New Age Islam
Sat Apr 19 2025, 10:53 AM

Books and Documents ( 29 Jan 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background: Part 3 on The Early Religious Life of Akbar اکبر کی ابتدائی مذہبی زندگی

محمد اسلم

اکبر کی ابتدائی مذہبی زندگی

اکبر علماء ومشائخ کی صحبت میں رہ کر اپنے ابتدائی دور حکومت میں ایک راسخ العقیدہ مسلمان بن گیا تھا، ان ایّام میں مذہبی رواداری کا تو ذکر ہی کیا، اس کا مذہبی تعصب اس انتہا کو پہنچ چکا تھا کہ جب 977 ہجری میں مرزا مقیم اصفہانی حسین شاہ چک وائی کشمیر کے سفیر میر یعقوب بن بابا علی کو لیکر اس کے دربار میں حاضر ہوا تو اکبر نے علماء سے فتویٰ لے کر ان کو شیعہ ہونے کے جرم میں قتل کروادیا۱؂۔مشہور شیعی عالم میر مرتضیٰ شریفی شیرازی کا 974 ہجری میں انتقال ہوا تو ان کے معتقدین نے انہیں امیر خسروؒ کے پہلو میں دفن کردیا۔ سنیوں کو اس بات کا بے حد رنج ہوا اور ان کی طرف سے ‘‘صدر وقاضی وشیخ الاسلام معرض رسانیدندکر میر خسرو وہندیست وسنی ومیر مرتضیٰ عراقسیت ورافضی درین کہ میر خسرو از صحبتش متازی خواہد بود ہیج شکے نیست۔

روح راصحبت ناجنس عذا بے است الیم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ ۔تاریخ محمدی ، ورق 88 ب۔‘‘ بسبب رفض بفرمان اکبر بادشاہ کشۃ شد’’۔ ii۔منتخب التواریخ ،جلد 2 ص 124۔ ‘‘این ہردوشخص رابفتویٰ شیخ عبدالنبی ودیگر علماء کہ عیال اوبودنددرمیان فتح پور بجزای اعمال شوم رسانیدند۔’’

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکبر نے ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے حکم دیا کہ میر مرتضیٰ کے جسد کو وہاں سے نکال کر کسی دوسری جگہ دفن کیا جائے۲؂۔

اکبر کے مصاحب علماء بھی اسی کی طرح متعصب سُنّی واقع ہوئے تھے۔مخدوم الملک مولانا عبداللہ سلطان پوری مہدویوں کو درّے لگواکر مروا دیا کرتے تھے۔ اکبر کے صدر الصدورشیخ عبدالنبی بھی شیعوں کے معاملے میں بڑے متعصب واقع ہوئے تھے ،انہوں نے میر حبش کو ‘‘رقص’’ اور خضر خان سروانی کو سب نبی  (نبی علیہ السلام کی توہین )کے جرم میں مرواڈالا تھا۳؂۔

(اکبر کو اولیائے کرام کے ساتھ جو عقیدت تھی وہ اسے اپنی والدہ کی جانب سے ورثے میں ملی تھی۔ اس کی والدہ حمیدہ بانو بیگم مشہور صوفی اور شاعر شیخ احمد جامؒ ژندہ پیل کی اولاد سے تھی۔) یہ شیخ احمد جامؒ وہی بزرگ ہیں جن کا یہ شعر:۔

گشتگان خنجر تسلیم را، ہرزمان ازغیب جانے دیگر است

محفل سماع میں سن کرخواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی تھی ۔ ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں (کہ اکبر کی سرشت میں بزرگوں کے لئے عقیدت کے جذبات موجود تھے ۔کئی بار وہ پاک پٹن  میں حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ کے مزار پرُانوار پر خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے حاضر ہوا۴؂ ۔ دہلی میں سلطان المشائخ ؒ کے مزار پر بھی وہ اکثر فاتحہ خوانی کے لئے جایا کرتا تھا۵؂۔ اجمیر میں خواجہ معین الدین حسن سنجریؒ کے روضہ مطہرہ پر سالانہ حاضری تو اس کا معمول بن چکی تھی۔ اکثر ایسا بھی ہوا کہ وہ خواجہ بزرگ سے اظہار عقیدت کی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂۔ ایضاً ، ص 99       ۳؂۔ ایضاً ،ص 255

۴؂۔ روضۃ الطاہرین ، ورق 541ب          ۵؂۔ اکبردی گریٹ مغل، ص 47

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خاطر اجمیر تک پاپیادہ گیا۶؂ ۔ جب 982 ہجری میں بنگال کے حاکم داؤد کو شکست ہوئی تو اکبر نے مال غنیمت میں سے اس کے نقارے خواجہ صاحب کے روح پر نذر کیے۷؂۔ اس کے قیام اجمیر کے دوران خانقاہ معینیہ میں بلاناغہ محفل سمع منعقد ہوتی جس میں بادشاہ علماء ومشائخ کی معیت میں شرکت کرتا۸؂۔ جب زمان نے 1565ء میں اس کے خلاف بغاوت کی تو اس کے مقابلہ پر نکلنے سے پہلے اکبر دہلی کے تمام اولیائے اللہ کے مزارات پر بغرض دُعاخاضر ہوا۹؂۔ بدایونی رقمطراز ہے کہ سلیم کی ولادت کے بعد اکبر بزرگان دہلی کے مزارات پرفاتحہ خوانی کیلئے گیا تھا۱۰؂۔

( شرف الدین حسین کی بغاوت کے دوران ایک روز اکبر سیر کرتے ہوئے ماہم آنگہ کے تعمیر کردہ مدرسہ خیر المنازل کے پاس سے گذرا تو شرف الدین حسنی ایک ایجنٹ فولاد نامی نے مدرسہ کی چھت سے اکبر پر ایک تیر چلایا۔ اکبر کو زخم آیا تو چند روز کی مرہم پٹی سے درست ہوگیا۔ اس اچانک حملہ سے بچ گئے۔اس واقعہ  کو  اکبر کرامات پیران حضرت دہلی سے تعبیر کیا کرتا تھا۱۱؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۶؂۔ منتخب التواریخ ، جلد ۲، ص۱۲۴۔‘‘ آزادنگر پیادہ بجانب اجمیر روان شدند’’۔

۷؂۔ ایضا، ص

۸؂۔ ایضاً۔ ‘‘ہرروز بد ستور معہوددران روضہ مقدسہ شبہا صحبت با اہل اللہ و علماء وصلحاء داشتہ سماع وصفا منعقدمی شود۔’’

۹؂۔ منتخب التواریخ ،جلد۲، ۲۵۲۔

۱۰؂۔ ایضاً ،ص ۱۲۴

۱۱؂۔ ایضاً، ص ۶۲۔‘‘ این معنی را از تنبیہات غیبی وکرامات پیران حضرت دانستہ‘‘۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکبر جب کبھی بزرگان دہلی کے مزارات کی زیارت کے لئے جاتا تو وہ والد کے مقبرہ پر بھی فاتحہ خوانی کے لئے ضرور جاتا۔) اس مقبرہ میں سینکڑوں کی تعداد میں درویش اور حفاظ مقیم تھے جن کے خوردونوش کا انتظام سرکار کی طرف سے ہوتا تھا۔ ایک بار اکبر دہلی میں مقیم تھا کہ حسین خان اس سے معافی طلب کرنے آیا۔ اکبر نے اس کی درخواست کی طرف کوئی توجہ نہ دی او رشہبازخان کو حکم دیا کہ حسین خان تمام مال و متاع پر قبضہ کرکے اسے مقبرہ ہمایوں میں مقیم فقراء اور مستحقین میں تقسیم کردو۱۲؂۔

اس کے عہد میں شیخ نظام نارنوکیؒ ابھی حیات تھے او ران کے زہدواتقا کاشہرہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ ایک بار اکبر بھی اجمیر جاتے ہوئے ان کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۱۳؂۔ 980ہجری میں اکبر اجمیر میں سید حسین خنگ سوار کے مزار پر فاتحہ خوانی کرتاہوا نظر آتا ہے۱۴؂۔ اس واقعہ کے چند سال بعد ہم اسے بانسی میں حضرت قطب جمالؒ کے مزار پر جبین نیاز جھکائے ہوئے دیکھتے ہیں۱۵؂۔ یہ صوفیائے کرام کے ساتھ عقیدت کا ہی نتیجہ تھاکہ اس نے فتح پور سیکری میں حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کے قرب میں نیا دارالحکومت تعمیر کیا۔

(شیخ سلیم چشتیؒ کے ساتھ اکبر کو جو عقیدت تھی وہ محتاج بیان نہیں ، شیخ موصوف کا روضہ جو اکبر نے تعمیر کروایا ہے وہ فن تعمیر کا شاہکار ہونے کے علاوہ شیخ موصوف سے اس کی عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شیخ ہی کی دعا ہے اللہ تبارک تعالیٰ نے اسے فرزند عطا فرمایا تھا جس کا نام شیخ کے نام کی مناسبت سے سلیم رکھا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۲؂۔ ایضاً،ص ۱۸۴۔‘‘ ہرچہ از فیل وبشترواسپ وسایر اسباب سپاہ گری داشت ہمہ بطالبان و مستحقان ومعتکفان روضہ ، پادشاہ غفران پناہ واہل مدارس وخوانق بخشید’’۔

۱۳؂۔ i۔ ایضاً ، ص ۱۵۲۔         ii ۔ اکبرنامہ ، جلد ۳، ص ۲۲۷

۱۴؂۔ ایضاً،ص ۳۷۱   ۱۵؂۔ ایضاً ،ص ۲۳۲

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدایونی رقمطراز ہے کہ اکبر نے سلیم کی ولادت سے قبل رانی جودھا بائی کو شیخ کے گھر بھیج دیا تھا تاکہ ان کی توجہ اور دعا رانی کے شامل حال رہے۱۶؂۔ اسی طرح شہزادہ مُراد کی ولادت بھی شیخ ہی کے گھر میں ہوئی تھی۱۷؂۔ شہزادہ دانیال کی ولادت سے قبل اکبر نے اس کی والدہ کو اجمیر میں خواجہ اجمیریؒ کے روضہ مطہرہ کے سجادہ نشین شیخ دانیال کے گھر بھیج دیا تھا۔ اکبر نے نومولود فرزند کا نام شیخ دانیال کے نام کی مناسبت سے دانیال رکھا ۱۸؂۔

جب شہزادہ سلیم نے ذرا ہوش سنبھالا تو اکبر نے اس عہد کے مشہور محدّث مولانا میر کلاں بروی سے درخواست کی کہ وہ شہزادہ کی رسم بسم اللہ اداکریں ۔انہوں نے شہزادہ کو بادشاہ اور عمائدین سلطنت کی موجودگی میں بسم اللہ الرحمن الرحیم، الرحمن علم القرآن ، پڑھایا۱۹؂۔ اس رسم کی ادائیگی کے بعد شہزادہ کی تعلیم و تربیت قدوۃ المحدثین میرک شاہ بن میر جمال الدین محدث کے سُپرد کی گئی۲۰؂۔ جب شہزادہ اچھی طرح لکھنے پڑھنے کے قابل ہوگیا تو اکبر نے اسے حکم دیا کہ وہ شیخ عبدالنبی کے گھر جاکر ان سے حدیث کی تعلیم حاصل کرے۲۱؂۔بادشاہ کو شیخ عبدالنبی کے ساتھ جو عقیدت تھی وہ محتاج بیان نہیں، وہ اکثر ان کے گھر جاکر درس حدیث میں شرکت کیا کرتا تھا۲۲؂۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۶؂۔ منتخب التواریخ ، جلد،۲ ص ۱۰۸         ۱۷؂۔ ایضاً ،ص ۱۲۳۔‘‘ طلوع کو کب سعادت واقبال شاہزادہ مراد ورمنزل شیخ سلیم دست داد’’۔        ۱۸؂۔ اکبر نامہ ، جلد ۲،ص ۳۷۳۔         ۱۹؂۔ منتخب التواریخ جلد ۲ میں ۱۷۰           ۲۰؂۔ ایضاً ۲۱؂۔ ایضاً ۔ص ۲۰۴۔‘‘ شہزادہ بزرگ رادرحجرہ تعلیم اونہادند تاسبق چہل حدیث مولوی مخدومی مولانا عبدالرحمن جامی قدس سرما لعریز میگفت

۲۲؂۔ ایضاً۔ ‘‘بادشاہ از تعظیم واحترام گاہ گاہی بجہت استماع علم حدیث بخانہ شیخ میر فتندویک دومرتبہ کفش پائی ادھم راندند۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان مثال سے یوں معلوم ہوتاہے کہ وہ اہل علم کے گھر جاکر ان کی جوتیاں سیدھی کرنے کواپنے لئے باعث سعادت سمجھتا تھا۔

(بدایونی کا بیان ہے کہ ایک بار میں سفر سے واپسی پر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو بادشاہ نے اثنائے گفتگو مجھ سے پوچھا کہ شیخ عبدالنبی سے بھی ملے ہویا نہیں میں نے کہاسیدھا آپ ہی کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ۔ یہ سن کر بادشاہ نے کہا جاؤ ان سے بھی مل لو اور وہاں یہ دوشالہ میری طرف سے ان کی خدمت میں پیش کرکے کہنا کہ یہ آپ ہی کے لئے شاہی کا رخانہ میں بنوایا ہے۲۳؂۔)

( ایک بار امرا ، علما ء ومشائخ اکبر کو اس کی سالگرہ پر مبارک باد دینے آئے۔ وہ اس وقت زعفرانی رنگ کا لباس زیب تن کئے ہوئے تھا۔ شیخ عبدالنبی نے اس لباس پر اعتراض کیا او راسے دوسرا لباس پہننے کی تاکید کی۔ شیخ نے شدت تاکید کو اس جوش سے ظاہر کیا کہ ان کے عصا کا سرابادشاہ کے جامہ کو جالگا ۔بادشاہ اس وقت تو خاموش رہا لیکن واپسی پر حرم میں اپنی والدہ سے شیخ کی شکایت کی۔ اس کی والدہ نے کہا کہ بیٹا تم اس بات پر ناراض نہ ہونا کیونکہ یہ بات کتابوں میں لکھی جائے گی کہ ایک پیر مفلوک نے ایسے بادشاہ عالی جاہ کو عصا مارا او روہ محض شرع کے ادب سے خاموش رہا۲۴؂۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۳؂۔ ایضاً ،ص ۲۳۷۔‘‘ دوشالہ نخودی اعلیٰ داد مذکہ انیہار ابردہ شیخ راببین وبگولہ از کارخانہ خاصہ است کہ بہ نیت شمامرنایش کردہ بودیم۔

۲۴؂۔ مآثر الامراء ،جلد ۲،ص ۵۶۱

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت محمد غوث گوالیاریؒ کا شمار ہندوستان کے گنے چنے اولیائے اللہ میں ہوتا ہے۔بابر نے بھی اپنی نزک میں ان کا ذکر خیر کیا ہے۲۵؂۔ ہمایوں کو ان سے اور ان کے بھائی شیخ بہلول سے بڑی عقیدت تھی۲۶؂۔ شیرشاہ سوری اپنے عہد حکومت میں اسی بنا پر ان کے درپے آزاد ہوا تو آپ گوالیار سے ترک سکونت کرکے گجرات تشریف لے گئے جہاں خواص و عام نے آپ کی تکریم کی اور ہاتھوں ہاتھ لیا۔ جب پندرہ سال کی جلاوطنی کے بعد ہمایوں دوبارہ ہندوستان آیا تو آپ بھی اپنے خلفا اورمریدن کے ساتھ گوالیار تشریف لے آئے۔ ہمایوں چونکہ آپ کا دل وجان سے معتقد تھا اس لئے اکبر کو بھی ان سے عقیدت پیدا ہوگئی تھی۲۷؂۔ اکبر نے ان کے گذارہ کے لئے ایک کروڑ (دام) سالانہ آمدنی کی جاگیر مخصوص کردی تھی ۲۸؂۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے فرزند شیخ ضیاء اللہ کے ساتھ بھی اکبر کے تعلقات قائم رہے ۔جب وہ فتح پور سیکری تشریف لائے تو اکبر نے عبادت خانہ میں ان کے بیٹھنے کے لئے ایک نشست مخصوص کردی ۲۹؂۔

اکبر کے آباؤ اجداد کو نقشبندیہ سلسلہ کے گل سر سید خواجہ ناصرالدین عبیداحراریؒ کے ساتھ ایک گونا عقیدت تھی۔ امین احمد رازی لکھتا ہے کہ ترکستان ،فرغانہ ماورا النہر اور خراسان کے باشندے ان کے دل وجان کے ساتھ معتقد تھے اور ‘‘سلاطین ز مان وخراقین نافذ الفرمان‘‘ ان سے نسبت ارادت رکھتے تھے۳۰؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۵؂۔ تزک بابری ،ص ۲۰۲

۲۶؂۔ i۔ منتخب التواریخ ، جلد ۳،ص۴۔ii۔ جلد اوّل ۔ص ۔۳۵۰۔‘‘ بادشاہ نسبت باواعتقاد واخلاص داشتند’’۔ iii ۔ مخزن افغانی،ورق ۱۱۳ب۔‘‘ عقیدہ ہمایوں بادشاہ شیخ بہلول بے حد بود ۔’’

۲۷؂۔ منتخب التواریخ ، جلد۲ ،ص ۳۴۔‘‘ شاہنشاہی باعتقاددرست اور ادیدند

۲۸؂۔ ایضاً ،ص ۲۵

۲۹؂۔ ایضاً ،ص ۲۰۲

۳۰؂۔ ہفت اقلیم ، ورق ۵۳۱

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 میر زاحید ر دوغلات کا بیان ہے کہ بادشاہ اور خواتین ان کے سامنے نوکروں کی طرح کام کرتے تھے۔ ایک بار ان کی محفل میں سلطان محمود خان بیٹھا ہوا تھا کہ آتشدان سے کچھ چنگاریاں اُڑکرچٹائی پر پڑیں او ر چٹائی نے آگ پکڑلی۔ محمود خان فوراً اپنی جگہ سے اُٹھا او رباہر سے اپنے دامن میں مٹی ڈال کر لایا او راپنے ہاتھوں سے آگ بجھائی۳۱؂۔

بابر کا نانایونس خان آخر ی عمر میں تائب ہوکر ان کا مُرید ہوگیا تھا۳۳؂۔ امین احمد رازی کا بیان ہے کہ بابر کا دادا سلطان ابوسعید پاپیادہ ان کی خدمت میں جایا کرتا تھا اور ان کے مشورے کے بغیر وہ کوئی کام نہ کرتاتھا۳۴؂۔ خواجہ صاحب کا جاہ وجلال بادشاہوں سے بڑھا ہوا تھا او رماورأ النہر کے سلاطین کو ان کے حضور میں دم مارنے کی جرأت نہیں تھی، بابر اپنے تایا سلطان احمد میرزا کے بارے میں لکھتا ہے۳۵؂۔

بحضرت خواجہ عبیداللہؒ اراوت تمام داشت۔ حضرت خواجہ مقوی ومربی اوبود۔ علیٰ الخصوص درصحبت خواجہ چنانچہ میگویند کہ درمجلس خواجہ تا آن زمانے کہ می نشستہ ازین زانوبزا انوردیگر نمی گشت ۔ ایک مرتبہ خلاف عادت ورصحبت خواجہ ازین زانوبزانوی دیگر تکیہ کردہ بود بعدازبر خاستن میر زا خواجہ۔فرموندکہ درجائے کہ میرزا تشستہ بودند ملاحظہ نمایند ظاہر استخوانی آنجابود۔

(وہ حضرت خواجہ عبیداللہ سے بڑی عقیدت رکھتا تھا اور حضرت خواجہ بھی اس کے مددگار اور سرپرست تھے۔میرزا ان کا بڑا ادب کیا کرتاتھا ۔ لوگوں کاکہنا ہے کہ خصوصاً جب وہ خواجہ صاحب کے حضور میں بیٹھتا تو اپنا زانوبھی نہ بدلتا تھا۔ ایک بار اس نے خلاف عادت خواجہ کے حضور میں اپنا زانوبدلا ، تو جب وہ اٹھ کر گیا تو خواجہ صاحب نے حکم دیا کہ جہاں میر زا بیٹھا تھا اس جگہ کا معائنہ کیا جائے۔ دیکھا تو وہاں ایک ہڈی پڑی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۳۱؂۔ تاریخ رشیدی ،ورق۱۰۱

۳۲؂۔ ایضاً ۔ورق۱۳۳۔‘‘ ربقہ رادت خودرا اور سلک خدام آستانہ ملایک آنحضرت منسلک گرد ا نیدہ بود ’’۔

۳۴؂۔ ہفت اقلیم ، ورق ۵۳۱

۳۵؂۔ تزک بابری۔ص ۱۳

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بابر کے والد عمر شیخ میرزا کو بھی خواجہ صاحب کے ساتھ بے حد عقیدت تھی۔ بابراپنی تزک میں میرزا کے متعلق کہتا ہے۔۳۶؂۔

بحضرت خواجہ عبیداللہ احرارؒ ارادت دافنت وبصحبت ایشان بسیار مشرت شدہ بود وحضرت خواجہ ہم فرزند گفتہ بووند۔

( وہ حضرت خواجہ عبیداللہ احرارؒ سے عقیدت رکھتاتھا او ران کی صحبت سے بھی کافی مشرف ہوا تھا ۔حضرت خواجہ بھی اسے بیٹا کر کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے۔)

جب بابر کے پیدا ہونے کی خوشخبری عمر شیخ میرزا کو سنائی گئی تو اتفاق سے وہ اس وقت خواجہ صاحب کی خدمت میں حاضر تھا۔ اس نے فی الفور آپ سے درخواست کی کہ نومولود کیلئے کوئی نام تجویز فرمائیں۔ میرزا کی درخواست پر آپ نے نومولود کا نام ظہیرالدین محمد تجویز کیا۳۷؂۔ بابر کے عقیقہ کی تقریب میں خواجہ صاحب نے میرزا کی دعوت پر شرکت فرمائی۔۳۸؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۳۶؂۔ ایضاً ،ص ۶۔

۳۷؂۔ i۔ اکبر نامہ، جلداول ،ص ۸۷۔‘‘ قدرۃ اولیامی کبارناصرالدین خواجہ احرار بزبان فیض آثار خود اسم گرامی این مسعود طالع بظہیر الدین محمد تسمیہ نمودند۔’’ ii۔ مراۃ ارداست ورق ۲۸الف۔iii۔ مراۃ جہاں نما۔ورق۱۰۶۔iv۔ مرأت العالم ورق ۲۹۸الف ۔’’ قدومی اولیای کبارناصرالدین خواجہ احرارؒ آن نورحدیقیہ سلطنت رابظہیرالدین محمد مسمیٰ ساخت۔’’

۳۸؂۔ اسے ہسٹری آف پرشین لینگویج اینڈ لٹریچرایٹ دی مغل کورٹ، جلد اوّل ،ص ۷

--------------------

بابر کی تزک اس بات کی شاہد ہے کہ بابر کوبھی خواجہ صاحب سے ایک گوناں عقیدت تھی۔ جہاں کہیں تزک میں ان کا ذکر آیا ہے بابر کا قلم عقیدت کے پھول نچھاور کرتاہے۔ خواجہ صاحب سے تعلق خاطر کی بنا پر بابر کو سلسلہ نقشبندیہ کے مشائخ کے ساتھ غیر معمولی عقیدت پیدا ہوگئی تھی۔ اسی جذبہ عقیدت کے تحت بابر نے اپنی بیٹی گلرخ بیگم کی شادی خواجہ زادہ نورالدین محمد سے کردی تھی یہ بزرگ سالار قافلہ نقشبندان ،خواجہ بہاالدین ؒ تقشبند کے خلاف میں سے تھے۳۹؂۔ اس قرِان السعدین کے نتیجہ میں سلیمہ سلطان پیدا ہوئی جس کا نکاح بیرم خان سے ہوا تھا۔ بیرم خان کے انتقال کے بعد، خواجگان نقشبندیہ سے نسبت پیدا کرنے کی نیت سے ،اکبر نے سلیمہ سلطان سے عقد کرلیا۔

اکبر کی ایک بہن سکینہ بانو بیگم کی شادی بھی نقشبندیہ خاندان کے ایک بزرگ خواجہ حسن نقشبندی سے ہوئی تھی۴۰؂۔اکبر کی ایک دوسری بہن بخشی بیگم کا عقد نکاح خواجہ شرف الدین حسین کے ساتھ ہوا تھا ،یہ بزرگ خواجہ ناصرالدین عبیداحراریؒ کے فرزند خواجہ یحییٰ کے پڑپوتے تھے۴۱؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۳۹؂۔ i۔ تزک جہانگیری،ص ۱۱۳ ii ۔مآثر جہانگیری ،ورق ۷۲الف

iii ۔مرا؁ت العالم ،ورق ۳۲۸   iv۔تاریخ محمدی ،ورق ۱۴۰

۴۰؂۔ i۔ تاریخ محمدی ،ورق۱۳۴۔ii۔ دربار اکبری ،ص ۸۲۶۔iii۔ تزک جہانگیری ۔ص ۶ جہانگیر نے اس کا نام سکینہ بانو کی بجائے نجیب النسا بیگم تحریر کیا ہے۔ محمد بن رستم تاریخ محمدی میں ایک او رموقع پر اس کا نام بخت النساء بیگم لکھا ہے جو کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔ (ورق ۱۳۷) ان بیانات کو مدّنظر رکھ کر اس نتیجہ پر پہنچا شکل نہیں کہ اس کا نام سکینہ بانو بیگم او رلقب نجیب النساء بیگم ہوگا۔

۴۱؂۔ دربار اکبری ،ص ۷۴۷۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ایک بار خواجہ شرف الدین حسین کے والد خواجہ معین الدین ہندوستان تشریف لائے تو اکبر نے بڑے احترام کے ساتھ ان کااستقبال کیا اور ان کی عزت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۴۲؂۔ اسی طرح ایک بار خواجہ ناصرالدین عبیداحراریؒ کے ا خلاف میں سے خواجہ یحییٰ ہندوستان تشریف لائے تو اکبر نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا او ران کے اخراجات کے لئے ایک جاگیر پیش کی۔ کچھ عرصہ بعد اکبر نے انہیں  امیر حاج بنا کر مکہ مکّرمہ روانہ کیا اور سفر حج سے واپسی پر انہیں مستقل طور پر آگرہ میں ہی ٹھہرایا۴۳؂۔ اسی طرح جب خواجہ بزرگ کے اخلاف میں سے خواجہ عبدالشہید ہندوستان تشریف لائے تواکبر نے ان کا احترام بھی دل وجان سے کیا۴۴؂۔

ان امثال سے یہ نتیجہ اخذ کرنا چنداں دشوار نہیں کہ اکبر کے آباواجداد او رخود اکبر کی سرشت میں بزرگوں کے لئے عقیدت کے جذبات بدرجہ اتم موجود تھے۔

مخدوم الملک مولانا عبداللہ سلطان پوری اس عہدے کے ایک جید عالم تھے ۴۵؂۔اور شیر شاہ سوری نے اپنے عہد حکومت میں ان کی علمیت سے متاثر ہوکر انہیں صدر اسلام کا خطاب دیا تھا۴۶؂۔ شیر شاہ کابیٹا سلیم شاہ ان کا دل وجان سے احترام کرتا او رانہیں اپنے ساتھ تخت پر بٹھا کرتا تھا۴۷؂۔ ہمایوں نے جب دوبارہ دہلی پر قبضہ کیا تو انہیں شیخ الاسلام کا خطاب مرحمت کیا۔ بیرم خان نے اکبر کے ابتدائی دور حکومت میں ان کا ایک لاکھ روپیہ سالانہ وظیفہ مقرر کیا۴۸؂۔ بیرم خان کی معزول کے بعد بھی اکبر نے انہیں ان کے منصب پر برقرار رکھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۴۲؂۔ تاریخ الفی ، ورق ۴۶۲الف ۴۳؂۔ منتخب التواریخ ، جلد ۳،ص ۱۰۰

۴۴؂۔ ایضاً ،جلد۲، ص ۱۷۱۔‘‘ درمراسم تعظیم ذلکریم دلوازم اکرام واحترام فرد گذاشتی واقع نشد’’۔

۴۵؂۔ تذکرۃ الامرأ ورق ۱۱۲الف            ۴۶؂۔ مآثر الامرأ ، جلد ۳ ، ص ۲۵۲

۴۷؂۔ شعرا لعجم ،جلد ۳، ص ۴۰۔ ۴۸؂۔ ایضاً۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مخدوم الملک بڑے راسخ العقیدہ بزرگ تھے اور شیخ الاسلام کی حیثیت سے وہ ہمیشہ رفع بدعت اور ترویج شریعت کے لئے کوشاں رہتے تھے ۴۶؂۔ جس کسی کے متعلق یہ سنتے کہ وہ شریعت کااحترام  نہیں کرتا یا وہ کسی دوسرے فرقے سے تعلق رکھتا ہے تو اسے فوراً جواب طلبی کے لئے دارالحکومت بلالیتے ،بڑے بڑے ذی شان مشائخ بھی ان کے احتساب سے نہ بچ سکتے تھے ایک بار انہیں یہ خبر ملی کہ شیخ داؤد کرمانی شیر گڑھیؒ کی خانقاہ میں ان کے مرید ‘‘یاداؤد ،یاداؤد’’ کا ورد کرتے ہیں تو انہوں نے شیخ موصوف کو جواب طلبی کے لئے دارالحکومت طلب کرلیا۔ عندالملاقات مخدوم الملک نے ان سے کہا کہ میں نے سنا ہے تمہارے مرید ذکر کرتے وقت یا داؤد یا داؤد کہتے ہیں۔ شیخ نے جواب دیا کہ مخبر کو سننے میں شبہ ہو ا ہوگا وہ یاودود کہتے ہوں گے۵۰؂۔

شیخ طاہر فوبہرہ پٹیؒ اس عہد کے بڑے نامور محدث تھے او رمخدوم الملک کی طرح وہ بھی رفع بدعت اور ترویج شریعت کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ جب ان کی قوم نے مہدوی فرقہ کے عقائد اپنائے تو شیخ طاہر نے اپنے سر سے دستار اتار لی اور عہد کیا کہ جب تک وہ ان کو راہ راست پر نہیں لے آتے اس وقت تک وہ اپنے سرپردستار نہیں باندھیں گے۔ جب 980ہجری میں اکبر نے گجرات فتح کیا تو ان کی خدمت میں بھی حاضر ہوا ۔ اس موقع پر اکبر نے ‘۔‘ نصرت دین متین بروفق ارادہ شمابرذمہ معدخت من لازم است ’’۔ کہتے ہوئے ان کے سرپر ہاتھوں سے دستار باندھی۵۱؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۴۶؂۔ i۔ منتخب التواریخ ،جلد ،ص۷۰۔ ii۔ تذکرہ علمائے ہند، ص ۱۰۳۔ ۵۰؂۔ دربار اکبری ،ص ۳۸۶۔

ماثر الکرام ، جلد ۲، ص ۱۹۵۔ ii۔ البجدالعلوم ،ص ۸۹۶۔نواب صدیق حسن خانؒ کے الفاظ ہیں۔‘‘ وعزم علی کسرالبوھیرالمھدویہ الذین کانواتومہ وعھد ان کا یرتبط العمامۃ علیٰ راستہ حتی ببریل تلک البد عۃ فلما استربی السطان اکبروالی دھلی فی سنۃ ۹۸۰ علیٰ گجرات واجتمع بالشیخ ربط العمامۃ بیدہ علیٰ راس الشیخ تقال اعلی ذمہ معد لتی نصرۃ الدین وکسر الفرقہ المتبدعین‘‘۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سے یہ مترشح ہوتاہے کہ اکبر نصرت دین متین اور رفع بدعت کو حاکم وقت کا فریضہ سمجھتاتھا یہی وجہ تھی کہ اس نے شیخ سے یہ کہہ دیا تھا کہ آپ بلا وجہ غمگین نہ ہوں، دین کا غم کھانے کے لئے میں جو موجود ہوں۔

( اکبر کے عہد میں گجرات (پنجاب ) میں ایک بڑے اونچے پایہ کے صوفی مقیم تھے جن کا نام نامی شیخ سریؒ تھا ۔جب اکبر نے کشمیر پر لشکر کشی کی تو ان کی خدمت میں بغرض دعا حاضر ہوا ۔فتح کشمیر کے بعد اکبر نے انہیں پندرہ سو بیگہ زمین بطور نذرانہ پیش کی۔اکبر کاجاری کردہ فرمان آج بھی گجرات میں محفوظ ہے او راس کا عکس میرے فاضل دوست پروفیسر احمد حسین احمد صاحب کے پاس موجود ہے۔)

سید محمد میر عدلؒ کا بھی اکبر پر کافی اثر تھا۔ عبدالقادر بدایونی رقمطراز ہے کہ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں بادشاہ کی بھی پروا ہ  نہ کرتاتھا۔ اس کے احتساب سے عوام تو عوام خود اکبر بھی ہراساں رہتا تھا ۵۲؂۔ایک بار اس کی موجودگی میں جب حاجی ابراہیم سرہندی نے یہ فتویٰ دیا کہ مردوں کی سُرخ رنگ کا لباس پہننا جائز ہے تو میر عدل نے بادشاہ کے حضور میں حاجی کو بُرا بھلا کہا اور عصا لیکر اسے مارنے پر آمادہ ہوگیا۵۳؂۔ جب اکبر راہ راست سے بھٹکااو راس نے علماء کو حکم دیا کہ وہ جواز متعہ پر مزید تحقیق کریں تو اس نے میر عدل کو مصلحتاً آگرہ سے بھکر تبدیل کردیا۵۴؂۔

اکبر علماء  مشائخ کا اس حد تک قدردان تھا کہ ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ علماء نے کسی کی سفارش کی او روہ اس نے رد کردی ہو۵۵؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۵۲؂۔ منتخب التواریخ ،جلد ۲،ص۲۱۰ ۵۳؂۔ ایضاً ص ۲۱۰۔۲۱۱۔‘‘ میر عدل ور مجلس پادشاہی اورا بدبخت العون گفتہ ودشنامہاد ادہ عصابر ای زدن برداشت تا بحیلہ خلاص یافت۔’’ ۵۴؂۔ ایضاً ص ۱۰۶

۵۵؂۔ بعدالشہید نے شرف الدین حسین کی رہائی کی دوبار سفارش فرمائی ،لیکن شرف الدین حسین کا جرم اتنا سنگین تھاکہ اکبر ان کی سفارش کو شرف قبولیت نہ بخشا ، ویسے خواجہ موصوف کے احترام میں کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہیں کیا گیا۔ منتخب التواریخ ،جلد ۲ ،ص ۱۷۱، ۱۸۴

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ان کی سفارش کو ہمیشہ شرف قبولیت بخشا تھا۔گذشتہ صفحات میں ہم خان زمان کی بغاوت کے متعلق پڑھ چکے ہیں۔ اس کی طاقت اور حالات کی نزاکت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اکبر اس کے مقابلہ پر نکلنے سے پہلے بزرگان دہلی کے مزارات پر اپنی کامیابی کے لئے دعائیں مانگتا پھرتا تھا۵۶؂۔ جب اس نے خان زمان پر قابو پالیا تو اپنے استاد میر عبداللطیف قزدینی ، مخدوم الملک عبداللہ سلطانپوری شیخ عبدالنبی صدر الصدور او ر میرمرتضیٰ ثریفی شیرازی کی سفارش قبول کرتے ہوئے اس کی خطاؤں سے درگذر کیا۵۷؂۔ اس واقعہ سے یہ بھی عیاں ہوتاہے کہ علما اس کے مزاج میں کافی حد تک دخیل تھے او ران کا کہنا مانتا تھا۔

ان علماء ومشائخ کی صحبت میں رہتے ہوئے اکبر صوم وصلوٰۃ کا پابند ہوگیا تھا۔ شیخ عبدالنبی کی ترغیب وصحبت نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا ۔شاہنواز خان رقمطراز ہے۵۸؂۔

اکبر یاد شاہ بترغیب اجرائے احکام شرعی دامر معروف ونہی المنکر فراوان جہد میفر مود وخود اذان میگفت وامامت میکرد حتیٰ بقصد ثواب بمسجد جاروب میزد۔

علماء کی ترغیب سے اکبر بادشاہ احکام شریعت کی ترویج ، امربالمعروف او رنہی  عن المنکر کے لئے بڑی کوشش کرتاتھا۔ وہ خود اذان دیتا اور امامت کرتا تھا۔ثواب کی نیت سے وہ مسجد میں جھاڑو بھی دیا کرتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۵۶؂۔ ایضاً ،ص ۲۵۲   ۵۷؂۔ ایضاً ،ص ۸۴

۵۸؂۔ مآثر الامراء ،جلد ۲،ص ۵۶۱

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نماز باجماعت کا وہ اتنا اہتمام کرتا تھا کہ اس نے ہفتے کے سات دنوں کیلئے سات امام مقرر کئے ہوئے تھے جو باری باری اسے مقرر ہ دن پر  نماز پڑھاتے تھے۔ عبدالقادر بدایونی لکھتا ہے کہ بدھ کے روز امامت کے فرائض اس سے متعلق تھے۵۹؂۔

بادشاہ ہرسال ایک امیر حاج مقرر کرکے یہ اعلان کرتاکہ جو شخص اس کے ساتھ حج بیت اللہ کے لئے جانا چاہے اس کے اخراجات سرکار کی طرف سے ادا کئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ہر سال وہ امیر حاج کے ہاتھ شریف مکہ کے لئے گراں قدر تحائف او راہل حرم کے لئے نقدو جنس روانہ کیا کرتاتھا۶۰؂۔ قافلہ حجاج کی روانگی کامنظر قابل دید ہوتا تھا۔بدایونی رقمطراز ہے کہ اس دن بادشاہ حاجیوں کی طرح احرام باندھ کر سر کے بال قصر کرواتا او رتکبیر کہتا ہوا سردپا برہنہ انہیں رخصت کرنے دور تک ان کے ہمراہ جایا کرتا تھا۶۱؂۔

سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اکبر کی محبت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ جس سال شاہ ابوتراب حج سے فارغ ہوکر ہندوستان واپس آیا تو وہ اپنے ساتھ ایک ایسا پتھر لیتا آیا جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ‘‘پائے مبارک’’ کا نشان تھا۔ جب وہ آگرہ کے قریب پہنچا تواکبر اپنے امراء و علما ء سمیت اس کے استقبال کے لئے چار کوس تک گیا۶۲؂۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے ساتھ بھی اس کو بیحد عقیدت تھی ۔ یہ اسی عقیدت کا نتیجہ تھا کہ اس نے اپنے تمام بیٹوں کے نام حضرات حسنین ؓ کے نام پر حسن او رحسین رکھے۶۳؂۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۵۹؂۔ منتخب التواریخ جلد۲، ص ۲۲۷         ۶۰؂۔ ایضاً ،ص ۲۳۹،۲۵۱

۶۱؂۔ ایضاً ،ص ۲۳۹۔‘‘بطریق محرمان سروپا برہنہ احرام بستہ وبہ تشبہ حاج پہچان لباس پوشیدہ دامذک قصرمی کردہ قدمی چند بمشایعت رفتند دوران حالت غزیوازمروم برخاستہ رقتھا کردند’’۔

۶۲؂۔ ایضاً ،ص ۳۱۰

۶۳؂۔ ایضاً ،ص ۶۹۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بانی اسلام او ربزرگان دین کے ساتھ وہ علوم اسلامیہ کا بھی بڑا قدردان تھا اور ہمیشہ مصنفوں کی حوصلہ افزائی کرتا رہتا تھا۔ جب ملّا عصام ابراہیم اسفرائینی  کے شاگرد درشید حافظ تاشکندی نے سورہ محمد کی تفسیر لکھی تو خواجہ امینا کی سفارش پر اکبرنے اسے گرانقد رانعام عطا کیا۶۴؂۔ وہ رات کو سونے سے قبل نقیب خان سے کوئی نہ کوئی کتاب ضرور سنتاتھا۶۵؂۔ اسے جہاں سے بھی کوئی عمدہ کتاب ملتی تو وہ اسے فوراً اپنے کتب خانہ میں داخل کرلیتا۔ فتح گجرات کے بعد جب اعتماد خان کا نفیس کتب خانہ اس کے ہاتھ آیا تو اس نے ان کتابوں کی ایک بڑی تعداد اپنے کُتب خانہ میں داخل کی او ر بقیہ کتب علماء ومشائخ میں تقسیم کردیں ۔اس تقسیم میں انوارالمشکوٰۃ بدایونی کے حصہ میں آئی ۶۶؂۔

ابوالفضل نے آغاز ملازمت پر آیتہ الکرسی کی تفسیر لکھ کر بادشاہ کی خدمت میں نذر گذاری تو اس نے اس تصنیف پر اسے تحسین پیش کیا۶۷؂۔ یہ کتاب بھی حسب معمول شاہی کتب خانہ کی زینت بنی۔ اسی طرح ایک تقریب پر ملاّ عبدالقادر بدایونی نے ‘‘چہل حدیث’’ بادشاہ کی خدمت میں پیش کی۔ اس مجموعہ حدیث میں صرف ان احادیث کو جمع کیا گیا جن میں غزوہ  او رتیر انداز ی کی فضیلت آئی ہے۔ بادشاہ نے اسے بھی اپنے کتب خانہ میں داخل کرلیا۶۸؂۔ ان کتابوں کے نام پڑھ کر اتنا اندازہ تو ہوجاتاہے کہ ان ایّام میں کس طرح کی کتابیں اکبر کے مطالعہ میں رہتی تھیں۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۶۴؂۔ ایضاً ،ص ۱۸۷

۶۵؂۔ ایضاً ص ۳۱۔‘‘ درملازمت شاہنشاہی بخوامذن علم تاریخ وسائر کتب نظم ونثر روزانہ وشبانہ اشتعال دارد۔’’

۶۶؂۔ ایضاً ،ص ۲۰۲

۶۷؂۔ ایضاً ،ص ۱۹۸

۶۸؂۔ ایضاً ،ص ۲۵۵

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ تھے اس اکبر کے ابتدائی مذہبی خیالات جو آگے چل کر اکفر  (سب سے بڑا کافر) ۶۶؂ کے نام سے مشہور ہوا اورجس نے ہندوستان میں مسلمانوں کے مفاد او راسلام کو اس قدر نقصان پہنچا یاکہ آج صدیاں گذرجانے کے بعد بھی اس کی تلافی نہیں ہوسکی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۶۶؂۔ ایضاً ۔ص ۳۳۹۔‘‘ خود ہم درآفاق بضلال دین اکفر مشہور شدند ومجتہد مرشد بہ ابوجہل شہرت یافت۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Part: 1- Muhammad Aslam's book on Akbar’s Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu: Part 1 on Appreciation and Foreword دین الہٰی اور اس کا پس منظر

Part: 2 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 2 on Opening Remarks آغاز سُخن

URL: https://newageislam.com/books-documents/muhammad-aslam-akbar-deen-e-ilahi-urdu-part-3/d/131606

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..