New Age Islam
Tue Mar 18 2025, 03:08 AM

Books and Documents ( 25 Jan 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background: Part 1 on Appreciation and Foreword دین الہٰی اور اس کا پس منظر

تالیف

محمد اسلم

فاضل جامعات

پنجاب ، ڈرہم، مانچسٹر ، کیمبرج استاد شعبہ تاریخ ،پنجاب یونیورسٹی لاہور

با اہتمام

ناظم ندوۃ المصُنفین، سمن آباد، لاہور

انتساب

میں اپنی اس اولین کاوش کو اپنے مشفق بزرگ او رمُربی

پروفیسر علامہ علاء الدین صدیق

وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کے نام

محبت اور احترام کے جذبات کے ساتھ معنون کرتا ہوں

دیباچہ طبع ثانی

گذشتہ سال راقم الحروف او رشیخ عبدالسلام صاحب، مالک آئینہ ادب لاہور نے ‘‘دین الہٰی اورا س کا پس منظر ’’ شائع کرنے کا پروگرام بنایا اور اوائل جون میں کتاب کے لئے مسودہ کاتب کے حوالے کیا۔جونہی کتاب مکمل ہوئی میں دہلی چلاگیا اور کتاب شدہ کا پیاں بھی اپنے ہمراہ لیتا گیا۔ دہلی میں جناب قبلہ مفتی عتیق الرحمن عثمانی مدظلھم نے اس کتاب میں بڑی دلچسپی کا اظہار فرمایا اور اسے ندوۃ المصنفین کے مطبوعات میں شامل کرلیا۔میرے لیے یہ بات باعث فخر و انبساط ہے کہ میری اولین کاوش برصغیر پاک وہند کے مشہور ترین علمی ادارے نے شائع کی۔

جیسا کہ قارئین کرام کومعلوم ہے آج کل پاکستان وبھارت کے درمیان کتابوں کی آمدورفت نہ ہونے کے برابر ہے ، اس لئے پاکستانی اہل علم کے لئے یہ کتاب نہ چھپنے کے برابر تھی ،میں نے جناب شیخ عبدالسلام صاحب کے اصرار پر اس کتاب کو لاہور سے شائع کرنے کا فیصلہ کرکے اس پر نظر ثانی شروع کردی۔ موجودہ ایڈیشن میں تین ابواب کا اضافہ کرنے کے علاوہ میں نے متعدد ایسی کتابوں سے بھی استفادہ کیاہے جو پہلے ایڈیشن کی تیاری کے دوران دستیاب نہ ہوسکی تھی۔ فارسی کا مشہور مقولہ ہے: نقاش نقش ثانی بہتر کشدزاوّل :۔ مجھے امید ہے کہ قارئین کرام پہلے ایڈیشن کی نسبت دوسرے ایڈیشن کو بدرجہاں بہتر پائیں گے۔

وآخردعوانا الحمداللہ رب العٰلمین

تقریظ

از ، استاد العماء مولانا سعید احمد اکبر آبادی

صدر شعبہ دینیات ، علی گڑھ یونیورسٹی ، علی گڑھ

ومدیر ماہنامہ ‘‘برہان ’’دہلی

اکبر کے دین الہٰی کے متعلق بہت لکھا جاچکاہے لیکن یہ دین وجود میں کیونکر آیا؟ اسی سلسلہ میں کم وبیش سب مؤرخین اور مصنفین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اکبر کو تحقیق مذاہب کا شوق تھا اور اس نے ایک مجلس قائم کی تھی جس میں مختلف مذاہب وادیان کے علماء شریک ہوکر اپنے مذہب کی حقانیت وصداقت کے اثبات میں تقریریں کرتے تھے اوران کی روش مناظر انہ ومجادلانہ ہوتی تھی ۔اکبر پر ان تقریروں کا اثر یہ ہوا کہ وہ اسلام سے بیزار ہوگیا اور اسے خود ایک نیا مذہب ایجاد کرنے کی سو جھی ۔ بعض خوش فہم حضرات ایسے بھی ہیں جو دین الہٰی کو ہندوستان میں ‘‘متحد ہ قومیت’’ پیدا کرنے کی ایک کوشش سمجھتے اور اس لئے اسے اپنے خیال کے مطابق مستحسن قرار دیتے ہیں۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حضرت مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک ایک فرقہ پرورانہ جدوجہد قرار پاتی ہے ۔ اس غلط اندیشی اور خام خیالی کا اصل سبب یہ ہے کہ دین الہٰی کی حقیقت اورا سکے پس منظر سے متعلق ہم کو اب تک جو کچھ معلوم ہوسکاہے وہ بڑی حد تک ناقص بھی ہے اور غیر مربوط بھی ۔ اس بنا پر سخت ضرورت تھی کہ اکبر کے دین الہٰی کا مطالعہ مزید تحقیق وتدقیق اور وسعت نظر کے ساتھ کیا جائے تاکہ ہم اس کی روشنی میں ایک ناقابل انکار قطعیّت تک پہنچ سکیں۔

بڑی مسرت کا مقام ہے کہ عزیز گرامی قدرپروفیسر محمد اسلم کی یہ کتاب اس اہم ضرورت کی تکمیل بہمہ وجوہ کرتی ہے ۔ یہ کتاب جس تحقیق وتدقیق اورژرف نگاہی سے مرتب کی گئی ہے اس کا صحیح اندازہ تو کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی ہوگا۔ اس میں ایسے بہت سے مآخذ سے مدد لی گئی ہے جو اب تک ارباب نظر سے پوشیدہ تھے اور جو کچھ لکھا ہے منطقی تسلسل اور ربط کے ساتھ لکھا ہے۔عزیز موصوف کا نظریہ عہد زیر بحث کی تاریخ میں ایک بالکل نیا اور انقلاب آفرین نظریہ ہے اور اس کو ایسے قطعی دلائل وبراہین سے ثابت کیا ہے کہ کسی کے لئے مجال انکار وتردید باقی نہیں رہتی ۔دین الہٰی کی اصل حقیقت اور اس کا پس منظر معلوم ہوجانے کے بعد حضرت مجدّد رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک اوران کے کام کی اہمیت اورعظمت بھی وہ چند ہوجاتی ہے۔ اس بنا پر کوئی شک نہیں کہ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک نہایت اہم اور حددرجہ وقیع تاریخی دستاویز ہے اور تاریخ کے اساتذہ او رطلبا کے لئے تحقیق کا ایک معیار پیش کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نوجوان مصنف کو اس کا اجر جزیل عطا فرمائے۔

12 جولائی 1969

سعید احمد اکبر آبادی

پیش لفظ

یہ گذشتہ جنوری کا ذکر ہے میرا ایک مضمون بعنوان ‘‘اکبر کا دین الہٰی اور اس کا پس منظر۔۔’’ ماہنامہ المعارف لاہور میں شائع ہوا۔ میں نے المعارف کا وہ شمارہ جناب حکیم محمد موسیٰ مجھرتسری داست برکاتہم کی خدمت میں نذر کیا۔چند روز بعد جب میں موصوف کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے اس مضمون کی بہت تعریف کی اور فرمایا کہ وہ اس مضمون کو کتابی شکل میں شائع کرناچاہتے ہیں اورانہوں نے ایک ناشر سے اس سلسلے میں بات بھی طے کرلی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ مضمون بڑی عجلت میں جناب شاہد حسین رزاقی کے بار بار اصرار پر لکھا گیا تھا اور چونکہ میں المعارف جیسے پرچے میں اپنا مافی الضمیر کھل کر بیان نہیں کرسکا ، اب اگر آپ واقعی اسے کتابی شکل میں شائع کرناچاہتے ہیں تو مجھے اس پر نظر ثانی کا موقع دیجئے ۔ ان سے مہلت مانگ کر میں اس مضمون پر نظر ثانی کرنے بیٹھا تودیکھتے ہی دیکھتے ایک دفتر تیار ہوگیا۔ اب اس دفتر پر نظر ڈالتاہوں تو مجھے غالب کا یہ شعر یاد آتاہے ۔

مجھ سے غالب یہ علائی نے غزل لکھوائی

ایک بیدار گرِرنج نسزا اور سہی

میں نے گذشتہ چار ماہ اسی ‘‘بیدادِ گرِرنج فزا’’ میں صرف کئے ہیں اور اب اپنی اس کاؤش کو ارباب علم کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔

جہاں تک اکبر اور اس کے دین الہٰی کا تعلق ہے مجھے اس کی ذات یا اس کے خانہ ساز دین سے مطلق کوئی دلچسپی نہیں ۔ میں نے اکبر اور دین الہٰی کا مطالعہ صرف حضرت مجدّ د الف ثانیؒ کی تحریک کو سمجھنے کی خاطر کیاہے۔اس کی تحریک چونکہ اکبر کی مذہبی حکمت عملی کا ردّ عمل ہے ، اس لئے اس کی تحریک کو کما حقہ سمجھنے کے لئے اکبر کے عمل کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ جب تک اکبر کی زندگی کے مختلف گوشے ہماری نظروں کے سامنے نہ آئیں، اس وقت تک حضرت مجدّد الف ثانیؒ کے کام کاصحیح اندازہ نہیں ہوسکتا۔ میں نے حضرت کے کام کا صحیح اندازہ لگانے کی خاطر حالات کے رُخ سے پردہ اٹھادیاہے اور اب اس بات کا فیصلہ اہل علم ہی کریں گے کہ میں اس نقاب کشائی میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں۔

جہاں تک شیخ مبارک کے سوانح حیات کا تعلق ہے مجھے اس بات کا عتراف ہے کہ اس باب میں چند باتیں عام طرز نگارش سے ہٹ کر مناظرانہ صورت اختیار کرگئی ہے۔میں تاریخ کاطالب علم ہوں، مناظرہ میرا فن یا پیشہ نہیں۔ ‘‘دین الہٰی اور اس کاپس منظر’’ محض علمی اور تحقیقی کتاب ہے ۔ اس لئے میں نے بیجا مذہبی بحث سے احتراز کیاہے۔ محضرنامہ کی وضاحت کے لئے چونکہ شیخ مبارک کے ذاتی عقائد کا ذکر اشد ضروری تھا ۔ اس لئے :۔

مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات

مقصود اس سے قطع محبت نہیں مجھے

شیخ مبارک میری تحقیق کے مطابق شیعہ تھا، اس لئے مجھے اس کے مذہبی عقائد پر روشنی ڈالنا پڑی ۔ لیکن میں نے اس کے عقائد کے بارے کسی بُرے سے بُری سُنّی عالم پر بھی اعتماد نہیں کیا اور شیعہ حضرات کے عقائد بھی صرف مشہور ومستند شیعی علماء کی تصانیف ہی سے لئے ہیں۔

اس کتاب کی تالیف کے دوران مجھے بعض ایسی کتابوں کی ضرورت پیش آئی جو کسی لائبریری میں موجود نہ تھیں۔ اتفاق سے مجھے وہ کتابیں مولانا محمد عمر اچھروی’ حافظ عبدالقادر روپڑی اورمولانا محمد دین تلمیذ الرشید شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں مل گئیں ۔ میں ان بزرگوں کااحسان مند ہوں کہ ان کی عنایت سے مجھے بعض اہم کتابوں سے استفادہ کا موقعہ ملا۔

میں اپنے مشفق بزرگ اورمربی پروفیسر علامہ علاء الدین صدیقی ، وائس چانسلر ، پنجاب یونیورسٹی کا تہہ دل سے ممنون ہوں کہ وہ اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود اس کتاب کی تالیف کے دوران میری ہمت افزائی کرتے رہے۔ ان کا میرے کام میں دلچسپی لینا میرے لئے باعث صد افتخار وہزار مُسرت ہے۔

میں جناب محمد عبداللہ قریشی ، مدیر ادبی دنیا کا خاص طور پر سپاس گزار ہوں کہ انہوں نے بڑی محنت اور جانفشانی سے اس کتاب کا مسوّدہ پڑھا او ربہت سے مفید مشورے مجھے عطا فرمائے۔

شعبہ تاریخ ،پنجاب یونیورٹی، لاہور

ننگ اسلاف

محمد اسلم

کچھ اپنے مآخذ کے بارے میں

اس کتاب کی تالیف کے دوران ہم نے ملا عبدالقادر بدایونی کی منتخب التواریخ پر کامل اعتماد کیاہے۔ بعض مؤرخین نے بلا سوچے سمجھے بدایونی پر دروغ گوئی اور کذب بیانی کا الزام لگایاہے، جو ہمارے خیال میں سراسر ناجائز ہے ، خود بدایونی نے اپنی اس تالیف میں ایک موقعہ پر لکھا ہے کہ ۔‘‘خدامی عزوجل گواہ است وکفی باللہ شہید اکہ مقصود ازیں نوشتن غیر انہ درددین ودلسوزی برملّت مرحومہ اسلام کہ عنقاوار رومی بقاف غربت کشیدہ وسایہ بال خود از خاک نشینان حضیض گیتی باز گرفتہ پیحزی دیگر نبود ونیست ، واز تعنت وحقدرحسد د تعصب بحذا پناہ میحوئم۱؂ ۔ ہم بدایونی کی اس تحریر کو حلف نامہ کا درجہ دیتے ہیں۔

بدایونی نے اکبر اورا س کے حواریوں کے متعلق جو کچھ بھی لکھا ہے اس میں ایسی کوئی بات نہیں جو دوسرے مؤرخین نے نہیں لکھی ۔مولانا ابوالکلام آزاد،حضرت عبدالحق محدّث دہلوی کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ‘‘شاہ صاحب نے جو کچھ لکھا ہے اس سے زیادہ بدایونی نے کونسی بات لکھی؟ البتہ شاہ صاحب تہذیب نگارش وطریق احتیاط وعفوپر نظر رکھ کر پردے پردے میں لکھتے ہیں اور بدایونی اپنے جوش حق گوئی واضطراب رائیت بیانی میں کسی بات کی پرواہ نہیں کرتے ۲؂۔’’ یہ عجیب بات ہے کہ جب بدایونی اوردہلوی دونوں ایک ہی بات کہتے ہیں تو پھر دہلوی کو اس کی حق گوئی پر تحسین پیش کرنے والے بدایونی کو دروغ گوئی کا الزام کیوں دیتے ہیں۔؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂منتخب التواریخ ، جلد ۲،ص ۲۶۴

۲؂تذکرہ ، ص ۴۳

۔۔۔۔۔۔۔

بدایونی پر اس کے معترضین نے یہ الزام لگایا ہے کہ اس نے اکبر کے عہد میں اسلام کی غربت اورمسلمانوں کی زبوں حالی کا جونقشہ کھینچا ہے اس میں بیجا مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے ، حالانکہ اکبر کے ہم عصر ایرانی مؤرخ اسے ‘‘قامع آثار الکفروالضلال۳؂’’ کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ بدایونی کے ناقدین کا یہ خیال ہے کہ بدایونی ، فیضی اور ابوالفضل تینوں ہم درس تھے۔ فیضی نے ملک الشعراء کا خطاب پایا اور ابوالفضل وزارت کے منصب جلیلہ پرفائز ہوا۔ لیکن بدایونی بیچارہ مُلاّ کا ملا ہی رہا۔ اس لئے اس نے اکبر ،فیضی اور ابوالفضل پر خواہ مخواہ الزام تراش کر اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے۔ ہم ان ناقدین سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اسلام کی غُربت او رمسلمانوں کی زبوں حالی کے متعلق جو کچھ بدایونی نے لکھا ہے اس میں بھلا کون سی ایسی بات ہے جس کی صدائے بازگشت حضرت مجدّدالف ثانی کی تحریروں سے نہیں سنائی دیتی۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۳؂ تاریخی مقالات، ص ۱۲۶

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر بدایونی یہ لکھتا ہے کہ ‘‘مساجد وصوامع فراش خانہ وچوکی خانہ ہندوان شد بجائی جماعت جُماع ویحائی حیی علی المیلا تللا بودوگورستان درون شہر بویرانی حکم فرموند ’’۔ تو حضرت مجدّد الف ثانیؒ بھی تو یہی فرماتے ہیں کہ ’’۔ درتھا نیسر دروان حوض کر کھیت مسجد ے بودومقبرہ عزیز سے، آن رابدم کردہ بجائے ان دیرہ کلان راس ساختہ اسب ونیز کفاربر ملا مراسم کفر بجای می آر مدعہ مسلمانان دراجراء اکثر احکام اسلام عاجزند’’۔ ایک دوسرے موقع پر آپ رقم طراز ہیں کہ ۔‘‘ درنواحی نگر کوٹ برمسلمانان دربلا واسلام چہ ستمہا نمودندچہ آہا نتہار سانید ند۔’’ اگر بدایو نی پر بغض وحسد کا الزام لگایا جاتا ہے تو پھر حضرت مجدّد الف ثانیؒ کے متعلق کیا ارشاد ہے۔؟

اگر بدایونی یہ لکھتاہے کہ ہیچکس یارامی آن نداست کہ علانیہ ادای صلوٰۃ کند،’’ تو حضرت مجدّ دالف ثانی بھی تو یہی فرماتے ہیں کہ ۔‘‘ مسلمانان از اظہار احکام اسلام عاجز بودند واگر میکر وندتقبلی میر سید ند۔’’ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بدایونی نے رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کیا ہے، وہ حضرت مجدّد الف ثانی ؒ کی یہ عبارت پڑھ کر ان کے متعلق کیا رائے قائم کردیں گے ۔’’ ‘‘ درقرن سابق کفار برملا بطریق استیلاء اجراء احکام دوار اسلام میکروندومسلمانان از اظہار اسلام عاجز بودند واگر میکردند بقتل رسید نداواویلا ، وامصیبتا‘ واحسر تا ، واحر نا ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ محبوب رب العالمین است مصدقان اوخواروذلیل بودند ومنکران اوبغرت واعتبار ، مسلمانان باد لہامی ریش ورتعزیت اسلام بووند ومعاندان بسخریہ واستہزابر جرااحتہائے ایشان نمک پاشید ند، آفتاب ہدائیت درتتق ضلالت مستورشدہ بوود نور حق درحجب باطل منزوی ، معزول’’۔

بدایونی پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ ایک جگہ لکھتا ہے کہ بادشاہ نے دیوان خاص سے ملحقہ مسجد میں اذان اور نماز باجماعت کی ممانعت کردی تھی اور دوسری جگہ وہ لکھتا ہے کہ شاہ فتح اللہ شیرازی دیوان عام میں بادشاہ کے سامنے بڑے سکون اوراطمینان کے ساتھ نماز پڑھا کرتا تھا۔ اس طرح بدایونی نے خود ہی اپنے پہلے بیان کی تردید کردی ہے۔ ہمارے خیال میں ان دونوں بیانوں میں کوئی تضاد نہیں ۔بدایونی کے ناقدوں نے ان الفاظ پر غور نہیں کیا کہ شاہ فتح اللہ شیرازی ۔۔‘‘ بضراغ بال وجمعیت خاطر بمذہب امامیہ’’ نماز ادا کیا کرتاتھا ۔ بادشاہ کو ضد تو صرف راسخ العقیدہ مسلمانوں کے ساتھ تھی ورنہ وہ ہر طرح کی غیر اعتقادی کو خندہ پیشانی سے قبول کرتا تھا۔

بدایونی نے اکبر کے متعلق لکھا ہے کہ وہ روز وشب میں چار بار سورج کی پرستش کرتاتھا ، اور شام کے وقت جب چراغ روشن کئے جاتے تووہ ان کے احترام میں کھڑا ہوجاتا تھا۔ بدھ کے روز علی الصبح وہ گائے کے درشن باعث سعادت سمجھتا تھا۔ اس نے اپنے قلمرومیں ذبیحہ بقر پر پابندی لگادی تھی اور اتوار کے روز سورج دیوتا کہ احترام میں ہر قسم کے ذبیحہ کی ممانعت کردی تھی ۔ اس نے اپنے چیلوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اپنے جنم کے مہینے میں اور اس کے علاوہ ماہ ابان او رماہ فروردین میں گوشت نہ کھایا کریں۔ اس نے یہ بھی حکم دیا تھاکہ کوئی شخص جلاد ، قصاب، ماہی گیر یا صیّاد کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہ کھائے بصورت دیگر اس کی انگلیاں کاٹ دی جائیں گی۔ اس نے سولہ سال کے عمر کے لڑکوں اور چودہ سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادی پر پابندی عائد کردی تھی اور اسی طرح اس نے ایک بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کی ممانعت کردی تھی۔ اکبر نے بارہ سال سے کم کے لڑکوں کے ختنہ پر پابندی لگادی تھی اور بارہ سال کے بعد یہ معاملہ ان کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا۔ اسی طرح بادشاہ نے ہندوؤں کی بہت سی رسومات اور ان کے اکثر وبیشتر عقائد اپنا لئے تھے۔ وہ تناسخ کا بڑی سختی کے ساتھ قائل تھا ۔ ہم بدایونی پر دورغ بیانی او رکذب نگاری کا الزام لگانے والوں سے یہ پوچھتے ہیں کہ ان میں سے ایسی کون سی بات بدایونی نے کہی ہے جس کی تصدیق ابوالفضل کی آئین اکبری سے نہیں ہوتی۔؟

بدایونی ایک جگہ لکھتا ہے کہ اکبر کا مرید بننے سے پہلے امید وار کو اس مضمون کی ایک تحریر بادشاہ کی خدمت میں پیش کرنا ہوتی تھی۔ منکہ فلان بن فلان باشم بطوع درغبت وشوق قلبی ازدین اسلام مجازی وتقلیدی ککہ از پدران دیدہ وشنیدہ بودم ابروتبرانمودم ودردین الہٰی اکبر شاہی درآمدم ومراتب چہار گانہ اخلاص کہ ترک مال وجان وناموس ودین باشد، قبول کردم’’ ۔ ابوالفضل نے آئین اکبری میں بار بار مراتب چہار گانہ کا ذکر کیاہے، اس لئے یہ بدایونی کی خود ساختہ اصطلاح نہیں ہے۔ بدایونی پر یہ بھی الزام ہے کہ اس کے علاوہ کسی نے ‘‘دین الہٰی’’ کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے لیکن اس جگہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اکبر کو لفظ ‘‘الہٰی’’ کے ساتھ ایک خاص مناسبت تھی اس کے عہد میں سن الہٰی ۔گزالٰہی ، الٰہی نور اور الہٰی پرستش کا ذکر عام ملتاہے اس لئے یہ بات قرین قیاس ہے کہ اس کے جاری کردہ دین کو بھی دین ۔دین الہٰی ہی کہتے ہوں گے۔اگر اکبر کی عبادت کو ابوالفضل ۔‘‘ الہٰی پرستش’’۔ قرار دیتا ہے تو پھر اس کا دین ‘‘دین الہٰی’’ ہی ہونا چاہئے ۔ جہاں تک ‘‘دین اسلام مجازی و تقلیدی ’’ کا تعلق ہے ایسی اصطلاحات کی ابوالفضل کے ہاں کمی نہیں۔

بدایونی ابوالفضل کے متعلق لکھتا ہے کہ اس نے اپنے بعض رسائل میں شعائر اسلامی کا تمسخر اڑایا ہے۔ وہ رسائل تو زمانے کی دست بُرو سے محفوظ نہیں رہے لیکن اس کی جو تحریریں ہم تک پہنچی ہیں ان میں وہ مسلمانوں کو ہمیشہ منتسبان دین احمدی ۔کوتاہ بین تقلید پرست ،پیروان کیش احمدی سادہ لوحان تقلید پرست ۔اور گم گستگان بیان ضلالت کے القابات سے یاد کرتاہے۔ہمیں توان اصطلاحات سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بوئے عناد آتی ہے۔

بدایونی لکھتا ہے کہ ایک بار ابوالفضل نے اس سے کہا تھا کہ ‘‘میخوا ہم کہ روزی چند دردادی الحاد سیر بکنم ’’۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کی طبیعت الحاد کی طرف مائل تھی ۔ اس کی اپنی تحریروں سے یہ ثابت ہوتاہے کہ جن چیزوں کو وہ حق پرستی سمجھتا تھا لوگ اسے کفر والحاد سے موسوم کرتے تھے۔آئین اکبری کی ایک عبارت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ابوالفضل کی زندگی میں ہی اس پر کفر والحاد کے فتوے لگنے شروع ہوگئے تھے۔ اس لئے بدایونی نے ابوالفضل کے متعلق ایسی کوئی بات نہیں کہی جس کی تصدیق خود ابوالفضل کی تحریروں سے نہ ہوتی ہو۔

اسی طرح بدایونی نے فیضی کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ بھی حقیقت سے بعید نہیں۔مثلاً یہ کہ فیضی عین مستی اور جنابت کی حالت میں قرآن کی تفسیر لکھا کرتا تھا اور اس کے اوراق جا بجا بکھرے پڑے رہتے او ران پر پلّے لوٹتے تھے۔جہاں تک کتے پالنے او رانہیں گود میں بٹھانے کا تعلق ہے ،یہ بات فیضی اور عرفی کی نوک جھونک سے بھی ثابت ہے۔اب رہی یہ بات کہ وہ غسل جنابت کا قائل نہیں تھا،توہم بدایونی کے ناقدین سے یہ پوچھتے ہیں کہ دین الہٰی میں غسل جنابت فرض ہی کب تھا۔ ؟ فیضی کے متعلق نواب صدیق ‘‘حسن خانؒ لکھتے ہیں:۔

رکنن فیضی علیٰ طریقۃ الحکماء وکذ ہ اخرانہ ابوالفضل وغیرہ وکانوامعرونین با نحلال العقائد وسؤ التدین والا لحاد والذند تہ۔

( فیضی حکماء کے مسلک پر گامزن تھا او را س کے بھائی ابوالفضل وغیرہ بھی ویسے ہی تھے۔ وہ سب غیر اعتقادی، بے دینی، الحاد اور زندقہ کے لئے مشہور ہیں۔)

نواب مرحوم ومغفور نے بدایونی کے دل کی بات کہی ہے۔بدایونی کے ناقدین کا یہ خیال ہے کہ فیضی آخر عمر میں تائب ہوگیا تھا لیکن اس کے باوجود بدایو نی نے اسے بخشا۔کیا مجدّ د الف ثانی ؒ اور شیخ عبدالحق محدثؒ نے فیضی کو معاف کردیا تھا؟۔ شیخ محدّث کی ناراضگی تو خود فیضی کے خطوط سے بھی ثابت ہے ۔بدایونی کے معترضین یہ کہتے ہیں کہ فیضی نے تفسیر سوا طع الالہام او راپنی مثنوی ‘‘نل و دمن’’ کے آغازمیں حضور پا ک صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت لکھ کر اپنی اسلام دوستی کا ثبوت فراہم کیا ہے ہم ان سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا ملحدوں نے قرآن پاک کی تفسیریں نہیں لکھیں؟ اگر ہم ملاحدہ کی لکھی ہوئی تفسیروں کی فہرست تیار کرنے بیٹھیں تو ایک دفتر تیار ہوجائے۔جہاں تک میفنی کی نعت گوئی کا تعلق ہے، اس ضمن میں عرض ہے کہ آج بھی بہت سے ہندو اور سکھ شاعر موجود ہیں جنہوں نے حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں معرکہ آراء نعتیں لکھی ہیں۔ کیا ان نعتوں کو ان کی اسلام دوستی پر محمول کیا جائے گا؟ ہمارے خیال میں فیضی کی تفسیر نویسی او رنعت گوئی کو اس کے ایمان کی دلیل بنا کر بدایونی کو دروغ گوئی اور کذب نگاری کاالزام نہیں دیا جاسکتا۔

بدایونی نے یہ لکھا ہے کہ فیضی کے حلق سے نزع کے عالم میں کتے کی سی آواز نکلی تھی ۔بدایونی کے مخالفین نے اسے بھی دروغ گوئی پر محمول کیا ہے جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے یہ بات طبی نقطہ نظر سے صحیح ثابت ہوسکتی ہے۔ عام طور پر باؤلے کتے کے کاٹے ہوئے مریض کے گلے کی رگیں اینٹھ جاتی ہیں اور بات کرتے وقت ا س کے حلق سے کتے جیسی آواز نکلتی ہے۔فیضی کو چونکہ کتوں کے ساتھ بہت پیار تھا اس لئے یہ ممکن ہے کہ کبھی کسی کتے نے اس کے جسم پر معمولی سی خراش لگادی ہو جس کی اس نے اس وقت بے شک پروانہ کی ہو لیکن بعد میں یہی خراش ایک مرض بن کر غالب آگئی ہو۔ طبی نقطہ نظر سے ایسا ہونا عین ممکن ہے۔

بدایونی کے متعلق یہ کہا جاتاہے کہ اس نے ایک موقع پر یہ لکھا ہے کہ بادشاہ نے مسلمانوں کا حج پر جانا روک دیا تھا او را س زمانے میں اس سے فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے رخصت حاصل کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ایک دوسرے موقع پر بدایونی لکھتا ہے کہ گلبدن بیگم ، سلیمہ سلطان اور دوسری بیگمات حج بیت اللہ کے لیے روانہ ہوئیں۔ ہمارے خیال میں بدایونی کے ان بیانات میں کوئی تضاد نہیں۔اکبر نے گوعام مسلمانوں کے حج پر جانے پر پابندی عائد کردی تھی لیکن جب بیگمات نے حج پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو اکبر نے انہیں بخوشی اجازت دے دی۔ اس کی کوئی وجوہات تھیں اولاً یہ کہ اکبر یہ چاہتا تھا کہ جن بیگمات نے ابھی تک ا س کے مذہبی عقائد نہیں اپنائے وہ انہیں کچھ عرصہ کے لئے حرم شاہی سے باہربھیج کر اپنی ہندورانیوں او ربہوؤں کو اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کا موقع دے کر اپنے حرم کے اندر اسلامی اثرات کو ختم کردے ۔ثانیاً یہ کہ ہندوستان سے حجاج کے مکہ مکرمہ جانے پر پابندی لگ گئی تھی اس سے اہل حرم نے کوئی اچھا تاثر نہیں لیا تھا۔ اکبر یہ چاہتا تھا کہ اپنے حرم کی بیگمات کو وہاں بھیج کر حرمین میں اپنے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ کرکے ان کے ذریعے شریف مکہ او راہل حرمین کو تحفے تحائف بھیج کر ا ن کا منہ بند کرے ۔ہمارے خیال میں بیگمات کو حج پر بھیجنے سے اکبر حرمین میں اپنا پروپگنڈا کرنا چاہتا تھا۔ ورنہ اپنے زمانہ ارتداد میں اسے حج سے کیا دلچسپی ہوسکتی تھی ؟ ان ایام میں تو بقول بدایونی وہ عبادت اسلامی کو غیر معقول کہا کرتا تھا۔

ہمارے خیال میں حج پر پابندی کے باوجود اکبر نے بیگمات کو محض سیاسی مصلحت کے تحت حج پر جانے کی اجازت دی تھی، ورنہ بدایونی اتنی کچی گولیاں نہیں کھیلا ہوا تھا کہ وہ اپنے بیانات کی خود ہی تردید کرتا۔

منتخب التواریخ کے بعد ہم نے خواجہ عبیداللہؒ بن خواجہ باقی باللہ دہلویؒ کی مبلغ الرجال پر اعتماد کیا ہے۔ اس کتاب کے اب تک صرف دوہی مخطوطے دریافت ہوئے ہیں ، ان میں سے ایک انڈیا آفس لائبریری لندن میں محفوظ ہے۵؂ او ردوسرا مولانا آزاد الائبریری علی گڑھ میں ہم نے اس کتاب کی تالیف کے دوران موخر الذکر مخطوطہ سے استفادہ کیا ہے ۔خواجہ عبیداللہ ابھی عالم شیر خوار گی ہی میں تھے کہ خواجہ باقی باللہ ؒ کا انتقال ہوگیا۔ ان کی وفات کے بعد خواجہ عبیداللہؒ کی تعلیم و تربیت کا بار خواجہ باقی باللہؒ کے خلیفہ اوّل خواجہ حسام الدینؒ کے کندھوں پر آپڑا۔ خواجہ حسام الدینؒ کی اہلیہ شیخ مبارک کی بیٹی او رابوالفضل کی بہن تھی خواجہ عبیداللہؒ نے اس نیک بخت سے شیخ مبارک او رابوالفضل کے متعلق کافی کچھ ں سنا ہوگا اس لئے ہم خواجہ عبیداللہؒ کو اس گھر کا بھیدی سمجھتے ہیں ۔خواجہ عبیداللہؒ نے مبلغ الرجال کے ایک باب میں دنیا بھر کے زندیقوںاور ملحدوں کے حالات لکھے ہیں۔ اس گروہ میں ابوالفضل کا نام سرفہرست نظر آتاہے ۔خواجہ عبیداللہؒ لکھتے ہیں کہ بہت کم لوگوں کو ابوالفضل کے زندقہ اور الحاد کا علم ہے۔ اس کے متعلق میری معلومات عام لوگوں کی نسبت کہیں زیادہ ہیں ،اس لئے میں بتاتا ہوں کہ وہ کیوں کر ملحد ہوا۔

خواجہ عبیداللہؒ او ربدایونی ،دونوں کا یہ خیال ہے کہ ابوالفضل کو گمراہ کرنے میں شریف آملی کا بڑا ہاتھ تھا۔ شریف آملی کے متعلق یہ دونوں بزرگ ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ نقطوی فرقہ کا داعی تھا اور ہندوستان کے طول وعرض میں محمود پسیخوانی کی تعلیمات کا پرچار کرتاپھرتا تھا۔ خواجہ عبیداللہؒ نے مبلغ الرجال میں نقطویوں کے عقائد پر دل کھول کر بحث کی ہے، لطف کی بات یہ ہے کہ ابوالفضل کے بھی وہی عقائد تھے جو نقطویوں کے ضمن میں خواجہ صاحب نے بیان کئے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۵؂ مائیکرونیلم عندی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدایونی کی تحریروں سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابوالفضل کے نقطویوں کے ساتھ بڑے گہرے مراسم تھے اور دربار اکبری کے دونامور نقطوی شاعروں وقوعی نیشاپوری اور تشبیہی کاشی کی ابوالفضل کے گھر میں آزادانہ آمد ورفت تھی۔ بدایونی نے پہلی بار محمود پسیخوانی کی ایک تحریر تشبیہی کاشی کے ہاتھ میں ابوالفضل ہی کے ہاں دیکھی تھی۔اس سے یہ بھی ثابت ہوجاتاہے کہ ابوالفضل محمود پیسخوانی کی تحریروں سے آشنا تھا اور اسے نقطویوں کے ذریعے ان کے مذہب کے متعلق معلومات ملتی رہتی تھیں۔ بدایونی کی اس بات کی تائید مبلغ الرجال سے بھی ہوتی ہے۔

تاریخ عالم آرائے عباسی کا مصنف اسکندر منشی 1002 ہجری کے واقعات کے تحت لکھتا ہے کہ جب شاہ عباس نے کاشان میں نقطویوں کا قتل عام کروایا او ران کے گھر بار لٹوائے تو اس فرقہ کے داعی میر احمد کاشی کے گھر سے ابوالفضل کے نوشتہ مکاتب نکلے جن میں میرا حمد کاشی کے ساتھ عقیدت او رنقطوی فرقہ میں دلچسپی کا اظہار کیا گیا تھا۔ اگر بدایونی نے ابوالفضل پر ‘‘ برنبائے بغض وحسد’’ الزام لگائے تھے ، او رخواجہ عبیداللہؒ نے محض سنی سنائی بات لکھ دی تھی،تو ہمسایہ ملک کے مؤرخ اسکندر منشی ابوالفضل سے کون سا عناد تھا جو وہ الزام تراشی پر اُتر آیا۔

ہم نے اس مضمون کے شروع میں جو بات لکھی تھی اسے دوبارہ یہاں دہراتے ہیں کہ بدایونی نے دورغ گوئی یا کذب بیانی سے کام نہیں لیا اور اس نے اکبر اور اس کے حواریوں کے متعلق جو کچھ بھی لکھا ہے اس کی تصدیق دوسرے ذرائع سے بھی ہوجاتی ہے۔ بدایونی کو سمجھنے کے لئے منتخب التواریخ کے ایک ایک لفظ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ ہم نے اس کتاب کی تالیف میں جن مآخذ سے استفادہ کیاہے وہ قریب قریب سبھی جانے پہچانے ہیں۔ ہم نے ایک اہتمام یہ کیاہے کہ ہندو او رانگریز مؤرخوں نے جو کتابیں زمانہ حال میں اس موضو ع پر لکھی ہیں ان پر تکیہ کرنے کے بجائے قرب العہدفارسی مخطوطات ومطبوعات پر اعتماد کیاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

URL: https://www.newageislam.com/books-documents/muhammad-aslam-akbar-deen-e-ilahi-urdu-part-1/d/131582

Part: 2 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 2 on Opening Remarks آغاز سُخن

Part: 3 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 3 on The Early Religious Life of Akbar اکبر کی ابتدائی مذہبی زندگی

Part: 4 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 4 on Impact of False Scholars (Ulama-e-Suu) on Deviation of Akbar علمائے سو

Part: 5 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 5 صُوفیائے خام

Part: 6 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 6 on the Objective of Shaikh Mubarak Nagori شیخ مبارک کا منصوبہ

Part: 7 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 7 on Akbar and Hindus اکبر اور ہندو

Part: 8 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 8 on Bhakti Movement and Akbar بھکتی تحریک اوراکبر

Part: 9 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 9 on Jainism and Akbar جینی اوراکبر

Part: 10 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 10 on the Parsis and Akbar دین الہی اور اس کا پس منظر : پارسی اور اکبر

Part: 11 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 11 on Akbar and Christians دین الہی اور اس کا پس منظر : اکبر اور عیسائی

Part: 12- Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background: Part 12 on Nuqtavi Movement and Akbar دین الہی اور اس کا پس منظر : نقطوی تحریک اوراکبر

Part: 13 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background: Part 13-Was Akbar A New Appearance? دین الہی اور اس کا پس منظر : کیا اکبر ایک نیا ظہور تھا؟

Part: 14 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background: Part 14-What did Akbar lose? دین الہی اور اس کا پس منظر : اکبر نے کیا کھویا؟

Part: 15 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background: Part 15-What did Akbar get? دین الہی اور اس کا پس منظر : اکبر نے کیا پایا؟

Part: 16 - Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background: Concluding Part 16-Reaction دین الہی اور اس کا پس منظر : رَدِّ عمل

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..