New Age Islam
Sat Apr 19 2025, 11:08 AM

Books and Documents ( 27 Jan 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background: Part-2 on Opening Remarks آغاز سُخن

محمد اسلم

آغاز سُخن

شمس سراج عفیف کی روایت ہے کہ ایک روز سلطان فیروز تغلق کے محل کے قریب ایک مجذوب الحال درویش جمنا کے کنارے وضو کررہا تھا۔ جب وہ وضو سے فارغ ہوا تو اس نے شاہی محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔‘‘ تو جانتا ہے کہ اس محل کے اندر کون ہے؟ ’’ پھر اس نے خود ہی کہا کہ ‘‘ اس محل میں جو شخص مقیم ہے اس نے دنیا بھر کے فتنے اپنے پاؤں تلے دبا رکھے ہیں۔ جس دن وہ اس جہاں سے اٹھ جائے گا اس دن دنیا والوں کو اس کی قدر معلوم ہوگی’’۔۱؂ اس درویش کا اندازہ بالکل صحیح نکلا اور سلطان فیروز تغلق کے انتقال کے بعد مرکزی حکومت کو کبھی استحکام نصیب نہ ہوا۔ دس سال کے عرصہ میں سات بادشاہ یکے بعد دیگرے تخت نشین ہوئے ۔ 1398 ء میں تیمور کے حملہ سے جہاں خاندان تغلق کا خاتمہ ہوا، وہیں سلطان دہلی کا وقار بھی خاک میں مل گیا۔‘‘ خداوند عالم’’ کی حکومت دہلی کی فصیل کے اندر محدود ہوکر رہ گئی ۔فیروز شاہ کے ایک جانشین محمود کے متعلق یہ شعر آج تک مشہور چلا آیاہے۔

حکم خداوند عالم

از دہلی تا پالم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲؂ تاریخ فیروزشاہی، ص 382۔383

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیمور ہندوستان سے واپسی پر یہاں کی حکومت خضر خان کے حوالے کئے گئے خضر خان او را س کے جانشین انتیس برس تک ہندوستان پر برائے  نام حکومت کرتے رہے۔

سیدّوں کے دور حکومت میں مرکزی حکومت کی کمزوری سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے صوبائی حکومتیں بہت طاقتور ہوگئیں اور ہندوؤں کو بھی سر اٹھانے کا موقع مل گیا ۔ پنجاب میں کھوکھروں نے تباہی مچائی اور راجستھان میں ہندو گمنامی کے لحاف سے سرنکالنے لگے۔سید وں کی کمزوری سے فائدہ اٹھاکر بہلول لودھی دہلی کے تخت پر قابض ہوگیا اور اس کی کوششوں سے سلطنت کی سرحد پالم کی بجائے جونپور تک جاپہنچی۔بہلول کے انتقال کے بعد سلطان سکندر لودھی تخت نشین ہوا۔ او راس کے اٹھائیس سالہ دور حکومت میں مرکزی حکومت کو قدرے استحکام نصیب ہوا۔ دراصل اس کا عہد حکومت مسلمانوں کے لئے سنبھالے کا وقت تھا ۔ اس کی آنکھیں بند ہوتے ہی تمام فتنوں نے دوبارہ سر اُٹھالیا۔ اس کے جانشین ابراہیم کا نوسالہ دور حکومت پٹھانوں کی باہمی نزاع اور درباری سازشوں کی نذرہوا او روہ اپنی عاقبت نا اندیشی کے سبب بابر کے مقابلہ میں حکومت کی بازی ہا ر گیا۔

بابر کو صرف چار سال ہندوستان پر حکومت کرنے کاموقع ملا اور اس دوران بھی وہ لڑائیوں بھڑائیوں میں مصروف رہا اور انتظامی امور کی طرف توجہ نہ دے سکا۔ ہمایوں نظرتاً آرام طلب تھا، اس لئے اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پٹھان ہندوستان پر دوبارہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ شیر شاہ کو بھی بقول اس کے شام کے وقت حکومت ملی تھی۔ اس کے جانشینوں کے زمانے میں سوریوں کا دربار سازشوں کا مرکز رہا۔ ہمایوں اس صورت حال سے فائدہ اٹھاکر ہندوستان پر دوبارہ قابض ہوگیا۔ موت نے اسے مہلت نہ دی کہ وہ انتظامی امور کی طرف توجہ دے سکتا۔ جب اکبر تخت نشین ہوا اس وقت ہندوستان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا جن میں سے اکثر و بیشتر آپس میں برسرپیکار تھیں۔

اس لمبی چوڑی تمہید سے ہمارا مقصد قارئین کرام کو یہ ذہن نشین کراناہے کہ فیروز تغلق کی وفات سے لیکر اکبر کی تخت نشینی تک اندازاً ڈیڑھ سو سال کے عرصہ میں سوائے سکندر لودھی کے اٹھائیس سالہ دور حکومت کے ہندوستان میں کوئی مستحکم حکومت قائم نہ ہو سکی۔ ڈیڑھ سو سال کا یہ دور مسلمانوں کی اخلاقی پستی، روحانی تنزلی ،بے حسی، بے عمل زندگی او ربے رواداری کا دور ثابت ہوا۔ اس عرصہ میں نہ تو خواجہ معین الدین اجمیریؒ ، خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ ، بابا فریدالدین گنج شکرؒ ، سلطان المشائخ نظام الدین اولیاؒ، یا شیخ نصیرالدین چراغ د ہلیؒ کے پایہ کا کوئی صو فی ہندوستان میں پیدا ہوا جو عوام کی صحیح رہنمائی کرسکتااور نہ ہی مجدّدالف ثانیؒ یا شاہ ولی اللہؒ جیسا کوئی عالم پیدا ہوا جو اپنی قوت تحریر سے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرتا۔جو چند ایک صوفی اس دور میں پیدا ہوئے وہ عوام میں زیادہ مقبول نہیں ہوئے او رجو عالم پیدا ہوئے وہ علوم شریعت کی بجائے ہندوؤں کے علوم کی طرف زیادہ مائل رہے۔

اخلاقی انحطاط اور روحانی تنزل کے اس دور میں وحدت الوجود کانظریہ خانقاہوں سے نکل کر کوچہ بازار میں پھیل گیا او ریہی چیز بقول اقبال مسلمانوں کے لئے سِمّ قاتل ثابت ہوئی۔ اس نظریہ کے عام ہوتے ہی مسلمانوں میں بے راہروی ،بے عملی زندگی او ربے حسی کا آغاز ہوا اوریہی چیز انہیں قعرِ ذلت کی طرف لے گئی۔ وحدت الوجود کا نظریہ عام ہوتے ہی جہاں ملک کے کئی گوشوں سے اناالحق کی صدائیں سنائی دینے لگیں وہیں بعض صوفیوں کو ہر حجر وشجر میں ذات حق کا جلوہ نظر آنے لگا۔اس دور میں صحودتمکین کی جگہ سکر ومستی نے لے لی۔ ہر چھوٹے بڑے شہر اور قصبہ میں ننگ دھڑنگ مجذوب نظر آنے لگے۔ماہرین عمرانیات کا خیال ہے کہ کسی معاشرہ میں مجاذیب کی بھر مار اس کے غیر صحت مند ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس دور میں ان مجذوبوں نے ہندوستان کے معاشرہ میں بہت بڑا منفی کردار ادا کیا ہے، تاریخ شاہی، مخزن افغانی اور اخبار الاخیار کے اوراق اس پر گواہ ہیں کہ ان مجاذیب کی اکثریت عشق مجازی میں گرفتار تھی اور انہوں نے اس ملک میں تصوف کی فضا کو مکدّر کرکے مسلمانوں کو بے راہروی پر لگادیا۔

اس دور میں کوئی نامور عالم بھی پیدا نہیں ہوا، جو اس معاشرہ کی اصلاح کی طرف توجہ دیتا ۔ جن چند علماء کے نام ملتے ہیں ان میں سے ایک محمد جائسی، رزق اللہ مشتاقی، میاں طٓہ اور محمد غوث گوالیاریؒ علوم اسلامیہ کی بجائے ہندوؤں کے علوم کے زیادہ ماہر تسلیم کئے جاتے تھے۔ اس دو ر میں جو کتابیں تصنیف ہوئیں ان میں سے واقعات مشتاقی ، افسانہ شاہاں اور تاریخ داؤدی قابل ذکر ہیں۔ ان کتابوں کے اوراق ایک بگڑے ہوئے معاشرہ کے آئینہ دار ہیں او رانہیں دیکھ کر یوں معلوم ہوتاہے کہ اس مادہ پرستی اور قنوطیت کے دور میں مسلمان تو ہم پرست ہوگئے تھے او ران کا تکیہ عمل کے بجائے تعویذ گنڈوں پر تھا ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس دور میں تعویذ گنڈوں کے موضوع پر متعدد کتابیں معرض  تحریر میں آئیں۔

اس دور کی مادہ  پرستی اور قنوطیت نے مہدوی اور بھکتی تحریکوں کو جنم دیا جنہوں نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اگر ان تحریکوں کابغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بڑی آسانی سے ذہن نشین ہوجاتی ہے کہ یہ تحریکیں عوام کی مذہب سے دوری ، عملی زندگی سے لاپروائی اور مادہ پرستی کا ردّ عمل تھیں۔

ہندوؤں او رمسلمانوں کے باہمی اختلاط سے ایک نئے معاشرہ نے جنم لیا، جس میں برہمن قرآن حکیم اور اسرارِ توحید کا درس دینے لگے او رمسلمان ہندوؤں کے علوم کی تدریس میں مشغول ہوگئے۔ ہندو مسلم بھائی بھائی کے نظریہ کو بھی اس دور میں فروغ ہوا۔ اس نظریہ کے حامیوں نے اس بات کا بڑی شدومد کے ساتھ پرچار کیا کہ کفر واسلام ایک ہی دریا کے دودھارے ہیں ، جو آگے جاکر ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں۔ نوائیوں کی صدا اور لودھن کا نعرہ اسی نظریہ کی ترجمانی کرتے ہیں۔

اباحتی فرقہ کو بھی اسی دور میں عروج ہوا۔ ابا حتی ملک کے طول وعرض میں اپنے نظریات کا پرچار کرتے پھرتے تھے۔ گوسلطان فیروز تغلق نے اباحتی فرقہ کے متعدّد افراد کو مروا ڈالا تھا۔ اس کے باوجود اس فرقہ کے بقیۃ السیف پیروکار  اپنے نظریات کی ترویج واشاعت میں مصروف تھے۔

مسلمانوں کی کمزوری ، بے حسی، اخلاقی پستی او رمذہب سے دوری نے ہندوؤں کو بھی پرپرُزے نکالنے کا موقع مہیا کیا۔انہوں نے جہاں ایک طرف ہندودھرم کے احیاء پر زور دیا وہاں دوسری طرف شدھی اور سنگھٹن کی تحریکیں بھی چلائیں او رمسلمانوں کو باقاعدہ مرتد کرنا شروع کیا۔ اس عہد کی تاریخوں میں باقاعدہ ایسے واقعات کا ذکر آیا ہے۔ جن سے مسلمانوں کے ارتداد کی خبر ملتی ہے۔طبقات اکبری کے ایک اندراج سے یہ معلوم ہوتاہے کہ کالپی میں نصیر خاں نامی ایک عہدہ دار نے زندقہ والحاد کی راہ اختیار کرلی تھی۔ اسی طرح نظام الدین احمد کی ایک تحریر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لکھنوتی کا حاکم احمد خان کفار کی صحبت میں رہتے ہوئے مرتد ہوگیا تھا۔ افسانہ شاہاں کی روایت کے مطابق بہار کے ایک ہندو راجہ نے اپنے زیر اثر علاقہ میں عثمانی النسل مسلمانوں کو شدھ کرلیا تھا اور ان میں سے جنہوں نے اسلام ترک کرنے سے انکار کیا انہیں قتل کروادیا۔ چیتنیہ چرت امرتا کی روایت ہے کہ چیتنیہ نے بندر ابن میں ایک پیر کو شدھ کرکے اس کا نام رام داس رکھا اسی طرح اس کی کوشش سے بجلی خان نامی ایک پٹھان اپنے ساتھیوں سمیت شدھ ہوا۔ لطائف قدوسی کی ایک روایت سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اودھ کے مشہور قصبہ ردولی میں کفار کا عمل دخل ہوگیا تھا اور شیخ عبدالقدوس گنگوہی ؒ وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ رانا سانگا نے راجستھان میں مسلمانوں کا ناطقہ بند کردیا تھا۔ اس نے سلطان دہلی کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ناگور  اور اجمیر کی قدیم اسلامی بستیوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی او روہاں کی مسلم آبادی نے بھاگ کر احمد آباد میں پناہ لی۔ بدایونی کی روایت ہے کہ ہمیوں بقال نے اپنے دور اقتدار میں بہت سے اسلامی شعائر مٹادیئے تھے۔ ایک اور روایت کے مطابق ہمیوں بقال کی جنم بھومی ریواڑ ی میں سیدّوں کا ایک خاندان آباد تھا۔ انہوں نے اپنے ایک بچہ کی پیدائش پر عقیقہ کیا ۔شومئی قسمت سے کسی چیل یا کوّے نے ایک ہڈی اُٹھاکر ہمسایہ ہندو کے گھر میں پھینک دی۔ اتنی سی بات سے مشتعل ہوکر ہمیوں بقال نے سیدّوں کے پورے خاندان کو ذبح کر واڈالا ۔ ان امثال سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اکثر مقامات پراحیائے ہندودھرم اور شدھی کی تحریکیں جارحیت اختیار کرگئی تھیں اور مسلمان دارالاسلام میں رہتے ہوئے بھی ہندوؤں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہ تھے۔

اکبر کے تخت نشین ہوتے ہی ملک کو سیاسی استحکام نصیب ہوا لیکن مسلمان جوں کے توں اخلاقی پستی اور روحانی تنزلی کے گرداب میں پھنسے رہے۔ اکبر نے ‘‘آئین رہیمنونی’’۔ کا سہارا لے کر عوام کی پیشوائی کا دعویٰ کیا لیکن وہ روحانی پژشک ۲؂ بن کربھی ان کو روحانی سکون نہ دے سکا۔ عوام کو اخلاقی پستی اور روحانی تنزل کے گرداب سے نجات دلانا اکبر کے بس کا روگ نہ تھا، اس کام کے لئے حضرت امام ربّانی مجدّدالف ثانیؒ جیسے کسی ‘‘مردخود آگاہ’’ کی ضرورت تھی۔ اکبر نے مذہبی رہنما بننے کے لئے جو سوانگ بھرے تھے ان کی ایک جھلک آپ کو آئندہ صفحات پر نظر آئے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲؂ یہ اصلاح ابوالفضل کے ہاں عام ملتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Part: 1 - Muhammad Aslam's book on Akbar’s Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu: Part 1 on Appreciation and Foreword دین الہٰی اور اس کا پس منظر

URL: https://www.newageislam.com/books-documents/muhammad-aslam-akbar-deen-e-ilahi-urdu-part-2/d/131595

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..