محمد اسلم
صُوفیائے خام
علماء سے متنفرہوکر اکبر
صوفیوں کی طرف متوجہ ہوا۔ بدقسمتی سے اس زمانے میں ہندوستان کا روحانی طور پر دیوالیہ ہوچکا تھا او ر ملک بھر
میں ایسا کوئی بزرگ نہ تھا جو عوام کی صحیح رہنمائی کرسکتا۔ گنتی کے جو چند بزرگ
ان دنوں حیات تھے وہ وحدت الوجود کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور ان کا بیشتر وقت
سکر کی حالت میں گذرتا تھا۔ علامہ اقبال مرحوم نے نظریہ وحدت الوجود کو مسلمانوں
کیلئے سمّ قاتل قرار دیتے ہوئے اسے امت مرحومہ کے زوال کا سب سے بڑا سبب بتایاہے۔
شومئی قسمت سے اکبر کے عہد میں وحدت الوجود کا دور دورہ تھا اور صوفیہ اس نظریہ کا
جا بجا پرچار کرتے پھرتے تھے۔
بدایونی رقمطراز ہے کہ
شیخ امان اللہ پانی پتی اس دور کے صوفیوں میں بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے
تھے۔ انہوں نے وحدت الوجود کے موضوع پرکئی کتابیں تحریر کی تھیں اور اسی وجہ سے وہ
عوام میں ‘‘ابن عربی ثانی’’ کے لقب سے مشہور تھے۱۔ شیخ عبدالحق محدّثؒ ان
کے متعلق لکھتے ہیں:۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔منتخب
التواریخ ،جلد۲،
ص ۲۵۸۔‘‘
درعلم توحید ثانی شیخ ابن عربی بود’’۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دی از علمائے صوفیہ موحدہ
است ازتابعان ابن عربی قدس سرہ درعلم این طالفہ مرتبہ بلند داست دور تقریر مسئلہ
توحید بیانی شافی وتقریر وافی وسخن توحید رافاش گفتے و فرمود ے اگرپایہ انصاف
درمیان باشد ازین علم رابر سرمنبر تو ان گفت۲۔
آپ وحدت الوجودی صوفیہ
میں عالم مانے جاتے ہیں اورابن عربی قدس سرہ کے پیرو ہیں وہ وحدت الوجود ی صوفیہ میں علم کے اعتبار
سے بڑا بلند مرتبہ رکھتے ہیں۔ وہ مسئلہ توحید میں کافی مؤثر تقریر کے ماہر تھے اور
توحید کے مسائل صاف صاف بیان کیا کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ آج اگر عدل وانصاف کا
دور دورہ ہوتا تو یہ مسائل منبر پر چڑھ کر بیان کئے جاتے۔
مغلیہ عہد کے مؤرخین ان
کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ اٹھتے بیٹھتے وحدت الوجود کے موضوع پر ہی گفتگو کیا
کرتے تھے ۔شیخ محدّثؒ اخبار الاخیار میں لکھتے ہیں کہ شیخ امان اللہ کا تعلق
ملامتیہ سلسلہ سے تھا۳۔
اس سلسلہ کے فقراء عموماً قیود شریعت سے آزاد ہوتے ہیں، یہی وجہ تھی کہ شیخ موصوف
نماز کے معاملہ میں تساہل برتتے تھے۴۔
ان کی صحبت میں جو لوگ بیٹھتے تھے ان میں مجذوب اور دیوانے بھی شامل ہوتے تھے۵۔ ہرچند شیخ موصوف کا
انتقال اکبر کی تخت نشینی سے چھ سال قبل ہوچکا تھا، لیکن ہنوز ان کے درس کی صدائے
بازگشت ہندوستان کی فضامیں گونج رہی تھی۔
یک باز نالہ کر دہ ام از
درد اشتیاق
ازشش جہت ہنوز صدامیتوان
شنید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۔
اخبار الاخیار، ص ۲۴۱
۳۔
ایضاً ۔‘‘ اودرتصوف مشرب ملامتیہ داشت’’۔
۴۔
ایضاً ،ص ، ۲۴۲۔‘‘
ازوی گاہ گاہی فرض نماز فوت شد’’۔
۵۔
ایضاً
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ امان اللہ پانی پتی
کے تلمیذ الرشید شیخ تاج الدین کا نام ہندوستان میں صوفیوں کے حلقوں میں بڑے
احترام کے ساتھ لیا جاتاہے۔ ان کے حواری انہیں تاج العارفین کے لقب سے یاد کرتے
تھے۔ بدایونی لکھتا ہے کہ ان کی شاہی محل میں بھی آمد ورفت تھی اور اکثر ایسا ہوتا
تھا کہ اکبر رات کو فرصت کے وقت انہیں خلوت میں بلاکر ان سے مسائل تصوف پر گفتگو
کیا کرتا تھا۔ تاج العارفین اس موقع سے فائدہ اٹھا تے ہوئے بادشاہ کو صوفیہ کی
شطحیات سناتے او رملامتیہ طریقہ کے صوفیوں کے حالات ومقامات سے بھی آگاہ کرتے رہتے
تھے۶۔
بدقسمتی سے تاج العارفین کا تعلق صوفیہ کے اس گروہ سے تھا جو تکمیل سلوک کے بعد
شریعت کی پابند ی کو ضروری نہیں سمجھتے ۔بدایونی کا کہناہے کہ شیخ موصوف شریعت کی
قیود سے آزاد تھے اور وہ ایسی ڈگر پر چل نکلے تھے جو ایک سالک کو اباحت اور الحاد
تک پہنچادیتی ہے۷۔
تاج العارفین کا یہ عقیدہ
تھاکہ فرعون دنیا سے باایمان رخصت ہوا تھا۔ وہ اپنے عقیدہ کا اظہار برملا کرتے
رہتے تھے کہ کفار ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں نہیں رہیں گے اوروہ اپنے کئے کی سزا
بھگت کر بالآخر جنت میں داخل ہوجائیں گے۸۔ بدایونی کا بیان ہے کہ وہ بادشاہ کے
سامنے قرآن پاک کی تفسیر وحدت الوجود کے رنگ میں کیا کرتے تھے۔ ان کی باتیں سن سن
کر بادشاہ کے ذہن میں انتشار پیدا ہوا اور اس نے شریعت کے احکام ساقط کردیئے۹۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۶۔
منتخب التواریخ ،جلد ۲،
ص ۲۵۸
۷۔
ایضاً ‘‘ مقدمات وحدت الوجود کہ متصوفہ مبطلہ دارند وعاقبت منجر بابا حت والحاد
میشوودرمیان آدرد’’۔
۸۔
ایضاً
۹۔
ایضاً۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاج العارفین ہی وہ بزرگ
ہیں جنہوں نے اکبر کو‘‘ عین واجب لا اقل عکس واجب’’قرار دیتے ہوئے اس کے لئے سجدہ
تعظیمی کا جواز نکالا تھا۱۰۔
بدقسمتی سے تاج العارفین کا تعلق صوفیہ کے اس گروہ سے تھا جو لاموجودالااللہ کے
نعرے بلند کیا کرتے تھے۔ ان کاکہنا تھا کہ جب اللہ کے علاوہ اورکوئی شے موجود ہی
نہیں ہے تو پھر جو کچھ بھی ہمیں نظر آتاہے وہ اللہ ہی تو ہے۔لہٰذا جب تاج العارفین
اکبر کو دیکھتے تھے تو انہیں اللہ ہی نظر آتا تھا ۔ ان کے نزدیک اس صو رت میں اکبر
کو سجدہ غیر اللہ کو سجدہ نہ تھا۔
تاج العارفین او ران کے
پیر و مرشد شیخ اما ن اللہ پانی پتی جیسے صوفی نے جو شریعت کی قیود سے آزاد اور
ملامتیہ طریقہ کے پیرو تھے ،اکبر کے عہد حکومت میں اسلام کو ضعف پہنچانے میں
نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ حضرت مجدّ د الف ثانیؒ اپنے ایک مکتوب میں رقمطراز ہیں
کہ ۔‘‘ اکثر جہلا ئے صوفی نمامی این زمانہ حکم علما سُؤ دارند فساد این ہانیز فساد
متعدی است’’۱۱۔
شیخ امان اللہ پانی پتی
کی طرح شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ بھی اپنے عہد میں وحدت الوجود ی صوفیوں کے سرخیل
تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے اپنی مسجدمیں نظریہ وحدت الوجود پر درس دیا تو درس کے
اختتام پر ان کے بیٹوں نے ان کے عقائد پر نہ صرف یہ کہ اعتراضات کئے بلکہ ان کے
عقائد سے بیزاری کااظہار بھی کیا۔اس پرشیخ عبدالقدوسؒ بڑے ناراض ہوئے اور ناراضگی
کے عالم میں آپ نے فرمایا ‘‘میں ایسے شہر میں رہنے کیلئے تیارنہیں جہاں کے باشندے
وحدت الوجود پر ایمان نہ رکھتے ہوں’’۱۲۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۰۔
ایضاً ،ص ۲۵۹،
۱۱۔
مکتوبات امام ربّانی ،جلد اوّل ، مکتوب۴۷
۱۲۔
لطائف قدوسی ،ص ۵۹
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ موصوف کے فرزندار
جمند شیخ رکن الدینؒ کا بیان ہے کہ اس واقعہ کے بعد شیخ بزرگ نے ان کی اقتدا میں
نماز پڑھنا ترک کردی اورجب ان سے اس کا سبب پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا،‘‘ میرا
دین او رہے اور تمہارا دین اور’’۱۳۔
ایک بار شیخ عبدالقدوسؒ
کے مرید شیخ جلال الدین تھا نیسریؒ ان سے ملنے آئے جب آپ نے انہیں دور سے آتے
دیکھا توفرمایا۱۴۔
ہمانجاباش! دبگوکہ چہ دین
داری وچہ مشرب داری؟
وہیں ٹھہرو! پہلے تو یہ
بتاو کہ تمہارا دین او رمشرب کیا ہے؟
جب انہوں نے بتایا کہ ان
کا بھی وہی دین او رمشرب ہے جو شیخ کا ہے تو آپ نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا
اور انہیں گلے سے ملے۔
شیخ عبدالحق محدثؒ شیخ
عبدالقدوسؒ کے متعلق لکھتے ہیں کہ آپ‘‘صاحب علم وعمل وذوق وحالت وحلاوت ووجد
دسماع’’ تھے۱۵۔
آپ کے صاحبزادے شیخ رکن الدینؒ لطائف قدوسی میں رقمطراز ہیں کہ ہمارے والد ماجد
اپنی شادی میں عورتوں کی زبان سے ایک ہندی دوہڑاسن کر وجد کے عالم میں آگئے
اورانہوں نے اپنا جامہ عروسی چاک کرڈالا۱۶۔ لطائف قدوسی کے مطالعہ سے یہ بات واضح
ہوتی ہے کہ شیخ عبدالقدوسؒ اکثر سُکر کی حالت میں رہتے تھے اورا س حالت میں اگر
انہیں سماع سننے کا اتفاق ہوتا تو وہ وجد میں آکر رقص کرنے لگتے۔ آپ کی نشست
وبرخاست کے لئے آپ کے صاحبزادے نے گھر کے صحن میں ایک چھپرڈال دیا تھا۔ آپ جب کبھی
وجد میں آکر رقص کرتے تو اس چھپر کو توڑ پھوڑکر رکھ دیتے اور آپ کے صاحبزادے اس کی
مرمت کرتے کرتے عاجز آگئے تھے۱۷۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۳۔
ایضاً، ص ۶۰
۱۴
ایضاً۔
۱۵۔
اخبارالاخیار ،ص ۲۸۵،
۱۶۔
لطائف قدوسی ،ص ۱۲۰
۱۷۔
ایضاً ،ص ۳۲
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان امثال سے یہ بات واضح
ہوجاتی ہے کہ اس دور کے تمام صوفیہ وحدت الوجود کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور ان
کا اکثر وبیشتر وقت سُکر کی حالت میں گذرتا تھا۔ نیز وہ اٹھتے بیٹھتے وحدت الوجود
کے نظریہ کا پرچار کرتے رہتے تھے۔ شیخ امان اللہ پانی پتی کی طرح شیخ عبدالقدوسؒ
کا انتقال بھی اکبر کی تخت نشینی سے پہلے ہوچکا تھا، لیکن ہندوستان کے طول وعرض
میں ان کے خلفاء ان کے مشن کی تکمیل میں لگے ہوئے تھے۔ اخبار الاخیار کی روایت کے
مطابق ان کے خلیفہ اعظم شیخ جلال الدین تھانیسریؒ کا بھی اکثروقت حال وقال کی
محفلوں میں گذرتا تھا۔ شیخ عبدالحق محدّثؒ ان کے متعلق لکھتے ہیں ۔‘‘ ازاول عمر تا
آخر بطاعت وعبادت ودرس ووعظ وذکر وسماع وحالت گذرانید ’’۱۸۔
ڈاکٹر یوسف حسین رقمطراز
ہیں کہ اکبر کے زمانے میں وہ وحدت الوجود کا نظریہ ہندوستان میں عام ہوچکا تھا اور
صوفیہ پر صحو کی بجائے سُکر غالب آگیا تھا۱۹۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اکبر کے دین
الہٰی کا اس نظریہ سے قریبی تعلق تھا۲۰۔
ڈاکٹر تاراچند فرماتے ہیں کہ اس نظریہ کو قبول کرنے سے اکبر پر یہ بات عیاں ہوگئی
تھی کہ خدا کی پرستش کے بہت سے طریقے ہیں او ریہ کہ تمام مذاہب مبنی برحقیقت
ہیں۔جو لوگ اس نظریہ پرایمان رکھتے ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ جب تمام موجودات مظاہر
الہٰی ہیں تو بچھڑے اور ستارے کی صورت میں بھی خداہی کی پرستش ہوگی۔ اس عقیدے کو
جزوایمان بنانے کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ دیگر مذاہب کے پیروؤں کے ساتھ
خوشگوار تعلقات قائم ہوں گے او رانسان میں برداشت کا مادہ پیدا ہوجائے گا۲۱۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۸۔
اخبار الاخیار، ص ۲۸۵
۱۹۔
گھپسزآف دی مڈیول انڈین کلچر،ص ۵۷،
۲۰۔
ایضاً۔
۲۱۔
دی انفلوئنس آف اسلام آن انڈین کلچر، ص ۵۷
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم یہ بتا چکے ہیں کہ
ہندوستان اس عہد میں روحانی طور پر دیوالیہ ہوچکاتھا او راس وقت ملک بھر میں کوئی
مرد خدا اس قابل نہ تھا کہ وہ عوام کی رہنمائی کرسکتا۔ شیح سماء الدین سہروردیؒ
اور شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ عوام الناس میں زیادہ مقبول نہ ہوسکے شیخ محمد غوث
گوالیاریؒ نے ایک کروڑدوام ، سالانہ آمدنی کی جاگیر قبول کرکے بقیہ عمر نغمہ وسرور
کی سرپرستی میں بسر کردی (البتہ ان کے
خلفاء دارالحکومت سے دور گجرات کے ساحلی علاقوں میں عوام کی رشد وہدایت میں مشغول
رہے) شیخ سلیم چشتیؒ کا شہرہ سرکاری حلقوں سے باہر نہ نکل سکا اور وہ ‘‘شیخ حکماء
و شیخ حکام’’ ہی بنے رہے۲۲۔ان
کے صاحبزادے شیخ بدرالدینؒ اکبر کی مذہبی حکمت عملی سے بیزار ہوکر ہندوستان سے
ہجرت کرگئے۲۳۔اس
قحط الرجال کے زمانے میں ملامتیہ سلسلہ کے مجاذیب کا ایک گروہ میدان میں نکل آیا۔
بدقسمتی سے یہ مجذوب شریعت کی قید سے آزاد تھے اور ان کی آزاد مشربی اور خلاف
شریعت حرکات دیکھ کر عوام میں آزاد مشرب او ربے شرع ہوگئے۔ اکبر کے دورحکومت میں
مجاذیب کا وجود ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے عہد کا معاشرہ غیر صحت مند تھا
،کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صحت مند معاشرہ میں مجاذب کا وجود نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۲۔
منتخب التواریخ ، جلد۲،ص
۱۳۶
۲۳۔
ایضاً ،ص
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ شاہی او رمخزن
افغانی کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اکبر کے عہد حکومت میں صحو پرسُکر
غالب آگیا تھا او رملک میں مجاذب کی بھرمار تھی ۔ نعمت اللہ ہروی نے ایسے بے شمار
مجذوبوں کے نام گنوائے ہیں جو اس عہد میں ملک کے طول وعرض میں بے اولاد وں کو
اولاد اورنامرادوں کو مرادیں دیتے پھرتے تھے ۔ ان مجاذیب میں سے میاں قاسم خلیل
،شیخ علی سرمست ،شیخ حمزہ، شیخ جمال کاکر، علی مجذوب ، شاہ محمد، شیخ منگی، شیخ دتوشروانی اور شیخ
عارف قابل ذکر ہیں۲۴۔مفتی
محمد سرور نے شاہ حسین لاہوری کا شمار بھی مجاذیب میں ہی کیا ہے۲۵۔ اس کے علاوہ شیخ
عبدالحق محدّث نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف اخبار الاخیار کے خاتمہ پرکئی مجذوبوں کا
ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ایک مجذوب علاء الدین سامانہ کے رہنے والے تھے۔ گو ان کا
انتقال اکبر کی تخت نشینی سے پہلے ہوچکا تھا تاہم ان کے قصے سامانہ کے لوگوں کی
زبان پر تھے۲۶۔شیخ
محدّثؒ نے ایک اور مجذوب شیخ حسن کا ذکر بڑے احترام کے ساتھ کیا ہے ، یہ بزرگ
سلطان سکندرلودھی پر عاشق ہوگئے تھے۲۷۔
اسی طرح دہلی میں شیخ عبداللہ ابدال نام کے ایک مجذوب رہتے تھے جو رشتہ میں صاحب
اخبار الاخیار کے دادا کے بھانجے ہوتے تھے۔ یہ بزرگ دہلی کے بازاروں میں ہندی
ودہڑے گاکر رقص کامظاہرہ کیا کرتے تھے۲۹،
میاں مونگر بھی اس عہد کے مجاذیب میں بڑا
اونچا مقام رکھتے تھے، شیخ محدّث کا کہنا ہے کہ وہ جذبہ قوی رکھتے تھے۳۰۔ بابا کپور مجذوب کالپی
کے رہنے والے تھے لیکن بعد میں انہوں نے گوالیار میں سکونت اختیار کرلی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۶۔
اخبار الاخیار، ص ۲۸۸
۲۷۔
ایضاً ،ص ۲۸۹۔‘‘
باسلطان سکندر لودھی عشق می باخت’’۔
۲۸۔
ایضاً ،ص ۲۹۰
۲۹۔
ایضاً۔
۳۰۔
ایضاً،ص ۲۹۱
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اکثر استغراق کے عالم
میں رہتے تھے او رکبھی کبھی بابا طاہر عریاں کی سنت پر بھی عمل کرلیتے تھے۳۱۔ اجمیر میں بایں نامی
ایک مجذوب کا سکّہ چلتا تھا اورنارنول کی گلیوں میں الہ دین مجذوب ہو حق کے نعرے
لگاتے پھرتے تھے۳۲۔
مانڈو میں شاہ منصور مجذوب ۔‘‘ صاحب کشف جلی وتصرف باطن ’’۔ مانے جاتے تھے۳۳۔ سوبھن نام کے ایک
مجذوب کے متعلق شیخ محدّثؒ لکھتے ہیں کہ وہ اکثر چونے کے ڈھیڑوں میں کوٹتے رہتے
تھے اور جب بھوک ستاتی تو مٹھیاں بھر بھر کر چونہ کھانے لگتے۔اس بزرگ کے متعلق
روایت ہے کہ وہ ایک ہی سانس میں بھری ہوئی مشک پی لیتے تھے۳۴۔ لاہور میں شیخ یوسف
نام کے ایک مجذوب رہتے تھے، جنہیں عوام ۔‘‘صاحب کشف جلی داشراق باطن’’۔ سمجھتے تھے۳۵۔
ملاّ نظام الدین احمد نے
فتح پور کے ایک مجذوب سید صالح کا ذکر طبقات اکبری میں کیاہے، ان کا خیال ہے کہ یہ
بزرگ ۔خالی ازجذبہ نبود۔۳۶۔
اسی طرح شیخ ماکھو نام کے ایک مجذوب آگرہ میں رہائش پذیر تھے اور وہ بڑی عجیب
وغریب باتیں کیا کرتے تھے۳۷۔
ان کے علاوہ آگرہ میں تین او رمجذوب ، شیخ منوّر ، شیخ علاء الدین اور شیخ حسین
بھی عوام کی توجہ کے مرکز تھے۳۸۔
الور میں سید مبارک نام کے ایک مجذوب کا سکّہ چلتا۳۹تھا او رگوالیار میں ان
کے ایک ہم نام مجذوب صاحب باطن مانے جاتے تھے۴۰۔ گڈھ مکستیسر میں سید
احمد عید روسی اور شیخ الہٰ بخش نام کے دو مجذوب رہتے تھے۴۱۔ سند ھ میں لائے نامی
ایک مجذوب کے کشف وکرامت کا بڑا شہرہ تھا۴۲۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۴۔
ایضاً ،ص ۲۹۴ ۳۵۔ ایضاً۔ ۳۶۔ طبقات اکبری ،ص ۲۹۴۔
۳۷۔
ایضاً ۳۸۔ ایضاً، ص ۳۹۴،۳۹۵
۳۹۔
ایضاً،ص ۳۹۴ ۴۰۔ ایضاً
۴۱۔
ایضاً۔ ۴۲۔ ایضاً ،ص ۳۹۵
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بڑے افسوس کا مقام ہے
کہ عوام جن مجاذب کو قطب اور غوث سمجھتے تھے ان کی اکثریت عشق مجازی میں گرفتار
تھی۔تاریخ شاہی کے مصنف نے ان کے عشق کی داستانیں بڑے مزے لے لے کر بیان کی ہیں۔
شاہ حسین لاہوری اور مادھو کا عاشق اس مقام تک پہنچا ہوا تھا کہ وہ ایک جان دوقالب
کے بجائے ایک جان وایک نام بنے ہوئے ہیں۴۳۔ ہمایوں کے منہ بولے بیٹے شاہ ابوالمعالی
کے بھائی خانزداہ کو بدایونی نے جو کیریکٹر سرٹیفکیٹ دیا ہے اس میں‘‘ شاہ لوندان
’’ کا لقب قابل غور ہے۴۵۔
کالپی کے ایک سید زادے موسیٰ کو ایک ہندوسناری سے عشق ہوگیا تھا، بدایونی نے ان کے
عشق کی داستان سات صفحات میں تفصیل کے ساتھ پیش کی ہے۴۶۔ اسی طرح شیخ محمد غوث
گوالیاریؒ کے ایک قریبی عزیز ایک مطربہ پر فریضۃ ہوگئے تھے۔ جب ان کے احباب نے
انہیں لعنت ملامت کی تو انہوں نے اپنے پیٹ میں خنجر گھونپ کر خود کشی کرلی۴۷۔ ملا عبدالقادر بدایونی
جو خود کو‘‘امام اکبر شاہ’’ کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے، شادی شدہ ہونے کے
باوجود مکن پور میں ایک لڑکی پر عاشق ہوگئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۳۔
لاہور میں شاہ حسین کو عوام مادھولا ل حسین کے نام سے پکارتے ہیں۔
۴۴۔
منتخب التواریخ ،جلد ۲،ص
۲۰۔
۴۵۔
ایضاً ، ص ۵۸۔‘‘
برادرش خانزادہ نامی کہ اور اشاہ لوندان نیز میگفتند۔۔’’
۴۶۔
ایضاً ،ص ۱۱۰۔۱۱۷
۴۷۔
ایضاً ،ص ۱۱۹۔۱۲۰۔
۴۸۔
ایضاً ،ص ۳۱۲۔‘‘
زنان بسیار نگاہد شتہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نیک بخت کے لواحقین کو
جب اس بات کا علم ہوا کہ ان کی دختر نیک اختر ایک ملّا سے عشق فرمارہی ہے تو وہ
ملّا صاحب کو قتل کرنے کے ارادہ سے مسلح ہوکر آگئے انہوں نے ملّا صاحب کے جسم
ناتواں پرنوزخم لگائے، یہ بڑے سخت جان تھے جو بچ نکلے، ورنہ ان اشقیاء نے اپنی طرف
سے انہیں شہید کرنے میں کوئی کسر باقی نہ اُٹھارکھی تھی۴۹۔ ہم اور کہاں تک تفصیل
میں جائیں بس یہی سمجھ لیجئے کہ آوے کا آواہی بگڑا ہوا تھا۔
اکبر اگرچہ علماء سے بدظن
ہوچکا تھا لیکن صوفیہ پر وہ بڑا حسن ظن رکھتا تھا۔ وہ یہ سمجھتاتھا کہ یہ طبقہ تو
ہمیشہ یاد حق میں مشغول رہتا ہے او رماسوا کا تصور ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتا ۔
اس کے اس حسن ظن سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے چند نام نہاد او رپیشہ ور پیروں نے فتح
پور سکری آکر ‘‘ دکان تصوف ’’ آراستہ کرلی۵۰۔
سب سے پہلے شیخ عبدالعزیز
کے خلیفہ اعظم شیخ چانیلدہ فتح پور سیکری پہنچے او رانہوں نے عبادت خانہ میں نماز
معکوس شروع کردی۔ انہیں پیشن گوئیاں کرنے کا بڑا شوق تھا اور جب انہیں یہ خبر ہوتی
کہ بادشاہ کی فلاں حرم امید سے ہے تو وہ یہ اعلان کردیتے کہ اسے لڑکا پیدا ہوگا
۔لیکن ہر بار ان کی پیشن گوئیاں جھوٹ ثابت ہوتی۵۱۔ شیخ کی ان پیشنگوئیوں
نے بادشاہ کے اعتقادات کو بہت ٹھیس پہنچائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۹۔
ایضاً،ص ۱۳۷
۵۰۔
ایضاً ،ص ۲۸۶
۵۱۔
ایضاً
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب انہیں معلوم ہوا کہ ان
دنوں دربار شاہی میں صوفیہ کی پانچو ں انگلیاں گھی میں ہیں تو وہ بھی فتح پور سکری
آدھمکے اور یہاں آتے ہی اپنی ‘‘دکان’’ سجائی ، اس کی بعض نازیبا حرکات ۔‘‘ باعث بی
اعتقادی از مشائخ سلف شدند’’ ۵۲۔
ایک بار بادشاہ لاہور آیا
ہوا تھا ، یہاں اس کی ملاقات شیخ کمال بیابانی سے ہوئی۔ اس کے متعلق یہ مشہور
تھاکہ وہ پلک جھپکنے میں راوی پارکر جاتاہے اور دوسرے کنارے سے باقاعدہ آواز لگا
کر اسی لمحے واپس لوٹ آتا ہے۔بادشاہ کو لوگوں کی اس بات پر یقین نہ آیا تو وہ شیخ
کو ایک طرف لے جاکر کہنے لگا کہ سچ سچ بتاؤ کہ یہ کیا ماجرا ہے ، اور اگر تم نے
اخفائے راز کی کوشش کی تو میں تمہارے ہاتھ پاؤں بندھوا کر دریا میں پھنکوا دوں
گااو رپھر تمہاری ‘‘کرامت’’ مشاہدہ کروں گا ۔شیخ نے اپنی جان جاتی دیکھی تو بادشاہ
کو بتایا کہ اس کا ایک بیٹا ،جس کی آواز ہوں بہو اس سے ملتی ہے ، دریا کے پار کسی
جھاڑی میں چھپا رہتا ہے ۔اور ادھر یہ دریا کے کنارے کسی جھاڑی میں چھپ جاتاہے
اُدھر آواز دیتا ہے کہ اسے فلاں تم واپس چلے جاؤ۔ جب بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ وہ
اس طرح لوگوں کو کیوں دھوکا دیتاہے تو اس نے اپنا کرتہ اٹھاکر پیٹ کی طرف اشارہ
کیا۵۳۔
بادشاہ کو اس کی اس مقدس صورت کے ساتھ یہ شعبدہ بازی کچھ پسند نہ آئی اور وہ دوسرے
صوفیہ کو بھی شعبد باز ہی سمجھنے لگا۔
شیخ کمال بیابانی نے ایک
رات خانخانان کی موجودگی میں اپنی ‘‘کرامت’’ کامظاہرہ کیا او راپنے بدن کے تمام
حصے الگ الگ رکھا کراسے اپنا معتقد بنا لیا ۔بدایونی لکھتاہے کہ شیخ کمال بیابانی
کا بیٹا شعبدہ بازی میں اپنے باپ پر بھی گوئے سبقت لے گیا تھا۔ خانخانان کی یہ
عادت تھی کہ وہ اپنے ہاتھ میں ہمیشہ سونے کی ایک گیند رکھتاتھا، جب اسے اس بات کا
علم ہوا تو اس نے اسی وزن کی پیتل کی ایک گیند بنواکر اس پر سونے کا ملمع کروالیا
اور موقع کا متلاشی رہا۔ ایک روز خانخانان دریا کی سیر کوگیا تو اس نے اس کی آمد
سے پہلے وہ گیند دریا کی تہہ میں چھپادی او ریوں بولنا شروع کیا جیسے وہ کسی سے
باتیں کررہا ہو۔ جب خانخانان کاادھر سے گذرہوا تو اس نے کہا کہ حضرت خضر علیہ
السلام کو دعا دیتے ہیں او ریہ گیند ملاحظہ فرمانا چاہتے ہیں۔ خانخانان نے وہ گیند
اس کے ہاتھ میں تھمادی ۔ اس نے فوراً دریا میں غوطہ لگایا اور یہ گیند پانی کے تہہ
میں چھپا کر پیتل کی گیند باہر نکال لایا۵۴۔ جب اس گیند کی حقیقت معلوم ہوئی تو شیخ
زادہ کی شعبدہ بازی کا چرچا دور دور تک پھیل گیا ۔ ایسی باتوں سے اکبر کے مذہبی
جذبات کو ایک دھچکا لگا او روہ ان کے کرتوت دیکھ کر سلف سے بھی بدظن ہوگیا۔
اکبر کے عہد کے بگڑے ہوئے
معاشرہ میں سجادہ نشینوں او رنام نہاد روحانی پیشواؤں کی حالت عوام کی نسبت کہیں
زیادہ ناگفتہ ہورہی تھی ۔ اس کے ایک ہم عصر بزرگ اخونددرپوزہؒ اپنی مشہور تصنیف
ارشاد الطالبین میں اس عہد کے سجادہ نشینوں کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:۔
ْخصوصاً درین زمانہ نساد
کہ اکثر آدم صورت وشیطان سیرست برسجادہ پدروپدر کلان خود نشستہ آمد۵۵۔
خاص طور پراس زمانہ فساد
میں اکثر انسان صورت اور شیطان سیرت لوگ اپنے باپ اور دادا کی مسندوں پر براجمان
ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۵۴۔
ایضاً ،ص ۳۶۷۔۳۸۶
۵۵۔
ارشاد الطالبین ،ص ۲۹۹۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے ہی پیشہ ور صوفیوں
نے اس عہد میں عوام کا اخلاق بگاڑ نے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔حضرت مجدّدالف
ثانیؒ کی یہ تحریر ہم پہلے بھی درج کرچکے ہیں جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ ‘‘اکثر
جہلائے صوفی نمائی این زمانہ حکم علماء سُؤ دارند فساد این ہانیز فساد متعدی است’’۵۶۔
شیخ زادہ گوسالہ بنارسی ،
ملّا شاہ محمد شاہ آبادی اور صوفی احمدمطرب کاشمار ایسے ہی جہلائے صوفی نمامیں
ہوتا ہے جو حلوہ وبرنج کی تمنالے کر دارالحکومت پہنچے اور‘‘مراتب اخلاص چہار
گانہ’’ طے کرکے اکبر کے مریدوں میں شامل ہوگئے ۔بدایونی کا بیان ہے کہ اکبر کے
مرید ہوتے ہی وہ اپنی ڈاڑھیاں منڈواکر ‘‘جردمرد’’ ہوگئے۵۷۔ ان کی دیکھا دیکھی
دوسروں نے بھی ان کی متابعت شروع کردی۔
اخونددربوزہؒ نے اپنی ایک
دوسری تصنیف ۔‘‘ تذکرۃ الابراروالاشرار’’۔ میں ایسے بے شمار صوفیوں کا ذکر کیا ہے
جو پہلے خود گمراہ ہوئے اور پھر انہوں نے دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ ‘‘اشرار’’ میں
سے ایک ‘‘شریر’’ پیر طیّب نامی ایک افغان تھا جو مسئلہ آواگون کا پرچار کیا کرتا
تھا۵۸۔
اسی طرح ایک نام نہاد پیر ملّا عبدالرحمن قیامت کا منکر تھا۵۹۔ اخونددریوزہؒ نے ایک
اور ‘‘شریر’’ الیاس افغان کا ذکرکیا ہے، وہ برہمنوں کی طرح زنا ر پہنا کرتا تھا۶۰۔ اسی طرح محمد ضیاء
نامی ایک افغان پیر تناسخ پر ایمان رکھنے کے علاوہ ‘‘ اباحت’’ کا پرچار بھی کیا
کرتاتھا۶۱۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۵۶۔
ایضاً۔ مکتوبات امام ربّانی ،جلد اوّل ،مکتوب ۴۷،
۵۷۔
منتخب التواریخ ،جلد ۲،
ص ۴۰۴
۵۸۔
تذکرۃ الابراروالاشرار ، ص ۱۴۲
۵۹۔
ایضاً ،ص ۱۷۰
۶۰۔
ایضاً ،ص ۱۶۵
۶۱۔
ایضاً ،ص ۱۷۱
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی دیکھا دیکھی ولی
نامی ایک افغان پیر نے تناسخ کا پرچار کرکے بے شمار لوگوں کو گمراہ کردیا ۔ اس کے
متعلق اخونددریوزہؒ رقمطراز ہیں کہ پہلے اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور جب کچھ لوگ
اس کے دام عقیدت میں پھنس گئے تو وہ خود کو خدا کہلانے لگا۶۲۔ ان پیروں او رمتنبیوں
کی دیکھا دیکھی غرغشی قبیلہ کے ایک افغان کریمدار نے بھی ایسے ہی دعوے کرکے کافی
لوگوں کو راہ راست سے بھٹکا دیا۶۳۔
ٹھیک اسی زمانہ میں خراسان سے پیر پہلو ان نامی ایک شخص
غالب ندیم دوست آتی ہے
بوے دوست
مشغول حق ہوں بندگی
بوتراب میں
گنگنا تا ہوا آیا او
رچکدرہ کے نواح میں آباد ہوگیا۔ اخوند وریوزہؒ فرماتے ہیں کہ اس نے افغانوں میں‘‘
علی پرستی’’ شروع کروا کے نماز او رروزے منسوخ کردیئے او راپنے مریدوں کے لئے زنا
اور شراب کو حلال کردیا۶۴۔
اسی زمانہ میں محمد زئی قبیلہ کے ایک فرد شیخ یوسف نے طریقہ ابا حتیہ اپنا لیا۶۵۔ 981 ہجری میں جب اکبر
کے حواری اسے ‘‘صاحب الزمان’’ کہہ کر مخاطب کررہے تھے، مراد نامی ایک شخص نے آزاد
قبائل کے علاقے میں مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا۶۶۔ نبوت کا دعویٰ اس نے
غالباً اس لئے نہیں کیا تھاکہ اس سے ذرا پہلے محمود نامی ایک ایرانی ایسا دعویٰ
کرچکاتھا۶۷۔
جس طر ح خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے بعینہ مندر انام کے ایک افغان
قبیلہ کے بہت سے افراد نے قطب اور غوث ہونے کے دعوے کئے ، ان میں سے ملّا میرونامی
ایک‘‘ قطب ’’ یہ کہا کرتا تھاکہ عرش کے اوپر ایک فرش ہے او را س پر ایک بہت بڑا
پتھر رکھا ہوا ہے،اس پتھر کے اوپر ایک بہت بڑا خیمہ تناہوا ہے جس کے سترہزار
دروازے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۶۲۔
ایضاً ،ص ۱۶۳،
۶۳۔
ایضاً،ص ۱۶۴
۶۴۔
ایضاً ،ص ۱۶۲،
۶۵۔
ایضاً،ص۱۷۱،
۶۶۔
تاریخ الفی ، ورق ۴۸۷۔
۶۷۔
ایضاً
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس خیمہ کے اندر ایک تخت
رکھا ہوا ہے جس پر خدا بیٹھتا ہے۔ وہ اپنے مریدوں سے کہا کرتا تھا کہ یہ ایک
‘‘راز’’ ہے جسے علماء نہیں جانتے۶۹۔
خداجانے علی العرش استویٰ کی یہ تفسیر اس ‘‘ دانائے راز’’ کی اختراع تھی یا اس نے
یہ نظریہ الکرامیہ سے مستعارلیا تھا۔ الشہر ستانی اور امام ابن تیمیہؒ دونوں کا یہ
خیال ہے کہ الکرامیہ تجسیم کے قائل ہیں۷۰۔ بعض علماء کا یہ بھی کہناہے کہ
الکرامیہّ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے تخت پر آلتی پالتی مارے بیٹھا ہے۔
استاد گرامی پروفیسر خلیق احمد نظامی کا یہ خیال ہے کہ جن علاقوں میں الکرامیہ کا
مذہب پھیلا وہاں پہلے بدھوں کی اکثریت تھی اور وہ مہاتما بدھ کی ایسی مورتیوں کی
پوجا کیا کرتے تھے جن میں مہاتما بدھ آلتی پالتی مارے بیٹھا دیکھایا گیا ہے۔ جب
یہی لوگ الکرامیہ فرقہ کے مبلغین کی سعی سے مسلمان ہوئے تو ان کے ذہنوں میں خدا کا
وہی تصور قائم رہا۷۱۔
افغانستان اورا س سے ملحقہ علاقوں میں الکرامیہ کی موجودگی کا پتہ طبقات ناصری سے
بھی لگتا ہے ۔منہاج سراج جزجانی کا کہنا ہے کہ پہلے سلطان غیاث الدین غوری اور
سلطان محمد غوری بھی اسی فرقہ کے پیرو تھے بعدازاں بڑے بھائی نے شافعی مذہب او
رچھوٹے بھائی نے حنفی مذہب قبول کرلیا۷۲۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۶۹۔
تذکرۃ الابرار والاشرار،ص ۱۶۸۔‘‘علماء
را از وخبر نیست’’۔
۷۰۔
الملل والنحل ،جلد اوّل ،ص ۱۰۹،
ii کتاب الایمان ،ص ۵۷
۷۱۔
سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات ،ص ۱۳
۷۲۔
طبقات ،ناصری ۔ص ۷۷
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ
غور کے باشندے الکرامیہ مذہب کے پیرو تھے او ربعد میں انہوں نے دوسرے فرقوں کے
عقائد اپنائے تھے۔ تاہم یہ عین ممکن ہے اس مذہب کے ماننے والے اِکّا دُکّا لوگ
افغانستان اور آزاد قبائل میں اکبر کے زمانے میں بھی موجود ہوں۔
ان اشرار میں غالباً سب
سے زیادہ ‘‘شریر’’ پیرروشن تھا، جسے عہد مغلیہ کے مؤرخ ‘‘پیر تاریک’’کے نام سے یاد
کرتے تھے ۔وہ مشرق پنجاب کے مشہور شہر جالندھر میں افغانوں کے آخری دور حکومت میں
پیدا ہوا تھا۷۳۔مغلوں
کے ابتدائی ایّام حکومت میں وہ اپنی ماں کے ساتھ آزاد علاقے میں چلا گیا،لیکن ہوش
سنبھالتے ہی حصول تعلیم کے لئے وہ دوبارہ ہندوستان آیا۔ اس زمانے میں جالندھر میں
ملّا سلیمان نامی ایک اسمٰعیلی کے درس کا بڑا شہرہ تھا۷۴۔پیرروشن نے اس کے مدرسہ
میں داخلہ لیا او راسمٰعیلی اُستاد کی صحبت میں رہ کر عجیب وغریب عقائد اپنالئے
۔تعلیم سے فارغ ہوتے ہی پیرروشن آزاد علاقے کی طرف لوٹ گیا۷۵۔محسن فانی کے قول کے
مطابق اس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ نبی ہے او را س پر وحی نازل ہوتی ہے۷۶۔علاوہ ازیں پیر روشن کے
خیال میں نماز میں قبلہ کی طرف رخ کرنا ضروری نہ تھا۷۷۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۷۳۔
اسے قیوفیزز آف دی افغانزان جالندھر بستیز ،ص ۴۲
۷۴۔
ایضاً ، ii ۔دی سپرٹ آف اسلام
،ص ۳۴۳،۳۴۴
۷۵۔
اسے فیوفیز آف دی افغانزان جالندھر بسیتز ،ص ۴۲
۷۶۔
دبستان مذاہب ،۲۴۸،۲۵۰
۷۷۔
ایضاً ،ص ۲۵۰
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح اس نے غسل جنابت
منسوخ کرکے سرد علاقوں میں رہنے والے افغانوں کو ایک بڑی مشکل سے نجات دلائی ۷۸۔ اخونددریوزہؒ کے بیان
کے مطابق ‘‘ این ملعون برعقیدہ مذہب تناسخ رفتہ بود’’۷۹۔ اس کے علاوہ پیرروشن
‘‘دزدی ورہزنی راپیشہ گرفتہ فقراء مسافر ان رامی کشت ، خون ہائے ایشان ومالہائے
ایشان واحلال می داشت ’’۸۰۔
اس کے ہم قوم افغانوں کو اس کی تعلیمات میں فائدے ہی فائدے نظر آئے اوران کی
اکثریت اس کی طرفدار ہوگئی ۔ اس نے اپنے ماننے والوں کی‘‘ہدایت’’ کے لئے خیر
البیان نامی ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ اخوند صاحبؒ اس کتاب کو اپنی تحریروں میں
‘‘شرالبیان ’’ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ آپ نے اپنی تحریر وں میں پیرروشن او را س
کی تحریک کے بخئے ادھیڑ کر رکھ دیئے ہیں۔
تذکرۃ الابرار والا شرار
او رمخزن اسلام اخوند دریوزہؒ کی مشہور تصانیف ہیں اور ان میں آپ نے اپنے عہدکے
تمام ملحدوں کے نظریات کی تکذیب کرتے ہوئے مسلمانوں کو ان کی صحبت سے بچنے کی تلقین
کی ہے۔ آپ ہی وہ بزرگ ہیں جنہوں نے آزاد قبائل میں فتنہ ارتداد اور الحاد کو بڑھنے
سے روکا۔آپ مخزن اسلام میں تحریر فرماتے ہیں۔‘‘ یقین می باشد کہ اگر فقیر را
درمیان نمی بود ازافغانان یوسف زئی کسے مسلمان نمی ماند’’۸۱۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۸۱۔
ایضا۔
۸۲۔
تذکرۃ الابرار ولا شرار، ورق ۱۲۵
۸۰۔
ایضاً
۸۱۔
مخزن اسلام، ورق ۲
الف ترجمہ:۔ یقین مانئے اگر یہ فقیر
وہاں نہ ہوتا تو یوسف زئی پٹھانوں میں سے کوئی بھی مسلمان نہ رہتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تھی سولہویں صدی کے
اختتام پر ہندوستان کی مذہبی فضا ، جس میں اکبر دین اسلام سے برگستہ ہوا اور اس نے
بھی اس ماحول کو سازگار دیکھتے ہوئے دوسروں کی دیکھا دیکھی ایک نئے دین کی طرح
ڈالی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism