غلام احمد پرویز
باب نہم، مذہب
بدن راتا فرنگ ازجاں
جدادید نگاہش ملک دیں راہم دوتاید
کلیسا سبحہ پطرس
شمارد کہ اوباحاکمی کارے
ندارد
بکار حاکمی مکروفنے
بیں تن بے جان وجان بے تنے
بیں
مذہب
(RELIGION)
دنیا کا کوئی ملک ہو اور
کوئی قوم اس کے لٹریچر میں (اور اگر وہ قوم ایسی ہے جس نے ابھی تک لکھنا پڑھنا
نہیں سیکھا تو ان کی زبانی روایات میں) جو لفظ سب سے زیادہ مستعمل ملے گا وہ مذہب*
ہوگا۔ مذہب کی تفاصیل میں اختلاف ہو، اس کے بنیادی تصور تک میں تضاد ہو، اس کے
تضمنات میں تبائن ہو،لیکن نفس مذہب کسی نہ کسی شکل میں ہر جگہ موجود ملے گا ۔محکمہ
آثار قدیمہ کی فرہادی کو ششوں سے زمانہ قبل از تاریخ کی بربادشد ہ بستیوں کے جو
کھنڈرات بے نقاب ہوئے ہیں ان میں کچھ او رملے یا نہ ملے مذہبی تصورات کا نشان کسی
نہ کسی شکل میں ضرور ملے گا ۔اور آج جب کہ بظاہر دنیا کا کثیر حصہ مذہب کے خلاف
نظر آتا ہے ، دنیا کے لٹریچر میں سب سے زیادہ تذکرہ مذہب اور اس کے متعلّقات ہی کا
ملے گا پلوتارک نے بالکل صحیح کہا ہے کہ کسی انسان نے کوئی ایسی بستی نہیں دیکھی
جس میں مذہب نہ ہو۔
(HUMANITY AND DEITY BY W.MURBAN)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٌ* قرآن نے مذہب کا لفظ
کہیں استعمال نہیں کیا۔ وہ دین کا لفظ استعمال کرتا ہے،جس کے معنی ضابطہ زندگی
یاقانون حیات کے ہیں۔ وہ زندگی کی رہنمائی کے لئے چند غیر متبدّل اصول یا مستقل
اقدار دیتا ہے ۔ یہ اصول ملتے تو اس سرچشمہ علم سے ہیں جو عقل سے ماوراء ہے۔لیکن وہ
اس قدر علم وبصیرت اور عقل وشعور کے مطابق ہیں کہ قرآن نہیں عقل کی بناء پر
منواتاہے۔ اس کے نزدیک وہ ایمان ، ایمان ہی نہیں جس کی تائیدانسانی عقل وبصیرت نہ
کرے۔ ان غیر متبدّل اصولوں کی چاردیواری کے اندر رہتے ہوئے ہر دور کے انسان اپنے
زمانے کے تقاضے کے مطابق جزئی قوانین خود مرتّب کرتے ہیں۔ جو معاشرہ اس طرح قائم
ہوتاہے اسے ‘‘جماعت مومنین کا نظام’’ کہتے ہیں ۔مومن کے معنی ہیں دنیا کو امن کی
ضمانت دینے والا ۔ اس معاشرہ کا نصب العین یہ ہوتاہے کہ فطرت کی قوّتوں کو مسخّر
کرکے اس نوع انسان کی فلاح وبہبود کے لئے صرف کیا جائے۔ ان امور کی تفصیل دوسری
کتاب میں ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مذہب کیا ہے؟:۔۔۔۔۔۔ لیکن
اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی محتاج دلیل نہیں کہ آج تک یہ متعین نہیں ہوسکا کہ مذہب
کہتے کسے ہیں ؟ کسی شخص سے پوچھئے ! مذہب کے متعلق اس کے ذہن میں الگ تصور
ہوگا۔یعنی یہ عجیب تماشا ہے کہ جو شے دنیا میں اس درجہ عام ہے اس کے متعلق یہ
متعین نہیں ہوسکا کہ وہ ہے کیا؟ دنیا کے بڑے بڑے مفکّرین ومورخین اور مصنفّین نے
مذہب کے تعریف (DEFINITION) بیان کرنے میں بڑی کاوش کی ہے۔ لیکن اگر آپ ان تمام (DEFINITION) کو دیکھیں تو آپ
حیران رہ جائیں گے کہ ان میں سے ایک (DEFINITION) دوسری سے نہیں ملتی
۔مثلاً کانٹ کہتاہے کہ ‘‘ہرفریضہ کو خدائی حکم سمجھنا ،یہ مذہب ہے’’۔۔۔۔۔۔۔ (FRIEDRICH
SCHLEIEMACHER)
لکھتاہے کہ ‘‘ہر انفرادی شے کو ایک عظیم کُل کا جز د سمجھنا اور ہر محدود شے کو
لامحدود کانمائندہ تصور کرنا ، مذہب ہے’’ ۔ اس کے دوسری طرف (LUDWING
FEVERBACH)
کے نزدیک ‘‘انسان ہی مذہب کی ابتداء مذہب کا مرکز اور مذہب کی انتہا ہے’’۔ (SALOMAN
REINACH)
کی تعریف کی رو سے مذہب‘‘ ان اعتقادات کے مجموعہ کا نام ہے جو ہماری فطری استعداد
کے آزادانہ استعمال کے راستہ میں حائل ہوں۔’’ ( HOFFDING) کے نزدیک مذہب ‘‘
اقدار کی مداومت’’ کو کہتے ہیں۔ ولیم جیمزکہتاہے کہ ‘‘انفرادی اشخاص کے عالم
تنہائی کے وہ جذبات اعمال اور تجربات جن کی بابت وہ سمجھیں کہ ان کارشتہ اس شے سے
ہے جسے وہ اپنی دانست میں ‘‘خدا’’ کہتے ہیں، مذہب کہلاتے ہیں’’۔ دوسری جگہ یہی
مفکّرین لکھتاہے کہ ‘‘انسان کا ایک غیر مرئی نظام کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنا مذہب
ہے’’۔(CALVERTON) کے نزدیک انسان نے اس قوت کا نام مذہب رکھ لیا’’۔ جس کے متعلق اس
نے یہ عقیدہ پیدا کرلیا کہ اس کے زور سے وہ کائنات کو مسخّر کرلے گا۔’’ (HOCKING) کہتا ہے کہ ‘‘زندگی
کوالوہیاتی قدرت کی طرف منسوب کرتے رہنا مذہب کہلاتا ہے’’۔ شوپنہار کہتاہے کہ
‘‘مذہب ،موت کے تصور سے پیدا ہوتا ہے ’’ لیکن برگسان کہتاہے کہ جب عقل نے کہا کہ
مرگ ناگزیر ہے تو فطرت نے ایک مدافعانہ ردّعمل اختیا رکیا۔ اسی کا نام مذہب ہے۔۔
(AUGUST SABATIER) کے نزدیک مذہب اس جذبہ کا نام ہے جس کی رو سے ‘‘ ایک مضطرب اور
پریشان روح ، ایک بڑی قوت کا آسرا ڈھونڈتی ہے۔’’ پروفیسر وہائٹ ہیڈ ایک جگہ لکھتا
ہے کہ ‘‘انسان جو کچھ اپنی ذات کی تنہائی سے کرتاہے ، مذہب ہے۔’’۱ لیکن دوسری جگہ وہ مذہب
کی تعریف ذرا وضاحت سے کرتاہے:۔
مذہب اس شے کا تصور ہے جو
انسان کے آگے پیچھے اور اس کے اندر ہے۔ وہ شے جوہرسامنے کی چیزمیں سے گذررہی ہے۔
وہ شے جو حقیقت ہے لیکن حقیقت بننے کے لئے منتظر بھی ہے، وہ شے جو ایک بعید سا
امکان ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہمارے پیش نظر حقائق میں سب سے عظیم حقیقت بھی۔ وہ شے
جو ہر چیز میں مفہوم پیدا کردیتی ہیہ ۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہ اس کا احاطہ بھی
نہیں کیا جاسکتا۔ وہ شے جس کاپالینا زندگی کا آخری مقصود ہے لیکن جسے ہر کوئی
پانہیں سکتا۔ وہ شے جو آخری مطمح نگاہ ہے لیکنک اس کے ساتھ ہی کوشش ناکام بھی!
(SCIENCE AND THE MODRN WORLD: p. 222)
ایک او رجگہ یہی پروفیسر
لکھتاہے کہ‘‘ مذہب اعتقاد کی اس قوت کا نام ہے جس سے انسان کی اندرونی پاکیزگی
ہوجاتی ہے۔۔۔۔ یعنی مذہب ان صداقتوں کے مجموعہ کا نام ہے جن میں یہ قوت ہوتی ہے کہ
وہ انسانی کیریکٹر میں انقلاب پیداکردیں جب انہیں خلوص کے ساتھ قبول کیا جائے اور
بصیرت کے ساتھ سمجھا جائے۲
ایک اورجگہ یہی پروفیسر
کہتاہے کہ‘‘ مذہب عالمگیر وفاشعاری کانام ہے’’۔۳
(RELIGION IS A WORLD LOYALTY)
میتھوآرنلڈ کے نزدیک
مذہب‘‘ جذبات آلود اخلاق’’کانام ہے۴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
ان (DEFINITIONS) کیلئے دیکھئے BRIGHTMANکی
کتاب (A PHILOSOPHY OF RELIGION:p. 17-21, 30-31)
۲
QUOTED
BY ALDUOUS HUXLEY IN 'ENDS AND MEANS: P. 250
۳QUOTED
BY JULIAN HUXLEY IN 'RELIGION WITHOUT REVELATION': P.4
۴(JULIUS
HUXLEY) (RELIGION WITHOUT REVELATION: PP. 39-40)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر (R.B.TAYLOR)کے نزدیک ‘‘روحانی
اشیاء میں عقیدہ کا نام مذہب ہے‘‘۔۱
مکیس مُلر کہتاہے کہ ‘‘لا منتہیٰ ذات کو ایسے مظاہر کے اندر تصور کرناجن سے انسان
کا اخلاقی کیریکٹر متاثر ہو، مذہب کہلاتا ہے۔’’سرجیمز فریزر کے نزدیک ‘‘مذہب ان
مافوق الفطرت قوتوں کے ساتھ مصالحت کا نام ہے جن کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ وہ
کائنات او رانسانی زندگی کو اپنے قبضہ و اقتدار میں رکھے ہوئے ہیں۔ ’’ ہکسلے کے
نزدیک ‘‘کسی شے کو مقدس سمجھنا مذہب ہے’’۔ سینٹ تھامس کے نزدیک ‘‘مذہب خدا سے تعلق
کا نام ہے؟ ولیم جیمس کے نزدیک ‘‘جس چیز کو انسان، الوہیاتی سمجھے یابلند قدر قرار
دے ، اس سے تعلق کا نام مذہب ہے’’۔( DOUGLAS FAWCETT) لکھتاہے کہ ‘‘مذہب
اس بلندترین حقیقت کے ساتھ تعلق یا عقیدت کا نام ہے جو انسان کو اپنے تجربہ میں
موجود دکھائی دے۔’’
یہ مذہب کی وہ (DEFINITIONS) ہیں جنہیں مغربی
مفکّرین نے ‘‘جامع تعریف’’ کے طور پر چند لفظوں میں بیان کیاہے ورنہ اگر مذہب کی
تفصیلی تعریفات کی طرف جائیے تو ان سے کئی کئی صفحات بھرے ملیں گے مثلاً (VIRGILIUS
FERM)
کی کتاب (FIRST CHAPERS IN RELIGIOUS PHILOSOPHY) میں مذہب کی (DEFINITION) کے لئے اکہتر(71)
صفحات وقف کئے گئے ہیں اور اس کے بعد بھی وہ ان (DEFINITION) سے مذہب کے متعلق
اتنا ہی سمجھ میں آتاہے کہ جتنا آپ مندرجہ بالاتعریفات سے سمجھ سکے ہوں گے چنانچہ
اسی بناء پر پسکال نے کہا ہے کہ مذہب کا بنیادی عنصر یہ ہے کہ وہ سمجھ میں نہ آسکے
نہ ہی واضح ہوسکے۔ اور (KIERKEGAARD) نے کہا ہے کہ مذہب کی زندگی (PARADOX) ہوتی ہے۔ ہم نے یہ
(DEFINITION) محض بطور تمثیل بیان کردی ہیں ورنہ جیسا کہ پہلے لکھا گیا ہے آپ
مختلف لوگوں سے مذہب کے متعلق پوچھئے ہر ایک تصور الگ الگ ہوگا۔ اسی بناء پر
اوسپنسکی نے (گرجیف کی زبان سے) کہا ہے کہ:۔
مذہب ایک انسانی تصور ہے جس
قسم کی انسان کی اپنی سطح ہوگی اسی قسم کا اس کامذہب ہوگا۔ اسی لئے ہوسکتاہے کہ
ایک آدمی کامذہب دوسرے آدمی کے لئے قطعاً موزوں نہ ہو۔
(IN SEARCH OF THE MIRACULOUS: p. 299)
اسی حقیقت کو (ALLPROT) ان الفاظ میں بیان
کرتاہے:۔
ہرفرد کا داخلی مذہبی
رجحان ،اہم اور غیر اہم عناصر میں دوسرے افراد سے مختلف ہوتاہے۔ مذہب کی جڑیں اس
قدر مختلف افراد پر اس کے اثرات کا وزن ایسا متنوع او ران سب کی عقلی تعبیر اس قدر
متبائن ہے کہ ان سے کسی ایک نتیجے پرپہنچنا ناممکن ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ صرف چند
حیاتیاتی عوامل میں مختلف افراد ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ جوں جوں ہم انسان کی ذات
کی بلندیوں کی طرف جاتے ہیں ہر فرد کی انفرادیت بڑھتی جاتی ہے۔ او رچونکہ انسانی
ذات کاکوئی شعبہ بھی اتنا پیچیدہ نہیں جتنا پیچیدہ وہ شعبہ ہے جو مذہب سے نشوونما
حاصل کرتا ہے ۔ اس لئے مذہب کے دائرے میں تضادات اور تنوعات کاہونا ناگریز ہے۔
(THE INDIVIDUAL AND HIS RELIGION: p. 30)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدر مشترک:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان
تصریحات سے آپ نے دیکھ لیا ہوگا کہ جہاں یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ
گفتگو جس چیز کے متعلق ہوتی ہے وہ مذہب ہے، وہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں جس
چیز کا تصور سب سے زیادہ مبہم اور غیر متعین ہے وہ بھی مذہب ہہے۔مذہب کا تصور ہر
فرد کے ذہن میں الگ ہے بایں ہمہ ایک چیز ایسی ہے جسے ان مختلف تصورات میں قدر
مشترک سمجھا جاسکتا ہے اور وہ یہ کہ مذہب میں کسی نہ کسی انداز میں ایک مافوق
الفطرت قوت کا تصور ضرور پایا جاتا ہے۔مغربی مورخین او رمفکرین جو وحی سے الگ ہٹ
کر ‘‘خدا کے ارتقائی تصور’’ کے متعلق تجسس و تحقیق کرتے ہیں، زمانہ قبل از تاریخ
کے انسانی ذہن کے چھلادے ،بھوت، پریت، ارواح خبیثہ ،دیوی ،دیوتا اور اس کے بعد خدا
کے متعلق تمام تصورات کو اسی سلسلہ کی مختلف کڑیاں قرار دیتے ہیں ۔چونکہ ہم اس وقت
مذہب یا ‘‘خدا کے تصور’’ کے تاریخی پس منظر سے بحث نہیں کررہے اس لئے ہمیں ان
نظریات میں جانے کی ضرورت نہیں۔ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ مذہب سے آگے بڑھ کر ‘‘خود خدا
کے متعلق ، دوور حاضرہ کے مفکرین کا تصور کیاہے۔ جس طرح مذہب کے معاملے میں ہر فرد
کا تصور الگ اور ہر مفکّرین کی پیش کردہ تعریف جداگانہ تھی۔
خدا کیا ہے؟:۔۔۔۔۔۔ اسی
طرح خدا کے متعلق بھی الگ الگ تعریفات (DEFINITION) ہمارے سامنے آتی
ہیں۔مثلاً کانٹ کے نزدیک ‘‘خدا وہ ہے جو انسانوں کو اخلاقی ضابطہ دیتاہے’’۔ یعقوبی
(JACOBI) خدا کو سب سے بلندہستی ’’کہہ پکارتا ہے۔(FRIES) کے نزدیک خداہی وہ
ہستی ہے جسے مقدس کہا جاسکتا ہے ۔’’ولیم جیمز خدا کو ‘‘کائنات کا حصہ اعلیٰ ’’کہتا
ہے۔پروفیسر (WEIMAN) کے نزدیک خدا ‘‘اس انداز ہستی کا نام ہے جواپنے اندر بلند ترین
قدر کاامکان رکھتی ہے۔’’ میتھو آرنلڈ کہتا ہے کہ ‘‘خدا اس قوت کا نام ہے جو خیر کی
مسبّب ہے۔’’(HARTMAN) کے نزدیک ‘‘خدا وہ ذریعہ ہے جس سے انسان ایک دوسرے سے محبت کرتے
ہیں’’۔ پروفیسر الیگزینڈر کے نظریہ کی رو سے ‘‘جب ہم کائنات کا ایسا تصور کریں جس
میں ( DEITY) کا وجود ہوتو اسے خدا کہا جائے گا’’۔ سرجیمز جینس کے نزدیک ‘‘خدا
سب سے بڑا ریاضی دان ہے’’۔ پروفیسر ایڈنگٹن کا خیال ہے کہ خدا اور کائنات ایک ہی
ہیں( اگرچہ ایڈنگٹن اس باب میں واضح طور پر کچھ نہیں کہتا) ۔برگسان کے نزدیک (اس
کے ابتدائی ایّام میں) خدا سے مفہوم ‘‘تخلیق توانائی’’ تھا لیکن آخر میں جب اس پر
باطنیت (MYSTICISM) غالب آگئی تو اس نے کہا کہ‘‘خدا محبت ہے او رمحبوب’’ ( THE
TWO SOURCES OF RELIGION AND MORALITY)۔(Mc TAGGAR) کے نزدیک خدا ‘‘ایک بلندترین اور خیر کی مظہر ہستی ہے’’ اور ‘‘وہ
ذاتی تشخص رکھتا ہے ’’۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ جس طرح مذہب کے متعلق فکر جدید کے
تصورات مبہم اور غیر متعین تھے، اسی طرح خدا کی تعریف (DEFINITION) کے متعلق بھی وہ
نہایت پیچیدہ اورغیر واضح ہیں۔ اس لئے کہ جیسا کہ باردیو نے کہا ہے ‘‘جب ہم خدا کے
متعلق بات کرتے ہیں تو یہ بات خدا کے متعلق نہیں ہوتی بلکہ اس تصور کی بات ہوتی ہے
جو ہم خدا کے متعلق اپنے ذہن میں رکھتے ہیں ’’۔ تعریف سے آگے بڑھئے تو خدا کی ذات
اورا س کی صفات کے متعلق ذرا تفصیل علم کا میدان آتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
پروفیسر الیگزینڈر نے اپنے نظریہ کی توضیح اپنے مجموعہ خطبات (TIME,
SPACE AND DEITY)
میں کی ہے ۔جس میں وہ کہتاہے کہ کائنات کی جو سطح بھی ہو، خدا اس سے بلند ہوتا ہے۔
مثلاً جب کائنات جماد کی سطح پر تھی تو خدا نباتاتی سطح پر تھا ۔ جب کائنات
نباتاتی سطح پر آگئی تو خدا حیوان کی سطح پر تھا ۔جب کائنات حیوان کی سطح پر آگئی
تو خدا انسان (یعنی شعور) کی سطح پر تھا۔ اب کائنات شعور کی سطح پر ہے تو خدا
ملائکہ کی سطح پر ہے۔اس طرح کائنات کی سطح کی بلندی کے ساتھ ساتھ خدا کی سطح بھی
اونچی ہوتی چلی جاتی ہے۔لہٰذا پروفیسر الیگزینڈر کے نزدیک خدا اس پوری کائنات کا
نام ہے جو کائنات کی سطح سے بلند کی تلاش میں ہو۔ یہ بلند سطح الیگزینڈر کے نزدیک
(DETIY) کہلاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میدان میں فکر جدید ‘‘
فی طغیانھم یغمھوُن’’ کا زندہ پیکر دکھائی دتیا ہے۔چونکہ یہ مفکرین علوم سائنس کے
راستے خدا کی طرف آتے ہیں ان کیلئے کائنات سے الگ خداکا تصور مشکل ہوتا ہے۔اور جب
خدا کو کائنات میں سمویا ہوا تصور کرلیا جائے تو ظاہر ہے ایسا خدالامحدود (INFINITE) نہیں بلکہ محدود (FINITE) ہوگا۔ ولیم جیمز کے
نزدیک ‘‘خدا ایک ماحول میں گھر ا ہوا ہے ۔اس کی ہستی زبان کے دائرہ میں ہے او
رہماری طرح وہ بھی تاریخ مدوّن کررہا ہے’’۔( H.G.WELLS) خدا کو ایک ‘‘حسین
نوجوان’’ کی شکل میں تصور کرتا ہے۔ پروفیسر (BRIGHTMAN) کہتا ہے کہ:۔
(THE PROBLEM OF GOD: p. 29)
پروفیسر WILLIAM
P. MONTAGO کے
نزدیک خدا کا شعور تو لامحدود ہے لیکن اس کی قدرت لامحدود نہیں ،پروفیسر (J.S.
HALDANE)
کہتا ہے کہ:۔
خدا کسی ایسی مکمل ہستی
کا نام نہیں جو ہماری دنیا میں جہالت گناہ اور مصائب سے الگ ہو۔
وحدتُ الوجود:۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ان سب میں موجود ہے اور اس کشمکش میں شریکPHILOSOPHICAL
BASIS OF BIOLOGY
آپ نے غور کیا ہوگا کہ فکر جدید کا یہ تصور کہ خدا اور کائنات ایک ہی ہیں درحقیقت
وہی تصور ہیہ جس پر وحدت الوجود (PANTHEISM) کے پرانے نظریہ کا
مدار ہے۔وحدت الوجود کے نظریہ کی رو سے سمجھا یہ گیا تھا کہ مادہ کی نفی کرکے مادہ
کو خدا بنادیا جائے۔ ہمارے دور میں ہوا یہ کہ خود خدا کو مادہ میں تبدیل کردیا
گیا۔ یعنی بات وہی ہے خدا مادہ ہے او رمادہ خدا ۔خدا ذرکائنات ایک ہی ہیں۔لہٰذا
وحدت الوجود کاقدیم نظریہ اس طرح جدید اصطلاحات میں جلوہ طراز ہوا ۔( SHEEN) نے درست کہا ہے
کہ‘‘ جب مادیت کو جذبات کی آمیزش دے دی جائے تو وہ وحدت الوجود میں تبدیل ہوجاتی
ہے۔’’(123) ۔آپ خدا کے متعلق جدید تصور پرجس قدر زیادہ غور کرتے جائیں گے یہ حقیقت
اُبھر کر سامنے آتی جائے گی کہ ‘‘کائنات اور خدا ایک ہی ہے’’ کا وحدت الوجود ہی
تصور خدا کو مادہ کی چاردیواری میں محدود کرکے رکھ دیتا ہے’’۔ پروفیسر (EVANS) اپنی کتاب (THEISTIC
MONISM)
میں کہتا ہے کہ:۔
خدا او رکائنات دو الگ
الگ ہستیاں نہیں ہیں۔ ایک ہی توانائی ہے جو بیک وقت خدا بھی ہے او رکائنات بھی ۔(
329)
(WILLAM BROWNE) لکھتا ہے کہ:۔
اشیائے کائنات میں من حیث
المجموع ،حسن اورصداقت ہے۔ اس مفہوم یہ ہے کہ سب ایک ہی شے کے مختلف گوشے ہیں۔ یہ
اشیاء تو مجّرد ہیں ‘‘نفس’’ خود مجدّد (ABSTRACT) نہیں ۔ یہ بالکل
ٹھوس ہے۔ یہ حقیقت کُلی ہے۔ یہ کائناتی خدا ہے۔
(SCIENCE AND PERSONALITY: p. 81)
اس ضمن میں (J.H.
HOMES)
اپنی کتاب (A STRUGGLING GOD)میں لکھتا ہے کہ :۔
خدا انسان ہے اور انسان
خدا ۔دونوں سے مراد ہے وہ زندگی جو محبت کے لئے مصروف کشمکش ہے۔
ذرا آگے بڑھئے تو خدا
،انسانی معاشرہ ہی کا دوسرا نام قرار پاجاتاہے ۔چنانچہ (AMES) لکھتا ہے:۔
خدا کا محسوس اور قابل
رساتصور اسی صورت میں پیدا ہوسکتا ہے کہ اسے انسانوں کا وہ اجتماعی ضمیر سمجھ لیا
جائے جو معاشرہ میں کارفرما اور اس طرح معاشرتی اداروں میں برنگ مجاز جلوہ طراز
ہوتا ہے۔
(My CONCEPTION OF GOD)
شخصی خدا:۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر وہائٹ ہیڈ کے نزدیک بھی ‘‘خدا ہر حادثہ میں موجود ہوتاہے بلکہ اس کا ایک
اہم حصہ ہوتاہے’’ (RELIGION IN THE MAKING) ۔حقیقت یہ ہے کہ
فکر جدید کے خدا کے متعلق یہ تصورات ردّ عمل ہیں اس تصور کے جوان کے مذہب نے پیش
کیا تھا اورجس کی رو سے خدا کو ایک شخص (PERSON) تصور کرکے آسمانوں
کے اوپر الگ تھلگ بٹھا رکھا تھا ۔ اس نظریہ کو (DEISM) کہتے ہیں ۔چونکہ یہ
نظریہ فکر انسانی کے نزدیک کسی طرح بھی قابل قبول نہ ہوسکتا تھا۔ اس لئے جدید
مفکّرین نے اس کے خلاف وحدت الوجود (PANTHEISM) کاتصور اختیار
کرلیا، اس تصو ر کو ان کے کائناتی نظریہ (COSMOS) سے بھی مدد ملتی
تھی۔ اس لئے یہ اور بھی قابل قبول سمجھ لیا گیا ۔ لیکن (DEAN
INGE)
ان دونوں نظریوں کو باطل قرار دیتا ہے ۔ وہ کہتاہے کہ:۔
اس کائنات میں خدا نہ تو
کائنات کے اندر ہی ہے او رنہ ہی اس سے وہ باہر کہیں الگ۔ وہ کائنات کے اندر بھی ہے
او رباہر بھی ۔لیکن وہ کس طرح کائنات کے اندر اور اس کے باہر بھی ہے۔ یہ بات
نفسیاتی طور پر سمجھ میں نہیں آسکتی۔
(GOD AND ASTRONOMERS: p. 219)
حقیقت یہ ہے کہ خدا کے
متعلق بیرون کائنات (TRANSCENDENCE) اور درون کائنات (IMMANENCE) کی نزاع بہت پرانی
ہے۔ افلاطون کا مکتب فکر ‘‘بیرون کائنات تصور کا قائل تھا (PERMANIDES)اور (PLOTIRINS) کے ہاں اس کی کھلی
ہوئی تصریحات ملتی ہیں۔ یہی نظریہ ہندوؤں کے اپنشدوں میں ویدانت کے نام سے معروف
ہوا جس کا سب سے بڑا پرچارک شنکرآچاریہ تھا(788-820) ۔وحدت الوجود کے نظریہ نے خدا
اور کائنات کو ایک کردیا۔ مادیّت نے مادہ ہی کو اصل قرار دیا اور اب مادیت کے خلاف
ردّعمل نے پھر خدا کو کائنات بنادیا۔ لیکن اس نظریہ کے خلاف بھی ردّ عمل
ہوا۔چنانچہ مفکرین کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ خدا نے کائنات کو بنادیا۔ اب اس کے بعد
وہ اس مشینری کے چلانے میں دخل نہیں دیتا۔ یہ مشین انسان کے سپرد کردی گئی
ہے۔لہٰذا کائنات میں اب الوہیاتی منصب خود انسان کو مل چکا ہے*
انسانیت ہی خدا
ہے:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کامٹ (AUGUST COMTE 1798-1857) اس نظریہ کا موجد
تھا جس نے کہاکہ ‘‘انسانیت ہی خدا ہے’’۔ اس نظریہ کو (HUMANISM) کہتے ہیں۱ ۔لیکن اس سے آگے بڑھئے
تو (FEUERBACH 1804- 1872) نے اسی دلیل سے خدا کے وجود ہی سے انکار کردیا۔ اس نے کہہ دیا کہ
خدا صرف انسان کے دل میں ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* ان نظریات کے متعلق (SHEEN) کی کتاب (PHILOSOPHY
OF RELIGION)
اور (BRIGHTMAN) کی کتاب (A PHILOSOPHY OF RELIGION) دیکھئے ۔
۱
اس نظریہ کا ایک برامویدّ (H.R. RAFTON) لکھتا ہے کہ:۔
یہ ایک ایسے مذہب کا نام
ہے جو ان حقائق سے ہم آہنگی سکھاتا ہے جو اس وقت تک معلوم ہوچکے ہیں۔ فطرت کویہ
غیر شخصی اور معصوم سمجھتا ہے اور انسانوں کو یہ کہہ کر باہمی تعاون کی تلقین
کرتاہے کہ انسانوں کو اپنے آپ پر اور دوسرے انسانوں پر ہی بھروسہ کرناچاہئے ۔
(QUOTED By ALLORT)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے باہر اس کا کہیں
وجود نہیں ۔لہٰذا ، خدا، انسان کے ذہن کا تراشیدہ بہے۔یعنی وحدت الوجود کے نظریہ (PANTHEISM) نے وجود خداوندی کے
اثبات کی کوشش میں ، انسانی ذات سے انکار کردیا۔۔۔ اور (HUMANISM) نے انسانی ذات کے
اثبات کی فکر میں ذات خداوندی ہی سے انکار کردیا۔ پرنسپل کیرڈ ان تمام متضاد
ومتخالف نظریات سے گھبرا کر کہتاہے کہ:۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا اور
انسان محدود او رلامحدود ایک ہی کُل کے جزو ہیں جس کُل میں بیک وقت سب موجود ہوتے
ہیں۔ الگ الگ بھی او راکٹھے بھی(239) ۔
اسی تصور کو (THEISM) کہتے ہیں اور
مفکرین مغرب کا وہ طبقہ جو خدا کا قائل ہے او رکائنات کی ارتقائی قوتوں کابھی ،
اسی نظریہ کو خدا کا صحیح تصور قرار دیتا ہے ۔ وہ یہ کہہ کر وحدت الوجود کا انکار
کرتے ہیں کہ خدا اپنا مستقل وجود رکھتا ہے او رکائنات خدا نہیں ۔لیکن دوسری طرف وہ
کہہ کر (DEISM) کی بھی تردید کرتے ہیں کہ خدا کائنات سے بے تعلق ہوکر کہیں الگ
نہیں بیٹھا ۔کائنات اسی کی توانائی سے چل رہی ہے ۔برگسان ،ایڈنگٹن، ہاکنگ (HOCKING) او ر وہائٹ ہیڈ
جزئی اختلافات کے ساتھ اسی مکتب فکر سے متعلق سمجھے جاتے ہیں۔
مذہب کے متعلق فکر جدید
کے نظریات وتصورات معلوم کرنے کی ضرورت اس لئے پڑی تھی کہ ہم نے سابقہ عنوان میں
دیکھا تھا کہ فکر جدید چاروں طرف سے تھک کر اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ کائنات اور انسانی
زندگی کے تضادات کاحل صرف مذہب کی رو سے مل سکتا ہے ۔لہٰذا یہ دیکھنا ضروری تھا کہ
ان مفکرین مغرب کے نزدیک مذہب سے مفہوم کیا ہے اور وہ مذہب کس طرح ان تضادات کا حل
اور انسانی مشکلات کا علاج تجویز کرتا ہے لیکن ہم نے دیکھا یہ کہ:۔
خواستم پیکاں برارم درجگر
نشتر شکست
تضادات و مشکلات کا حل
دریافت کرنے کے لئے مذہب کی طرف آئے اور مذہب ان کے نزدیک ایک او رمعمہ بن کر رہ
گیا جس کے حل کے لئے کسی اور دروازہ پردستک دینی پڑے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ مفکرین
مغرب نے یہ اعلان کہ انسانی زندگی کے تضادات کا حل مذہب کی رو سے ملے گا ،‘‘
مذہب’’ کے متعلق صحیح تصور قائم کرلینے کے بعد نہیں کیا۔ ہوا یہ کہ مادی نظریہ
زندگی نے چاروں طرف ایسے مصائب او ر مشکلات کے دروازے کھول دیئے کہ انسان ان کے
اندر بُری طرح گھر گیا اور ان سے نکلنے کی کوئی راہ اس کے سامنے باقی نہ رہی ۔ جب
مفکرین مغرب نے اپنے آپ کو تاریکی میں محیط دیکھا تو انہوں نے اتنا سمجھ لیا کہ اس
جہنم سے نکلنے کے لئے مادی تصور حیات کچھ مدد نہیں دے سکتا ، اس لئے کہ یہ جہنم تو
خود اس تصور حیات کا مشتعل کرد ہے۔
یہ فرار کی راہ
تھی:۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا وہ اس نتیجہ پرپہنچے کہ مادی تصورحیات کے پیدا کردہ مصائب سے
نجات کا راستہ مادہ سے گریز و فرار کے سواکوئی نہیں۔ اس گریزوفرار کا نام ان کی
اصطلاح میں‘‘مذہب ’’تھا ۔ اس لئے کہ انہوں نے مذہب کا تصور عیسائیت سے لیا تھا اور
عیسائت مادی کشمکش سے فرار کا نام ہے۔ اسی کا دوسرا نام (MYSTICISM) یا باطنیت ہے جسے
رہبانیت ،یوگ یا تصوف کہتے ہیں ۔اگر آپ بغور دیکھیں گے تو یہ حقیقت نکھر کر سامنے
آجائے گی کہ جن مفکرین نے مادی مشکلات کاحل مذہب قرار دیا ہے۔ ان میں سے اکثر اپنی
عمر کے آخری حصہ میں باطنیت (MYSTICISM) کے دلدادہ ہوگئے
اور مادی تضادات او ران کی جگر سوز کشاکش کا حل ، تصوف کا منفیانہ زندگی کے پرُ
فریب سکون او رمرگ آمیز سکوت میں جا تلاش کیا۔ایڈنگٹن طبیعیات کا پروفیسر او
رطبیعی کائنات کا محقق ہے۔ وہ اپنی تحقیقات کے تنائج اپنی معرکہ آراکتاب (NATURE
OF THE PHYSICAL WORLD) میں پیش کرتا ہے۔
رہبانیت:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساری
کتاب سائنٹیفک اصولوں کی تشریح و توجیہہ پر مشتمل ہے۔لیکن اس کا آخری باب (MYSTICISM)پر ہے او راسی کو وہ
رموز کائنات دریافت کرنے کا موثر ذریعہ قرار دیتا ہے ۔ اس کی آخری کتاب (SCIENCE
AND THE UNSEEN WORLD) تو ساری کی ساری باطنیت (MYSTICISM)کی طرف دعوت پر مبنی
ہے۔
سرجیمز جینٹر ایک بہت بڑا
عالم ریاضیات ہے۔ وہ ریاضی کے اصول و مسلّمات دریافت کرتے کرتے اس نتیجہ پر پہنچا
کہ یہ اصول قلب انسانی کے دریافت کردہ ہیں۔ لیکن خارجی کائنات سب کی سب ان ہی
اصولوں کے مطابق چل رہی ہے۔لہٰذا خارجی کائنات ہمارے قلب ہی کا ایک پرتو ہے ۔ اس
طرح وہ بھی ریاضیات سے نکل کر باطنیت کی وادیوں میں جا پہنچا ۔برگسان میں اگرچہ
شروع ہی سے باطنی رجحانات کا سراغ ملتاہے لیکن اس کی آخری تصنیف ۔۔۔۔۔۔۔۔ (THE
TWO SOURCES OF MARALITY AND RELIGION) خالص دعوت باطنیت کی نقیب ہے۔مشہور روسی ریاضی داں (OUSPENSKY) ریاضیات کاعالم ہے
لیکن وہ بھی عمر بھر ہندوستان کے یوگ استہانوں ، ایران کے آتشکدوں ، شام کی
خانقاہوں میں پھرتا پھراتا بالآخر یونانی باطن پرست گرجیف کے آشرم میں جا پہنچا
۔ولیم جیمز کی تصنیف (THE VARIETIES OF RELIGIOUS
EXPERIENCE)تو
ہے ہی باطنی واردات کا صحیفہ جدید۔ برٹرینڈرسل بھی اپنی آخری عمر میں کہہ رہا ہے
کہ ‘‘دنیا کے بڑے بڑے فلاسفروں نے سائنس او رباطنیت کی ضرورت کو تسلیم کرلیا ہے۔
عقل صرف ہم آہنگی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے، تخلیقی قوت نہیں ہے۔ خالص منطقی دنیا میں
بھی انسان کا وجد ان ہی سب سے پہلے نئی حقیقت تک پہنچا ہے(عقل نہیں)’’۔ (ESSAY
ON MYSTICISM AND LOGIC)
(V.H.MOTTRAM) نے (THE PHYSICAL BASIS OF PERSONALITY) کے نام سے ایک
مختصر سی لیکن عمدہ کتاب لکھی ہے جس کے اخیر میں وہ لکھتا ہے کہ انسانی مصائب کا
حل اور حقیقت کا علم، باطنیت کی رو سے ہی مل سکتا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ (SIR
CHARLES SHERRINGTON) جیسا سائنسدان بھی (MYSTIC) تھا۔(148)
پروفیسر (JOAD) کو دیکھئے تو وہ
بھی اپنی آخری عمر میں مراقبہ میں بیٹھا نظر آتا ہے ۔(LESLIE
PAUL)
اور (BERDYAEU) وغیرہ اسی مسلک کے مبلّغ بن چکے ہیں ۔یورپ میں آج کل (KIERKEGAARD) کی تصانیف کو ازسر
نو زندہ کرکے انہیں بڑی شہرت دی جارہی ہے ۔ اس کا سارا فلسفہ انفرادیت او ررہبانیت
پرمشتمل ہے وہ کہتا ہے کہ ‘‘انسان کو پھر سے ان ہی خانقاہوں میں لوٹا دینا چاہئے
جہاں سے اسے لوتھر نے نکالا تھا’’ وہ نیکی کی اعلیٰ ترین منزل ‘‘ ترک دنیا’’ قرار
دیتا ہے ۔ اس کاک ‘‘منفرد انسان’’ (SINGLE ONE) وہ ہے جو یکسر مادی
علائق سے بے تعلق ہوجائے ۔چنانچہ اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے اس نے خود اپنی
محبوبہ منگیتر (REGINA OLSEN) کو چھوڑ دیا او ربقیہ عمر اپنے اسی فیصلے کے جواز کی دلائل تلاش
او رپیش کرنے میں گذاردی ۔اگرچہ یہ دلائل اور ان کے فراہم او رپیش کرنے کی جستجو
او رکاوش اس کی اس خلش او ر تپش کی صاف غمازی کرتے ہیں جس نے اس فیصلہ کے بعد
،ساری عمر اس کے سینہ کاطلسم پیچ وتاب بنائے رکھا لیکن یورپ اب اس کے فلسفہ کو پھر
سے عام کررہا ہے ۔ یہ رجحانات اور میلانات درحقیقت ردّ عمل ہیں اس میکانکی تصور
حیات کے جس نے زندگی او راس کی لطافتوں کو میکانکی اصولوں کے شکنجو ں میں کس
کریکسر مشین بنادیا تھا ۔ذرا تاریخ کی اس گردش دولابی پر غور کیجئے ۔افلاطون کی
اشرافیت نے عیسائی رہبانیت پیدا کی۔ اس رہبانیت نے زندگی کی قوت اور حسن کویخ بستہ
کردیا۔ اس کے خلاف ردّ عمل مغرب کے میکانکی نظریہ حیات کی صورت میں نمودار ہوا۔ اس
نظریہ نے زندگی کے تمام چشموں کو خشک کرکے رکھ دیا۔
اب اس نظریہ کے خلاف ردّ
عمل شروع ہوا تو انسان پھر اسی رہبانیت میں پناہ لینے کی کوشش کررہا ہے جہاں تک
تنگ آکر اس نے میکانکی نظریہ اختیار کیا تھا۔ یعنی انسان کی ساری فکری تاریخ اسی
افراط وتفریط کے جھولے کی آماجگاہ رہی ہے۔ اعتدال کی روش آج تک اس کے سامنے نہیں
آسکتی ۔
ہمارے سامنے سوال یہ تھا
کہ انسانی زندگی کے تضادات کاحل کہاں سے مل سکے گا؟ مغربی فکر جدید اس نتیجہ پر
پہنچا کہ اس کاحل، باطنیت یا عیسائیت ملے گا۔( اس لئے کہ عیسائیت ،رہبانیت ہی
کادوسرا نام باطنیت ہے)۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا عیسائیت یا باطنیت واقعی یہ
صلاحیت اپنے اندر رکھتی ہے کہ ان تضادات کاحل پیش کرسکے؟
کیا یہ صحیح علاج
ہے؟:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باطنیت کامداراس دعوے پر ہے کہ خدا خود نفس انسانی کے اندر موجود ہے
۔جب نفس انسانی اس حقیقت کو محسوس کرلے تو وہی خدا کاعلم ہے۔ اس کے سوا خدا کے
متعلق اور کوئی ذریعہ علم نہیں لیکن پروفیسر (BRIGHTMAN) کے الفاظ میں‘‘ اس
تجربہ کی رو سے انسان خود اپنی ذات کااحساس کرتاہے اور سمجھ لیتا ہے کہ میں نے خدا
کو محسوس کرلیا ہے’’(101) ۔ اس لئے کہ انسان کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس سے وہ
یہ معلوم کرسکے کہ جو کچھ اس نے محسوس کیا ہے وہ خدا ہی ہے، کچھ اورنہیں ،لہٰذا جب
صورت حال یہ ہوتو یقینی طور پر کہاہی نہیں جاسکتا کہ انسان نے کیا محسوس کیاہے۔
پرنسپل کیئرڈ اس باب میں لکھتا ہے:۔
مذہب کے معاملہ میں کشف
یادجدان کو کسی طرح بھی معیار صداقت قرار نہیں دیا جاسکتا ۔صاحب کشف اپنے تجربہ کی
صداقت پر کیسا ہی یقین کیوں نہ رکھے اس سے یہ لازم نہیں آجاتا کہ اس کے تجربہ
کانتیجہ فی الواقعہ صداقت ہے۔۔۔۔ میں اپنے کسی فکر ،جذبہ یا تصور کو جس کی صداقت
کی میرے پاس کوئی دلیل نہیں، کبھی صداقت مطلق قرار نہیں دے سکتا ۔۔۔۔۔ وجدانی علم
ایک انفرادی تجربہ ہے جو اپنی دلیل آپ ہوتا ہے اس لئے یہ کسی دوسرے شخص کیلئے دلیل
حجّت کیسے بن سکتا ہے؟ ۔( 55-51)
ولیم جیمز نے اپنی کتاب (THE
VARIETIES OF RELIGIOUS EXPERIENCE)میں باطنیت پر ایک مستقل باب لکھا ہے۔ وہ اس میں رقمطراز ہے:۔
باطنیت کا تجربہ ایک
منفیانہ خصوصیت کا حامل ہوتاہے۔ جسے یہ حاصل ہوجائے وہ اس کا اعتراف کرتاہے کہ میں
بیان نہیں کرسکتا کہ میں نے کیا محسوس کیا ہے۔ وہ ہر پوچھنے والے سے یہی کہتاہے کہ
:۔
ذٰق ایں بادہ ندانی بخدا
تانچشی
سواگر اسی کیفت کو بیان
نہیں کیا جاسکتا تو دوسرے تک منتقل بھی نہیں کیا جاسکتا لہٰذا باطنی تجربہ اگر
کوئی صداقت رکھتا ہے تو یہ صداقت صرف صاحب تجربہ کے کام کی ہوسکتی ہے کسی اور کے
لئے اسے صداقت قرار نہیں دیا جاسکتا۔۔۔۔۔ اسی لئے دوسرے لوگوں پر اس کی کوئی
پابندی نہیں کہ وہ اس صداقت کو تسلیم کریں۔۔۔۔ یہ خالص جذباتی احساس کانام ہے اور
جذبات یکسر ذاتی اور گونگے ہوتے ہیں ۔جو کچھ ایک شخص محسوس کرتاہے وہ اس کا احساس
کسی دوسرے میں پیدا نہیں کرسکتا تادقت یہ ہے کہ وہ دوسرا شخص خود ہی محسوس نہ کرے۔(صفحہ
371,396,418,422)۔
دوسرے مقام پر پروفیسر
جیمز لکھتا ہے:۔
ان لوگوں کے خوابوں او
رپیغاموں میں بعض بے حد آمیز ہوتے ہیں ان کے عالم وجد وہستی کے ماجریات میں سے بعض
انسانی اعمال وسیرت کے لئے کسی نفع کا موجب نہیں ہوتے ۔لہٰذا انہیں خدائی پیغامات
وغیرہ کہنا تو ایک طرف وہ تو اس قابل بھی نہیں ہوتے کہ انہیں کوئی اہمیت دی جائے
۔۔۔ علاوہ بریں ،باطنیت کا فن ایک انفرادی چیز ہے او راس کے نتائج ایسے متضاد
ومتبائن کو انہیں‘‘ عالمگیرسند’’ کی حیثیت حاصل ہی نہیں ہوسکتی ۔
ان حقائق کے پیش نظر
پروفیسر جیمز کہتاہے کہ:۔
یہ مسئلہ کہ ایسے تجربات
وپیغامات جو درحقیقت منجانب اللہ تھے او روہ جنہیں شیطان نے وضع کردکھایا تھا، او
رجن سے بچا رہے مذہب پرست لوگ پہلے سے بھی زیادہ جہنم کے عذاب کے مستحق بن گئے، ان
دونوں میں کس طرح تمیزکی جائے ۔عیسائی تصوف کی تاریخ میں لاینحل رہاہے۔
(THE VARIETIES OF RELIGIOUS EXPERIENCE)
باطنیت کا مدار رہبا نیت
پر ہے۔ رہبانیت سے مراد یہ نہیں کہ انسان بالضّروز شہروں او ربستیوں کو چھوڑ
کرجنگلوں اور ویرانوں میں چلاجائے یا خانقاہوں میں تجرّدوانزدا کی زندگی بسر کرنے
لگ جائے ۔ یہ چیزیں طریق رہبانیت کے عناصر واجزاء ضرور ہیں لیکن نفس رہبانیت نہیں
۔رہبانیت درحقیقت اس تصور حیات کا نام ہے جس کی رو سے انسان مادی کشمکش اور دنیاوی
تضادات سے آنکھیں بند کرکے فرار کی راہ اختیار کرلیتاہے او راس فرار وگریز کو
زندگی کا بلند نصب العین قرار دے کر اپنے آپ کو فریب دے لیتا ہے کہ میں نے مقصود
حیات پالیا۔ باطنیت کے لئے اس قسم کا تصور زندگی لاینفک ہے۔ اس تصور زندگی کی رو
سے سمجھ یہ لیا جاتا ہے کہ جب ہم نے تسلیم کرلیا کہ مادہ اپنا وجود نہیں رکھتا تو
روح او رمادہ کاتضاد خود بخود مٹ گیا۔یہ بہت بڑی خود فریبی ہے۔ مادہ ہماری ذات سے
باہر اپنا وجود رکھتاہے او رمحض اتناکہہ دینے سے کہ مادہ ،مایا یا سراب ہے وہ فی
الحقیقت مایا یاسرب بن نہیں جاتا ۔ اسلئے رہبانی تصور حیات یا باطنیت ان تضادات کا
حل نہیں پیش کرسکی۱
پرنسپل کیئرڈ اس باب میں لکھتا ہے:۔
جس طرح باطل تصوریت (مادہ
کے انکار سے) سمجھ لیتی ہے کہ اس نے تضادات کا حل معلوم کرلیا ہے۔حالانکہ اس نے حل
معلوم نہیں کیا ہوتا بلکہ حل دریافت کرنے کی کاوش سے گریز کی راہ اختیار کی ہوتی
ہے۔ اسی طرح باطنیت بھی تضادات کو مٹانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس طرح نہیں کہ ان
متخاصم عناصر میں توافق پیدا کردیاجائے بلکہ ایک متضاد عنصر کو دبا دینے سے یعنی
اس طریق کار کا پیرو جب ان تضادات سے گھبرا جاتا ہے جو جسم اور روح میں ہویدا ہیں
تو وہ فطری خواہشات کو و با کر ان تضادات کو مٹانے کی ناکام کوشش کرتاہے۔ اس طرح
اپنے تصورات کی دنیا میں محو ہوکر بلدیوں پر اڑنے او ربراہ راست ذات لامحدود سے جا
ملنے کے خواب دیکھتا رہتاہے۔۔۔۔اور نہیں سمجھنا کہ حقیقی اخلاق جذبات کے فنا
کردینے کا نام نہیں۔(صفحہ 271-72-272)
راشڈل کہتا ہے کہ ‘‘ ایک
تصوف پرست کا یہ خیال کہ وہ ترک خواہشات کرسکتا ہے کس قدر غلط ہے کیونکہ ترک
خواہشات بجائے خویش ایک خواہش ہے۔ اس لئے آپ خواہشات کا استیصال کرہی نہیں سکتے۔
خواہشات میں توازن پیدا کیا جاسکتاہے ۔( VOL.II.p.416)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
باطنیت نے مادہ سے انکار کرنے سے سمجھ لیا کہ تضادات کا حل مل گیا۔ اس کے برعکس
مادیت نے روح بانفس انسانی کے انکار سے لیا کہ تضادات کا حل ہوگیا ہے۔حالانکہ نہ مادہ
کے انکار سے مادی کشمکش ختم ہوجاتی ہے او رنہ نفس انسانی کے انکار سے نفسیاتی
خصائص واثرات مٹ جاتے ہیں ۔حل وہی درحقیقت حل ہوگا جو ان دونوں کے وجود کو تسلیم
کرتے ہوئے ان میں ہم آہنگی پیدا کرنے سے ملے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برفواس ضمن میں لکھتا ہے
کہ:۔
یہ تصوف پسند حضرات چاہتے
یہ ہیں کہ اس پرُاز مصائب او ربدنما انسانی دنیا سے بھاگ جائیں اور خلوت کی
تجرّدگاہوں میں جاکر پناہ لے لیں جہاں صرف فطرت ہی فطرت ہو(انسان کوئی نہ ہو) ۔ان
پہاڑوں کی چوٹیوں پر جنہیں انسان کے ناپاک قدم نے نہ چھوا ہو وہاں جاکر اپنی روح
کو فطرت کے کیف اندوز نظاروں سے سرشار کریں۔ بایں نمط کہ اس سرور آفریں کیفیات میں
کوئی دخل اندازی نہ کرپائے او ران کے اس جہاں کیف وہستی میں انسانی دنیا کی ذلّت
وپستی کا کوئی گذرنہ ہو۔لیکن وہ نہیں جانتے یا جاننا چاہتے نہیں کہ ان کی یہ تمام
حسین آرزو میں ، یہ بلند تخیلات ،یہ علوجذبات انسان کے قلب کی یہ کیف باریاں ،
انسانی فطرت کی لغزشوں کا یہ احساس لطیف اور فطرت کے متعلق یہ حسن خیال ، یہ سب
اسی دنیائے انسانیت کی تخلیق میں جسے وہ اس قدر قابل نفرت سمجھ کر تیاگ دینے کی
فکر کررہے ہیں۔( 349)
اس سے تضادات رفع نہیں
ہوسکتے:۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ہے وہ باطنیت جسے فکر جدید نے دور حاضر ہ کے تضادات کے حل
کاذریعہ سمجھا ہے۔ جیسا کہ پہلے لکھا جاچکا ہے ، اس طریق عمل کی رو سے سمجھا یہ
جاتاہے کہ مادہ سے ذہنی انکار، مادی کشمکش کو ختم کردیتی ہے او راس کے بعد انسانی
ذات کا استحکام ہوجاتاہے ۔لیکن (KEYSERLING) کے الفاظ میں ہوتا
یہ ہے کہ جس چیز کو باطنیت بقا سمجھتی ہے وہ بقا درحقیقت انسان کی اپنی ذات کی فنا
ہوتی ہے۱’’۔
اس طرح تضادات تو حل ہوجاتے ہیں لیکن یہ حل اسی طرح کاہوتاہے جس طرح مرنے کے بعد
مریض کے تمام دکھ درد دور ہوجاتے ہیں ۔ اسی لئے میسن لکھتا ہے کہ:۔
اخلاق اسی کانان نہیں کہ
آپ مادے کے کثیف تاثرات سے بھاگ جائیں۔ اخلاقی ترقی کے معنی یہ ہیں کہ آپ مادہ کا
مقابلہ کریں۔ تخلیقی تحریک کے آگے بڑھانے کے لئے جو کچھ مادہ پیش کرتاہے اس سے
متمتع ہوں، لیکن اس کے ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہ ہونے دیں کہ انسانی ذات’مادی
سطح سے بہت اونچی ہے۔۔۔۔ اگر مذہب ،انسانی کی توجہ مادیت سے ہٹا کر اس کے روحانی
الاصل ہونے پرہی مرکوز کردے تو یہ اخلاق نہیں مذہبی بد اخلاقی ہے۔۔۔۔ نوع انسانی
اسی صورت میں ترقی کرسکتی ہے جب مادی اور روحانی دونوں پہلو اپنے تضادات کے
باوجود، ہاتھ میں ہاتھ ڈالے آگے بڑھتے جائیں۔ (صفحہ 233,337,340)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱(KEYSERLING) کے اپنے الفاظ بڑے
جامع او رپرُمعنی ہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ
('MYSTICISM ALWAYS ENDS IN AN IMPERSONAL
IMMORTALITY': QUOTED BY INGE: p. 268)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی نہیں کہ باطنیت
(انفرادی تزکیہ نفس کا تصور) زندگی کے تضادات حل کرنے ہی سے قاصر رہتاہے بلکہ یہ
انسانی معاشرہ کے نظام عدل و صداقت کو بھی تباہ کردیتا ہے ۔ اس لئے کہ اس فلسفہ کی
رو سے ہر ‘‘نیک آدمی’’ باطنیت کی تجّرد گاہوں میں اپنے اپنے نفس کی تہذیب و تزکیہ
کی فکر میں سربگریباں بیٹھ جاتا ہے او ردنیا کا کاروبار دنیاداروں کے سپرد
کردیتاہے جنہیں ان کی ہوس رانیوں اور کامجوئیوں سے روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اسی
بناء پر برفو لکھتا ہے کہ:۔
اخلاقیات کے متعلق یونان
کے ابتدائی تصور کا رواتی اور ابیقوریت کے فلسفہ میں تبدیل ہوجانا ایسی خرابی کا
موجب ہو اس کی نظیر انسان کے اخلاقی تصور کی دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اخلاق جس سے
مفہوم یہ ہے کہ انسان کے باہمی معاملات حق وصداقت پرمبنی ہونے چاہئیں ، اپنا حقیقی
مفہوم کھو دیتاہے اگر اس کا نتیجہ نوع انسانی کی بہبود نہیں۔ اس سے تو اخلاقیات کا
مقصود ہی فنا ہوجاتا ہے۔اخلاقیات کا مقصود ایک فرد کی ذاتی بہبود یا نجات نہیں
(اگرچہ نوع انسانی کی بہبود میں یہ ذاتی پہلو بدرجہ اُتم موجود ہے) بلکہ یہ مقصود
ہے کہ اس فرد کا اس نوع انسانی کے ساتھ جس کا یہ ایک جزد ہے کس قسم کا واسطہ
ہے؟اس( باہمی معاملات کے ) ضابطہ اخلاق کی بنیاد عدل ہے۔۔۔۔ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ
کوئی انسان کسی دوسرے انسان پر مستبدانہ اور قاہرانہ قوت سے غالب نہ آسکے۔۔۔۔ اگر
دنیا میں باطل (WRONG) کے کوئی معنی ہیں تو وہ یہی ہیں کہ ایک انسان کسی دوسرے انسان کو
محض فرضی اقتدار کی بنا پر اپنا تابع فرمان بنا لے۔۔۔۔ اس باطل کا استیصال
،اخلاقیات کا اصل فریضہ ہے۔ آپ مثالی اخلاقیات کی کیسی ہی شاندار عمارت کیوں نہ
تعمیر کرلیں، اگر وہ باطل کا استیصال کرکے اس کی جگہ کو قائم نہیں کرتی تو وہ یکسر
بے معنی ہے۔یہ اوپر کی عمارت اخلاقیات کی عمارت کہلا ہی نہیں جاسکتی ۔۔۔۔ رواتی کی
رو سے نصب العین حیات، شرکامقابلہ نہیں بلکہ اس کے سامنے جھُک جانا رہ جاتاہے۔(
صفحہ 331-32)
نٹشے ،جس نے عیسائیت کے
خلاف سخت تنقید کی ہے، اس باب میں لکھتا ہے:۔
مسیحیت نے ہمیشہ کمزور
پست اور بوسیدہ چیزوں کا ساتھ دیا ہے ۔ اس نے طبائع انسانی کی تمام خوددارانہ
قوتوں کو استیصال اپنا مسلک قرار دیا ہے۔ اس نے بڑے بڑے زبردست دماغوں کا ستیاناس
کرکے رکھ دیا ہے۔(NEITSCHI BY M. MAGAY)
لیکی، تاریخ اخلاق یورپ
کی دوسری جلد میں لکھتاہے:۔
لیکن انکساری اور فردتنی
کاوصف تمام ترمسیحیت کاپیداکردہ ہے اور گویہ وصف ایک زمانہ تک نہایت موزوں و مناسب
رہا۔تاہم تمدن کی روز افزوں ترقی کی رفتار کاآخر تک ساتھ نہ دے سکا۔ ترقی ، تمدن
کے لئے لازمی ہے کہ قوم میں خود داری اور حریت کے جذبات موجود ہوں اور
انکساروتواضع اس کے دشمن ہیں۔
تہذیب کامشہور امریکی
مورّخ (DORSEY) اپنی کتاب(CIVILISATION) میں رقمطراز ہے:۔
آج لاکھوں انسانوں کے
نزدیک عیسائیت شکست خوردوں کا مذہب ہے وہ اس مذہب کی قبولیت سے اعتراف شکست کرتے
ہیں۔ یہاں کوئی شے قابل اطمینان نہیں۔اطمینان کی آرزو باطل اور آرزووٌں کی تکمیل
گناہ ہے۔ یہ انداز نگاہ صحیح اور تندرست زندگی کو ناممکن بنادیتاہے اس سے انسانیت تباہ
ہوجاتی ہے ۔(446)۔
اور ان سب کے بعد ہسپانیہ
کے پروفیسر (Dr. FALTA DE GRACIA) کا وہ اقتباس ایک دفعہ پھر سامنے لے آئیے جسے اس سے پہلے بھی پیش
کیا جاچکا ہے ۔ وہ لکھتا ہے:۔
عیسائیت میں عدل کا تصور
بھی اسی طرح نامانوس ہے جس طرح ذہنی دیانت کایہ اس کے تصور اخلاق سے یکسر باہر کی
شے ہے۔ عیسائیت نے ان لوگوں سے توشفقت وہمدردی کااظہار کیا ہے جن پر ظلم وستم ہوں
لیکن خود ظلم وستم سے ہمیشہ تسامح برتا ہے۔ اس نے ان لوگوں کو جو ظلم واستبداد کے
بوجھ کے نیچے دبے ہوے ہوں، جنہیں مصائب وشدائد کے ہجوم نے گھیر رکھا ہو، دعوت دی ہے
او رانہیں آئین محبت کی تعلیم دی ہے، انہیں رحم وعفو کا سبق سکھایا ہے۔انہیں خدا
کی ربوبیت کی یاددلائی ہے لیکن مذہب و اخلاق کے اس طوفان میں جس کے متعلق کہا
جاتاہے کہ وہ اخلاقی ضوابط کی معراج کبریٰ ہے، عام انصاف اور عام دیانت کے لئے
کوئی جگہ نہیں۔ مسیح مقدس جو رواستبداد کے ستائے ہوئے مظلوم انسانوں کے درمیان،
آسمان سے اُترتا ہوا فرشتہ دکھائی دیتا ہے جو ان کی طرف فارقلیط کا پیغام رحمت
وشفقت پہنچاتا ہے لیکن اس جورو استبداد کی علّت معلوم کرنا اس کے دائرہ شعور سے
باہر ہے۔خیر وشر کا صحیح تصور اس کے حیطہ نگاہ سے خارج ہے۔ یہ ظلم وستم اس کے
نزدیک خدا کی طرف سے گناہ گاروں کے لئے ابتلاء وآزمائش ہے۔نظام عالم کا خاصہ ہے۔
اس حکومت کا فیصلہ ہے جو دنیا میں خدائی حقوق کی بناء پرقائم ہے۔ سینٹ ونسنٹ فرانس
کے اس قید خانہ کاک معائنہ کرتاہے جو دنیا میں جیتا جاگتا جہنم ہے وہ وہاں محبت
کاپیغام عام کرتاہے او ر گناہگاروں کو توبہ کی تلقین کرتاہے۔ لیکن وہ ظلم واستبداد
جس پر اس جہنم کا قیام ہے اسے اس کا احساس تک بھی نہیں ہوتا۔ ظالموں کے پنجہ ظلم و
استبداد میں جکڑ ی ہوئی انسانیت کی چیخْیں نکلتی رہیں ، انسانوں کی زندگیاں او
رقلوب و اذہان غلامی کی زنجیروں میں بندھے رہیں، ان کی ہڈیاں چٹختی رہیں ، وہ مٹ
جائیں، فنا، ہوجائیں ،عیسائیت کی روح انہیں جاکر تسلی دے گی لیکن یہ اس کے حیطہ
تصور میں بھی نہیں آئے گا کہ اس ظلم و ستم کو کس طرح مٹا یا جائے جس کی وجہ سے
انسانیت ان مصائب کا شکار ہورہی ہے ۔ ان چیزوں کا اسے احساس ہی نہ ہوگا۔ ان مظالم
کے استیصال اور ان سے انسانوں کی نجات کی ذمہ داری کی طرف سے یہ بالکل آنکھ بند
کئے رہے گی۔ عدل و انصاف اور حق وباطل کی طرف سے عیسائیت کی روح یکسر بے حس ہے۔ یہ
تصور اس کے نزدیک ایسا ہی اجنبی ہے جیسا صداقت تصور ۔ وہ ہمیشہ عفو، برداشت ،
رحمدلی کا سبق پڑھاتی رہی لیکن عدل و انصاف کی اسے کبھی یاد نہ آتی۔ زندگی او راس
کی تمام حودداریوں کا ترک ۔۔۔۔قدسیہ آرزو ۔۔۔۔عدم مدافعت، خاموش اطاعت ایک گال پر
طانچہ کھا کر دوسرا سامنے کردینا ، غرضیکہ اس قسم کے متشدد (غیر فطری) ضابطہ اخلاق
کاطوفان ،عیسائیت کے شعور کو مشتعل کرسکتاتھا لیکن ظلم و استبداد اور جورو ستم کے
کسی منظر سے وہ متاثر نہیں ہوسکتی تھی۔
(THE MAKING OF HUMANITY: p. 332-333)
انہی حقائق کے پیش نظر (EMERY
REVES)
لکھتا ہے کہ:۔
اس سے انکار نہیں کیا
جاسکتا کہ عیسائیت ،قلب انسانی کی گہرائیوں تک اُتر جانے میں ناکام رہی ہے۔ وہ
انسانی کردار کی جڑتک پہنچ نہیں سکی۔ یہ صرف اخلاق او رتہذیب کی ایک ہلکی سی سطح
تیار کرسکی تھی ، جو عصر حاضر کے معاشرتی زلزلوں سے پاش پاش ہوگئی ۔
(ANATAOMY OF PEACE: p. 75)
وہائٹ ہیڈ لکھتا ہے کہ:۔
انجیل میں جس قسم کا اخلاقی
ضابط دیا گیاہے اسے اگر موجودہ معاشرہ میں نافذ کردیا جائے تو اس کا نتیجہ فوری
موت کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
(ADVENTURE OF IDEAS:p. 18)
تصریحات بالاسے یہ حقیقت
ہمارے سامنے آگئی کہ فکر مغرب انسانی زندگی کے مسائل کاحل مذہب میں تلاش کرتاہے
لیکن اسے جس جسم کامذہب ،عیسائیت کی رو سے ملتاہے وہ اس مسائل کو حل کرنے کے بجائے
او رالجھادیتاہے ۔ اس لئے اس وقت یورپ کے سامنے ایک اور مشکل پیدا ہوچکی ہے ۔و ہ
یہ سمجھتاہے کہ مذہب ایک مطلق کیفیت کا نام ہے جو ہر جگہ ایک جیسی ہوتی ہے۔ یعنی
اس کا خیال ہے کہ جس قسم کا مذہب عیسائیت پیش کرتی ہے ۔دنیا میں جہاں جہاں مذہب کا
نام لیا جاتاہے وہاں اسی قسم کامذہب ملے گا۔ وہ ایسا سمجھنے میں حق بجانب بھی ہے
کیونکہ عیسائیت کے پیش کردہ مذہب کے اصولی عناصر انفرادی نجات ،خدا اور بندے کے
درمیان پرائیویٹ تعلق ، تزکیہ ،نفس ،مادہ سے نفرت ،دنیا سے اجتناب اور آخرت
پرنگاہیں ہیں۔ اور دنیا کے ہر مذہب میں یہی تصورات ہیں۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کے مروجہ
کا بھی یہی حال ہے چنانچہ علامہ اقبال اس باب میں لکھتے ہیں کہ:۔
تصوف مسلمانوں کے مشرقی
ممالک میں اس سے بھی زیادہ تباہی کاموجب ہوا ہے جس قدر یہ مغرب میں بربادی کا باعث
ہواہے۔ بجائے اس کے کہ یہ عام انسان کی داخلی زندگی میں استلاف و توازن پیدا کرکے
اسے کاروان تاریخ کے ساتھ چلنے کے قابل بنادیتا ، اس نے اسے ترک علائق کا باطل سبق
پڑھا دیا جس کی وجہ سے اس نے اپنی جہالت اور روحانی جمود کا نام طمانیت قلب رکھ
لیا۔(خطبات 177)( جاری)
---------------------
Part: 1- 'What did the man think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Preface—Part 1 انسان نے کیا سوچا
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism