محمداسلم
شیخ مبارک کا منصوبہ
جن دنوں اکبر علماء سے بیزار
ہوا، انہی دنوں بدقسمتی سے ایک واقعہ پیش آیا جس نے صورت حال کو بد سے بدتر بنادیا۔
بدایونی رقمطراز ہے کہ متھرا کے قاضی عبدالرحیم نے ایک مسجد کی تعمیر کے لئے سامان
جمع کیا لیکن ایک چالاک برہمن نے راتوں رات وہ سامان اٹھا کر مندر کی تعمیر میں لگادیا۱۔ جب مسلمانوں نے اس سے باز
پرس کی تو وہ اسلام اور بانی اسلام کی شان میں گستاخیاں کرنے لگا۔ قاضی عبدالرحیم نے
ملّا عبدالنبی صدر الصدور کی عدالت میں اس برہمن کے خلاف استغاثہ دائر کیا۔ صدر الصدور
نے اس برہمن کے نام اپنی عدالت میں حاضر ہونے کا سمن جاری کیا لیکن اس نے تعمیل سمن
سے صاف انکار کردیا۔ اکبر نے موقع کی نزاکت محسوس کرتے ہوئے۔ بیربر اور ابوالفضل کو
متھرا بھیجا او روہ برہمن کو سمجھا بجھا کر دربار میں لے آئے۲۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔
منتخب التواریخ ، جلد ۲
،ص ۸۰
۲۔
ایضاً۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکبر نے ابوالفضل کو اس واقعہ
کی تفتیش پر مامور کیا اور اس نے کافی چھان بین کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس میں
سراسر برہمن کا قصور تھا۳۔
اوّل تو اس نے مسجد کے سامان پر ناجائز تصرف کیا اور جب مسلمانوں نے اس سے اس سامان
کی واپسی کا مطالبہ کیا تو اس دریدہ دہن نے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی شان
میں نازیبا الفاظ استعمال کئے اور جب اسے عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا گیا تو اس
نے وہاں جانے سے صاف انکار کردیا۔صدرالصدور اس پربہت برافروختہ ہوئے اور اس نابکار
کو قرار واقعی سزادینے پر تیار ہوگئے۔
ابوالفضل نے بادشاہ کو بتایا
کہ اس معاملہ میں برہمن قصوروار ہے اور شیخ عبدالنبی او ران کے رفقاء اسے پھانسی دینے
پر تلے ہوئے ہیں۔ اتفاق سے وہ برہمن رانی جودھا بائی کا پروہت تھا اور اکبر چاہتا تھا
کہ کسی طرح سے یہ معاملہ رفع دفع ہوجائے لیکن یہ معاملہ روز بروز نازک صورت اختیار
کرتا گیا۔ ایک طرف تورانی اکبر پر دباؤ ڈال رہی تھی کہ وہ اس برہمن کو شیخ عبدالنبی
کے عتاب سے بچائے۔ دوسری طرف اکبر عدالتی کارروائی میں داخل ہو کر صدرالصدور کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس
لئے اس نے یہ معاملہ صدرالصدور کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔ صدر الصدور نے بادشاہ یا رانی
کی ناراضگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس برہمن
کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۔
ایضاً۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس برہمن نے تو اپنے کئے کی
سزا پائی لیکن یہ معاملہ بجائے ختم ہونے کے اور بھی نازک صورت اختیار کر گیا۔ ایک طرف
تو ‘‘دختر ان راجہائے عظیم ہند’’۴۔
نے بادشاہ کے کان بھرے کہ اس نے ملّاؤں کواتنا چڑھا لیا ہے۔کہ وہ اس کی مرضی کی بھی
پرواہ نہیں کرتے اور دوسری طرف شیخ عبدالنبی کے کسی مخالف نے موقع پاتے ہی بادشاہ کے
حضور میں یہ سوال اٹھایا کہ حنفی قانون کی رو سے صدرالصدور شاتم رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کو سزائے موت دینے کا مجاز نہیں۔ گو شیخ عبدالنبی بڑے فخر کے ساتھ امام ابوحنیفہؒ
کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن انہیں اتنا بھی علم نہیں کہ جدِّامجد کے نزدیک
شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم سزائے موت کا مستحق نہیں۵۔ اس پر بادشاہ شیخ عبدالنبی
سے بہت برہم ہوا۔
اتفاق سے انہی دنوں بادشاہ
کی سالگرہ کی تقریب منعقد ہوئی اور شیخ مبارک ناگوری بادشاہ کی خدمت میں تہنیت پیش
کرنے کی غرض سے دربار میں حاضر ہوا۔ اس نے بادشاہ کو مغموم پاکر اس کا سبب دریافت کیا۔
بادشاہ نے اسے برہمن کے قتل کا سارا واقعہ کہہ سنایا۔ اس پر شیخ مبارک نے بادشاہ کو
بتایا کہ وہ چونکہ خود امام عادل اورمجتہد ہے اس لئے وہ علماء کے فتوؤں کے محتاج نہیں،
بلکہ اس کا اپنا فیصلہ علماء کے لئے قول فیصل کا حکم رکھتا ہے ۔ یہ بات سنتے ہی بادشاہ
شیخ مبارک سے کہا کہ وہ اسے علماء کے چنگل سے چھڑا نے کی کوئی تدبیر سوچے۔ اس پر شیخ
مبارک نے بڑی چالاکی او رہوشیاری سے یہ محضر مرتب کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۔
بدایونی نے یہ اصطلاح اکبر کی ہندورانیوں کے لئے استعمال کی ہے۔ بحوالہ ایضاً ،جلد
۲،ص ۳۰۳
۵۔ایضاً
۔جلد ۳،ص
۷۳
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقصود از تشئید این مبانی
وتمہید این معانی آنکہ چون ہندوستان سینت عن الحدثان بمیامن معدلت سلطانی وتربیت جہانبانی
مرکز امن وامان روائر ہ عذل واحسان شدہ طوایف انام ازخواص وعوام خصوصاً علمائی عرفان
شعار وفضلائی وقایق آثار کہ ہادیان بادیہ نجات وسالکان مسالک اونواالعلم درجات انداز
عرب وعجم رو بدین دیار نہادہ توطن اختیار نمودندجمہور علمای مخول کہ جامع فروع واصول
وحادی معقول ومنقول انددبدین و دیانت وصیانت اتصاف دار ندبعد ازتدبیر وانی وتامل کافی
درغوامص معانی آئیہ کریمہ اطیعو االلہ واطیعواالرسول واولی الامرمنکم واحادیث صحیح
ان احبّ الناس الی اللہ یوم القیٰمہ امام عادل من یطع الامیر فقد اطاعنی ومن یعصی الامیر
فقد عصانی وغیر ذلکل منم الشواھد العقیلہ والد الایل النقلیہ قرار دادہ حکم نمودند
کہ مرتبہ سلطان عادل عنداللہ زیادہ از مرتبہ مجتہد است و حضرت سلطان الاسلام کہف الانام
امیرالمومنین ظل اللہ علی العالمین ابوالفتح جلال الدین محمد اکبرپادشاہ غازی خلداللہ
ملکہ، ابداً اعدل واعقل واعلم باللہ اندنبا بران اگر ورمسائل دین کہ بین المجتہدین
مختلف فیہا است بذہن ثاقب وفکر صایب خود یک جانب رااز اختلاف بجہتہ تسہیل معیشت بنی
آدم ومصلحت انتظام عالم اختیار نمودہ بآن جانب حکم فرمانید متفق علیہ میشودواتباع آن
برعموم برایا وکافہ رعایا لازم ومتحتم است و ایضاً اگر بموجب رائے صوانبمائی خود حکمی
راز احکام قرار دہند کہ مخالف نصبی نبا شد سبب ترفیہ عالمیان بودہ باشد عمل بر آن نمودن
برہمہ کس لازم ومتحتم است بڑ مخالفت آن موجب سخط اخروی وخسران دینی ودنیوی است داین
مسطور صدق وفور جستہ للہ واظہار الاجراء حقوق الاسلام بمجضر علمائے دینوفقہائےمہتدین
تحریر یافت وکان ذلک فی شھر رجب سنہ سبع وثمانین و تسعمایہ۶۔
مطلب ان امور کے درج کرنے
سے یہ ہے کہ بادشاہ کے عدل و انصاف او رسرپرستی کی بدولت ہندوستان آج کل امن وامان
کا مرکز بنا ہوا ہے اور اسی کی وجہ سے عوام وخواص خصوصاً ان صاحب علم وفضل علماء کا
یہاں ان دنوں اجتماع ہوگیا ہے جو نجات کی راہوں کے راہنما ہیں اور ‘‘ اوتواالعمع درجات’’
قرآنی آیت کے مصداق یہ لوگ عرب و عجم سے اس ملک میں تشریف لائے اور اسی کو اپنا وطن
بنالیا ہے۔ اب جمہور علماء جو ہر قسم کے علوم میں کامل دستگاہ رکھتے ہیں اور عقلی ونقلی
فنون کے ماہر ہیں او رایمان داری اور انتہائی دیانت اور راستبازی کے ساتھ موصوف ہیں۔قرآن
کی آیت : اطیعوااللہ واطیعواالرسول واولی الامرمنکم اور صحیح حدیثیں مثلاً یہ کہ خدا
کے نزدیک قیامت کے دن سب سے زیادہ محبوب وہ امیر ہوگا جو عادل ہے اور جس نے امیر کی
اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی او رجس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی
ان کے سوا او ردوسرے دلائل عقلی و نقلی کی بنیاد پر یہ قراردیتے ہیں اور فیصلہ صادر
کرتے ہیں کہ خدا کے نزدیک سلطان عادل کا مرتبہ مجتہد کے مرتبہ سے زیادہ ہے اور حضرت
سلطان اسلام کہف الانام امیرالمومنین ظل اللہ علیٰ العالمین ابوالفتح جلال الدین محمد
اکبر بادشاہ غازی، خدا اس کی حکومت کو ہمیشہ قائم رکھے، سب سے زیادہ عدل والے ، عقل
والے اور علم والے ہیں اس بنیاد پر ایسے دینی مسائل میں جن میں مجتہدین باہم اختلاف
رکھتے ہیں اگر وہ اپنے ذہن ثاقب اور صائب رائے کی روشنی میں بنی آدم کی آسانیوں کے
مدنظر کسی ایک پہلو کو ترجیح دے کر اسی کو مسلک قرار دیں تو ایسی صورت میں بادشاہ کا
یہ فیصلہ اتفاقی سمجھا جائے گا او رعام مخلوق رعایا وبرایا کے لئے اس کی پابندی لازمی
ولابدی ہو گی۔اگر کوئی ایسی بات جو قطعی نص کے مخالف نہ ہو اور دنیا والوں کو اس سے
مدد ملتی ہو ، بادشاہ اگر اس کے متعلق کوئی حکم صادر فرمائے تو اس کا ماننا اور اس
پر عمل کرنا ہرشخص کے لئے ضروری اور لازم ہوگا اور اس کی مخالفت دینی اور دنیاوی بربادی
اور اخروی مواخذہ کی مستوجب ہوگی یہ تحریر جو خلوص نیت پرمبنی ہے خالص خوشنودی خدااور
احکام اسلام کی ترویج کیلئے علمائے دین اور فقہائے مہتدین کے اتفاق سے ماہ رجب 987
ہجری میں قلبند ہوئی ۔ (ترجمہ :۔ بشکریہ مولانا مناظر احسن گیلانی مرحوم)
شیخ مبارک نے بادشاہ کے ایما
پر تمام علماء سے اس محضر پر دستخط کروالئے۔ اس محضر کی رو سے شیخ مبارک نے اکبر کو
اعدل ، اعقل او راعلم قرار دیتے ہوئے علماء سے اسے مجتہد تسلیم کروالیا۔
جن دنوں یہ محضر زیر ترتیب
تھا انہی دنوں اکبر کے چند خود غرض مصاحبوں نے اس کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی کہ وہ
خلفائے راشدین کی طرح دینی امور میں بھی عوام کا رہنما ہے ،لہٰذا اسے ان کی تقلید کرتے
ہوئے جمعہ کے روز مسجد میں خطبہ دینا چاہئے ۔اکبر نے ان کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے
یکم جمادی اوّل 987ہجری کو فتح پور سیکری کی جامع مسجد میں خطبہ دینا منظور کرلیا۷۔ بدایونی اور فیضی سرہندی
دونوں اس پر متفق ہیں کہ منبر پر چڑھتے ہی اکبر کے بدن پر کپکپی طاری ہوگئی ، اس کی
زبان لڑکھڑا نے لگی اور وہ موقع کی نزاکت محسوس کرتے ہوئے فیضی کے یہ اشعار پڑھ کر
منبر سے اتر آیا۸۔
خدا وندی کہ مارا خسروی داد دل دانا وبازدی قوی داد
بعدل دواد مارا رہنمون کرد بجزعدل از خیال مابرون کرد
بوود صفش زحدِّ فہم برتر، تعالیٰ شانہ، اللہ اکبر،
شیخ مبارک ،جس نے محضرنامہ
کی رو سے اکبر کو امام عادل بنا کر لامحدود اختیارات کا مالک بنا دیا تھا ، بڑا چالاک
عالم تھا اور اکثر لوگ اسے شیعہ سمجھتے تھے۹۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۷۔
منتخب التواریخ ، جلد۲
،ص ۲۶۸ ii۔ اکبر نامہ فیضی سرہندی ،ورق ۱۴۹ iii۔ طبقات اکبری، ص ۳۴۲۔
۸۔
i۔ اکبر نامہ فیضی سرہندی
، ورق ۱۴۹ ii۔ منتخب التواریخ ،جلد۲،
ص ۲۶۸
۹۔
اسے لٹریچر ہسٹری آف پرشیاء حلد ۴،
ص ۱۸
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ اس کے
آباؤواجداد یمن کے رہنے والے تھے جو زیدی شیعوں کا بڑا پرانا مرکز تھا۱۰۔شیخ مبارک کا مورث اعلیٰ
شیخ موسیٰ یمن سے سندھ آکر سیہون کے قریب ریل نامی ایک قصبہ میں آباد ہوا۱۱۔ سندھ او رگجرات ان دنوں
اسمٰعیلی او ربوہرہ شیعوں کی تبلیغی سرگرمیوں کے مرکز تھے او ریوں بھی سیہون کے گردونواح
میں لعل شہباز کے معتقدین آباد تھے ، جن کی اکثریت تفضیلی عقیدہ رکھتی تھی۔ شیخ مبارک
کے آباواجداد مدت تک اس شیعہ ماحول میں رہے۔ شیخ مبارک کا والد شیخ خضر ریل کی سکونت
ترک کرکے ناگور میں جا بسا او روہیں 911 ہجری میں مبارک پیدا ہوا ،۱۲۔
لودھیوں کے آخری ایّام حکومت
میں مرکزی حکومت کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے راجستھان میں راجپوتوں نے سر اٹھایا
اور ان کا لیڈر رانا سانگا ہندوستان میں رام راج قائم کرنے کے خواب دیکھنے لگا۔ اس
کی سرکردگی میں جب راجپوتوں نے راجستھان کی مسلم بستیوں پر حملے شروع کئے تو شیخ مبارک
ناگور سے ہجرت کرکے احمد آباد چلا گیا۔۱۳۔اتفاق سے احمد آباد مدتوں سے اسمٰعیلی او
ربوہرہ مبلغوں کی سرگرمیوں کا مرکز چلا آرہا تھا او روہا ں ایک سے ایک بڑھ کر شیعہ
عالم درس وتدریس میں مشغول تھا۔ اسی جگہ۔
دامامیہ گوناگون دریافت ،اصولاً
وفردعاً بہم آوردہ وبتگاپوی سخت پایہ اجتہاد رونمود۔۱۴ؔ۔
اس نے مالکی ، شافعی، حنفی
، حنبلی اور امامیہ فقر کا بغور مطالعہ کیااور ان کے اصول وفروغ پر بھی خوب توجہ دی
او ربڑی محنت او ر مشقت کے بعد مجتہد کا درجہ حاصل کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۰۔
آئین اکبری، جلد ۳،
ص ۳۲۷ ۱۱۔ ایضاً۔ ۱۲۔
ایضاً
۱۳۔
مآثر الامراء ۔جلد ۲،
ص ۵۸۴ ۱۴۔ آئین اکبری جلد۳،ص ۳۲۹
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ مبارک کا فقہ جعفری کامطالعہ
کرکے خود کو مجتہد کے درجے تک پہنچا نا ہی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ شیعہ تھا۔
فقہ کی تکمیل کے بعد شیخ مبارک
نے تصوف کا مطالعہ کیا او ریہی شوق اسے اشراقیت تک لے گیا۱۵۔ اس جگہ یہ بات ذہن نشین
کرنے کے قابل ہے کہ جو فلاسفہ فلسفے کا مطالعہ کرنے کے بعد وحئی آسمانی کے قائل رہتے
ہیں انہیں فلسفہ کی اصطلاح میں سماوی او رجو وحی آسمانی کا انکار کرکے اپنے نور باطن
پر اعتماد کرتے ہیں انہیں اشراقی کہتے ہیں۔ شیخ مبارک کو اس کا بیٹا ابوالفضل اشراقی
بتاتا ہے۔ دوسرے ذرائع سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیخ مبارک خود تو قرآن کو محرف مانتا
تھا۱۶،
لیکن ابوالفضل اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف سمجھتا تھا۱۷۔
ابوالفضل لکھتا ہے کہ جب شیخ
مبارک‘‘تصوف واشراق’’ کے مطالعہ سے فارغ ہوا تو پھر اس کی طبیعت فلسفہ کی طرف مائل
ہوئی۱۸۔
اتفاق سے ان دنوں علامہ جلا الدین دوانیؒ کے ایک شاگرد ابوالفضل گازرونی احمد آباد
میں فلسفہ کا درس دیا کرتے تھے ، شیخ مبارک نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا او ران
سے خوب فیض پایا۱۹۔جب
وہ فلسفہ میں خوب طاق ہوگیا تو اس کی طبیعت دوبارہ تصوّف کی طرف مائل ہوئی۔ اس بار
وہ شیخ عمر تنوی کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے طریقہ کبردیہ کی تعلیم پائی۲۰۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۵۔
ایضا، ص۔۳۳۔‘‘
اسالیب تصوف واشراق برخواند’’۔
۱۶۔
منتخب التواریخ جلد۲،ص
۳۱۲
۱۷۔
اکبر اینڈوی جیسواٹس ،ص ۲۵
۱۸۔
آئین اکبری،جلد ۳،
ص ۳۳۰
۱۹۔
ایضاً
۲۰۔
ایضاً
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ عمر تنوی کی صحبت سے اس
کا جی بھرگیا تو وہ دوسرے مشائخ کی خدمت میں
جانے لگا او ران سے شطاریہ ،طیفوریہ ۔چشتیہ اور سہروردیہ سلسلوں کی تعلیم حاصل کی۲۱۔ اس کے بعد وہ 39 سال کی
عمر میں آگرہ چلا آیا او روہاں ایک مدرسہ میں پڑھانے لگا۲۲۔
مندرجہ بالا امثلہ سے یہ بات
واضح ہوجاتی ہے کہ شیخ مبارک کی طبیعت میں سکون اور استقلال کا فقدان تھا اور وہ گھاٹ
گھاٹ کا پانی پئے ہوئے تھا۔ اس کی تلون مزاجی نے اسے آگرہ میں بھی نچلانہ بیٹھنے دیا
اور یہاں آتے ہی اس کی دوستی مہدی فرقہ کے رہنما شیخ علائی کے ساتھ ہوگئی ۔شیخ مبارک
کے طور طریقے اور رکھ رکھاؤ دیکھ کر لوگوں میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ وہ بھی مہدوی
ہے۲۳۔
جب سلیم شاہ کے عہد حکومت میں مہدویوں پر عتاب سلطانی نازل ہوا تو شیخ ہمدانیہ سلسلہ
سے منسلک ہوگیا اور لوگ اسے درویش کا مل سمجھنے لگے۲۴۔ ہمایوں کے عہد حکومت میں
جب اس کی بہنوں ،بھتیجیوں اور بیٹیوں کے رشتے نقشبندیوں سے ہونے لگے توشیخ نے بھی نقشبندی
فقراء کی صحبت اختیار کرلی اور لوگ اسے نقشبندی سمجھنے لگے۲۵۔اکبر کے عہد حکومت میں جب
‘‘ کہنہ مومنانِ عراق’’۲۶۔
کی دربار میں آمد ورفت او رپذیرائی شروع ہوئی تو شیخ لباس تقیہ اتار کر اپنے اصلی رنگ
میں میدان میں نکل آیا۲۷۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۱۔
ایضاً۔ ۲۲۔ مآثر الامرٔ، جلد۳۔ص ۵۸۴
۲۳۔
منتخب التواریخ علم اور حاق۱۹۸۔‘‘
شیخ مبارک مہدوی نیز اہل بدعت است وضال ومضل درخصت گونہ گرفتہ’’۔
۲۴۔
مآثر الامراء ۔جلد۲،
ص ۵۸۵۔
۲۵۔
آئین اکبری ،جلد ۲،
ص ۲۶۰
۲۶۔
بدایونی نے یہ اصطلاح کئی جگہ استعمال کی ہے۔ ملاحظہ ہومنتخب التواریخ ،جلد ۲، ص ۲۷۲
۲۷۔
مآثر الامرأ ،جلد۲،ص
۵۸۵
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت خواجہ باقی باللہ دہلویؒ کے
صاحبزادے خواجہ کلاںؒ ،جن کی تربیت شیخ مبارک کی بیٹی کے گھر میں ہوئی تھی، اس گھر
کے پُرانے بھیدی ہیں۔ وہ شیخ مبارک کے متعلق لکھتے ہیں کہ وہ سلطان ابراہیم لودھی کے
عہد حکومت میں کٹّر سُنّی ،سُوریوں کے دور حکومت میں مہدوی ،ہمایوں کے زمانے میں نقشبندی
او راکبر کے عہد سلطنت میں صلح کُل کا علمبردار بن کر مشربِ اباحت پرگامزن ہوا۲۸۔ خواجہ کلاںؒ اس کے متعلق
یہ بھی لکھتے ہیں :۔
ورہرعصر ہمان مشرب ومذہب شعاروقت
خود می ساخت کہ ملوک وامرای عصر بدان مذہب رغبت داشتند۲۹۔
ہردور میں اس کا وہی مسلک
او رمذہب ہوتا تھا جس پر اس عہد کے حکمران او رامراء گامزن ہوتے تھے۔
سردلزلی ہیگ رقمطراز ہے کہ
شیخ مبارک مختلفادوار میں سُنّی ، شیعہ ،صُوفی او رمہدوی کے علاوہ خدا جانے کیا کیا
رہ چکا تھا۳۰۔
ہمارے خیال میں ہر وہ شخص
جو تقیہ پر ایمان رکھتاہو وہ خود کو ‘‘سرکار رائج الوقت’’ کا ہم مذہب ظاہر کرسکتا ہے۔سرکار
قبلہ ادیب اعظم مولانا سیّد ظفر حسن صاحب اپنی تالیف ‘‘عقاید الشیعہ’’ میں لکھتے ہیں
کہ ‘‘ ہمارا عقیدہ ہے کہ تقیہ ضروریات دین ہے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا
تقیہ میرا اور میرے آباکا دین ہے۳۱۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۸۔
مبلغ الرجال ، ورق ۳۳
الف۔
۲۹۔
ایضا۔
۳۰۔
کیمبرج ہسٹری آف انڈیا ، جلد ۴،ص
۱۸
۳۱۔
عقاید الشیعہ ،ص۸۷،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دوسرے موقع پر سرکار قبلہ
تحریر فرماتے ہیں کہ۔‘‘ تقیہ ہی وہ سپر ہے جس نے شیعوں کا وجود باقی رکھا ،ورنہ اپنے
دشمنوں کے ہاتھوں یہ کب کے تباہ وبرباد اور نیست ونابود ہوگئے ہوتے۳۲۔ شہید ثالث قاضی نوراللہ
ششتری اپنی شہرہ آفاق تصنیف ‘‘مجالس المومنین’’ میں تحریر فرماتے ہیں کہ شیعوں کے اکثر
فرقے تقیہ پر عمل پیرا ہیں۳۳۔
مشہور شیعی عالم شیخ صدوق‘‘ رسالۃ فی الا عتقادات’’ میں لکھتے ہیں کہ تقیہ ‘‘واجب’’
ہے۳۴۔
او راس کا وجوب امام مہدی علیہ السلام کے ظہور تک باقی رہے گا:۔
لھن امن ترکھا قبل خروجہ فقد
خرج عن دین اللہ تعالیٰ وعن دین الامامیۃ وخالف اللہ ورسولہ والائمۃ ۳۵۔
اس لئے جس شخص نے مہدی کے
ظہور سے قبل تقیہ کرنا چھوڑ دیا وہ اللہ کے دین او رآئمہ کے مذہب سے نکل گیا ، بالفاظ
دیگر وہ اللہ اس کے رسول او رآئمہ کی مخالفت کرتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۲۔
ایضاً ۔ص ۸۸ ۳۳۔ مجالس المومنین
،ص ۲۔۳
۳۴۔
رسالۃ للصدوق فی الاعتقادات،ص ۴۴۔‘‘
التقیہ واجبۃ’’۔
۳۵۔
ایضاً۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان شواہد سے یہ بات پایہ ثبوت
تک پہنچ جاتی ہے کہ شیعوں کے ہاں تقیہ نہ صرف جائز ہے بلکہ جو تقیہ نہ کرے وہ حزج عن
دین اللہ تعالیٰ وعن دین الامامیۃ کے مطابق شیعہ نہیں رہتا ۔ ہم یہ پہلے بتا چکے ہیں
کہ شیخ مبارک کے آباؤ اجداد یمن کے رہنے والے او رمذہباً زیدی شیعہ تھے اور وہ خود
بھی شیعہ ماحول میں تعلیم حاصل کرکے دررجہ اجتہاد تک پہنچ گیا تھا ہمارے خیال میں وہ
شیعہ تھا اور حاکم وقت کا مزاج دیکھ کر تقیہ کرلیتا تھا ، اس کا ایک ناقابل تردید ثبوت
یہ ہے کہ وہ عبادت خانہ کے مباحثوں میں اپنے مخالفین پر ہمیشہ شیعہ اور اسمٰعیلی ہتھیاروں
سے حملہ کیا کرتا تھا۳۶۔شیخ
مبارک نے محضر کی رو سے اکبر کو امام عادل کے علاوہ مجتہد کا درجہ بھی دیا ہے۔یہاں
یہ بات توجہ طلب ہے کہ سُنّی تو مدتوں سے دروازہ اجتہاد بند کئے بیٹھے ہیں لیکن شیعوں
کے ہاں ہردور میں مجتہد موجود رہتے ہیں۔بدایونی لکھتا ہے کہ شیخ مبارک نے ایک بار بادشاہ
کے سامنے بیربر سے یہ کہا تھا کہ جس طرح تمہاری مذہبی کتابوں میں تحریف ہوئی ہے، اس
طرح ہمارے ہاں بھی ہوتا آیا ہے۳۷۔ہمارے
خیال میں ایسی بات صرف شیخ مبارک ہی کہہ سکتا تھا۔ کیونکہ اس کے عقیدہ کے مطابق حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرامؓ نے قرآن میں رد وبدل کیا تھا۔
علامہ نوری طبرسی کا شمار
ان شیعی علماء میں ہوتاہے جن کے اقوال وتحقیقات کے محور پر تشیع کے آسمان نے گردش کی
ہے ، وہ تحریف قرآن کے قائل تھے اور ان کا کہنا ہے:۔
قد جمع اھل النقل والامنکم
من الخاص والعام ان ھدا الذی فی ایدی الناس من القرآن لیس ھذاالقرآن کلہ، وانہ ، ذھب
من القرآن مالیس ھُوی ایدی الناس۳۸۔
تمام چھوٹے بڑے راوی او رمحدث
اس بات پر متفق ہیں کہ اس وقت جو قرآن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے وہ پورا قرآن نہیں ہے،
او رجو کچھ قرآن میں سے نکال دیا گیا ہے وہ لوگوں کے پا س نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۶۔
منتخب التواریخ ،جلد۲،ص
۳۷۲
۳۷۔
ایضاً ۔ص ۳۱۲
۳۸۔
فصل الخطاب ،ص ۲۶۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تفسیر کا شمار شیعوں کی معتبر
ترین تفاسیر میں ہوتاہے ۔اس کے فاضل مصنف علامہ علی بن ابراہیم القمی آسمان تشیع کے
آفتاب درخشاں تھے۔ سورۃ النسا ء کی آیت ۱۶۶ کی
تفسیر میں آپ لکھتے ہیں کہ دراصل یہ آیت یوں تھی لکن اللہ یشھد بما انزل اللہ الیک
فی علی انزلہ بعلمہ۔لیکن اب قرآن میں یہ آیت یوں درج ہے۔لکن اللہ یشھد بما انزل الیک
انزلہ بعلمہ۳۹۔
بالفاظ دگر حضرت علیؓکانام اس میں سے حذف کردیا گیا۔
علامہ قمی رقمطراز ہیں کہ
اس سے اگلی آیت یوں تھی۔ ان الذین کفروا وظلمواآل محمد حقھم لم یکن اللہ یغفرلھم ولا
لیھد یھم طریقا لیکن قرآن میں اب یہ آیت یوں ہے۔ اِنّ الذین کفر واوظلموالم یکن اللہ۔۔۔الخ۴۰۔ بالفاظ وگرقرآن کی تدوین
کے وقت آل محمد حقھم کے الفاظ حذف کردیئے گئے۔
علامہ باقر مجلسی دنیائے تشیع
کے مستند ترین علما ء میں شمار ہوتے ہیں وہ اپنی شہرہ آفاق تالیف حیات القوب میں سورہ
آل عمران کی آیت ۳۳
کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ آیت قرآن میں یوں تحریر ہے۔اِنّ
اللہ صطفیٰ اٰدم ونوحاً وَاٰل ابراہیم واٰل عمران علی العالمین لیکن ‘‘علی بن ابراہیم
درتفسیر گفتہ کہ امام موسیٰ کاظم فرمود ککہ آیہ چنین نازل شدہ ان اللہ صطفیٰ ادم ونوحاً
وَاٰل ابراہیم واٰل عمران واٰل محمد علی العالمین۔ پس آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
را از قرآن انداختند۴۱۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۹۔
تفسیرقمی ،ص ۸۶۔
۴۰۔ تفسیر قمی، ص ۸۶۔
۴۱۔
حیات القلوب ، جلد۳
،ص ۵۸۔
۴۲۔ ایضاً ۔ص ۵۹۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ باقر مجلسی شیخ طبرسی کے
حوالے سے لکھتے ہیں کہ امام جعفر صادقؒ بھی اسے ۔۔۔واٰل محمد علی العالمین ہی پڑھا
کرتے تھے۴۲۔اسی
طرح علامہ موصوف ایک دوسرے موقع پر لکھتے ہیں کہ ابن بطریق اپنی کتاب عمدہ میں تعلیمی
کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے ابی واہل سے سنا تھا کہ عبداللہ بن مسعود کی مصحف
میں یہ آیت واٰل محمد علی العالمین ہی تھی۴۳۔ بالفاظ دیگر قرآن کی تدوین کے وقت آل محمد
کا ذکر حذف کردیا گیا۔
ثقتہ الاسلام علامہ ابوجعفر
محمدالکلینی الرازی کا شمار ان شیعی علماء میں ہوتاہے جن کی تصانیف پر شیعہ مذہب کا
دارومدار ہے۔ وہ اصول کافی ہیں امام باقرؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
ماادعی احمد من الناس انہ
جمع القرآن کلمہ کما انزل الا کذاب وما جمعہ وما حفظہ کما نزلہ اللہ الا علی بن ابی
طالب والائمۃ من بعدہ۴۴۔
کوئی شخص بھی یہ دعوی نہیں
کرسکتا کہ اس نے تمام قرآن تنزیل کے مطابق جمع کیاہے۔اگر کوئی ایسا کہتا ہے کہ تو وہ
جھوٹا ہے کیونکہ سوائے علی بن ابی طالب او ران کے بعد آئمہ کے کسی نے بھی اسے نہ تو
تنزیل کے مطابق جمع کیا او رنہ حفظ کیا۔
اسی کتاب میں علامہ کلینی
امام جعفر صادقؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ۔ان القرآن الذی جابہ جبریل علیہ السلام
الی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ سبعۃ عشرالف آیتہ ۴۵۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۲۔
ایضاً ،ص ۵۹ ۴۳۔ ایضاً ،ص ۶۰۔
۴۴۔
اصول کافی، ص ۳۹۔
۴۵۔ ایضاً ،ص ۶۷۱
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی جبریل نے جو قرآن حضور صلی
اللہ علیہ وسلم پر اتارا تھا اس میں سترہ ہزارآیتیں تھیں موجودہ قرآن میں صرف ۶۶۶۶آیات ہیں، اسلئے بقیہ ۱۰۳۳۴آیات تحریف کی نذر ہوگئیں۔
علامہ الکلینی کے قول کے مطابق
موجودہ قرآن میں جو آیات ہیں ان میں بھی کافی ردوبدل ہوا ہے۔ مثلاً سورہ البقرہ کی
یہ آیت ۔ ان کنتم فی ریب بما انزلنا علی عبدنا فاتوا بسورۃ مثلہ۔۔۔الخ۔دراصل یوں تھی۔
ان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنافی علی ناتوابسورۃ مثلہ۔۔۔الخ ۴۶۔ یعنی اس آیت میں حضرت علیؓ
کا نام موجود تھا۔ جو قرآن کی تدوین کے وقت جان بوجھ کر حذف کردیا گیا۔
علامہ الکلینی کی ایک تحریر
سے مصحف علیؓ کی ضخامت کا بھی پتہ چلتا ہے، چنانچہ آپ کہتے ہیں کہ ہمارے آئمہ یہ فرمایا
کرتے تھے کہ اس کا طول سترگز کے قریب تھا۴۷۔ علامہ موصوف کی ایک تحریر سے یہ بھی پتہ
چلتا ہے کہ حضرت علیؓ کے مرتب کردہ قرآن کے علاوہ شیعوں کے ہاں ایک او رقرآن بھی تھا
جو مصحف فاطمہ کہلاتا تھا۔ اس کے متعلق ان کی رائے ہے:۔
وان عندفاالمصحف فاطمہ علیھا
السلام ومایرید ربھم مامصحف ناطمہ تال مصحف فیہ مثل تراجم ھٰذا ثلاثُ مرّات واللہ مافیہ
من ترانکم ھذا حرف واحد۴۸۔
یعنی مصحف فاطمہ اس قرآن سے
، جو لوگ لئے پھرتے ہیں، تین گنا ضخیم تھا اور خدا کی قسم اس قرآن کا ایک لفظ بھی اس
مصحف میں نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۶۔
ایضاً ،ص ۲۶۴
۴۷۔
ایضاً ،ص ۴۶۔صحیفۃ
طولھا سبعون ذرا عا۔
۴۸۔
ایضاً ۔ص ۱۴۶
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشہور شیعی عالم سید نجم الحسن
نے ‘‘ مقبول احمد’’ کے نام سے اردو میں قرآن پاک کی ایک تفسیر لکھی ہے، جسے افتخار
بک ڈپو کے مالکان نے لاہور سے شائع کیا ہے۔ اس تفسیر میں سیدنجم الحسن سورہ آل عمران
کی آیت نمبر 104 کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام جعفر صادقؓ عمران کی آیت
یوں تھی۔ولتکن منکم آئمۃ یدعون الی الخیر۔الخ۴۹۔لیکن اب قرآن میں یہ آیت
یوں درج ہے۔ولتکن منکم اُمَّۃ یدعون الی الخیر۔۔الخ۴۹۔
سید نجم الحسن صاحب سورہ آل
عمران کی اس آیت کنتم خیر امۃ اخرجت اللناس۔کی تفسیر بیا ن کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
کسی صاحب نے امام جعفر صادقؒ کے سامنے یہ آیت پڑھی تو وہ ناراض ہوکر اس شخص سے پوچھنے
لگے کہ بھلا جس اُمّت نے حسنین علیہما السلام کو شہید کیا وہ کس طرح ‘‘ خیرامۃ’’ کہلانے
کی مستحق ہے؟ اس شخص نے کہا کہ میں آپ پر قربان ہوجاؤں ، پھر یہ آیت کس طرح ہے ؟ اس
پر آپ نے فرمایا کہ یہ آیت یوں ہے۔ انتم خیر ائمۃ احزجب للناس۵۰۔ اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔
اوّل یہ کہ ان کے عقیدہ کے مطابق امام جعفر صادقؒ خودتحریف قرآن کے قائل تھے۔ دوم یہ
کہ قرآن میں جہاں کہیں بھی آئمۃ کا الفاظ آیا ہے وہاں اصحابؓ نے قرآن کی تدوین کے وقت
اس کی جگہ اُمۃلکھ دیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۹۔
مقبول احمد ،ص ۱۲۴ ۵۰۔ ایضاً ،ص ۱۲۵
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید علی نقی لکھنوی ، صدر
شعبۂ شیعہ دینیات ، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ موجودہ دورکے ممتاز شیعی علماء میں شمار
ہوتے ہیں اور راقم کو ان کی خدمت میں نیاز حاصل ہے۔ ان کے تحریر پر فرمودہ ‘‘ مقدمہ
تفسیر قرآن’’ سے یہ معلوم ہوتاہے کہ شیعوں کے ہاں کوئی ۔ سورۂ ولایت۔۔بھی تھی جو اب
قرآ ن میں موجود نہیں۵۱۔
غرض شیعی علماء کی تحریروں
سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت علیؓ کا جمع کردہ قرآن موجودہ قرآن سے مختلف تھا۔
سید علی نقی صاحب لکھتے ہیں اس قرآن کو اصحابؓ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ‘‘سیاسی
مصالح’’ کی بنا پر قبول نہ کیا۵۲۔وہ
سیاسی مصالح کیا تھے؟ اسے علامہ محمد باقر مجلسی کی زبانی سنئے ۔ وہ لکھتے ہیں ۔‘‘چونکہ
اس قرآن مجید میں چند آیات کفر ونفاق منانقان قوم و نص خلافت جناب امیر پر صریح تھے
اس وجہ سے عمر نے اس قرآن کو قبول نہ کیا۔ پس جناب امیر خشمناک اپنے حجرہ طاہرہ کی
طرف تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اس قرآن کو تم لوگ تاظہور قائم آلِ محمد صلی اللہ علیہ
وسلم نہ دیکھو گے۵۳۔علامہ
الکلینی نے بھی یہی لکھا ہے کہ حضرت علیؓ نے غصہ میں آکر فرمایا ۔ ماترونہ بعد یومکم
ھذ ا ابدا۵۴۔
حضرت علیؓنے اپنے جمع کردہ مصحف کو سلک مرد ارید کی طرح خزانہ خاص میں محفوظ کرلیا۵۵۔ اور ان کے بعد نسلاً بعد
نسل یہ مصحف امام مہدی تک آیا او روہ اسے لیکر خار سرمرا میں غائب ہوگئے۔ او رجب ان
کا ظہور ہوگا تو وہ اس کی اشاعت کریں گے۔ ان دلائل سے یہ ثابت ہوتاہے کہ شیعہ حضرات
اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن مجید محرف ہے۔ شیخ مبارک کابھی چونکہ یہی عقیدہ تھا ، اس
لئے وہ بھی شیعہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۵۱۔
مقدمہ تفسیر قرآن، ص ۶۵۔
۵۲۔
ایضاً ،ص۶۹
۵۳۔
جلأ العیون ،ص ۷۲۔
۵۴۔
اصول کافی ۔ص ۲۷۱
۵۵۔
مقدمہ تفسیر قرآن ،ص ۶۹۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے پاس اور بھی بہت سے
دلائل ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شیخ مبارک او راس کا پورا گھرانہ شیعہ تھا ۔شیخ
کے فرزند ابوالفضل کے متعلق بدایونی لکھتاہے کہ اس کی ‘‘ کہنہ مومنان عراق’’ کے ساتھ
بڑی دوستی تھی۵۶۔
بدایونی کاکہنا ہے کہ ابوالفضل عبادت خانہ کے مباحثوں میں بڑی دلیرانہ بحث کیا کرتا
تھا۵۷۔
اور دوران بحث کسی بزرگ کا احترام نہ کرتا تھا۵۸۔ اگر کوئی سنّی عالم ابوالفضل
کے سامنے کسی امام اہل سنت کا کوئی قول بطور حجت پیش کرتا تو وہ اس کے جواب میں کہتا
تھا:۔
سخن فلان حلوائی وفلان کفش
دوز وفلان چرم گربرباحجت می آرید ونفی ہمہ مشائخ وعلماء بدوساز دار آمد۵۹۔
اچھا تو اب تم فلاں حلوائی
،فلاں موچی اور فلاں چمڑے والے کے قول سے مجھ پر حجت قائم کرتے ہوئے اسے تمام مشائخ
او رعلما ء کا یہ انکاربہت راس آیا۔
شاہ فتح اللہ شیرازی ، ملّا
محمدیزدی او رحکیم ابوالفتح ، ابوالفضل کے جگری دوست تھے اور وہ ڈنکے کی چوٹ شیعہ تھے۔بدایونی
کا بیان ہے کہ ان کے علاوہ او رکوئی ابوالفضل سے ملنا جلنا پسند نہ کرتا تھا۶۰۔ملاً احمد ٹھٹھوی نامی ایک
خالی شیعہ عالم پورے ہندوستان میں اپنے عقائد کے پرچار کے ساتھ ساتھ علانیہ سب صحابہ
کرتا پھرتا تھا۔ جب نولادخان برلاس نے اسے قتل کیا تو اہالیان لاہور اسے کسی قبرستان
میں دفن نہ ہونے دیتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۵۶۔
منتخب التواریخ ،جلد ۲،
ص ۲۷۲
۵۷۔
ایضاً ،ص ۲۷۸
۵۸۔
ایضاً، ص ۲۶۳
۵۹۔
ایضاً ،ص ۲۰۰
۶۰۔
ایضاً ،ص ۲۶۳
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس موقع پرابوالفضل اور فیضی
نے اپنے رسوخ سے کام لے کر اسے کسی قبرستان میں دفن کرکے اس کی قبر پر پہرہ بٹھا دیا۶۱۔ اگر ابوالفضل ،فیضی یا
ان کا والد شیعہ ہوتے تو وہ اپنے مذہب کی قبر پر پہرہ کیوں بٹھاتے؟ بدایونی کا کہناہے
کہ ملّا احمدٹھٹھوی پہلے اتنا دلیر او ردریدہ دہن نہ تھا۔ جب اس کی آمد ورفت فیضی کے
ہاں شروع ہوئی تو وہ علانیہ تبراً کرنے لگا۶۲۔ ملاّ محمد یزدی اور ابوالفضل کی بڑی گہری
چھنتی تھی اور یہ بزرگ بقول بدایونی بھر ے دربار میں ۔‘‘ طعن صریح وناسزای قبیح برخلفائے
ثلثہ گفتہ وتکفیر وتفیسق عامہ صحابہ کبار وتابعین وبتع تابعین وسلف دخلف صالحین از
متقدمین ومتاخرین رضی اللہ عنہم کردہ اہل سنت وجماعت رامحقر وبہان درنظر نمودن گرفت
وغیراز مذہب شیعہ ہمہ را ضال ومضل دانانید۶۳۔‘‘ ابوالفضل اہل بیت کی طرف کس قدر مائل تھا
، اس کا اندازہ اس گفتگو سے لگایا جاسکتاہے جس میں اس نے بدایونی سے یہ سوال کیا تھا۔
ہیچ اہل حرفہ نماند کہدرتذکرۃ
الاولیأ ولفحات الانس وغیر آن اسم آن مذکور نشدہ اہل بیت چہ گناہ کر وہ بودند کہ درآنجاداخل
نساختند واین بمعنی بغایت محل تعجب است۶۴۔
کوئی پیشہ ور ایسا نہیں جس
کا ذکر تذکرۃ الاولیأ ،نفحات الانس یا ایسی ہی دوسری کتابوں میں نہ ہو ، اہل بیت نے
کیا گناہ کیا تھا جو ان کو وہاں جگہ نہیں دی گئی۔ یہ واقعی بڑے تعجب کی بات ہے۔
‘‘دربار اکبر ی ‘ میں مشہور شیعی فاضل محمد حسین آزاد کا شیخ مبارک،
فیضی اور ابوالفضل کی طرف جھکاؤ ہی اس بات کا بّین ثبوت ہے کہ وہ شیعہ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۶۱۔
ایضاً ،ص ۳۶۵۔‘‘
بعد ازدفن اوشیخ فیضی اوشیخ ابوالفضل برقبرش محافظان گما شتند’’۔
۶۲۔
ایضاً ،ص ۳۱۷۔‘‘
ہنوز کہ درصحبت شیخ فیضی نہ پیوستہ ودلیر نشدہ بود’’۔
۶۳۔
ایضاً ، ص ۲۵۹
۶۴۔
ایضاً ،ص ۲۶۲
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قاضی نوراللہ ششتری صاحب مجالس
المومنین بڑے غالی شیعہ عالم تھے او ران کی فیضی کے ہاں باقاعدہ آمد ورفت تھی۶۵۔ حالانکہ اس عہد کے نامور
سُنّی عالم شیخ عبدالحق محدّث دہلویؒ جو مرنجان مرنج قسم کے بزرگ تھے، فیضی کے محلدانہ
عقائد سے متنفرہوکر اس سے قطع تعلق کرچکے تھے۶۶۔ تام شیعہ علماء کی آمد
درفت اس کے ہاں جاری تھی۔ جب فیضی کا انتقال ہوا تو بدایونی نے ‘‘ولے فلسفی وشیعی وطبیعی
دوہری’’ کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالی۶۷۔ اس سے بھی یہ ثابت ہوتاہے کہ اس کا شیعہ
مذہب کے ساتھ خواہ وہ کسی نوعیت کا ہی کیوں نہ ہو، تعلق ضرور تھا۔
مشہور شیعی عالم سید علی نقی
لکھنوی نے اپنی تالیف ‘‘مقدمہ تفسیری قرآن’’ میں شیعہ مفسرین کی جو طویل فہرست دی ہے
اس میں فیضی کا نام بھی موجود ہے۶۸۔
عرفی شیرازی بھی اسی گروہ
سے تعلق رکھتا تھا۔ فیضی کے ہاں اس کی آمدورفت کے متعلق کئی لطائف زبان زرخلائق ہیں۔
بدایونی کی ایک تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سلف کے متعلق بے ادبانہ انداز میں گفتگو
کیا کرتا تھا۶۹۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۶۵۔
ایضاً ،جلد ۳،ص
۱۳۸
۶۶۔
حیات شیخ عبدالحق محدّث دہلوی،ص ۲۴۲
۶۷۔
ایضاً ۔جلد۲،ص
۴۰۶
۶۸۔
مقدمہ تفسیر قرآن ،ص ۱۶۲
۶۹۔
ایضاً ،ص ۳۷۵
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ فتح اللہ شیرازی او رابوالفضل
کی آپس میں بڑی دوستی تھی اور وہ دونوں عبادت خانہ میں دلیرانہ بحث کیا کرتے تھے۔ جب
بادشاہ کا عتاب سُنّی علما ء پر نازل ہوا تو پھر کسی کی یہ مجال نہ تھی کہ وہ بادشاہ
کے حضور میں نماز اداکرسکتا،ان دنوں شاہ فتح اللہ بادشاہ کے سامنے بڑے سکون کے ساتھ
امامیہ طریقہ کے مطابق نما ز ادا کیا کرتا تھا۷۰۔
ان شیعہ بزرگوں کی صحبت میں
رہتے ہوئے اور ان کی دلیرانہ بحثیں سنتے سنتے بادشاہ کے دل میں بھی صحابہؓ کبار او
رصالحین سلف کے خلاف شکوک پیدا ہوگئے تھے بدایونی کا کہنا ہے کہ وہ ‘‘قصہ زفاف حضرت
ختمی پناہ صلی اللہ علیہ وسلم باصدیقہ رضی اللہ عنہمارا مطلقاً منکر بود۷۱۔ اسی طرح جب بادشاہ نے تاریخ
الفی لکھنے کا حکم دیا تو بدایونی حضرت عمرؓ کے عہد کے واقعات لکھنے پر مامور ہوا۔
اس کاکہنا ہے کہ جب میں نے تعمیر کوفہ ،ہدم قصر الامارۃ ،تعین اوقات صلوٰۃ خمسہ ، فتح
شہر نصیبین او راُمِّّ کلثوم اور حضرت عمرؓ کے نکاح کے واقعات لکھ کر بادشاہ کی خدمت
میں پیش کئے تو وہ بہت برافروختہ ہوا او رمجھے اپنی جان بچانی مشکل ہوگئی۷۲۔ اس واقعہ کے بعد ملاّ احمد
ٹھٹھوی جیسا غالی شیعہ یہ واقعات دوبارہ لکھنے پر مامور ہوا۷۳۔اس سے یہ بات مترشح ہوتی
ہے کہ اکبر تاریخ اسلام کو شیعہ نظریات کے مطابق لکھوانا چاہتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۷۰۔
ایضاً ،ص ۳۱۵۔‘‘
نماز بفراغ بال وجمیعت خاطر بمذہب امامیہ میگذارد’’۔
۷۱۔
ایضاً ،ص ۳۳۸،
۷۲۔
ایضاً ،ص ۳۱۸،
۳۱۹
۷۳۔
ایضاً ،۳۱۹۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان حقائق کی روشنی میں یہ
بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ شیخ مبارک او راس کے بیٹے شیعہ تھے اور جن دنو ں
شیخ مبارک نے محضر پیش کیا ، ان دنوں اکبر شیعوں کے زیر اثر وہ کر ان کے اکثر وبیشتر
نظریات قبول کرچکا تھا۔ ہم آئندہ سطور میں اس بات کا تفصیلی جائزہ لیں گے کہ اکبر کو
علمائے وقت سے ‘‘امام عادل’’ او راس کے علاوہ ‘‘اعقل ’’ اور ‘‘اعلم باللہ’’ تسلیم کروانے
سے شیخ مبارک ، اس کے ‘‘ہوش ربائے زمان وزمانیان ’’ فرزند اور ان کے ہم مذہب اصل میں
کیا چاہتے تھے۔
بابر کے عہد حکومت میں خلافت
ترکان عثمانی میں منتقل ہوچکی تھی اور دنیا بھر کے سُنّی سلطان سلیم کو خلیفہ تسلم
کرچکے تھے ، اس لئے سلطان ترکی کے مقابلے میں اکبر کے لئے دعویٰ خلافت کرنا ممکن نہ
تھا۔ یوں بھی اسلامی قانون کی رو سے دنیائے اسلام میں بیک وقت دوخلیفے نہیں ہوسکتے
۷۴۔ اس لئے شیخ مبارک نے محضر
کی رو سے اکبرکو ‘‘امام’’ بنادیا ۔ اس جگہ یہ بات ذہن نشینرہے کہ شیعوں کے عقیدہ کے
مطابق خلیفہ کی موجودگی میں ‘‘امام’’ ہوسکتاہے ، جیسا کہ شیخینؓ کے دور حکومت میں حضرت
علیؓ یا بنوامیہّ او ربنو عباس کے زمانے میں ان کی اولاد میں سے باقاعدہ ‘‘امام’’ موجود
تھے۔
اس زمانے میں سیدھے سادے سنیوں
کے لئے ‘‘امام’’ ایک معمولی لقب کی حیثیت رکھتا ہوگا لیکن شیعوں کے نزدیک اس لقب کی
حیثیت اس سے کہیں زیادہ تھی۔ غیر عرب قوموں خصوصاً ایرانیوں نے اپنے حاکموں کوبعض ربّانی
صفات سے متصف کرکے انہیں خدائی حقوق (Divine Rights) دے رکھے تھے۷۵۔ اکبر کو امام عادل او رامام
زبان بنانے میں شیخ مبارک کا دراصل یہی مقصود تھاکہ وہ لامحدود اختیارات کا مالک بن
جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۷۴۔
i۔ الاحکام السطانیہ للمادردی
،ص ۹۔
ii ۔ الاحکام السلطانیہ
الابویعلیٰ ،ص ۲۵
۷۵۔
اسے لٹریری ہسٹری آف پرشیا،جلد ۴،ص
۱۸
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب اکبر کے حکم سے بدایونی
نے مہابھارت کا فارسی میں ترجمہ کیاتو ابوالفضل نے اس پرچھتیس صفحات کا مقدمہ لکھاجو
بقول بدایونی۔الکفریات دالحشویات۔ کا مجموعہ ہے۷۶۔ اس مقدمہ کو پڑھ کر یہ
حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ شیخ مبارک او راس کے بیٹے اکبر کو امام عادل بنا کر دراصل
اسے شیعہ اور خاص کر اسمٰعیلی امام کے پورے اختیارات دلوانا چاہتے تھے۔ابوالفضل نے
اکبر کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے۔‘‘ آن سلطان عادل وبران کامل دلیل قاطع خدادانی وحجت
ساطع رحمت روحانی قافلہ سالار حقیقی ومجازی۷۷۔اس کے علاوہ ‘‘قبلہ خداگاہان’’۔ پردہ برانداز
اسرار غیبی’’ ۔‘‘ چہرہ کشای صورت لاریبی’’۔ اور ‘‘قاسم ارزانی بندگان الہٰی’’۔ یہ آخری
لقب غالباً ان داتا کی مہذب صورت ہے۔
وہ اکبر کو ‘‘ہادی علیٰ الاطلاق
ومہدی باستحقاق’’ کے القاب سے بھی یاد کرتاہے۷۹۔ جس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ
شیخ مبارک اور اس کے بیٹوں نے اکبر کو باقاعدہ مہدی موعود بنا دیا تھا۔مہدی کیلئے شیعہ
حضرات عموماً صاحب الزمان کو اصطلاح استعمال کرتے ہیں۸۰۔ بدایونی نے ایک موقع پرلکھا
ہے کہ اکبر کے بعض خوشامدیوں نے اسے یہ باور کرادیا تھا کہ وہی ‘‘ صاحب زمان’’ ہے کیونکہ
اس میں مہدی کی بڑی نمایاں علامات موجود ہیں۸۱۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۷۶۔
منتخب التواریخ ،جلد ۲،
ص ۳۲۱ ۷۷۔ مہا بھارت،ص۱۴
۷۸۔
ایضاً ،ص ۵۔۶ ۷۹۔
ایضاً ،ص ۵
۸۰۔
