار) جس سے تمام معاشرہ کا کاروبار چلتا ہے۔

بناء بریں ملک کی حقیقی کا پیداکرنے والا کاشت کار ہے۔

(4)لیکن یہاں تک تو ان کا شت کاروں کا ذکر ہے جو اپنی زمین کی کاشت آٖپ کرتے ہیں ۔جیسا کہ شروع میں کہا گیا ہے زمین کی تقسیم اس طرح نہیں ہوئی کہ ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق ہی زمین ملے مختلف اسباب کی بنا پر مختلف لوگوں نے اپنی ضروریات سے زیادہ زمینیں سنبھال لیں او ران سے پیداوار اتنی زیادہ ہوئی کہ ان کی تمام ضروریات پوری ہونے کے بعد بھی ان کے پاس کچھ نہ کچھ بچ رہا ۔ اس فاضلہ دولت سے انہوں نے محنت کرنے والے طبقہ کی محنت خریدی اور ان سے اپنی زمین کاشت کروانا شروع کردی۔ اس سے زمین کی ملکیت کا تصور پیدا ہوگیا۔ یعنی زمین کامالک وہ قرار پاگیا جس نے مزدور کواُْجرت پر ملازم رکھاتھا۔

(5) ایسا ہوا کہ بعض ناگہانی حادثات کی وجہ سے زمین کے مالک کو نقصان ہوگیا اس نے اسے پورا کرنے کے لئے اپنی زمین کاکچھ حصہ کسی دوسرے کی طرف منتقل کردیا اور اس سے معاوضہ لے لیا۔ اس طرح زمین بھی خرید وفروخت کی چیز قرار پاگئی ۔حالانکہ فطرت نے اسے اس مقصد کیلئے پیدا ہی نہیں کیا تھا۔

اس طرح معاشرہ میں تین طبقے پیدا ہوگئے ۔ایک طبقہ کاشت کاروں کا جو زمین سے دولت پیدا کرتے تھے ۔ایک صنعت و حرفت والوں کا جوزمین کی پیداوار کے معاـوضہ میں ضروریات کی چیزیں بہم پہنچاتے تھے اور تیسرا طبقہ زمین کے مالکوں کا اس طبقہ کو کام کچھ نہیں کرنا پڑتا تھا کیونکہ ان کی ضروریات حق مالکانہ کے عوض کاشت کار بہم پہنچاتے تھے۔

بیکاروں کا یہ طبقہ تھا جس نے معاشرے کے انتظامیہ امور سنبھال لئے ۔یعنی ایسے امور جن پر خرچ ہی خرچ ہو۔ پیداان سے کچھ نہ ہو۔( مثلاً حکومت کا نظم ونسق ،فوجی خدمات وغیرہ) ان میں سے جو کام ان کی حسب پسند ہوتے انہیں تو یہ خود کرتے اور جو خوشگوار نہ ہوتے، ان کے لئے یہ دوسرے لوگ مہیا کرلیتے جو ان کی جگہ اُجرت کا کام کرتے۔ مثلاً فوج کے سپاہی وغیرہ۔ اگر یہ براہ راست ایسے لوگوں کو مہیا نہ کرتے تو نظام حکومت کو نقد روپیہ دے دیتے ۔جس سے اس قسم کے لوگ ملازم رکھ لئے جاتے۔ اس کا نام ‘‘حکومت کی ؂آمدنی ’’ تھا۔

(6)ان حالات میں معاشرہ تین طبقوں میں تقسیم ہوجاتاہے ۔طبقہ اوّل کاشت کاروں کا طبقہ یہ محنت کرتاہے اور اپنی محنت سے کہیں زیادہ پیدا کرکے معاشرہ کے حوالہ کرتاہے۔ اس میں اسے تو صرف اس کی محنت کامعاوضہ ملتا ہے اور باقی سب کچھ زمین کامالک لے جاتا ہے یہ دوسرا طبقہ ہے جو محنت کچھ نہیں کرتا اور پیدا وار کازیادہ سے زیادہ حصہ سنبھال لیتاہے کاشت کار کی ضرورت فطری ہے۔یعنی فطرت کو کاشت کار کی ضرورت ہے اس لئے فطرت محنت کے بغیر زمین سے پیدا نہیں کرتی ۔زمین کے مالک کو بھی کاشتکار کی ضرورت ہے کیونکہ اس کی محنت کے بغیر اسے کچھ نہیں مل سکتا ۔لیکن مالکان زمین کاطبقہ بالکل غیر فطری ہے۔ ان کی نہ تو فطرت کو ضرورت ہے او رنہ ہی کاشت کاروں کو ۔تیسرا طبقہ صنعت کاروں کاہے،یہ محنت کرتاہے اور اس کامعاوضہ معاشرے سے لے لیتاہے ۔معاشرہ کو کچھ پیدا کرکے نہیں دیتا صرف پیدا سے بنا کردیتاہے او اس کامعاوضہ معاشرے سے لے لیتاہے ۔معاشرہ کو کچھ پیدا کرکے نہیں دیتا صرف پیدا شدہ سے بناکر دیتاہے ۔اس لئے یہ طبقہ بھی زمین کے مالکوں کی طرح ‘‘بانجھ ’’ ہے یعنی جو پیدا کچھ نہیں کرتا۔ پیدا کرنے والاطبقہ صرو وہی ہے جو زمین پر محنت کرتاہے۔

(7)لیکن ابھی ایک اور‘‘ بانجھ طبقہ ’’ کاذکر باقی ہے۔

ہم دیکھ چکے ہیں کہ معاشرہ میں مختلف لوگوں کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں او ران کی یہ ضروریات اشیاء کے باہمی تبالہ سے پوری ہوتی ہیں۔ ایک شخص کے پاس تیل ہے او راسے گیہوں کی ضرورت ہے دوسرے کے پاس گیہوں ہے او ر اسے تیل کی ضرورت ہے ۔ان دونوں نے تیل اورگیہوں کا تبادلہ کرلیا اور دونوں کی ضرورت پوری گئی ۔لیکن فرض کہ گیہوں والے کوتیل کی ضرورت ہے لیکن تیل والے کو گیہوں کی ضرورت نہیں ۔ اس کے پاس گیہوں خود موجود ہے تو اس صورت می تبادلہ کی صورت کیا ہو؟ اس دشواری کے حل کے لئے زرمبادلہ کے وضع کرنے کی ضرورت پڑی ۔قدیم اقوام نے سوناچاندی جیسی کم یاب (اور اس لئے قیمتی )دھاتوں کو بطور معیار تبادلہ اختیار کیا اور اس طرح ‘‘روپیہ’’ کا وجود عمل میں آگیا ۔ یہ ایک ایسی جنس تھی جس سے سب کچھ خریدا جاسکتاتھا او رجو رکھے رہنے سے خراب بھی نہیں ہوسکتی تھی۔لہٰذا اس جمع شدہ دھاتوں کے ٹکڑوں نے مستقل سرمایہ کی شکل اختیار کرلی۔

کبھی ایسابھی ہوتاتھا کہ ایک صنعت کار کے پاس وہ خام مسالہ نہیں رہتا تھا جس سے وہ ضرورت کی چیزیں تیار کرسکے۔ اس مقصد کے لئے وہ کسی ہمسایہ سے دھاتوں کے یہ سکّے عارضی استعمال (USE) کے لئے لے لیتاتھا اور اپنا کام چلا کر انہیں واپس دے دیتاتھا۔ لیکن رفتہ رفتہ ان سکّوں کے مالکوں نے سوچا کہ انہیں یونہی مفت میں استعمال کے لئے کیوں دیا جائے؟ چنانچہ انہوں نے ان کے استعمال (USE) کامعاوضہ لینا شروع کردیا۔ اس کانام سودیا (USURY) تھا۔یعنی دھات کے ٹکڑوں کے عارضی استعمال کا معاوضہ ۔ یہ لوگ جو اس طرح دوسروں سے معاوضہ وصول کرتے تھے۔ تیسری قسم کے ‘‘بانجھ طبقہ’’ پیدا کرنے کے ذمہ دار تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ہے مختصرالفاظ (TURGOT) کا معاشی نظریہ اس سے آپ نے دیکھ لیا ہوگا کہ اس کے نزدیک انسان کی دولت کاسرچشمہ زمین ہے او ر اس دولت کا پیدا کرنے والا کاشت کار ساری دنیا کی مشینری اس پیداوار کے سرپر چلتی ہے جو کاشت کار کی ضرورت سے زیادہ زمین سے نکلتی ہے ۔یہ نظریہ (PHYSIOCRATS) کے تصور کی صحیح صحیح ترجمانی کرتاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ممکن ہے(PHYSIOCRATS) کایہ معاشی نظریہ اور زیادہ پھیلتا لیکن اس زمانہ میں سکاٹ لینڈ میں ایک ایسا معاشی مفکّر پیدا ہوا جو ان تمام مفکّرین پرچھا گیا ۔ اس کا نام ہے۔

آدم سمتھ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ADAM SMITH 1723-1790) جس کی کتاب (THE WEALTH OF NATIONS) کے متعلق اس وقت تک تسلیم کیا جاتا ہے کہ معاشیات پر اس سے زیادہ اہم کتاب او رکوئی نہیں لکھی گئی۔ اس کتاب کے لکھنے سے پہلے ،سمتھ کچھ عرصہ فرانس میں رہا اور (PHYSIOCRATS) بالخصوص (DAVID HUME) سے کافی متاثر ہواخود ہیوم نے بھی اس کی کتاب کا بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا تھا۔ اس کتاب کے پانچ ایڈیشن سمتھ کی زندگی میں شائع ہوچکے تھے ۔ اس کے بعد یورپ کی قریب قریب ہر زبان میں اس کتاب کے تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ کتاب نظام سرمایہ داری (CAPITALIST SYSTEM) کی بائبل ہے۔ سمتھ کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ دولت کی اصل محنت (LABOUR) ہے۔لہٰذا دولت کاسرچشمہ زمین نہیں صنعت کاری (INDUSTRIAL SYSTEM) ہے۔یہی وہ تخم تھا جس سے مغرب کے کارخانہ داری نظام کا درخت اُگا او ررفتہ رفتہ ساری دنیا پر چھا گیا۔ یہ نظریہ بنیادی طور پر (PHYSIOCRACY) سے مختلف تھا۔

کارخانہ داری نظام:۔۔۔۔۔۔۔ سمتھ کاکہنا ہے کہ تمام حیوانات میں انسان ہی وہ ہے جواپنی ضروریات کی چیزوں کاایک دوسرے سے تبادلہ رکرتا ہے۔ لہٰذا جو قوم ایسی چیزیں تیار کرے جن سے دوسرے انسانوں کی ضروریات بڑھتی جائیں۔ ا س قوم کے پاس دوسروں کی دولت زیادہ سے زیادہ کھینچی چلی آئے گی ۔ یہ سود کو جائز قرار دیتاہے البتہ اس کی شرح کے متعلق لکھتاہے کہ اسے حکومت کو مقرر کرناچاہئے ۔چوبنکہ یہ انفرادی مفاد کا حامی ہے اس لئے پرائیویٹ پراپرٹی (ذاتی ملکیت) پر کسی قسم کی پابندی عائد کرنے کے حق میں نہیں او ران امور میں حکومت کو دخل اندازی کا اختیار نہیں دیتا ۔صرف مالک اور مزدور کے جھگڑوں میں حکومت کی مداخلت ضروری سمجھتا ہے سمتھ کا نظریہ عقیدہ اور نظام خالصتہً مادہ پرستانہ (MATERIALISTIC) ہے۔ اس کے سامنے کوئی اخلاقی تصور نہیں ۔نہ ہی زندگی کاکوئی بلند مقصد وہ اس خطرے کو محسوس کرتاہے کہ اس کے نظام میں متضاد مفاد کا تصاد ہوگا لیکن وہ یہ کہہ کر اپنے آپ کو اطمینان دے لیتا ہے کہ سرمایہ دار طبقہ کا مغادِ خویش اس مسئلہ کا حل خود دریافت کرلیا کرے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سمتھ کے متبعین :۔۔۔۔۔اگرچہ سمتھ نے اپنے معاشی نظریہ کاکوئی خاص نام نہیں رکھا لیکن اس کا اثر اس قدر گہرا اور وسیع تھا کہ (SMITHIANISM) خود بخود ایک معاشی نظام کی حیثیت سے معروف ہوگیا۔ جو معاشی مفکرین اس سے زیادہ متاثر ہوئے ان میں بینتھیم (JEREMY BENTHAM) مالتھوس (THOMAS ROBERT MALTHUS 1766-1834) اور ریکارڈو (DAVID RICARDO 1772-1823) زیادہ مشہور ہیں ۔

