New Age Islam
Thu Mar 20 2025, 05:07 AM

Books and Documents ( 13 Feb 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background: Part 7 on Akbar and Hindus اکبر اور ہندو

محمداسلم

اکبر اور ہندو

اکبر کاہندوؤں کے ساتھ ربط وضبط صلح کل پالیسی اختیار کرنے کانتیجہ نہیں تھا، بلکہ وہ بچپن ہی سے ان کی طرف مائل تھا۱؂۔نوجوانی کے عالم میں اس نے رانی جودھابائی کے ساتھ شادی کرلی او را سکے بعد متعدد ہندو بیویاں اس کے حرم میں موجود ہیں۔ ان کی صحبت میں رہ کر اکبر نے ہندوؤں کے رسم ورواج کا بڑے قریب سے مطالعہ کیا اور اسلام سے کم واقفیت کی بنا پر اس نے ہندوؤں کی بہت سی رسومات اپنالیں۔ اس کے علاوہ اس نے ہندوؤں کے علوم وفنون کی سرپرستی کی او ران کی مذہبی وتاریخی کتابوں کا فارسی ترجمہ کروایا۔ ان کی کتابوں کے فارسی ترجمہ نے مسلمانوں کے افکار کو بُری طرح متاثر کیا او رمسلمانان ہند و مزاج کا ایک گروہ پیدا ہوگیا۲؂۔ ملّا عبدالقادر بدایونی ،ملاّتقی ششتری کے حالات میں لکھتا ہے وہ ہمیشہ آفتاب کے ساتھ جلت عظمتہ وعزشانہ لکھا کرتا تھا۳؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂۔ منتخب التواریخ ،جلد۲،ص ۱۶۱۔‘‘ شاہنشاہی را از صغرسن بازبطوائف مختلف از براہمہ وبادفردشان وسایراضاف ہندوان ربطی خاص والتفاتی تمام است’’۔

۲؂۔ ایضاً ،ص ۲۶۹

۳؂۔ ایضاً ،ص۴۰۴

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گہرے مراسم تھے ۔بدایونی لکھتا ہے کہ اکبر اور بیربر بظاہر ووقالب تھے لیکن باطن میں لحمک لحمی ودمک دمی (یعنی تمہارا گوشت میرا گوشت اور تمہارا خون میرا خون)۔ ہوچکے تھے۴؂۔ بیربر نے اکبر کو اسلام سے برگشتہ کرنے میں بڑا اہم رول اداکیا ہے۔ بیربر کے علاوہ کھوتم او ردیوی برہمن بھی اکبر کے منظور نظر تھے اور وہ رات کی تنہائیوں میں ان سے ہندوؤں کے عقائد پرتبادلہ خیال کیا کرتا تھا۵؂۔ بدقسمتی سے جن دنوں اکبر اسلام سے برگشتہ ہوا انہی ایّام میں دکن کا ایک برہمن بھاون نام مسلمان ہوگیا۔

میں ہوا کافر تووہ کافر مسلمان ہوگیا

بادشاہ نے اسے ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کو فارسی میں ترجمہ کرنے پر مامور کیا۔بھاون جب کبھی بادشاہ کے حضور میں باریاب ہوتا تو اس کے سامنے بعض دقیق مسائل کی تشریح اپنے مخصوص رنگ میں بیان کرتا۶؂۔اس نے ہندوؤں کے عقائد کو مسلمانوں کے عقائد سے ملاکر ایک معجون مرکب تیار کی۔ بدایونی کا خیال ہے کہ اکبر کی گمراہی میں اس کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔

پرکھو تم کے زیر اثر اکبر تناسخ کا قائل ہوا اور دیوی نے اسے آفتاب اور کواکب پرستی کی تعلیم دی۷؂۔ تناسخ پراکبر یقین کا مل رکھتا تھا اوراس کے بغیر ثواب وعذاب اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا۸؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۴؂۔ ایضاً،ص۱۶۱                        ۵؂۔ ایضاً ،ص ۲۵۷

۶؂۔ ایضاً ،ص ۲۱۲۔۲۱۳                             ۷؂۔ ایضاً ،ص ۲۵۷

۸؂۔ ایضاً ،ص ۲۷۳۔‘‘ ثواب وعقاب رابغیر از طریق تناسخ محال شمروند’’

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ابولفضل لکھتا ہے کہ اکبر کہا کرتا تھاکہ جب کبھی میں سنتا تھا کہ ازمنہ قدیم میں خدا نے فلاں نبی کی اُمت کو نافرمانی کی پاداش میں بندریا کوئی اور جانور بنادیا،تومیں اسے ناممکن سمجھتا تھا ، لیکن جب سے میں تناسخ کاقائل ہوا ہوں تب سے یہ بات میری سمجھ میں آگئی ہے کہ ایسا ممکن ہے۹؂۔

ابوالفضل او راس کے ہم مذہب بھی تناسخ پریقین کا مل رکھتے تھے۔مشہور شیعی مورخ سراسیر علی رقمطراز ہے کہ ‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیعوں کے بعض فرقے مثلاً لغمانیہ ، خطابیہ اور اسحاقیہ تناسخ پر یقین رکھتے تھے۱۰؂۔ ہمارا ایک ہم عصر اسمٰعیلی مورخ علی محمد، جان محمد چنارا اس بات کو تسلیم کرتاہے ‘‘ کہ اسمٰعیلیوں کے بعض فرقے نہ صرف یہ کہ تناسخ کے قائل ہیں بلکہ وہ فاطمی خلیفہ حاکم کو خدا کا اوتار بھی مانتے ہیں۱۱؂۔ حاکم کے عہد میں مصر کے ذمّی اُسے ‘‘یاربناّ ’’ کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے۔ اسی طرح دروزی فرقہ کے پیروبھی تناسخ کے قائل ہیں۱۲؂۔ ہم گذشتہ صفحات میں اس بات کا تذکرہ بری تفصیل کے ساتھ کرچکے ہیں کہ اخونددربوزہؒ نے قبائلی علاقہ میں ایسے بے شمار خود ساختہ قطبوں ،غوثوں اور نیبوں کی نشاندہی کی ہے جو تناسخ کے قائل تھے،آئین اکبری ،منتخب التواریخ ، مخزن اسلام اور تذکرہ الابراروالاشرار کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اکبر کے عہد میں بیشتر ‘‘ضال ومضل’’تناسخ کا پرچار کرتے پھرتے تھے۔ ہندوؤں او رہند ومزاج مسلمانوں کی صحبت میں رہتے ہوئے اکبر بھی تناسخ پر یقین کامل رکھنے لگا تھااور دین الہٰی کے پیروؤں کے لئے اس عقیدہ پر ایمان رکھنا لازمی تھا۔ اکبر کا خلیفہ اوّل ابوالفضل انہیں تناسخ کے مسائل سمجھا یا کرتاتھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۹؂۔ آئین اکبری ،جلد ۳،ص۳۰۳۔‘‘میضر مودند آنکہ کتب سمادی برگوید کہ برخے عصیان گرای بامتان بصورت بوزنہ وخوک برآمد ندباورافتد‘‘۔

۱۰؂۔ دی سپرٹ آف اسلام،ص ۳۴۳

۱۱؂۔ نورالمبین حبل اللہ المتین ،ص ۳۹۸

۱۲؂۔ ایضاً ،ص ۲۹۹

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہندوؤں کے دیوی دیوتاؤں کے ساتھ اکبرکو ایک گونا عقیدت تھی اور وہ ان کے جنم دن بڑے تزک واحتشام کے ساتھ منایا کرتاتھا۔ اکبر کے متعلق ہمیں یہ روایت ملتی ہے کہ وہ اکثر چتینہ کی مدح میں بھجن گایا کرتا تھا۔اسی طرح اس کے متعلق یہ بھی مشہور ہے کہ وہ ‘‘لاٹاں والی دیوی’’ کا بھی مداح تھا اور ایک باروہ ننگے پاؤں اس کے درشن کیلئے کانگڑہ گیا تھا۔ رام اور سیتا کے ساتھ اس کی عقیدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اس نے کچھ ایسے سکے ڈھلوائے تھے جن پر رام وسیتا کی مورتیں موجود تھیں۔ مشہور مؤرخ اسٹینلے لین پول نے برٹش میوزیم لندن کے مغل سکوکات کی جو فہرست تیار کی تھی، اس میں پانچویں پلیٹ پر ایک ایسے سکے کا عکس موجود ہے جس میں رام تیر وکمان لئے کھڑا ہے اور اس کے پیچھے سیتا ایک لمبا سا گھونگھٹ نکالے کھڑی ہے۱۳؂۔

بدایونی رقمطراز ہے کہ اکبر کو ہندوجوگیوں کے ساتھ بڑی عقیدت تھی اور اس نے آگرہ کے نواح میں جوگی پورہ کے نام سے ایک بستی آباد کی تھی جس میں جوگی رہتے تھے اور حکومت کی طرف سے ان کی دیکھ بھال اور خوردونوش کا انتظام کیا جاتاتھا۔ اکثر ایسا ہوتاکہ اکبر رات کے وقت ادھر جا نکلتا اور ان سے ویدانت کے مسائل پررات رات بھر گفتگو کرتارہتا۱۴؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۳؂۔ دی کونزآف دی مغل ایمپرر آف ہندوستان ان دی برٹش میوزیم ،ص ۳۴

۱۴؂۔ منتخب التواریخ ،جلد ۲،ص۲۱۲۔۲۱۳

۔۔۔۔۔۔۔۔

بدایونی لکھتا ہے کہ اکبر کے ہندو مصاحبوں نے اسے یہ باور کرادیا تھا کہ جوگیوں اور سنیاسیوں کی عمریں بڑی طویل ہوتی ہیں اور عام آدمی کی نسبت ان کی عمر کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کاجب فارسی میں ترجمہ ہوا تو بادشاہ کویہ معلوم ہوا کہ ان کے بزرگوں کی عمریں لاکھوں او ر ہزاروں سال کی ہوئی ہیں۔ فطری طور پر اکبر کے دل میں بھی طویل مُدّت تک زندہ رہنے کی خواہش چٹکیاں لینے لگی اور طویل عرصہ تک زندہ رہنے کاگرسیکھنے کے لئے جوگیوں کے پاس جانے لگا۱۵؂۔

ہندومذہب کی طرف اکبر کا جھکاؤ دیکھ کر برہمنوں نے اپنا حلوہ مانڈا سیدھا کرنے کی ایک سکیم تیار کی۔بدایونی لکھتا ہے کہ وہ اپنے کتب خانوں سے پُرانی پُرانی پوتھیاں نکال کر اس کے پاس لاتے اور اسے بتاتے کہ آج سے اتنا عرصہ پیش ترہمارے بزرگ یہ لکھ گئے ہیں کہ ہندوستان میں ایک عادل بادشاہ پیدا ہوگا جوگائے کا احترام او ربرہمن کی عزت کرے گا۱۶؂۔ ان کی باتیں سن کر اور پرانے مسودے دیکھ کر بادشاہ برہمنوں کا پہلے سے کہیں زیادہ احترام کرنے لگااور گائے کی تعظیم کو اس نے اپنا شعار بنالیا۔

آئین اکبری میں ‘‘آئین گاؤ ویدن’’ کے تحت ابوالفضل لکھتا ہے کہ بادشاہ گائے کو دائیہ روزگار ۔سمجھتے ہوئے اس کا دل وجان کے ساتھ احترام کیا کرتا تھا۱۷؂۔ اسی وجہ سے ہندو مزاج اکبر نے ذبیحہ پر پابندی عائد کردی۱۹؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۵؂۔ ایضاً ،ص ۳۲۴،۳۲۵                          ۱۶؂۔ ایضاً ،ص۳۲۶

۱۷؂۔ آئین اکبری ،جلداوّل ،ص ۱۹۵           ۱۸؂۔ ایضاً

۱۹؂۔ i۔ ایضاً ،ص ۳۴۹ ۔ ii۔ منتخب التواریخ ،جلد ۲،ص ۳۷۶

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور گائے کے ساتھ ساتھ اس کے گوبر کو بھی پوتّر قرار ددے دیا۲۰؂۔

(بعض برہمنوں نے اکبر کے ذہن میں یہ بات بٹھادی تھی کہ ایک بار خدا نے (نعوذ باللہ) سؤر کے رُوپ میں اوتار لیا تھا ۔ اس لئے صبح سویرے سُور کا درشن باعث سعادت ہے۲۱؂۔ بدایونی لکھتا ہے کہ بادشاہ نے شاہی محل میں اپنی خوابگاہ کے قریب سوُر پال لئے تھے۲۲؂۔ او رصبح کے وقت جب بیدار ہوتا تو اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کرکسی ملازم کو آواز دیتا ۔ وہ بادشاہ کا ہاتھ تھام کر اسے ایک جھروکے میں لے جاتا جس کے نیچے سُور بندھے رہتے تھے۔ بادشاہ جھروکہ میں پہنچ کر اپنی آنکھیں کھولتا او راس طرح صبح نور کے تڑکے وہ ساری مخلوق سے پہلے انہیں دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتا۔)

(‘‘دختر راجہائے عظیم ہند’’ کی صحبت او ربرہمنوں کے ساتھ ‘‘لحمک لحمی ودمک دمی’’ سے بادشاہ کا ذہن اس حد تک بدل گیا تھا کہ وہ گوشت خوری سے کامل پرہیز کرنے لگا تھا۔‘‘ آئین صوفیانہ’’ کے تحت ابوالفضل رقمطراز ہے کہ بادشاہ گوشت کی طرف زیادہ رغبت نہیں رکھتا۲۳؂۔ ایک او رموقع پر لکھتاہے کہ اس کے مطبخ میں گذشتہ سات ماہ سے گوشت نہیں پکا۲۴؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۰؂۔ ایضاً ،ص ۲۶۱                    ۲۱؂۔ ایضاً ،ص ۳۰۵

۲۲؂۔ ایضاً ۔‘‘ برغم اسلام خنزیر وکلب از نجس بودن بازماندہ دردن حرم وزیر فقرِ نگاہ واشتہ ہرصباح نظریر برآن عبادت می شمر دند دہند وان کہ حلولی اندخاطر نشان ساختند کہ خوک ازان وہ مظہراست کہ حق سجانہ وعزشانہ در آنجا حلول کردہ’’۔

۲۳؂۔ آئین اکبری ،جلد اوّل ،ص ۶۳

۲۴؂۔ مہابھارت ،ص ۱۳

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اپنے مریدوں کو بھی گوشت سے پرہیز کا مشورہ دیا کرتا تھا۔ اس کا اپنے مریدوں کو یہ حکم تھا کہ وہ اپنی پیدائش کے علاوہ ماہ آبان او رماہ ضروردین میں گوشت کے قریب بھی نہ جائیں۲۵؂۔ اسی طرح اتوار کے دن سورج کے احترام میں ،اکبر کے یوم ولادت اور سورج یا چاند گرہن کے موقع پر بھی ملک بھر میں گوشت کا ناغہ ہوتا تھا۲۶؂۔ ابوالفضل لکھتاہے کہ کوتوال کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ان ایّام میں ذبیحہ روکے۲۷؂۔ اکبر نے اپنے پیروؤں سے یہ کہا کرتاتھا کہ اپنے معدہ کو ‘‘دخمہ گاہ جانوران’’ نہ بناو اور گوشت خوری کی عادت ترک کردو۲۸؂۔)

ہندوؤں کی دیکھا دیکھی اکبر سورج دیوتا کا دل وجان سے احترام کرتا تھا ہندوؤں نے اسے یہ باور کرادیا تھا کہ سورج دیوتا بادشاہوں کا سرپرست ہے اس لئے اسے چاہئے کہ وہ اس کا احترام کیا کرے۲۹؂۔ دیوی برہمن نے اکبر کو تسخیر آفتاب کا منتر سکھایا تھا او روہ روز وشب میں چار بار اس کا ورد کیا کرتاتھا۳۰؂۔بدایو نی رقمطراز ہے کہ بادشاہ سورج کی طرف منہ کرکے کھڑا ہوجاتا اور سنسکرت زبان میں سورج کے ایک ہزار ایک ناموں کا ورد کرتا۳۱؂۔ سورج کے اتنے نام یادرکھنا اکبر کے لئے آسان نہ تھا اس لئے ملّا شیری نے انہیں منظوم کردیا۳۲؂۔ جب بادشاہ ان کا وردختم کرتا تو اپنے دونوں کا ن پکڑ کر پہلے ایک چکّر لگا تا اور پھر اپنی گردن پر ایک مُکّہ رسید کرتا۳۳؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۵؂۔ آئین اکبری ،جلداوّل ،ص ۳۵۰۔                      ۲۶؂۔ ایضاً۔

۲۷؂۔ ایضاً ،ص ۳۵۰                  ۲۸؂۔ ایضاً ،جلد ۳،ص ۳۰۳

۲۹؂۔ آئین اکبری ،جلد ۳،ص ۲۹۸

۳۰؂۔ منتخب التواریخ ،جلد ۲ص ۳۲۲            ۳۱؂۔ ایضاً ،ص ،۳۲۲

۳۲؂۔ ایضاً ، ۳۳۶                        ۳۳؂۔ ایضاً ،ص ۳۲۲

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 سورج دیوتا کے ساتھ عقیدت کی بنا پر اتوار کے روز ہرقسم کا ذبیحہ بند رہتا او راسی روز بادشاہ اپنے عقیدت مند وں کو باقاعدہ طور پر اپنے چیلوں کے زمرہ میں داخل کیا کرتاتھا۳۴؂۔ بادشاہ کو سورج کے ساتھ عقیدت تھی اس کی تصدیق عرفی شیرازی کے اس شعر سے بھی ہوتی ہے۳۵؂۔

آسمان داندکہ چون شاہ جہان ہرگز بنود

قدردانِ آفتاب اندرزمان آفتاب

‘‘الناس علی دین ملوکھم’’ کے مصداق بادشاہ کی آفتاب پرستی سے ‘‘مسلمانان ہندومزاج ،بھی سورج کا احترام کرنے لگے تھے۔عہد اکبری کا مشہور شاعر عرفی شیرازی بھی اس گروہ میں شامل تھا جوبادشاہ کی دیکھا دیکھی سورج کی پرستش کرنے لگے تھے۔ اس بات کا اعتراف عرفی نے اپنے ایک قصیدہ میں یوں کیا ہے۳۶؂۔

مدح خورشید وثنای شہ کندعربی مدام

کزمرمدان شہ است دعا شقان آفتاب

بدایونی نے ملّا تقی ششتری نامی ایک شخص کا ذکر کیا ہے جو آفتا ب کے ساتھ جلّت عظمتہ وعزّشانہ لکھاکرتاتھا۳۷؂۔ وہ توخیر ایرانی النسل تھا اور ایسے ماحول سے نکل کر ہندوستان آیا تھا جہاں اس کے آباؤ و اجداد صدیوں تک آگ اور سورج کی پرستش کرتے رہے تھے لیکن ملا مبارک ناگوری کا فرزند ابوالفضل غلامی اکبر او راس کے چیلوں کی آفتاب پرستی پر اعتراض کرنے والے ‘‘کوتاہ بین’’ مسلمانوں کو یہ مشورہ دیتاہے کہ وہ انہیں طعنہ دینے سے پہلے قرآن میں سورہ ‘‘والشمس’’ کا بغور مطالعہ کریں اگر شمش واجب التعظیم نہ ہوتا تو قرآن میں اس کا ذکر کیوں آتا۳۸؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۳۴؂۔ آئین اکبری ،جلداوّل ،ص ۱۹۱                           ۳۵؂۔ قصاید عرفی ،ص ۷۱

۳۶؂۔ قصائد عرفی ،ص ۷۱                           ۳۷؂۔ منتخب التواریخ ،جلد۲،ص ۴۰۴

۳۸؂۔آئین اکبری، جلد ۳، ص ۲۹۸

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکبر کے سبھی مصاحب کیا ہندو کیا‘‘مسلمانان ہندو مزاج’’ ایک جیسے ذہن سے سوچتے تھے۔ راجہ دیپ چند منجہولہ بھی یہی کہا کرتاتھا کہ اگر خدا کے نزدیک گائے واجب التعظیم نہ ہوتی تو قرآن میں سورۃ البقرہ مقدم کیوں ہوتی۳۹؂۔

سورج کی عظمت نے ہی بادشاہ کو آگ کی تعظیم سکھلائی او را س نے ابوالفضل کو حکم دیا کہ وہ ایسا انتظام کرے کہ شاہی محل میں ہر وقت آگ جلتی رہے۴۰؂۔ ابوالفضل خود بھی آگ کا بڑا احترام کرتاتھا، چنانچہ مہابھارت کے دیباچہ میں وہ آگ کو‘‘ام العناصر ’’ لکھتا ہے۴۱؂۔

ابوالفضل خود لکھتا ہے کہ اکبر کی حرکات کو دیکھ کر عوام یہ سمجھنے لگے تھے کہ وہ پارسی مذہب اختیار کرچکا ہے۴۲؂۔ شیخ عبدالحق محدّث دہلویؒ اکبر کی ان ہی مشرکانہ حرکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ‘‘اگر کوئی شخص کلمہ پڑھنے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے خلاف کوئی کام کرے یا کسی بت کے آگے جھکے یا زناّر باندھے وہ یقینا کافر ہے۴۳؂۔ امام الہند شاہ ولی اللہ اکبر کے متعلق لکھتے ہیں کہ وہ ملحد ہوچکا اور اس نے زندیقوں جیسے طور طریقے اختیار کرلئے تھے۴۴؂۔کیا اب بھی کسی مسلمان کو اکبر کے ملحد ہونے میں شبہ ہے۔؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۳۹؂۔ منتخب التواریخ جلد۲ص ۲۱۱

اگر گاؤنزدحق تعالیٰ معظم نبودی در اوّل قرآنی چرا مذکورشدی’’۔

۴۰؂۔ ایضاً ،ص ۲۶۱                    ۴۱؂۔ مہا بھارت ،ص ۲۵

۴۲؂۔ آئین اکبری ،جلداوّل ،ص ۴۷۔‘‘ گیہان فروز روشن دِل نور دوستی را ایزدپرستی سمشاردوستائثی الہٰی اندیشید نادان تیرہ خاطر دادارفرامشی وآذر پرستی خیال کند۔’’

۴۳؂۔ اشعۃ اللمعات ،ص ۳۶

۴۴؂۔ انفاس العارفین ،ص ۱۵۴

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدایونی کی تحریروں سے مترشح ہوتاہے کہ ہندوؤں کے ایک گروہ نے اکبر کو اس بات کا یقین دلایا تھا کہ وہ رام اور کرشن کا اوتار ہے۴۵؂۔ ہمارے خیال میں تلسی داس کے رامائن لکھنے اور بعد ازاں فارسی زبان میں اس کاترجمہ ہوجانے سے شمالی ہندوستان میں رام چند ر نے دوبارہ شہرت پائی تو اکبر نے رام کی طرح ایک مثالی حاکم بننے کی کوشش کی۔ اکبر نے اپنے سکّوں پر رام اور سیتا کی جو تصویر منقوش کروائی وہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی۔

اکبر کا وزیر راجہ ٹوڈرمل ایک کٹّر ہندو تھا وہ جب تک پوجا پاٹ سے فارغ نہ ہوجاتا ، اس وقت تک نہ ناشتہ کرتا نہ کسی کام کو ہاتھ لگاتا۔ سفر وحضر میں اس کے ٹھاکر اس کے ساتھ رہتے تھے ۔ایک بار ایسا ہوا کہ وہ سفر میں تھا اور کوچ کے وقت بھاگ دوڑ میں اس کا ٹھاکروں والا تھیلا کہیں پیچھے رہ گیا یا کسی نے کیسٹرزر سمجھ کر اڑا لیا۴۶؂۔ اگلی صبح جب راجہ جی کو ٹھاکروں کی ضرورت پڑی تو تھیلہ غائب پایا۔ راجہ جی نے پوجاپاٹ کئے بغیر ناشتہ کو چھونے سے صاف انکار کردیا اور سرکاری کام سے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔ اس کے ٹھاکروں کی چوری کا واقعہ پورے کیمپ میں مشہور ہوگیابادشاہ کو جب پتہ چلا تو اس نے راجہ جی کو کہلا بھیجا کہ اگر ٹھاکر گم ہوگئے ہیں تو ان کا اتنا غم کیوں کرتے ہیں جو تمہارا ان داتا موجود ہوں، میرے درشن کرکے بھوجن کرلو۴۷؂۔ اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ اکبر خود کو کسی دیوتا سے کم نہ سمجھتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۴۵؂۔ منتخب التواریخ ،جلد ۲، ص ۳۲۶

۴۶؂۔ مآثر الامرأ ۔جلد ۲،ص ۱۲۵

۴۷؂۔ درباراکبری ،ص ۴۵۲

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابوالفضل اور بدایونی دونوں اس پر متفق ہیں کہ اکبر کے عہد میں درشینہ نام کا ایک فرقہ پیدا ہوگیا تھا وہ لوگ جب تک بادشاہ کے درشن نہ کرلیتے اس وقت تک نہ مسواک کرتے نہ کھانا کھاتے۴۸؂۔ جب بادشاہ سورج دیوتا کے ایک ہزار ایک نام جپ کر جھروکے میں آتا تو وہ سبھی سجدہ میں گرجاتے۴۹؂۔ عین ممکن ہے کہ اکبر نے ‘‘جھروکہ درشن’’ میں آکر درشنیوں کو آشیرواد دینا پرتگیزوں سے سیکھا ہو ، لیکن اس میں اس کے ‘‘اجتہاد ’’ کو بھی دخل ہے۔ درشن کے متعلق ابوالفضل نے اکبر کا یہ قول نقل کیا ہے،‘‘ میفرمودند دیدن فرماندہاں ازایزدی پرستش داشتہ انداورابز بان روزگا ر ظل اللہ خوانند‘‘۵۰؂۔ ہمارے خیال میں اکبر کے درشن محض ہندوؤں کے لئے ہی مخصوص نہ تھے بلکہ ‘‘مسلمان’’ بھی ان میں شامل تھے۔حضرت عبدالقدوس گنگوہیؒ نے سلطان سکندر لودھی کے عہد میں یہ فتویٰ صادر فرمایا تھا۔’’ النظرالیٰ وجہ السلطان العادل عبادہ ۵۱؂۔ اس کے بعد چشتی صابری مسلک کے درویش سلطان عادل کی زیارت کو عبادت سمجھنے لگے تھے ۔ جب شیخ مبارک نے اکبر کے سلطان عادل ۵۲؂۔ ہونے کا اعلان کیا تو چشتیوں نے ‘‘عبادت’’ کا یہ موقعہ غنیمت جانا اور وہ بھی ورشنیوں میں شامل ہوگئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۴۸؂۔ i۔ آئین اکبری ،جلد اوّل ،ص ۱۸۴۔                   ii۔ منتخب التواریخ ،جلد ۲ص ۳۲۶

۴۹؂۔ ایضاً۔

۵۰؂۔ آئین اکبری ،جلد ۳،ص ۳۰۷

۵۱؂۔ مکتوبات قدوسیہ،مکتوب ۳۴ ۔‘‘ سلطان عادل کاچہرہ دیکھنا بھی عبادت ہے۔’’

۵۲؂۔ منتخب التواریخ ،جلد ۲، ص ۲۷۱

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکبر نے ہندوؤں کی اور بھی کئی رسمیں اپنالی تھیں۔ بدایونی رقمطراز ہے کہ بادشاہ اکثر اپنے ماتھے پر برہمنوں کی طرح قشقہ لگاتا او ررکشا بندھن کے تہوار پر اپنی کلائی پر راکھی باندھا کرتا تھا۵۳؂۔ سنبلہ کا تہوار اس کے محل میں بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ جب کبھی اسے فرصت ملتی تو وہ برہمنوں کو جمع کرکے ہون کیا کرتاتھا۵۴؂۔ جب اکبر کی والدہ کا انتقال ہوا تو اس نے ہندوؤں کے رواج کے مطابق بھدراکروایا۵۵؂۔اس واقعہ کے چھ سال بعد جب اس کا رضاعی مدی اُمراء نے بھدرا کروایا۵۶؂۔ اکبر کے مصائب خاص طور پر ‘‘ مسلمانان ہندومزاج’’ بھی اس رسم کی سختی کے ساتھ پابندی کرتے تھے۔ جب شیخ مبارک راہئی ملک بقا ہوا تو سواطع الالہام کے مصنف فیضی نے ،جو بقول مولانا شبلی تفسیر لکھتے ہوئے بالکل ‘‘ملائے مسجدی’’ معلوم ہوتا ہے۵۷؂۔ ابوالفضل کی معیّت میں بھدراکروایا۵۸؂۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ فیضی نے مثنوی نل دومن کے آغاز میں سرورکائنات کی مدح میں جو اشعار کہے ہیں، وہ اس کے راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کا بہترین ثبوت ہیں اگر یہ واقعہ ان کے ذہن میں ہوتا تو وہ فیضی کو مسلمان کی بجائے ‘‘یکے از مسلمانان ہندومزاج’’ لکھتے۔اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت لکھناہی مسلمان ہونے کی دلیل ہے تو مہاراجہ سرکشن پرشاد شاد اور سندرلا

------------------

Part: 1 – Muhammad Aslam's book on Akbar’s Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu: Part 1 on Appreciation and Foreword دین الہٰی اور اس کا پس منظر

Part: 2 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 2 on Opening Remarks آغاز سُخن

Part: 3 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 3 on The Early Religious Life of Akbar اکبر کی ابتدائی مذہبی زندگی

Part: 4 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 4 on Impact of False Scholars (Ulama-e-Suu) on Deviation of Akbar علمائے سو

Part: 5 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 5 صُوفیائے خام

Part: 6 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 6 on the Objective of Shaikh Mubarak Nagori شیخ مبارک کا منصوبہ

URL: https://www.newageislam.com/books-documents/muhammad-aslam-akbar-deen-e-ilahi-urdu-part-7/d/131706

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..