النافع للفا ضل المقداد،ص ۵۹ ۸۱۔ منتخب التواریخ
،جلد ۲،ص
۲۷۸
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابوالفضل نے مہابھارت کے مقدمہ
میں اکبر کو ‘‘خلیفۃ اللہ’’ بھی لکھا ہے۸۲۔ شیعہ حضرات مہدی کو خلیفۃ اللہ ہی سمجھتے
ہیں کیونکہ وہ اپنے ظہور کے بعد دنیا میں خلافت الہٰیہ قائم کریں گے۔ابوالفضل کی اس
تحریر سے بدایونی کے اس بیان کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ اکبر کے خوشامدی یہ کلمہ پڑھا کرتے
تھے۸۳۔
لا الہ الا اللہ اکبر خلیفۃ
اللہ
اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتاہے
کہ اکبر کا اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ براہ راست تعلق تھا اور اس کے اور خدا تعالیٰ
کے درمیان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ ضروری نہیں۔
ابوالفضل نے اکبر کو ایسی
ایسی صفات سے متصف کیا ہے جس کاوہ کسی طرح بھی اہل نہ تھا ۔‘‘امام’’ کی وہ کون سی صفت
ہے کہ جو اکبر میں نہیں پائی جاتی؟ اسے مہدی اور خلیفۃ اللہ لکھ کر بھی ابوالفضل کی
تسلی نہیں ہوئی ۔ وہ اس ‘‘نئے ظہور’’ کو اس سے بھی بڑا مقام دینا چاہتا تھا۔ چنانچہ
مہابھارت کے مقدمہ کے آخر میں اس نے اکبر کو ۔خلاصہ آفرینش ۔لکھا ہے۸۴۔ ہمارے خیال میں اکبر کو
خلاصہ آفرینش لکھتے وقت ابوالفضل کے ذہن میںلولاک لماخلقت الافلاک کی حدیث تھی۸۵۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کے علاوہ او رکوئی شخص خلاصہ آفرینش کہلانے کا مستحق نہیں ۔ ابوالفضل نے
اپنے ‘‘امام’’ کو اس لقب سے ملقب کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم پایہ بنادیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۸۲۔
مہابھارت ،ص ۵ ۸۳۔
منتخب التواریخ ،جلد۲،ص
۲۷۳
۸۴۔
مہابھارت ،ص ۳۶ ۸۵۔ اکثر محدّثین کے
نزدیک یہ حدیث موضوع ہے ملاحظہ ہو۔ المصنوع فی الاحادیث الموضوع۔ص ۲۲
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین کرام کو یا دہوگا کہ
جب کبھی اسمٰعیلیوں کے امام سرآغاخان مرحوم نیروبی کراچی یا بمبئی کے دورہ پر جاتے
تو وہ اسمٰعیلی لڑکوں او رلڑکیوں کے نکاح بکثرت پڑھایا کرتے تھے۔ یہ اسمٰعیلی امام
کاایک اہم فریضہ ہے کہ وہ اپنے فرقہ کے لڑکوں او رلڑکیوں کے رشتے طے کرکے انہیں رشتہ
ازدواج میں منسلک کردے۔ اکبر نے جب امام عادل ہونے کا دعویٰ کیا تو ہ اپنے اس فرض سے
غافل نہ تھا۔ بدایونی لکھتا ہے کہ مینابازار کے موقع پر اکبر بہ نفس نفیس وہاں جاتا
اور اس کے ایماء پر ‘‘مناکحت ومواصلت ،بتادینا دران مجلس قرار یافت۸۶۔
بدایونی نے عبادت خانہ میں
ابوالفضل کے حربے او رمحضر کی ر و سے اکبر کو امام بنانے کی اسکیم دیکھ کر صورت حال
کا صحیح اندازہ لگالیا تھا ۔ وہ ایک موقع پر ابوالفضل کے متعلق لکھتا ہے۔‘‘ آتش درجہان
انداختہ وچراغ صباحیان کہ چراغ گرفتن درروز روشن داشت ، روشن گردانیدہ۸۷۔ بدایونی کی اس عبادت سے
مترشح ہوتاہے کہ ابوالفضل حسن ابی صباح کی مشعل لے کر دربار میں آیا اور اس نے پورے
جہان کو آگ لگادی۔‘‘ چراغ صباحیان’’ سے بدایونی اسمٰعیلی حربے اور اکبر کی امامت کی
سکیم مراد لیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۸۶۔
منتخب التواریخ ،جلد ۲،
ص ۳۳۹
۸۷۔
ایضاً ،ص ۱۹۸
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ مبارک اور اس کے فرزندوں
نے جس چالاکی اور ہوشیاری سے محضر مرتب کیا تھا، اس کا جواب نہیں ہوسکتا۔لفظوں کے ہیرپھیر
میں وہ اکبر کو کیا سے کیا بناگئے ہیں۔ابوالفضل نے مہا بھارت کے مقدمہ میں اپنی چالاکی
سے اکبر کو جن صفات سے متصف کیا ہے اس کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اس کا بھانجا عبدالصمد
اس کا ذکر ان الفاظ میں کرتاہے:۔‘‘شیخ ابوالفضل وزیر خاقان ہوش رُبائے زمان وزمانیاں۸۸۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ
مہابھارت کا مقدمہ ہر لحاظ سے ہوش رُباہے ورنہ بدایونی اسے ۔‘‘ الکفریات والحشریات’’۔
کا مجموعہ قرار دیتا۔
ڈاکٹر احمد بشیر صاحب نے اپنے
تحقیقی مقالہ میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ عبادت خانہ کے مباحثوں میں ابوالفضل کا انداز
بحث او راکبر کو مہدی بنانے کا نظریہ عملی طور پر اسمٰعیلی ہیں۔ اس نے اکبر کو جولامحدود
مذہبی اختیارات دیئے ہیں او راسے علم لدّنی کا حامل بتاتے ہوئے اس کے ساتھ جو معجزات
منسوب کئے ہیں وہ اکبر کو اسمٰعیلی امام کا ہم پلّہ بنادیتے ہیں۸۹۔
ڈاکٹر احمد بشیر صاحب کے اس
بیان کی روشنی میں اگر ہم اکبر کے متعلق ابوالفضل کی تمام تحریروں کو جمع کریں تو یہ
بات ثابت ہوجاتی ہے کہ وہ واقعی اکبر کو شیعہ یا اسمٰعیلی امام کی جملہ صفات سے متصف
کردیتاہے۔
شیعوں او راسمٰعیلیوں کے عقیدہ
کے مطابق ان کا امام مادرزادولی ہوتاہے اور اس کی ماں‘‘طاہرہ’’ اور ‘‘معصومہ’’ ہوتی
ہے۔ اس کومدّنظر رکھتے ہوئے ابوالفضل لکھتا ہے کہ جب اکبر شکم مادر میں تھا تو اس کی
ماں کو بشارت غیبی واشارات قدسی ہوا کرتے تھے۹۰۔اس عبارت سے وہ مریم مکانی
(حمیدہ بانو) کو حضرت مریمؑ بنانا چاہتا ہے، او را س بشارت غیبی واشارات قدسی سے وہ۔
اذقالت الملٰکۃ یمریمُ ان اللہ یبشرک بکلمۃ منہ۔مراد لیتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۸۸۔
مکاتبات علّامی ،ص ۳ ۸۹۔
ریلجبس پالیسی آف اکبر، ورق ۹۵۔۹۶
۹۰۔
اکبر نامہ ،جلداوّل ،ص ۱۱
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابوالفضل لکھتاہے کہ جن دنوں
اکبر شکم مادر میں تھا ان دنوں اس کی ماں کی حالت عجیب تھی۔ اس کے الفاظ ہیں:۔
پاک نہادی ک درزمان خبین کہ
گوہر یکتائی معدن ومسیح جانفزائی مہد بطون بودا نوارظاہر ازجبین حضرت مریم مکان ادام
اللہ تعالیٰ برکاتہا عفتہابمثابہُ می درخشید کہ جمعی کہ برسراین امرواقف بودندہمین
پنداشتند کہ مگر چراغ برردی نہادہ اند۹۱۔
ولادت سے قبل جب یہ پاک فطرت
اوریگانہ موتی ابھی کان میں تھا یا یوں کہئے کہ مسیح جانفرا ابھی رحم کے گہوارے میں
تھا، حضرت مریم مکانی، اللہ تعالیٰ اس کی برکت اور عفت کو قائم ودائم رکھے، کے پیشانی
پرایسے انوار نظر آتے تھے کہ گویا اس کے چہرہ پر چراغ رکھا ہوا ہے۔
ظاہر ہے کہ جب ‘‘ صاحب زمان’’
شکم مادر میں ہوگا تو پھر اس کی ماں کے چہرہ پر اگر انوار نظر نہ آئیں گے تو پھر اور
کیا نظر آئے گا۔؟
جب مریم مکانی کے بطن سے اکبر
پیدا ہوا تو دیکھنے والوں نے یہ دیکھا کہ:۔
میاں صغرسن وفوائح ایامّ رضاعت
کہ عنفوان صفحہ زندگانی وعنوا ن عقل رہیولانی ست انوار شدد ارشاد ازناصیہ احوال اومی
تافت وآثار امتیاز واصطفااز زائچہ اقبال اوظاہر میشد درہنگامیکہ تبکلّم متعارف میکرو
کلمات غریبہ وعبارات بدیعہ ظہور می یافت چنانچہ ازقوابل وعفایف کہ ملازمان مہد مقدس
بودند تبفصیل مرولیت۹۲۔
صغر سنی او رایام شیر خوار
گی میں جوزندگی وارشاد کے انوار اس کی پیشانی سے عیاں تھے اور اس کے زائچہ اقبال میں
بزرگی او ربڑائی کے آثار نظر آتے تھے، جب وہ باتیں کرنے کے قابل ہوا تو اس کے منہ سے
عجیب وغریب کلمات نکلتے ایسی باتیں دائیوں او رکھلائیوں سے تفصیلی کے ساتھ سننے میں
آتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۹۱۔
مہابھارت ،ص ۹ ۹۲ایضاً۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیعوں اور اسمٰعیلیوں کا امام
مادرزادولی ہوتاہے او راس کی پیدائش معجزانہ طور پر ہوتی ہے۔ابوالفضل بھی اکبر کو مادر
زاد ولی ظاہر کرکے اس کی پیدائش عام بچوں سے مختلف بتاتاہے۔جس طرح قرآن پاک میں حضرت
عیسیؑ کے متعلق یہ آیت اُتری ہے۔ ویکلم الناس فی المھد۔ اسی طرح ابوالفضل یہ لکھتا
ہے کہ اکبر ایّام رضاعت میں ‘‘مسیح وار’’ لوگوں سے باتیں کیا کرتاتھا۹۳۔اس کی باتیں دودھ یا کھلونوں
کی بجائے رشد وہدایت کے موضوع پرہوا کرتی تھیں او رلوگ اس کے منہ سے ‘‘کلمات غریبہ
وعبارات بدیعہ’’ سن کر حیران ہوتے تھے۹۴۔
اس نئے ظہور رشدوہدایت کا جو سلسلہ اپنے بچپن میں شروع کیا تھا وہ آخر عمر تک جاری
رہا۔ ابوالفضل اکبر کو۔‘‘ ہدایت پناہی’’ ۔کے لقب سے یاد کرکے لکھتا ہے’’۔ کہ ازبمیا
من اوچندمی گم گشتگان بیابان ضلالت راہ طلب سپردہ پی بمقصود حقیقت بردہ اند۹۵۔انسان تو رہے ایک طرف ،اس
کی نظر کیمیا اثر سے کئی درندے گزند پہنچانے سے باز آگئے۹۶۔ ان سب باتوں کے ہوتے ہوئے
بھی ولایت پناہی ‘‘خود رادرجلباب کمتان داستار خفا میدارد‘‘۹۷۔
اکبر چونکہ مادرزادولی تھا،اس
لئے اس سے بچپن ہی میں کرامات ظاہر ہونے لگی تھیں۔ ابوالفضل لکھتاہے کہ جب ہمایوں قلعہ
بالاحصار پر گولہ باری کررہا تھا تو کامران میرزانے اکبر کو قلعہ کی فصیل پربٹھا دیا۔
یہ اکبر کی کرامت تھی کہ اسے اندھا دھند گولہ باری کے دوران خراش تک نہ آئی ۹۸۔ ہمارے خیال میں یہ سب باتیں
اکبر کو شیعہ یا اسمٰعیلی امام کی طرح مادرزادولی ظاہر کرنے کی خاطر گھڑی گئی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۹۳۔
اکبر نامہ ،جلداوّل ۔ص ۱۸۷
۹۴۔
مہا بھارت ،ص ۹
۹۵۔
ایضاً ،ص ۱۰
۹۶۔
ایضاً
۹۷۔
ایضا، ص ۱۱
۹۸۔
اکبر نامہ ،جلد اوّل ،ص ۲۶۶
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح شیعہ یا اسمٰعیلی امام
علم لدّنی رکھتا ہے اسی طرح اکبر کو بھی علم لدّنی حاصل تھا، ابوالفضل لکھتا ہے کہ
وہ ایک سال کی عمر تک کے واقعات لفط بلفظ بتاسکتا تھا۹۹۔ اس کے فیل خانہ میں ہزاروں
ہاتھی ہیں وہ فرداً فرداً ان سب کے نام جانتا ہے ہاتھیوں کا تو ذکر ہی کیا وہ شاہی
اصطبل کے ہر گھوڑے اور شاہی چڑیا گھر کے ہر جانور کانام جانتا ہے۱۰۰۔دراصل ابوالفضل یہ کہناچاہتا
تھا۔ وعلم آدم الاسما کلّھا ۔لیکن ‘‘خوف فساد خلق’’ کے پیش نظر اس نے دوسرے الفاظ میں
اظہار خیال کرنا مناسب جانا۔
اکبر کے علم لدّنی کااندازہ
اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جس پیچیدہ مسئلے کوبڑے بڑے فلسفی سلجھا نہ سکتے
تھے او رجس مشکل کا کئی کئی نکتہ ورمل کر حل تلاش نہ کرسکتے تھے ، اسے اکبر چٹکییوں
میں سلجھا دیتا تھا۔ ابوالفضل رقمطراز ہے۔ ‘‘بمسئلہ ادوقایق نکوم کہ دقیق حرازان کم
تو اند بود توجہ عالی میخاید آنقدرشخن بلند اززبان غیبی ترجمان اوسر میزند مذکہ دانشمندان
روزگار وحکمت پروران تجروشعار کہ عمرہادورو چراغ باذکار عمیق تحقیق نمودہ انداز ادراک
آن تقاعدی مینمایدنکیف کہ خودرا متعنہ جواب پسندیدہ خاطر اشرف گردانند’’۔۱۰۱۔ غالباً حافظ نے اکبر کے
متعلق ہی یہ کہا تھا:۔
نگارمن کہ بمکتب نرفت وحظ
ننوشت
بغمزہ مسئلہ آموز صدر مدرس
شد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۹۹۔
مہا بھارت ، ص ۱۲ ۱۰۰۔
ایضاً
۱۰۱۔
ایضاً ،ص ۸
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ فتح اللہ شیرازی ،جس کی
علمیت کو ابوالفضل ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتاہے کہ اگر علم وفضل کی تمام کتابیں
تلف ہوجائیں تو بھی شاہ فتح اللہ مطلق فکر مند نہ ہوبلکہ وہ اپنے حافظہ سے علم وفضل
کی ایک نئی عمارت کھڑی کردے۱۰۲
وہ اکبر کے متعلق یہ کہا کرتاتھا۔‘‘ اگر درخدمت این اکثرت آرائی وحدت گزین نمی رسیدیم
را ہے بایزدشناسی نمی بردم’’۱۰۳۔
اس جگہ یہ بات ذہن میں رہے کہ شیعوں اور اسمٰعیلیوں کا امام اپنے دور میں اعلم واعقل
ہوتاہے او رمحضر نامہ کی رو سے شیخ مبارک نے اکبر کو اعدل واعقل واعلم باللہ ۔منوالیا۱۰۴۔
جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام
لاعلاج مریضوں پر ہاتھ پھیر کر انہیں چشم زون میں صحت یاب کردیاکرتے تھے، اسی طرح ابوالفضل
کا ‘‘امام عادل’’ بھی پانی پردم کرکے لاعلاج مریضوں کو پلاتا او روہ نوراً صحت یا ب
ہوکر ہنستے کھیلتے اپنے اپنے گھروں کی راہ لیتے تھے۔ ابوالفضل نے اپنے ‘‘ مجتہدمرشد’’
کی اس کرامت کا بارہا مشاہدہ کیا تھا۱۰۵۔
ایک دوسرے موقع پر ابوالفضل
رقمطراز ہے کہ ایک شخص کی زبان کٹ گئی اسے اور تو کچھ نہ سوجھا وہ زبان لے کر شاہی
محل کے دروازے تک پہنچ گیا اور اسے دہلیز پررکھ کرچلاآیا۔ اکبر کی کرامت سے شام ہونے
سے پہلے پہلے اسے نئی زبان مل گئی۱۰۶۔
مندرجہ بالا بیانات کی روشنی
میں اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ شیخ مبارک او راس کے بیٹوں نے شیعی امام
کو جملہ صفات سے اکبر کو متصف کرکے اسے ‘‘امام زمان’’ بناکر لامحدود اختیارات کا مالک
بنادیا۔ ہمارے خیال میں انہوں نے مذہب کی جڑوں پرکلہاڑا چلانیکی جو سازش کی تھی اس
میں وہ پوری طرح کامیاب ہوئے۔ اس سے جہاں ایک طرف علماء ومشائخ کا زور ٹوٹ گیا تو دوسری
طرف شرک وبدعت کا بازار گرم ہوگیا او رحلال وحرام کی تمیز اٹھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۰۲۔
فتح اللہ شیرازی ،ص ۱
۱۰۳۔
مآثر الامراء جلداوّل ،ص ۱۰۲
۱۰۴۔
منتخب التواریخ ،جلد ۲
ص ۲۷۱
۱۰۵۔
مہابھارت ،ص ۱۱۔‘‘
این معنی بکرات مرات مشاہداین کمترین ارباب اردت شدہ است’’۔ ۱۰۶۔ آئین اکبری ،جلد اوّل ص،۱۹۱
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Part: 5 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by
Muhammad Aslam: Part 5 صُوفیائے
خام
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism