محمداسلم
قسط ۱۵
اکبر نے کیا پایا
بدایونی رقمطراز ہے کہ
اکبر کے اوائل عمر ہی سے ہندوؤں کے ساتھ بڑے گہرے مراسم تھے،۱۔ او ران کی صحبت میں
رہتے ہوئے اکبر نے ہندوؤں کی بہت سی رسمیں اپنالی تھیں۔ بیریر، دیوی اور پرکھوتم
جیسے ہندو فضلا ء نے اکبر کے ذہن میں یہ بات بٹھادی تھی کہ سؤر (نعوذ باللہ) خدا
کا مظہر ہے کیونکہ خدا نے ایک بار (ثم نعوذباللہ) سؤر کے روپ میں اوتار لیا تھا،
اس لئے ہر صبح اس کا درشن کرنا باعث سعادت
ہے۲۔
حصول سعادت کی خاطر اکبر نے اپنی خوابگاہ کے نیچے سؤر خانہ قائم کیا۔ بدایونی
لکھتاہے کہ اکبر صبح کے وقت سب سے پہلے سؤر کے درشن کرتا اور اسے عبادت سمجھتا تھا۳۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔
منتخب التواریخ جلد۲،
ص ۱۶۱۔
شاہنشاہی را از صغر سن باز بطوائف مختلف از براہمہ وباد فروشاں وسایر اضاف ہندوان
ربطی خاص والتفاتی تمام است۔
۲۔
ایضاً ،ص ۳۰۵ ۳۔ ایضاً
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئین اکبری میں ایک باب
۔۔آئین دیدن گاؤ ۔۔ کے عنوان سے موجود ہے۔اس آئین کے ضمن میں ابوالفضل لکھتاہے کہ
بادشاہ ہر بدھ کے روز، نیز دیوالی او رہندوؤں کے دوسرے تہواروں اور جشنوں کے موقع
پر گائے کے درشن کرنا باعث سعادت سمجھتا تھا۴۔ابوالفضل اس کا عینی
شاہد ہے کہ اکبر کے محل میں بدھ کا دن اسی۔۔ دایۂ روزگار ۔۔کے درشن سے شروع
ہوتاتھا۵۔
ابوالفضل کی ایک اور روایت سے بھی یہ ثابت ہوتاہے کہ بادشاہ نے اس نیک مقصد کی
خاطر ۔۔گاؤ خانہ خاصہ ۔۔بھی قائم کیا تھا جہاں درشنی گائیں رکھی جاتی تھیں۶۔ بدایونی کا بیان ہے کہ
راجہ دیپ چند منجولہ نے یہ بات اکبر کے ذہن نشین کردی تھی کہ ۔۔اگر گاؤ نزدحق
تعالیٰ معظم نبودی دراوّل قرآنی چراند کور شدی ۷۔ اس کا ایک اثر تو یہ
ہوا کہ بادشاہ گائے کے ساتھ ساتھ اس کے گوبر کو بھی پوّتر ماننے لگا۸۔ او ردوسرا یہ کہ اس نے
ایک شاہی فرمان کی رُو سے گائے او ربھینس کے ذبیحہ کی ممانعت کردی اور یہ بات
کوتوال کے فرائض میں شامل کردی کہ وہ ا س بات کا خاص خیال رکھے کہ اس کے حلقہ
اختیار میں گائے یا بھینس ذبح نہ ہونے پائے ۹۔ ابوالفضل لکھتاہے کہ
قصائی ،ماہی گیر اور صیّاد مقہور ومردود قرار پائے اور بادشاہ نے یہ فرمان جاری
کیا کہ انہیں علوم سے الگ تھلک رکھا جائے او رجو ان کے ساتھ کھانے میں شریک ہو اس
کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۱۰۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۔
آئین اکبری، جلداوّل ،ص ۹۵
۵۔
ایضاً۔
۶۔
ایضاً ،ص ۱۷۸۔۱۷۹
۷۔
منتخب التواریخ ، جلد ۲،ص
۲۱۱
۸۔
ایضاً ،ص ۲۶۱
۹۔
آئین اکبری ،جلد اوّل ،ص ۳۴۹
۱۰۔
ایضاً۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابولفضل اس بات پرگواہ ہے
کہ اکبر نے خود بھی گوشت کھانا ترک کردیا تھا۔ اکبر کے تیسویں سال جلوس میں جب
ابوالفضل مہابھارت کا دیباچہ لکھنے بیٹھا تو اس وقت اکبر کو گوشت کھائے ہوئے سات
ماہ گذر چکے تھے۱۱۔
ابوالفضل لکھتاہے کہ ہمارے بادشاہ کایہ قول ہے کہ ۔معدۂ حودراجہ خمۂ گاہ جانوران
ساختن سزا دارنبود۱۲۔
یہ بھی ابوالفضل کی ہی روایت ہے کہ بادشاہ نے اپنے مریدوں کو یہ حکم دیا تھاکہ وہ
اپنی ولادت کے مہینے میں گوشت خوری سے مکمل اجتناب کریں۱۳۔ اکبر کے عہد میں یہ
بات کوتوال کے فرائض میں داخل تھی کہ وہ اس بات کا خاص خیال رکھے کہ ماہ آبان ،ماہ
فروردین، سورج گرہن کے دن اور اتوار کے روز ہر قسم کے ذبیحہ کو روکے ۱۴۔
اکبر کو ہندو سنیاسیوں
اور جوگیوں کی صحبت بہت مرغوب تھی۔ اسلئے ان سے حصول قرب کی خاطر اکبر نے آگرہ کے
نواح میں جوگی پورہ کے نام سے ایک بستی آباد کی جہاں ان کی خاطر مدارات اور
خوردونوش کا خاص اہتمام کیا جاتاتھا۱۵۔بدایونی
کی روایت ہے کہ بادشاہ اکبر رات کے وقت ان جوگیوں کی خدمت حاضر ہوکر ان سے ہندوؤں
کے عقائد ، ویدانت کے مسائل او رسلوک ومُراقبہ کے طریقے سیکھا کرتا تھا۱۶۔ ان جوگیوں نے اسے
کیمیا گری کے راز بھی بتائے او راس کے ساتھ ساتھ اس کے ذہن میں یہ بات بھی بٹھادی
کہ اگر وہ ان کے اصولوں پر چلے تو اس کی عمر ہزار سال تک ہوسکتی ہے۱۷۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۱۔
مہابھارت ،ص ۱۳
۱۲۔
آئین اکبری، جلد۳،ص
۳۰۳
۱۳۔
ایضاً ، جلداوّل ،ص ۱۹۲
۱۴۔
ایضاً،ص ۳۵۰
۱۵۔
منتخب التواریخ جلد۲،
ص ۳۲۴
۱۶۔
ایضاً۔
۱۷۔ایضاً
،ص ۳۲۵
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدایونی کاکہنا ہے کہ
اکبر زیادہ عرصہ تک زندہ رہنے کی خاطر ان کے بعض اصولوں پر عمل بھی کرنے لگا تھا۱۸۔
برہمنوں نے اکبر کو یہ
باور کروا دیا تھا کہ وہ رام اور کرشن کا اوتار ہے۱۹۔ ہمارے خیال میں جب
اکبر کے عہد میں رامائن کا فارسی میں ترجمہ ہوا او ررام چندر کا قصہ ایک بار پھر
شمالی ہندوستان میں مقبول ہوا تو اکبر نے بھی ہندوؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر
رام چندر کی طرح ایک مثالی حاکم بننے کی کوشش کی ۔ اکبر نے اپنے سکوں پرکلمہ طیبہ
کی بجائے رام چندر کی تصویر مضروب کروائی۔ اب چاہے یہ سمجھ لیجئے کہ وہ واقعی رام
چندر کی تصویر تھی یا یہ سمجھ لیجئے کہ وہ اکبر ہی تھا جو رام چندر کے روپ میں
تھا۔ اکثر واقات اکبر اپنی حرکات سے بھی خود کو ہندوؤں کا ایک اوتار ظاہر کرتاتھا۔
قارئین کرام کو یا د ہوگا کہ جب راجہ ٹوڈر مل کے بت چوری ہوئے اور اس نے کھانا
پینا ترک کردیا تو اکبر نے اس سے یہ کہلا بھیجا تھا کہ بتوں کی چوری کا غم نہ کرو،
میں جو یہاں موجود ہوں، میرے درشن کرکے بھوجن کرلو۔
ہندوؤں او رنقطویوں کی
صحبت میں رہتے ہوئے اکبر سورج کی بڑی تعظیم کرنے لگا تھا۔ابوالفضل کا بیان ہے کہ
اکبر اکثر کہا کرتاتھا کہ سورج بادشاہوں کا خاص مُربی ہے اس لئے اس کی تعظیم
بادشاہوں پر واجب ہے۲۰۔
بدایونی کی روایت ہے کہ اکبر علی الصبح سورج کی طرف منہ کرکے کھڑا ہوجاتا اور
سنسکرت زبان میں سورج کے ایک ہزار ایک ناموں کا ورد کرتا۲۱۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۸۔
ایضاً۔ ۱۹۔ ایضاً، ص ۳۲۶
۲۰۔
آئین اکبری ،جلد۳،
ص ۲۹۸ ۲۱۔
منتخب التواریخ ،جلد۲،ص
۳۲۲
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک سرکاری درباری عالم
ملّا شیری نے جب ان ‘‘اسماء الحسنیٰ ‘‘کو منظوم کرکے بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا
تو وہ بہت خوش ہوا۲۲۔
اکبر جب اس اسماء کے ورد سے فارغ ہوتا تو اپنے دونوں کان پکڑ کر ایک چکر لگاتااور
پھر اپنی گردن پر ایک مُکہ رسید کرتا۲۳۔
اس سورج پرستی کی بناء پر
لوگ اکبر کو ملحد او رکافر سمجھنے لگے تھے۲۴۔ بادشاہ کی سورج پرستی کا جائز ثابت کرنے
کے لئے ابوالفضل ان کو تاہ بینوں کو یہ مشورہ دیتاہے کہ وہ قرآن کی سورۃ الشمس کو
مدّنظر رکھیں ، اگر سورج واجب التعظیم نہ ہوتا تو خدا تعالیٰ قرآن میں اس کی قسم
کیوں کھاتا ؟۲۵۔
اکبر وحدت الوجود کو
مانتا تھا بلکہ بقول ڈاکٹر یوسف حسین اور ڈاکٹر تاراچند اس کے دین الہٰی کی بنیاد
ہی وحدت الوجودکے نظریہ پر تھی۲۶۔
جو لوگ وحدت الوجود پر ایمان رکھتے ہیں ان کا یہ کہناہے کہ پانی کا قطرہ خواہ کہیں
بھی ہو اس کا سمندر کے ساتھ تعلق ضرور ہوتا ہے ۔ ان کے نظر یہ کے مطابق جز کل سے
الگ نہیں ہوتا۔ اسی نظریہ کے تحت اکبر نے سورج او رآگ کے باہمی تعلق کا راز پالیا
تھا۔
اکبر وحدت الوجود کو
مانتا تھا بلکہ بقول ڈاکٹر یوسف حسین او رڈاکٹر تارا چند اس کے دین الہٰی کی بنیاد
ہی وحدت الوجود کے نظریہ پر تھی۲۶۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۲۔
ایضاً ،ص ۳۳۶۔
ملّا شیری بجہتہ خوش آمد منظومی ہزار شعاع نامی درتعریف آفتاب مشتمل برہزار قطعہ
گذرا نید وبسیار مستحسن اُفتاد۔
۲۳۔ایضاً
،ص ۳۲۲
۲۴۔
آئین اکبری ،جلد ۳،ص
۲۹۸۔
۲۵۔
ایضاً۔
۲۶۔
i۔ گلمسپز آف دی مڈیول
انڈین کلچر،ص ۵۷۔
ii۔ دی انفلوئنس آف اسلام آن انڈین کلچر ،ص ۷۴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو لوگ وحدت الوجود پر
ایمان رکھتے ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ پانی کا قطرہ خواہ کہیں بھی ہو اس کا سمندر
کے ساتھ تعلق ضرور ہوتاہے ۔ ان نظریہ کے مطابق جُز کل سے الگ نہیں ہوتا۔ اسی نظریہ
کے تحت اکبر نے سورج اور آگ کے باہمی تعلق کا راز پالیا تھا۔
ابوالفضل اور بدایونی
دونوں اس پر متفق ہیں کہ اکبر آگ کی بھی بڑی تعظیم کرتاتھا۔ ہمارے خیال میں پارسی
مؤبد دستور جی مہرجی رانا، ہندو رانیوں اور نقطویوں کی صحبت میں رہتے ہوئے اکبر
سورج کے ساتھ ساتھ آگ کی بھی پرستش کرنے لگا تھا۔ ابوالفضل کے خیال میں آگ چونکہ
۔۔ اُم العناصر۔۔ تھی اس لئے بادشاہ اس کی تعظیم پر مجبور تھا۲۷۔ جب نوساری سے پارسیوں
کا وفد دارالحکومت آیا تو ان کے زیر آخر بادشاہ نے ابوالفضل کو حکم دیا کہ وہ اس
بات کاخاص خیال رکھے کہ شاہی محل میں ہر وقت آگ روشن رہے۲۸۔ بادشاہ کے حکم سے
کریان سے آتش پرستوں کی ایک جماعت شاہی آتشکدہ کو آباد رکھنے کے لئے فتح پورسیکری
بلائی گئی ۔جب بادشاہ کو یہ معلوم ہوا کہ کرمان میں اردشیر نامی ایک آتش پرست کی
بڑی قدر ومنزلت ہے تو اسے خاص طور پر ابوالفضل ،آذر کیوان نامی ایک آتش پرست کا دل
وجان کے ساتھ معتقد تھا ۳۰۔
آگ کی عظمت نے بادشاہ کے
دل میں چراغ کے لئے بھی تعظیم پیدا کردی ۔‘‘ عظمت چراغ’’ کے تحت ابوالفضل رقمطراز
ہے کہ گیہان فروز روشن دل نور دوستی را ایز پرستی شمار ددستائش الہٰی اندیشہ ،
نادان تیرہ خاطر داد ارفراشی و آذر پرستی خیال کند۳۱۔ بادشاہ چراغ کی لوُ
کو۔۔سرچشمہ الہٰی نور۔۔ سمجھتا تھا۳۲۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۷۔
مہا بھارت ،ص ۲۵ ۲۸۔
منتخب التواریخ ، جلد۲،
۲۶۱
۲۹۔
دبستان مذاہب ،ص ۲۶۶
۳۰۔
ایضاً
۳۱۔
آئین اکبری ،جلداول ،ص ۴۷
۳۲۔
ایضاً
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے سرشام جب چراغ روشن
کئے جاتے تو شاہی خدام سونے چاندی کے بارہ فگنوں میں کافوری شمعیں لیکر بادشاہ کی
خدمت میں حاضر ہوتے ،بادشاہ شمعوں کا دل وجان کے ساتھ احترام کرتا اور ان کی آرتی
لیتا جب تک بادشاہ‘‘ ایزدپرستی ’’میں مصروف رہتا اتنی دیر ایک خوش الحان خادم شمع
کی مدح سرائی اور بادشاہ کے لئے دعا کرتارہتا تھا۳۳۔ اگر کبھی بادشاہ دربار
میں ہوتا اور شمع جلانے کی نوبت پیش آتی تو وہ شمع جلانے کے وقت احتراماً کھڑا ہو
جاتا او را س کی دیکھا دیکھی درباری بھی شمع کے احترام میں کھڑے ہوجاتے۳۴۔ابوالفضل لکھتاہے کہ
اکبر کہا کرتاتھا کہ چراغ افروختن بیاد آفتاب ورساختن است ہر کر آفتاب فروشدہ باشد
اگر بدونساز دچہ کند۳۵۔
ہندوؤں او رنقطویوں کی
صحبت میں رہتے ہوئے اکبر تناسخ کا قائل ہوگیا تھا اور اس کے بغیر وہ عذاب و ثواب
کو بے معنی سمجھتا تھا ۔ ابوالفضل کا کہناہے کہ اکبر کا یہ قول تھا۔ آنکہ سمادی
کتب برگوید برخے عصیان گرامی باستان بصورت بوزنہ وخوک برآمدندیاور اُفتد۳۶۔ یعنی اکبر کہا
کرتاتھاکہ پہلے جب کبھی یہ سنتا تھا کہ خد ا نے فلاں فلاں قوم کو ان کے گناہوں کی
پاداش میں بندر اور سور بنا دیا تو یہ بات میری سمجھ میں نہ آتی تھی ،لیکن جب سے
یہ تناسخ پر یقین رکھنے لگا ہوں تب سے یہ بات میری سمجھ میں آنے لگی ہے کہ ایسا
ممکن ہے۔ اسی طرح وہ اکثر یہ بھی کہا کرتا تھا کہ سخت رنجوری خردان لختے از تناسخ
آگاہی دمد۳۷۔
بدایونی لکھتا ہے کہ جب خان اعظم بنگال سے آکر اکبر کی خدمت میں باریاب ہوا تو
اکبر نے عندالملاقات اس سے کہا ۔ مادلائل قطعی برحقیقت تناسخ یافتہ ایم ،شیخ
ابوالفضل خاطر نشان شمار خواہد کرد۳۸۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۳۔
ایضاً،ص ۴۸
۳۴۔
منتخب التواریخ ،جلد۲،ص
۲۶۱۔ مقریان نیز دروقت
افروختن شمع وچراغ قیام لازم ساختند
۳۵۔
آئین اکبری ،جلد ۲،
ص ۳۰۳
۳۶۔
ایضاً
۳۸۔
منتخب التواریخ ،جلد ۲،ص
۳۰۰
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی
ہے کہ اکبر نہ صرف یہ کہ خود تناسخ پر یقین رکھتا تھا بلکہ دوسروں کو بھی اس کی
تبلیغ کرتارہتا تھا۔
جب ہندوؤں کا تہوار سنبلہ
آتا تو اس روز بادشاہ اپنے ماتھے پر قشقہ کھینچ کر دولت خانہ میں بار عام دیتا تھا
۔ اس موقع پر برہمن اس کی کلائی پر راکھی باندھتے او رامراء اس کے حضور میں نذریں
پیش کرتے تھے۳۹۔
ہندوؤں کے ہاں یہ دستور ہے کہ جب کوئی شخص فوت ہوتاہے تو اس کے لواحقین بھدرہ
کرواتے ہیں۔ عہد اکبری کے تقریباً سبھی مورخ اس پر متفق ہیں کہ جب اکبر کی والدہ
حمیدہ بانو کا انتقال ہوا تو اکبر نے ہندوؤں کے رواج کے مطابق بھدرہ کروایا۴۰۔ اس واقعہ کے چھ سال
بعد جب اس کی رضاعی ماں فوت ہوئی تو اس موقع پر بھی اکبر او راس کے خوشامدی امراء
نے بھدرہ کروایا۴۱۔
جب 1001 ہجری میں شیخ مبارک کا انتقال ہوا تو اس موقع پر ابوالفضل علاّمی اور صاحب
تفسیر سوا طع الالھام فیضی نے بھی بھدرہ کروایا۴۲۔ ہمارے زمانے میں اکبر
کے بعض خوشامدی یہ کہتے ہیں کہ بھدرہ کروانا مغلوں کی رسم تھی، اس لئے یہ کہنا کہ
اکبر نے یہ طریقہ ہندوؤں سے اپنایا تھا، درست نہیں۔ ہم ان بزرگوں سے یہ مؤدبانہ
گذارش کرتے ہیں کہ یہ اگر مغلوں کا ہی دستور تھا تو پھر اس پر بابر ،ہمایوں ،جہانگیر
،شاہجہاں اور اورنگ زیب عالمگیر نے عمل کیوں نہیں کیا؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۹۔
ایضاً،ص ۳۶۱
۴۰۔
i۔ مرأۃ العالم ،درق ۳۵۴ الف ii۔ سوانح اکبری ورق ۱۲۴الف،ب،iii۔ تکمداکبر نامہ ،ورق
۳۹
iv۔ اکبر نامہ، جلد۳،ص
۸۳۱ ۔ ہندوؤں کے ہاں یہ
دستور ہے کہ جب کوئی شخص فوت ہوتاہے تو اس کے سوگ میں اس کے قریبی رشتہ دار ڈاڑھی
،مونچھ اور سَر پر اُسترا پھر واکر‘‘جردمرد’’ ہوجاتے ہیں۔ اسے وہ بھدرہ کہتے ہیں۔
۴۱۔
ماثر الامرأ ،جلد اوّل ،ص ۶۸۵
۴۲۔
منتخب التواریخ ،جلد۲
، ۳۸۸
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکبر نے ہندوؤں کے طو
رطریقے کہا ں تک اپنا لیے تھے اس کا کچھ اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ جب
اکبر سلیم کی شادی راجہ بھگوان داس کی بیٹی کے ساتھ ہوئی تو شادی کی رسومات
ہندوانہ طریقہ پر ادا کی گئیں۴۳۔
بدایونی کو اکبر سے یہ
گلہ ہے:۔
برغم اسلام ہر حکمی کہ
ارباب ادیان دیگر بیان کردندآنرائض قاطع شمر ذندنجلات این مدّت کہ ہمہ احکام آن
نامعقول وحادث ،وواضع آن فقرای عربان مفسدر قطاع الطریق واہل اسلام مطعون قرار یا
فتند۴۴۔
اسلام کی ضد میں دوسرے
مذاہب کے بانیوں کے تمام احکام واقوال نص قاطع قرار پائے اورمدّت اسلامی کا مجموعہ
قانون حادث او رنامعقول ٹھہرایا گیا اور اس کے بنانے والے عرب کے وہ مفلس بدو
قرائے پائے جن کا پیشہ دنگا فساد اور رہزنی تھا۔
ہمیں اکبر سے یہ گلہ ہے
کہ وہ نماز ، روزہ، زکوٰۃ اور حج جیسے ارکان اسلام اور دوسرے اسلامی شعائر اور
عبادات کو ‘‘تقلید یات’’ اور ‘‘نامعقول’’ کہا کرتا تھا۴۵۔ اور اس کا خلیفہ اوّل
ابوالفضل مسلمانوں کو ۔۔گرفتار زندان تقلید۴۶۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۳۔
i۔ ایضاً ،ص ۳۴۱۔‘‘ وجمیع رسومی کہ
درہنود معہوداست از افروختن آتش وغیر آن بجای آدردہ’’۔ تذکرۃ الامراء ۔ورق ب۱۳۱۔‘‘ رسوم شادی ازجانبین
بقا عدہ راجپوتیہ بعمل امدہ’’۔
۴۴۔
منتخب التواریخ ،جلد۲،ص
۲۶۲
۴۵۔
ایضاً،ص ۲۱۱۔
نماز وروزہ وجمیع نبوات راتقلید یات نام نہاد ندیعنی غیر معقول
۴۶۔
مہا بھارت ،ص ۳۵۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہونے کا طعنہ دیا کرتاتھا
۔اگر نماز ،روزہ، زکوٰۃ اورحج ‘‘تقلیدیات’’ ہیں تو پھر آفتاب پرستی، آگ کی تعظیم
،چراغ کی عظمت ،شادی کے وقت آگ کے گرد پھیرے ،تناسخ پر ایمان ،رکھشا بندھن ،قشقہ
کھینچنا ،گؤدرشن ،سؤر کادیدار ، بھدرہ ،ترک لحمیات اور تدفین کے طریق نو کے لئے
کون سی اصطلاح استعمال کی جائے گی۔ یہ خرافات توتقلید یات کے زمرہ میں نہیں آتیں
۔کیونکہ یہ اکبر او رابولفضل کے اجتہاد ات ہیں۔
بعض خود غرضوں نے اکبر کے
ذہن میں یہ بات بٹھادی تھی کہ اسلام کی میعاد صرف ہزار سال ہے۴۷۔ یہ نظریہ ‘‘عقیدہ
الفی’’ کے نام سے مشہور ہے۔اکبر کے حکم سے 1000ہجری میں یادگاری سکے ڈھا لے گئے
اور اس موقع پر اس نے تاریخ الفی کے نام سے ایک تاریخ مرتب کرنے کا کام ملّا نظام
الدین احمد کو سونپا ۔عقیدہ الفی کا بڑے زور شور سے ۔پروپیگنڈاکیا گیا او ریہ بات
عوام کے ذہن نشین کرائی گئی کہ دور اسلام اب ختم ہوگیا ہے اور اب ایک نئے دین کی
ضرورت ہے۔۔ بدایونی لکھتے ہیں کہ یار لوگ عقیدہ الفی کی تائید میں ناصر خسرو علوی
کے کلام سے ایک رُباعی بھی تلاش کرلائے جسے وہ جابجا گنگناتے پھرتے تھے۴۸۔
درنہصد وتسعین دوقرآن می
بینم
وزمہدی ودجال نشان می
بینم
یاملک بدل گردو یا گردو
زمین
ستری کہ نہان است عیان می
بینم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۷۔
دبستان مذاہب،ص ۲۶۷
۴۸۔
منتخب التواریخ ،جلد ۲
،ص ۳۱۳
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی یہ رباعی عوام کے
کانوں میں گونج ہی رہی تھی کہ خواجہ مولانا شیرازی ، جس کا شمار عہد اکبری کے
ملاحدہ میں ہوتاتھا ،مکہ مکرمہ سے ایک سالہ لے کر اکبر کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس
میں مرقوم تھاکہ احادیث صحیحہ کی رو سے دنیا کی معیاد سات ہزار سال ہے او ریہ
میعادات ختم ہونے والی ہے ،لہٰذا اب ظہور مہدی کا وقت ہے۴۹۔ بدایونی لکھتاہے کہ
خواجہ شیرازی نے خود بھی ظہور مہدی کے متعلق ایک رسالہ لکھا تھا۵۰۔
جن ایّام میں خواجہ
مولانا شیرازی کی تحریر یں موضوع بحث بنی ہوئی تھیں انہی دنوں شریف آملی نے محمود
پسیخوانی کی ایک تحریر سے یہ استدلال کیا کہ 990 ہجری میں ۔۔صاحب دین حق۔۔ کا ظہور
ہوگا اور وہ باطل کاقلمع قلع کرے گا۵۱۔
بدایونی لکھتاہے کہ دوسروں کی دیکھا دیکھی شیعہ حضرات بھی امیر المومنین علی رضی
اللہ عنہ سے ایسی ہی روایت نقل کرنے لگے ۵۲۔ ابھی ناصر خسروعلوی کی پہلی رباعی کی
صدائے بازگشت فضا میں تحلیل ہونے نہ پائی تھی کہ بعض مخذدلان بی عفت دبی عاقبت
۔۔نے اس کی ایک دوسری رُباعی کی نشرواشاعت شروع کردی۔۔ وہ رُباعی یہ ہے۵۳۔
درنہصد وہشتادونہ از حکم
قضا
آئیند کو اکب از جوانب
یکجا،
درسال ،سدماہ اسد روز اسد
از پردہ برون خرامد آن
شیرخدا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۹۔
ایضاً۔ص ۲۸۷ ۵۰۔ ایضاً۔ ۵۱۔ ایضاً۔
۵۲۔
ایضاً۔ ۵۳۔ ،ص ۲۸۷
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار لوگوں نے نئے ظہور کی
آمد او رنئے دین کی ضرورت کاکچھ اس طرح سے پروپاگنڈا کیا کہ اکبر کو یقین ہوگیا کہ
وہی وہ ‘‘شیر خدا’’ اور ‘‘صاحب دین حق’’ ہے جو ‘‘اختلاف ہفتا دودوملّت ’’ختم کرنے
کی خاطر بھیجا گیا ہے۔
اکبر نے ۔۔آئین رہنمونی
۔۔کاسہارا لے کر عوام کو مرید کرنا شروع کیا۔ بدایونی کی روایت ہے کہ اکبر کا مرید
ہونے سے پہلے امید وار کواس مضمون کی ایک تحریر بادشاہ کی خدمت میں پیش کرنا ہوتی
تھی۵۴۔
منکہ فلان بن فلان باشم
بطوع درغبت وشوق قلبی از دین اسلام مجازی وتقلید ی کہ از پدران دیدہ وتقلید ی کہ
از پدران دیدہ وشیندہ بودم ابرأ وتبر أنمودم ودردین الہٰی اکبر شاہی درآمدم ومراتب
چہارگانہ اخلاص کہ ترک مال وجان وناموس ودین باشد، قبول کردم۔
میں فلاں بن فلاں ہوں ،
اپنی خواہش ورغبت اور ولی شوق کے ساتھ دین اسلام مجازی اورتقلیدی سے جس کے متعلق
میں نے اپنے باپ دادا سے سنا اور جس پر انہیں عامل پایا،بیزاری کااظہار کرتا ہوں،
مزید براں میں اخلاص کے چاروں مراتب ،ترک مال وجان ،وناموس ودین طے کرکے اکبر کے
دین الہٰی میں داخل ہوتاہوں۔
ابوالفضل کی ایک تحریر سے
یہ مترشح ہوتا ہے کہ بادشاہ سورج دیوتا کی مناسبت سے اتوار کے روز لوگوں کو مرید
کیا کرتاتھا۔ جو شخص اکبر کا مرید ہوتا اسے وہ اپنا ‘‘چیلہ’’ کہتاتھا لیکن وہ خود
کو ‘‘الہٰیان’’ کہلاتے تھے۵۵۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۵۴۔
ایضاً ،ص ۳۰۴
۵۵۔ایضاً
،ص ۲۹۹۔
جماعہ راکہ مرید گرفتند والہٰیان مشہور بودند۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح ایک پیر اپنے مرید
کو اپنے شائخ کا ایک شجرہ دیا کرتا ہے ،بعینہ اکبر اپنے مریدوں کو اپنی تصویریں
دیا کرتا تھا جسے وہ اپنی دستاروں میں اڑس لیتے تھے۵۶۔
‘‘آئین ارادت گزنیان’’ کے تحت ابوالفضل رقمطراز ہے کہ اکبر نے اپنے
مریدوں کے لئے ایک باقاعدہ دستور العمل بنادیا تھا جس پر وہ کاربند تھے ۔ انہیں
پیر ومرشد کایہ حکم تھا کہ یہ قصاب ، ماہی گیر اور کنجشک گیر کے ساتھ کھانا نہ
کھائیں ان کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ اپنے جنم کے مہینہ میں گوشت خوری سے کھلی
اجتناب کریں اور اپنا جنم دن بڑی دھوم دھام سے منائیں۔انہیں عمر رسیدہ اور بانجھ
عورتوں سے جماع کرنے کی ممانعت تھی او راسی طرح انہیں نابالغ لڑکی سے دور رہنے کا
حکم دیا گیا تھا۔‘‘ آئین ارادت گزنیان’’ کے تحت بادشاہ نے اپنے چیلوں کو یہ حکم
دیا تھا کہ جب وہ ایک دوسرے سے لیں تو ان میں سے ایک اللہ اکبر کہے اور دوسرا جواب
میں جل جلالہ کہے۵۷۔
ابوالفضل کی ایک تحریر سے یہ مترشح ہوتاہے کہ انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ اگر ان
کے گھر میں کوئی میت ہوجائے تو بجائے سیاہ لباس کے سُرخ لباس پہنا کریں ۔ شروع میں
یہ لباس صرف مریدوں کے لئے ہی مخصوص تھا لیکن بعد ازاں تمام رعایا کو سوگ کے دنوں
میں سُرخ لباس پہننے کی ہدایت کی گئی اور یہ بات کوتوال کے فرائض میں شامل کردی
گئی کہ وہ اس بات کا خیال رکھے کہ میت کے لواحقین سیاہ لباس کی بجائے سُرخ رنگ
لباس زیب تن کریں۵۸۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۵۶۔
ایضاً ،ص ۳۳۸
۵۷۔
آئین اکبری ، جلداوّل ،ص ۱۹۲
۵۸۔
ایضاً ،ص ۳۴۹
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے لئے یہ حکم تھا کہ
وہ اپنے مردوں کو اگر چاہیں تو اس کے گلے میں اناج کے تھیلے اورپختہ اینٹیں باندھ
کر دریا میں بہادیں اور اگر دریا قریب نہ ہوتو پھراہل ختن کی طرح میت کو درخت کے
ساتھ لٹکا دیں۵۹۔
اکبر کے مرید خاص سلطان خواجہ کو دفن کرتے وقت اس کی زبان پر دہکتا ہواانگارہ رکھا
گیا تھا اور قبر کھودتے وقت اس بات کا خاص اہتمام کیا گیا تھا ک اس کی ٹانگیں قبلہ
رخ ہوں۔ اسی طرح اس کی قبر میں شرق رو ایک دریچہ بنایا گیا تھا کہ تاکہ سورج کی
روشنی اس کے چہرہ کو منور اور گناہوں سے پاک کرتی رہے۔بدایونی کی ایک روایت سے یہ
بھی مترشح ہوتاہے کہ بعض حالات میں مُردہ کوجلانے کی اجازت بھی دی گئی تھی۶۰۔
بادشاہ اکثر اوقات ایک
‘‘پیر مرشد’’ اور ‘‘ روحانی پژشک’’ بن کر اخلاص پیشیگان کی رہنمائپی کے لئے بیٹھتا
۔ اس دوران میں ۔ارباب تجرد سنیاسی وجوگی وسیورہ وقلندر وحکیم وصوفی وگروہا گروہ
ملک تعلق سپاہی دبازرگان وپیشہ ور۔۔ اس کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے ۔لوگ مایوس
العلاج مریضوں کو بھی بادشاہ کے پاس لاتے اور وہ انہیں پانی دم کرکے پلاتا جس سے
انہیں شفا ہوجاتی تھی۶۲۔
ابوالفضل کے الفاظ ہیں کہ بادشاہ ولی کامل تھا اور وہ مُراقبہ کی حالت میں عالم
بالا کی سیر کرتا تھا۶۳۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۵۹۔
منتخب التواریخ ،جلد۲،ص
۳۹۱ ۶۰۔
ایضاً
۶۱۔
آئین اکبری ،جلد اوّل ،ص ۱۹۰ ۶۲۔
ایضاً
۶۳۔
مہا بھارت ،ص ۱۱۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر چندوہ اپنے کشف وکرامات
کو چھپاتا تھا پھر بھی کبھی نہ کبھی اس سے کوئی کرامت سرزد ہوہی جاتی تھی
،ابوالفضل نے بارہا ایسی کرامتوں کا مشاہدہ کیا تھا۶۴۔
دین الہٰی پر تبصرہ کرتے
ہوئے مولانا مناظر احسن گیلانی مرحوم تحریر فرماتے ہیں کہ اکبر کی بدعات کے متعلق
کہاں تک لکھا جائے ۔ایک جزہو، دوجزہوں اس نے تو ابتدائے زندگی سے آخر زندگی تک
سارے قوانین کو اُلٹ پلٹ کردیا تھا۔ مولانا مرحوم کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ
اکبر نے دین الہٰی بنا کر ہندوستان کے باشندوں کا تعلق بیرون ہند سے توڑ لیا تھا۶۵۔یہ عجیب بات ہے کہ جس
بادشاہ کے متعلق یہ مشہور کیا جاتاہے کہ وہ سب مذاہب کو ایک ہی نظر سے دیکھتاتھا ،
وہی بادشاہ اسلام کی جڑوں پر کلہاڑا چلا
تا ہے۔ اسلام کے احکام کو ‘‘عقل’’ قبول نہ کرتی تھی ، ورنہ دوسرے مذاہب کی ہر طرح
کی خرافات کو وہ خندہ پیشانی سے قبول کرلیتا تھا ۔ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ اکبر ہر گز
وسیع المشرب یا صلح کل بادشاہ نہ تھا بلکہ وہ ایک نئے دین کا بانی تھی جسے بدایونی
دین الہٰی اور توحیدالہٰی کے نام سے موسوم کرتا ہے۔ گذشتہ صفحات میں ہم یہ بتا چکے
ہیں کہ دین الہٰی باقاعدہ مذہب تھا اور اس کا تعلق کسی دوسرے مذہب کے ساتھ نہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۶۴۔
ایضاً۔ ۶۵۔ تذکرہ مجدّد الف ثانیؒ
،ص ۷۶
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Part: 5 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part
5 صُوفیائے خام
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism