غلام احمدپرویز
باب ہشتم، تضادات
(CONFLICTS AND CONTRADICTIONS)
فریب کشمکش عقل
دیدنی دارد
کہ میری قافلہ
وذوق رہزنی دارد
تضادات
(CONFLICTS AND CONTRADICTIONS)
اس وقت تک ہم جس قدر
راستہ طے کرچکے ہیں اس پرنگہ بازگشت ڈالئے اور دیکھئے کہ اس میں کیا دکھائی
دیتاہے۔
یہ بھی
۔۔۔۔۔
1۔ کائنات کی بنیاد یکسر مادی ہے ۔ مادہ ہی حقیقت ہے۔ اس کے علاوہ
حقیقت کچھ او رنہیں۔
2۔ زندگی ،شعور، سب مادہ کی پیداوار ہیں۔ مادی عناصر کے ظہور ترتیب
کا نام انسان ہے۔ ان کے انتشار سے زندگی کاخاتمہ ہوجائے گا
3۔ اخلاق کے ضوبط انسانی معاشرہ کے پیداکردہ ہیں اور ان کی بنیاد
معاشرتی مصالح پر ہے۔ لہٰذا اخلاقی توہین کا معیار عقل سے ماورا کچھ نہیں۔
4۔ سیاست نام ہے اپنے گروہ (قبیلہ ،پارٹی، قوم، وطن) کے مفاد کے
تحفظ کا۔ جن طریقوں سے ان مفادات کی حفاظت ہوجائے وہ احسن وقابل ستائش جن سے ان
مفاد پر زور پڑے وہ مذموم اور قابل نفرین۔
5۔ چونکہ حصول وپیداوار معاش کی استعداد مختلف انسانوں میں مختلف
ہے اس لئے ذہین اور صاحب ذرائع گروہوں کو حق حاصل ہے کہ دوسرے انسانوں کی محنت کے
ماحصل کو غصب کرلیں۔ اگر اس سے کام کرنے والے طبقہ کی حالت زار ہوجاتی ہے تو یہ ان
کی قسمت ہے۔ وہ پیداہی اس لئے ہوئے تھے۔
6۔ انسان نے موجودہ زمانہ میں ایسی ترقی کی ہے جس کی نظیر تاریخ کے
اوراق میں کہیں نہیں مل سکتی۔
7۔انسان خارجی حوادث کے ہاتھوں مجبور ومقہو ر ہے ۔ اس کا مستقبل اس
کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہے۔
8۔ مثالی معاشرہ وہ ہے جس میں عقل و خرد کی کارفرئی ہو۔ مادی سامان
تعیش سے نگاہوں میں خیر گی پیدا ہورہی ہو ۔ انسان کی طبیعی ضروریات آسانی سے پوری
ہوجاتی ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔کائنات کی بنیاد غیر مادی ہے۔ مادہ کی حقیقت کچھ نہیں ،مادہ
روشنی کی بند لہریں ،مجردّ توانائی ،حرکت محض ،منجمد خیالات یا حوادث مربوط کا نام
ہے۔
2۔ نہ زندگی مادہ کی پیدو ار ہے نہ شعو ر۔ ان کی اصل ماورائے
مادیّت ہے۔ انسانی زندگی نہ مادہ سے ابھرتی ہے۔ نہ مادی عناصر کے انتشار سے ختم
ہوجائے گی ۔زندگی جوئے روان است رواں خواہد بود۔
3۔اخلاقی قوانین نہ عقل کی پیداوار میں نہ انسانی معاشرہ نے ان کی
تخلیق کی ہے۔ ان کا مدار مستقل اقدار پر ہے جن کا سرچشمہ ماورائے عقل ومادہ ہے۔
4۔سیاست انسانی معاملات کو ضابط عدل و انصاف کے مطابق طے کرنے کا
نام ہے۔ اس کی اساس غیر متبدّل قوانین پر رکھنی چاہئے جن کااحترام تمام نوع انسانی
پریکساں طور پر لازم ہے۔
5۔ کسی انسان کو دوسرے انسان کی محنت کا ماحصل غصب کرنے کا حق نہیں
۔معاشی سر چشمے سب کام کرنے والوں کے ہاتھ میں ہونے چاہئیں۔
6۔انسان نے موجودہ ترقی ، درحقیت انسانیت کا تنزّل ہے۔ اس سے زیادہ
تسفّل کی حالت انسان پر کبھی نہیں گزری۔
7۔انسان خارجی حوادث پر غلبہ پانے کیلئے پیدا ہوا ہے۔ یہ اپنی
زندگی کا نصب العین خود متعین کرسکتا ہے او راس نصب العین تک پہنچنے کے لئے فطرت
کی قوتوں کو مجبور کرسکتا ہے۔
8۔ مثالی معاشرہ وہ ہے جس میں دل کی حکمرانی ہو۔ انسانیت ترقی کرکے
مادی چاردیواری سے آگے بڑھ جائے ۔انسان صرف اپنی طبیعی ضروریات کے حصول سے تسکین
حاصل نہیں کرسکتا ۔ یہ ایک نصب العین بھی رکھتا ہے جو اسے سطح سے بلند لے جاتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے اس راہ میں کیا
دیکھا؟ قدم قدم پرتضادات کی خاردار جھاڑیاں جن سے ہر رہر وکادامن الجھ کررہ جائے۔
تضات کی دنیا:۔۔۔۔۔۔
دائیں کچھ ،بائیں کچھ، آگے کچھ، پیچھے کچھ، نیچے کچھ، اوپر کچھ، اندر کچھ،
باہرکچھ، تضادپیہم تضاد ،کشمکش ،مسلسل کشمکش ،تناقض، غیر منقطع تناقض۔یہ ہیں وہ
کاروان حیات انسانی کے راستے کے مناظر۔ روح اور مادہ میں تضاد، عقل اور عشق میں
تضاد، علم اور اعتقاد میں تضاد، تحفظ ذات اور ایثار میں تضاد، محبت خویش
اورعالمگیر مؤدّت میں تضاد ،دنیا اور آخرت میں تضاد ،خیر و شر کا تضاد ،اہرمن
ویزداں کاتضاد، تضاد بالائے تضاد! اور انسانی فکر کی تمام جدّوجہد ان تضادات میں
توافق کی تلاش۱۔
کبھی متضاد عناصر کو اپنی اپنی جگہ مستقل بالذّات تسلیم کرکے اپنے عجزوبیچار گی کا
اعتراف او رکبھی ایک وجود سے آنکھیں بند کرکے اس فریب نفس کانام توافق تضاد انسان
کے سامنے درحقیقت سوال ایک ہی رہا ہے او رایک ہی ہے اور وہ یہ کہ زندگی کے ان
تضادات میں کس طرح توافق پیدا کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
(TO RECONCILE CONTRADICTIONS AND RESOLVE CONFLICTS)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرائڈ کے خیال کے مطابق
یہ تضادات تین گوشوں میں نمودار ہوتے ہیں۔
انسان اور خارجی کائنات
میں تضاد
انسان اور دوسرے انسانوں
میں باہمی تضاد اور ۔۔۔۔انسان کی ذات میں متخالف قوتوں کا تضاد۱
(CIVILISATION, WAR AND DEATH: p. 29)
انسان او رکائنات:۔۔۔۔۔۔
آئیے ہم دیکھیں کہ فکر جدید ان تضادات میں توافق پیداکرنے کی کوشش میں کس مقام تک
پہنچا ہے۔ سب سے پہلے انسان اور خارجی کائنات کو لیجئے ۔جب شعور انسانی نے پہلے
پہل آنکھ کھولی تو اس نے دیکھا کہ وہ کائنات کی خارجی قوتوں کے سامنے یکسر بے بس
ولاچار ہے۔بادل کی گرج ، بجلی کی چمک ،بارش کی تباہ کاریاں ،دریاوں کی طغیانیاں
سمندر کی تمّوج انگیزیاں ،پہاڑوں کی آتش فشانیاں ، زمین کی زلزلہ خیز یاں ،حادثات
،بیماریاں اور آخر الامرموت ، اس کے نزدیک وہ بے پناہ قوتیں میں تھیں جن کا اس کے
پاس کوئی علاج نہ تھا۔ وہ ان سے ڈرتا تھا، کانپتا تھا، لزرتا تھا۔ اس لئے ان کے
سامنے گڑگڑاتاتھا جھکتا تھا، انہیں سجدے کرتاتھا کہ اس خوشامد سے ان کی ضرورسانیوں
سے محفوظ رہ سکے۔
تاریخ کے اس پہلے باب کے
بعد درمیانی حصہ کو چھوڑ کر ،موجودہ دوور کو دیکھئے ۔اسی انسان نے خارجی کائنات کی
بہت سی قوتوں کو اپنے تابع فرمان کرلیاہے۔ وہ سمندر کے سینے چیرتا ہے۔ ہوا کہ دوش
پرسوار ہے،بجلی اس کی انگلیوں کے اشارے پرناچتی ہے۔ایتھر کی غیر مرئی لہر یں اس کے
لئے ہرکارہ کا کام کرتی ہیں۔ زمین اپنے چھپائے ہوئے خزانے اس کے لئے اُگل رہی ہے۔
پہاڑ اس کے سامنے سرنگوں ہیں۔ دریااس کے حضو ر زمین بوس ہیں۔ اس نے کائنات کی
قوتوں کواپنی مٹھی میں بند کررکھا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
(MARTIN BUBBER IN ''BETWEEN MAN AND MAN'': p. 17)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر انسان بھی دیگر
کائناتی قوتوں میں ایک قوت ہوتا تو دیگر قوائے فطرت کی تسخیر سے معاملہ یکسو
ہوجاتا۔آگ کی حرارت سے پانی بھاپ بن کر اُڑجاتاہے ،مسئلہ حل ہوجاتاہے ۔پانی کو آگ
پر ڈال دیا جائے تو آگ بجھ جاتی ہے۔ کشمکش ختم ہوجاتی ہے۔لیکن انسان، فطرت کی
قوتوں کو مسخرکرکے انہیں اپنے اختیار و ارادہ کے مطابق صرف کرتاہے ۔اگر اس کے
مقاصد کی سمت صحیح نہیں اور اسے اپنی خواہشات پرقابو نہیں تو فطرت کی انہی مسخّر
کردہ قوتوں سے وہ فساد انگیز یاں اور خونریزیاں کرے گا۔یہ ہے وہ پہلا تضاد جو
ہمارے دور میں اُبھر کر سامنے آگیا ہے۔(HEGEDUS) لکھتا ہے:۔
ہماری اصل مشکل یہ ہے کہ
بیسویں صدی میں خارجی قوتوں پر انسان کا قبضہ و اقتدار اس کی اپنی دات پر قبضہ و
اختیار سے کہیں بڑھ گیاہے۔ یہ چیز بالکل تنزّل کاعکس ہے خواہ اس کے نتائج کیسے ہی
ضرررساں کیوں نہ ہوں۔ تنزّل کی بجائے ہم ایک ایسے زمانہ سے گزررہے ہیں جس میں عدم
توازن کا دور درہ ہے۔ یہ عدم توازن ہے خارجی قوتوں کے متعلق انسانی علم، اور خود
انسان کے متعلق انسانی علم میں خارجی قوتوں کے متعلق انسان کا علم بہت بڑھ گیا ہے
اور خود انسان کے متعلق علم جس نے اسے یہ سکھانا تھا وہ خوداپنے آپ پر کس قدر قابو
پاسکتاہے بہت کم ہے۔
(THE STATE OF THE WORLD: p. 12)
پروفیسر (BREND)اس نقطہ کو اور
وضاحت سے بیان کرتاہے جب وہ لکھتا ہے کہ:۔
یہ سرسری ساتبصرہ بتاتا
ہے کہ انسان ابھی اس مقام سے بہت دور ہے کہ وہ سیکھ لے کہ وہ اپنے آپ پر کس طرح
حکومت کرسکتاہے۔ انسان ہر جگہ پریشان او ربے یقینی کے عالم میں پھررہا ہے ۔ وہ اس
سوسائٹی کو متشکل کرنے کیلئے جس کے لئے وہ سمجھتا ہے کہ وہ بالکل فٹ ہے، ایک خاص
راستہ اختیار کرناچاہتاہے ۔لیکن اس کامطمح نظر اسے ہمیشہ دھوکا دیتا ہے قدیمی
اقدار اور عقائد ختم ہوچکے ہیں اور ان کی جگہ کسی اور چیز نے لی نہیں۔ دنیا کے
بیشتر حصہ پر تعمیری قوتوں کے بجائے تخریبی قوتیں چھاچکی ہیں اور انسان نے جو کچھ
صدیوں میں حاصل کیا تھا وہ سب ختم ہورہاہے۔۔۔۔۔ انسان نے اپنے طبعی ماحول پر اچھا
خاصا قابو پالیا ہے لیکن اس نے اپنے جذباتی ماحول پرقابو پانا ابھی نہیں سیکھا۔
(FOUNDATIONS OF HUMAN CONFLICT)
(KAL MANNHEIM) کہتا ہے کہ :۔
دنیا میں پروپیگنڈہ کے فن
کو اس قدر ترقی دینا یا انسانی عادات وخصائل کے متعلق فنی اصطلاحات نافذ کرناکس
کام کا ہے اگر ہم یہ نہ جان سکیں کہ بالآخر ان چیزوں کامقصد کیا ہے، بچوں کی تربیت
،نفسیاتی ،معاشرتی اصلاحات وغیرہ کیا فائدہ دے سکتی ہیں اگر وہ بچے جن کی خاطر ہم
یہ سب کچھ کرتے ہیں، دنیا میں بغیر کسی مستقل معیار کے چھوڑ دیئے جائیں ۔
(DIAGNOSIS OF OUR TIMES: p. 25)
برٹرینڈرسل اسی کشمکش کے
متعلق لکھتا ہے کہ :۔
ہماری موجودہ مشکل یہ ہے
کہ ہم نے خارجی قوتوں کو تو بے حساب انداز سے مسخّر کرلیاہے لیکن ان قوتوں کو
قطعاً مسخّر نہیں کیا جو خود ہمارے اپنے اندر ہیں۔ ضبط نفس ہمیشہ معلّمین اخلاقی
کا سب سے پہلاسبق رہا ہے لیکن زمانہ سابقہ میں اس کا کوئی واضح مفہوم سامنے نہیں
ہوتا تھا ۔(اس کامفہوم یہی ہے کہ خارجی قوتوں کو کس طرح صحیح اقدار کے تابع صرف
کیا جائے)
(AUTHORITY AND THE INDIVIDUAL: p. 125)
پروفیسر (STEBBINGS) نے اس باب میں لکھا
ہے کہ:۔
سائنس کی کلچر ل قدر
وقیمت اس میں نہیں کہ علوم سائنس کو قوائے فطرت کے مسخّر کرنے میں کس طرح استعمال
کیا جائے؟ اس کی صحیح قدر وقیمت اس میں ہے کہ اس سے انسانی قلوب کی تربیت کی جائے۔
سائنس کی ترقی اسی صورت میں ممکن ہے جب انسان آزاد ہوں۔(126)
(IDEALS AND ILLUSIONS: p. 126)
اگرانسان نے اپنے آپ پر
قابو پانا نہ سیکھا ہوتوفطری قوتوں کی سخیر جس قدر زیادہ ہوگی اسی قدر دنیا میں
فساد اور ناہموار یاں بڑھتی جائیں گی۔ اگر کوئی فتنہ انگیز آدمی کمزور ہوتو اس کی
فتنہ انگیزیاں کم ضرررساں ہوں گی۔ لیکن اگر وہ طاقتور ہوجائے تو پھر اس کی فتنہ
سامانیاں حدود فراموش ہوجائیں گی ۔بچے کے ہاتھ میں چھڑی اتنی نقصاندہ نہیں جتنی
نقصاندہ چھُری ہے۔میسن لکھتا ہے :۔
اگر انسان نے اپنے اندر
کیریکٹر عزم اور ایسی قوت پیدا نہیں کی جو مادی ترغیبات کامقابلہ کر سکے تو مادہ
پر جس قدر قدرت انسان کو حاصل ہوتی جائے گی اسی قدر اس کا اندیشہ زیادہ ہوگا کہ یہ
مادی قوت اسے تباہ وبرباد کردے۔
(CREATIVE FREEDOM: p. 28)
اس لئے:۔
انسان کی تجارت اس میں
نہیں کہ وہ آسمان کے تارے توڑنے والی عقل حاصل کرلے۔ اس کی نجات کی راہ یہ ہے کہ
علم کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کا ارتقاء بھی کرتا جائے تاکہ اسے اپنے علم کا صحیح
مصرف معلوم ہوجائے۔(30)
افادی اور جمالیاتی
پہلو:۔۔۔۔۔۔۔ خود اشیائے فطرت کو دیکھئے تو ان کے بھی دوپہلو ہیں۔ بنفشہ کاپھول
طبّی نقطہ نگاہ سے بہت سی بیماریوں کا علاج ہے۔ یہ اس کا افادی پہلو (UTILITARIAN
ASPECT)
ہے۔لیکن یہی پھول نگہ حسن بین وجمال شناس کے لئے زیبائی و رعنائی کی ایک دنیا اپنے
اندر لئے ہوتا ہے۔ اس کی نزاکت اس کی لطافت ،اس کا کیف باررنگ ،اس کی عطر بیز
خوشبو ،اس کی وضع قطع میں خاص تناسب یعنی وہ سب کچھ جو اسے پیکر حسن وجمال بنائے
ہوتا ہے، انسانی طبیعت میں ایک خاص کیفیت پیدا کردیتاہے ۔یہ اس کا جمالیاتی پہلو(APPRECIATIVE
OR AESTHETIC ASPECT) ہے۔ ان دوونوں پہلوؤں میں بھی تضاد ہے۔اگر کسی قوم پر اشیائے
کائنات کا افادی پہلو غالب آگیا ہے تو وہ قوم محض حرکت و عمل کی مشین بن کر رہ
جاتی ہے اور اگر کسی قوم پر ان اشیاء کے جمالیاتی پہلو نے علبہ پالیا ہہے تو وہ
قوم ‘‘شاعروں’’ کاگروہ بن جاتی ہے کہ :۔
افکار میں سرمست ،نہ خواہ
بیدہ نہ بیدار
ان تضادات میں توافق بھی
نہایت ضروری ہے ۔رسل اس ضمن میں لکھتا ہےء۔
اگر انسانی زندگی کو محض
راکھ کاڈھیربن کر نہیں رہ جانا تو اس کے لئے یہ سمجھ لینا نہایت ضروری ہے کہ
اشیائے کائنات میں ایسی قدر وقیمت بھی ہوتیہے جو افادی حیثیت سے بالکل بے نیاز
ہوتی ہے۔ جس چیز کو ہم مفید کہتے ہیں اس کی افادیت سے مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی
مقصد کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہے او ریہ مقصد اپنی قیمت آپ ہوتا ہے اس لئے کہ اگر یہ
اپنی آپ نہ ہوتو یہ کسی او رمقصد کے حصول کا ذریعہ ہوگا بجائے خویش مقصد نہ ہوگا۔(AUTHORITY
AND THE INDIVIDUAL: p. 113)
میسن اس باب میں لکھتاہے
:۔
تعمیر ذات کی تکمیل اسی
صورت میں ممکن ہے جب اشیاء کی افادی اور روحانی قدروقیمت میں توافق پیدا کیا جائے
۔انسان نے ابھی تک یہ نہیں سیکھا کہ ان دونوں پہلوؤں میں امتزاج کس طرح پیدا کیا
جائے؟ پھر جب تک مادّیت او رجمالیّت دونوں ایک دوسرے کو اپنا ممدومعاون نہ سمجھیں
گے انسانی راستہ سے دُھند صاف نہیں ہوگی۔(184)
آگے چل کر پروفیسر مذکور
لکھتا ہے کہ ‘‘ اشیاء کا جمالیاتی پہلو یہ بتاتاہے کہ ہماری اصل مادی نہیں روحانی
ہے او رمادی افادیت اس حقیقت کی یاددلاتی ہے کہ تخلیقی تحرّک اپنا مقصد اسی صورت
میں پورا کرسکتا ہے جب افادیت اور روحانیت دونوں کا امتزاج ہو’’(395)لیکن‘‘آج تک
کوئی قوم افادیت اور جمالیات کاامتزاج صحیح تناسب کے ساتھ نہیں کرسکی یہ مسئلہ اس
وقت تک لاینحل ہے’’(437)بایں ہمہ اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرناچاہئے کہ
جمالیات کو کہیں مقصود بالذّت نہ سمجھ لیا جائے ۔اس کامقصد صرف یہ ہے کہ ‘‘یہ تھکے
ماندے انسان کو پھر سے افادی اکتسابات کے لئے تیار کردیتی ہے اور اسے بار بار اسی
حقیقت کی یاد دلاتی رہتی ہے کہ اسے مادی افادیت میں ڈوب نہیں جاناچاہئے ۔آرٹ برائے
آرٹ کانظریہ ایک آرٹسٹ کی تکمیل فن کے لئے ضروری چیز ہے لیکن اگر کوئی قوم اس
نظریہ کو اصول حیات بنالے تو اس کی تخلیقی قوتیں تباہ ہو جاتی ہیں’’ (444) ۔آگے چل
کر میسن کہتا ہے کہ ‘‘یونان کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ اس قوم نے جمالیات کو زندگی
کا مقصد سمجھ لیا اور مادی افادیت سے یکسر اجتناب برتا۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ کیا
وہ قوم مادی افادیت سے بے نیاز ہوگئی ؟ ایسا ہونہیں سکتا۔ جب تک انسان دنیا میں
موجود ہے وہ مادی افادیت کا محتاج ہے۔لہٰذا صورت حالات یہ ہوگئی کہ یونانیوں نے
افادی تخلیق بند کردی ۔لیکن افادیت کی ضرورت بدستور رہی بجائے اس کہ وہ اس ضرورت
کے لئے افادیت تخلیق شروع کرتے، انہوں نے مکروفریب سے اس ضرورت کو پوراکرنے کی کوشش
شروع کردی۔چنانچہ جن اقوام کو یونانیوں سے واسطہ پڑا، ان میں یونانیوں کی بددیانتی
بطور ضرب المثل مشہور ہوگئی۔ ان تاریخی شواہد کے بعد میسن لکھتاہے کہ جو قوم محض
جمالیاتی پہلو میں جذب ہوکر رہ جاتی ہے اسے مادی ضروریات کو پوراکرنے کیلئے نہایت
مذموم حرکات کرنی پڑتی ہیں۔لہٰذا جمالیات کبھی اخلاق نہیں سکھا سکتے (445) ۔اندر
یں حالات :۔
تہذیب خالص مادیت کا نام
ہے نہ جمالیات کا،یہ ان دونوں کے مجموعہ کانام ہے۔۔۔۔ جمالیات مادی افادیت کے بغیر
موت کا پیغام ۔(446)
معاشرتی تضادات:۔۔ ۔۔۔۔
اس کے بعد ان تضادات کو دیکھئے جو انسان اور انسان کے درمیان فہور پذیر ہوتے ہیں۔
ان تضادات کیلئے نہ کسی سند کی ضرورت ہے نہ شہادت کی نہ صبح سے شام تک ہمارے سامنے
آتے رہتے ہیں ۔انسان کی عمرانی اور تمدّنی زندگی کی تمام کشمکش ان ہی تضادات کا
نتیجہ ہے۔ اسی تضاد کادوسرا نام باہمی مغاد کا تصادم ہے۔ دنیا میں ہر فرد اپنے آپ
کو مستقل بالذّات ،الگ جداگانہ ہستی سمجھتاہے او راپنی زندگی کامقصود اپنی ذات کے
مفاد کا تحفظ ۔ اب ظاہر ہے کہ جب ایک جگہ رہنے والے کو کروڑوں افراد میں سے ہر فر
د اپنے آپ کو الگ ہستی تصور کرے او راپنی ہستی کا مقصود قرار دے اپنے مفاد کا تحفظ
تو اس کا نتیجہ پیہم فساد او رمسلسل خون ریزی کے سوا کیا ہوگا؟ برفو نے درست لکھا
ہے کہ ‘‘انسانی فکر کو فطرت کی طرف سے عائد کردہ مشکلات ومواقع کے خلاف جنگ نہیں
کرنی پڑی۔ اگر کبھی ایسا اتفاق ہوا بھی ہے تو انسانی فکر اس رزم گاہ سے مظفرومنصور
نکلا ہے۔ اس کی حقیقی جنگ تو اس کے خود ساختہ موانع کے خلاف رہی ہے او رانہی غیر
فطری او رمصنوعی مواقع نے اس کی تمام تخلیقی قوتوں کو مفلوج کردیا ہے (86)۔یہ خود
ساختہ غیر فطری مواقع دہی ہیں جنہیں ہر انسان نے اپنے آپ کو نوع انسانی سے الگ
جداگانہ ہستی تصور کرکے،انسان اور انسان کے درمیان حائل کررکھا ہے۔
اندرونی
تضادات:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر آپ غور سے دیکھیں تو یہ تمام خارجی تضادات درحقیقت عکس
ہیں ان تضادات کا جو انسان کی اپنی ذات میں وجہ کش مکش بنتے رہتے ہیں ۔مثلاً ہم
ہرروز اخبارات میں پرھتے ہیں کہ فلاح شخص قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا ہے
لیکن وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ محرم اس نے نہیں فلاں شخص نے کیا تھا۔
ہم اس واقعہ کو محض ایک خبر (NEWS) کی حیثیت سے پڑھ
کرآگے بڑھ جاتے ہیں۔اس سے ہمارے اندر کسی قسم کی کشمکش پیدا نہیں ہوتی ۔لیکن اگر
ملزم ہمارا بیٹا ہوتو اہم اپنے خون جگر کے آخری قطرہ تک کو بھی اس کوشش کی
نذرکردیں گے کہ کسی طرح یہ ثابت کردیا جائے کہ مجرم کوئی دوسرا شخص ہے، خواہ ہمیں
معلوم ہی ہوکہ قتل فی الواقعہ ہمارے بیٹے ہی نے کیا تھا۔یہ کیا ہوا؟ ظاہر ہے کہ اس
واقعہ میں دومتضاد جذبات ہمارے سینہ میں مصروف کشمکش تھے۔ ایک تقاضا ئے انصاف
،دوسرا بیٹے کی محبت، ہم پر دوسرا جذبہ غالب آگیا اور بیٹے کو بچانے کی خاطر ہم نے
دن کاچین اور رات کی نیند حرام کردی۔ بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ یہ معاملہ ہمارے
بیٹے اور ملزم کے درمیان ہے لیکن درحقیقت یہ معاملہ خود ہمارے دومتضاد جذبات کی
کشمکش کامظہر ہے جس میں ایک جذبے (بیٹے کی محبت) نے دوسرے جذبے کو مغلوب کرلیا ہے۔
لہٰذا تضادات کا حقیقی سرچشمہ خود ہماری ذات ہے اور یہی وہ تضاد ہے جسے بنیادی
اہمیت حاصل ہے۔ اسی بنا پر میسن لکھتا ہے کہ:۔
اخلاق صرف اس ضابطہ کا
نام نہیں جو انسان اور انسان کے دررمیان تعلقات کو صحیح معیار کے مطابق طے کرتا ہے
بلکہ اس میں وہ ضابطہ بھی شامل ہے جس کی رو سے انسان کے خود اپنی ذات کے ساتھ
تعلقات بھی صحیح خط پر متشکل رہتے ہیں۔ اگر ایک شخص معاشی طور پر آزاد ہو۔اسے کسی
دوسرے انسان کو احتیاج نہ ہو۔ وہ جیل خانہ کے اندر محبوس ہو۔ اسے جلاوطن کردیا
جائے۔ پھر بھی وہ اس اخلاقی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہوسکتا جو اس پر اپنی ذات کے
سلسلہ میں عائد ہوتی ہے۔(223)
بلکہ میسن ،اس ضابطہ
اخلاق کو جو انسان کی اپنی ذات سے متعلق ہے، بنیادی قرار دیتاہے ۔وہ کہتاہے کہ
‘‘اگر ہم ایک انسان کے دوسرے انسان کے ساتھ تعلقات کی افادی تعبیر بھی کیوں نہ
کرلیں ، جو تعلقات اسے اپنی ذات سے ہیں وہ تو یقینا ماورائے مادیّت ،روحانی دنیا
سے متعلق ہیں۔یہی وہ مقام ہے جہاں انسان اپنے مادی مفاد کو اپنی ذات کی بلند حقیقت
پر قربان کردیتاہے (224) ۔انسان کے ان اندرونی تضادات کے متعلق اوسنپسکی (گرجیف کے
الفاظ میں ) کہتا ہے کہ :۔
یہ تضادات فطرت کے
پیداکردہ نہیں بلکہ خود انسان کے پیداکردہ ہیں۔اگر چہ انسان انہیں غیر شعوری طور
پر پیداکرتاہے ۔یہ تضادات ،آراء احساسات، جذبات، الفاظ او راعمال کے پیکروں میں
نمودار ہوتے ہیں۔ اگر انسان ان تمام تضادات کو محسوس کرنے لگ جائے جو اس کے اندر
پیہم اور متواتر پیدا ہوتے رہتے ہیں تو اس کے لئے جینا مشکل ہوجائے او رکبھی اس
سکون سے کام کان نہ کرسکے جس طرح وہ اب کرتا رہتا ہے ۔ وہ اضطراب پیہم اور اضطرار
مسلسل کامظہر بنارہے ہم کبھی محسوس ہی نہیں کرتے کہ ہمارے مختلف انا کس طرح ایک
دوسرے سے متضاد و متخالف ہیں۔ اگر کوئی شخص ان تضادات کو محسوس کرلے تو پھر اسے
معلوم ہوکہ وہ درحقیقت ہے کیا۔ پھر وہ لکھے کہ وہ پاگل ہے، اگر چہ یہ خیال کہ وہ
پاگل ہے اس کے لئے کبھی خوش آئند نہیں ہوسکتا۔
(IN SEARCH OF THE MIRACULOUS: p. 154-155)
یہی وہ داخلی تضادات ہیں
جن کے پیش نظر پال کہتا ہے کہ ‘‘انسان اپنا فریق مقابل آپ ہو تا ہے ۱’’
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(THE MEANING OF EXISTENCE: p. 221)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اورباردیو کہتاہے کہ
‘‘تحالف وتضادات و انسان کی روحانی قامت کی علامت ہیں’’(THE
DESTINY OF MAN)فرائڈکے
مکتب فکر اعلم تجزیہ نفس کی رو سے یہ تضاد نفس شعوری اور غیر شعوری کی کشمکش کا
نام ہے۔ نفس انسانی کی سب سے نچلی سطح پر (ID) ہے جو انسان کی
تمام جبلّی خواہشات (INSTINCTUAL DESIRES) کا پیکر ہے ۔جب (ID)کا تقابل حقیقت سے
ہوتاہے ،تو اس سے ایغو ظہور میں آتا ہے ۔گویا ایغو کے دامن کا ایک سرا (ID) سے بندھا ہوتاہے او
ردوسرا دنیا کے حقیقت سے ۔اس سے یہ تضادات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
تضادات میں
توافق:۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان کے سامنے اصل سوال یہ ہے کہ ان تضادات میں توافق کیسے پیدا
کیا جائے؟ کانٹ کہتاہے کہ اس مقصد کے لئے انسان کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس
کی ہستی دوہری ہے۔لہٰذا:۔
انسان کو دونقاط نگاہ سے
اپنے آپ کو سمجھنا چاہئے اسے ایک تویہ سمجھنا چاہئے کہ وہ ایک معقولیت پسند ہستی
ہے۔ مستقل بالذّات ،دنیا ئے معقولیت کا ایک رکن اور آزادی کے قوانین کے تابع اور
اس کے ساتھ ہی اسے یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ وہ ایک ایسی ہستی ہے جو جذبات سے
متاثر ہوتی ہے اور علّت ومعلول کے قانون کے تابع ہے۔ جس وقت ہم ان دونوں گوشوں کو
سمجھ لیں گے تو یہ تضادات خود بخود مٹ جائیں گے۔
(THE CATAGORICAL IMPERATIVE: p. 267)
عقل وجذبات کے اس تضاد کے
متعلق پرنسپل کیرڈ لکھتا ہے کہ:۔
جو ہستی بیک وقت عقل اور
جذبات کے تابع ہو اس کے متعلق یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ اندھی بھی ہے اور بینا بھی
۔محدود بھی او رغیر محدود بھی ۔آزاد بھی ہے اور گرفتار بھی۔
(INTRODUCTION TO THE PHILOSOPHY OF
RELIGION: p. 257)
اوسپنسکی کہتا ہے کہ :۔
جب تک انسان اپنے اندرونی
تضادات میں وحدت قائم نہ کرلے اسے اپنے آپ کو انا کہنے کا حق ہی نہیں ہوتا۔اس
کاکوئی ارادہ ہی نہیں ہوتا جس انسان نے یہ وحدت نہ حاصل کی ہو وہ اگر اپنے آپ کو
صاحب اختیار و ارادہ سمجھتا ہے تو اس کی بھول ہے۔‘‘ ارادہ’’ تو خواہشات کے نتیجہ کا
نام ہوتا ہے۔سوجس شخص کی خو اہشات مستقل نہ ہوں تو وہ اپنے جذبات اور خارجی اثرات
کا کھلونا ہے۔اسے کچھ معلوم نہیں ہوسکتا کہ دوسرے ہی سانس میں یہ کیا کہہ دے گا او
رکیا کرے گا۔ اس کی زندگی کا ہر سانس اتفاقات کے پروں سے چھپا ہوتا ہے۔
(THE NEW MODEL OF UNIVERSE: pp. 132-133)
برگسان کہتاہے کہ جب تک
یہ داخلی توافق حاصل نہ ہو ،معاشرہ میں کبھی وحدت اور توافق پیدا نہیں ہوسکتا اس
لئے ‘‘جو توازن ہمیں سطح پر نظر آتاہے اس سے کہیں گہرا اور حقیقی توازن انسان کی
اپنی ذات کے اندر ہونا چاہئے ۔جن معاہدات کے متعلق ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی رو سے
معاشرہ کاایک فرد، دوسرے فرد کے ساتھ مربوط ہوجاتاہے ان کاپہلا کام یہ ہوناچاہئے
کہ وہ خود ہمیں ہماری ذات کے ساتھ پیوست کریں’’۔
(THE TWO SOURCES OF MORALITY AND RELIGION)
یہی وہ اندرونی وحدت اور
داخلی تضادات میں توافق ہے جس کی رو سے رسل کہتاہے کہ ‘‘انسان مستقبل کے مفاد کی
خاطر حال کی سختیاں جھیل لیتا ہے’’ (114)۔ پروفیسر وہائٹ ہیڈکہتا ہے کہ ‘‘تمام
کائنات وحدت تضادات کی مظہر ہے’’(THE ADVENTURE OF IDEAS:
p. 245)
۔اس کے نزدیک ‘‘جب ظاہر حقیقت کے ساتھ آہنگ ہوجائے تو اسے صداقت (TRUTH) کہتے ہیں’’(319)۔وہ
حسن (BEAUTY)کی تعریف (DEFINITION) میں کہتا ہے کہ‘‘
ایک ہی تجربہ میں مختلف عناصر کے باہمی توافق وتوازن کانام حسن ہے’’(324)۔ اس کے
نزدیک ‘‘جب ظاہر کسی مقصد کے ساتھ حقیقت سے ہم آہنگ ہوجائے تو اسے ‘آرٹ’ کہتے
ہیں’’(344)۔وہ کہتاہے کہ جب انسانی زندگی اس عالم تغیرات میں اس کیساتھ آہنگ
ہوجائے جو تغیرات سے بلند ہے،تو اس حالت کانام آزادی ہے(86)۔ باقی رہا‘‘ خیر وشر’’
کا تضاد سو اس کے متعلق وہائٹ ہیڈ کہتاہے کہ :۔
خیر وشر، سطح سے بہت نیچے
گہرائیوں میں ہوتے ہیں ۔ یہ دنیا ئے حقیقت میں باہمی ربط وضبط کا نام ہے، جب
دنیائے حقیقت میں باہمی ربط وتوازن سے حسن پیدا ہوجائے تو وہ دنیائے خیر ہوتی ہے۔(
345)
اس کے نزدیک ‘‘ہم آہنگی
کی تکمیل کا نام تہذیب ہے’’(345)۔ اور ‘‘انسانی جسم کا مقصد یہ ہے کہ وہ روح
انسانی کی زندگی میں آڑٹ کی تخلیق کرے’’(349) ۔برفوکہتا ہے کہ ‘‘ زندگی کے حقائق
کے ساتھ ہم آہنگ ہوجانے کا نام عدل ہے’’(264)۔ میسن کہتاہے کہ تضاد اور توافق کے
اسی سلسلہ پیہم سے کائنات میں عمل تخلیق جاری ہے جب مادہ میں تضاد پیدا ہوتاہے اسے
انتشار (DISINTEGRATION) کہاجاتا ہے یہ اس لئے ہوتاہے تاکہ مختلف مادی عناصر سے ایک نئی
شے کی تخلیق ہو۔ اسے توافق (INTEFRATION) کہا جاتا
ہے(35-34)۔پرنسپل کیئرڈ کہتاہے کہ جسے دنیائے حقیقت کہا جاتاہے ۔ اس کی حقیقت یہ
ہے کہ اس میں ‘‘متضاد عناصر میں حقیقی ہم آہنگی پیدا ہوجاتی ہے’’(193)۔ وہ کہتاہے
کہ ہماری دنیا میں اس قسم کی ہم آہنگی اخلاقیات کی رو سے پیدا ہوسکتی ہے۔ اس کے
نزدیک:۔
انسان کی اعلیٰ اور ادنیٰ
زندگی کے تضاد میں توافق پیداکرنے کانام اخلاق ہے یہ توافق اس طرح پیدا ہوتاہے کہ
ادنیٰ زندگی اعلیٰ زندگی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔(262)۔
دوسری جگہ کیئر ڈ لکھتا
ہے کہ‘‘ فرد کے حیات کائنات میں جذب ہوجانے سے تضادات مٹ جاتے ہیں ’’(265)۔ راشڈل
کہتاہے کہ ‘‘مثالی نصب العین یہ نہیں کہ انسان کی زندگی میں خیر کے مختلف عناصر
الگ الگ ہوتے ہیں۔ یہ ایسی زندگی کا نام ہے جس میں مختلف عناصر باہمدگرہم آہنگ
ہوں’’۔ VOL, J, p. 220 اسی لئے وہ کہتاہے کہ ‘‘بلند ترین اخلاقی ضابطہ وہ ہوگا جس میں تمام
احکام میں ہم آہنگ پائی جائے’’۔۔۔ (ایضاً 111) اور:۔
بہترین زندگی وہ ہے جس
میں بہت سی ناکامیاں اورظفر مندیاں ہوں۔ بہت سے ایسے مواقع جن میں جذبات اُبھرکر
سامنے آجائیں۔بہت سی ساعتیں ایسی جن میں زندگی اپنے شباب پر نظر آئے ۔کامرانیوں کی
بلند ترین منزل او رناکامیوں کی پست ترین سطح کے درمیان جھولا جھلانے کانام بہترین
زندگی ہے۔(104)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہو کیسے :۔۔۔۔۔یہاں تک
ہم نے دیکھ لیا کہ فکر جدید کی رو سے مقصود زندگی یہ ہے کہ انسان کے مختلف جوہروں
کی کامل نشوونما ہواورپھر ان تکمیل یافتہ جوہروں سے انسان کی اپنی ذات، انسان اور
انسان کے باہمی معاملات ،او رانسان اورا س کی خارجی کائنات میں ہم آہنگی اور توافق
پیداکیا جائے۔ اس کے بعد یہ کہا گیا ہے کہ یہ مقصد عظیم ‘‘اخلاقیات’’ کے ذریعے
حاصل ہو سکتاہے ۔لیکن ‘‘علم الاخلاق’’ کے متعلق راشڈل لکھتا ہے کہ:۔
یہ کہا جائے گا کہ اخلاق
نام ہے انسان کی تمام ممکن صلاحیتوں کی کامل نشو ونما کا لیکن ایسا ہونا ناممکن
ہے۔ اس لئے کہ انسان کی کسی ایک صلاحیت کی نشوونما کے لئے ضروری ہے کہ کوئی دوسری
صلاحیت ناتمام رہ جائے یا اسے قربان ہی کردینا پڑے۔ تکمیل دات ، ایثار ذات کے بغیر
ناممکن ہے۔ یہ کہا جاسکتاہے کہ کامل نشو ونما نہ سہی، انسان کی تمام صلاحیتوں کی
برابر نشوونما ہوجائے ۔لیکن میرے نزدیک یہ بھی ایسے ہی ناممکن ہے جیسے کامل نشو
ونما ناممکن ہے۔(VOL, I. pp. 62-63)
لیجئے جس قدر عمارت اس
وقت تک استوار ہوئی تھی وہ خود انہی معمار وں کے ہاتھوں منہدم ہوگئی ۔ ‘‘سیاسیات’’
کے عنوان میں ہم نے دیکھا تھا کہ فکر جدید اب اس نقطہ تک پہنچی ہے کہ دنیا کے
تضادات کا حل یہ ہے کہ ساری دنیامیں واحد حکومت قائم کردی جائے۔لیکن رسل کہتاہے کہ
تضادات کا یہ بھی حل نہیں اس لئے کہ باہمی منافست و مسابقت کے جذبات خود ہماری
فطرت کا تقاضا ہیں۔اور دنیا کی واحد حکومت میں ان تقاضوں کی تسکین کاکوئی سامان
نہیں ہوگا۔لہٰذا یہ تصور بھی محض فریب نگاہ ہے۱ ۔ اب اس کے بعد معاشرہ
کی اصلاحی کوششیں ہی باقی رہ جاتی ہیں۔ سوان کے متعلق باردیو لکھتا ہے کہ:۔
یہ ناممکن ہے کہ ہم
معاشرتی وسائل سے اس تضاد کو مٹاسکیں جو اس حقیقت کے پیش نظر پیدا ہوتا ہے کہ
انسان ایک روحانی ہستی ہے جس کے دل میں لا انتہااور ابدی نصب العین کی طرف بڑھنے
کی اُمنگ ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کی زندگی اس مادی دنیا کی چار دیواری میں بھی
گھری ہوئی ہے۔(THE DIVINE AND THE HUMAN: p. 79)
اس کا حل مذہب میں
ہے:۔۔۔۔۔۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جب تضادات کا حل سیاست کے ذریعہ ہوسکتاہے او
رنہ معاشرت و اخلاق کے ذریعے ،تو اس اہم بنیادی مسئلہ کے حل کے متعلق کچھ اور بھی
سوچا گیاہے یا یہ سوال یہیں تک آکر رُک گیاہے؟ اس باب میں مغرب کی فکر اب اس نتیجہ
پرپہنچی ہے کہ ان تضادات کا حل مذہب کی رو سے مل سکتاہے ۔ (ALBRECHT
RITSCHL)
لکھتا ہے کہ:۔
ہرمذہب کامقصود یہ ہوتاہے
کہ اس مافوق البشر روحانی قوت کے ذریعے جس کی تعظیم انسان کرتا ہے، اس تضاد کاحل
دریافت کرلیا جائے جس کی رو سے انسان ایک طرف اپنے آپ کو دنیائے فطرت کا ایک جز
ودیکھتاہے اور دوسری طرف عالم روحانیت کا جزو جس کا متصب تسخیر فطرت ہے۔
(JUSTIFICATION AND RECONCILATION: p. 193)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(AUTHORITY AND THE INDIDUAL)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیتھولک یونیورسٹی کے
سائیکلوجی کے پروفیسر ڈاکٹر (THOMAS MOORE) نے (PERSONAL
MENTAL HYGINE)
کے نام سے ایک مفید اور دلچسپ کتاب شائع کی ہے جس میں اس نے جذباتی کشمکش سے پیدا
شدہ مصائب ومشکلات کا تجزیہ کرکے ان کا نفسیاتی علاج تجویز کیا ہے۔وہ اس باب میں
لکھتا ہے کہ :۔
علم النفس اس معاملہ میں
بالکل بے بس ہے یہاں صرف مذہب کام آسکتاہے کیونکہ اس میں ایسی قوت ہے جس سے انسان
زندگی اور موت کی تمام مشکلات سے بلند ہوسکتا ہے۔(126)
پروفیسر ولیم جیمس اپنی
شہرہ آفاق کتاب(THE VARIETIES OF RELIGIOUS EXPERIENCE) میں رقمطراز ہے:۔
اگر کوئی شْخص یہ پوچھے
کہ اجمالی طور پر بتائیے کہ مذہبی زندگی کی خصوصیت کبریٰ کیا ہوتی ہے تو یہ بآسانی
کہا جاسکتاہے کہ اس سے مقصود یہ ہوتاہے کہ یہ ایک غیر مرئی نظام ہے جس سے توافق
اور تطائق ہمارے لئے بلند ترین خیر کاموجب ہوتاہے۔(53)
میسن اس ضمن میں لکھتاہے
کہ تضادات کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنی اصل کے اعتب ار سے روحانی ہے لیکن جس ماحول
میں وہ زندگی بسرکرتا ہے وہ یکسر مادی ہے۔لہٰذا ان دونوں کے تصادم سے تضاد پیدا
ہوتا ہے ۔اس تضاد کو مذہب مٹاتاہے کیونکہ وہ انسان کو ہر وقت یاددلاتارہتا ہے کہ
اس کی اصل روحانی ہے اور اس کی زندگی کامقصد مادہ کو روحانیت میں تبدیل کرنا(258)
اور تو اور JULIUS HUXLEY بھی یہ کہتاہے ۔ (RELIGION WITHOUT
REVELATOIN: p. 91)
ایک تکمیل یافتہ مذہب
،خارجی دنیا کا تقابل ، داخلی معیار اقدار کے ساتھ کرتا ہے اور اس طرح ان دونوں
میں ہم آہنگی پیداکرنے کی کوشش کرتاہے۔
ان تصریحات سے واضح ہے کہ
فکر جدید اب اس نقطہ پر پہنچا ہے کہ ان تضادات کاحل مذہب کی رو سے مل سکتاہے ۱
اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگاکہ
ان مفکرین کے نزدیک مذہب سے کیا مراد ہے؟ اور وہ کون سا مذہب ہے جو ان تضادات کا
واقعی حل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتاہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
قرآن کہتاہے کہ انسانی قلب میں سکون واطمینان ،قوانین خداوندی (یامستقل اقدار) کو
ہر وقت سامنے رکھنے سے پیدا ہو تاہے (13:28 ) جس انسان کا ایمان مستقل اقدار
پرنہیں رہتا وہ ہر معاملہ کا فیصلہ مصلحت (EXPEDIENCY)کی بنیاد کرتاہے اور
چونکہ ایک تو مصلحت کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں ۔ اور دوسرے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان
ہر معاملہ میں صحیح فیصلہ کرے ۔ اس لئے ایسے لوگ ہم درجا کے تذبذب میں رہتے ہیں
۔قرآن ایسے انسان کے لئے ‘‘منافقین’’ کی اصطلاح استعمال کرتاہے۔ مستقل اقدار پر
یقین کس طرح پیداہوتاہے ؟ اس کی تفصیل دوسری کتاب میں ملے گی۔
----------
Part: 1- 'What did the man think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Preface—Part 1 انسان نے کیا سوچا
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism