New Age Islam
Sat Apr 19 2025, 11:05 AM

Books and Documents ( 30 Jan 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background: Part 4 on Impact of False Scholars (Ulama-e-Suu) on Deviation of Akbar علمائے سو

محمد اسلم

علمائے سو

(علماء ومشائخ کی صحبت میں رہتے ہوئے اکبر کو مذہب کے ساتھ وابستگی او رعلوم اسلامیہ کے ساتھ ایک لگاؤ پیدا ہوگیا تھا۔ اس کی مجلس میں ہمیشہ اہل اللہ کاذکر رہتاتھا ایک روز باتوں باتوں میں اکبر کے مصاحبوں نے اسے بتایا کہ بنگال کے ولی صفت حاکم سلیمان کررانی کا یہ معمول تھا کہ وہ رات کے پچھلے پہر ڈیڑھ صد علماء مشائخ کی معیت میں نماز تہجد ادا کرتا اور اس کے بعد نماز فجر تک قرآن کادرس سنتا ۔ نماز فجر کے بعد وہ کاروبار حکومت میں مشغول ہوجاتا اور اپنی رعایا کی نگہداشت میں کوشاں رہتا۱؂۔ اسی طرح اکبر کو یہ بتایا گیا کہ بدخشاں کا حاکم میرزا سلیمان صوفی مشرب او رصاحب نسبت درویش تھا اور وہ لوگوں کو مرید بھی کیا کرتا تھا۲؂۔ ایسی  باتیں سن کر اکبر کے دل میں فطری طور پر یہ تحریک پیدا ہوئی کہ وہ ان جیسا بن کر دکھائے ، چنانچہ اس نے 982ہجری میں فتح پور سیکری میں شیخ عبداللہ نیازی کے حجرہ عبادت کی جگہ عبادت خانہ کی بناڈالی۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂۔منتخب التواریخ ، جلد۲،ص۲۰۰

۲؂۔ ایضاً ،ص ۲۰۱

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب یہ عمارت بن کر تیار ہوئی تو اکبر نے علماؤ و مشائخ کو وہاں تشریف لا کر اپنے مواعظ حسنہ سے مستفیض کرنے کی درخواست کی۔ وہ ہر ہفتے نماز جمعہ کے بعد عبادت خانہ میں بیٹھتا او رعلماء ومشائخ سے مختلف موضوعات پر گفتگو کرتا۳؂۔ بدایونی رقمطراز ہے کہ اکثر ایسا ہوتا کہ بادشاہ رات کے وقت وہاں جا بیٹھتا او ریا ھو او ریا ھادی کا ورد شروع کردیتا ۔صبح سویرے وہ عبادت خانہ سے باہر آکر ایک پتھر کی سل پر بیٹھ کر مراقبہ کیا کرتا تھا۴؂۔ بدایونی کی تحریر سے یہ بات مترمشح ہوتی ہے کہ عبادت خانہ کی تعمیر سے اکبر کا مقصد قال اللہ وقال الرسول کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ اسی جذبہ کے تحت اس نے علماء ومشائخ کو وہاں آنے کی دعوت دی اور شیخ محمد غوث گوالیاریؒ کے فرزند شیخ ضیاء اللہ کو خصوصی دعوت پر وہاں بلایا گیا۵؂۔

بدقسمتی سے بعض جاہ پسند علماء مخصوص نشستوں کے لئے جھگڑنے لگے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کی یہی خواہش تھی کہ اسے بادشاہ کے قریب جگہ ملے۔ بادشاہ نے ان کے جھگڑے ختم کرنے کی غرض سے یہ حکم دیا کہ امراء مشرق کی جانب بچھی ہوئی مسند وں پر بیٹھا کریں اور سادات عظام مغرب کی جانب اسی طرح علمائے کرام جنوب کی جانب بچھی ہوئی مسندوں پر بیٹھیں او رمشائخ کرام شمال کی جانب۶؂۔

جب مذہبی مباحثے شروع ہوئے تو علماء اپنی قابلیت جتانے کے لئے مختلف مسائل میں ایک دوسرے سے الجھنے لگے اور بات بڑھتے بڑھتے تلخ کلامی تک جاپہنچی ۷؂۔ بدایونی نے ایک مباحثہ کی تصویر ان الفاظ میں کھینچی ہے۸؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۳؂۔ ایضاً۔  ۴؂؂۔ ایضاً ،ص ۲۲۰

۵؂؂۔ ایضاً ،ص ۲۰۲     ۶؂ ایضاً

۷؂ منتخب التواریخ ۔جلد ۲،ص ۲۰۲               ۸؂۔ ایضاً

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رگ گردن علمای زمان برآمد ہ آواز پائی بلند ودمدمہ بسیار ظاہر شد ۔ این معنی برخاطر اشرف گران آمدہ۔

بڑے بڑے علماء کی گردنوں کی رگیں پھولنے لگیں۔ شور و غل کے علاوہ سخت ہلٹر مچ گیا۔ بادشاہ کی طبع نازک کو یہ بات ناگوار گذری۔

اکبر نے ان کی حرکات پر خفگی کا اظہار کرتے ہوئے بدایونی سے کہاکہ جو عالم اس مجلس میں بیہودہ پن کا مظاہرہ کرے اسے وہاں سے اٹھادے۹؂۔ بدایونی رقمطراز ہے کہ آصف خان میر سے قریب ہی بیٹھاہوا تھا میں نے چپکے سے اس کے کان میں کہا کہ اگر بادشاہ کایہی حکم ہے پھر تو بہت سے علماء کو باہر نکالنا پڑے گا۱۰؂۔

منتخب التواریخ کے مطالعہ سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ شروع شروع میں مخدوم الملک مولانا عبداللہ سلطان پوری عبادت خانہ کے مباحثوں میں حصہ لینے سے گریز کرتے تھے۔ جب اکبر نے علماء کو دست وگریباں ہوتے دیکھا تو مخدوم الملک کو محض تنگ کرنے کی غرض سے عبادت خانہ میں مدعو کیا۔ یوں معلوم ہوتاہے کہ علماء بھی ان سے بات بات پر الجھنے پر اُدھارکھائے بیٹھے تھے ۔ابوالفضل جیسا کل کا لونڈا ،جو مخدوم الملک کے سامنے طفلِ مکتب معلوم ہوتا تھا او رجس کے منہ سے ہنوز بوئے شیر آتی  تھی ، ان کے منہ آنے لگا۔ اکبر نے ابوالفضل کی تیزی و طراری ملاحظہ کرتے ہوئے اس کا حوصلہ بڑھایا۱۱؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۹؂۔ ایضا۔   ۱۰؂۔ ایضاً۔ ‘‘ آہستہ بآصفہ ، خان گفتم برین تقدیر اکثر یر اباید برحیز ا مذ’’۔

۱۱؂۔ ایضاً ، ص ۲۰۳۔‘‘ ابوالفضل کہ فوائد بودوحالا مجتہددین ومذہب نواست بلکہ مرشد بحق وداعی ودیگر احداث رابمبا حثہ اور سرمید اد ندوتخلیط درہرسخن اومیکروند۔’’

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرہند کے ایک فاضل حاجی ابراہیم بہت ہی منہ زور مناظرواقع ہوئے تھے، وہ بھی بات بات پر مخدوم الملک سے الجھنے لگے۔ جب حاجی ابراہیم زیادہ ہی منہ زور ہوگئے تو اکبر نے بدایونی کو آگے بڑھایا او راس نے حاجی کے منہ میں لگام دی۔ بدایونی رقمطراز ہے کہ اکبر عبادت خانہ کے مناظروں میں میرے پینترے دیکھ کر یہ کہا کرتا تھا کہ یہ نوجوان حاجی ابراہیم سرہندی کا سر پھوڑے گا۱۲؂۔ ہم یہ کہنے میں بالکل حق بجانب ہیں کہ اگر اکبر ابوالفضل ،حاجی ابراہیم سرہندی اور عبدالقادر بدایو نی جیسے منہ زو ر مناظروں کی پیٹھ نہ ٹھونکتا تو عبادت خانہ کے مباحثوں میں اتنی ناخوشگواری پیدا نہ ہوتی۔ اس لئے عبادت خانہ میں پیدا ہونے والی تمام بدمزگی کی ذمہ داری براہ راست اکبر پر عائد ہوتی ہے۔

ان ہی مباحثوں میں ایک روز خان جہان نے مولانا عبداللہ سلطانپوری سے پوچھا کہ کیا ان پر ابھی حج فرض ہوا ہے یا نہیں؟ مولانا نے اس کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس زمانے میں دووجوہ کی بنا پر فریضہ حج ساقط ہوچکا ہے۔

اولاً یہ جو شخص سمندر کے راستے حجاز جانا چاہتا ہو اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ پرتگیزوں سے پاسپورٹ حاصل کرے اس پاسپورٹ پر چونکہ صلیب کا نشان اور حضرت مریمؑ اور حضرت عیسیؑ کی تصاویر ہوتی ہیں اس لئے جائز نہیں کہ وہ اس طرح کی دستاویزاپنے پاس رکھے۔

ثانیایہ کہ اگر کوئی شخص خشکی کے راستے حجاز جانا چاہے تو اس کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ ایران کے راستے سفر کرے۔ ایران پر چونکہ شیعوں کا قبضہ ہے اس لئے کسی سُنّی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ ان کے ملک میں سفر کرے اور ان سے دلآزار باتیں سنے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۲؂۔ ایضاً،ص ۱۷۳۔‘‘ دروقت ملازمت تعریف کردہ بودند کہ این فاضل بداونی سرکوب حاجی ابراہیم سرہندی است۔’’

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان دوصورتوں کے علاوہ او رکسی طریقے سے حجاز پہنچنا ممکن نہیں ، اس لئے فریضہ حج ساقط ہوچکا ہے۱۳؂۔ باتو ں باتوں میں یہ بھی معلوم ہو ا کہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے بچنے کے لئے بھی انہوں نے ایک حیلہ یہود تراش لیا تھا۔ وہ یہ کہ مخدوم الملک سال ختم ہونے سے قبل اپنی تمام جائیداد اپنی بیوی کے نام ہبہ کردیا کرتے تھے اور اسی طرح وہ نیک بخت سال پورا ہونے سے قبل وہ جائیداد ان کے نام منتقل کردیا کرتی تھی ۔زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے چونکہ ‘‘ حول کامل’’ شرط ہے اور اس طرح کے ہیرپھیر میں یہ شرط چونکہ پوری نہ ہوتی تھی اس لئے ان پر زکوٰۃ فرض نہ ہوتی تھی۱۴؂۔

علماء کی نجی زندگی او ران کے کرتوت دیکھ کر بادشاہ کا ان پر سے اعتماد اٹھ گیا۔ مخدوم الملک سے گلوخلاصی کرانے کی غرض سے انہیں جبراً حج کے لئے بھیج دیا گیا۱۵؂۔ کچھ عرصہ گذرنے پر وہ بلااجازت ہندوستان چلے آئے لیکن دارالحکومت پہنچنے سے پیشتر ہی احمد آباد میں ان کا انتقال ہوگیا۔ بادشاہ نے جاسوسوں کی اطلاع پر ان کے ‘‘آبائی قبرستان ’’ کو کھدوایا تو ان ‘‘قبروں سے تین کر وڑ روپے کی مالیت کی اینٹیں برآمد ہوئیں۱۶؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۳؂۔ ایضاً ۔ص ۲۰۳

۱۴؂۔ ایضاً

۱۵؂۔ ایضاً ، ص ۲۰۴۔‘‘ وقرار چنان یافت کہ اور اقہراً وجبراً مُبکہ معظمہ باید فرستاد’’۔

۱۶؂۔ ایضاً ،ص ۳۱۱

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کا زکوٰۃ کی ادائیگی سے بچنے کا عذر اور حج پر نہ جانے کا بہانہ او راسی طرح کے حیلہ ہائے یہود پڑھ کر دور حاضر کے بعض مؤرخوں کو ان پر شائیلاک کا گمان گذرتا ہے۱۷؂۔

شیخ عبدالنبی جب کر سئی صدارت پر بیٹھے تو ان کے جاہ وجلال کا یہ عالم تھا کہ بادشاہ خود ان کے گھر جاکر درس حدیث میں شریک ہوتا اور شیخ کی کفش برداری کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھتا تھا۔ جب ہندوستان کا شہنشاہ ان کو اپنے ہاتھوں سے جوتے پہناتا ہو پھر بھلا وہ دوسروں کو کب خاطر میں لاتے ہوں گے۔ بقول بدایونی بڑے بڑے علماء شرف باریابی حاصل کرنے کے لئے گھنٹوں ان کے دروازے پرکھڑے رہتے تھے۱۸؂۔ عموماً ایسا بھی دیکھنے میں آتاکہ امراء او رعلما ء ان کے دیوان خانہ کے باہر منتظر کھڑے ہوتے او ر وہ  باہر نکل کر ایک چوکی پر بیٹھ جاتے۔ ان کا ایک خادم انہیں وضو کراتا او رمستعمل پانی کے چھینٹے اُڑ کر امراء اور علماء کی عباؤں پر پڑتے ۔شیخ ان سب سے بے نیاز ہوکر وضو کرتے اور ان سے ملے بغیر اپنے کمرہ میں تشریف لے جاتے۱۹؂۔ بدایونی نے اس منظر کا جو نقشہ کھینچا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ بے حد مغرور ہوچکے تھے۔ بدایونی نے ان کا شمار ان علماء میں کیاہے جنہیں وہ ‘‘ملایان فرعون صفت’’ کے لقب سے یاد کرتاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۷؂۔ ریلیجس پالیسی آف اکبر ، ورق ۸۴

۱۸؂۔منتخب التواریخ جلد۲،ص ۲۰۵۔‘‘سید عبدالرسول وسایر وکلا ئے شیخ تا فراشان ودربانان وسائسان وحلال خوران نیز رشوتہائی کلی داد ہے’’۔

۱۹؂۔ ایضاً۔ بعد ازنیم روز برکرسئی غرورنشستہ وضومی ساخت قطرات آب مستعمل اور ہمہبرسرورومی وجامہ امرای کبار ومقربان بلند مرتبہ می افتادوہیچ تحاشی ازان مذاشت’’۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مخدوم الملک کی طرح انہوں نے بھی ادائیگی زکوٰۃ سے بچنے کیلئے ‘‘کتاب الحیل ’’۔ میں سے کوئی حیلہ تلاش کرلیا تھا۔ بالآخر ان کا انجام بھی مخدوم الملک جیساہی ہوا اوربادشاہ نے انہیں بھی ہندوستان سے جلاوطن کرکے مکہ مکّرمہ روانہ کردیا۔ جب مخدم الملک واپس لوٹے تو یہ بھی ہندوستان چلے آئے ۔مخدوم الملک کو تو دارالحکومت پہنچنا نصیب ہی نہ ہوا، شیخ صاحب کو ان کی قضا دربار میں لے آئی۔اکبر نے دوران گفتگو ان کے منہ پرگھونسہ رسیدکیا او رابوالفضل سے کہا کہ انہیں زندان میں ڈال کر ان سے ان ستر ہزار روپوں کا حساب لے جو انہیں حرمین شریفین میں تقسیم کرنے کیلئے دئے تھے۲۰؂۔ ان پر متھرا کے برہمن اور خضرخان سروانی کو سب نبی اور میر حبش کو ‘‘رقص’’ کے جرم میں مروانے کے الزامات بھی لگائے گئے۔ شیخ عبدالنبی نے قید خانہ میں ہی وفات پائی اور ان کی وفات پر تبصرہ کرتے ہوئے بعض لوگوں نے کہا کہ ابوالفضل نے اگلے پچھلے بدلے لینے کی خاطر انہیں طرح طرح کی اذیتیں دے کر مرواڈالا۔

سلطان خواجہ ،جسے اکبر نے امیر حاج بنا کر مکہ مکرمہ بھیجا تھا ،اپنے آخری ایّام زندگی میں بادشاہ کے زمرۂ مریدین میں داخل ہوگیا تھا۔ جب وہ فوت ہوا تو اس کی تدفین ‘‘شریعت جدید’’ کے مطابق عمل میں آئی تھی۔ بدایونی کا بیان ہے۲۱؂۔

بعد از دفن درقبر اوکہ باختراع خاص بود مشبکہ مقابل نیرّ اعظم گذاشتند تافروغ آن کہ پاک کنند گناہان است ہرصباح بررویش افتد ومیگفتند کہ بردہانش زمانہ آتش نیز۔ سانیدہ بودند۔

اس کی تدفین کے بعد یہ اختراع کی گئی کہ اس کی قبر میں سورج کے مقابل ایک روشندان بنایا گیا تاکہ سورج کی روشنی جوگناہوں سے پاک کرتی ہے ،ہر صبح اس کے چہرہ پرپڑے ۔ لوگوں کا یہ بھی کہناہے کہ اس کی زبان پر ایک انگارہ بھی رکھا گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۰؂۔ ایضاً ۔ص ۳۱۱    ۲۱؂۔ ایضاً ،ص ۳۴۰،۳۴۱

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میراں صدر جہاں ‘‘مفتی کل ہندوستان’’ کے لقب سے ملقب تھے، جب اکبر کے دربار سے کفر والحاد کا طوفان اٹھاتھا تو ان کا ایمان بھی متزلزل ہوئے بغیر نہ رہ سکا اوردوسروں کو دیکھا دیکھی وہ بھی اکبر کے مریدوں کے زمرہ میں  داخل ہوگئے۲۲؂۔ دیکھنے والوں نے یہ دیکھا کہ جو بزرگ کل تک ‘‘مفتی کل ہندوستان’’ بنے پھرتے تھے وہ اب وادی  الحاد میں دوسروں سے بھی دو قدم آگے ہیں۔

اکبرکے آخری دور حکومت میں جب بادِفنا نے بیریر ، حکیم ابوالفتح ،شیخ مبارک ، فیضی اور ابوالفضل جو دین الہٰی کے ستون سمجھے جاتے تھے ، ایک ایک کر کے گرادیئے اور دربار میں قلیچ خانؒ اور شیخ فرید بخاریؒ جیسے راسخ العقیدہ مسلمان اُمراء برسر اقتدار آئے تو میراں صدر جہاں کی بھی آنکھیں کھلیں اور وہ تائب ہوکر راہ راست پر آگئے ۔تاہم وہ اپنے دور الحاد میں اسلام کو نقصان پہنچانے میں کسی دوسرے عالم سُو سے پیچھے نہیں رہے۔ شاید کسی نے ایسے ہی موقع کے لئے یہ شعر کہا ہے۔

کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

ہائے اس زودپشیما کا پشیما ں ہونا

ملاّ شیری لاہوری اکبر کے عہد کا ایک ممتاز عالم تھا اور وہ سنسکرت زبان کی کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کرنے پر مامور تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ بادشاہ سورج کی طرف منہ کرکے سنسکرت زبان میں سورج کے ایک ہزار ایک نام جپتا ہے تو اس نے بادشاہ کی سہولت اور خوشنودی کی خاطر وہ نام  منظوم کرکے اس کی خدمت میں پیش کئے۲۳؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۲؂۔ ایضاً ،ص ۴۰۴

۲۳؂۔ ایضاً ،ص ۳۳۶

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حاجی ابراہیم سرہندی کے متعلق جو عبادت خانہ کے مباحثوں میں اپنے حریفوں کی پگڑیاں اچھالتاپھرتا تھا، بدایونی لکھتا ہے ۔ سرشوت بسیار گرفتہ وزنان بسیار نگاہ داشتہ۲۴؂۔

قاضی صدر الدین سنبھلی کا بیٹا قاضی زادہ عبدالحئی بھی ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے مسائل دین کو بازیچۂ اطفال بنالیا تھا ۔ اس کے متعلق بدایونی رقمطراز ہے کہ ۔‘‘ خبط سخنان درمذہب وملّت میگفت’’۲۵۔

عہد اکبری میں ‘‘مجتہدان مذہب نو’’۲۶؂۔ نے اکبر کے ذہن میں یہ بات بٹھادی تھی کہ ۔ ‘‘ شراب اگر بجہتہ رقابیت بدنی بطریق اہل حکمت بخورند وفتنہ وفساد ے ازان نزاید مباح باشد’’۲۷۔بالفاظ دیگر اگر کسی طبیب سے میڈیکل سرٹیفیکٹ لے کر شراب پی جائے تو اس کا استعمال صحت کے لئے فائدہ مند ہوگا ۔اکبر نے پینے والوں کی سہولت کے لئے دربار عام کے قریب ہی شراب کی ایک دکان کھلوا کر مختلف اقسام کی شراب کے نرخ مقرر کردیئے تھے۲۸۔ یعنی اس سرکاری ڈپو سے ہر کس وناکس کو کنٹرول ریٹ پر شراب مل سکتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴؂۔ ایضاً ،ص ۳۱۲   ۲۵؂۔ ایضاً ، ص ۲۸۳

۲۶؂۔ بدایونی نے یہ اصطلاح ابوالفضل کے لئے استعمال کی ہے۔ منتخب التواریخ ،جلد۲ ص ۲۰۳

۲۷؂۔ ایضاً۔ از برائے رعایت عدالت دوکان شراب فروشی بردربار باہتمام خاتون دربان کہ دراصل ازنسل خمار است، برپا کردہ نرخے معین نہادند۔’’

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دکان کے کھلتے ہی علمائے سُؤ کے بھی جوہر کھلے۔ بدایونی رقمطراز ہے کہ عہد اکبری میں مفتیوں اور قاضیوں کی یہ حالت تھی کہ ‘‘درمجالس نو روزے اکثرے ازعلماء وصلحا بلکہ قاضی و مفتی رانیز دروادی قدح نوشی آوردند’’۲۹؂۔ بادشاہ ان کو شراب پیتے دیکھ کر بڑا محفوظ ہوتا او رترنگ میں آکر یہ شعر پڑھا کرتا تھا:۔

درعہد پادشاہ خطا بخش وحرم پوش

حافظ قرابہ کش شدو مفتی پیالہ نوش

بدایونی لکھتا ہے کہ عہد اکبری کے ایک عالم ،خواجہ اسمٰعیل نبیرہ شیخ الاسلام کا انتقال کثرت شراب نوشی کے سبب ہوا تھا۳۰؂۔ قاضی عہد السمیع نام کے ایک بزرگ کو ، جن کی داڑھی  بقول بدایونی گزبھر سے کسی طرح بھی کم نہ تھی، اکبر نے قاضی القضا ۃ بنایا۔ یہ بزرگ شرط بدکر شطرنج کھیلنے کے علاوہ حافظ کا یہ شعر:۔

سحر زہاتف علیم رسید مژدہ گوش

کہ دور شاہ شجاع ست مے دلیر ناانبوش

پڑھتے ہوئے ساغر پر ساغر لنڈھایا کرتے تھے۔بدایونی کا یہ بھی کہناہے کہ وہ رشوت کو عین فرض سمجھتے تھے اور سود کے بغیر کسی کو قرض نہیں دیتے تھے۳۱؂۔

بدایونی کے بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عبادت خانہ میں علماء دوگرہوں میں بٹ گئے تھے، ان میں سے ایک گروہ مخدوم الملک کا طرفدار تھا اور دوسرا شیخ عبدالنبی کا۳۲؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۹؂۔ ایضاً ۔ص ۲۰۹

۳۰؂۔ ایضاً ،ص ۳۴۷

۳۱؂۔ ایضاً ،ص ۳۱۴۔‘‘ شطرنج بگرومی باز د اکثر سے میدہدوپیالہ کشی خود علانیہ آفریدہ اوست ورشوت نظر بمبذہب اوفرض وقت است وسُو درا ورقبالات فرض وسجلات بموجب حکم وضع نمودہ می نویسد۔’’

۳۲؂۔ ایضاً ،ص ۲۵۵۔‘‘ ملایان دوجماعہ دو رویہ پارہ بآن جانب وپارہ باین جانب رفتہ سبطی وقبطی گشتند۔’’

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بحث کے دوران جب وہ جھگڑتے تو یوں معلوم ہوتا گویا سبطی اور قبطی باہم درست وگریباں ہورہے ہیں ان کے جھگڑے زبانی کلامی مناظروں تک محدود نہیں رہے بلکہ دونوں گروہ تم بدست میدان تحریر میں کود پڑے۔مخدوالملک نے قلم اٹھانے میں پہل کی اور شیخ عبدالنبی کے خلاف ایک رسالہ لکھ ڈالا ۔ اس میں علاوہ او رباتوں کے یہ بھی مرقوم تھا کہ شیخ عبدالنبی کو چونکہ بواسیر کی شکایت ہے اور ان کے والد نے انہیں جائیداد سے بھی عاق کیا ہوا ہے اس لئے ان کے پیچھے نماز جائز نہیں ۳۳؂۔ شیخ عبدالنبی بھلا کب پیچھے رہنے والے تھے انہوں نے مخدوم الملک کے خلاف قلم اٹھایا اور انہیں جاہل مطلق ثابت کردکھایا ۔اگر ان کے اختلافات یہیں تک محدود رہتے تو بھی ‘‘درجہ بدرجہ خیرت’’ رہتی مگر وہ ایک قدم آگے بڑھ کر ایک دوسرے کی تکفیر اور تضلیل میں مشغول ہوگئے اور دونوں طرف سے فتاویٰ کے کاغذی کارتوس چلنے لگے ۔بدایونی لکھتا ہے کہ انجام کار ان کے اختلافات اس انتہا کو پہنچ گئے کہ ‘‘ کاربحث از سُنّی وشیعی وحنفی وشافعی وفقہیہ وحکیم گذشتہ دراصل اصول خلل اندا ختند’’۳۴؂۔

جب مخدو الملک اور صدرالصدور یوں لڑنے جھگڑنے لگے تو بعض کٹ کھنے بھی عبادت خانہ میں آنکلے ۔تاج الدین نام کے ایک صاحب بھی ،جو اپنے حواریوں میں تاج العارفین کے لقب سے مشہور تھے، عبادت خانہ میں آنے جانے لگے ۔ایک روز انہوں نے وحدت الوجود کے غلبہ کے تحت بادشاہ کو‘‘عین واجب لااقل عکس واجب’’ قرار دے کر اس کے لئے سجدہ تعظیمی کا جواز نکال لیا۳۵؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۳۳؂۔ ایضاً۔ ‘‘نماز گذارون عقب اور دانیست چراکہ پدوش عاق ساختہ وخود علت بواسیر خونی دارد۔’’

۳۴؂۔ ایضاً

۳۵؂۔ ایضاً ۔۲۵۹

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حاجی ابراہیم سرہندی نے داڑھی  پر تحقیق شروع کی اور چند روز بعد ملاّ ابوسعید برادر زادہ شیخ امان پانی پتی کے کُتب خانہ کی ایک کرم خوردہ کتاب میں سے ایک حدیث نکال لائے اور عبادت خانہ میں آکر یہ اعلان کیا کہ راوی لکھتا ہے ۔‘‘ پسر صحابی مترش ورنظرآن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم آمد ، فرمودند کہ اہل بہشت باین ہسیات خوابندبود’’۳۶؂۔ اس سے بادشاہ کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جب اہل بہشت کلین شیوہوں گے تو پھر ہم کیوں نہ شیوبنوائیں۔

جب ایک فقہیہ نے یہ دیکھا کہ حاجی ابراہیم کی تحقیق بادشاہ کے دل لگی ہے تو وہ بھی ایک کتاب اٹھا لائے جس میں یہ مرقوم تھا کہ اپنی داڑھی  اس طرح نہ رکھو۔۔ کمایفعلہ بعض القضاۃ العراق۔ اس کا ترجمہ انہوں نے یوں کیا کہ جس طرح عراق کے قاضی داڑھیاں رکھتے ہیں تم ان کی طرح داڑھیاں نہ رکھو،با الفاظ دیگر تم ان کی ضد میں داڑھیاں منڈواؤ ۔ بدایونی رقمطراز ہے کہ اسے اس فقہیہ کی چالاکی سمجھئے یا جہالت ، جس نے عصاۃ کو قضاۃ بنادیا تھا ۳۷؂۔

جب ایک اور عالم نے جو عقل کے پیچھے لٹھ لئے پھرتے تھے، یہ دیکھا کہ اس کے حریف داڑھی پر ریسرچ کرکے اس پر بازی لے گئے ہیں، تو اس نے شیوبنانے کے حق میں یہ دلیل پیش کی کہ ۔ ‘‘ ریش از خصیتین آب میخوردولہذا ہیچ خواجہ سرای راچون ریش نہ بنیند ، درنگاہداشتن آن چہ ثواب’’۳۸۔ اس محقق کی تحقیق بادشاہ کے کچھ اس طرح سے دل لگی کہ ۔۔ ‘‘ صحبت باریش داردامثال آن کمال احتراز داشتند’’۳۹؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۳۶؂۔ ایضاً ۔ص ۲۷۸۔

۳۷؂۔ ایضاً ،ص ۳۰۴۔عصاۃ کے معنی ہوتے ہیں اوباش ،یعنی کہنے والے نے یہ کہا تھا کہ تم اپنی ڈاڑھیاں عراق کے اوباشوں کی طرح نہ رکھو ۔دربار اکبر ی کے فقہیہ نے عصاۃ کو قضاۃ بنادیا۔

۳۸؂۔ ایضاً ۔ص ۳۰۳

۳۹؂۔ ایضاً۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی دوران میں بعض علماء نے بادشاہ کی توجہ تعددازدواج کی طرف مبذول کرائی ۔مختلف مکاتب فکر کے علماء نے فانکحوا ما طاب  لکم من النساء مثنیٰ وثلاث ورباع کی تفسیر کرتے ہوئے اسے بتایا کہ بعض فقہا تاہثردہ زن ہم روا داشتہ اند۴۰؂۔ مؤرخوں کا بیان ہے کہ جب سلطان محمود کسی سے خوش ہوتا تو اس کا منہ موتیوں سے بھرواتا تھا۔ ایک بار اس نے عنصری کا منہ تین بار موتیوں سے بھروا یا تھا۴۱؂۔ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اکبر نے اس عالم کا منہ کتنی بار موتیوں سے بھروایا۔

ابھی تعدد ازواج کامعاملہ زیر غور ہی تھا کہ ایرانی وعراقی علماء بھی ‘‘ از امیرالمومنین علی علیہ السلام منقول است’’ کہتے ہوئے عبادت خانہ میں داخل ہوئے انہوں نے یہ اعلان کیا کہ ۔‘‘امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر عمر نے متعہ کو حرام نہ کیا ہوتا تو شقی کے سوا کوئی زنانہ کرتا ’’۴۲؂۔ یہاں کس بات کی دیر تھی ، بادشاہ نے علماء کا ایک کمیشن متعہ پر ریسرچ کرنے کیلئے مقرر کیا۔ اس کمیشن نے یہ رپورٹ حضور میں گذاری کی شیعوں کے علاوہ امام اہل سنت ،مالک بن انسؒ نے بھی متعہ کو جائز قرار دیا ہے او رمالکی قاضی اس کے جواز کا فتویٰ دیکر اس پر عمل درآمد کرنے کا مجاز ہے۔ بادشاہ نے مسلمانوں کو زنا سے بچانے کی خاطر حنفی قاضی کو معزول کرکے اس کی جگہ مالکی قاضی حسین عرب کو دارالحکومت میں منصب قضاء پر فائز کردیا۴۳؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۴۰؂۔ ایضاً ۔ص ۲۰۸

۴۱؂۔ چہار ۔مقالہ ،ص ۴۰۔۴۱

۴۲؂۔ یہ زبان سرکار قبلہ ادیب اعظم مولانا سید ظفر حسن صاحب مدظلہ کی ہے میں نے ان کی کتاب عقائد الشیعہ سے مستعارلی ہے ۔عقائد الشیعہ ،ص ۸۹

۴۳؂۔ منتخب التواریخ ،جلد ۲ ،ص ۲۰۹

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدایونی رقمطراز ہے کہ بحث و مناظرہ کے دوران اگر ایک عالم ایک فعل کو حرام بتاتا تو دوسرا فوراً اس کی علّت کا جواز نکال لیتا تھا۴۴؂۔ حاجی ابراہیم سرہندی نے مردوں کے لئے سُرخ رنگ کا لباس پہننے کا جو از تلاش کیا تو سید محمد میر عدل نے بادشاہ کی موجودگی میں اسے بُرا بھلا کہا او راسے گالیاں دیتے ہوئے عصاء مارنے پر آمادہ ہوگئے۴۵؂۔ بادشاہ نے سید محمد میر عدل جیسے متقی اور راسخ العقیدہ علماء کو دوسرے شہروں میں تبدیل کرکے ابوالفضل او رحکیم ابوالفتح جیسے فتنہ پروازوں کے لئے میدان خالی کروادیا۔بدایونی کا کہناہے کہ شاہ فتح اللہ ،ابوالفضل او رحکیم ابوالفتح عبادت خانہ کے مباحثوں میں بڑے منہ پھٹ ثابت ہوئے تھے ۴۶؂۔ ابوالفضل کے سامنے اگر کوئی عالم امام قفال الشاشیؒ ،امام باقلاقی ، شمس الائمہ حلوائیؒ ، امام غزالی ؒ، امام الحصاصؒ یا امام قددریؒ کا قول پیش کرتا تو وہ بادشاہ کو مخاطب کرکے کہتا کہ لو اور سنو! یہ ہمارے مقابلہ میں حلوائیوں ، کنجڑوں ، موچیوں اور قفل سازوں کے اقوال بطور حجت پیش کرتاہے۴۷؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۴۴؂۔ ایضاً ،ص ۲۵۹۔‘‘ یکے فعلی راحرام میگفت ودیگر بحیلہ ہمان راحلال فی ساخت ’’۔ بدایونی نے عبادت خانہ کے ماحثوں میں حصہ لینے والے علماء کی تعداد سو کے قریب بتائی ہے مثل مشہور ہے، دوملاؤں میں مُرغی حرام، جہا ں سو کے قریب ملاّ جمع ہوتے ہوں گے وہاں کیا کچھ نہ ہوتا ہوگا۔

۴۵؂۔ ایضاً ،ص ۲۱۱۔‘‘ درمجلس پادشاہی اور ابدبخت ملعون گفتہ ودشنا مہا وادہ عصاء برائے زون برداشت ۔’’

۴۶؂۔ ایضاً ،ص ۲۷۸۔

۴۷؂۔ ایضاً ۔ص ۲۰۰۔‘‘اگر درحین بحث سخن مجہتدان رامی آور دند میگفت کہ سخن فلان حلوئی وفلان کفش دوز وفلان چرم گربرما حجت می آرید ونفی ہمہ مشائخ وعلماء بدوسازوار آمد’’۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہندوستان میں پیشہ وروں کی جو حالت زار ہمیشہ سے چلی آئی ہے بادشاہ اس پر ان کو قیاس کرکے ائمہ سے  متنفرہوگیا۔

بدایونی لکھتا ہے کہ اکبر اپنے عہد کے علماء کو غزالیؒ او ررازیؒ کا ہم پلّہ سمجھے ہوئے تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ اس دور کے غزالی اور رازی نے فریضہ حج اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے بچنے کے لئے حیلے تلاش کرلئے ہیں او را س عہد کے سرخسی اور بیہقی حزم کو خرم اورعصاۃ کو قضاۃ پڑھتے ہیں تو وہ سلف کو خلف پر قیاس کرکے سلف کا بھی منکر ہوگیا۴۸؂۔

ابوالفضل ان ائمہ کے مقلدوں کو بھرے دربار میں گرفتار زندان تقلید ۔کہہ کر مخاطب کیا کرتا تھا۴۹؂۔ ابوالفضل او راس کے حواریوں نے تقلید کے خلاف بادشاہ کے جذبات برانگیختہ کرکے اسے تقلید کی بندشوں ؂سے آزاد کردیا اور اس نے عبادت خانہ کے دروازے ہر مکتب فکر او رہر مذہب کے پیروؤں کے لئے کھول دیئے۔

اذنِ عام ملتے ہی ایران کا ایک شیعہ عالم ملّا محمد یزدی ،جو عوام میں یزیدی کے نام سے متعارف تھا، دربار میں آنے جانے لگا۵۰؂۔ایک دن بحث کے دوران جب اس کی زبان کھلی تو اس نے ۔

طعن سریح وناسزا ی قبیح برخلفائے ثلثہ گفتہ وتکفیر وتفسیق عامہ صحابہ کبار وتابعین وتبع تابعین وسلف و خلف صالحین از متقدمین و متاخرین رضی اللہ عنہم کردہ اہل سنت وجماعت رالحقرومہان ورنظر نمودن گرفت وغیر از مذہب شیعہ ہمہ راضال ومضل دانا نید۵۱؂۔

خلفائے ثلاثہ کو مطعون کرنا او ربرا بھلا کہنا شروع کیا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے صحابہ کبار، تابعین ، تبع تابعین، اوراگلے پچھلے صالحین رضی اللہ عنہم کو کافر اور فاسق کہہ کر اہل سنت والجماعت لو بادشاہ کی نظروں میں حقیر وذلیل بنادیا اوراس نے یہ بات بادشاہ کے ذہن میں بٹھادی کہ شیعہ کے علاوہ دوسرے فرقے گمراہ ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۴۸؂۔ ایضاً،ص ۲۵۹۔‘‘ از علمائے عہد خویش ہرکدام رابا متبا ر جاہ وعظمت بہتر ازامام غزالی ورازی تصور نمودہ بودندرکاکتہا ی ایشان رادیدہ قیاس غائب برشاہد کردہ سلف رانیز منکر شدند۔’’

۴۹؂۔ مہابھارت ،ص ۳۵۔

۵۰؂۔ منتخب التواریخ ،جلد ۲ ،ص ۲۵۹۔

۵۱؂۔ ایضاً

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدایونی کا بیان ہے کہ وہ بادشاہ کو بڑی عجیب وغریب حکایات سنایا کرتا تھا۔ اس کی اور اس کے ساتھیوں کی باتیں سن سن کر بادشاہ اسلاف سے بیزار ہونے کے علاوہ وحی ، نبوت او رمعجزات کا بھی منکر ہوگیا اوراس نے احکام شریعت کو تقلید یات ۔کا نام دیکر عقل کو دین کا مدار قرار دیا۵۲؂۔

عبادت خانہ میں مباحثوں کا یہ رنگ دیکھ کر سر پر جیسے ‘‘دریدہ دہن نابکار’’ نے بھی پرُ زے نکالے او روہ بھی دوسروں کو دیکھا دیکھی شعار اسلام کا مذاق اُڑانے لگا۵۳؂۔ ویپ چند منجہولہ بھی ایک روز عبادت خانہ میں جا نکلا او روہاں آتے ہی اس نے یہ اعلان کیا کہ ‘‘اگر گاؤ نزدحق تعالیٰ معظم نبودی وراول سورہ قرآنی چرامذکورشدی’’۵۴؂۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اسے ‘‘ماتا’’ کہہ کر اس کے قدموں میں جنت تلاش کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۵۲؂۔ ایضاً ،ص ۲۱۱

۵۳؂۔ ایضاً ،ص ۲۷۴۔ایک دن اس کی طنزسن کر شہباز خان کنبوہؒ سے نہ رہا گیا ، اس نے بادشاہ کی موجودگی میں بیریر سے کہا۔‘‘ اسے کافر ملعون حالاتوہم این چنین سخنان میگوئی۔’’بادشاہ شہباز خان سے ناراض ہوکر کہنے لگا میرا جی چاہتا ہے کہ تمہارے منہ پر نجاست آلود جوتے لگواؤں

۵۴؂۔ ایضاً ،ص ۲۱۱

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب مناظروں میں مسائل ودلائل کی جگہ ۔کج بحثی او رٹھٹھہ مذاق نے لے لی تو اکثر راسخ العقیدہ علماء ومشائخ نے عبادت خانہ میں جانا چھوڑ دیا۔ شیخ سلیم چشتیؒ کے صاحبزادے مولانا بدرالدینؒ نے دارالحکومت سے گجرات کی راہ لی او رایک روز چپکے سے جہاز میں بیٹھ کر جدّہ روانہ ہوگئے اوربقیہ عمر حرم میں گذاری۵۵؂۔ مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کے الفاظ میں وہ کعبہ کی دیوار کے نیچے کعبہ والے کی امانت بغیر کسی خیانت کے سپرد کرکے اپنے فرض سے سبکدوش ہوگئے۵۶؂۔اکبر نے ناراض ہوکر اکثر وبیشتر علماء کو دور دراز علاقوں میں بھیج دیا۔ ان کے عبادت خانہ سے نکلتے ہی میدان خالی دیکھ کر پہلے شیعہ ،ان کے بعد ہندو، پارسی اور جینی وہاں آدھمکے ۔ پرتگیز بھلا کب پیچھے رہنے والے تھے، وہ بھی انجیل مقدس لے کر دربار میں آپہنچے او رانہوں نے بچے کچھے علماء کو دعوت مناظرہ دی۔علماء میں اب اس قابل کوئی نہ تھا جو ان سے مناظرہ کرتا اور ان کے اعتراضات کے مسکت جواب دیتا۔علماء کو بے بس دیکھ کر شیخ قطب جیسری نام کے ایک مجذوب الحال درویش مستانہ نعرے لگا تے ہوئے آگے بڑھے اور پادریوں کو مباہلہ کی دعوت دی۵۷؂۔ اکبر نے موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے پادریوں سے کچھ دیر تبادلہ خیال کیا، اور ان پر بعض بڑے کڑے سوال کئے۔ اس طرح بادشاہ نے مباہلہ کی نوبت نہ آنے دی۔

بادشاہ نام نہاد علماء سے پہلے ہی نالاں تھا اب پادریوں کے مقابلہ میں ان کی بے بسی دیکھ کر اس نے علماء کی اکثریت کو قندھار بھیج دیا اور وہاں کے حاکم کو لکھ دیا کہ وہ قندھار کے نخاس میں ان کا تبادلہ گھوڑوں سے کرکے وہ گھوڑے حضور میں بھیج دے۵۸؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۵۵؂۔ وایضاً ،ص ۲۱۲

۵۶؂۔ تذکرہ مجدالف ثانیؒ ۔ص ۹۲۔

۵۷؂۔ منتخب التواریخ جلد۲، ص۳۹۹۔

۵۸؂۔ ایضاً۔‘‘ واکثر سے رابقند صار فرستادہ اسپان طلبسید ند’’۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکبر علماء کے اثر سے آزاد ہوناچاہتا تھا، اس نے کچھ علماء تو اس طرح ٹھکانے لگادئے او ربقیہ کے اختیارات محضر نامہ کی روسے سلب کرلئے۔ حضرت امام ربّانی مجدّ والف ثانیؒ کے خیال میں جاہ طلب علماء بادشاہ کو گمراہی کے راستے پر ڈالنے کے ذمہ دار ہیں ۔آپ ایک مکتوب میں فرماتے ہیں:۔

والحق درین زمان ہر سستی و مداہنتی کہ درامور شرعیہ واقع شدہ است وہر فتوری کہ درترویج ملت ودین ظاہر گشتہ است ہمہ از شومئی علماء سُؤ ست وفساد نیات ایشان ۵۹؂۔

حق تویہ ہے کہ اس زمانے میں جتنی ڈھیل او رکمزوری فرعی  امور میں نظر آتی ہے او رجوفتور ترویج دین اور ملت کے معاملات میں نظر آتاہے یہ سب دنیادار علماء کی بدبختی او رنیت کی خرابی کاثمرہ ہے۔

ان کے یہودیوں جیسے حیلے او رطلب جاہ خود ان کے لئے اور ان کی وجہ سے اسلام کیلئے نقصان دہ ثابت ہوئے۔حضرت مجدوالف ثانیؒ انہیں نصوص دین کے لقب سے یاد کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:۔

معلوم شریف است کہ درقرن سابق ہرنسادیکہ پیدا شداز شومئی علماء سُؤ بظہور آمدہ۔علمائے سُؤ نصوص دین امذ ۔۔۔ مطلب ایشان حب جاہ دریاست ومنزلت نزدخلق است۶۰؂۔

آنجناب کو معلوم ہے کہ گذشتہ دور میں جتنے بھی فتنے پیدا ہوئے ہیں وہ دنیا دار علماء کی بدبختی کی بنا پر ظہور میں آئے ہیں۔ ان کا واحد مقصد طلب جاہ  وریاست او رعوام کی نظروں میں قدرومنزلت ہے۶۰؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۵۹؂۔ مکتوب بات امام ربّانی ،جلد اوّل ،مکتوب ۳۳،

۶۰؂۔ ایضاً

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ علمائے سُؤ کے اختلافات نے اُمت کو ایک مصیبت میں مبتلا کردیا ہے ۔آپ کے اصل الفاظ یہ ہیں:۔

‘‘درقرن سابق اختلاف علماء عالم رادربلاانداخت’’۶۱۔

بدایونی نے بھی اکبر کی بے راہ روی کی تمام ذمہ داری شیخ عبدالنی او رمخدوم الملک عبداللہ سلطانپوری کے سرڈالی ہے۔ اس کا کہنا ہے  کہ ان کے افعال وکردار سے متاثر ہوکر بادشاہ نے بے راہ روی اختیار کی ہے۶۲؂۔

حضرت مجدالف ثانیؒ کے مرشد زادے خواجہ عبیداللہ المعروف بخواجہ کلاںؒ رقمطراز ہیں کہ اسلام میں جتنے رخنے بھی پیدا ہوئے ہیں وہ دہریوں طبیعیوں ،اسماعیلیوں او رمباحیوں کے پیدا کردہ ہیں۶۳؂۔ ان فتنہ پردازوں کے نام گنواتے ہوئے خدا جانے وہ علمائے سُؤ کو کیوں فراموش کرگئے ہیں، ورنہ ان کا کارنامہ دہریوں ،طبیعیوں ،اسماعیلیوں او رمباحیوں سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۶۱؂۔ ایضاً ۔مکتوب ۵۳۔

۶۲؂۔ منتخب التواریخ ،جلد ۲ ،ص ۲۶۷۔‘‘ شیخ عبدالنبی ومخدوم الملک راکہ بایکدیگر درافتادہ باعث بی اعتقادی از سلف دخلف وموجب الخراف ازدین قویم شدہ بودند’’۔

۶۳؂۔ مبلغ الرجال ،ورق ۳۷ الف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Part: 1 – Muhammad Aslam's book on Akbar’s Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu: Part 1 on Appreciation and Foreword دین الہٰی اور اس کا پس منظر

Part: 2 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 2 on Opening Remarks آغاز سُخن

Part: 3 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 3 on The Early Religious Life of Akbar اکبر کی ابتدائی مذہبی زندگی

URL:  https://www.newageislam.com/books-documents/muhammad-aslam-akbar-deen-e-ilahi-urdu-part-4/d/131616

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..