بینتھم:۔۔۔۔۔۔۔۔ بینتھم اپنے اصول افادیت (PRINCIPLE OF UTILITY) کے لئے مشہور ہے ۔ہم ‘‘اخلاقیات’’ کے باب میں دیکھ چکے ہیں کہ افادیت کے نظریہ کی رو سے انسان کے عمل کا جذبہ محرکہ صرف حصول لذّت اوردفع کرب ہے۔ یہ نظریہ درحقیقت (HEDONISM) پر مبنی ہے۔ اس نظریہ کی رو سے بینتھم کہتا ہے کہ انسان کی خوشی کامعیار اس کی دولت ہے اورہر فرد کی اپنی خوشی اور مسرت زندگی کامقصود ہے۔ملّت محض ایک فرضی نام ہے، اصل حیثیت افراد ہی کی ہے ، افراد کی خوشی کے مجموعہ کانام ملّت کی خوشی ہے۔لہٰذا جس معاشرہ میں زیادہ سے زیادہ افراد کے پاس زیادہ سے زیادہ دولت ہوگی اس معاشرہ کو کامیاب معاشرہ کہا جاسکے گا۔ چونکہ اس نظریہ کی رو سے فرد میں سب کچھ ہے اس لئے وہ حکومت کا فریضہ صرف اس قدر سمجھتا ہے کہ وہ افراد کے معاملات میں دخل انداز نہ ہو۔ افراد حصول مفاد میں جس قدر باہمی مقابلہ کرناچاہیں کریں۔ جس قدر دولت سمیٹناچاہیں ،سمیٹیں ،حتیٰ کہ وہ اس باب میں سمتھ سے بھی ایک قدم آگے جاتاہے او رکہتا ہے کہ حکومت کو اس کابھی اختیار نہیں ہوناچاہئے کہ وہ سود کی شرح متعین کریہ۔ یہ بھی فرد کی خوشی کے راستے میں مز احمت پیدا کرنے کے مترادف ہے ۔ بینتھم نے (PHYSIOCRATS) کے ‘‘فلسفہ فطرت’’ کو سمتھ سے بھی زیادہ نقصان پہنچایا اور انسانی نگاہ کو فرد کی ذاتی اور یکسر مادّی مسرتوں پر مرکوز کردیا۔ یہی اس کا بڑا ‘‘کارنامہ’’ ہے جس کے لئے اس کاشمار مغرب کے مشاہیرمیں ہوتاہے۔

مالتھوس:۔۔۔۔۔۔۔ بینتھم کے بعد ہمارے سامنے مالتھوس (MALTHUS) آتا ہے جواپنے ‘‘اصول آبادی’’ (PRINCIPLE OF POPULATION) کے لئے مشہور ہے۔ انسانی آبادی کااس تیزی سے بڑھتے جانا ،وہ خطرہ ہے ج ومالتھوس کے اعصاب پربُری طرح سوار ہے ۔وہ کہتاہے کہ جس رفتار سے دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے زمین کی پیداوار اس نسبت سے نہیں بڑھتی رہی ،نہ ہی زمین میں اس کی استطاعت ہے کہ وہ اتنی بڑھی ہوئی آبادی کاپیٹ پال سکے۔ لہٰذا اگر یہ صورت حالات اسی طرح رہی تو (مالتھوس کے نزدیک) وہ دن دور نہیں جب نوع انسانی کا درخت خود اپنے پھلوں کے بوجھ سے گر کر ٹوٹ جائے گا اور انسانیت تباہ ہوجائے گی۔ اس کے نزدیک اس کا علاج بھی کچھ نہیں۔ اس لئے کہ انسان میں جنسیاتی کشش کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا اور جب تک یہ کشش موجود ہے آبادی کاسلسلہ رک نہیں سکتا۔

اس کی یہ کتاب 1898 ء میں بغیر اس کے نام کے (ANONYMOUSLY) شائع ہوئی اور تھوڑے ہی دنوں میں سارے ملک میں گرما گرم بحث کا موضوع بن گئی۔ اس کے خلاف اس قدر اعتراضات ہوئے کہ اس نے ان کے لئے جواب کے مختلف ممالک کا سفر کیا اور وہاں سے شادی ،اولاد، سامان زیست وغیرہ سے متعلق بہت سا مواد اکٹھا کیا۔ چنانچہ جب 1803 ء میں اس کتاب کادوسرا ایڈیشن شائع ہوا تو اس کا حجم پہلے ایڈیشن سے چار گنا زیادہ تھا ۔یہ ایڈیشن درحقیقت ایک بالکل نئی تصنیف کی حیثیت رکھتا تھا او راس دفعہ مالتھوس کانام بھی موجود تھا۔

مالتھو س کہتاہے کہ نوع انسانی کو اس خطرہ عظیم سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ آبادی پر روک عائد کی جائے، اس کے لئے دوقسم کے موانعات (CHECKS) تجویز کرتاہے ایک (PREVENTIVE) یعنی لوگ اس خطرہ کے پیش نظر از خود بطیت خاطر جنسی تعلقات سے رُک جائیں اور دوسرے (POSTIVIE CHECK) یعنی وہ حوادث جو قدرت کی طرف سے پیدا ہوتے رہتے ہیں مثلاً قحط زلزلے ،سیلاب وغیرہ یا وہ مصائب جو ہم اپنے اوپر آپ لے آتے ہیں ۔مثلاً جنگ وغیرہ ۔

مالتھوس کے نظریہ کے خلاف اس زمانہ میں بہت سے اعتراضات ہوتے تھے ۔ان معترضین میں (H.C. CAREY) خاص طور پر قابل ذکر ہے ۔اس نے اپنی مشہور کتاب (PRINIPLE OF SOCIAl SCIENCE) میں اس نظریہ کے خلاف شرح وبسط سے لکھا ہے۔اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ چیز خالق کائنات کے نظام کے خلاف ہے کہ وہ انسان کو اتنا بلند مقام عطا کرے او ر اس کے بعد اسے فطرت کے ہاتھوں اس قدر مجبور کردے کہ وہ اسے تباہ وبرباد کردے اور یہ اس کے خلاف کچھ نہ کرسکے ۔ اس کی دوسری دلیل (جس کی تائید ہربرٹ اسپنسر نے بھی کی ہیہ) یہ ہے کہ جوں جوں انسان ذہنی طور پر ترقی کرتاہے اس کی نسل کی افزائش میں کمی ہوتی جاتی ہے اورچونکہ انسان دن بدن شعور ی طور پر بلند ہوتاجارہا ہے اسلئے جس خطرہ کا اظہار مالتھو س نے کیا ہے وہ واقعی خطرہ نہیں محض مزعومہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریکارڈو:۔۔۔۔۔۔۔۔۔: مالتھوس کے بعد ہمارے سامنے (DAVID RECARDO 1772-1823) آتاہے ۔یہ یہودی تھا جس کے آباء واجداد ہالینڈ کے رہنے وال تھے اسے معاشیات کا نیوٹن کہا جاتاہے اس کی کتاب (THE PRINCIPLE OF POLITICAL THEORY AND TAXATION) مغرب کے معاشی نظام میں بڑی اہمیت رکھتی ہے ۔ اس کا بنیادی نظریہ یہ تھاکہ زمین کی پیداوار تین حصوں میں تقسیم کرنی چاہئے ۔ایک حصہ زمین کے مالک کاجسے زمین کا کرایہ (RENT) کہنا چاہئے ۔دوسرا حصہ اس سرمایہ دار کا جو زراعت میں روپیہ لگائے ۔ اس کا نام اس کی اصطلاح میں نفع (PROFIT) تھا اور تیسرا حصہ مزدور کا جو اس میں کاشتکاری کریہ۔ اس کا نام اُجرت (WAGES) تھا ۔مزدور کے حصہ کے متعلق اس کا نظریہ یہ تھا کہ :۔

مزدور کی فطری اجرت صرف اس قدر ہے کہ جس سے وہ زندہ رہ سکے اوراپنی نسل کو اس طرح باقی رکھ سکے کہ وہ نہ تو کم ہونے پائے او رنہ زیادہ۱؂۔

مالکان اراضی کے حقوق (کرایہ)کے متعلق اس کا نظریہ یہ تھا کہ اگر زمین کی پیداوار یا فراط ہونے لگ جائے تو یہ کرایہ کم وہ جاتاہے اس لئے کہ اس کرایہ کو بڑھانے کا طریقہ یہ ہے کہ پیداوار میں کمی ہو۔ باقی رہا سرمایہ دار کا منافع او رمزدور کی اُجرت کا سوال ۔سو جس قدر مزدور کی اْجرت زیادہ ہوگی اتناہی سرمایہ دار کامنافع کم ہوگا۔لہٰذاسرمایہ دار اورمزدر میں مستقل کشمکش قانون فطرت کاتقاضا ہے۔ریکارڈکامعاشی نظریہ خالص مادہ پرستانہ تھا اور یہی وہ معاشی فکرتھا جس نے معاشیات کو اخلاقیات اور سیاسیات سے الگ کرکے ایک جداگانہ سائنس(ECONOMICS) کی حیثیت دی تھی کارل مارکس اس کے نظریات سے بہت متاثر تھا۔

(SISMONDI):۔۔۔۔۔۔۔۔کلاسیکل اکنامکس کے خلاف سب سے موثر آواز فرانسیسی مصنّف اور مورّخ سسما نڈے (SISMONDI 1773-1842) نے اٹھائی ۔یہ سمتھ(ADAM SMITH ) کواپنا امام تسلیم کرتاہے ۔لیکن اس نے اس کے معاشی نظریہ پر بہت سے اضافے کئے ہیں۔ مالتھوس اور ریکارڈ وغیرہ پر اس کی تنقید بڑی کڑی ہوتی ہے۔ اس کانظریہ یہ تھا کہ ہمیں قوم کی اجتماعی آسائشاورمسرت کو زیادہ سے زیادہ بڑھا ناچاہئے اور یہ اسی صورت میں ہوسکاہے کہ ہر شخص کو یقین ہوکہ وہ محنت کے ذریعہ دیانت دار انہ زندگی بسر کرسکتاہے ۔ وہ چاہتایہ تھا کہ ملک کی دولت اس کی آبادی کے ساتھ ساتھ بڑھتی جائے او رآبادی اس ملک کی آمدنی سے زیادہ ہونے پائے پیداوارکی تقسیم کے متعلق اس کی اسکیم یہ تھی کہ اسے سرمایہ اورضارفین (CONSUMERS) میں برابر بانٹ دیا جائے۔ بحیثیت مجموعی اس کی ہمدردیاں مزدور کے ساتھ تھیں لیکننہلاس حد تک جس تک سوشلزم جاتی ہے۔ اس مقصد کے لئے وہ گورنمنٹ کی مداخلت کو ـضروری قئرار دیتا تھا او ر ملک کی معاشی زندگی پر اجتماعی کنٹرول کا حامی تھا۔اس کامعاشی نظریہ اخلاقیات پر مبنی تھا جس کامحرّک جذبہ انسانی ہمدردی تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ اس نظریہ کو ایک مستقل حیثیت (TORRENS) نے 1815ء میں دی تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب یورپ میں وہ زمانہ آرہاتھا جب صنعتی انقلاب اور سرمایہ داری کے تباہ کن اثرات آہستہ آہستہ سامنے آنے شروع ہوگئے تھے۔لوگوں کی مفلوک الحال دن بدن بڑھتی جارہی تھی ۔مزدور اور سرمایہ دار کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوتی جارہی تھی طبقات تنازعات کے امکانات زیادہ ہوتے چلے جارہے تھے۔ اس صورت حالات نے بہت سے ایسے مفکرین کومتاثر کیا جو (سسمانڈ ے کی طرح) اپنے پہلو میں دل درد آگیں رکھتے تھے ۔ یہ اس متشدّد ٹائپ کے سوشلسٹ تو نہیں تھے جو ان کے بعد اسٹیج پر آرہے تھے لیکن ان کی ہمدردیاں مزدور وں اورغریبوں کے ساتھ تھیں ۔یہ جارحانہ انقلابی کاروائیوں سے نہیں بلکہ تعلیم اور اخلاقی اپیلوں کے ذریعے طبقہ بالا میں تبدیلی کے لئے کوشاں تھے۔

سائمن:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں سب سے پہلے ہمارے سامنے (SAINT SIMON 1760-1825)آتاہے یہ مزدوروں کے طبقہ کاحامی تھا اور یہ چاہتا تھا کہ ان کی تعلیمی اور جسمانی حالت میں خوشگوارتبدیلی پیدا ہوجائے۔ اس کا نظریہ یہ تھا کہ معاشرہ کی ازسر نوتنظیم اس طرح کرنی چاہئے کہ اس میں تمام افراد کام کریں۔ کوئی شخص بیکار بیٹھ کر دوسروں کی محنت پر زندگی نہ بسر کرے۔ اس کے متبعین اس حد تک بھی بڑھ گئے تھے کہ وہ چاہتے تھے کہ سرمایہ دارطبقہ مٹ جائے ۔

رابرٹ اوین :۔۔۔۔۔۔۔ان میں سب سے نمایاں شخصیت (ROBERT WOEN 1771-1858) کی تھی اس کی معاشی فکر کا بنیادی اصول یہ تھا کہ انسان اپنے ماحول کی پیداوار ہوتا ہے وہ اپنا کیریکٹر خود نہیں بناتا۔اس کا معاشرہ اسے اس کا کیریکٹر بنا کر دیتا ہے ۔ اوین ایک نظری مفکّر نہ تھا بلکہ ایک عملی مصلح تھا۔ اسنے گلاسگو کے قریب نیولینارک کی بستی میں ایک کارخانہ خریدا جس میں مزدوروں کے علاوہ بہت سے بچے بھی کام کرتے تھے۔ اس نے بچوں کواس جانکاہ مشقت سے نجات دلائی ۔مزدوروں کے لئے عمدہ رہائش گاہیں بنواہیں ۔مدرسے کھولے۔ ان کی حفظان صحت کاانتظام کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ سرمایہ دار کے لئے 5 فیصد منافع کافی ہے ۔ اس سے زیادہ سب کا سب مزدوروں کی بہبودی پر صرف ہوناچاہئے ۔یہ تجربہ مزدوروں کے حق میں تو بہت اچھا ثابت ہوا لیکن سرمایہ دار طبقہ اوین کا ساتھ چھوڑ تا گیا ۔ وہ کہتے تھے کہ یہ شخص پاگل ہے او ریہ کہتا تھا کہ اس کے سواباقی سب دنیا پاگل ہے۔ اس کے بعد اس نے مذہب کی بھی مخالفت شروع کردی۔ وہ کہتا تھاکہ مذہب کا عقیدہ ہے کہ انسان اپنے اعمال کا آپ ذمہ ذمہ دار ہے ۔حالانکہ یہ حقیقت کے خلاف ہے ۔اس کے اعمال کاذمہ دار وہ معاشرہ ہے جس کی وہ پیداوار ہے ۔اسسے اس کے دوسرے دوستوں نے اس ؂کا ساتھ چھوڑنا شروع کردیا ۔لیکن وہ اپنی دُھن کا پکّا تھا ۔اس نے مزدوروں کی اصلاح کاکام برابرجاری رکھا ۔مارکس اس کے اس بنیادی نظریہ سے بہت متاثر تھا کہ انسان اپنے ماحول کی پیداوار ہوتا ہے۔( COLE) کے الفاظ میں جس نے اوین کے سوانح حیات لکھے ہیں ‘‘اگرچہ اس وقتاشتراکین کے نزدیک یہ تصور مارکس کاپیداکردہ ہے لیکن درحقیقت اس کا مصنف اوین ہے۔’’ لہٰذا مارکس کی مادی تعبیر انسانی کا سہرا اوین کے سر ہے۔ یہ نظریہ بھی اوین ہی کاہے کہ انسان کی ترقی کے راستے میں تین بڑے بڑے مواقع ہیں۔ذاتی جائداد،مذہب اور شادی ۔اس کا خیال تھا کہ صحیح اشتراکی زندگی میں ان تینوں کو مٹادینا ہوگا۔ اس سے آپ نے اندازہ لگالیا ہوگا کہ مارکس کی اشتراکیت کس حد تک اوین کی مرہون منت ہے۔

لوئی بلاں:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی قسم کا ایک اشتراکی ریفار مزلوئی بلاں (LOUIS BLANC) تھا۔ یہ فرانس کا انقلابی ریفارمر تھا۔ اس کا نظریہ یہ تھا کہ مملکت کے ہر فرد کے لئے کام مہیا کرنا، حکومت کا فریضہ ہے او رمزدوروں کو ان کی محنت کے مطابق ہی معاوضہ نہیں ملناچاہئے بلکہ اتنازیادہ ملنا چاہئے جس سے ان کی تمام ضروریات زندگی پوری ہوجائیں۔

پرادھن:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی جماعت کا ایک اور ممتاز فرد (PROUDHAN 1809-1868) تھا۔ یہ درحقیقت مارکسی اشتراکیت کاطائر پیش رس تھا۔ اس کاعقیدہ تھا کہ جائداد خالص چوری ہے اور جائیدادوں کے مالک سب چور ہیں۔ اس کے نزدیک ایک کمیونسٹ اسٹیٹ میں مشترکہ جائداد کا تصوربھی جائز نہیں ۔ وہ کہتا تھا کہ جائداد بنتی اس طرح ہے کہ دوسرے لوگ محنت کرتے ہیں اور ان کی محنت کے ماحصل کو کوئی او رلے اڑتا ہے ۔زمین کے متعلق اس کانظریہ یہ تھا کہ یہ فطرت کاعطیہ ہے جس پر ملکیت کا کسی کو حق نہیں۔ نہ ہی اسے نٹائی او رکرایہ پردیا جاسکتا ہے۔ اس سے صرف انسان کی ضروریات پوری لی جاسکتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کارل مارکس 1818-83ء)۔۔۔۔۔۔۔۔:یہ تھی کہ اشترکین جنہوں نے مارکس کے لئے زمین ہموار کی۔ کارل مارکس ،یہودی النسل جرمن کاباشندہ تھا۔ برلن یونیورسٹی میں یہ ہیگل کے فلسفہ سے متاثر ہوا او ر یہی اس کے معاشی فکر کی اساس بنا۔ شروع شروع میں اس نے جرمن کے بعض رسائل میں لکھنا شروع کیا۔لیکن جب وہاں کی فضا سازگار نظرنہ آئی تو یہ پیرس چلا آیا ۔وہاں اس کی ملاقات (FREEDRICK ENGLES) سے ہوئی جو اس کی معاشی فکر کابہت بڑا ستون ثابت ہوا۔ وہیں (PROUDHAN) سے بھی ملا او راس کے نظریات سے بہت متاثر ہوا۔ جب اس نے پیرس میں اپنے خیالات کی نشرو اشاعت شروع کی تو جرمن کی حکومت کے ایماء پر اسے1845ء میں وہاں سے نکال دیا گیا۔اس طرح یہ برسلز میں آگیا ۔اس مقام پر اس کی ملاقات (LEAGUE OF THe JUST) کے نمائندوں سے ہوئی ۔یہ ایک انقلابی جماعت تھی جو لندن میں اپنا کنونشن منعقد کرناچاہتی تھی۔ انہوں نے مارکس اور انجلز سے کہا کہ یہ ان کے لئے ایک منشور مرتب کردیں۔ ا س طرح وہ منشور وجود میں آیا جسے (COMMUNIST MANIFESTO) کہتے ہیں اور جو مارکسی اشتراکیت کاعروۃ الوثقٰی ہے۔(1849ء) میں مارکس خودبھی لندن چلا گیا ۔ 1867ء میں اس کی مشہور کتاب سرمایہ (CAPITAL) شائع ہوئی ۔جس نے معاشی فکر کی دنیا میں انقلاب پیدا کردیا۔

اب ہم اس مقام تک پہنچ گئے ہیں جہا ں ہمارے سامنے مارکسی اشتراکیت اپنی شکل میں آجاتی ہے۔قبل اس کے کہ ہم اس فکر کامطالعہ کریں ،ایک بنیادی حقیقت کی وضاحت ضروری ہے ۔ایک تو ہے وہ معاشی نظام (ECONOMIC SYST-A3M) جو اشتراکیت (SOCIALISM) کے نام سے بالخصوص روس میں رائج ہے اور ایک وہ فلسفہ جس کی بنیادو ں پر یہ معاشی نظام قائم ہواہے۔ دیکھا یہ گیا کہ کارل مارکس کے فلسفہ یا روس کے اشتراکی نظام پر بحث کرتے وقت ان دونوں کوخلط ملظ کردیا جاتا ہیجس کی وجہ سے بحث کسی صحیح نیتجہ تک نہیں پہنچ سکتی ۔ لہٰذا آئندہ سطور میں جو کچھ آپ کے سامنے آئے گا اس میں ان دونوں کے فرق کو پیش نظر رکھئے گا۔

ہیگل کافلسفہ:۔۔۔۔۔۔۔ مارکس کافلسفہ سمجھنے کے لئے ہیگل کے فلسفہ اضداد کے تمہیدی خطوط کو سامنے لاناضروری ہے کیونکہ ان کے بغیر مارکس کانظریہ اچھی طرح ذہن نشین نہیں ہو سکے گا ۔ہیگل (HEGEL) کے فلسفہ کے خطوط یہ ہیں کہ :۔

(1) تمام کائنات ایک مسلسل تغیر کانام ہے یہاں کوئی شے جامد (STATIC) نہیں ہر شے میں ہر آن تبدیلی واقع ہوئی رہتی ہے۔

(2) اشیاء درحقیقت تصورات (IDEAS) کا مظہر ہیں ۔لہٰذا یہ کائنات دنیائے تصورات (WORLD OF IDEAS) ہے۔

(3) جوکچھ اشیاء کے متعلق اوپر کہا گیا ہے وہ درحقیقت تصورات کے متعلق ہے۔یعنی یہاں کوئی تصوراپنی مکمل حالت میں نہیں۔ہر تصورا ناتمام ہے۔اس لئے اس میں ہر آن تغیرات واقع ہوتے رہتے ہیں۔

-------------------

Part: 1- 'What did the man think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Preface—Part 1 انسان نے کیا سوچا

Part: 2 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: First Chapter on Mechanical concept of life—part 2 انسان نے کیا سوچا: باب اوّل،میکانکی تصوّر حیات

Part: 3 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 3 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

Part: 4 – 'What Did The Man Think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 4 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

Part: 5 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 5 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

Part: 6 –  'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 6 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

Part: 7 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 3, Ethics — Part 7 انسان نے کیا سوچا : باب سوم، اخلاقیات

Part: 8 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 3, Ethics — Part 8 انسان نے کیا سوچا : باب سوم، اخلاقیات

Part: 9 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 4, Politics — Part 9 انسان نے کیا سوچا : باب چہارم، سیاسیات

Part: 10 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 4, Politics — Part 10 انسان نے کیا سوچا : باب چہارم، سیاسیات

URL: https://www.newageislam.com/books-documents/ghulam-ahmad-parwez-man-think-economics-part-11/d/130758

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..