غلام
احمد پرویز
(ماحصل فلسفہ مادیّت)
آدمیت
زار نالید از فرنگ
زندگی
ہنگامہ برچیداز فرنگ
مشکلات
حضرت انساں ازدست
آدمیّت
راغم پنہاں ازدست
ماحصل
فلسفہ مادیّت
تہذیب فرنگ
روح
عصر حاضر:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر چہ یورپ میں مادی نظریہ حیات انیسویں صدی میں عام ہوچکاتھا
۔لیکن انسانی معاشرہ پر اس کے اثرات و عواقب بیسویں صدی کے شروع میں مرتب ہوئے(SHEEN) کے قول کے مطابق ایک چیز ہوتی ہے
جسے ‘‘روح عصر’’ کہا جاتا ہے ۔ یہ ہر دور میں بدلتی رہتی ہے او رانسانی قلوب
واذہان پر چھاجاتی ہے ۔بجائے اس کے کہ یہ ‘‘روح’’ کسی متعین نصب العین کے حصول کے
لئے مصروف جدوجہد ہو،یہ اپنا نصب العین آپ متعین کرتی ہے ۔ اس تبدیلی نصب العین کو
عام طور پر ترقی (PROGRESS)
کہا جاتا ہے ۔اس اعتبار سے کہا جاسکتاہے کہ عصر حاضر کی ‘‘روح’’ میکانکی تصور حیات
تھا اور اس کے نصب العین مادی ترقی ۔مادی ترقی ، انسانی زندگی کے لئے نہایت ضروری
ہے ۔ اس کے بغیر انسان اس عالم طبیعیات میں اسی مقام پر رہ جاتا ہے جہاں سے کاروان
حیات نے آغاز سفر کیا تھا۔ لیکن جب مادیّت بجائے خویش تصور حیات بن جائے تو زندگی
کی ہر قدر اسی پیمانے سے ناپی ،اسی میزان سے تولی ، اسی محک سے پرکھی اور اسی
زاویہ سے دیکھی جاتی ہے ۔شین لکھتا ہے:۔
یہ
ایک حقیقت ہے جس کی تصدیق تاریخ سے کی جاسکتی ہے کہ جب کہیں سائنٹیفک زاویہ نگاہ
میں کوئی بڑی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی ایسے مفّکر پیدا ہوجاتے ہیں جو
چاہتے ہیں کہ بنیادی اور ابدی صداقتوں میں بھی اسی زاویہ نگاہ کے مطابق تبدیلی
پیدا کردی جائے جب اٹھارویں صدی میں نیوٹن کے نظریہ کے ماتحت عالم آفاق کے متعلق
نیا تصور قائم ہوا تو اس کے ساتھ ہی اس کا بھی تقاضا شروع ہوگیا کہ اب دنیا کومذہب
بھی نیا ملنا چاہئے ۔چنانچہ اس کے مطابق ایک نیا مذہب بھی پیدا ہوگیا۔ کچھ لوگ
ایسے تھے جنہوں نے تقاضا کیا کہ اخلاقیات ادب اور مابعدالطبیعیات کو اپنے بنیادی
اصول او رجو ہر بدل لینے چاہئیں تاکہ وہ اس جدید سائنٹیفک زوایہ نگاہ کے مطابق ہوجائیں۔۱
(PHILOSOPHY OF RELIGION: p. 7)
یہ
ہے وہ ذہنیت جس کے ماتحت مادی دنیا کے متعلق نظریہ ادب ‘اخلاقیات’ ما بعد الطبعیات
،مذہب سیاسیات ،معاشیات ، غرضیکہ انسان کی ذہنی ،قلبی اور معاشرتی زندگی کے ہر
گوشے کومتاثر کردیتا ہے چنانچہ عصررواں کے میکانکی تصور حیات نے ایسا ہی کیا او
رانسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہ رہا جس پر اس کا عکس نہ پڑگیا ہو( SPENGLER) کے الفاظ میں فلسفہ زندگی انسان
کو ثقافت (CULTURE)
دیتا ہے اور کلچر جن محسوس دمرئی پیکروں میں جلوہ پیرا ہوتا ہے اسے تہذیب کہتے
ہیں۔( DECLINE OF THE
WEST) باردیوں بھی کم وبیش اسی خیال کا اظہار کرتاہے جب وہ لکھتا ہے کہ
:۔
(CIVILISATION) لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے
اندر اجتماعی زندگی کا تصور موجود ہے ۔اسی لئے تہذیب سے مراد وہ طریق کارہے جس کا
مظاہرہ انسانی معاشرہ میں ہو ۔اس کے برعکس کلچر اس طریق عمل کا نام ہے جس کا تعلق
انسان کی ذات اور اس کی داخلی دنیا سے ہے۔
(SLAVERY AND FREEDOM)
اور
(ARNOLD J. TOYNBEE)
کے الفاظ میں:۔
ہر
تہذیب او رہر مسلک زندگی اایک غیر منقسم وحدت ہوتی ہے جس میں تمام اجزاء ایک دوسرے
کے جُڑ ے ہوئے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے پر منحصر۔
(THE WORLD AND THE WEST: p. 26)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱ جب آئن اسٹائن نے نظریہ اضافیت (RELATIVITY) کااعلان کیا ہے تو (WESTERMARK) نے کہا تھاکہ اخلاقیات بھی اضافی
(RELATIVE)
ہونے چاہئیں نہ کہ مطلق ۔(ABSOLUTE)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے
دور کا کلچر میکانکی تصور حیات کاپیداکردہ ہے اور اس کے عملی مظاہروہ ہیں جن کے
مجموعی نتیجہ کوتہذیب فرنگ (WESTERN CIVILISATION) کہا جاتاہے ۔جیسا کہ پہلے لکھا
جاچکاہے تہذیب عصر حاضر کی عمر بمشکل پچاس سال کی ہوگی ۔دیکھنا یہ ہے کہ اس پچاس
سال کے عرصہ میں اس تہذیب نے انسان کی حالت میں کیا تبدیلی پیدا کی ہے اور عصر حاضر
کا انسان اپنے متعلق کیا محسوس کرتاہے۔ اس لئے کہ اگر یہ صحیح ہے کہ درخت پھل سے
پہچاناجاتاہے تو میکانکی تصور حیات کی قدر قیمت معلوم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے
کہ اس تہذیب کے ثمرات کوسامنے لایا جائے جو اس تصور کی پیداکردہ ہے۔
میکانکی
تصور حیات نے یہ بتایا ہے کہ دنیا ہی مادی دنیا ہے اس لئے علم بھی وہی ہے جو ہمیں
حواس (SENSES)
کے ذریعہ حاصل ہوجائے ۔علم محسوس (PERCEPTUAL KNOWLEDGE) کے علاوہ او رکوئی علم نہیں
۔حیات ،شعور ، نفس ، انسانی ، مادی چاردیواری سے آگے کہییں وجود نہیں رکھتے ۔۔۔
مابعدالطبیعیات او رمطلق اقدار کے تصورات محض افسانے ہیں جو ذہن انسانی نے اپنی
مصلحت کوشیوں کے لئے تراشے تھے ۔علم انسانی کے متعلق اس قسم کانظریہ کیا تنائج
پیدا کرتاہے اس کے متعلق ڈاکٹر (C.D. BROAD) اپنی مشہور کتاب(THE MIND AND ITS PLACE IN NATURE) میں لکھتا ہے :۔
معاشرہ
کی تباہی:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیات اور نفس انسانی کے متعلق تو یکسر جہالت او رفزکس او
رکیمسٹری کا بڑھتا ہوا علم جب صورت حالات ایسی پیدا ہوجائے تو وہ معاشرہ تباہ
ہوجاتاہے۔
لہٰذا
معاشرہ کی تباہی او ربربادی خود علم کے متعلق اس تصور کی بنیادوں میں مضمر تھی جو
میکانکی نظریہ حیات کا عطا فرمودہ تھا ان بنیادوں پر اٹھی ہوئی تہذیب کس طرح زندگی
بخش اور حیات افروز ہوسکتی تھی؟
پروفیسر
(WHITE HEAD)
کے الفاظ میں:۔
مابعد
یالطبیعیات کے متعلق ہمارا علم قلیل ، سطحی اور نامکمل ہے۔ اسی سے تمام خرابیاں
پیدا ہوتی ہیں۔ مابعدالطبیعیات کے متعلق علم وفہم ہی تو انسانی تخیل کی راہ نمائی
کرتااو رمقصد حیات کے لئے وجہ جواز بہم پہنچاتا ہے ۔مابعدالطبیعیاتی معتقدات کے
بغیر کوئی تہذیب باقی نہیں رہ سکتی۔
پروفیسر
(SUSAN STEBBING)
نے کہا تھا کہ ‘‘ جس قسم کے ہم خود ہوں گے اسی قسم کی ہماری فکر ہوگی،(IDEALS AND ILLUSIONS: p. 124)،لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس کی انسان
کی فکر ہوتی ہے اسی قسم کا انسان خود بن جاتاہے ۔میکانکی نظریہ حیات کی رو سے
چونکہ تمام کائنات او رخود انسان ایک مشین کی طرح کام کرتے ہیں۔ اس لئے اس نظریہ
کے مطابق سوچنے والا انسان رفتہ رفتہ خود بھی ایک مشین بن جاتا ہے جس میں حرکت تو
ہوتی ہے لیکن لچک نہیں ہوتی ۔صلابت تو ہوتی ہے لیکن لوچ باقی نہیں رہتی۔ وہ زندگی
او راس کے حقائق کو جرثقیل کے فارمولوں ،ریاضی کی مساواتوں ، فزیکس کے میکانکی
نظریوں اور کیمسٹری کے غیر نا میاتی (INORGANIC)قاعدوں کے رو سے حل کرنے کی کوشش
کرتاہے ۔
عبوساً
قمطریرا:۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ زندگی کے لطیف پہلو اس کی نگاہوں سے
اوجھل رہتے ہیں اور رفتہ رفتہ وہ انسان سے لٹھ بن جاتا ہے۔کَاَنَّھُم خُشُبٰ
مُسنَّدَ ۃُ گویا وہ خشک لکڑیاں ہیں جنہیں سوٹ پہنا دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں (LESLIE PAUL)اپنی کتاب (ANNIHILATION OF MAN) میں رقمطراز ہے کہ ‘‘ ڈارون اپنے
خظوط میں لکھتا ہے کہ ایک مدّت تک ایک ہی سمت میں سوچنے سے اس کی طبیعت نے ان تمام
چیزوں سے حظ اٹھاناچھوڑدیاجوبچپن اورجوانی میں اسے بہت محبوب تھیں۔ شاعری،مصوری ،
موسیقی وغیرہ چنانچہ اپنی طبیعت کی اس تبدیلی کو ڈارون بہت بڑانقصان قرار دیتا
ہے’’۔ اس کے بعد پال لکھتا ہے ۔‘‘ جو کچھ ڈارون سے ہوا وہی کچھ سارے مغرب سے
ہوگیا۔ اس نے ایک عرصہ تک محض مادیّت کے نقطہ نگاہ سے کائنات کا مطالعہ کیا ۔جس
کانتیجہ ہے کہ مادیّت کے علاوہ انسانی زندگی کی تمام سوتیں خشک ہوگئی ہیں’’( 168)۔زندگی
کی لطیف حِسّیات سے محرومی کانتیجہ صرف یہی نہیں ہوتا کہ انسان انفرادی طور پر
حارویابس کھنکھنی مٹی کاپتلا بن کررہ جاتا ہے بلکہ معاشرتی طور پر اس میں علیحدگی
(ISOLATION)اورانفرادیت
(INDIVIDUALSATION)
کے رجحانات پیدا ہوجاتے ہیں۱۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱ مغربی سوسائٹی میں معاشرتی میل جول ایک میکانکی عمل سے
زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا تحسبھم جمیعاً وقلوبھم ششی (بظاہر ایک جگہ جمع لیکن دل
ہر ایک کے اہلگ الگ) باقی رہی فنون لطیفہ وغیرہ سے ان کی دلچسپی ،سویہ دلچسپی
،بالعموم جنسی جذبات کی تسکین کے لئے ہوتی ہے جن کی شدّت مادی نظریہ حیات اور
تھکادینے والی مشینی زندگی کا لازمی نتیجہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے کہ معاشرہ میں جذب و ادغام کے لئے باہمی
مودّت ، ایثار ، خلوص ،احساس ، مروّت، جھکاؤ ،سپردگی ، دوسروں کے جذبات کی رعایت
ضروری ہیں اور ان کا تعلق انسان کی حسیات لطیفہ سے ہے۔ حسابی قاعدوں اور منطقی
مفروضوں سے نہیں۔( GEORGE
FOOT MOORE) نے (J.H.DENISON)
کی شہرہ آفاق کتاب (EMOTION
AS THE BASIS OF CIVILISATION) کا مقدمہ لکھا ہے اس میں وہ
رقمطراز ہے۔
تہذیب
کانشوونما اسی صورت میں ممکن ہے کہ انسانوں کی زیادہ سے زیادہ تعدادکسی مقصد کے
حصول کے لئے جدّوجہد کرے۔ اس قسم کا اتحاد حدتِ جذبات و احساسات سے ممکن ہوتاہے جن
سے تصورات میں جذباتی تحرّک پیدا ہوتاہے اور وہ معتقدات اور مقاصد بن جاتے ہیں۔
میکانکی
نظریہ حیات سے فکری تصورات تو پیدا ہوسکتے ہیں لیکن اس سے ان جذبات و احساسات کی
نمود نہیں ہوتی جوعمق قلب سے ابھرتے او رافق تصورات پر چھا جاتے ہیں اور جن کی صحت
و سقم پر تہذیب کے حق و باطل ہونے کامدار ہوتا ہے ۔اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ خارجی
حوادث کے خلاف کسی قوم کاردّعمل کیا ہے۱؟۔
یہی ردّ عمل وہ پیمانہ ہوتا ہے جس سے اس قوم کی سیرت کی گہرائیاں تصوّرات کیا
پہنائیاں اور فکر کی بلندیا ں ناپی جاتی ہیں۔ یہ ردّ عمل متعین ہوتاہے اس قوم کے
معتقدات سے ۔وہائٹ ہیڈاس باب میں لکھتا ہےء۔
ہردور
کاکیرکٹر اس بات سے پرکھا جاتا ہے کہ اس دور کے انسانوں کا ان مادی حوادث کے خلاف
ردّ عمل کیاہے جن سے وہ دوچار ہوتے ہیں۔ یہ ردّ عمل ان کے بنیادی معتقدات سے متعین
ہوتا ہے ۔ ان کی امیدوہم سے اقدار کے متعلق ان کے فیصلوں سے ۔(125)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱ اگر خارجی حوادث کے خلاف ردّ عمل ہمیشہ ایک سمت کی طرف
ہو ہو قوم مستقل اقدار کی حامی ہوگی۔ اگر ہر حادثہ کے خلاف ردّ عمل مختلف ہوتو اس قوم
کا معیار عمل مصلحت کوشی اور مفاد بینی ہوگا جس کے فیصلے تنہا عقل کی رو سے کئے
جاتے ہیں۔اور اگر خارجی حوادث کے خلاف کسی قوم کاردّ عمل کچھ بھی نہ ہوتو اس قوم
پر تصوف کی موت طاری ہوتی ہے جسے عام اصطلاح میں مذہب کہتے ہیں۔ اسلام ایک دین
ہے(مذہب نہیں) جس کامدارمستقل اقدار پر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یقین
مُحکم:۔۔۔۔۔۔۔۔معتقدات ہمیشہ یقین سے پیدا ہوتے ہیں او ریقین کی عمارت مستقل اقدار
کی بنیادوں ہی پر استوار ہوسکتی ہے۔ میکانکی نظریہ حیات چونکہ مستقل اقدار کے وجود
ہی سے انکار کرتاہے اس لئے اس کی دنیا میں یقین کاکوئی دخل نہیں ہوتا۔سائنس کے
نظریات نت نئے دن بدلتے رہتے ہیں۔ اس لئے مادّیت کالازمی نتیجہ ریب وتشکیک (SKEPTICISM) ہوتاہے بلکہ میسن تو یہ کہتا ہے
