مولانا ندیم الواجدی
14 مئی 2021
نفرت اور بغض کی انتہا
سردارانِ یہود کو رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے کس قدر نفرت تھی اس کا اندازہ ام المؤمنین
حضرت صفیہؓ بنت اخطب کی روایت سے لگایا جاسکتا ہے، فرماتی ہیں: میں اپنے والد
حُیّی بن اخطب اور چچا ابویاسر بن اخطب کے بچوں میں سب سے زیادہ لاڈلی تھی۔ اگر ان
کے پاس دوسرے بچے ہوتے اور میںوہاں پہنچ جاتی تو یہ دونوں ان بچوں کو چھوڑ کر مجھے
گود میں اٹھا لیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے تشریف لائے، آپؐ نے قبا
میں بنی عمرو بن عوف کے مکانوں میں قیام فرمایا، دوسرے روز منہ اندھیر ے وہ دونوں
گھر سے نکلے اور آپؐ کے پاس پہنچے، سورج غروب ہونے تک ان کی واپسی نہیں ہوئی، جب
وہ آئے تو بے حد تھکے ہوئے تھے، ان کے قدم لڑکھڑا رہے تھے، ایسا لگ رہا تھا کہ
شاید وہ اپنے قدموں پر کھڑے نہ رہ سکیں اور گر جائیں۔ میں خوشی خوشی ان کی طرف
بھاگی، میرا یہ ہمیشہ کا معمول تھا، خدا کی قسم ان دونوں میں سے کسی نے بھی میری
طرف توجہ نہ دی، وہ دونوں غم میں مبتلا تھے۔ میں نے اپنے چچا ابویاسر کو سنا، وہ
میرے والد حُیّی بن اخطب سے کہہ رہے تھے کہ کیا یہ وہی ہے، کیا آپ اسے پہچان گئے
ہیں، کیا آپ نے اس کے بارے میں مکمل چھان بین کرلی ہے؟ میرے والد نے کہا ، ہاں!
یہ وہی ہے۔ چچا نے پوچھا پھر آپ کے دل میں اس کے متعلق کیا خیال ہے؟ میرے والد نے
جواب دیا: خدا کی قسم! جب تک میں زندہ ہوں میری اس سے دشمنی رہے گی۔ (سیرت ابن
ہشام ۱؍۳۸۲، عیون الاثر ۱؍۳۳۵)
یہ تو ایک مثال ہے، ورنہ
عام علماء یہود اور سردارانِ قبائل کا حال یہی تھا، نفرت کے لاوے ان کے دلوں میں
پک رہے تھے، ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس نووارد شخص کو اس کے متبعین سمیت
یثرب سے باہر نکال دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اوس و خزرج کی مکمل مدد،
نصرت اور پشت پناہی حاصل تھی، ان کی موجودگی میں وہ کوئی قدم اٹھا بھی نہیں سکتے
تھے۔
یہودیوں کی دل جوئی
ایک طرف یہ یہودی تھے جو
حسد کی آگ میں جل رہے تھے، دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن کے دل
میں یہودیوں سے ہمدردی کے جذبات تھے۔ کسی یہودی کا جنازہ گزرتا تو آپ بطور احترام
اپنی جگہ سے کھڑے ہوجاتے، اسلام نے اہل کتاب کے ذبیحے کو مسلمانوں کے لئے حلال
قرار دیا، کتابیہ سے نکاح کو بھی جائز رکھا، قرآن کریم میں یہ آیت اسی پس منظر
میں نازل ہوئی: ’’اے اہل کتاب! ایک ایسی بات کی طرف آجائو جو ہم تم میں مشترک ہو،
(اور وہ یہ کہ) ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک
نہ ٹھہرائیں اور اللہ کو چھوڑ کر ہم ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں۔‘‘
(آل عمران:۶۴)
اس کھلی دعوت کے بعد بھی
یہودی اپنی روش سے باز نہ آئے، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی دشمنی اور عداوت
بڑھتی چلی گئی۔
منافقین، انصار اور یہود
ابوعامر اور عبداللہ بن
اُبی بن سلول کا ذکر کیا جا چکا ہے، ثانی الذکر کو تو رئیس المنافقین کہا جاتا ہے،
ان لوگوں نے محض دکھاوے کے لئے اسلام قبول کیا، لیکن دل سے وہ مشرک ہی رہے۔ اس طرح
کے کچھ لوگ اور بھی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے ان کے
مفادات کو نقصان پہنچا تھا، اس لئے وہ کوئی نہ کوئی چال چلتے ہی رہتے تھے۔ وہ
جانتے تھے کہ یہودی بھی دشمنی کی اسی آگ میں جل رہے ہیں جس آگ نے ان کو جلا کر
رکھ دیا ہے، اس لئے قدرتی طور پر ایسے تمام منافقین یہودیوں سے جا کر مل گئے اور
درپردہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوگئے۔ یہ ایک طویل داستان ہے
اور یہاں اسے بیان کرنے کا موقع نہیں ہے، اگلے صفحات میں اس کی تفصیلات آتی رہیں
گی، فی الحال تو ہم اس وقت کی سیاسی صورت حال پر مختصر روشنی ڈالنا چاہتے تھے۔
دربارِ نبوت میں علماء یہود
یہودی علماء وقتاً فوقتاً
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے اور اپنی کتاب تورات
کی روشنی میں آپ ؐسے سوالات بھی کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کچھ یہودی عالم آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: اے محمد! آپ ہمارے کچھ سوالوں کے
جواب دیجئے، اگر آپ کے جواب صحیح ہوئے تو ہم آپ کی پیروی ضرور کریں گے، آپ کو
سچا مان لیں گے اور آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو، مگر وہ وعدہ جو تم نے ابھی کیا ہے یاد رکھنا،
اگر میں نے وہ بات بتلادی جو تم چاہتے ہو تو میری تصدیق ضرور کرنا۔ انہوں نے مکرر
یقین دہانی کرتے ہوئے پہلا سوال یہ کیا:
یہودی علماء کا پہلا سوال یہ تھا کہ آپ کی نیند کیسی ہے؟ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہیں خدا کی قسم اور ان نعمتوں کی قسم جو اللہ
نے بنی اسرائیل کو عطا کی تھیں، تم یہ بتلاو کہ اس شخص کی نیند جس کے متعلق تم یہ
خیال کرتے ہو کہ میں وہ نہیں ہوں ایسی ہوتی ہے کہ اس کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل
بیدار رہتا ہے، وہ کہنے لگے: خدا کی قسم! بات ایسی ہی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: میری نیند بھی ایسی ہی ہے، میری آنکھیں سوتی ہیں اور دل جاگتا
رہتا ہے۔ ان لوگوں کا دوسرا سوال یہ تھا کہ وہ کون سی چیزیں ہیں جنہیں اسرائیل
یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں اللہ کی اور ان نعمتوں کی قسم دے کر پوچھتا
ہوں جو اللہ نے بنی اسرائیل کو دی تھیں، کیا ان چیزوں کا تعلق کھانے پینے سے نہیں
تھا اور کیا وہ چیزیں حضرت یعقوب کو بے حد مرغوب نہیں تھیں، وہ چیزیں اونٹ کا گوشت
اور اونٹنی کا دودھ تھا، ایک مرتبہ وہ کسی بیماری میں مبتلا ہوگئے تھے۔ پھر اللہ
نے انہیں صحت عطا فرمائی۔ بہ طور تشکر انہوں نے ان دونوں چیزوں کو اپنے اوپر حرام
کرلیا حالاں کہ انہیں اونٹ کا گوشت بہت پسند تھا اور اونٹنی کا دودھ بھی بے حد
مرغوب تھا۔یہودیوں نے کہا: واللہ یہ بات سچ ہے۔ یہودی عالموں کا ایک سوال یہ
بھی تھا کہ آپ ہمیں روح کے متعلق کچھ
بتلائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں اللہ کی اور
ان نعمتوں کی قسم دیتا ہوں جو بنی اسرائیل پر اتاری گئیں کیا تم نہیں جانتے کہ وہ
روح جبریل ہیں، یہ وہی ہیں جو میرے پاس وحی لے کر آتے ہیں، یہودی کہنے لگے: واللہ
آپ نے سچ فرمایا۔ مگر ہم کیا کریں، جبریل ہمارے دشمن ہیں، یہ فرشتہ ہیں اور یہ جب
بھی آتے ہیں مصیبتیں اور خون ریزیاں لے کر آتے ہیں، اگر یہ بات نہ ہوتی تو ہم
ضرور آپ پر ایمان لے آتے اور آپ کی اتباع کرتے۔ (تفسیر الطبری ۱؍۳۴۲) یہودی علماء اور عوام کے
سوالات کا سلسلہ مدتوں جاری رہا، اسی کے ساتھ ان کی فتنہ انگیزیاں بھی بڑھتی چلی
گئیں، قرآن کریم کی متعدد آیات میں یہود کے ان علماء کا ذکر ہے جو آپ سے سوالات
کیا کرتے تھے اور آپ کے راستے میں دشواریاں پیدا کرتے تھے، انہوں نے اوس و خزرج
کو بھی آپس میں لڑانے کی کوشش کی، اگر اللہ کی رحمت شامل حال نہ ہوتی تو یہ دونوں
قبیلے ایک بار پھر باہمی دشمنی کی پرانی کہانی دہراتے، جب ان کی تمام تدبیریں،
حیلے اور سازشیں ناکام ہوگئیں تو انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اے محمد! آپ ہمارے
پاس کوئی ایسی چیز تو لے کر آئے نہیں جو ہم جانتے ہوں اور نہ آپ کے سلسلے میں
کوئی کھلی نشانی ایسی اتاری گئی جسے دیکھ کر ہم آپ کی پیروی کریں، آپ ایسی کوئی
کتاب براہِ راست ہمارے اوپر نازل کرائیں جسے ہم پڑھیں، اور آپ پر ایمان لے آئیں،
آپ ہمارے لئے نہریں بہادیجئے تبھی ہم آپ کی پیروی کریں گے۔ (تفسیر ابن کثیر ۱؍۱۷۸، ۱۹۲، ۲۱۹)
عبداللہ بن سلامؓ کا
قبولِ اسلام
ایسا بھی نہیں کہ تمام
علماء یہود کا یہی حال تھا، ان میں کچھ صالح فکر رکھنے والے خوش قسمت افراد بھی
تھے، حضرت عبداللہ بن سلامؓ کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے پہلی ہی
ملاقات میں پرکھ لیا تھا کہ یہی وہ پیغمبر ہیں جن کا ذکر تورات میں ملتا ہے، حضرت
عبداللہ بن سلام تورات کے بڑے عالم تھے۔ یہودی عوام ہی نہیں خواص بھی ان کا بڑا
احترام کرتے تھے اور ان کی بات کو اہمیت دیا کرتے تھے، ان کا اصل نام حُصین تھا،
قبول اسلام کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام بدل کر عبداللہ بن
سلام رکھ دیا۔ اپنے قبولِ اسلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب میں نے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سنا کہ وہ آخری پیغمبر کے طور پر ظاہر
ہونے والے ہیں، نیز مجھے ان کا اسم گرامی معلوم ہوا، آپ کے اوصاف میرے علم میں
آئے تو میں نے یہ تمام باتیں بہ طور راز اپنے سینے میں رکھیں اور خاموشی اختیار
کرلی، یہاں تک کہ آپ مدینے میں تشریف لے آئے، آپ کا پہلا قیام قبا میں بنو عوف
کے ہاں تھا۔ ایک روز میں کھجور کے باغ میں مصروفِ عمل تھا، میری پھوپھی خالدہ بنت
الحارث کھجور کے ایک درخت کے نیچے بیٹھی ہوئی تھیں، ایک شخص آیا اور اس نے یہ خبر
دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبا میں تشریف لاچکے ہیں۔ یہ سن کر میں نے
خوشی سے اللہ اکبر کہا، میری پھوپھی نے کہا، اللہ تجھے ناکام کرے واللہ! اگر تو
موسیٰ بن عمران کے آنے کی خبر سنتا تو اس سے زیادہ کچھ نہ کہتا۔ میں نے کہا
پھوپھی جان! خدا کی قسم، وہ موسیٰ بن عمران کے بھائی ہیں، انہیں کے دین پر ہیں اور
اس چیز کے ساتھ بھیجے گئے ہیں جس کے ساتھ وہ بھیجے گئے تھے،میری پھوپھی نے کہا
اچھا تو کیا یہ وہی نبی ہیں جن کے قیامت کے عین قریب تشریف لانے کی ہمیں خبر دی
گئی ہے۔ میں نے کہاں ہاں! یہ وہی نبی ہیں، اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، مشرف بہ اسلام ہوا ، واپس آکر اپنے گھر والوں سے کہا،
انہوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔
عبداللہ بن سلامؓ کہتے
ہیں کہ میں اسلام تو لے آیا لیکن میں نے یہودیوں سے اپنا اسلام پوشیدہ رکھا۔ ایک
روز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یارسول
اللہ! یہودی بڑے جھوٹے ہوتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے کسی حجرے میں چھپا
دیں، پھر یہودیوں سے میرے متعلق پوچھیں، جب تک انہیں میرے اسلام کی خبر نہیں ہے وہ
میری تعریف کریں گے اور جیسے ہی انہیں یہ معلوم ہوگا کہ میں مسلمان ہوچکا ہوں میرے
اندر عیب نکالیں گے اور طرح طرح کی برائیاں میری طرف منسوب کریں گے۔(جاری ہے)
14 مئی 2021، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/from-time-time-jews-come-part-32/d/124832
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism