New Age Islam
Sat Dec 14 2024, 06:28 AM

Urdu Section ( 17 May 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

From Time To Time The Jews Would Come To Prophet’s Service And Ask Questions In The Light Of The Torah Part-32 یہودی وقتاً فوقتاً آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور تورات کی روشنی میں سوال کرتے

مولانا ندیم الواجدی

14 مئی 2021

نفرت اور بغض کی انتہا

سردارانِ یہود کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے کس قدر نفرت تھی اس کا اندازہ ام المؤمنین حضرت صفیہؓ بنت اخطب کی روایت سے لگایا جاسکتا ہے، فرماتی ہیں: میں اپنے والد حُیّی بن اخطب اور چچا ابویاسر بن اخطب کے بچوں میں سب سے زیادہ لاڈلی تھی۔ اگر ان کے پاس دوسرے بچے ہوتے اور میںوہاں پہنچ جاتی تو یہ دونوں ان بچوں کو چھوڑ کر مجھے گود میں اٹھا لیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے تشریف لائے، آپؐ نے قبا میں بنی عمرو بن عوف کے مکانوں میں قیام فرمایا، دوسرے روز منہ اندھیر ے وہ دونوں گھر سے نکلے اور آپؐ کے پاس پہنچے، سورج غروب ہونے تک ان کی واپسی نہیں ہوئی، جب وہ آئے تو بے حد تھکے ہوئے تھے، ان کے قدم لڑکھڑا رہے تھے، ایسا لگ رہا تھا کہ شاید وہ اپنے قدموں پر کھڑے نہ رہ سکیں اور گر جائیں۔ میں خوشی خوشی ان کی طرف بھاگی، میرا یہ ہمیشہ کا معمول تھا، خدا کی قسم ان دونوں میں سے کسی نے بھی میری طرف توجہ نہ دی، وہ دونوں غم میں مبتلا تھے۔ میں نے اپنے چچا ابویاسر کو سنا، وہ میرے والد حُیّی بن اخطب سے کہہ رہے تھے کہ کیا یہ وہی ہے، کیا آپ اسے پہچان گئے ہیں، کیا آپ نے اس کے بارے میں مکمل چھان بین کرلی ہے؟ میرے والد نے کہا ، ہاں! یہ وہی ہے۔ چچا نے پوچھا پھر آپ کے دل میں اس کے متعلق کیا خیال ہے؟ میرے والد نے جواب دیا: خدا کی قسم! جب تک میں زندہ ہوں میری اس سے دشمنی رہے گی۔ (سیرت ابن ہشام ۱؍۳۸۲، عیون الاثر ۱؍۳۳۵)

یہ تو ایک مثال ہے، ورنہ عام علماء یہود اور سردارانِ قبائل کا حال یہی تھا، نفرت کے لاوے ان کے دلوں میں پک رہے تھے، ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس نووارد شخص کو اس کے متبعین سمیت یثرب سے باہر نکال دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اوس و خزرج کی مکمل مدد، نصرت اور پشت پناہی حاصل تھی، ان کی موجودگی میں وہ کوئی قدم اٹھا بھی نہیں سکتے تھے۔

یہودیوں کی دل جوئی

ایک طرف یہ یہودی تھے جو حسد کی آگ میں جل رہے تھے، دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن کے دل میں یہودیوں سے ہمدردی کے جذبات تھے۔ کسی یہودی کا جنازہ گزرتا تو آپ بطور احترام اپنی جگہ سے کھڑے ہوجاتے، اسلام نے اہل کتاب کے ذبیحے کو مسلمانوں کے لئے حلال قرار دیا، کتابیہ سے نکاح کو بھی جائز رکھا، قرآن کریم میں یہ آیت اسی پس منظر میں نازل ہوئی: ’’اے اہل کتاب! ایک ایسی بات کی طرف آجائو جو ہم تم میں مشترک ہو، (اور وہ یہ کہ) ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ کو چھوڑ کر ہم ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں۔‘‘

(آل عمران:۶۴)

اس کھلی دعوت کے بعد بھی یہودی اپنی روش سے باز نہ آئے، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی دشمنی اور عداوت بڑھتی چلی گئی۔

منافقین، انصار اور یہود

ابوعامر اور عبداللہ بن اُبی بن سلول کا ذکر کیا جا چکا ہے، ثانی الذکر کو تو رئیس المنافقین کہا جاتا ہے، ان لوگوں نے محض دکھاوے کے لئے اسلام قبول کیا، لیکن دل سے وہ مشرک ہی رہے۔ اس طرح کے کچھ لوگ اور بھی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے ان کے مفادات کو نقصان پہنچا تھا، اس لئے وہ کوئی نہ کوئی چال چلتے ہی رہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہودی بھی دشمنی کی اسی آگ میں جل رہے ہیں جس آگ نے ان کو جلا کر رکھ دیا ہے، اس لئے قدرتی طور پر ایسے تمام منافقین یہودیوں سے جا کر مل گئے اور درپردہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوگئے۔ یہ ایک طویل داستان ہے اور یہاں اسے بیان کرنے کا موقع نہیں ہے، اگلے صفحات میں اس کی تفصیلات آتی رہیں گی، فی الحال تو ہم اس وقت کی سیاسی صورت حال پر مختصر روشنی ڈالنا چاہتے تھے۔

دربارِ نبوت میں علماء یہود

یہودی علماء وقتاً فوقتاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے اور اپنی کتاب تورات کی روشنی میں آپ ؐسے سوالات بھی کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کچھ یہودی عالم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: اے محمد! آپ ہمارے کچھ سوالوں کے جواب دیجئے، اگر آپ کے جواب صحیح ہوئے تو ہم آپ کی پیروی ضرور کریں گے، آپ کو سچا مان لیں گے اور آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو، مگر وہ وعدہ جو تم نے ابھی کیا ہے یاد رکھنا، اگر میں نے وہ بات بتلادی جو تم چاہتے ہو تو میری تصدیق ضرور کرنا۔ انہوں نے مکرر یقین دہانی کرتے ہوئے پہلا سوال یہ کیا:  یہودی علماء کا پہلا سوال یہ تھا کہ آپ کی نیند کیسی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہیں خدا کی قسم اور ان نعمتوں کی قسم جو اللہ نے بنی اسرائیل کو عطا کی تھیں، تم یہ بتلاو کہ اس شخص کی نیند جس کے متعلق تم یہ خیال کرتے ہو کہ میں وہ نہیں ہوں ایسی ہوتی ہے کہ اس کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل بیدار رہتا ہے، وہ کہنے لگے: خدا کی قسم! بات ایسی ہی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری نیند بھی ایسی ہی ہے، میری آنکھیں سوتی ہیں اور دل جاگتا رہتا ہے۔ ان لوگوں کا دوسرا سوال یہ تھا کہ وہ کون سی چیزیں ہیں جنہیں اسرائیل یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں اللہ کی اور ان نعمتوں کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جو اللہ نے بنی اسرائیل کو دی تھیں، کیا ان چیزوں کا تعلق کھانے پینے سے نہیں تھا اور کیا وہ چیزیں حضرت یعقوب کو بے حد مرغوب نہیں تھیں، وہ چیزیں اونٹ کا گوشت اور اونٹنی کا دودھ تھا، ایک مرتبہ وہ کسی بیماری میں مبتلا ہوگئے تھے۔ پھر اللہ نے انہیں صحت عطا فرمائی۔ بہ طور تشکر انہوں نے ان دونوں چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرلیا حالاں کہ انہیں اونٹ کا گوشت بہت پسند تھا اور اونٹنی کا دودھ بھی بے حد مرغوب تھا۔یہودیوں نے کہا: واللہ یہ بات سچ ہے۔ یہودی عالموں کا ایک سوال یہ بھی  تھا کہ آپ ہمیں روح کے متعلق کچھ بتلائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں اللہ کی اور ان نعمتوں کی قسم دیتا ہوں جو بنی اسرائیل پر اتاری گئیں کیا تم نہیں جانتے کہ وہ روح جبریل ہیں، یہ وہی ہیں جو میرے پاس وحی لے کر آتے ہیں، یہودی کہنے لگے: واللہ آپ نے سچ فرمایا۔ مگر ہم کیا کریں، جبریل ہمارے دشمن ہیں، یہ فرشتہ ہیں اور یہ جب بھی آتے ہیں مصیبتیں اور خون ریزیاں لے کر آتے ہیں، اگر یہ بات نہ ہوتی تو ہم ضرور آپ پر ایمان لے آتے اور آپ کی اتباع کرتے۔ (تفسیر الطبری ۱؍۳۴۲) یہودی علماء اور عوام کے سوالات کا سلسلہ مدتوں جاری رہا، اسی کے ساتھ ان کی فتنہ انگیزیاں بھی بڑھتی چلی گئیں، قرآن کریم کی متعدد آیات میں یہود کے ان علماء کا ذکر ہے جو آپ سے سوالات کیا کرتے تھے اور آپ کے راستے میں دشواریاں پیدا کرتے تھے، انہوں نے اوس و خزرج کو بھی آپس میں لڑانے کی کوشش کی، اگر اللہ کی رحمت شامل حال نہ ہوتی تو یہ دونوں قبیلے ایک بار پھر باہمی دشمنی کی پرانی کہانی دہراتے، جب ان کی تمام تدبیریں، حیلے اور سازشیں ناکام ہوگئیں تو انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اے محمد! آپ ہمارے پاس کوئی ایسی چیز تو لے کر آئے نہیں جو ہم جانتے ہوں اور نہ آپ کے سلسلے میں کوئی کھلی نشانی ایسی اتاری گئی جسے دیکھ کر ہم آپ کی پیروی کریں، آپ ایسی کوئی کتاب براہِ راست ہمارے اوپر نازل کرائیں جسے ہم پڑھیں، اور آپ پر ایمان لے آئیں، آپ ہمارے لئے نہریں بہادیجئے تبھی ہم آپ کی پیروی کریں گے۔ (تفسیر ابن کثیر ۱؍۱۷۸، ۱۹۲، ۲۱۹)

عبداللہ بن سلامؓ کا قبولِ اسلام

ایسا بھی نہیں کہ تمام علماء یہود کا یہی حال تھا، ان میں کچھ صالح فکر رکھنے والے خوش قسمت افراد بھی تھے، حضرت عبداللہ بن سلامؓ کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے پہلی ہی ملاقات میں پرکھ لیا تھا کہ یہی وہ پیغمبر ہیں جن کا ذکر تورات میں ملتا ہے، حضرت عبداللہ بن سلام تورات کے بڑے عالم تھے۔ یہودی عوام ہی نہیں خواص بھی ان کا بڑا احترام کرتے تھے اور ان کی بات کو اہمیت دیا کرتے تھے، ان کا اصل نام حُصین تھا، قبول اسلام کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام بدل کر عبداللہ بن سلام رکھ دیا۔ اپنے قبولِ اسلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سنا کہ وہ آخری پیغمبر کے طور پر ظاہر ہونے والے ہیں، نیز مجھے ان کا اسم گرامی معلوم ہوا، آپ کے اوصاف میرے علم میں آئے تو میں نے یہ تمام باتیں بہ طور راز اپنے سینے میں رکھیں اور خاموشی اختیار کرلی، یہاں تک کہ آپ مدینے میں تشریف لے آئے، آپ کا پہلا قیام قبا میں بنو عوف کے ہاں تھا۔ ایک روز میں کھجور کے باغ میں مصروفِ عمل تھا، میری پھوپھی خالدہ بنت الحارث کھجور کے ایک درخت کے نیچے بیٹھی ہوئی تھیں، ایک شخص آیا اور اس نے یہ خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبا میں تشریف لاچکے ہیں۔ یہ سن کر میں نے خوشی سے اللہ اکبر کہا، میری پھوپھی نے کہا، اللہ تجھے ناکام کرے واللہ! اگر تو موسیٰ بن عمران کے آنے کی خبر سنتا تو اس سے زیادہ کچھ نہ کہتا۔ میں نے کہا پھوپھی جان! خدا کی قسم، وہ موسیٰ بن عمران کے بھائی ہیں، انہیں کے دین پر ہیں اور اس چیز کے ساتھ بھیجے گئے ہیں جس کے ساتھ وہ بھیجے گئے تھے،میری پھوپھی نے کہا اچھا تو کیا یہ وہی نبی ہیں جن کے قیامت کے عین قریب تشریف لانے کی ہمیں خبر دی گئی ہے۔ میں نے کہاں ہاں! یہ وہی نبی ہیں، اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، مشرف بہ اسلام ہوا ، واپس آکر اپنے گھر والوں سے کہا، انہوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔

عبداللہ بن سلامؓ کہتے ہیں کہ میں اسلام تو لے آیا لیکن میں نے یہودیوں سے اپنا اسلام پوشیدہ رکھا۔ ایک روز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یارسول اللہ! یہودی بڑے جھوٹے ہوتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے کسی حجرے میں چھپا دیں، پھر یہودیوں سے میرے متعلق پوچھیں، جب تک انہیں میرے اسلام کی خبر نہیں ہے وہ میری تعریف کریں گے اور جیسے ہی انہیں یہ معلوم ہوگا کہ میں مسلمان ہوچکا ہوں میرے اندر عیب نکالیں گے اور طرح طرح کی برائیاں میری طرف منسوب کریں گے۔(جاری ہے)

14 مئی 2021، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

Related Article

Part: 1- I Was Taken to the Skies Where the Sound Of Writing with a Pen Was Coming (Part-1) مجھے اوپر لے جایا گیا یہاں تک کہ میں ایسی جگہ پہنچا جہاں قلم سے لکھنے کی آوازیں آرہی تھیں

Part: 2- Umm Hani! ام ہانی! میں نے تم لوگوں کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی جیسا کہ تم نے دیکھا، پھرمیں بیت المقدس پہنچا اور اس میں نماز پڑھی، پھر اب صبح میں تم لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی جیسا کہ تم دیکھ رہی ہو

Part: 3 - Allah Brought Bait ul Muqaddas before Me and I Explained its Signs اللہ نے بیت المقدس کو میرے روبرو کردیااور میں نے اس کی نشانیاں بیان کیں

Part: 4- That Was A Journey Of Total Awakening وہ سراسر بیداری کا سفر تھا، جس میں آپؐ کو جسم اور روح کے ساتھ لے جایا گیا تھا

Part: 5- The infinite power of Allah Almighty and the rational proof of Mi'raj رب العالمین کی لامتناہی قدرت اور سفر معراج کی عقلی دلیل

Part: 6- The Reward of 'Meraj' Was Given by Allah Only to the Prophet معراج کا انعام رب العالمین کی طرف سے عطیۂ خاص تھا جو صرف آپؐ کو عطا کیا گیا

Part: 7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے

Part:-8- Prophet Used To Be More Active Than Ever In Preaching Islam During Hajj رسولؐ اللہ ہر موسمِ حج میں اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کیلئے پہلے سے زیادہ متحرک ہوجاتے

Part: 9- You Will Soon See That Allah Will Make You Inheritors Of The Land And Property Of Arabia تم بہت جلد دیکھو گے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کسریٰ اور عرب کی زمین اور اموال کا وارث بنا دیگا

Part: 10- The Prophet That the Jews Used To Frighten Us With یہ وہی نبی ہیں جن کا ذکر کرکے یہودی ہمیں ڈراتے رہتے ہیں

Part: 11- Pledge of Allegiance بیعت ثانیہ کا ذکر جب آپؐ سے بنی عبدالاشہل کے لوگوں نے بیعت کی،ایمان لائے اور آپ ؐسے رفاقت و دفاع کا بھرپور وعدہ کیا

Part: 12 - Your Blood Is My Blood, Your Honour Is My Honour, and Your Soul Is My Soul تمہارا خون میرا خون ہے، تمہاری عزت میری عزت ہے، تمہاری جان میری جان ہے

Part: 13- The event of migration is the boundary between the two stages of Dawah ہجرت کا واقعہ اسلامی دعوت کے دو مرحلوں کے درمیان حدّ فاصل کی حیثیت رکھتا ہے

Part: 14- I Was Shown Your Hometown - The Noisy Land Of Palm Groves, In My Dream مجھے خواب میں تمہارا دارالہجرۃ دکھلایا گیا ہے، وہ کھجوروں کے باغات والی شوریدہ زمین ہے

Part: 15- Hazrat Umar's Hijrat and the Story of Abbas bin Abi Rabia تو ایک انگلی ہی تو ہے جو ذرا سی خون آلود ہوگئی ہے،یہ جو تکلیف پہنچی ہے اللہ کی راہ میں پہنچی ہے

Part: 16- When Allah Informed The Prophet Of The Conspiracy Of The Quraysh جب اللہ نے آپؐ کو قریش کی سازش سے باخبرکیا اور حکم دیا کہ آج رات اپنے بستر پر نہ سوئیں

Part: 17- Prophet Muhammad (SAW) Has Not Only Gone But Has Also Put Dust On Your Heads محمدؐنہ صرف چلے گئے ہیں بلکہ تمہارے سروں پر خاک بھی ڈال گئے ہیں

Part: 18- O Abu Bakr: What Do You Think Of Those Two Who Have Allah As a Company اے ابوبکرؓ: ان دو کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہو

Part: 19- The Journey of Hijrat Started From the House of Hazrat Khadija and Ended At the House of Hazrat Abu Ayub Ansari سفر ِ ہجرت حضرت خدیجہ ؓکے مکان سے شروع ہوا اور حضرت ابوایوب انصاریؓ کے مکان پر ختم ہوا

Part: 20- O Suraqa: What about a day when you will be wearing the Bracelets of Kisra اے سراقہ: اس وقت کیسا لگے گا جب تم کسریٰ کے دونوں کنگن اپنے ہاتھ میں پہنو گے

Part:21- The Holy Prophet's Migration And Its Significance نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا واقعہ اور اس کی اہمیت

Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے

Part: 23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع ہوا ہے

Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل سے نکال دیں

Part: 25- Bless Madinah Twice As Much As You Have To Makkah یا اللہ: جتنی برکتیں آپ نے مکہ میں رکھی ہیں اس سے دوگنی برکتیں مدینہ میں فرما

Part: 26- Construction of the Masjid-e-Nabwi مسجد نبویؐ کی تعمیر کیلئے جب آپؐ کو پتھر اُٹھا اُٹھا کر لاتا دیکھا تو صحابہؓ کا جوش دوچند ہو گیا

Part: 27- The First Sermon of the Holy Prophet after the Migration and the Beginning of Azaan in Madina ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں حضورﷺ کا پہلا خطبہ اور اذان کی ابتداء

Part: 28- The Lord of the Ka'bah رب کعبہ نے فرمایا، ہم آپ ؐکے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اُٹھنا دیکھ رہے تھے

Part: 29- Holy Prophet’s Concern for the Companions of Safa نبی کریمؐ کو اصحابِ صفہ کی اتنی فکر تھی کہ دوسری ضرورتیں نظر انداز فرمادیتے تھے

Part: 30- Exemplary Relationship of Brotherhood مثالی رشتہ ٔ اخوت: جب سرکار ؐدو عالم نے مہاجرین اور انصار کو بھائی بھائی بنا دیا

Part: 31- Prophet (SAW) Could Have Settled in Mecca after Its Conquest فتح مکہ کے بعد مکہ ہی مستقر بن سکتا تھا، مگر آپؐ نے ایسا نہیں کیا، پاسِ عہد مانع تھا

URL:  https://www.newageislam.com/urdu-section/from-time-time-jews-come-part-32/d/124832

 New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..