کہ ‘‘کسی قوم کی دونسلوں پر تشکیک وریب کی حالت گذرنے دیجئے اس کے بعد ان میں خود
بخود مادّیت پیدا ہوجائے گی’’(246) اور عدم یقین وہ چیز ہے:۔
جو
اپنی تباہی کے سامان خود اپنے اندر رکھتی ہے اس لئے کہ تخلیقی تحّرک کبھی کسی ایسے
نظریہ کو مستقل طور پر اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا جو انسانی ذات کی تعبیر صرف مادی
اصطلاحات میں کرے۔
(CREATIVE FREEDOM: p. 265)
زندگی
کے اقدار پر یقین نہ رہے تو قلب انسانی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوجاتا ہے جسے اور
کوئی جذبہ پرُ نہیں کرسکتا اس لئے بے یقینی کالازمی نتیجہ پریشانی اور اضطراب ہوتا
ہے ۔ پروفیسر الفریڈ کو بن اس باب میں لکھتا ہے :۔
جو
شخص یہ خیال کرتاہے کہ انسان ایمان کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہے اسے دور حاضر کے
نوجوانوں کی حالات کامطالعہ کرناچاہئے جو مضطربانہ اس تلاش میں پھر رہے ہیں کہ
کوئی ایسی چیزمل جائے جس پر ایمان لایا جائے ۔ (THE CRICIS OF CIVISATION) انسانی زندگی کے جو فیصلے
مصلحتوں کے تابع بدلتے رہتے ہیں ان سے انسان میں کبھی ذوق یقین اور خلوص عمل نہیں
پیدا ہوسکتا خلوص کے لئے یقین ضروری ہے اور جس تہذیب کی بنیادیں خلوص اور دیانت پر
نہیں ہوتیں وہ دنیا میں کبھی پنپ نہیں سکتی ۔تہذیب کی تاریخ کامشہور عالم رابرٹ
برفواس ضمن میں لکھتا ہے:۔
انسانی
کلچر کی پوری تاریخ اس پر شاہدہے کہ کسی تہذیب کی قوت توانائی زور دروں ، اس کی
قدر وقیمت اورکامیابی وکامرانی کا راز اس کے خلوص اوردیانت فکرمیں ہوتا ہے۔
(THE MAKING OF HUMANITY: p. 101)
یہی
مورخ دوسری جگہ لکھتا ہے:۔
کلچر
اور تہذیب سے مراد صرف آرٹ مادی عیش وآرام کی چیزیں علموعقل کامرانیاں نہیں، اس سے
مقصود یہ ہوتا ہے کہ انسانوں کے باہمی معاملات میں عدل ،انصاف اور انسانیت کوکس حد
تک ملحوذرکھا جاتا ہے۔(302)
جس
تہذیب کی بنیاد انسانی مصلحت کو شیوں اور مفاد پرستوں پر رکھی گئی ہو وہ تہذیب
کبھی زندہ نہیں رہ سکتی ۔برفو اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے کہ روما کی عظیم الشان
سلطنت اور اس قدر درخشندہ تہذیب کیوں تباہ ہوگئی لکھتا ہے:۔
انسانی
ہئیت اجتماعیہ کاکوئی نظام جس کی بنیاد باطل اصولوں پر ہوکبھی قائم نہیں رہ سکتا
۔خواہ باطل نظام کو کیسے ہی تدبراور دانشمندی سے کیوں نہ چلایا جائے۔ اس کی بنیاد
ی کمزوری خارجی نظم وضبط اور اِدھر اُدھرکی جُزئی مرمت سے کبھی رفع نہیں ہوسکتی ۔
جب تک اس کی اصل باقی ہے اس کے لئے تباہی مقدر ہے ۔روما کی سلطنت عام انسانوں کی
لوٹ کھسوٹ سے ایک خاص جماعتکو متمول بنانے کاذریعہ تھی ۔انہوں نے اس ‘‘سوداگری’’
کونہایت قابلیت او رتدبرّ ،خلوص اور دیانتداری سے چلایا ۔ لیکن (جس انتظام کی) یہ
تمام خوبیاں ،بنیادی باطل کو اس کے فطری نتائج سے نہ بچاسکیں غلط بنیادوں کے اثرات
بلارورعایت نتیجہ خیز ہوکر رہے۔ (159)
اخلاقی
اقدار:۔۔۔۔۔۔۔ مادی ترقی اور اس کے مقابلہ میں اخلاقی اقدار کے متعلق برفولکھتا ہے
:۔ اگر انسان بادلوں سے اونچا اُڑ نے لگ جائے تو اس کامطلب یہ نہیں ہوتا کہ
انسانیت کی سطح بھی اتنی ہی بلند ہوگئی ہے۔ نہ ہی سومیل فی گھنٹہ کی رفتار کے معنی
ترقی ہیں۔انسان اگر ستاروں کے تولنے کے قابل بھی ہوجائے او رعلوم وفنون کے وسیع
میدانوں میں گھوڑے دوڑانے لگ جائے تب بھی اس کے جوہر ذاتی میں قلب ماہیت پیدانہیں
ہوسکتی انسانی معاملات اس سے کہیں گہرے ہوتے ہیں۔۔۔ قوت ،تہذیب،کلچر بے معنی چیزیں
ہیں اگر ان کے ساتھ اخلاقی برائیاں شامل ہوں وہ صحیح پیمانہ جس سے انسانی دنیا کی
قدر و قیمت ماپی جاسکتی ہے اخلاقی پیمانہ ہی ہے۔ (259)
اس
قسم کے نظام تمدّن کے مآل کے متعلق یہی مورّخ لکھتا ہے:۔
وہ
نظام تہذیب جس میں حق وصداقت کو عادی طور پر نظر انداز کردیا جاتاہو آخر الامر
تباہ ہوکر رہتا ہے ۔ناانصافی سے کوئی فرد کیسا ہی کامیاب کیوں نہ ہوتا چلا ئے ۔ وہ
اجتماعی نظامجس کاوہ جُز د ہے او ر وہ جماعت جو اس ناانصافی کے ثمرات سے نفع اندوز
ہوتی ہے اس ناانصافی کی وجہ سے انجام کار برباد ہوجاتی ہے۔ انتخابات طبیعی کے اٹل
قانون کی بنا پر گناہ کی اُجرت موت ہے۔(262)
میکانکی
نظریہ حیات نے مغرب کو اسی قسم کامعاشرتی نظام عطا کیا ہے ۔خارجی دنیا کے مسائل تو
اس نے حل کردیئے لیکن انسانوں کے باہمی معاملات کوکوئی تسلی بخش حل اس سے پیش نہ
ہوسکا۔ درحقیقت یہ بات اس کے بس کی تھی ہی نہیں‘‘یہی وہ شعبہ ہے جس میں اس تہذیب
کی پوری ناکامی سامنے آجاتی ہے ۔ انسانی کے مِل جُل کر رہنے کے معاملات کا حل پیش
کرنا اس کے لئے ناممکن ہے ۱’’
اس کے متعلق ایسی توقعات وابستہ کرنا ہی غلطی تھا۔۔ بقول میسن:۔
ہم
نے زندگی کی ابتداء سائنس کی کاریگری سے کی۔ اس وثوق کے ساتھ کہ مادی کامرانیاں
زندگی کے عُقدوں کو حل کردیں گی۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم غلطی پر تھے۔ زندگی
کے مسائل اتنے آسان نہیں ہیں۔ (CREATIVE FREEDOM: p. 184)مشین کی ایجادات نے خود انسان پر
کیا اثر کیا ہے اس کے متعلق مشہور فرانسیسی مفکّر ومورخ لکھتا ہے:۔ (REVE GUENON)
عہد
حاضر کی تہذیب رفتہ رفتہ تنزّل کی طرف گرتی گئی ہے ۔حتیٰ کہ یہ انسان کے پست ترین
عناصر کی سطح پر جاکر غرق ہوگئی ہے ۔ اس کانصب العین اس کے سوا کچھ نہیں کہ انسانی
فطرت کے محض مادّی گوشے کے تقاضوں کی تسکین کا سامان فراہم کیا جائے ۔ یہ نصب
العین خود ایک فریب ہے۔ اس لئے کہ یہ جس قدر انسانی ضروریات کو پورا کرتا ہے اس سے
زیادہ مصنوعی ضروریات کو پیدا کردیتا ہے۔۔۔۔ اس عہد کے انسان نے نہ صر ف اپنی ذہنی
کاوشوں کو مشینوں کی ایجاد اور ساخت کے لئے وقف کررکھا ہے بلکہ و خود رفتہ رفتہ
مشین بن چکا ہے ۔ یہ ایجادات جن کا شمار دن بدن بڑھتا جارہا ہے او ر بھی زیادہ
خطرناک ہیں۔ اس لئے کہ یہ ان قوتوں کو بروئے کارلارہی ہیں جن کی اصلی حقیقت کاعلم
ان انسانوں کونہیں جو انہیں استعمال کرتے ہیں۔۔۔ جو لوگ مادہ کی وحشی قوتوں کو بے
لگام چھوڑدیا گیا ہے جس کانتیجہ یہ ہوگا کہ مادہ اس انسان کو برباد کردے گا جو خود
مادہ سے بلند ہوئے بغیر مادہ کی تسخیرچاہتا ہے ۔اس لئے کچھ بعید نہیں کہ موجود ہ
دنیا خود ان ہی ایجادات کے ہاتھوں تباہ ہوجائے۔
(THE CRISIS OF THE MODERN WORLD)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱ (THE STATE OF THE WORLD BY ADAM DE HEGEDUS: p. III)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان
ہی حقائق کے پیش نظر یہ مغربی مفکر اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ :۔
مغرب
کے غرق ہوجانے کاخطرہ سرپر ہے وہ خود تو ڈوبے گا ہی لیکن اپنے ساتھ تمام نوع
انسانی کوبھی اپنے منتشرافکار واعمال کے گرداب میں غرق کردے گا۔( ایضاً)
یہ
اس لئے کہ :۔
بڑھتی
ہوئی مادی خواہشات کی تسکین کیلئے کشمکش زندگی نے یہ حقیقت نگاہوں سے اوجھل کردی
کہ انسانی زندگی کاسرچشمہ غیر مادی روحانیت میں ہے۔۔۔۔ چونکہ سائنس نے مادی
کامیابی عطا کردی ا س لئے ہم سائنس کی اسی طرح پرستش کرنے لگ گئے جس طر ح ہمارے
بزرگ جادو کی پرستش کیا کرتے تھے ۔ یہ روشن اور حقیقت اس زندگی سے فرار کی راہ تھی
جس میں انسانی خودی اپنے استحکام کے لئے ضبط نفس کی متقاضی تھی اور ضبط نفس یقینا
ایک مشقّت طلب مرحلہ ہے۔۔۔۔ ہوتا یہ ہے کہ جس قدر مادی ترقی بڑھتی جاتی ہے خودی کی
محبوبیت کم ہوتی جاتی ہے ۔یہ ہے ہمارے دور کی ناکامی کااصلی راز خوش حالی اس قدر
فراواں ہے کہ بایدوشاید عیش وعشرت کے سامان ہر مقام پر موجودہیں۔ مادی کامیابی کے
مواقع نچلے نچلے درجہ کے انسانوں تک کیلئے کھلے ہیں ۔لیکن بایں ہمہ انسان بے حد
غیر مطمئن اور مضطرب و بے قرار ہے۔۔۔تخلیق کی قوت محّرکہ کبھی مستقل طور پر ایسے
نظریہ کو سینہ سے نہیں لگائے رکھ سکتی جوانسانی ذات کو محض مادہ کی کمود قرار دے
۔ایسے نظریہ کے ماتحت افراد اورقومیں دونوں تباہ ہوکر خاک میں مل جاتی ہیں۔
یہ
تو ترقی نہیں سرتاسرتنزّل ہے۔ ڈین انج کے الفاظ میں :۔
(THE CRISIS OF THE MODERN WORLD)
اگر
آج دنیا کی اخلاقی حالت کو دیکھا جائے تو مجھے مجبوراً ہکسلے کے اس تنیجہ ہونا پڑے
گا کہ ترقی کے مسلمہ معیار کے مطابق اس دور کی ترقی نہیں تننّرل ہے۔
(THE FALL OF THE IDOLS: p. 71)
جنگ
کی تباہ کاریاں:۔۔۔۔۔۔ اسی ‘‘تنزّل ’’ کانتیجہ یہ ہے کہ ہمارا یہ پچا س سالہ دور
مسلسل جنگ و پیکار اور حرب و ضرب کی آماجگاہ بنارہا ہے ۔ چھوٹی موٹی لڑائیوں کو
چھوڑ کر اس دور میں ہم جندوعالمگیر لڑائیوں سے دوچار ہوئے ہیں ان کی تباہیوں او
ربربادیوں کی نظر ساری انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملے گی جنگ کیا تھی ایک جہنم
تھا جس کے انسانیت سوز شعلوں نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔پہلی جنگ
عظیم کے بعدرابرٹ برفو نے لکھا تھا:۔
یہ
جنگ معہ اپنے تمام بہیمانہ مظاہروں کے جن کی وجہ سے آج ہمارا شعور گوناگوں وحشت
انگیز پریشانیوں کامسکن بن رہا ہے ،کوئی ہنگامی واقعہ یااتفاقی حادثہ نہ تھا یہ
تمام مجرمانہ حماقتیں تمام منافقتیں ،تہمت تراشیاں اور دروغ بافیاں یہ تمام
سنگدلانہ حرکات انسانی زندگی،قوت اور دولت کی یہ تمام بربادی اور دہشت انگیز تباہی
غرضیکہ یہ پورے کاپورا پاگل پن اور اس کا ایک ایک عنصر ہماری قبل ازجنگ کی مغربی
تہذیب کے اندر موجود تھاجنگ دراصل ان تمام مذموم افعالاور نفرت انگیزاعمال کامرئی
اوتار یا مادی مظاہرہ تھا جن کی مسموم فضا میں ہم گھرے ہوئے تھے جنگ نے صرف
اتناکیا کہ ان بھیانک چہروں سے نقاب الٹ دیا ۔
(THE MAKING OF HUMANITY: p. 360)
اس
ہولناک تباہی کاباعث کیا تھا؟اسے مشہورامریکی مورّخ تہذیب (DORSEY)کے الفاظ میں سنتے وہ اپنی کتاب (CIVILISATION) میں لکھتا ہے:۔
(ہماری تباہی کا باعث) نہ تو بڑے
بڑے مجرم ہیں جن سے ہم لرزاں رہتے ہیں اور نہ ہی ہماراافلاس جس سے ہم نادم ہیں ۔(
اس کااصل باعث) وہ معاشرتی نظام ہے جو منافقت اور فریب کی بنیادوں پر قائم ہے اور
(اس کے ساتھ) یہ قانون کہ ‘‘ جس کی لاٹھی اسکی بھینس ۔’’ (870)
برفواس
کی مزید تشریح ان الفاظ میں کرتا ہے:۔
ہماری
موجودہ تہذیب اپنی قومی ، معاشی ، عائلی ،اخلاقی ،مذہبی ،ذہنی ،نظام کے ہر شعبہ
میں حماقت جہالت فریب او رظلم کا مستقل مظاہرہ ہے۔( 360)
اس
عالمگیر تباہی او ربربادی کے اسباب وعلل پر بحث کرتا ہوا (BREND) اپنی کتاب(FOUNDATIONS OF HUMAN CONFLICTS) میں لکھتا ہے:۔
یہ
سرسری سا جائزہ بتاتا ہے کہ انسان ابھی اس چیز سے بہت دور ہے کہ وہ سیکھ لے کہ
اپنے آپ پر حکومت کس طرح کی جاتی ہے؟ اس کانتیجہ یہ ہے کہ وہ ہر جگہ پریشان او
رغیر متقّین انداز سے مارا مارا پھر رہا ہے ۔ وہ اس سوسائٹی کومتشکل کرنے کے لئے
جس کے لئے سمجھتا ہے کہ وہ اپنے اندر صلاحیت رکھتا ہے ،ایک خاص راستہ اختیار کرناچاہتاہے
۔لیکن اس کا مطمح نگاہ اسے ہمیشہ دھوکا دیتا ہے قدیمی اقدار وعقائد ختم ہوچکے ہیں
اور اس خلا کو کسی اور چیز نے پرُ نہیں کیا ۔دنیا کے ایک معتدبہ حصہ تعمیری قوتوں
کے بجائے تخریبی قو تیں چھا چکی ہیں او رانسان نے جو کچھ صدیوں سے حاصل کیا تھا وہ
سب ختم ہورہا ہے ۔مختلف انداز کی حکومتیں اور معاشرتی ادارے اس باب میں ناکام رہ
چکے ہیں کہ انسان کو انسانوں کے ہاتھوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔۔۔۔انسان نے بڑے وسیع
پیمانے پر علم حاصل کیا ہے اور سائنس کے ہر شعبے میں حیرت انگیز اکتشافات کئے ہیں
۔ او رفطرت کی قوتو ں کے استعمال کی استعداد پیداکرلی ہے ۔اگر وہ ان قوتوں کواپنے
فائدے کے لئے استعمال کرتا تو وہ کئی ایک معاشرتی خرابیوں سے آزاد ہوجاتا جو قدم
ایّام میں ناگریز سمجھی جاتی تھیں۔ لیکن انسان کی حالت یہ ہے کہ ہر وقت روشنی کی
تلاش میں سرگرداں رہتاہے۔ لیکن فطرت کی ان قوتوں کو اپنی تخریب کے لئے استعمال
کرتاہے۔ (403)
اور
ا س کے بعداس کی علّت ومعلول ان الفاظ میں بیان کرتاہے:۔
انسانوں
کی کوی جماعت ہو ایک فرد کو ایک محدود حلقہ کے اندر اور خاص شرائط کے ماتحت جذبات
کی آزادی کی اجازت دی جاتی ہے ۔اگر وہ اپنے جذبات کو اس محدود حلقہ سے باہر اور ان
مخصوص شرائط کوتوڑ کر بروئے کارلانے کی کوشش کرے تو وہ جماعت اس کیا روک تھام کی
تدبیر کرتی ہے ۔لیکن آج کوئی ایسا اقتدار اعلیٰ(SUPREME AUTHORITY)نہیں جو اقوام پر بھی اس قسم کی
پابندی عائد کرسکے۔ اس لئے اقوام کواپنے جذبات کوبے زمام چھوڑنے کی زیادہ آزادی
حاصل ہے۔ آج انسانی اقوام کی حالت بالکل عہد طفولیت کی سی ہے جس میں بچہ ہر اس
پابندی کوتوڑنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کے جذبات کے راستہ میں حائل ہو۔(4)
اس
معاشرتی ماحول کا توڑناجسے انسان نے اپنے غلط تصورحیات کی بنیادوں پر تعمیر کرکے
اپنے لئے ایک خود ساختہ قید خانہ بنالیا ہے موجودہ انسان کے بس کی بات نہیں:۔
انسان
آزادی کا متمنّی ہے او رکئی ایک ملکوں میں اس نے تنگ آکر یہ سمجھنابھی شروع کردیا
ہے کہ وہ آزاد ہے۔یعنی وہ اس امر کی کشش کرتاہے کہ وہ ان قدیم اور جدید زنجیروں
کوالگ پھینک دے جواس کی خود ساختہ ہیں اور اے بُری طرح سے جکڑے ہوئے ہیں لیکن
حقیقت یہ ہے کہ اس نے ایک ایسا معاشرتی ماحول پیدا کررکھا ہے جسے وہ اپنے قبضہ (CONTROL) میں نہیں رکھ سکتا (اس لئے اسے
توڑ نہیں سکتا) ۔(4-3)
یہ
خودساختہ قید خانہ عصر حاضر کے لئے ایک ایسا جہنم بن چکا ہے جس سے نکلنے کی صورت
دکھائی نہیں دیتی پروفیسر جوڈ اس باب میں لکھتا ہے:۔
اس
زمانہ میں مشین نے انسان کوبے پناہ قوت دی ہے اور اس قوت سے وہ تعمیر اور تخریب کے
بے حد وحساب کام کرسکتا ہے وہ چاہے تو سمندر وں کوپھاڑ دے ۔پہاڑ وں کو ریزہ ریزہ
کردے۔ آسمان اس کے سامنے گرد ہے اور کائنات سرنگوں لیکن اتنی قوت پاکر بھی وہ سکھی
نہیں ہوا بلکہ وہ اور دکھی ہے۔آج مشین کی طاقت انسان کو مطمئن کرنے کے کام نہیں
آرہی بلکہ اُلٹا اسے تباہ وبرباد کیا جارہا ہے۔۔۔۔ اگر اس طاقت کو قابو میں رکھنے
کی کوئی سبیل نہ کی گئی تو انسانیت کا انجام اچھا نظر نہیں آتا۔
انسان
کی ہزار ہا سال کی جدّوجہد کایہ انجام کیوں ہوا؟ او رآج وہ مشین کے ہاتھوں کیوں
ایسا بے بس نظر آرہا ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ ہم نے طاقت تو حاصل کرلی اور آگ اور
پانی او ر معدنیات کو کام میں لانے کے وسیلے ڈھونڈ لئے لیکن اس طاقت کو صحیح طور
پر استعمال کرنے کی عقل ہم نے حاصل نہ کی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج کا انسان اس
مصیبت میں گرفتار ہے۔ ضرورت ہے کہ طاقت کو صحیح راہ چلانے کی عقل بہم پہنچائی جائے
اور اگر طاقت اورعقل میں صحیح توازن ہوجائے تو آج ہماری مصیبتیں دورہوسکتی ہیں اور
انسانیت آنے والی تباہی سے بچ سکتی ہے۔
بے
شک انسان مظاہر فطرت کو مسخّر کرنے میں آیا واجد اد سے بہت آگے بڑھ گیا ہے لیکن
جہاں تک اس کے اپنے رہنے سہنے اور دوسروں سے مل کر زندگی گذارنے یعنی اخلاقیات
وسیاسیات کاتعلق ہے وہ اب تک وہیں ہے جہاں ہزاروں برس پہلے یونان کے قدیم باشندے
تھے۔ ہم نے گومادی ترقی توبہت کرلی ہے لیکن روحانی اور اخلاقی لحاظ سے ہم ذرا بھی
آگے نہیں بڑھے ۔اور آج رونا بھی اس بات کاہے او ر ساری ضرورت بھی یہی ہے کہ ہم
اپنی مادی طاقت کے مطابق اپنے اندر روحانی اور اخلاقی عقل پیدا کریں تاکہ اس طاقت
کاصحیح مصرف ہوسکے ورنہ یہ طاقت وبال جان ہوجائے گی۔
(بحوالہ مجلّہ‘‘کتاب ’’ ۔لاہور
فروری (1943ء)۱
یہی
مصنّف اپنی کتاب (GODAND
EVIL) میں لکھتا ہے۔
انیسویں
صدی سائنس کی ظفر مندی کازمانہ تھا۔ سائنس نے ہمیشہ سستا کوئلہاو رکپاس دی اور
ذرائع رسل ورسائل میں انقلاب پیدا کردیا اور دیگر سینکڑوں طریق سے انسانی زندگی میں
تبدیلیاں پیدا کردیں اور اس کی آسائش کے سامان مہیا کردیے۔ لیکن یہ سائنس ایک
دودھاری تلوار تھی جس نے انسان کو وہ قوّتیں عطا کردیں جن کا طریق استعمال وہ نہیں
جانتا جس طرح اس کی تہذیب تباہی کے جہنم کے کنارے تک آپہنچی ۔انیسویں صدی نے صرف
سائنس کی ترقی دیکھی اور یہ ہمارے لئے چھوڑدیاکہ ہم دیکھیں کہ سائنس کی اس ترقی کے
ساتھ ساتھ انسانیت میں کس طرح تنزّلی واقع ہوتاچلا گیا۔( GOD AND EVIL: 114)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱یہ مقالہ ہندوستان ٹائمز میں(انگریزی میں ) شائع ہوا
تھا اور اس کاترجمہ ماہنامہ کتابنے شائع کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مادی
نظریہ زندگی کے مآل دعواقب پر گفتگو کرتاہوا میسن لکھتا ہے:۔
جس
قدر خالص مادی ترقی زیادہ ہوگی اسی قدر انسان زیادہ خوش ہوتا جائے گا۔ ہمارے دور
کی ناکامی کااصلی راز یہی ہے ۔آج سامان تعیش کی اس قدر فرادانیوں کے ساتھ انسان کی
یہ حالت ہے کہ وہ حد سے زیادہ غیر مطمئن اورمضطرب او رپریشان خاطر ہے۔
(CREATIVE FREEDOM: p. 183)
اس
تجزیہ کے بعد میسن علّت مرض کی طرف آتاہے او رکہتا ہے :۔
ہمارے
دور میں جس چیز کی کمی ہے او رجس کی وجہ سے یہ اپنی ناقصیت کو محسوس کررہاہے وہ
انسانی خودی ہے جس کی نمود ،مادہ او ر روح دونوں میں ہونی چاہئے ۔انسان مادی
کامرانیوں میں ڈوبا ہوا پریشان اور ایک عجیب الجھاؤ میں ہے اس لئے کہ اس کی ذات
اپنے آپ کو مادہ سے بلند نہیں لے جاسکتی بلکہ مادہ کے اندر ڈوبی ہوئی محسوس کرتی
ہے۔ اس کامضطراب اس لئے ہے کہ اس کا تحت الشّعور یہ چاہتا ہے کہ وہ ثابتکردے کہ وہ
مادہ سے جن چیزوں کی تخلیق کرتاہے خو د ان سے کچھ بیش ہے۔ وہ مادی کاریگری کو بحال
رکھنا چاہتاہے اس لئے کہ یہ اس کی قوت تخلیق کی مدد کے لئے ضروری ہے لیکن اس کے
ساتھ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مادّیت سے بلند لے جائے او راس کی ذات
کاانداز اس کی مادی تخلیق سے نہ لگایا جائے بلکہ اس سے کہ خود کیاہے؟ (183)
آج
یورپ کانوجوان جس اضطراب و خلفشار جس بے چینی وپریشانی جس عدم سکون وفقدان مسرت کے
جہنم میں گرفتار ہے اس کے متعلق علامہ اقبال لکھتے ہیں:۔
اپنے
فکر کی دنیا میں خود اپنی ذات کے خلاف ستیزہ کار رہتا ہے او رسیاسی دنیا میں
دوسروں کے خلاف نبردآزما وہ نہ اپنی کف بردہاں سرکشی کو ضبط میں لاسکا ہے او رنہ
ہی ہوس زرپرستی کے استسقاء کی تسکین کا سامان فراہم کرسکتا ہے ۔یہی وہ چیز یں ہیں
جو اس کے تمام بلندمقاصد کو (ایک ایک کرکے) ہلاک کررہی ہیں او رایسی کیفیت پیدا کررہی
ہیں کہ وہ زندگی کے ہاتھوں بیزار ہے۔ وہ نگاہ فریب مناظر میں جذب ہوکر اپنی ذات کی
گہرائیوں سے یکسر منقطع ہوچکا ہے ۔اس کی منظم مادہ پرستی کے میدان میں اس کی
توانائی پر فالج گرچکا ہے جسے ہکسلے کی نگاہ نے بھانپا او راس پر اظہار تاسف کیا
تھا۔ ( خطبات 177)
-------------------
Part: 1- 'What did the man think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Preface—Part 1 انسان نے کیا سوچا
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism