New Age Islam
Thu Mar 20 2025, 03:58 AM

Books and Documents ( 6 Oct 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

'What Did The Man Think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 9, Religion — Part 18 انسان نے کیا سوچا : باب نہم، مذہب

غلام احمد پرویز

حقیقی مذہب کیسا ہونا چاہئے ؟:۔۔۔۔۔۔ان حالات کے پیش نظر اہل مغرب کی یہ مشکل قابل فہم ہے لیکن جس طرح ان کے بعض دماغوں نے یہ سوچا تھا کہ انسانی زندگی کے تضاد کا حل مذہب سے مل سکتاہے ۔اسی طرح ان کے بعض اذہان نے یہ بھی بتایا ہے کہ جس مذہب میں ان تضادات کا حل پیش کرنے کی صلاحیت ہوگی وہ مذہب کس قسم کا ہوناچاہئے ؟ آئیے ہم دیکھیں کہ وہ ایسے مذہب کے خط وخال کس قسم کے پیش کرتے ہیں۔ یہ خط وخال اگرچہ بہت دھندلے سے ہیں لیکن اگلی منزل تک ہماری راہ نمائی کیلئے ان سے کافی مدد مل سکے گی۔

اوسپنسکی کہتا ہے کہ:۔

جو مذہب سائنس کی تکذیب کرے اور جو سائنس مذہب کی تکذیب کرے، وہ دونوں باطل ہوتے ہیں۔

( TERTIUM ORGANUM: p. 208)

اس سے مطلب یہ ہے کہ سائنس کی تحقیقات و مکتشفات اسی صورت میں یقینی قرار دیئے جاسکتے ہیں جب وہ صحیح مذہب کے مسلمات کی تائید کریں۔ لیکن مذہب کے یہ مسلمات تو ہم پرستی پر مبنی نہیں ہونے چاہئیں بلکہ عقل وبصیرت پرمبنی ہونے چاہئیں ،اسی بنا پر (CANON STREETER) لکھتا ہے کہ :۔

سائنس ،بلند ترین مذہب کے علاوہ ہر مذہب کو ناممکن بنادیتی ہے۔(REALITY 1927)

ظاہر ہے کہ یہ ب‘‘بلندترین مذہب’’ وہی ہوسکتا ہے جو انسانی علم وبصیرت کی راہنمائی کرے نہ وہ جو علم و بصیرت کے سامنے آنے سے شرمائے ۔ڈاکٹر (OTTO) کے الفاظ میں:۔

جب تک کوئی مذہب عقل وبصیرت کے عناصر اپنے اندر رکھتا ہے وہ تعصّب اوت تو ہم پرستانہ باطنیت کی پست سطح پر گرنے سے محفوظ رہتاہے یہی مذہب ہے جو انسانیت کامذہب بن سکنے کے اہل ہوتاہے۔

(THE IDEA OF THE HOLY)

اسی قسم کے مذہب کانام، ہکسلے کی زبان میں ترقی یافتہ مذہب (DEVELOPED RELIGION) ہے ۔ وہ کہتاہے کہ:۔

ناترقی یافتہ مذہب انسانی ترقی کی راہ میں سنگ گراں بن کر حائل ہوجاتا ہے لیکن ترقی یافتہ مذہب متضاد انسانی قویٰ میں وحدت پیدا کرکے ان میں ہر قوت کے لئے اختیار واستعمال کا میدان مہیا کرتاہے ۔

(RELIGION WITHOUT REVELATION)

(LESLIE PAUL) اس باب میں لکھتا ہے کہ:۔

انسان اور کائنات کے باہمی تعلق جس قدر زیادہ واضح ہوتے جاتے ہیں او ران کی معقولیت نکھرتی جاتی ہے ،اسی نسبت سے مذہب قوی ہوتا جاتا ہے۔(THE ANNIHILATION OF MAN: p. 170)

لہٰذا ‘‘بلند مذہب’’ کی سب سے پہلی خصو صیت یہ ہونی چاہئے کہ علم و بصیرت کے متعلق اس کا طرز عمل معاندانہ (HOSTILE) نہ ہو بلکہ وہ علم وبصیرت کی راہنمائی کرے۔ بالفاظ دیگر وہ علوم سائنس کی تائید کرے اور سائنس اس کی تائید کرے۔

اس مقام پر ایک غلط فہمی کا رفع کردینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ او روہ یہ کہ علوم سائنس کااپنا دائرہ ہے اور جو کچھ مذہب کرسکتا ہے وہ سائنس کے دائرہ سے باہر ہے۔سائنس فطرت کی قوتوں کو مسخّر کرتی ہے اور مذہب یہ سکھاتا ہے کہ ان قوتوں کے ماحصل کو صرف کس طرح کرناچاہئے ۔ سائنس عالم آفاق کے رموز واسرار سے پردہ اٹھاتی ہیہ او رمذہب ،انسانی کے مضمر جوہروں میں نشو ونما پیدا کرکے اسے اس قابل بنادیتا ہے کہ وہ اپنی موجودہ زندگی میں سربلندی اور صحیح توازن حاصل کرسکے او راس کے بعد منازل کو بہ حسن تمام طے کرتا چلا جائے۔لہٰذا مذہب سائنس کی کاوشوں کی قدر کرے گا۔ اس کی تحقیقات و تفتیشات میں ہمت افزائی کریگا ۔لیکن اس کے اثرونفوذ کا دائرہ الگ رہے گا۔ اس لئے کہ ‘‘عالم آفاق اپنے رموز وخفایا کو سائنس کے میکانکی اسلوب کے سامنے بے نقاب کردیتا ہے ۔لیکن انسان کبھی ایسا نہیں کرتا۔ ‘‘ انسان’’ سائنس کی حدود میں آتا ہی نہیں۔ پھر ‘‘سائنس’’ ضابطہ اخلاق بھی مرتب نہیں کرسکتی ۔ اس لئے کہ اخلاق ہمیشہ مقاصد سے بحث کرتے ہیں اور سائنس مقاصد سے بے تعلق ہوتی ہے۔’’ اسی بنا پر (SHEEN) کہتاہے کہ:۔

طبیعیات کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ ایک بلند مقام پر کھڑی ہوجائے او رہمیں بتائے کہ اخلاقیات کیا ہوتے ہیں ،اقدار کسے کہتے ہیں اور خدا کیا ہے ، سائنس کو جس کا تعلق محض کمیت ۔۔۔۔ (QUANTITY) سے ہے کیا حق حاصل ہے کہ وہ روح کے متعلق بھی فتویٰ صادر کرنا شروع کردے ۔ایک سائنٹسٹ کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ نفس انسانی کے متعلق بھی محاکمہ شروع کردے، محض اس لئے کہ اس نے ایٹم کا پتہ لگالیا ہے؟

جس طرح لباس کا ایک فیشن ہوتاہے اسی طرح سائنس بھی ایک فیشن ہے اورہرنسل کے انسان اپنی سائنس کے فیشن کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں ۔ کومت نے معاشرہ کے متعلق ایک نظریہ پیش کیا جب تک اس کا احاطہ معاشرہ تک محدود رہا وہ سائنس تھی۔ لیکن جب سائنس نے اس کے ساتھ شاعری شروع کردی اور اس نظریہ کو اس کی فطری حدود سے آگے بڑھا کر مذہب اور خدا تک بھی لے گئے تو رفتہ رفتہ معاشرہ کو خدا کی حیثیت دے دی گئی ۔(اس طرح ہر شعبہ میں یہی کچھ ہوا) حیاتیات نفسیات وغیرہ میں سائنس کی تحقیقات اپنے اپنے دائرہ کے اندر ٹھیک تھیں۔ لیکن انہوں نے آہستہ آہستہ اپنے دائرہ سے آگے بڑھ کر خدا اور مذہب پر بھی چھا پا مارنا شروع کردیا اور حیاتیات میں خدا کو ارتقاء کی ایک کڑی او رنفسیات میں (SUBLIMATED LIBIDO) قرار دے دیا گیا۔(صفحہ 182,75)

اس سے واضح ہے کہ سائنس کا میدان اپنا ہے اور مذہب انسان کو اس سے آگے لے جاتاہے ۔لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ پرمسلم ہے کہ صحیح مذہب وہی ہوسکتا ہے جو علوم فطرت کے اکتساب کی تائید کرے اور فطرت کی قوتوں کا صحیح استعمال سکھائے۔

مذہب، صداقت (TRUTH) کاپیامبر ہوتاہے۔ ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ وہائٹ ہیڈ کے الفاظ میں‘‘حقیقت کے ساتھ ہم آہنگی کا نام صداقت ہے’’۔ لہٰذا صحیح مذہب وہ ہوگا جس میں صداقت کا صحیح علم ہو اور اس کے مظاہر اس صداقت سے ہم آہنگ ہوں یہ بھی ضروری ہے کہ یہ مذہب صداقت کے متعلق کُلّی علم عطا کرے۔ اس لئے کہ وہائٹ ہیڈ کے الفاظ میں ‘‘صداقت کے متعلق جزوی علم تمام کائنات میں فساد برپا کردیتاہے’’۔ (ADVENTURE OF IDEAS: p. 311)

ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ انسان دوام (PERMANENCE) اور تبدّل (CHANGE) کا مجموعہ ہے اس کے لئے وہی ضابطہ زندگی کا قانون بن سکتاہے جس کے اصول ابدی صداقتوں پر مبنی ہوں۔ لیکن ان اصولوں کی جزئیات ،ہرزمانہ کے تقاضو ں کے ساتھ ساتھ بدلتی رہیں ۔وہائٹ ہیڈکہتاہے کہ :۔

زندگی کو مستقل طور پر ایک ہی قالب میں محبوس رکھنا ناممکن ہے ۔اس لئے مذہب کو بھی سائنس کی طرح بدلتے ہوئے تقاضوں کا لحاظ رکھنا پڑے گا۔ اس کے اصول ابدی ہوسکتے ہیں لیکن ان اصولوں کی تعبیرات تو حالات کے ساتھ ساتھ بدلتی رہیں گی۔

(SCIENCE AND THE MODERN WORLD: p. 218-219)

جس میں اجتہاد کی کنجائش ہو:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لہٰذا صحیح مذہب وہ ہوگا جس کے اصول ابدی ہوں لیکن ان اصولوں کی تعبیرات زمانہ کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ بدلتی رہیں۔اسے اجتہاد کہتے ہیں ۔جس مذہب میں اجتہاد کی گنجائش نہ ہو وہ تقلید ی مذہب بن جاتاہے اور چونکہ تقلید ،علم وبصیرت او رحرکت وارتقاء کے لئے موت ہوتی ہے اس لئے وہائٹ ہیڈ اسے خدا پرستی نہیں بلکہ بُت پرستی قرار دیتا ہے ۔ وہ کہتاہے کہ :۔

بت پرستی کی بنیاد یہ ہے کہ تم اپنے پیش یا افتادہ دیوتاؤں سے مطمئن ہوجاتے ہو۔(12)

(THE ADVENTURE OF IDEAS)

تقلید کی تباہیاں:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ آگے چل کر لکھتاہے کہ تہذیب کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ انسان آگے دیکھے ۔تہذیبی ترقی کے لئے :۔

یہ قطعاً ناکافی ہے کہ انسان یہ دیکھے کہ زمانہ سابقہ میں کون کون سی اچھی باتیں کی گئیں او رکون کون سے اچھے کام کئے گئے اس اسلوب زندگی کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ زندگی جامد بن جاتی ہے فطری صلاحیتیں دب جاتی ہیں اور دل کو پستی کی طرف جانے کی عادت پڑ جاتی ہے۔۔۔۔۔ یاد رکھئے فلسفہ معاشرت کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ کوئی مکمل شے بھی جمود کی حالت میں مکمل نہیں رہ سکتی ۔ یہ اصول تمام اشیائے فطرت کو جڑوں میں کارفر ما ہے۔ انسان کے سامنے دوہی راستے ہیں۔آگے بڑھو یا پیچھے ہٹو ۔ایک مقام پر کھڑے رہنا روح کائنات سے جنگ کرنا ہے۔ (جو آگے نہیں بڑھ رہا سمجھ لیجئے کہ وہ پیچھے ہٹ رہا ہے) زندگی کے فرسودہ پیکروں کو گلے سے لگائے رکھنا ، تنزّل و تسفّل ہے۔ایسی زندگی دن تو پورے کردیتی ہے لیکن کچھ پھل نہیں لاسکتی ۔۔۔۔ اس میں تہذیب کی نمائش تو رہ جاتی ہے لیکن اس کی حقیقت باقی نہیں رہتی۔۔۔۔۔ جو تہذیب ہمت کرکے آگے نہیں بڑھتی وہ تباہ ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔ ماضی کی عظمت کو بھی وہی صحیح طور پر پہچان سکتاہے جس کا مستقبل روشن ہو۔ماضی کاعلم بلاحرکت ،ماضی کے پیغام کی قیمت کھودیتاہے ۔ایک زندہ تہذیب کے لئے علم کی ضرورت یقینی ہے لیکن اسی علم کی جو آگے لے جائے ۔(صفحہ 352,36,12)

دوسری جگہ وہائٹ ہیڈ لکھتاہے کہ ‘‘جمود ، اخلاقیات کا جانی دشمن ہے’’ (342) ۔برگسان نے اپنی مشہور تصنیف (THE TWO SOURCES OF RELIGION AND MORALITY) میں ایک مستقل باب ‘‘مذہب جامد’’ کے عندان سے لکھا ہے۔ اس میں اس نے اس حقیقت پر شرح وبسط سے گفتگو کی ہے کہ جب مذہب میں اسلاف پرستی آجاتی ہے تو مذہب جامد ہوجاتا ہے او ریہی جمود اس کی موت کا باعث ہے۔ اس سے قوت عمل معطّل ہوجاتی ہے او را س تعطّل وجمود کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ‘‘جیتا جاگتا’’ صاحب قوت و اختیار نظام ، بے حس وحرکت او رجامد بن کر رہ جاتاہے۔ یعنی متحّرک اعمال ، بے جان اشیاء (رسم بن جاتی ہیں’’۔ (118)

(AN ESSAY ON MAN) کامصنف پروفیسر (E- CASSIERE)لکھتا ہے کہ:۔

انسان کے عہد طفولیت کے فکر کی رو سے کسی شے کی قائم شدہ شکل و صورت میں ذرا سی تبدیلی بھی تباہی کاموجب بن جاتی ہے ۔جادو کے فارمولے ، منتر اور وظیفہ کے الفاظ، مذہبی رسوم و عبادات کی شکل وصورت ۔ ان سب کوتمام جزئیات کے ساتھ اسی صورت میں برقرار رکھنا نہایت ضروری ہے جس میں وہ اسلاف سے چلی آرہی ہیہ۔ ان میں ذرا سی تبدیلی بھی پیدا کردی گئی تو ان کا اثر زائل ہوجائے گا ۔لہٰذا قدیم الایام کا مذہبی تصورات انسانی آزادی کیلئے گنجائش نہیں رکھتا وہ انسانی اعمال ہی کے لئے نہیں بلکہ انسانی جذبات تک کے لئے جامد، متصلّب او رناقابل تغیر قوانین متعین کرتاہے۔ اس سے انسانی زندگی ایک مستقل بوجھ کے نیچے دبی رہتی ہے ۔ وہ قدم قدم پر ‘‘یہ کرو، وہ نہ کرو’’ کی زنجیروں میں جکڑی رہتی ہے۔ (225)

راشڈل اس باب میں لکھتا ہے:۔

کیا ہم یہ سمجھیں کہ اخلاقی امور میں خود غور وفکر کر ناگناہ ِ عظیم ہے؟ کیا ہم اسے تسلیم کرلیں کہ انسان کو آنکھ بند کئے ان قواعدوضوابط کی پابندی کئے جانا چاہئے جنہیں وہ اپنے گردوپیش دیکھتا ہے؟ اگر ہم ایک ثانیہ کے لئے بھی غور کریں تو یہ حقیقت سامنے آجائے گی کہ ان سوالات کا جواب یکسر نفی میں ہے۔ اخلاقی تعلیم کا بنیادی اصول یہ ہے کہ انسان خود سوچے ۔۔۔۔۔ جو انسان خود نہ سوچے بلکہ زندگی کی تمام جزئیات میں دوسروں کی تقلید کرتاجائے اس کے متعلق سمجھ لو کہ وہ ایسا انسان ہے جس کا کیرکٹر ہی نہیں۔۔۔۔ بریڈ نے کیا خوب کہاہے کہ جو شخص اپنے ماحول سے بہتر بننے کی خواہش کرتاہے ، سمجھ لو کہ وہ حیات جاوداں کی دہلیز پر کھڑا ہوگیا۔ (VOL.II.pp. 156-157)

راشڈل ،عیسائیت کی خانقاہی رسومات کے تذکرہ کے بعد لکھتا ہے:۔

قدم قدم پر لگے بندھے قاعدوں او رضابطوں سے نہ صرف انسانی تشخّض او ربداعت ہی تباہ ہوجاتی ہے بلکہ اس سے جو اخلاقی اثر مرتّب ہوتاہے وہ بھی درحقیقت اخلاقی سعی وعمل کانتیجہ نہیں ہوتا۔ وہ زندگی جس میں کوئی جاذبیّت نہ ہو۔ یایوں کہئے کہ جس میں فطری جاذبیتوں کی جگہ وہ مصنوعی جاذبیتیں لے لیں۔ جو زندگی کے غیر فطری حالات سے پیدا کی گئی ہوں او راس میں عمق قلب سے اُبھر کر آنے والے جذبہ عمل کے لئے کوئی گنجائش نہ ہو،اخلاقی نشو ونما کا ذریعہ نہیں بن سکتیں خانقاہیت کی تاریخ میں بہت سا ایسا مسالہ مل جاتاہے جس سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ زندگی کو کڑے قواعدو ضوابط کی زنجیروں میں جکڑ دینے سے انسان کی طبیعت میں ایک قسم کاطفلانہ پن آجاتاہے او راس سے معاشرہ سے نفرت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۱؂۔

یہ نہیں کہ اس قسم کے جذبات صرف اسی وقت پیداہوتے ہیں جب کسی کو اس قسم کی پابند زندگی پر مجبور کیا جائے بلکہ اس وقت بھی جب یہ پابندیاں بہ طیب خاطر اختیار کی جائیں ۔ اس قسم کے ‘‘پولیس ڈسپلن’’ سے انسانی سیرت میں بڑا گھناؤنا تنزّل پیدا ہوجاتا ہے ۔تعمیر سیرت اختیاری اعمال سے ہوتی ہے۔ اس لئے جہاں انسان کے لئے اختیار و انتخاب کاکوئی موقع ہی نہ ہو وہاں کیا سیرت مرتّب ہوگی؟ (جلد اوّل 298)

مشہور امریکی فلاسفر (JOHN DEWY) لکھتا ہے کہ:۔

کوئی شخص نئی دنیا دریافت نہیں کرسکتا جب تک وہ پرانی دنیا کونہ چھوڑ ے۔ نہ ہی کوئی ایسا شخص دنیائے جدید دریافت کرسکتاہے جو پہلے اس امر کی ضمانت مانگے کہ وہ نئی دنیا اس قسم کی ہونی چاہئے ۔یا وہ پہلے ہی اس قسم کامطالبہ کرے کہ جب نئی دنیا وجود میں آئے گی تو مجھے کیا ملے گا۔( EXPERIENCE AND NATURE)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ آپ اس کاتجربہ اپنے یہاں روزمرّہ کی زندگی میں کیجئے غلط مذہبی ذہنیت رکھنے والے افراد معاشرہ کی معصوم شگفتگیوں سے چیں بچیں ہوتے ہیں او ران کی طرف سے سخت حقارت آمیز درشتگی اور خشونت سے منہ موڑ کر چل دیتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بوفو (جس کے کئی ایک اقتباسات پہلے درج کئے جاچکے ہیں) تہذیب کا مشہور مورّخ ہے۔ اس دنیا کی تہذیبوں کا مطالعہ کرکے ان کے عروج و زوال کے اسباب و علل پر فائز نگاہ ڈالی اوراپنے نتائج تحقیق کو اپنی شہرہ آفاق تصنیف (THE MAKING OF HUMANITY) میں قلمبند کردیا۔ وہ اس کتاب میں لکھتا ہے کہ:۔

ذہنی استبداد:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قوموں کی تباہی کا بنیادی سبب‘‘ استبداد’’ ہے اور تقلید ذہنی استبداد کا نام ہے جو جسمانی استبداد سے کہیں زیادہ تباہ کن ہے۔ وہ کہتاہے کہ جو باتیں کسی قوم میں متوارث چلی آتی ہیں، اوّل ، تو ان سے ہٹ کر چلنے کا تصور ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اور اگر کبھی ایسا خیال آتابھی ہے تو اس کیساتھ ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔جسم پر رعشہ طاری ہوجاتاہے۔ انسان سمجھتا یہ ہے کہ اس سے کسی بہت بُرے گناہ کا ارتکاب ہوگیا ہے (74) ۔ وہ کہتا ہے کہ ‘‘مشرق کے جمود کا سبب ہی یہ ہے کہ اس میں ہر چیز مقدس سمجھی جاتی ہے جسے چھونا بہت بڑا گناہ تصور کیاجاتا ہے’’(112)۔جرمن مورّخ (SPANGLER) کی کتاب (THE DECLINE OF THE WEST) ہمارے دور کی ایک اور اہم تصنیف ہے۔ وہ اس میں لکھتا ہے کہ ہر پیغام کی ایک روح ہوتی ہے جسے اس کا کلچر کہتے ہیں۔ یہ کلچر اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق مشہور پیکروں میں سامنے آتاہے ۔اسے تہذیب (CIVILISATION) کہتے ہیں۔ تہذیب بدلتی رہتی ہے اور کلچر مستقل طور پر غیر متبدّل ہے ۔لیکن رفتہ رفتہ قومیں کسی ایک دور کی تہذیب کو کلچر (یعنی روح) سمجھنے لگ جاتی ہیں او راسی کو غیر متبدّل قرار دے لیتی ہیں۔ اس سے پہلے تووہ روح (کلچر) تباہ ہوجاتی ہے اوراس کے بعد یہ تہذیب لارڈاسنل (LORD SNELL) لکھتا ہے کہ:۔

زندگی کا اصول یہ ہے کہ تنزّل کے خطرے سے محفوظ رہنے کاطریقہ فقط ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ انسان مسلسل ترقی کرتارہے ۔ایک مقام پر کھڑے رہ کر وقت گذارتے رہنا زندگی نہیں ۔

(THE NEW WORLD: p. 50)

اقبالؒ اس ضمن میں لکھتا ہے کہ:۔

قدامت پسندی ،مذہب کی دنیا میں بھی اسی طرح بری ہے جس طرح انسانی زندگی کے اور شعبوں میں ۔ اس سے انسانی انا کی قوت تخلیق تباہ ہوجاتی ہے او رنئے نئے روحانی تجارب کا راستہ مسدود ہوجاتا ہے۔(173)

لہٰذا ایک زندہ مذہب کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اسلاف کی علمی کوششوں سے فائدہ ضرور اٹھائے لیکن زندگی کو ماضی کی زنجیروں کے ساتھ جکڑ نہ دے بلکہ ہر دور کے انسان کو آزاد چھوڑ دے ککہ وہ مستقل اور غیر متبدل اصولوں کی روشنی میں اپنے زمانے کے تقاضوں کا حل آپ تلاش کرلے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خدا اور بندے کا تعلق:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فکر جدید کے نزدیک صحیح مذہب کا بنیادی فریضہ یہ بھی ہے کہ وہ خدا او ربندے کے تعلق کو واضح کرے اور ان کے دوائر قدرت اوراختیار کو متعین کردے۔ (SHEEN) اس باب میں لکھتا ہے کہ:۔

مشرق کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ اس نے سمجھ رکھا ہے کہ خدا ہی سب کچھ کرتاہے اور مغرب کی بڑی غلطی یہ ہے کہ اس نے سمجھ رکھا ہے کہ انسان ہی سب کچھ کرتاہے۔ مشرق عقیدہ جبر (قسمت) کاقائل ہوچکا ہے او رمغرب میں انانیت پھیل گئی ہے ۔ (یہ دونوں تصورات افراط تفریط کے مظہر ہیں) ۔ (253)

صحیح مسلک کیا ہے اس کے متعلق (BRIGHTMAN) لکھتا ہے کہ:۔

جو انسانی ذات کی قدر وقیمت جانتا ہے اس کے نزدیک صحیح مسلک یہ ہے کہ انسان خدا کے غیر متبدّل مقاصد کے بروئے کار آنے میں تمدّدِ معاون بن جائے او رموجودات عالم پر قدرت حاصل کرکے اس سے نئی تخلیق ،خدا اور بندے کی مشترکہ ذمہّ داری قرار دے لے۔ اس سے زندگی اپنی انتہائی بلندیوں تک پہنچ جائے گی۔(188)

یعنی انسان اور خدا کا تعلق رفاقت کا ہوناچاہئے ۔انسان خدائی مقاصد بروئے کارلانے میں ممدومعاون ہواو رعمل تخلیق میں اپنی مشترکہ ذمہ داری سمجھے ۔دوسری جگہ پروفیسر (BRIGHTMAN) لکھتا ہے کہ ‘‘مذہب کا فریضہ یہ ہے کہ وہ انسان میں ایک قابل قدر شعور پیدا کردے’’۔ اس وحدت مقصد اور اشتراک شعور سے وحدت انسانی پیدا ہوجاتی ہے۔

اس کے علاوہ کوئی اور اصول انسانوں میں وجہ جامعیت نہیں ہوسکتا ۔اگر وحدت مقصد نہ ہو تو نسلی یا جغرافیائی وحدت تشتّت و انتشار کے سوا کوئی نتیجہ پیدا نہیں ہوسکتی ۔(211)

لہٰذا صحیح مذہب وہ ہے جوخدا اور بندے میں عمل تخلیق و اشتراک سے رفاقت و تعاون کا تعلق پیدا کردے اور وحدت مقصد کی بنا پر تمام انسان ایک ہی نظام کے پرُزے اور ایک ہی کُل کے جزوبن جائیں۔ اس کے بعد (BRIGHTMAN) کہتا ہے کہ:۔

کسی مذہب کی صداقت کا معیار انسان کی موجودہ ترقی سے نہیں لگانا چاہئے بلکہ دیکھنا یہ چاہئے کہ وہ انسان کی ترقیوں کیلئے سمت کون سی متعین کرتاہے۔( 267)

انسان کامستقبل:۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی صحیح مذہب کا معیار یہ ہوگا کہ وہ انسانی ترقی کے لئے صحیح سمت بھی متعین کرے وہ انسان کے مستقبل کی امیدوں کی نشاندہی کرے(BUBER) لکھتا ہے کہء۔

کانٹ نے حسب ذیل سوالات پیش کئے تھے:۔

(1) میں کیا کرسکتا ہوں۔(2) مجھے کیا کرناچاہئے ۔(3) میرے لئے مستقبل کیاہے؟ (4) انسان کیا ہے؟

مابعد الطیبعیات پہلے سوال کاجواب دیتی ہے۔ اخلاقیات دوسرے کا مذہب تیسرے سوال کا جواب دیتا ہے اور علم الانسان چوتھے کا ۔(BETWEEN MAN AND MAN: p. 119) لہٰذا مذہب کافریضہ یہ ہے کہ وہ انسان کے مستقبل کی نشاندہی کرے۔ یہ مستقبل وہ ہے جس کی سمت نوع انسانی کا قدم اُٹھ رہا ہے۔

پروفیسر (CASSIRER) کے الفاظ میں:۔

اگر الفاظ انسانیت (HUMANITY) کے کچھ معنی ہیں تو وہ یہی ہیں کہ ان تمام اختلافات کے باوجود جو اس کی مختلف شکلوں میں پائے جاتے ہیں یہ سب ایک مشترکہ نصب العین کی سمت مصروف عمل ہیں۔ اس طول طویل سفر کے بعد وہ منزل آئے گی جہاں ان تمام تضادات میں ہم آہنگی پیدا ہوجائے گی۔ اگر ہم اس منزل کو متعین کرلیں تو ہمارے تضادات کی نکھری ہوئی شعاعوں میں ابھی سے یک نگہی پیدا ہوجائے او ریہ سب ایک ہی فکر کے آتشیں شیشے سے گزرنے لگ جائیں (71)۔

مذہب کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس منزل کی نشاندہی کرے جو تمام نوع انسانی کی جدّوجہد کا ماحصل ہے۔

صرف لفظی عقائد نہیں:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ظاہر ہے کہ مذہب کی بنیاد غیر متبدّل اصولوں پر ہوتی ہے جنہیں عقائد کہا جاتاہے لیکن جو مذہب محض عقائد کو دجہ نجات وسعادت قرار دیتا ہے وہ کبھی صحیح مذہب نہیں ہوسکتا۔برگسان (جو عمل اور مسلسل تخلیق کے نظریہ کا امام ہے) لکھتا ہے کہ:۔

جو زندہ تصور الفاظ کے پیکر میں محبوس ہوجائے وہ بے حس وحرکت اور جامدبن کر رہ جاتا ہے ،الفاظ اس تصور کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔حروف کے پیکر روح کو ذبح کردیتے ہیں ۔۔۔۔ اگر چہ کچھ وقت یوں محسوس ہوتا رہتا ہے کہ وہ تصور زندہ ہے جس طرح انسان کے مرجانے کے بعد کچھ وقت کے لئے اس کے چہرے کے خط و خال بدستور قائم رہتے ہیں (لیکن حقیقت وہ مرچکا ہوتاہے)۔ (CREATIVE EVOLUTIN: p. 134)

دوسری جگہ برگسان کہتاہے کہ ‘‘جیسے ہم خود ہوتے ہیں ویسے ہی ہم سے عمل سرزد ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت ہے کہ جیسے ہم عمل کرتے ہیں اسی قسم کے ہم خود بن جاتے ہیں۔’’ (7)

اوسپنسکی ،گرچیف کے الفاظ میں کہتاہے کہ ‘‘مذہب صرف خیال کرنے یا محسوس کرنے کی چیز نہیں۔ یہ تو انسانی زندگی سے مشہود کرنے کی چیز ہے’’(299) ۔عقل کے معنی یہ ہیں کہ انسان اس حقیقت کو محسوس کرے کہ اس کی زندگی اس کے اعمال کے نتائج ہی سے مرتب و متشکل ہورہی ہے۔ یعنی جس طرح وہ طبعی طور پر وہی کچھ بنتا ہے جو کچھ وہ کھاتا ہے ۔اسی طرح انسانی نقطہ نگاہ سے انسان کی زندگی پیکر ہوتی ہے اس کے اعمال کے نتائج کا۔ اسی کو مکافات عمل کہتے ہیں ۔ایک صحیح مذہب میں مکافات عمل کا طریق کار (PROCESS) ہر آن جاری و ساری رہتا ہے ۔وہائٹ ہیڈ لکھتا ہے کہ:۔

یوم الحساب ایک اہم تصور ہے لیکن یو م الحساب تو ہر آن ہمارے ساتھ لگا ہوا ہے۔۔۔۔ حال کا اثر مستقبل پر کیا پڑے گا یہ ہے اخلاقیات سے مقصود ۔

(ADVENTURE OF IDEAS: p. 346)

عیسائیت کا مذہب :۔۔۔۔۔۔۔بناء بریں فکر جدید کو ایک ایسے مذہب کی تلاش ہے جو صرف عقیدہ ہی کو نجات اور سعادت کا ذریعہ قرار نہ دیتا ہو۔بلکہ زندگی کی تشکیل عمل سے کرتا ہو۔ یہ بات بالکل واضح سی ہے لیکن صرف جدید کو اس پر زور دینے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ جو مذہب (عیسائیت) ان کے سامنے تھا اس میں نجات کا مدار صرف عقیدہ پر ہے ،عمل کو اس میں کوئی دخل نہیں چنانچہ انجیل میں (سینٹ پال) لکھتا ہے:۔

تم کو ایمان کے وسیلے ہی سے نجات ملی ہے اور یہ تمہاری طرف سے نہیں۔ خدا کی بخشش ہے اور نہ اعمال کے سبب سے ہے۔( افسیون 2/8-9)

دوسری جگہ ہے:۔

چنانچہ ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ انسان شریعت کے اعمال کے بغیر ایمان کے سبب سے راستباز ٹھہرتا ہے۔ (رومیون 3/28)

اسی لئے سینٹ پال کے نزدیک جھوٹ بولنا بھی کوئی گناہ نہیں چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ :۔

اگر میرے جھوٹ سے خدا کی سچائی اس کے جلال کے واسطے زیادہ ظاہر ہوئی تو مجھ پر گنہگار کی طرح کیوں حکم لگایا جاتاہے۔( رومیون 3/7)

اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح رہے کہ ایک صحیح مذہب میں عقائد کی پختگی کو بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا کیونکہ عقائد ہی تو وہ مستقل اصول ہیں جن کی بنیادوں پر زندگی کی ساری عمارت استوار ہوتی ہے۔ چنانچہ اس باب میں ( FRANCIS GRIERSON) لکھتاہے کہ ‘‘اگر عقائد کی پختگی نہ رہے تو دونسلوں کے بعد قوم دہریہ بن جاتی ہے۔’’(THE INVINCIBLE ALLIANCE--QUOTED BY MASON ) لہٰذا صحیح مذہب میں پختگی عقائد اور عمل پیہم دوونوں ساتھ ساتھ رہنے چاہئیں۔

اسے عالمگیر ہوناچاہئے:۔۔۔۔۔۔۔۔ فکر جدید یہ بھی چاہتا ہے کہ اس بلند مذہب کو عالمگیر ہوناچاہئے ۔ اس کی تعلیم ایسی ہونی چاہئے جو عام انسانی کے لئے قابل قبول ہو۔ بلکہ وہ خود قانون فطرت پر متفرّع ہو۔ چنانچہ اس باب میں پروفیسر (COBAN) لکھتا ہے:۔

اب صرف اتنا پوچھنا باقی رہ گیا ہے کہ عقل کے علاوہ کوئی ایسی بنیاد بھی ہے جس پر ہم قانون حکومت کی دوبارہ تشکیل کرسکیں؟ اگر دنیا میں کوئی عالمگیر مذہب ہوتا تو اس کے آسمانی قوانین پر جدید نظام حکومت کی بنیاد رکھی جاسکتی تھی۔ لیکن ایسی دنیا میں جہاں مختلف مذاہب موجود ہوں یہ کوشش کرناکہ ان میں سے کسی ایک ضابطہ کے مطابق قانون فطرت قائم کردیا جائے، نہ یہ کہ نظری طور پر اس کا جواز مشکل ہوگا۔ بلکہ عملی طور پر اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم پھر سے لڑائیوں کے دور کو واپس بلالیں گے۔( THE CRISIS OF CIVILISATION: p. 92)

ہمارے اس کہنے سے کہ کیا ایسا قانون ہے جو انسانی فطرت کے اندر موجود ہو دراصل مطلب یہ ہے کہ کیا کہیں کوئی ایسا ضابطہ اخلاق ہے جو تمام نو ع انسانی کے لئے قابل قبول ہو اور جسے خود انسانی انداززندگی سے اخذ کرکے مرتّب کیا جائے؟ محض عدل و انصاف کے نظری اصول کے طور پر نہیں بلکہ جس طرح حق (RIGHT) کے مثبت تصورات کو فی الواقع محسوس کیا جاتا ہے اگر کہیں کوئی ایسا ضابطہ ہے تو وہی نظام فطرت انسانی بن سکتا ہے۔ (105)

اس کے بعد وہ حقوق انسانی اور فطرت انسانی کے اجمال کی وضاحت کرکے اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ‘‘ ایسا مان لینا غیر معقول نہیں کہ اس قسم کے عالمگیر اخلاقی تصورات کاوجود ثابت کیا جاسکتا ہے(لیکن) ضابطہ اخلاق ایسی چیز نہیں جسے عقل سے ثابت کیا جاسکے۔ اس لئے کہ اس کی بنیاد ہی حق و باطل اور خیر و شر کی تمیز پر ہوتی ہے اور اس یقین پر کہ انسان کو حق اور خیر قبول کرناچاہئے او رباطل و شر سے مجتنب رہنا چاہئے ۔ لہٰذا فطرت انسانی کے اس اخلاقی تحکم کو عقلاً کس طرح ثابت کیاجاسکتا ہے۔اگر کوئی پوچھے کہ انسان کو کیوں حق اختیار کرنا اور باطل سے اجتناب کرناچاہئے ۔ تو اس سوال کاجواب بجزان الفاظ کے جن میں یہ سوال پوچھا گیا ہے او رکیا دیا جاسکتاہے۔ اس کا جواب اس کے سوا کچھ او رنہیں ہوسکتا کہ جواب خود اس سوال کے اندر موجود ہے اس کے ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ اخلاقی ضابطہ جبلّی طور پر انسانوں کے اندر موجود نہیں ۔ اس لئے کہ باطل پرستی بھی دنیا میں کچھ کم نہیں ہے’’۔ (108)

پرنسپل کیرڈ لکھتا ہے کہ یہی وہ ضابطہ قانون ہوسکتاہے جس کی اطاعت کسی غیر کی اطاعت نہیں بلکہ خود فطرت انسانی کی اطاعت ہوگی:۔

صداقت مطلق کی زندگی کوئی اجنبی زندگی نہیں ہوتی۔ اگر وہ ہم سے کہیں باہر ہوتی ہے تو خود ہمارے اندر بھی وہی ہوتی ہے۔ اس کے سامنے جھُک جانے سے ہم کسی خارجی مستند قانون یا کسی بیرونی قوت کی محکومیت اختیار نہیں کرتے بلکہ ایک ایسے قانون کی متابعت کرتے ہیں جو خو دہماری فطرت کا قانون ہوتا ہے ایک ایسے حکمران کی اطاعت جس کا تخت حکومت خود ہمارے عمق قلب ہوتاہے۔

(INTRODUCTION TO THE PHILOSOPHY OF RELIGION: p. 237)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وحی کی ضرورت:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تصریحات بالا سے یہ حقیقت آپ کے سامنے آگئی کہ یورپ کافکر جدید جس قسم کے مذہب کی تلاش میں ہے ان کے نزدیک اس کے خط وخال کیاہیں؟ قبل اس کے کہ ہم دیکھیں کہ وہ کونسا مذہب ہے جو ان شرائط کو پورا کرسکتا ہے ایک اور گو شے کو بھی سامنے لانا ضروری ہے ۔میکانکی تصورحیات کی رو سے انسانی علم کا سرچشمہ فکر انسانی کو قرار دیا گیا ہے۔ وہ اس کے ماوراء کسی اور ذریعہ علم کے قائل نہیں ۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اب فکر جدید ذہن انسانی ہی کو علم کاآخری ذریعہ قرار دیتا ہے یا ماورائے فکر انسانی کسی اور ذریعہ علم کابھی قائل ہے۱؂؟ مذہب کی اصطلاح میں اس ذریعہ علم کو وحی کہا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ اس باب میں ‘‘ابلیس وآدم’’ عنوان وحی میں بھی تفصیلی گفتگو کی جاچکی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وحی کی اہمیت کی اندازہ اس سے لگائیے کہ ایڈنگٹن کہتا ہے کہ:۔

‘‘اصل سوال خدا کی ہستی کا نہیں اس امر کایقین ہے کہ خدا بذریعہ وحی انسانوں کی راہ نمائی کرتاہے۔’’ (SCIENCE AND THE UNSEEN WORLD: p. 44)

آپ غور سے دیکھئے تو یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ ہماری زندگی سے اس سوال کا واسطہ کیا ہے کہ خدا ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کیا؟ او راگر نہیں ہے تو کیا؟ آپ نے کہہ دیا نہیں ہے میں نے کہہ دیا خدا ہے۔ ہم دونوں میں فرق کیا ہے؟ یہ درست ہے کہ خدا کی ہستی کا اقرار ایک صداقت کا اقرار ہے۔لیکن سوال پھر وہی پیدا ہوتاہے کہ اس اقرار سے فائدہ کیا ہے؟ آپ دیکھیں گے کہ اس اقرار سے مفہوم اس کی طرف سے راہ نمائی کا اقرار ہے یعنی اس کا امر کا اقرار ہے کہ انسان تنہا عقل کے ذریعے حقیقت اورصداقت تک نہیں پہنچ سکتا۔ عقل ان تضادات کا حل پیش کرنے سے عاجز وقاصر ہے۔ جو انسانی زندگی میں ک وجہ فساد بن رہے ہیں ۔ اس لئے ایسے سرچشمہ کی تلاش کرتے ہیں جو عقل سے ماورا ہو اور صداقت اور حقیقت تک ہماری راہنمائی کرسکے۔ یعنی ہمیں ایسے محکم اصول دے سکے جو زندگی کی تضادات کاحل اپنے اندر کھتے ہوں۔اس سرچشمہ علم واقدار کا نام خدا ہے۔ اس سے واضح ہے کہ ہمیں خدا پر ایمان کی ضرورت ہی ہے اس لئے ہوتی ہے کہ ہمیں اس کی طرف سے مسائل حیات کے سلجھانے کی راہنمائی (GUIDANCE)ملتی ہے۔ اسی راہنمائی کو وحی کہا جاتاہے ۔ اسلئے ایڈنگلٹن ٹھیک کہتا ہے کہ اصل سوال خدا کی ہستی کا نہیں، خداکی طرف سے راہنمائی ملنے کا ہے۔ اگر ایک شخص خدا کی ہستتی کا قائل ہے (جیسا کہ مغرب کے بہت سے مفکر قائل ہیں) لیکن انسانی زندگی میں خدا کی راہنمائی کا قائل نہیں تو اس کا خدا پر ایمان کچھ معنی نہیں رکھتا ۔خدا پر ایمان اس کی طرف سے بھیجی ہوئی وحی پر ایمان ہے۔

اب آگے بڑھئے ۔فکر جدید نے اب اس حقیقت کو تسلیم کرلیاہے کہ فکر انسانی کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ادراک حقیقت کرسکے یا حقیقت کے متعلق صحیح علم دے سکے۔ برگسان(CREATIVE EVOLUTION) کے مقدمہ میں لکھتا ہے کہ:۔

ہماری فکر اس قابل ہی نہیں کہ وہ زندگی کی حقیقت کو ہمارے سامنے لاسکے یا زندگی کی ارتقائی حرکت کا صحیح اور پورا پورا مفہوم پیش کرسکے۔ (10)

آگے چل کر برگسان کہتا ہے کہ ‘‘انسانی فکر کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ یہ زندگی کا احاطہ کرنے کے لئے فطری طور پر ناقابل ہے’’ (174) ۔پروفیسر وہائٹ ہیڈ لکھتاہے کہ ہم ‘‘خدا کی فطرت کے متعلق کوئی دلیل پیش نہیں کرسکتے’’۔ (THE SCIENCE AND THE MODERN WORLD) خدا کی فطرت تو بہت آگے کی چیز ہے (BRIGHTMAN) تو کہتا ہے:۔

عقل انسانی کسی معاملہ کے متعلق بھی آخری دلیل ،مکمل شہادت او رمنطقی یقین بہم نہیں پہنچا سکتی ۔ انسانی علم قطعی یقین تک پہنچانے کے ناقابل ہے۔ (113)

جس طرح انسانی آنکھ خارجی روشنی کی محتاج ہے ۔ اس کے بغیر کچھ بھی نہیں دیکھ سکتی ۔اسی طرح انسانی عقل وحی کی روشنی کے بغیر یقین کے درجہ تک نہیں پہنچ سکتی ۔(SHEEN) کے الفاظ میں:۔

جس طرح ہمارے حواس اس وقت بہتر کام کرتے ہیں ۔جب ان کی تکمیل عقل کے ذریعہ سے ہوجائے اسی طرح ہماری عقل اس وقت بہتر کام کرسکتی ہے جب اس کی تکمیل ایمان (وحی) کے ذریعہ سے ہوجائے ۔جو آدمی عارضی طور پر عقل سے عاری ہوجائے (مثلاً شرابی) ۔ اس کے حواس وہی ہوتے ہیں جو پہلے تھے لیکن اس وقت وہ کبھی اپنے فرائض کو اس طرح انجام نہیں دے سکتے جس طرح عقل وہوش کی حالت میں سرانجام دیتے ہیں۔ جو حالت عقل کے بغیر حواس کی ہوتی ہے وہی کیفیت وحی کے بغیر عقل کی ہوتی ہے۔ (341)

تنہا عقل ہماری راہنمائی نہیں کرسکتی:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ برگسان تو کہتاہے کہ عقل تنہا ہمیں کسی اور سمت لے جاتی ہے۔اس لئے کہ عقل کا منصب انسان کو اس کی منزل انسانیت تک پہنچانا نہیں ۔ اس کا فریضہ انسانی زندگی کا تحفظ ہے۔ خواہ وہ کسی طریق سے ہو۔ چنانچہ وہ کہتا ہے کہ :۔

انسان تنہا عقل کی روشنی میں صحیح راہ پرچل ہی نہیں سکتا ۔عقل اسے کسی دوسرے راستہ پر ڈال دے گی۔ عقل ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کی گئی ہے ۔ جب ہم اسے اس مقصد سے بلند مقاصد کی طرف لے جانا چاہتے ہیں تو وہ اس بلند سطح کے متعلق ممکنات کاسراغ دے سکے تو شاید ورنہ وہ حقیقت کا پتہ تو کسی صورت میں دے ہی نہیں سکتی ۔ (THE TWO SOURCES OF RELIGION AND MORALITY: p. 201)

ہمارے زمانے کی دنیائے سائنس میں پروفیسر آئن سٹائن کاجو مقام ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس نے اپنی عمر کے آخری حصہ میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہی (OUT OF MY LATER DAYS) ہے ۔ وہ سائنس اور فلسفہ کے میدان میں عمر بھر کی شاہسواری کے بعد لکھتا ہے کہ:۔

سائنس صرف یہ بتاسکتی ہے کہ ‘‘کیا ہے’’ وہ یہ نہیں بتاسکتی کہ ‘‘کیا ہونا چاہئے’’ ۔ اس لئے اقدار کی قیمت متعین کرنا اس کے دائرہ سے باہر ہے۔ اس کے برعکس مذہب کا کام یہ ہے کہ وہ انسانی فکر و عمل کی قیمت متعین کرے۔۔۔۔۔ سائنس کے علمبردار وں نے اکثر اوقات اس امر کی کوشش کی ہے کہ وہ سائنس کی رو سے اقدار کے متعلق قطعی فیصلہ نافذ کردیں۔ (یہ ان کی غلطی ہے جس کی وجہ سے )وہ مذہب کے خلاف محاذ قائم کرکے بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ سائنس کے نزدیک بس ایک ‘‘شے’’ ہوتی ہے۔ اس کی دنیا میں آرزوں ،اقدار خیر’ شر’ نصب العین حیات کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ ۔۔۔ سائنس نہ تواقدار متعین کرسکتی ہے او رمذہبی انہیں انسانی سینے کے اندر داخل کرسکتی ہے۔ سائنس زیادہ سے زیادہ ایسے ذرائع فراہم کرسکتی ہے جن سے انسان مقصد حاصل کرلے۔ مقصد کا تصور وتعین صرف بلند ہستیاں کرسکتی ہیں۔ اور اگر ان کے متعین کردہ مقاصد بے جان ہوکر نہیں رہ گئے تو انہیں وہ لوگ آگے بڑھا سکتے ہیں جو نیم شعوری طور پر نوع انسانی کے ارتقاء کایقین کرتے ہیں۔

اس کے بعد پروفیسر موصو لکھتا ہےء۔

ہم نے تلخ تجارب کے بعد یہ سیکھا ہے کہ معاشرتی زندگی کی گتھیاں تنہا عقل کی رو سے نہیں سلجھ سکتیں ۔سائنس کی تحقیقات اکثر اوقات نوع انسانی کیلئے بڑی مہلک ثابت ہوئی ہیں۔ ان سے انسان کو طبعی زندگی میں آرام اور عشرت تو ضرو ر مل گئی لیکن اس کی داخلی دنیا میں عجب قسم کاکرب و اضطراب پیدا ہوگیا ۔جس سے وہ اپنے ٹیکنیکل ماحول کاغلام بن کر رہ گیا۔ اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ اسے خود اپنی تباہی کے لئے بڑے بڑے ہلاکت آفریں سامان مل گئے۔۔۔۔۔۔ اس لئے ہمیں تنہا عقل کو اپنا خدا نہیں بنا لینا چاہئے۔ اس خدا کے عضلات (MUSCLES) تو بہت مضبوط ہیں لیکن اس کی ذات (PERSONALITY) نہیں ہے۔ یہ صرف خدمت اچھی طرح سے کر سکتا ہے۔ راہ نمائی نہیں کرسکتا ۔عقل ذرائع اور اسباب پر تو خوب نگاہ رکھتی ہے لیکن مقاصد اور اقدار کی طرف سے بالکل اندھی ہوتی ہے۔

اس اقدار کا سرچشمہ کیا ہے؟ اس کے متعلق آئن سٹائن کہتا ہے کہ:۔

یہ اقدار تجربات کے بعد وضع نہیں کی جائیں۔ یہ مقتدر ہستیوں کی وساطت سے بذریعہ وحی ملتی ہیں ان کی وبنیادیں عقل پر نہیں ہوتیں لیکن وہ تجربہ کی کسوٹی پر بالکل پوری اترتی ہیں۔ اس لئے کہ صداقت کہتے ہی اسے ہیں جو تجربے سے درست ثابت ہو۔

برگسان اس کا نام ‘‘وجدان’’ (INTUITION) رکھتا ہے اور ایڈنگٹن اسے ‘‘اندرونی یقین’’ (INNER CONVICTION) کہہ کر پکارتاہے ۔جوڈ کے نزدیک وحی کی خصوصیت یہ ہے کہ:۔

یہ اپنی سند آپ ہوتی ہے۔ اس کے لئے ہم کوئی دلیل پیش نہیں کرسکتے۔ اس لئے کہ یہ استدد لی طریق کا نتیجہ ہوتی ہی نہیں ۔ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم بعد میں وحی کی تائید میں عقلی دلائل پیش کردیں ۔لیکن جس طریق سے وحی حاصل ہوتی ہے وہ استدلالی نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم جن علوم کو استدلالی کہتے ہیں ان کی اصل و بنیاد بھی غیر استدلالی ہی ہوتی ہے۔مثلاً علم ریاضی کے بنیادی اصول۔

(PHILOSOPHICAL ASPECTS OF MODERN SCIENCE)

پروفیسر جوڈ دوسری جگہ لکھتا ہے کہ:۔

عقل جن حقائق کا احاطہ بتدریج کرتی ہے۔ روح نہیں وجدانی طور پر فو راً پالیتی ہے۔(DECADENCE)

عقل کا طریقہ تجرباتی ہوتا ہے:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عقلی طریق یہ ہے کہ انسان ایک چیز کو اختیار کرتاہے اس پر مدّتوں محنت کرتاہے اور آخر الامر دیکھتا ہے کہ اس کا تجربہ ناکام رہا ۔وہ اسے چھوڑ دیتا ہے ۔ اور کوئی دوسری راہ اختیار کرتاہے او رایک مدّت تک اس راہ پر چلتا ہے۔اس طرح رفتہ رفتہ ناکام تجربوں کے بعد وہ آخرالامر صحیح راستہ پر جا پہنچتا ہے ۔ اور جب وہ اس راستہ پر پہنچتا ہے تو دیکھتا ہے کہ یہ وہی راہ تھی جو وحی نے تجویز کی تھی۔ لہٰذا عقلی کاوشیں او رفکر ی راہیں اس وقت کامیابی حاصل کرتی ہے جب وہ وحی کے راستے سے جاکر مل جائیں ( PLATO) کے الفاظ میں :۔

یہ (ارباب فکر) کچھ بنائیں گے۔ اسے پھر مٹائیں گے یہی کچھ کرتے رہیں گے تاکہ وہ انسانی راستوں کو حتی الامکان خدائی راستوں سے ہم آہنگ کرلیں ۔( REPUBLIC)

پروفیسر (CASSIRER) کہتا ہے کہ:۔

یہ حقیقت کہ دنیا میں عقل بڑی پیہم چیز ہے اور اس کے فیصلے یونہی تسلیم کرلینے کے قابل نہیں ہو سکتے ۔ انسان کو کبھی معلوم نہ ہوسکتی اگر اس کی طرف وحی کی روشنی نہ آگی ۔وحی ہی نے آکر اسے اس حقیقت سے آگاہ کیا۔عقل اس قابل ہی نہیں کہ وہ صداقت حکمت اور وضاحت کی طرف راہنمائی کرسکے۔ اس لئے کہ یہ خود اپنے مفہوم ومطالب کے اعتبار سے مبہم ہوتی ہے۔۔۔۔ انسان اسی وقت حق و صداقت کی آواز سن سکتا ہے جب وہ پہلے اپنے آپ کو خاموش کرے۔

(AN ESSAY ON MAN)

یڈنگلٹن کے نزدیک:۔

شعور کی بیداری کی یہ کیفیات ایسی ہی یقینی ہوتی ہیں جیسی وہ معلومات جو ہمیں اس کے ذریعہ حاصل ہوتی ہیں ۔(THE NATURE OF PHYSICAL WORLD)

ان حالات کے ماتحت اوسپنسکی کہتاہے کہ مذہب کی بنیاد صرف وحی پر ہوسکتی ہے:۔

اگر وحی کا تصور نہ ہوتو مذہب ہی باقی نہیں رہتا ۔ او رمذہب میں کوئی نہ کوئی عنصر تو ضرور ایسا ہوتا ہے جو عام فکر انسانی کے احاطہ علم سے باہر ہوتاہے۔ اس لئے اگر یہ کوشش کی جائے کہ جن باتوں کو انسانی عقل اچھا سمجھتی ہے انہیں ایک جگہ اکٹھا کرکے اس مجموعہ کانام مذہب رکھ لیا جائے تو اس سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ ایسی کوششوں کا نتیجہ مذہب نہیں بلکہ ایک فلسفہ زبوں ہوگا۔

(NEW MODEL OF UNIVERSE: p. 34)

لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ جو علم وحی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے وہ خلاف عقل ہوتا ہے۔ خلاف عقل او رماورائے عقل میں بڑا فرق ہے۔ جو وحی صحیح علم و بصیرت کے خلاف ہو، وہ وحی نہیں ہوسکتی ۔لاک (LOCK) کے الفاظ میں :۔

جو شخص وحی کے لئے جگہ بنانے کی خاطر عقل و بصیرت کو باہر نکال دیتا ہے وہ وحی اور عقل دونوں کے چراغ گل کردیتا ہے۔

(EASSAY - BOOK IV-- QUOTED BY BRIGHTMAN: p. 104)

پرنسپل کیئرڈ اس باب میں لکھتا ہے:۔

صداقت مطلق۔۔۔۔ کی زندگی کوئی (اجنبی زندگی نہیں ہوتی ۔اگر وہ ہم سے کہیں باہر ہوتی ہے تو خود ہمارے اندر بھی وہی ہوتی ہے۔ اس کے سامنے جھُک جانے سے ہم کسی خارجی مستبد قانون با کسی بیرونی قوت کی محکومیت اختیار نہیں کرتے بلکہ ایک ایسے قانون کی متابعت کرتے ہیں جو خود ہماری فطرت کا قانون ہوتاہے۔ ایک ایسے حکمران کی اطاعت جس کا تخت حکومت خود ہمارا عمق قلب ہوتا ہے۔ (237)

مقام وحی:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وحی کا مقام کیا ہے؟ یہ کس طرح سے حاصل ہونی ہے؟ اس کا سرچشمہ خداہے او رمہبط انسانی قلب ’ انسانی قلب ان بلندیوں تک کیسے پہنچتا ہے؟ اس نقطہ تک پہنچنے کے لئے اس بحث کو ایک مرتبہ پھر سے سامنے لائیے جو عقل کے دائرہ کے متعلق اس سے پہلے ہمارے سامنے آچکی ہے (ملاحظہ ہو باب دوم) آپ نے سامنے دیکھا ہوگا کہ (DR. BUCK) کی تصریحات کے مطابق (جن کی تائید (OUSPENSKY) کرتا ہے)شعور کی تین سطحیں ہیں۔ اوّل شعور سادہ (SIMPLE - CONSCIOUSNESS) ۔ یہ شعور کی حیوانی سطح ہے جہاں فقط جبلّت (INSTINCT) کام کرتی ہے۔ اس سطح پر معلومات کا ذریعہ مجّرد حواس (SENSES) ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ علم تمام حسیّاتی (PERCEPTUAL) ہوتا ہے۔

اس سے آگے شعور ذات (SELF CONSCIOUSNESS) کامقام آتا ہے جو عام انسانی شعور کی سطح ہے۱؂۔ یہاں عقل (INTELLECT) کام کرتی ہہے اور علم کا ذریعہ حسّیاتی سے گزر کر تصوراتی (CONCEPTUAL) ہوجاتاہے۔ یعنی انسان (PERCEPTION) کے ذریعہ تصورات (CONCEPTS) قائم کرلیتا ہے اور ان تصورات سے اس کی عقل نتائج متنبط کرتی ہے۔ اس مقام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں:۔

انسان جانتا ہہے کہ وہ جانتا ہے۔ (MAN KNOWS THAT KNOWS)

اس کا نام بک کے نزدیک شعور ذات ہہے۔حیوان صرف جانتے ہیں ۔ ان میں ‘‘ میں جانتا ہوں’’ کا تصور نہیں ہوتا ۔‘‘ میں جانتا ہوں’’ صرف انسان ہی کہہ سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ ڈاکٹر بک نے انسانی شعور ذات قرار دے دیا ہے۔ حالانکہ شعور ذات عقل سے بلند ہوتاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سے آگے شعور کائنات (COSMIC CONSCIOUSNESS) کا مقام ہے۔ یہ سطح عقل سے بلند ہے۔ شعور ذات کے مقام تک کائنات کے تمام حوادث (EVENTS) انسان کے سامنے الگ الگ ٹکڑوں میں آتے ہیں ۔عقل انسانی ان کے ربط داخلی (INNER RELATIONS) کااحاطہ نہیں کرسکتی اس لئے عقلی دنیا میں انتشار (CHAOS) ہوتاہے۔ اس بلندسطح پر اس انتشار کی جگہ ربطہ ونظم (COSMOS) پیدا ہوجاتاہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ سینما کے فلم کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بچوں کو کھیلنے کے لئے دے دیئے جاتے ہیں۔ ان میں ہر ٹکڑا ایک ایک منظر پیش کرتاہے۔ ایک تصویر میں دریا ہے جس کے کنارے دو آدمی کھڑے ہیں ۔ ایک تصویر میں ایک آدمی کنارے پر ہے۔ دوسرا دریا میں ایک دوسرے ٹکڑے میں دوسرا آدمی ہسپتال میں دکھائی دیتا ہے ۔ ان مختلف بکھرے ہوئے ٹکڑوں سے تمام حوادث منتشر طور پر نظر آتے ہیں ۔لیکن جب ان تمام ٹکڑوں کو جوڑ کر فلم بنا دیا جائے تو یہ فلم ایک مربوط کہانی پیش کردیتا ہے جس میں ہر ٹکڑا ایک خاص مقام رکھتا ہے اور دوسرے ٹکڑوں کے ساتھ گہرا ربط ،کائناتی شعور میں حوادث کائنات کے متفرق ومنتشر ٹکڑے ایک مربوط سلسلہ بن کر سامنے آجاتے ہیں اور یہ ربط دردن ،ایک خاص تدبیر الہٰی کے ماتحت عمل میں آیا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر بک نے اپنی کتاب میں اس نقطہ کو بڑی وضاحت سے سمجھا یا ہے اور اوسپنسکی نے اس کی حرف بحرف تائید کی ہے۔ اسی کو وہ مقام وحی کہتے ہیں ۔نانچہ ان کا بیان ہے کہ:۔

ایسا معلوم ہوتاہے کہ جس شخص کا کائناتی شعور بیدار ہوجاتاہے ،اس میں ابتداء کچھ خوف وحیرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی لئے شروع میں کچھ خوف زدہ سے ہوگئے تھے۱؂۔ لیکن اس کے بعد اس انسان کے ادراک میں ایک ایسی نورانیت پیدا ہوجاتی ہے جسے ہم الفاظ میں بیان نہیں کرسکتے ۔ اس انسان کے شعور کے سامنے کائنات کا مقصود مفہوم بجلی کی سی چمک کے ساتھ غیر مبہم طور پر بے نقاب ہوجاتا ہے ۔و ہ اس حقیقت کو محض عقیدتاً نہیں مانتا بلکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتاہے کہ یہ عظیم القدر کائنات جو عالم نگاہوں میں ایک غیر ذی حیات مادہ کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں، فی الحقیقت حیات مشہود ہے۔ وہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلیتا ہے کہ انسانی زندگی ہمیشہ رہنے والی ہے اسے فنا نہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ یہ تاریخ کا بیان ہے لیکن قرآن کریم سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی۔

۔۔۔۔۔۔

اسی مقام پر پہنچ کر وہ محسوس کرتاہے کہ کائنات جو کچھ دکھائی دیتی ہے فی الحقیقت ایسی نہیں۔اس میں جن باتوں کو دراصل اہمیت دینی چاہئے وہ ’وہ نہیں جنہیں عام طور پر اہمیت دی جاتی ہے۔ اس طرح کے نزدیک زندگی کی اقدار اور حقیقت کے متعلق اس کے شعور کے تمام تصورات بدل جاتے ہیں ۔جسے اس سے پہلے اصل سمجھا جاتاتھا وہ سر اب بن جاتا ہے ۔اور جسے سراب قرار دیا جاتا تھا وہ اصل اور حق بن جاتا ہے۔

لیکن شعور کی یہ بیدار ی کسی کے اندر خارج سے داخل نہیں کی جاسکتی ۔یہ ایک یکسر داخلی ملکہ ہوتا ہے۔ اس امکان کو جلااور بالیدگی دی جاسکتی ہے۔کسب وہنر سے اسے پیدا نہیں کیا جاسکتا ۔حق کو باطل سے متمیز دیکھ لینا ہر کا کام نہیں ۔لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ جسے اس قسم کے نگاہ عطا ہوتی ہے وہ یونہی مفت میں مل جاتی ہے۔ اس کیلئے اسے بڑے بڑے صبر آزما مراحل طے کرنے ہوتے ہیں۔ اس کے لئے جرأت فکر و بسارت احساس دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کیلئے اسے اپنے آپ کو مادہ کی چار دیواری سے بہت اوپر لے جانا پڑتا ہے۔

وہ اس طرح ایک ایسے مقام پر فائز ہوتاہے جہاں وہ ان تمام سیاسی اور معاشرتی مسائل کو جو دور حاضر ہ میں اس طرح ہمارے گلوگیر ہورہے ہیں اس انداز سے حل کرکے رکھ دیتاہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اسی سے ایک ایسی ملّت تیار ہوجاتی ہے جو اپنے مقام کو پہنچانتی ہے اور تمام اقوام وملل سابقہ کے اعمال وکردار کیلئے میزان بن جاتی ہے۔

اس کائناتی شعور کی بیداری کے بغیر زندگی میں نظم وربط ناممکن ہے۔ ایک عرصہ دراز سے مادہ کے ڈھیر کے نیچے دبے ہوئے انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ محض عقل کے زور پر دنیا میں زندہ رہا سکتا ہے لیکن آہستہ آہستہ یہ حقیقت ان پر منکشف ہوتی جارہی ہے جنہیں فطرت نے آنکھیں عطا کی ہیں ،کہ محض عقلی منطق سے دنیا میں زندگی میں نظم نہیں پیدا کیا جاسکتا ۔اگر موجودہ انسان اسی روش پر قائم رہے تو وہ اگر ان قبائل واقوام کی طرح جن کاوجود طبیعی طور پر دنیا سے مٹ چکا ہے ۔فنا نہ بھی ہوئے تو بھی اپنے لئے وہ ایسے حالات پیدا کرلیں گے (جو ابھی سے پیدا ہوچکے ہیں) جن کے ماتحت زندگی ناممکن ہوجائے گی۔ ایسے حالات جن میں ہر وہ متاع جو انسان کے پاس ہے اس سے چھن جائے گی۔

وہ متاع جو اسے انسانوں سے ملی تھی جن کاکائناتی شعور بیدار ہوچکا تھا او روہ اپنے آپ کو پہچانتے تھے۔ اس لئے مستقبل عام انسانوں کے ہاتھ میں نہیں ۔ وہ ایسے انسان کے ہاتھ میں ہے ‘‘فوق البشر’’ ہے، جو ہم میں پہلے ہی پیدا ہوچکا ہے او رزندہ پائندہ موجود ہے۔

(OUSPENSKY IN TERTIUM ORGANUM)

برگسان وحی کے امکان کی خفیف سی جھلک نابغہ (GENIUS) میں دیکھتا ہے جس کی پیدائش اس کے نزدیک ‘‘سائنس کے تمام مسلمات کے خلاف ہوتی ہے’’۔

(THE TWO SOURCES OF RELIGION AND MORALITY: p. 49)

برگسان تصوف کو بھی اس کا پرتو سمجھتا ہے لیکن (BARDAEU) کہتاہے کہ ایک پیغمبر کی وحی بالکل مختلف نوعیت کی ہوتی ہے ۔اس کے الفاظ میں:۔

نبوت خدائی ،الہام پرمبنی ہوتی ہے۔ صاحب وحی دنیا اور انسان کے مقدرات او رمستقبل کے متعلق خدا کی آواز سنتا ہے ۔حامل وحی اپنے آپ کو دنیا میں تنہا پاتاہے وہ جن لوگوں کو تباہی سے بچانے کی کوشش کرتا ہے وہ اسے پتھرمارتے ہیں لیکن بایں ہمہ وہ انہیں چھوڑ کر الگ نہیں ہوجاتا ۔ یہ وحی اکتسابی نہیں ہوتی جسے ارتقائی مدارج سے حاصل کیاجاسکے۔ یہ تو ایک داخلی شے ہے ایک پیغمبر کی وحی ہندوستان اور یونان کے صوفیوں کے کشف سے بالکل منفرد شے ہوتی ہے۔

(THE DIVINE AND HUMAN: p. 136)

باردیو کے اس تصور کو جس حسن ووضاحت سے اقبالؒ نے بیان کیاہے وحی نہیں چاہتا کہ آپ کو اس سے لطف اندوز ہونے سے محروم رکھا جائے۔ وہ اپنے ‘‘خطبات’’ میں پانچوں خطبہ کو اس طرح شروع کرتے ہیں:۔

محمدؐ عربی ،فلک الافلاک کی بلندیوں پر پہنچ کر واپس تشریف لے آئے۔ خداشاہد ہے کہ میں اگر اس مقام تک پہنچ جاتا تو کبھی واپس نہ لوٹتا۔’’ یہ الفاظ ایک بہت بڑے مسلمان صوفی بزرگ (حضرات عبدالقدوس گنگوہی) کے ہیں۔ تصوف کے لٹریچر میں ان جیسے الفاظ کاملنا غالباً مشکل ہے جو ایک فقرہ کے اندر شعور نبوت اور تصوف کے اس قدر لطیف نفسیاتی فرق کو اس طرح واضح کردیں۔ ایک صوفی اپنے انفرادی تجربہ کی تجرد گاہ سے واپس آنا نہیں چاہتا اور جب واپس آتا بھی ہے (اس لئے کہ اسے واپس آنا پڑتا ہے) تو اس کی یہ مراجعت نوع انسانی کے لئے کچھ معنی نہیں رکھتی۔ اس کے برعکس ایک نہی کی مراجعت تخلیقی ہوتی ہے۔ وہ آتا ہے کہ زمانے کے طوفان پر تسلط پاکرتاریخ کی قوتوں کو اپنے قابو میں لے آئے اوراس طرح مقاصد ومطامح کی ایک نئی دنیا تعمیر کردے۔ ایک صوفی کے لئے اس کے انفرادی تجربہ کی تجردگاہ آخری مقام ہوتی ہے ۔لیکن ایک رسول کے دل میں اس سے زلزلہ انگیز نفسی قوتیں پیدا ہوجاتی ہیں جن کا مقصد یہ ہوتاہے کہ تمام دنیائے انسانیت میں ایک انقلاب پیدا کردیں۔یہ آرزو کہ جو کچھ اس کی آنکھ نے دیکھا ہے وہ ایک جیتی جاگتی دنیا کے پیکر میں متشکل ہوجائے، نبی کے دل میں پیش پیش ہوتی ہے۔ اسی لئے ایک صاحب وحی کے ‘‘تجربہ’’ کی قدر وقیمت جانچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ دیکھا جائے کہ ‘‘ اس نے انسانیت کو جس قالب میں ڈھالا ہے وہ کیسا ہے؟ اور اس کے پیغام روح سے جس جسم کی دنیائے تقافت ابھر کر سامنے آگئی ہے وہ کس انداز کی ہے؟ (خطبات 118)

(BUCKE) اپنی کتاب میں ایسے بلند مرتبہ انسانوں کی کچھ خصوصیات بیان کرتاہے جو وحی سے بہرہ یاب ہوتے ہیں وہ کہتا ہے کہ:۔

یہ کائناتی شعور بالعموم طبقہ رجال (MALE SEX) میں نمودار ہوتاہے ۔یہ انسان ذہانت وفطانت کی بلندیوں پر ہوتے ہیں ۔ ان کااخلاقی بہت بلند ہوتاہے اور ان کی صحت بھی اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے۔ یہ عمر کے اس حصے میں آتی ہے جب انسان کے قویٰ او رجوہر اپنے اوج کمال پر ہوتے ہیں یعنی بالعموم پینتیس اور چالیس سال کی عمر کے درمیان ۔(CONSMIC CONSCIOUSNESS) آگے چل کر بک لکھتا ہے۔

جس طرح شعور ذات رکھنے والا انسان (خود وہ کتنا ہی نچلے درجہ کا انسان کیوں نہ ہو) جیوان سے ہر لحاظ سے بلند ہوتاہے کیونکہ شعور کی اس سطح پر پہنچانہیں ہوتا ۔اسی طرح جو انسان مستقل طور پر کائناتی شعور سے بہرہ ور ہوجائے وہ شعور ذات رکھنے والے عام انسانوں سے لامحدود طور پر بلند ہوتا ہے۔(67)

اس سے آگے چل کر بک لکھتا ہے کہ جس انسان کو شعور کائنات سے بہرہ یاب کیا جاتا ہے وہ اس چیز کو بغیر علم کے حاصل کرلیتا ہے (67)۔ یعنی وہ امّی ہوتاہے او رلکھنے پڑھنے کے بغیر علم کی انتہائی بلندیوں تک پہنچ جاتاہیے ان سعادت مآب انسانوں کے مدارج عالیہ کے متعلق (KENNETH WALKER) اپنی کتاب (MEANING AND PURPOSE) میں لکھتا ہے:۔

یہ روحانی راہنما دوسرے انسانوں سے اس قدر مختلف ہوتے ہیں کہ انہیں انسانوں کی ایک جداگانہ نوع کہنا چاہئے۔ یہ اور صرف یہی وہ لوگ ہیں جو انسانی تجربہ کے اس مقام پر پہنچے ہوتے ہیں جو برگسان اور اوسپنسکی کے خیال کے مطابق انسانیت کا آخری مقام ہے۔ وہ صفات جو انسان کو حیوان سے متمیز کرتے ہیں۔ یعنی شعور اور روحانی اقدار کا علم ان میں اپنی تکمیل کو پہنچاہوتاہے ۔یہ وہ لوگ درحقیقت حیات کی ایک نئی سطح پر جلوہ افروز ہوتے ہیں اور روحانی اعتبار سے دوسرے انسانوں سے اسی طرح مختلف ہوتے ہیں جس طرح تتلیاں ان پتنگوں سے مختلف میں سمجھ سکتے ہیں جب ہم اسے اس نقطہ نظر سے دیکھیں کہ یہ کسی ایسی منزل کی تلاش میں ہے جو اس کی دسترس سے باہر ہے۔ وہ مخصوص انسان پہنچ چکا ہے تمام انسان انسانوں کی اکثریت بھی پہنچ سکتی تو فطرت نوع انسانی تک ہی نہ رک جاتی۔ اس لئے کہ یہ انسان دوسرے انسانوں سے یقینا آگے ہوتے ہیں۔(96)

میکانکی تصور حیات اس مقام سے اس لئے انکار کرتاہے کہ یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی ۔اوسپنسکی لکھتا ہے کہ یہ اس لئے ہے کہ:۔

ہم پورا یقین کرلیتے ہیں کہ ہم سلسلہ ارتقاء کی آخری کڑی ہیں۔(ہم سے آگے کوئی بلندی ہے ہی نہیں) ہم ہمہ دان ہیں( یعنی کوئی شے ہمارے احاطہ علم سے باہر نہیں) ہم اس دنیا کی ہرشے ،ہر نظام ہر تصور کی کنہّ وحقیقت دریافت کرچکے ہیں۔ ان امور کا ہمیں اس قدر حتمی یقین ہوجاتا ہے کہ ہم اس قسم کے کسی تصور کے امکان تک کو بھی اپنے پاس نہیں آنے دیتے۔

(THE NEW MODEL OF UNIVERSE: p. 37)

حقیقت یہ ہے کہ انسان سمجھتا یہ ہے کہ جو چیز اس کی عقل کے دائرہ سے باہر ہے اس کا وجود محض وہمی ہے ، حقیقی نہیں ۔(PASCAL) نے اسے بڑے شگفتہ انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے:۔

ناقابل ادراک:۔

لیکن اگرتم کسی چیز کو سمجھ نہیں سکتے تو اس سے اس چیز کاوجود تو ختم نہیں ہوجاتا ۔ (اپنی جگہ پر قائم رہتی ہیہ)۔ (PENSEOS)

لہٰذا فکر جدید کے نزدیک یہ اعتراض ہی لغو ہے کہ چونکہ ہم وحی کی کنّہ وحقیقت کو نہیں سمجھ سکتے اس لئے ہم اس کے وجود (EXISTENCE) ہی کے قائل نہیں۔ پروفیسر (BROAD) لکھتا ہے کہ:۔

ہم سب بہت ہی باتوں کو دوسروں کی سند سے مانتے ہیں او راگر ہم ایسا نہ کریں تو ہماری یہ روش بڑی غیر معقول ہوگی۔ ہمیں صرف یہ دیکھ لینا ہوگا کہ کون سے معاملات (CASES) ایسے ہیں جن میں دوسروں کی سند سے مان لینا معقول ہے اور کون سے ایسے جن میں ایسا کرنا قرین عقل نہیں۔

(THE MIND AND ITS PLACE IN NATURE:- p. 484)

دوسروں کی سند:۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوجاتاہے کہ ہمارے لئے کس حد تک دوسروں کی سند( AUTHORITY) کوماننا ضروری ہیہ ۔راشڈل نے اپنی کتاب کی دوسری جلد میں اس موضوع پر بڑی شرح وبسط سے گفتگو کی ہے۔ وہ کہتاہے کہ ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں دوسروں کی راہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہر علم دفن کے چند مبادی اصول وقو اعد ہوتے ہیں (جنہیں (EXIOMS)یا (POSTULATES) کہا جاتا ہے)۔ اگر ہم اس علم وفن کے شروع کرنے سے پہلے ہی یہ تقاضا کریں کہ جب تک بنیادی اصو ل وقواعد ہماری سمجھ میں نہیں آئیں گے ہم اس علم کی ابتداء نہیں کریں گے تو ہم تاقیامت اس علم کو حاصل نہیں کرسکتے ۔تیرنا اسے ہی آئے گا جو پانی میں اُترجائے گا ۔ کنار ے پر کھڑے رہنے سے تیرنا نہیں آسکتا ۔جب آپ اس طرح کسی علم کے بنیادی اصولوں پر یقین رکھتے ہوئے تحصیل علم شروع کردیں گے تو پھر رفتہ رفتہ اور بنیادی اصولوں کی صداقت خود بخود سمجھ میں آتی جائے گی اسی کا نام سند (AUTHORITY) کو مانتا ہے ۔ وہ کہتاہے کہ دنیا کے بڑے بڑے اصول (جو آج اس طرح مسلمات میں داخل ہوچکے ہیں کہ ہم ان پر جرح و تنقید کی کبھی ضرورت ہی نہیں سمجھتے) ابتداء ‘‘ان انسانوں کے ذریعے سامنے آئے تھے جن کی تائید کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ان کے یقین محکم نے ہمیں ان صداقتوں سے روشناس کرادیا۔ سند (AUTHORITY) کے تسلیم کئے بغیر کوئی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا ۔ اس بحث کے آخر میں راشڈل لکھتاہے کہ جس چیز کو ہم شروع میں سند (AUTHORITY) مانتے ہیں کہ ہم اس اتھارٹی کے حکم کی تعمیل (طوعاً وکرہاً) کررہے ہیں ۔ رفتہ رفتہ یہ حقیقت ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ ہم اس حکم کی تعمیل میں کسی شخص کی فرمانبرداری نہیں کررہے بلکہ ایک اصول کی پابندی کررہے ہیں ۔ اس کے اپنے الفاظ میں :۔

جو ں جوں ایک فر د کسی حکم کی روح سے ہم آہنگ ہوتا جاتاہے وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ کسی خارج سے مسلط کردہ جبری حکم کی تعمیل نہیں کررہا بلکہ اپنی ہی بلند فطرت کی اتباع کررہاہے۔ وہ جو پہلے اپنے آپ کو کسی حاکم کا محکوم سمجھتا تھا اب خود ہی حاکم اور خود ہی محکوم بن جاتا ہے ۔ اس لئے اخلاقیات کے دائرہ میں سند سے انکار کرنے کا نتیجہ اخلاقی فوضویت (ANARCHY) ہوگا۔ (صفحہ 18/7-188)

لہٰذا کسی کا یہ کہنا کہ ہم وحی اور نبوت کی حقیقت کو سمجھے بغیر کسی طرح وحی پر یقین کرلیں کوئی معقول اعتراض نہیں ہے اس سے نہ انسانی عقل کی توہین ہوتی ہے نہ اس کے شرف کی تحقیر ۔یہ ایک حقیقت کا اعتراف ہے اور عقل سے بلند ذریعہ علم سے تعارف یہ اعتراض خود عقل کیلئے قابل شرف اور وجہ بالیدگی ہے اس لئے کہ عقل اس کی روشنی میں ان راستوں کو چند لمحوں میں طے کرلیتی ہہے جن میں وہ اس روشنی کے بغیر مدّت العمر تک ٹامک ٹوئیاں مارتی رہتی ہے اور صحیح راستہ کا نشان اپنے سامنے نہیں پاتی۔۔

-----------------

Part: 1- 'What did the man think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Preface—Part 1 انسان نے کیا سوچا

Part: 2 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: First Chapter on Mechanical concept of life—part 2 انسان نے کیا سوچا: باب اوّل،میکانکی تصوّر حیات

Part: 3 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 3 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

Part: 4 – 'What Did The Man Think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 4 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

Part: 5 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 5 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

Part: 6 –  'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 6 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

Part: 7 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 3, Ethics — Part 7 انسان نے کیا سوچا : باب سوم، اخلاقیات

Part: 8 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 3, Ethics — Part 8 انسان نے کیا سوچا : باب سوم، اخلاقیات

Part: 9 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 4, Politics — Part 9 انسان نے کیا سوچا : باب چہارم، سیاسیات

Part: 10 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 4, Politics — Part 10 انسان نے کیا سوچا : باب چہارم، سیاسیات

Part: 11 –  'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 5, Economics — Part 11 انسان نے کیا سوچا : باب پنجم، معاشیات

Part: 12 – What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 5, Economics — Part 12 انسان نے کیا سوچا : باب پنجم، معاشیات

Part: 13 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 6, WESTERN CIVILISATION —Part 13 انسان نے کیا سوچا :باب ششم، تہذیب فرنگ

Part: 14 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 6, WESTERN CIVILISATION — Part 14 انسان نے کیا سوچا :باب ششم، تہذیب فرنگ

Part: 15 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 7, The ideal world of Western thinkers— Part 15 انسان نےکیاسوچا :باب ہفتم، مفکرین مغرب کے تصو رات کی مثالی دنیا

Part: 16 – 'What Did The Man Think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 8, Conflicts And Contradictions — Part 16 انسان نےکیاسوچا :باب ہشتم،تضادات

Part: 17 – 'What Did The Man Think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 9, Religion — Part 17 انسان نے کیا سوچا : باب نہم، مذہب

URL: https://www.newageislam.com/books-documents/ghulam-ahmad-parwez-man-think-religion-part-18/d/130836

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..