New Age Islam
Wed Mar 26 2025, 12:42 AM

Books and Documents ( 29 Sept 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 6, WESTERN CIVILISATION — Part 14 انسان نے کیا سوچا :باب ششم، تہذیب فرنگ

غلام احمد پرویز

 بدقسمت نوجوان:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی بد قسمت نوجوان جس کے متعلق ڈین انج (جوڈ کے الفاظ نقل کرتا ہوا) لکھتا ہے کہ ‘‘ یہ نوجوان شاہراہ حیات پر بے مقصدچلا جارہاہے ۔اسے کچھ خبر نہیں کہ مجھے کہا ں جاتا ہے اور سفر کیوں اختیار کیا ہے او رنہ اس کا کوئی عقیدہ ہے نہ ضابطہ حیات ،نہ معیار نہ اقدار (FALL OF IDOLS: p. 236)

جوڈ نے جو کچھ یورپ کے متعلق کہا ہے وہ کچھ (LEWIS MUMFORD) امریکہ کے متعلق کہتا ہے؟ اپنی کتاب (FAITH FOR LIVING) میں لکھتا ہے:۔

امریکہ میں ہم نے ایک نئی نسل پیدا کی ہے ۔ عمدہ توانائی ،خوبصورت جسم لیکن دل بالکل خالی وہ نسل جس کے نزدیک زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیں۔۔۔۔یہ ‘‘مہذب’’ وحشی حیوانوں ص کی سطح پر زندگی بسر کررہے ہیں کبھی دھوپ میں کھڑے آفتابی غسل لے رہے ہیں سمندر کے ساحل پریا اپنے کمرے کے لیمپ کے سامنے کبھی بے کار جنسی میلان کے تحّرک سے رقص کرنے لگ جاتے ہیں۔۔۔۔ یہ اپنے لباس کے بارے میں بہت محتاط ہیں،لیکن یہ احتیاط محض فیشن کی پابندی کی وجہ سے ہوتی ہے۔۔۔۔ یہ لوگ کھاتے ہیں ،پیتے ہیں ،شادی کرتے ہیں ، بچے پیداکرتے ہیں اور پھر مرجاتے ہیں۔ایسی زندگی جی کر جو اگر کامیاب ہے تو حیوانی نشاط انگیزی کی او راگر ناکام ہے تو حسد ،خوف اور پریشانی کی حیوانی سطح اور حیوانی تسکین کے علاوہ انہیں ہر طرح کی زندگی سے نفرت ہے۔ انہیں ان حیوانی حظائظ نفس سے محروم کردیجئے تو انکے لئے جینا وبال دوش ہوجائے گا ۔نیم مردہ جب کام میں لگے ہیں اور نیم زندہ جب کام سے فارغ ہیں یہ ہے ان کی زندگی کامال ۔ہر شہر میں اس قسم کے لوگ لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔۔۔ ان کے فیشن کی زائش گاہیں ،رات کی کلبّیں ایسے لوگوں سے بھری رہتی ہیں جن کے سامنے نہ انسانی معیار ہوتے ہیں نہ انسانی مقاصد۔

ممفورڈ نے ان خیالات کااظہار کچھ عرصہ پہلے کیا تھا ۔ اس کے بعد وہ اسی سلسلہ کی اپنی آخری کتاب (THE CONDUCT OF LIFE) میں لکھتا ہے:۔

ہم تاریخ میں اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں انسان خود اپنا بدترین دشمن بن چکاہے۔۔۔۔مغربی کلچر انسان کا ترجمان نہیں رہا ۔یہ انسان سے باہر کی دنیا سے تعلق رکھتاہے او رخود انسان کادشمن ۔۔۔ اس تہذیب کے خلاف سب سے شدید تنقید اس کے سوا او رکیا ہوسکتی ہے کہ علاوہ اس کے کہ اس کے ذریعہ انسان اپنے اوپر تباہیا ں لارہا ہے ۔اسے انسانی زندگی سے کچھ دلچسپی ہی نہیں۔۔۔۔اس تہذیب کا ماحصل یہ ہوگا کہ اس سے اس قسم کے مشینی انسان پیدا ہو ں گے جو نہ اپنے لئے فیصلے کرسکنے کے قابل ہوں گے او رنہ ہی زندی کی شاہراہ متعین کرسکنے کے اہل ۔

آخر میں ممفورڈ لکھتا ہے کہ :۔

تہذیب مغرب کے خلاف آخری تنقید یہ ہے کہ اس نے مشینوں کی عظیم او رمحبت سے عاری دنیا پیدا کردی ہے۔

وہی حقیقت جسے اس سے پہلے (E.A. BURRETI) اپنی مشہور کتاب (METAPHYSICAL BASIS O MODER SCIENCE) میں ان الفاظ میں بیان کرچکا ہے۔

میکانکی تصور حیات کی رو سے حقیقت کی دنیا درشت او رکرخت باردوبے رنگ وبے کیف خاموش اور مردہ دنیا بن گئی ۔دنیا کیا ؟ بس ریاضی کے چند فارمولے پر جو مشینی ضابطے کے ماتحت مصروف حرکت ہیں۔

اس طرززندگی سے ، دل کی توانائی اور روح کی پاکیزگی تو ختم ہوئی تھی اس کے ساتھ ہی جسمانی صحت بھی تباہ ہوگئی۱؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ ڈاکٹروں کا اندازہ ہے کہ برطانیہ کی پانچ کروڑ بیس لاکھ آبادی میں ہرروز ایک کروڑ ستّر لاکھ اسپرین کی ٹکیاں کھائی جاتی ہیں۔ یہ ہے ان کی اعصابی حالت کانقشہ ! (بحوالہ ڈان ، مورخہ 15-05-53)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر فرائڈ کے مکتب فکر کے مطابق اعصابی بیماریوں کی تشخیص تجزیہ نفس کی رو سے کی جاتی ہے ۔ ڈاکٹر ینگ کا شماراس فن کے ائمہ میں سے ہوتا ہے ۔ اس نے اپنی تمام عمرنفسیاتی تجزیہ میں گذار دی ہے اور ہزاروں نوجوانوں کی تحلیل نفسی کے بعد ان کی بیماریوں کی تشخیص کی ہے ۔ وہ اپنی مدّت العمر کے تجزبہ کے بعد دور حاضر کے انسان کے متعلق جس نتیجہ پر پہنچاہے اسے اس نے اپنی کتاب۔۔۔۔۔( MODERN MAN IN SEARCH OF SOUL) میں قلم بند کردیا ہے۔ وہ اس کتاب میں لکھتا ہے :۔

عصر حاضر کا انسان مفلوج انسان ہے ۔ اندھے حوارث کے مقابلہ میں خوف سے ہر اساں ،ان وحشیانہ قوتوں کے مقابلہ میں جن پروہ اپنے دور کی معاشی اور سیاسی تدابیر کے زور پر قابو نہیں پاسکتا ۔ یہ تو ہے کی خارجی دنیا کی حالت اور اگروہ اس اندھی دنیا سے جہاں تخریب و تعمیر کی قوتیں ہر وقت ترازو کے پلڑوں کو اٹھاتی جھکاتی رہتی ہیں اپنے اندر کی دنیا کی طرف جھانکتاہے تو وہاں اسے باہر سے بھی زیادہ تاریکیاں دکھائی دیتی ہیں۔(236)

علوم سائنس او رانسان کی دنیا:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے نقشہ اس دنیا کاجو اس تہذیب نے متشکل کی ہے جس کی بنیادیں میکانکی تصور حیات پر رکھی گئی تھیں ،وہ دنیا جس کے متعلق (LESLI PAUL) میکس ایسٹ مین ( MAX EASTMAN) کے الفاظ نقل کرتاہوا لکھتا ہے کہ ‘‘کوئی زندہ او رباہوش انسان’’ جو ذرا اس امر کاتصور کرلے یہاں ہوکیا رہاہے اس قسم کی دنیا میں ایک ثانیہ کے لئے رہنا بھی گوارانہ کریگا۔’’ (ANNIHILATION ON OF MAN) خود علوم سائنس کے متعلق (SIR RICHARD LIVINGSTONE) لکھتاہے کہ ہم انسان کے لئے ذرائع نہم پہنچاتے ہیں ان کا استعمال بھی سکھادیتے ہیں لیکن اسے اس مقصد کی بابت کچھ نہیں بتاتے جس کے حصول کایہ ذریعہ ہیں۔

( EDUCATION FOR A WORLD ADRIFT)

نیویارک ٹائمز ک سائنس ایڈیٹر (WAIDEMAR KAEMPFFERT) نے1953ء میں ایک کتاب لکھی تھی جس کاعنوان ہے EXPLORATION IN SCIENCE وہ اس کتاب کے اخیر میں لکھتا ہے :۔

انسان اس کرہّ ارض پر قریب ایک لاکھ سال سے آباد ہے لیکن اس کے اخلاقی شعور کو بیدارہوئے صرف پانچ ہزار سال کا عرصہ ہوا ہے۔ اگر نوع انسانی کا صحیح مطالعہ صرف انسان سے کیا جاسکتا ہے تو اس باب میں سائنس ہنوازاپنے دو ر جہالت میں ہے ۔ وہ ایٹم کے متعلق تو بہت کچھ جانتی ہے لیکن انسان کے متعلق جوکائنات کا سب سے زیادہ دلچسپ اور اہم موضوع ہے بہت کم جانتی ہے ،سائنس کوابھی ایک نشاۃِ ثانیہ کی ضرورت ہے ۔ اس کی نمود کیلئے شاید ابھی ایک سو سال اور درکار ہوں جب ایسا ہوا تو پھر انسان کی صلاحیتوں اورکمزوریوں کی تحقیق کے لئے کم از کم اتناوقت تو دے گی جتنا وقت یہ دوائیوں اور پلاسٹک کی تحقیق کے لئے صرف کرتی ہے۔ اب تک سائنس نے انسان کو صرف یہ بتایا ہے کہ وہ اپنے ماحول کو جس طرح مسخّر کرسکتا ہے ۔ اس نے ابھی انسان کو یہ بتاناہے کہ وہ جو کچھ کرتاہے ایساکیوں کرتاہے اوراسکے لئے تسخیر خویش کس طرح ممکن ہے۔ (279)

اسی حقیقت کو جوڈان الفاظ میں بیان کرتاہے:۔

سائنس ہمیں یہ تو سکھادیتی ہے کہ ذرائع پر کس طرح قدرت حاصل کی جاسکتی ہے ۔لیکن مقاصدکے متعلق وہ کچھ نہیں بتاسکتی ۔لہٰذا اس کامقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں رہتا کہ انسان اپنے ذاتی مقاصد کے حصول اور خواہشات کی تسکین کے پیچھے لگارہے۔( DECADENCE)

یہ ظاہر ہے کہ جب انسان کے سامنے کوئی متعین منزل او رمقصد نہ ہوتو ‘‘ترقی’’ کالفظ بے معنی ہوجاتا ہے جیسا کہ (A.G. CHESTERTON) نے کہا تھا۔

خود لفظ ترقی (PROGRESS) اس حقیقت کاآئینہ دار ہے کہ اسکے لئے ایک سمت (DIRECTION) کا ہونا ضروری ہے جو نہی ہم سمت کے متعلق متشکّک ہوجائیں ہماری ترقی بھی مشکوک ہوجاے گی۔

او ریہ واضح ہے کہ سمت (DIRECTION) کبھی متعین نہیں ہوسکتی جب تک پہلے منزل(GOAL) متعین نہ ہو۔ بناء بریں جب ہم کہتے ہیں کہ ہمارا زمانہ ترقی کازمانہ ہے تو یہ گفتگویکسر بے معنی ہو جاتی ہے ،جب تک پہلے یہ نہ متعین کیا جائے کہ وہ نصب العین کیا ہے جس کی طرف ہمارا زمانہ ترقی کرتاہوابڑھ رہا ہے او ر چونکہ نصب العین کامتعین کرناسائنس کے بس کی بات نہیں اس لئے سائنٹیفک ایجادات کانام ترقی رکھا ہی نہیں جاسکتا۔ اسی بناء پر جوڈنے عصر حاضر کے انحطاط کی وجہ صرف ایک بتاتی ہے یعنی ‘‘ترک مقصد’’ (DROPPING OF THE OBJECT) یہ اس لئے کہ ہم خود انسان کی زندگی اور اس کے مقصد کے متعلق کچھ معلوم نہیں کرسکے۔(HEIDEOGER) کے الفاظ میں :۔

کسی زمانے میں بھی انسان کے متعلق اتناکچھ معلوم نہیں ہوسکا جتناہمارے زمانہ ہوا ہے۔اور ‘‘انسان ہے کیا؟’’اس سوال کے متعلق کوئی زمانہ بھی اتنابے بہرہ نہیں تھا جتنا ہمارازمانہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(KANT AND THE PROBLEM OF METAPHYSICS)

(DECADENCE: p. 247)

۔۔۔۔۔۔۔۔

یا (SCHELLER) نے الفاظ میں:۔

ہمارا زمانہ وہ پہلا زمانہ ہے جس میں انسان خود اپنے متعلق ریپ وتشکیک میں مبتلا ہوگیا ہے جس میں وہ خود اپنے متعلق نہیں جانتا کہ وہ کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی اسے اس کابھی احساس ہوگیا ہے کہ وہ اپنے متعلق کچھ نہیں جانتا۔

(QUOTED BY BUBER IN ''BETWEEN MAN AND MAN'')

ظاہر ہے کہ جب صورت حالات یہ ہو کہ انسان کے پاس قوتیں بے پناہ آجائیں او راسے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ خودکیاہے اور اس کی زندگی کامنتہیٰ کیا تو وہ قوتیں تخریب کے سوا اور کس مصرف میں آسکتی ہیں یہ تخریب ہماری آنکھوں کے سامنے وہ مہیب جنگوں کی شکل میں آچکی ہے اور اب تیسری جنگ کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ ان دونوں جنگوں میں جو طبعی بربادیاں آئیں انہیں چھوڑئیے خود معاشرہ جن دیگر خرابیوں کی آماجگاہ بن گیا انسان کی تباہی کے لئے وہی کم دہشت انگیز نہیں۔۔۔

جرائم:۔۔۔۔۔۔ مشہور (PSYCHO-ANALYST) ڈاکٹر ولیم اسٹیکل (W. STEKEL)اس باب میں لکھتا ہے کہ :۔

پہلی عالمگیر جنگ کے بعدجرائم عام ہوچکے ہیں ۔چوری ایک مہذب ہُنر بن چکی ہے ۔صرف اس کانام بدل دیا گیا ہے۔اب اسے کاروبار (BUSINESS) کہا جاتا ہے ۔انسانی زندگی کی کوئی قیمت نہیں رہی ۔قتل ایک عام بات ہوچکی ہے ۔سرمایہ شاہنشاہ مطلق ہے جنگ سے سہل نگاری عام ہوچکی ہے۔ہر شخْص چاہتا ہے کہ کسی طرح مفت میں دولت ہاتھ آجائے او رکام نہ کرنا پڑے ۔اخلاق کامعیار بہت پست ہوگیا ہے ۔معاشرہ کی شرم کا اب احساس تک نہیں رہا۔ اب شرم صرف اسے آتی ہے جو دوسروں کا خون چوسنے میں ناکام رہ جاتاہے جنگ کے بعد قمار بازی کا چسکا عام ہوگیا ہے حتیٰ کہ یہ اب جنون کی کیفیت اختیار کرچکا ہے ۔جوئے کی سینکڑوں مہذّب قسمیں ایجاد ہوچکی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی شراب خوری ۔اس سے بوڑھے ،بچے سب کی قوت عمل تباہ ہوجاتی ہے او رلوٹ مار اور تباہ کاری کاجذبہ بیدار ہوجاتاہے۔

آج انسان کے لئے سب سے بڑا خطرہ خود اس کی اپنی ذات کا اندرونی خطرہ ہے۔

(PECULIARITIES OF BEHAVIOUR)

ہکسلے (ALDOUS HUXLEY) کہتا ہے کہ:۔

اس باب میں دور جاہلیت او ردور حاضرہ میں بس یہ فرق سمجھئے کہ ہم کھلے ہوئے تشددکی دنیاسے فریب کاری کی دنیاکی طرف بڑھتے چلے جاہے ہیں۔(ENDS AND MEANS)

اس کا لازمی نتیجہ (PALINURUS) کے الفاظ میں:۔

عیاشی ،عدم یقین ،تکان او رتو ہم پرستی ہے۔

(UNQUIET GRAVE)

جو ،جوڈ کے خیال میں قوموں کی تباہی کابنیادی سبب ہوتے ہیں۔

یورپ کے مفکّرین اپنی تہذیب کے بھیانک نتائج سے اس درجہ ہراساں اور پریشان ہوچلے ہیں کہ ہنوز یہ تہذیب اپنی عمر کے پچاس سال بھی پورے نہیں کرپائی کہ وہ اسے اُلٹ کر اس کی جگہ کسی دوسری تہذیب کے قیام کی فکر کررہے ہیں۔ وہ اس کے ہاتھوں بُری طرح بیزار ہوچکے ہیں۔ بقول علامہ اقبال:۔

کہ افرنگ از جراحت ہائے پنہاں بسمل افتاداسب

وہ اپنی قوم چیخ چیخ کر پکاررہے ہیں کہ اپنی روش بدلو ورنہ تم اس طرح تباہ وبرباد ہوجاوگے کہ :۔ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

نالہ وفغاںء۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لارڈاسنل (LORD SNELL) نے 1947 ء میں اپنی آخری کتاب (THE NEW WORLD) شائع کی تھی ۔وہ اس میں لکھتا ہے:۔

نوع انسانی کی پوری تاریخ میں اس قسم کادور کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس وقت تہذیب ایک دوراہے پر کھڑی ہے اوریہاں سے اگر ایک قدم بھی غلط سمت کی طرف مڑگیاتو وہ اسے برباد بلکہ فناکردے گا۔ یوں تو انسان کی طول طویل تاریخ میں بہت سے حوادث آئے ہیں لیکن موجودہ حادثہ صرف ان سے دسعتوں اور پہنائیوں میں بڑا ہے بلکہ یہ ان سب سے زیادہ پیچیدہ اور پریشان کن ہے۔پہلے حوادث خاص خاص خطوں میں رونما ہوا کرتے تھے اور متعین سائل سے متعلق ہوتے تھے ۔ جنگ ہوتی تھی تو کسی ایک مقصد کے لئے کبھی خام پیداوار کے لئے کبھی مال کی منڈیوں کی تلاش میں کبھی دفاعی موقف کی غرض سے وہ لڑائیاں خاندانی وجاہت اور مادی تفوق کے لئے ہوتی تھی ۔لیکن گذشتہ جنگ کو دیکھئے اس کی ظلمت انسانی قلوب کی گہرائیوں میں دکھائی دے گی ۔ نسلی افتخار ،جذبات تغلّب وسلّط اور مملکت کے متعلق غلط فسلفہ۔

لہٰذا جو مصیبت ہمارے سامنے ہے اس کے متعلق ہمیں کبھی غلط فہمی نہیں ہو نی چاہئے اس سے پہلے منظم شر کی قوتیں کبھی اس قدر روز آور نہیں ہوتی تھیں۔ اب تو ا ن سے نجات کا راستہ ہی کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ ہر ملک ویرانہ بن رہا ہے او راس ویرانہ پر افلاس امراضاور اموات کے شیاطین منڈلارہے ہیں۔۔۔۔ انسانیت اپنے ہاتھوں لائی ہوئی مصیبتوں سے کچلی جارہی ہے ،تباہ ہورہی ہے ۔یہ مصیبت نتیجہ ہیں ان میکانکی قوتوں کاجنہیں انسان نے ایجاد تو کردیا لیکن ان پر قابوپاناسکا ۔ہر جگہ ریب و تشکیک او راخلاق اقدار کی شکست کااندوہناک احساس انسانی قلوب کو چاروں طرف گے گھیر ے ہوئے ہیں ۔ ان خوفناک تاریکیوں میں کبھی کبھی امید کی کوئی کرن جلوہ بار ہوتی ہے ۔زندگی اس ہم درجافتح وشکست ،امید ویاس کے دوراہے پر کھڑی ہے اوراگر ہم نے اپنی ناتواں زندگیوں کی شکستہ عمارت کو ازسر نو محکم بنیادوں پر استوار نہ کیا تو ہماری تقدیر بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔ ہم زیادہ دیرتک دو دنیا ؤں کے درمیان کھڑے نہیں رہ سکتے ایک دنیا جو مرچکی ہے اور دوسری جس میں اپنی نمود کی قوت نہیں۔ ہمیں سب سے پہلے اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ ہماری وہ پرانی دنیا جس سے ہم اس قدر محبت کرنے تھے مرچکی ہے اور ہمارے خوابوں کی نئی دنیا ابھی تک پیکر نا آشناہے۔(203)

آپ دیکھ رہے ہیں کہ مفکّرین مغرب کے اب احساسات کیا ہیں؟یہ احساسات نہیں بلکہ چیخ وپکارہے اس انسان کی جس کے پیچھے ایک عفریت بے پناہ ہو اور سامنے کوہِ آتش فشاں سے اُمنڈ کر آنے والاآگ کاسیلاب! یہ تاثرات نہیں بلکہ رقص بسمل ہے۔اس بے بس نادان کا جس نے زہریلا ہل کر تریاق سمجھ کر پی لیااور اب اس کی ایک ایک شریان خون کا فوارہ بن رہی ہے۔ یہ آہ و فغان اور شوروشیون ہے۔ اس متاع بردہ مسافر کا جسے جنگل میں چاروں طرف سے درندوں کی خوفناک آوازیں پیغام موت بن کر سنائی دے رہی ہوں اورجسے نہ کہیں نشان راہ ملتا ہو او رنہ کسی راہر د کے پاؤں کی آہٹ جینے کاسہارابن رہی ہو۔ خود اہل مغرب کی اب حالت یہ ہوچکی ہے کہ وہ اس صورت حال پر غور وفکر کرنے اور اسجہنم سے نکلنے کا راستہ دریافت کرنے کیلئے تحقیقاتی کمیٹیاں بٹھاتے ہیں۔

نجات کی فکر:۔۔۔۔۔۔کمیشن مقرر کرتے ہیں ۔مفکّرین کو دعوت غور وفکر دیتے ہیں لیکن ایک بھنورمیں پھنسی ہوئی لکڑی کی طرح وہ اپنے پیدا کردہ چکر سے باہر نکلنے کی کوئی راہ نہیں پاتے ۔مغرب کے اس طریق کار پر (KIERKEGARRD) نے کیسی نشترانہ طنزکی ہے وہ لکھتا ہے کہ:۔

کچھ وقت تک کمیٹیوں ر کمیٹیاں بٹھائی جاتی ہیں یہ عمل اس وقت تک جاری رہتاہے جب تک ایسے لوگ موجودہوتے ہیں جودل سے چاہتے ہیں کہ ہم وہ کچھ بن جائیں جوکچھ ہمیں بننا چاہئے ۔لیکن آخرالامرسارے کاسارازمانہ ایک کمیٹی بن کر رہ جاتاہے۔

(THE PRESENT AGE)

حقیقت یہ ہے کہ ‘‘کمیٹی سازی’’ کا یہ احساس دور حاضر کے سائنسدانوں کے اس احساس جرم کانتیجہ ہے جس کی بناپر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اس قدر ہلاکت انگیز ایجاعات سے دنیا کوجہنم زار بنادیا ہے۔

اس باب میں آئن سٹائن سے بڑھ کر اور کس کی شہادت قابل اعتماد ہوگی؟ وہ لکھتا ہے:۔

ہمارے دورکے سائنسدانوں کی قلبی حالت ،الفریڈنوبل کی سی حالت ہوگئی ہے۔ الفریڈ نوبل نے ایک ایسا ‘‘بھک سے اڑجانے والا’’مسالہ ایجاد کیا تھا جو اس زمانہ میں سب سے زیادہ ہلاکت انگیز تھا ۔ اس سے اس کی ضمیر پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے اپنے جرم کاکفّارہ ادا کرنے کیلئے بوبل پر انرکااعلان کیا جو ہر سال اس شخص کو دیاجائے جو دنیا میں قیام امن کاسب سے بڑا موجب ہو۔ ہمارے سائنسدان جنہوں نے اس قدر ہلاکت انگیز ایجادات کی ہیں اپنے آپ کو ضمیر کی اس جہنمی سوزش میں مبتلا پاتے ہیں۔ یہ اگر جرم کا احساس نہیں تو کم ازکم ذمہ داریوں کے احساس کانتیجہ ضرور ہے! (OUT OF MY LATER DAYS) پروفیسر (ARNOLD J. TOYNBEE)۱؂۔ عصر حاضرکے مورخین اورمفکّرین میں ایک خاص پایہ رکھتا ہے اس نے مدّت العمر اس مسئلہ پر غور کیا ہے کہ تہذیبوں کے عروج وزوال کے اسباب کیا ہوتے ہیں ۔ اس نے اپنے مدت العمر کے غور وفکر اورمطالعہ او رمشاہدہ کے بعدتہذیب مغرب پر بھی ناقدانہ نگاہ ڈالی ہے۔ اس کے بعد وہ کسی نتیجہ پر پہنچا ہے،یہ اس کے الفاظ میں سنتے وہ لکھتا ہے۱؂:۔

آپ پو چھیں گے کہ بنی نوع انسان جیسے ضغطے میں ان دنوں پھنسے ہوئے ہیں کیا اس سے پہلے بھی کبھی وہ ایسی مشکل سے دوچار ہوئے ہیں ؟ میرا جواب ہے، ہاں او رکتنی ہی بار ! اس بارے میں ہمیں ان نئی نئی ایجادوں سے متاثر ہوکر کسی دھوکے میں نہیں پڑنا چاہے۔ہم جس راستے پرآج چل رہے ہیں یہ ہم سے پہلے بھی کتنی نسلوں کی جولان گاہ رہ چکاہے ۔ رہ چلنے کے جو قاعدے ہم نے آج بنالئے ہیں یہ پہلے بھی نافذ رہ چکے ہیں۔ فرق صرف اتناہے کہ پہلے زمانے میں لوگ گدھا گاڑیوں اور چھگڑوں پر سفر کرتے تھے یا پیدل ۔اس لئے اگر کبھی بھول کر وہ راستہ میں سیدھے کی جگہ الٹے چلنے لگتے تھے تو حادثہ ایسا مہلک ثابت نہیں ہوتاتھا۔ لیکن اس کے مقابلے میں اگر آج ہم اسی سڑک پر جدید قسم کی گاڑی میں اسی میل گھنٹے کی رفتار سے اڑے چلے جاتے ہوئے کہیں بھول کر بھی اس اصول کی خلاف ورزی کربیٹھیں تو حادثہ بہت خطرناک ہوگا۔

پس نہ اصول ہی بدلے ہیں نہ سڑک ہی بدلی ہے خواہ آج کا انسان کتنی ہی وون کی کیوں کہ نئے نئے گل پرُزے ایجاد کرکے میں نے پرانے زمانے کے انسان پر فوقیت حاصل کر لی ہے۔مشینوں کی ساخت بجائے خود اس بات کا کافی ثبوت نہیں کہ ہم سے زیادہ عقل مند ہوگئے ہیں۔ یا ہم میں زندہ اور باقی رہنے کی زیادہ صلاحیت پیدا ہوگئی ہے جب بھی پرانے زمانے کی کوئی تہذیب اپنی میکانکی مہارت کے نشے میں سرشار ہوگئی تویہ اس کی اپنی غلطی کا احساس کرکے اپنے رویے سے منہ موڑ لیا تو وہ پھر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگئے ۔لیکن یہ صرف اسی صورت میں ہوا جب انہوں نے ان مادی اوزاروں سے اپنی اس غیر معمولی اور تنگ نظرانہ الفت کو خیر باد کہہ دی، جیسے کہ یہ ہتھیار ہی زندی کا مقصد ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂نوئن بی کے اس مقالہ کا ترجمہ رروزنامہ آفاق ، (لاہور) کی 24 ستمبر 1959ء کی اشاعت میں شائع ہوا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ اس سبق کا صرف ایک پہلو ہے جو تمام زمانوں کی تاریخ میں یکسا ں طور پر نمایاں ہے کہ مادی ترقی سے زیادہ کوئی چیز زوال پذیر پرنہیں ۔ دنیا کی اکیس تہذیبوں کے گہرے مطالعے سے مجھے اس امر کا یقین ہوگیا ہے کہ کوئی تہذیب صرف اسی وقت تک صحت مند ہے جب تک اس میں اُپج کا مادہ موجود ہے۔یعنی جب تک وہ آب و ہوا یا ماحول یا کسی داخلی تبدیلی سے پیدا شدہ نئے تقاضوں کا جستہ اور تخلیق جواب دینے پر قادر ہے۔اگر کوئی تہذیب اپنی فوری مشکلوں سے عہدہ برآہونے کے بعد ہاتھ پر ہاتھ دھرکے بیٹھ رہی ہے اور کسی تازہ مشکل کے پیش آنے پرایک تازہ اور نیا علاج سوچنے پر قادر نہیں تو یاد رکھئے کہ اس کا انجام بہت افسوسناک ہوگا۔

اس کے بعد پروفیسر موصوف رقمطراز ہے:۔

ہماری موجودہ علمی ترقیا ں ایک تخلیقی جواب تھیں اس دعوت مقابلہ کا جوصنعتی و حرفتی اقدام نے ہمیں دی تھی اور اس میں شک نہیں کہ ہمارا یہ جواب بہت کامیاب رہا لیکن جو مسائل آج ہمارے درپیش ہیں ان کا جواب معملووں اور تجربہ گاہوں میں نہیں مل سکتا یہ مسائل اخلاقی ہیں اور سائنس اخلاق سے بے تعلق ہے۔

اس موجودہ چیلنج کی اہمیت ظاہر ہے آج ہمارے سامنے یہ سوال ہے کہ ہمارے سائنسدانوں نے مادی قوت کا جو خزانہ ہمارے لئے دریافت کیا ہے ہم اسے کیسے استعمال کریں۔ اگر ہم نے اس سوال کا بھی اسی طرح جوا ب دینے کی کوشش کی جیسے ہم اس سے پہلے کرچکے ہیں یعنی ہم علمی ایجادوں کے انباراور انبار جمع کرتے گئے تو یہ یقینی تباہی کا راستہ ہے۔ ایک پرانی دلیل کو جو اپنے وقت میں کامیاب ثابت ہوچکی ہے کسی نئے مسئلے کے حل کرنے میں استعمال کرنے کی خواہش کاپیدا ہونابالکل قدرتی اور سامنے کی بات ہے لیکن وہ شاذونادر ہی مفید ہوا کرتی ہے۔

مثال کے طور پر دیکھئے ۔پالن ایشیا کے باشندے ماہر جہاز راں تھے لیکن اسکیمو بہت اچھے ماہی گیر تھے۔ سپارٹا کے رہنے والے بہت اعلیٰ سپاہی تھے اور صحرا کے بدّو گھوڑوں کے پالنے اور سدھانے میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ لیکن ان میں سے ہر ایک اپنے اسی فن پر تکیہ کرکے بیٹھا رہا۔ حالانکہ تبدیل شدہ حالات ان سے کسی نئے تخلیقی جواب او ر کوشش کا مطالبہ کررہے تھے ۔نتیجہ کیا ہوا؟ ان کی تہذیبیں آگے نہ بڑھ سکیں۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جن تہذیبوں نے بھی اپنی بقاء کے لئے فوجی طاقت کا سہارالیا وہ بالآخر تباہ ہوگئیں ۔میدان فتح کرلینے کے بعد جو گتھیاں پیداہوتی ہیں انہیں سپاہی کی نوک شمشیر سے سلجھا یا نہیں جاسکتا ۔شارلیمن ،تیمور ، ایتھنز کے مستبد حکمراں اور برطانوی ‘‘پلاٹن جنٹ’’ خان دان کے بادشاہ یہ سب اسی لئے ناکام رہے کہ وہ صرف ایک ہی بات سیکھے تھے ،فوجیّت اور انہوں نے فرض کرلیا تھا کہ یہ ہر طرح کے حالات میں کار آمد ثابت ہوگی۔

زندگی اتنی آسان نہیں کامیابی کاکوئی ایک دائمی اور عالمگیر گرُ نہیں بنا یا جاسکتا۔فرد ہو کہ سماج ہر نیا مسئلہ اس سے ایک نئے برجستہ جواب کا تقاضا کرتا ہے لیکن انسان سہل انگارواقع ہوا ہے جب بھی اسے کوئی پرانا حل آسانی سے دستیاب ہوسکتا ہے ۔ تو وہ تازہ جواب سو چنے کی زحمت اٹھانے سے انکار کردیتا ہے۔ آج کل کے انسان کو بھی یہی مشکل پیش آرہی ہے ، وہ ابھی تک یہی آس لگائے بیٹھا ہے کہ میں دنیا کے سب عقدوں کو مادی وسائل کے کھول لوں گا۔ بات دراصل یہ ہے کہ دوسرے میدانوں میں مادّی ترقی پر زور دینے سے حیرت انگیز فائدہ ہوا ہے۔ سمندر چیرے جاچکے ہیں۔ اور طوفانوں کو چاکر بنالیا گیا ہے۔ بس وہ سوچتا ہے کہ اسی طرح صلح پسند ،خوشحال انسانوں کی ‘‘ایک متحدہ دنیا’’ بھی تعمیر کی جاسکتی ہے ۔لیکن ظاہر ہے کہ یہ محال ہے ۔یہ واقع کرنا کہ ہمارے پیشہ ور اصحاب اس کا کوئی سیاسی حل سوچ لیں گے، اپنے آپ کو خطرناک دھوکادینا ہے بے شک انسان نے اپنی ذہانت سے طبیعی قوتوں پر قابو پالیا ہے ۔لیکن وہ ابھی تک اپنے آپ کو قابومیں رکھنے کا طریقہ دریافت نہپں کر پایا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مصیبت کاحل کیاہے ۔اس کے متعلق پرفیسر مذکور لکھتا ہہے:۔

اگردنیا کوایک مرکز پر لانے کے لئے کوئی بنا بنا یا علاج ممکن ہوتا تو ہم اپنے عالموں کو اسے دریافت کرنے پر لگا دیتے۔ لیکن اگر (اور حقیقت بھی یہی ہے) اس کا حل یہ ہے کہ سب سے پہلے موجودہ دور کے انسانوں میں روحانی تبدیلی واقع ہونا چاہئے تو ہم کیسے اس کا م کو ان تنخواہ دار ملازموں کے سپرد کرسکتے ہیں، یہ کام تو ہم میں سے ہرایک امرواقع یہی ہے کہ سب بڑی بڑی تہذیبیں اپنی روحانی نشاۃ ثانیہ کے بعد ہی معراج کو پہنچی تھیں۔ اگر ہم اس روحانی نشاط ثانیہ کے خواہشمند ہیں تو ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس کے لئے ہمیں ان تازہ خداؤں ان مشینوں اور جھنڈوں ، اقتصادیات بلکہ خودسائنس تک کے بتوں کی پوجا ترک کردینا ہوگی۔ ہم نے آج تک ان خود ساحتہ ہتھیاروں کی مدد سے جتنی ترقی کی ہے،اتنی ہی اب ہم انہیں چھوڑدینے میں مشکل محسوس کریں گے۔‘‘امیروں’’ کے لئے ‘‘سمادی بادشاہت’’میں داخل ہونا ہرزمانے میں مشکل رہا ہے۔ پس جوقومیں اس ترقی کی دوڑ میں بہت زیادہ کامیاب رہی ہیں، اتناہی اب ان کیلئے ایک عالمگیر حکومت قائم کرنے کے لئے اپنی اپنی قوم پرستی سے درست بردار ہونا زیادہ مشکل ہوگا۔

دنیا دنیا کا اب ایک مرکز پر آنا لاُبد ہے۔ اور ہرلحاظ سے بہتر یہی ہے کہ یہ مقصد صلح صفائی سے اور سب متعلقہ قوموں کی رضامندی سے حاصل کیاجائے کیونکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جو اتحاد بھی تلوار کے زور سے پیداکیا جائے نہ وہ پائیدار ہی ہوتاہے نہ خود آیند ہی۔ اتحاد بہر حال لازم ہے۔لیکن خطرہ اس بات کا ہے کہ ‘‘ایک دنیا’’ کے نظرئیے کو اپنا مطمح نظر بنا کے ہم کہیں اپنے آخر ی اور انتہائی مقصد سے غافل نہ ہوجائیں کیونکہ ہمارا انتہیا ئے مقصود تو اس سے بھی بلند ہے۔میرا اعتقاد ہے کہ جب تک تمام دنیا ایک لامحدود خدائے مطلق پر ایمان کے رشتے میں منسلک نہیں ہوجاتی اخوت انسانی کا مقصد اعلیٰ بھی کبھی حاصل نہیں ہوسکتا۔

ہم نے اس زمانے میں اپنی تمام سماجی بیماریوں کے علاج میں سارا زور اس بات پر لگادیا ہے کہ ان میں کہیں خدا کا نام تک نہ آنے پائے ان کوششوں میں ہمیں کتنے ہی افسوسناک اور غیر متوقع حالات سے دوچار ہونا پڑا۔ اس مشینی دور نے بعض لحاظ سے افراط کی بجائے ایسی تفریط پیدا کردی ہے جس کی نظیر پہلے کسی زمانے میں نہیں ملتی۔ مثال کے طور پررہائشی مکانوں کی قلّت ہی کو لیجئے مشینی ایجادوں سے لوگوں کو مشقّت سے بچانے کے یہ معنی ہونا چاہئے تھے کہ ان کے پاس سیر و تفریح کے لئے زیادہ فرصت ہوتی لیکن ہوا یہ کہ کبھی توکافی کام کرنے والے نہیں ملتے اور کبھی نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ بیکار بیچارے جوتیاں چٹخاتے ،مارے مارے پھرتے ہیں ۔ہم نے مشین کو اپنے سب کا موں کاکرتا دھرتا بھی بنا کے دیکھ لیا ۔ اس کا جو ہولناک نتیجہ نکلا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ اب یہ صاف ظاہر ہے کہ اخلاقی بنیادوں پرقائم شدہ فیصلوں کی ابھی ضرورت ہے بلکہ اپنے دور رس نتائج کے لحاظ سے پرانے ‘‘غیر ترقی یافتہ’’ زمانے کے مقابلے میں آج ان کی کہیں زیادہ ضرورت ہے۔

تاریخ کے تمام عظیم الشّان فیصلے ہمیشہ اخلاقی ہوا کرتے ہیں ۔یہ صنعتی ایجادیں اچھے کاموں میں بھی استعمال کی جاسکتی ہیں اور برُے کاموں میں بھی اور کسی نہ کسی انسان ہی کو ان کے مصرف کے بارے میں فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ آپ کے لئے اخلاقی ذرائع کا انتخاب ناگریز ہے یہ ہر ایک راستے کے اخیر میں آپ کا انتظار کرتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ آلات کی دنیا میں ہماری ہر ایک کامیابی ،ہماری اچھائیوں اور ہماری برائیوں کو اور زیادہ نمایاں کردیتی ہے ۔سائنس کے میدان میں ہمارا جو قدم بھی آگے اٹھتا ہے وہ گویا ہمیں ،اخلاقی اور روحانی امتحان کے ایک قدم نزدیک لے آتا ہے۔

یہی حال دوسری صنعتی ترقیوں کا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ امن و امان اور ترقی وتقدم کے حصوں کے لئے ایک عالم گیر تعلیم ہی کافی خیال کی جاتی تھی ۔لیکن اس میدان میں بھی ہمارا تجربہ تلخ ہے۔ ہم نے انگلستان میں مفت تعلیم جاری کی۔ لیکن اس تعلیم کے ماتحت طالب علموں کا جو پہلا گروہ مدرسہ سے نکلا اس کے بیس برس کے اندر ہی اندر ہیجان خیز اخبار بھی آن پہنچے اور سنسنی خیز خبروں کی عام اشاعت نے تعلیم کے اس تجربے کے نتائج کو ملیا میٹ کرکے رکھ دیا۔

میں جب ان اکیس تہذیبوں پر ایک نظر ڈالتا ہوں جن کامطالعہ میں نے کیا ہے تو مجھے یقین نہیں آتا کہ انسان محض ایک دنیاوی مقصد ہی سامنے رکھ کے کوئی ٹھیک اخلاقی فیصلہ کرسکتا ہے بے شک ‘‘بنی نوع انسان سے محبت ’’ کے اصول نے تاریخ میں بڑے بڑے کام کئے ہیں لیکن یہ اصول جب ہی کار آمد ثابت ہوا ہے جب ‘‘ بندوں کی محبت’’ نتیجہ تھی ’’خدا سے محبت’’ کا۔

آج ہماری دنیا کی سب سے بڑی ضررت یہ ہے کہ ہمارے دلوں میں نئے سرے سے فوق العادات باتوں میں یقین پیدا ہو۔ ان کے بغیر انسان غیر ہدایت یافتہ انسان ہر گز اس اعتبار کے لائق نہیں کہ یہ خطرناک کھلونے اس کے حوالے کردیئے جائیں جو اس کی تجربہ گاہوں اور فیکٹریوں نے تیار کئے ہیں۔

آپ نے غور کیا کہ میکانکی نظریہ حیات کا ستایا ہوا انسان اب اپنے زخموں کے اندر مال کے لئے کون سے مرہم کی آرزو رکھتا ہے ؟ ہم اس مسئلہ پر ذرا آگے چل کر بحث کریں گے کہ مغرب کے مفکّرین جس گوشہ میں اب پناہ تلاش کررہے ہیں وہ کس حد تک ان کی پریشانی کے لئے حقیقی معنوں میں گوشہ عافیت بن سکنے کے قابل ہے ۔لیکن سردست اتنا دیکھئے کہ مادی تصور کے مہیب اور خوفناک دیو کے پنجہ ذہنی نے انسان کو اس قدر چکنا چور کردیا ہے کہ اب اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے کس بُری طرح سے پھڑک رہا ہے۔ پروفیسر ٹوئن بی کی تحقیق کے مطابق انسان کی نجات پھر ‘‘خدا پر ایمان’’ لانے سے ہو سکتی ہے۔

علاج؟ ایمان!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔:۔ یہی ینگ کی تشخیص ہے۔ وہ اپنی اس کتاب میں جس کا اقتباس اوپر دیا جاچکا ہے لکھتا ہے:۔

میں نے اپنی زندگی کے نصف آحر میں جس قدر مریضوں کا تجزیہ نفس کیا ان میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جسے زندگی کے مسائل کے حل کے لئے مذہبی زاویہ نگاہ کی تلاش نہ ہو۔ ان میں سے ہر ایک کی بیماری کی وجہ یہ تھی کہ اس نے اس ‘‘شے’’ کو ضائع کردیاتھا جو زندہ مذہب انسان کو مہیا کرتا ہے۔ ان کا علاج اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہیں پھر سے وہی ‘‘شے’’ دے دی جاتی جو ان سے گم ہو چکی تھی۔ یہی ان کی دو ا تھی ،عقیدہ ، امید ، محبت، نگہ خود ہیں۔

(MODERN MAN IN SEARCH OF SOUL: p. 264)

پروفیسر جوڈ اس باب میں لکھتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ عقل (یعنی اخلاقی عقل) ہم کیسے سیکھیں اور موجودہ اخلاقی روحانی مُردنی کو زندگی سے کیسے بدلیں؟ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کہیں سے کچھ زیادہ امید نظر نہیں آتی اور آثار بھی کچھ ایسے ہیں کہ ناامید ہوکر کہنا پڑتا ہے کہ مشینی طاقت کو قابو میں رکھنا اورنئی اخلاقی قدروں کو پیدا کرنا اس دور میں مشکل ہوگیا ہے ۔ نوجوان روایتی مذہب بالکل برگشتہ ہوچکے ہیں ۔کوئی اخلاقی ضابطہ انہیں پسند نہیں ٓآتا۔ اعلیٰ نصب العین سے وہ بیزار ہوچکے ہیں اور زندگی کی شب وروز کی مسترتوں ہی میں رات پاتے ہیں کسی وعدہ فرد اکاانتظار ان کی گراں ہے اور عشرت امروزہی اب ان کا عقیدہ بن گیا ہے،آج کھالو۔ پی لو۔ کل کو تمہیں مرنا ہے۔یہ ہے اصول آج کے نوجوان کا اور شاید وہی دور ہے جو ‘‘سپنگلر۱؂’’کے لفاظ میں کسی کلچر کی موت کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ کیا ہم سمجھ لیں کہ موجودہ تمدن فنا کے ہاتھ سے بچ سکتا اور یورپ پر اب دم نزاع طاری ہے اور کچھ روا کے ساتھ ہوا اب بعینہ یہی حشر یورپ کا ہوگا؟۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ سپنگلر کی کتاب (DECLINE OF THE WEST) اپنے موضوع پر ایک بلند پایہ تصنیف ہے ارباب ذوق کے لئے اس کا مطالعہ فائدہ سے خالی ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مغربی فلاسفر پسکال نے لکھا ہے کہ انسانی ذہن اپنی قطرت سے مجبور ہے کہ وہ کسی نہ کسی چیزپر ایمان رکھے اور اسی طرح انسان کا ارادہ بھی کسی نہ کسی سے محبت کرنے پر مجبور ہے اور جب ایمان اور محبت کے لئے اس کا کام کی باتیں ملتیں تو وہ بے کار اور خراب مقصدوں پر ریجھ جاتا ہے۔ خلا قدرت کے کارخانے میں محال ہے اور محض مادی دنیا میں نہیں بلکہ اخلاقی اور روحانی دنیامیں بھی خلانا ممکن ہے۔ انسان جب خدا پر ایمان چھوڑدے تو شیطان کی پرستش کرنے لگتا ہے اوراچھے نصب العینوں سے دستکش ہوجائے تو بُرے راستے اس کو خوش آتے ہیں یورپ کو اگر اس دلدل سے نکلنا ہے تو اس کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ بے یقینی کی جگہ یقین اور ایمان لے لے۔ بے راہ روی ختم ہو اوریورپ والے نئی قدروں پر ایمان اور نئے اخلاقی ضابطوں سے محبت پیدا کریں ۔ وہ زندگی جس میں نہ ایمان کی گرمی ہو اور نہ اخلاقی ضابطہ کی کشش وہ زندگی موت سے بدتر ہوتی ہے۔ ایچ جی ویلز کی رائے میں اس دور کی سب سے بڑی لعنت یہ ہے کہ طاقت اور قوت ہے لیکن اس کا کوئی مصروف موجود نہیں ۔یعنی ایسا کوئی نصب العین موجود نہیں جو نوجوانوں کی امنگوں ولولوں اور حوصلوں کو بروئے کار لائے ایک طرف انتی زیادہ اور دوسری طرف اتنی کمی یہ ہمارا سب سے بڑا روک ہے۔لیکن ہمارے اندر اس نصب العین کی تلاش کا مادہ فنا نہیں ہوا اور اس سے امید ہوتی ہے کہ شاید ہم نئے دور کو پیداکرسکیں اور اخلاقی او رمذہبی اقدار کے نہ ہونے سے ہماری زندگیوں میں جو خلا پیداہوگیا ہے وہ پھر جاسکے۔ اگر یہ نہ ہوا تو ہماری تہذیب آپس میں ٹکرا ٹکرا کر پاش پاش ہوجائے گی ۔اگر ہمیں بچنا ہے تو اپنے لئے کوئی مذہب تلاش کرنا ہوگا جس کو ہم دل سے مانیں اور اس کے اصولوں پر زندگی ڈھالیں ۔ (ماخوذ از ‘‘کتاب’’ لاہور فروری 43ء)

لارڈ اسنل جس کے نتائج فکر کاایک اقتباس پہلے دیا جاچکا ہے لکھتا ہے:۔

پس چہ باید کرو! کم از کم دوباتوں کی اشد ضرورت ہے ۔ہمیں نئی دنیا کی تخلیق محکم بنیادوں پرکرنی چاہئے اور پھر ہمیں اپنے آپ کو اس نئی دنیا رہنے کے قابل بناناچاہئے جو ہمارے مستقبل کی امیدوں کی ضامن ہو۔ جب تک ہم اصلاح ذات نہ کریں گے خارجی اصلاحات کچھ فائدہ نہ دیں گی۔( THE NEW WORLD: p. 6)

اور مغربی مفکرین کا امام وہائٹ ہیڈ کہتا ہے:۔

نوع انسانی اب اپنا رویہ نگاہ بدلنے کی فکر میں ہے (قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات شازو نادر ہی آیا کرتے ہیں) اب کہنہ روایات کا اقتدار ختم ہورہا ہے اب ہمارا یہ فریضہ ہے کہ ھم مفکّر ین جو یان علم و عمل انسانوں کا فریضہ ۔کہ ہم ایک نئی دنیا کی تخلیق کریں اور اس دنیا کو ایک نئی نگاہ عطا کریں۔ اس دنیا میں پھر سے دو اقدار قائم ہوں جن سے اجتناب و احتراز کا نتیجہ وہ فتنہ وفساد تھا جو ہماری دنیا میں رونما ہوگیا اور ان اقدار کے ساتھ نگہ بصیرت بھی ۔ یہ وہ تصور ہے جسے افلاطون نے ‘‘علم وخیر’’ کا امتزاج کہا ہے۔ نوع انسانی کی تاریخ میں وہی ادوار رکھنے کے قابل ہیں جن میں اس تصور حیات کا دور دورہ تھا۔

(ADVENTURES OF IDEAS: p. 125)

آگے چل کر یہی مفکّر کہتا ہے:۔

یاد رکھئے کہ تہذیب ،صرف فنون لطیفہ کی تحسین کانام نہیں۔ اس لئے تہذیب کو ہمیں عجائب گھروں اور فنون گاہوں تک محدود نہیں رکھنا چاہئے ۔ میرے نزدیک وہی معاشرہ مہذّب کہلاسکتا ہے جو ان پانچ محاسن کانظاہرہ کرے۔ یعنی صداقت ، حسن ،آرٹ ،طمانیت قلب اور ‘‘اندر خطرزی’’صفات کا مظاہرہ ۔(325)

‘‘علم اورخبر’’ ،عقل اور عشق’’، فکر اور نظر’’، روح اور مادہ’’،‘‘ دین اور دنیا’’ یعنی استقلال (PERMANENCE) اورتبدّل (CHANGE) کا یہی امتزاج ہے جس کی تصریح میسن نے ان الفاظ میں کی ہے:۔

سو(آج) زندگی میں روحانی اثرات کی بڑی کمی ہے۔ لیکن وہ غلط روحانیت نہیں جو مادہ کو محض مادہ ہونے کیوجہ سے شر (EVIL) خیال کرتی اور انسان کو اس سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ دور حاضر میں مادّیت کے روحانی مفہوم کو سامنے لانے کی ضرورت ہے یعنی ہم نے اس حقیقت کو افراموش کردیا ہے کہ خود ہمارا اور روح کا سرچشمہ اوّلین ماوراء مادہ ،ایک روح خالص (ARCHITECT) ہے۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ افادی تخلیق (ULTILITARIAN CREATIVENESS)کے ساتھ روح کی آمیزش کس طرح کی جائے اس لئے کہ ہم یہ خیال کئے بیٹھے ہیں کہ ہماری زندگی کا سرچشمہ مادہ ہے اور مادہ کاسرچشمہ کہیں بھی نہیں !( یوں سمجھئے کہ) ہم یہ نہیں جانتے کہ مادّیت اور روحانیت میں کس طرح باہمی توافق کیا جائے۔( CREATIVE FREEDOM: p. 188)اور یہی وہ نئی دنیا ہے جسے اقبالؒ کی نگہ دور بین نے بہت دیر پہلے افق عالم سے اُبھرتے دیکھا اور جس کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا تھا:۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقوام عالم کا باطنی اضطراب جس کی اہمیت کاصحیح اندازہ ہم محض اس لئے نہیں لگاسکتے کہ خود اضطراب سے متاثر ہیں۔ ایک بہت بڑے روحانی اور تمدنی انقلاب کاپیش خیمہ ہے ۔یورپ کی جنگ عظیم ایک قیامت تھی جس نے پرانی دنیا کے نظام کو قریباً ہرپہلو سے فنا کردیا ہے اور اب تہذیب وتمدّن کی خاکستر سے فطرت زندگی کی گہرائیوں میں ایک نیا آدم اور اس کے رہنے کے لئے ایک نئی دنیا تعمیر کررہی ہے جس کا ایک دھندلاساخاکہ حکیم آئن سٹائن اور برگستان۱؂ کی تصانیف میں ملتا ہے۔

(دیباچہ پیام مشرق)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسان کو یہ دنیا کیسے ملے گی ، اس کے متعلق جلد دوم میں بتایا جائے گا۔۲؂

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ (MASON) جس کی تصنیف کے اقتباسات گذشتہ صفحات میں پیش کئے گئے ہیں برگسان کا متبع اور اس کے نظریہ تخلیق ارتقا کا ایک معنی میں شارح ہے۔

۲؂ قرآن کریم انسانی معاشرے کی بنیاد ان مستقل اقدار کو قرار دیتا ہے جو نوع انسانی کو وحی کے ذریعے ملی ہیں۔ یہ اقدار ہمیشہ غیر متبدّل رہتی ہیں۔ لیکن جن پیکر وں میں ان کی نمود ہوتی ہے۔ و ہ زمانے کے تقاضے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں ۔انہی محسوس پیکروں کو اس معاشرے کی تہذیب کہتے ہیں۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ جو قوم مستقل اقدار پرایمان نہ رکھے وہ سائنٹیفک ترقیوں (یعنی کائناتی قوتو ں کی تسخیر) میں کتنی ہی آگے کیوں نہ بڑھ جائے کبھی اطمینان وسکون کی زندگی نہیں بسر کرسکتی ۔چنانچہ وہ اسی قسم کی اقوام سابقہ کے احوال و کوائف بیان کرنے کے بعد کہتا ہے کہ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَّ اَبْصَارًا وَّ اَفْٕدَةً وہ عقل وہوش بھی رکھتے تھے اور فکر ودانش بھی لیکن فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَ لَاۤ اَبْصَارُهُمْ وَ لَاۤ اَفْٕدَتُهُمْ مِّنْ شَیْءٍ اِذْ كَانُوْا یَجْحَدُوْنَۙ-بِاٰیٰتِ اللّٰهِ ۔۔۔(26-46) جب انہوں نے آیات اقتدار (خدکی متعین کردہ اقدار) سے انکار کیا تو ان کی عقل (بصیرت ان کے کسی کام نہ آسکی اور وہ تباہ وبرباد ہوگئیں۔

یہ مستقل اقدار کیا ہیں اور ان پر کس طرح عمل پیرا ہوا جاتا ہے ؟ جس کے متعلق دوسری کتاب میں گفتگو کی جائے گی ۔ اس کے متعلق جلد دوم میں بتایا جائے گا۔

-----------------

Part: 1- 'What did the man think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Preface—Part 1 انسان نے کیا سوچا

Part: 2 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: First Chapter on Mechanical concept of life—part 2 انسان نے کیا سوچا: باب اوّل،میکانکی تصوّر حیات

Part: 3 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 3 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

Part: 4 – 'What Did The Man Think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 4 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

Part: 5 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 5 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

Part: 6 –  'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 6 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

Part: 7 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 3, Ethics — Part 7 انسان نے کیا سوچا : باب سوم، اخلاقیات

Part: 8 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 3, Ethics — Part 8 انسان نے کیا سوچا : باب سوم، اخلاقیات

Part: 9 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 4, Politics — Part 9 انسان نے کیا سوچا : باب چہارم، سیاسیات

Part: 10 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 4, Politics — Part 10 انسان نے کیا سوچا : باب چہارم، سیاسیات

Part: 11 –  'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 5, Economics — Part 11 انسان نے کیا سوچا : باب پنجم، معاشیات

Part: 12 – What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 5, Economics — Part 12 انسان نے کیا سوچا : باب پنجم، معاشیات

Part: 13 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 6, WESTERN CIVILISATION —Part 13 انسان نے کیا سوچا :باب ششم، تہذیب فرنگ

URL: https://www.newageislam.com/books-documents/ghulam-ahmad-parwez-man-think-western-civilisation-part-14/d/130780

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..