مولانا ندیم الواجدی
7 مئی 2021
مہاجرین اور انصار:
دوسری طرف انصار صحابہ کے
فضائل بھی بے شمار ہیں۔ محدثین نے اپنی کتابوں میں انصار کے فضائل پر مستقل ابواب
قائم کئے ہیں، اس موضوع پر مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں، انصار کی فضیلت کے لئے
یہ بات کیا کم ہے کہ یہ لقب خود اللہ نے انہیں عطا کیا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں
ہے: ’’اور مہاجرین وانصار میں سے جو لوگ
پہلے ایمان لائے۔‘‘ (التوبہ:۱۰۰) ایک روایت میں ہے،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انصار کی محبت ایمان کی علامت ہے
اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے۔ (صحیح البخاری: ۱/۱۲، رقم الحدیث: ۱۷، صحیح مسلم:۱/۸۵، رقم الحدیث: ۷۴) ایک مرتبہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے انصار کی کچھ خواتین اور بچوں کو شادی کی کسی تقریب سے واپس آتے
ہوئے دیکھا، آپؐ انہیں دیکھ کر کھڑے ہوگئے اور ارشاد فرمایا: مجھے لوگوں میں سب
سے زیادہ محبوب تم ہو، یہ بات آپؐ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔ (صحیح البخاری: ۵/۳۲، رقم الحدیث: ۳۷۸۵، صحیح مسلم:۴/۱۹۴۸، رقم الحدیث: ۲۵۰۸) ایک مرتبہ انصاری صحابہ
کرامؓ سے خطاب کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے گروہ ِانصار!
کیا میں تمہارے پاس اس وقت نہیں آیا جب تم راہ راست سے بھٹکے ہوئے تھے، اللہ نے
میری وجہ سے تمہیں ہدایت عطا فرمائی؟ کیا میں تمہارے پاس اس وقت نہیں آیا جب تم
مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے تھے، اللہ نے میری وجہ سے تمہارے دلوں میں الفت پیدا
فرمادی؟ انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں، یا رسولؐ اللہ! اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: تم لوگ یہ کیوں نہیں کہتے کہ آپؐ ہمارے پاس اس وقت تشریف
لائے جب آپؐ کی قوم نے آپؐ کو وطن سے
نکالا ہم نے آپؐ کو پناہ دی، آپؐ ہمارے
پاس شکستہ حالت میں آئے تھے ہم نے آپؐ کی مدد ونصرت کی۔ انہوں نے عرض کیا: نہیں!
یا رسول اللہﷺ! آپؐ کا ہمارے پاس تشریف
لانا اللہ اور اس کے رسولؐ کا ہم پر احسان ہے۔ (مسند احمد بن حنبل:۱۹/۷۸، رقم الحدیث: ۱۲۰۲۱)
انصار کے لئے یہ کتنی بڑی
فضیلت اور کس قدر عظیم سعادت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ
رہنا پسند فرمایا حالانکہ فتح مکہ کے بعد آپ وہاں تشریف لے جاسکتے تھے، لیکن
انصار سے آپ نے جو وعدہ فرمایا تھا اسے پورا فرمایا اور دنیا سے پردہ فرمانے کے
بعد قیامت تک کے لئے آرام گاہ کے طور پر اسی سرزمین کا انتخاب فرمایا۔ ایک مرتبہ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر لوگ
کسی ایک گھاٹی کی طرف جارہے ہوں اور انصار دوسری گھاٹی کی طرف تو میں انصار کے
ساتھ چلنا پسند کروں گا، اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار ہی میں سے ایک ہوتا۔ (سنن
الترمذی:۵/۷۱۲،
رقم الحدیث: ۳۹۰۱،
مسند احمد بن حنبل:۱۶/۳۰۳،
رقم الحدیث: ۱۰۵۰۸)
اوس و خزرج
یثرب کے ان دو قبیلوں کا
ذکر پہلے بھی آچکا ہے۔ یہ دونوں قبیلے یمن سے یہاں آکر آباد ہوئے تھے۔ ابتدا میں
شیر و شکر ہو کر رہے، بعد میں عربوں کی جنگجو فطرت غالب آئی اور یہ دونوں قبیلے
آپس میں دست و گریباں رہنے لگے۔ خزرج عددی اعتبار سے بڑا اور اوس نسبتاً چھوٹا قبیلہ تھا۔ یہ دونوں
قبیلے بات بات پر لڑنے کے لئے تیار رہتے تھے، ان کے درمیان بے شمار جنگیں ہوئیں،
آخر ی لڑائی جو ہجرت سے کچھ پہلے لڑی گئی جنگ بُعاث کے نام سے مشہور ہے۔ یہ اس
قدر ہولناک اور خونریز تھی کہ برسوں چلتی رہی اور اس میں دونوں قبیلوں کے تمام
بہادر افراد مارے گئے۔ یہ آگ اس وقت تھمی جب ان دونوں قبیلوں کو اللہ تعالیٰ نے
اسلام کے سایۂ رحمت میں جگہ دینے کا فیصلہ کیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد یہ دونوں
متحد ہو کر رہنے لگے۔ قرآن کریم میں اوس و خزرج پر اللہ تعالیٰ کے اس بے پایاں
احسان و کرم کا بہ طور خاص ذکر کیا گیا ہے۔ فرمایا: ’’اور اللہ تعالیٰ نے تم پر جو
انعام کیا ہے اسے یاد رکھو، ایک وقت وہ تھا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اللہ
نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اللہ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے۔‘‘(آل
عمران:۱۰۳)
اوس و خزرج مشرک و بت
پرست تھے، یہ دونوں قبیلے قلب شہر میں رہتے تھے۔ اطراف میں کچھ یہودی قبائل آباد
تھے جو نہایت مضبوط قلعوں میں رہتے تھے۔ یہودی نہ صرف یہ کہ اپنا علمی دبدبہ رکھتے
تھے، بلکہ ان کو یہ زعم بھی تھا کہ وہ آسمانی کتاب کے حامل ہیں۔ تہذیبی، تمدنی
اور ثقافتی اعتبار سے بھی یہ لوگ علاقے پر چھائے رہتے تھے۔ مالی اعتبار سے بھی
مضبوط تھے، اوس و خزرج نے اپنی توانائی جنگوں میں ضائع کردی تھی۔ ایک طرح سے وہ
یہودیوں کے دست نگر رہتے تھے اور ان سے مرعوب بھی ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کی تشریف آوری سے قبل ہی یثرب کے ان دو قبیلوں کے کافی لوگ مسلمان ہوچکے
تھے، جو رہ گئے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد مسلمان
ہوگئے، ان میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو
ظاہراً تو مسلمان ہوگئے مگر دل سے اپنے پرانے دین پر ہی قائم رہے۔ ایسے لوگوں میں
دو نام اہمیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں، ایک ابوعامر اور دوسرا عبداللہ بن اُبی بن
سلول۔ دونوں کا تعلق خزرج سے تھا۔ ابوعامر کی نیکی اور دینداری کی دور دور تک شہرت
تھی۔ لوگ اسے عزت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ دوسری طرف عبداللہ بن اُبی اپنی سوجھ بوجھ
اور دانش مندی کی وجہ سے مشہور تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری
سے عین قبل اوس و خزرج کے مابین اس بات پر اتفاق ہوچکا تھا کہ عبداللہ بن اُبی کے
سر پر یثرب کے بادشاہ کا تاج رکھ دیا جائے۔ تاج تیار ہوچکا تھا، بس کسی تقریب میں
اُسے پہنانے کی رسم باقی تھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں تشریف لے
آئے، آپؐ کے تشریف لانے کے بعد سب کے چراغ بجھ گئے، نہ ابوعامر کے تقوے اور
طہارت کی اہمیت باقی رہی اور نہ عبداللہ بن اُبی کی سیاسی بصیرت میں کسی کے لئے
کوئی دل کشی رہی۔ سب کا مرجع اور مرکز آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات بن گئی، دونوں کو اپنی مذہبی اور سیاسی قیادت
چھننے کا بڑا ملال تھا جو آخری وقت تک رہا، بہ ظاہر تو انہوں نے اپنی قوم کے ساتھ
کلمہ شہادت پڑھ لیا، مگر دل سے کافر کے کافر ہی رہے۔ قرآن نے ایسے لوگوں کے لئے
ایک نئی اصطلاح وضع کی؛ المنافقون۔ منافقین کا یہ ٹولہ شروع ہی سے سرگرم رہا اور
تاریخ کے ہر دور میں اپنا کردار ادا کرتا رہا۔
قبائلِ یہود
مدینے کے اطراف میں
یہودیوں کے تین بڑے قبیلے آباد تھے، بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ۔ کچھ اور
چھوٹے چھوٹے قبیلے بھی ان کے ارد گرد بسے ہوئے تھے۔ جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کی نبوت ظاہر نہیں ہوئی تھی یہودی علماء اپنے عوام کو مستقل طور پر یہ بتلاتے رہتے
تھے کہ عنقریب نبی آخر الزماں تشریف لانے والے ہیں اور وہ اِن علامات کے ساتھ
ظاہر ہوں گے، یثرب ان کا دار الہجرت ہوگا۔ اوس و خزرج کے وہ لوگ جو یہودی علماء کے
پاس آتے جاتے اور اٹھتے بیٹھتے تھے یہ باتیں سن چکے تھے، اس لئے جب انہوں نے حج
کے سفر میں یہ سنا کہ مکہ مکرمہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو انہوں نے
علماء یہود کی بتلائی ہوئی نشانیوں کے آئینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت
کا عکس دیکھنے کی کوشش کی۔ تب ان پر منکشف
ہوگیا کہ یہ تو وہی آخری پیغمبر ہیں جن کی پیش گوئی آسمانی کتابوں میں ہے، اس
لئے انہوں نے سبقت کی اور یہ دین قبول کرلیا، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہودی پہلے
اسلام قبول کرتے اور آپؐ پر ایمان لاتے، کیونکہ وہ آسمانی کتاب تورات کے حامل
تھے، انہیں معلوم تھا کہ آخری پیغمبر کا ظہور ہونے والا ہے اور وہ ہجرت کرکے یہاں
تشریف لانے والے ہیں، مگر جب آپ ﷺیہاں تشریف لے آئے تو علماء یہود کی اکثریت کا
اور ان کے ساتھ عوام کا رویہ معاندانہ اور مخالفانہ رہا، آپؐ کی تشریف آوری سے
یہود کے مذہبی وقار میں کمی آنے لگی، مشرکین میں یہودیت کی اشاعت بھی رک گئی اور
وہ یہ سوچنے لگے کہ اوس و خزرج اور مکہ سے آئے ہوئے لوگ ان پر غالب آجائیں گے
اور خطے میں ان کو جو سیاسی اور سماجی برتری حاصل ہے وہ ختم ہوجائے گی۔مستقبل کے
ان ہی اندیشوں نے انہیںقبولِ حق سے باز رکھا۔
اسلام اور پیغمبر اسلام
سے یہودیوں کے عناد اور دشمنی کی کچھ اور بھی وجوہات تھیں، جب آپ صلی اللہ علیہ
وسلم ہجرت کرکے مدینے میں تشریف لائے تو آپؐ نے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز
پڑھنی شروع کی، کیونکہ اس وقت بیت المقدس ہی قبلہ تھا، مکہ مکرمہ میں بھی مسلمان
بیت المقدس ہی کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے۔ بیت المقدس واحد ایسا مقام ہے جو
تینوں آسمانی شریعتوں کے ماننے والوں کی عقیدت کا مرکز رہا ہے اور آج تک ہے۔
یہودیوں نے جب یہ دیکھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
عبادت کے وقت اپنا رخ بیت المقدس کی طرف کر لیتے ہیں تو انہیں ایک گونہ خوشی ہوئی اور اس پر فخر بھی
ہوا کہ مسلمان انہی کے قبلے کی طرف رخ کرتے ہیں، لیکن سن ۲؍
ہجری میں تحویل قبلہ کا واقعہ پیش آیا، تمام مسلمان مسجد حرام کی طرف رخ کرکے
نماز پڑھنے لگے۔اس واقعے نے یہودیوں کے اعزاز کو شدید طور پر متاثر کیا اور ان کے
فخر کو سخت چوٹ پہنچائی، وہ یہ کہنے لگے کہ محمدؐ ہر بات میں ہماری مخالفت کرنا
چاہتے ہیں، قبلہ بدلنے کا معاملہ بھی اسی سے جڑا ہوا ہے، حالانکہ یہودیوں کا یہ
خیال قطعاً غلط تھا۔ اللہ نے یہ بات پہلے ہی واضح کردی تھی کہ قبلے کا معاملہ محض
علامتی ہے، اللہ ہر جگہ موجود ہے، اس کی عبادت کے لئے مشرق و مغرب سب برابر ہیں۔
یہود کو مشرکین کے مقابلے
میں برتری حاصل تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ آسمانی شریعت کی اتباع کے دعویدار
تھے اور ان کے پاس آسمانی کتاب بھی موجود تھی ۔ مشرکین ِ مدینہ یہودیوں کے اس
تفوق اور برتری کے معترف تھے، ہر معاملے میں ان سے دب کر رہتے تھے، ایک طرح سے
یثرب کا نظامِ حکومت یہودیوں ہی کے ہاتھوں میں تھا۔ رسول اللہ ﷺکی تشریف آوری نے
ان کی حیثیت عرفی کو متاثر کیا تھا۔ اب اقتدار و اختیار کا مرکز آپؐ کی ذات بن
چکی تھی۔ مشرکین میں سے اگر کسی کے بچے پیدا ہوتے ہی مرجاتے تھے یا کسی کے اولاد
نہ ہوتی تھی تو وہ یہ منت مانتا تھا کہ اگر میرے بچہ ہوا تو میں اسے یہودی
بنائوںگا، اس طرح بہت سے مشرک والدین کے گھروں میں یہودیت فروغ پا رہی تھی۔ ان کے
بچے یہودی بنتے جارہے تھے۔ یہودی علماء اس صورت حال سے خوش رہتے تھے، مگر اسلام نے
لوگوں کے دلوں سے یہ توہم بھی نکال دیا کہ یہودی بنانے کے عہد سے بچے زندہ رہتے
ہیں۔ اس سے بھی یہودیوں کے کاز کو سخت نقصان پہنچا۔ (جاری ہے)
7 مئی 2021، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/prophet-saw-settled-mecca-after-part-31/d/124808
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism