محمداسلم
قسط ۱۱
اکبر اور عیسائی
1573ء میں جب اکبر سورت کا محاصرہ کئے پڑا تھا ، گو اسے پرتگیزی
حکام نے انٹونی کیبرل کی قیادت میں ایک وفد اکبر کی خدمت میں روانہ کیا۱۔ یہ پہلا موقع تھا جب اکبر
کا تعارف پادریوں کے ساتھ ہوا۔ اس واقعہ کے چار سال بعد سات گاؤں (بنگال) سے
پیڈروٹیورز نامی ایک پادری اکبر کے دربار میں حاضر ہوا ۔اکبر اس کی دیانت اور
قابلیّت سے بے حد متاثر ہوا اور اس کی خوب آؤ بھگت کی۲۔ پیڈروٹیورز کی وساطت
سے جولین پریرانامی ایک دریدہ دہن پادری اکبر کے دربار میں باریاب ہوا۔مکلیگن
کاکہنا ہے کہ وہ اکبر کے سامنے اسلام کی کمزوریاں اور خامیاں بیان کیا کرتا تھا۳۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔
دی جیسواٹس اینڈدی گریٹ مغل، ص۲۳، ۲۔ ایضاً ،ص ۲۴
۳۔
ایضاً۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عیسایت کے متعلق مکمل
تحقیق اور تجسس کے شوق میں اکبر نے پرتگیزی زبان سیکھنے پر بھی آمادگی ظاہر کی
تاکہ وہ براہ راست پادریوں سے گفتگو کر سکے۔ جولین پریرانے جب دیکھا کہ عیسائیت
میں اکبر کی دلچسپی روز بروز بڑھتی جارہی ہے تو اس نے اکبر کو بتایا کہ گوا میں
ایک سے ایک بڑھ کر پادری موجود ہے ،اگر وہ گوا کے پرتگیزی حکام کو لکھے تو وہ
یقینا چند پادریں اس کی خدمت میں بھیج دیں گے۴۔ دوجیرک کا بیان ہے کہ
اکبر نے خود گوا کے پرتگیزی حکام سے یہ درخواست کی کہ وہ اس کے دربار میں چند
عیسائی مبلغ بھیجیں۵۔
چنانچہ اس کی درخواست پر گوا سے رڈولف اقواویوا ،انٹونی مونسیرٹ اور فرانسس
ہنریقویز نام کے تین منہ پھٹ پادری آواخر فروری 1580ء میں فتح پور سیکری پہنچے۶۔ اکبر اور اس کے حواری
پادری رڈولف کی فہم وفراست کے بڑے معترف تھے۔ ابوالفضل کے اکبر نامہ کا ایک اہم
عصر مصّور نسخہ چیسٹر بیٹی لائبریری میں موجود ہے، اس میں ایک تصویر میں اکبر او
ررڈولف کو گفتگو کرتے ہوئے دکھا یا گیا ہے۔ یہ تصویر ایمی دلسز نے ‘‘اکبر زریلیجس
تھاٹ ریلفلکٹڈ ان مغل پینٹنگ ’’ میں شائع کردی ہے۷۔ مونسیرٹ بھی اچھا پڑھا
لکھا تھا اور وہ شہزادہ مراد کو پرتگیزی زبان پڑھانے پر مامور تھا۸۔ مونسیرٹ نے ایک ڈائری
اپنی یادگار چھوڑی ہے ، جس میں عبادت خانہ کے مذہبی مباحثوں کی تفصیل درج ہے۔
مؤخرالذکرپادری فرانسس ہنریقویز ایرانی النسل او رہر مز کا باشندہ تھا۔ پہلے وہ
مسلمان تھا بعد میں ازاں عیسائی مبلغوں کی سعی سے اس نے عیسائیت اختیار کرلی
۔فارسی اس کی مادری زبان تھی اس لئے وہ براہ راست اکبر سے گفتگو کر سکتا تھا۹۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۶۔
دی جیسواٹس اینڈدی گریٹ مغل،ص ۲۵،۲۶
۷۔
اکبر زریلجس تھاٹ ریلفلکٹڈ ان مغل پنٹیگ،پلیٹ نمبر ۳۳۔
۸۔
ایضاً،ص ۳۳۔
۹۔
ایضاً ،ص ۲۵
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح اکبر نے ان
پادریوں کی آؤ بھگت کی تھی او رجس ذوق وشوق سے وہ ان کی باتیں سنتاتھا ، اس سے
پادریوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ عنقریب ہی عیسائیت قبول کرلے گا۔ یہ پادری اکبر
کے دربار میں تین سال تک رہے لیکن وہ اکبر کو عیسائیت کی حقانیت کا قائل نہ کرسکے۔
عیسائی مؤرخین کا کہناہے کہ اکبر کو عقیدہ تثلیث پر سب سے زیادہ اعتراض تھا او
رپادری کسی طرح بھی اسے اس کا قائل نہ کرسکے۔
اس وفد کی واپسی کے بعد
بھی اکبر عیسائی مذہب میں باقاعدہ دلچسپی لیتا رہا ۔ایک بار اسے کسی نے بتایا کہ
پرتگیزوں نے توراۃ او رانجیل کافارسی میں ترجمہ کرلیاہے۔ یہ سنتے ہی اکبر نے سیّد
مظفر کو گوا روانہ کیا او ر اسے ہدایت کی کہ وہ بعجلت ممکنہ ۔۔۔دانا یان فرنگ۔۔ سے
یہ تراجم لے آئے۱۰۔
1590ء میں اکبر لاہور میں تھا، اتفاقاً اس کی ملاقات لیوگریمن
المعروف بہ پادری فرمالیون سے ہوئی۔ اکبر نے اس کے ہاتھ گوا کے پرتگیزی حکام کے
نام ایک خط بھیجا جس میں ان سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ پادریوں کا ایک وفد اس کے
دربار میں بھیج کر اسے ممنون کریں۱۱۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۰۔
رقدات ابوالفضل ،دفتر اوّل،ص ۳۸
۱۱۔
دی جیسواٹس اینڈدی گریٹ مغل،ص۴۶
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے وفد کی ناکامی کے
بعد گوا کے حکام اور پادری دوسرا وفد بھیجنے پر آمادہ نہ تھے، لیکن جب فرمالیون نے
انہیں بتایا کہ اب پہلے کی نسبت کامیابی کے کہیں زیادہ امکانات ہیں کیونکہ اکبر اب
پہلے جیسا مسلمان نہیں رہا۔ اب اس کے دربار میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر
بالکل اسی طرح ہوتاہے جیسے ہم عیسائی ممالک میں کرتے ہیں میں نے بچشم خود دیکھا ہے
کہ لاہور میں مساجد کے منارے گراکر انہیں اصطبلوں میں تبدیل کیا جارہا ہے۱۲۔ فرمالیون نے اکبر کی
اسلام دشمنی کا نقشہ کچھ اس انداز سے کھینچا کہ گوا کے حکام نے وفد بھیجنے کا
فیصلہ کرلیا۔ اس بار پادری ڈوارٹ لیٹاؤ ۔کرسٹوول ڈی ویگا اور ایسٹیواؤ رائبرواکبر
کی خدمت میں روانہ کئے گئے۱۳۔
اکبر نے حسب معمول ان
پادریوں کی بڑی عزت کی او ران کی رہائش کا انتظام کیا۔ ان پادریوں نے حسب عادت ایک
مشن اسکول کھولا او ربچوں کو تعلیم دینے لگے۔ یہ پادری مذہبی مناظروں میں بہت منہ
پھٹ واقع ہوئے تھے اس لئے دربار کے راسخ العقیدہ مسلمان اُمراء نے ان کی مخالفت
شروع کردی اور ان کیلئے اکبر کے دربار میں اپنا مشن جاری رکھنا محال ہوگیا۔چند روز
میں پادریوں کو بھی اس بات کا یقین ہوگیا کہ اکبر عیسائی نہیں ہوگا۔ اس لئے یہ مشن
جلدہی واپس لوٹ گیا۱۴۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۲۔
ایضاً ،ص ۴۸۔ ۱۳۔ ایضاً
۱۴۔
ایضاً۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوااور روم کے مذہبی
حلقوں میں دوسرے مشن کی جلد واپسی پر ناراضگی کا اظہار کیا گیا کیونکہ انہیں امید
تھی کہ اکبر عیسائی ہوجائے گا۔ اکبر نے خود ہی مشن کے اس طرح سے واپس چلے جانے سے
کوئی اچھا تاثر نہیں لیا تھا۔ 1594ء میں اکبر نے گوا کے پرتگیزی حکام سے پھر
درخواست کی کہ چند پڑھے لکھے پادری اس کے دربار میں بھیجے جائیں۔گوا کے حکام نے اس
کی درخواست کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے فادر جیروم ژیوئر، فادر عمانویل پنہیرو اور
برادر بینییڈکٹ گوئنر کو لاہور روانہ کیا۔ یہ تینوں ہی بڑے قابل اور فہم وفراست
میں ضرب المثل تھے۱۵۔
یہ وفد 5 مئی 1595ء کو
لاہور پہنچا او راکبر نے حسب سابق ان کی عزت میں کوئی دقیقہ فردگذاشت نہیں کیا۔ ان
پادریوں نے بھی لاہور میں ایک مشن اسکول کھولا اور اکبر سے لاہور میں ایک گرجا
تعمیر کرنے کی اجازت لے لی۱۶۔
اکبر نے اس گرجا کی تعمیر کے لئے شاہی خزانہ سے بھی ایک کثیر رقم ادا کی۱۷۔ جب یہ گرجا بن کر تیار
ہوا تو گوا سے فادر فرانسسکو کو رسی او را س کے بعد فادر انٹونی میکاڈرو لاہور
بھیجے گئے۔ جب اکبر لاہور کی سکونت ترک کرکے آگرہ چلا گیا تو جیروم او رمیکاڈوبھی
آگرہ چلے گئے۔
اکبر کی روانگی کے بعد
لاہور کے گورنر قلیچ خانؒ نے عیسائیوں کی مخالفت شروع کردی اور عیسائی اس کے خوف
سے لاہور سے بھاگنے لگے۔ مکلیگن کا کہنا ہے کہ عیسائی خان موصوف سے بڑے خائف رہتے
تھے او راس کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ذرا سوچ سمجھ کر کیا کرتے تھے۱۸۔
تیسرا عیسائی مشن بھی
پہلے دومشنوں کی طرح ناکام رہا۔ بظاہر یہ پادری اکبر کی موت تک اس کے ساتھ رہے۔ او
رنزع کے عالم میں بھی اکبر کو دیکھنے گئے ،مگر راسخ العقیدہ امراء کی موجودگی میں
ان کی دال نہ گلی ،ورنہ وہ تو اسے آخری سانس تک گناہوں سے پاک کرنے پر تلے ہوئے
تھے۱۹۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۵۔
ایضاً،ص۵۰۔ ۱۶۔
ایضاً ،ص ۵۴
۱۷۔
نقوش لاہور نمبر ص ۲۸۳۔
۱۸۔ دی جیسواٹس اینڈدی
گریٹ مغل، ص ۶۰۔
۱۹۔
ایضاً ،ص ۶۴۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان مشنوں کی غرض و غایت
کیا تھی یہ خود عیسائیوں کی زبان سے سنئے ڈرجیرک کی کتاب ‘‘اکبر انیڈدی جیسواٹس’’
کے دیباچہ میں پین صاحب رقمطراز ہیں کہ پادریوں کے جودفود اکبر کی بارگاہ میں
باریاب ہوئے ان کا مقصد اسے عیسائی بناکر اس کی سلطنت میں تعلیمات انجیل کی داغ
بیل ڈالنا تھا۲۰۔یہ
عیسائی پادری اپنے ساتھ قرآن مجید کا فارسی ترجمہ اس غرض سے لائے تھے کہ وہ اکبر کے
سامنے ‘‘قرآن کی خامیوں ، اس کی غلط بیانیوں او راختلافی مسائل کی وضاحت کرسکیں ۲۱۔ یہ عیسائی پادری اکبر
کو قانون اسلامی کے ‘‘ رطب ویابس’’ سے آگاہ کرنے کے علاوہ یہ بھی بتایا کرتے تھے
کہ محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ اصحابہ وسلّم) کا دیا ہوا قانون ‘‘جھوٹ کا پلندہ’’ ہے
۲۲۔ انہوں نے بادشاہ سے یہ
بھی درخواست کی کہ وہ اپنی مملکت میں قرآن کے درس وتدریس پر پابندی لگادے کیونکہ
وہ ‘‘اغلاط سے بھرا پڑا ہے’’۲۳۔
قرآن کریم کے متعلق
ابوالفضل بھی کم وبیش ایسے ہی خیالات رکھتا تھا جہانگیر نے ایک موقع پر یہ کہا تھا
کہ ابوالفضل نے یہ بات میرے والد کے ذہن نشین کرادی تھی کہ قرآن کریم وحی الہٰی
نہیں بلکہ یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف ہے۲۴۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۰۔
اکبر اینڈدی جیسواٹس ۔ص ۳۴۔ ۲۱۔ ایضاً ،ص ۱۱
۲۲۔
ایضاً،ص۶۱ ۲۳۔
ایضاً ،ص ۲۳۔۲۲
۲۴۔
مآثر الامراء ۔جلد ۲،
ص ۲۱۷
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب آگرہ میں پہلا گرجا
تعمیر ہوا تو اکبر بنفس نفیس وہاں پہنچا او رعیسائیوں کے ساتھ عبادت میں شریک ہوا۔
اس نے عیسائیوں کے دستور کے مطابق اپنی پگڑی اُتار کر رکھ لی او رگھٹنوں کے بل
کھڑے ہوکر دعا مانگی۲۵۔
ایک زمانہ تھا کہ وہ سلیم کو ملّا عبدالنبی کے گھر سماعت حدیث کے لئے بھیجا کرتا
تھا او راب یہ دن بھی آئے کہ اس نے شہزادہ مراد کو حکم دیا کہ وہ پادریوں سے انجیل
کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرے۲۶۔
ایک بار اکبر کشمیر کے
سفر میں تھا کہ اس کے دل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سوانح حیات جاننے کاکااشتیاق
پیدا ہوا۔ اتفاق سے سینٹ فرانسس ژیویر کا ایک رشتہ دار ژیر دنیوشویر اس سفر میں اس
کے ہم رکاب تھا۔ اکبر کی فرمائش پر اس نے حضرت عیسیٰ علی نبینا وعلیہ السلام کے
سوانح حیات ۔۔مرأۃ القدس کے نام سے لکھ کر اس کی خدمت میں پیش کئے ۔ اتفاق سے مرآۃ
القدس کا 1602ء کا لکھاہوا ایک مخطوطہ برٹش میوزیم لندن میں محفوظ ہے۔ اس کے
دیباچہ میں زیر ونیموشویر نے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ اس نے یہ کتاب بادشاہ کے
حکم پر قلمبند کی ہے۲۷۔
اسی طرح اکبر نے ابوالفضل
کویہ حکم دیا کہ وہ انجیل کا فارسی میں ترجمہ کرے۔ بدایونی نے ابوالفضل کا یہ
ترجمہ دیکھا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کی ابتداء ۔۔۔اے نامی دی ژژوکرستو۔۔ سے ہوتی
تھی۲۸۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۵۔
اکبر اینڈ دی جیسواٹس، ص ۲۵۔
۲۶۔
ایضاً ،ص ۲۵، ii ۔ منتخب التواریخ ،جلد۲،ص ۲۶۰
۲۷۔
کٹیلاگ آف دی پرشین مینوسکرپٹس ان دی برٹش میوزیم جلداوّل ،ص ۳
۲۸۔
منتخب التواریخ ،جلد ۲،ص
۲۶۰
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدایونی کا یہ کہنا ہے کہ
اکبر کے پاس حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت مریمؑ کی تصاویر تھیں اور اس نے عیسائیوں کے
بعض طریقے بھی اپنا لیے تھے۲۹۔
ابوالفضل او ربدایونی دونوں اس پر متفق ہیں کہ اکبر صبح کے وقت ایک جھروکہ میں آکر
اپنی رعایا کو درشن دیا کرتا تھا۔ عین ممکن ہے کہ اکبر نے یہ چیز عیسائی پادریوں
سے سیکھی ہو کیونکہ ان کے ہاں بھی پاپائے اعظم اتوار کے روز بسدکاسینٹ پیٹرز کے
جھروکہ میں آکر اپنے معتقدین کو درشن دیتا تھا۔
بدایونی کا یہ کہنا ہے کہ
یہ دریدہ دہن پادری اکبر کے دربار میں قرآن اسلام اور بائی اسلام کو علی الاعلان
بُرابھلا کہتے تھے او روہ علماء کے ساتھ مناظروں میں دجال کی تمام صفات
(نعوذباللہ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ آلہ واصحابہ وسلم کی ذات پاک میں ثابت کرتے
تھے۳۰۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۹۔
ایضاً ،ص ۳۰۴۔‘‘
عیسائی ذرائع سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ اکبر ان تصویروں کا بڑا احترام کیا
کرتا تھا۔ملاحظہ ہو۔ دی جیسواٹس اینڈدی گریٹ مغل، ص ۵۳
۳۰۔
ایضاً ۔ص ۲۶۰
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے مؤرخین کے بیانات سے
بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان کی بدزبانی سے راسخ العقیدہ مسلمان امراء بہت برافروختہ
ہوتے تھے، او رنوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ اکبر کو پادریوں کے لئے ایک حفاظتی
دستہ کاانتظام کرنا پڑا تھا۔ بدایونی کو بعض روشن خیال مؤرخ دورغ گو اور کذب نگار
کہتے ہیں ، ان کا یہ کہنا ہے کہ بدایونی نے یہ سب باتیں اپنے دل کی بھڑاس نکالنے
او راکبر کو بدنام کرنے کی خاطر لکھی ہیں۔ حالانکہ ڈوجیرک کی اپنی تحریروں سے بھی
یہی ثابت ہوتاہے کہ وہ پادری بڑے دریدہ ذہن ثابت ہوئے تھے۔ مونسیرٹ کی ڈائری بھی
اس پر شاہد ہے کہ وہ بڑا منہ پھٹ تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بڑے
نازیبا الفاظ میں کیا کرتا تھا۳۱۔یہ
تو اکبر کے عہد میں پادریوں کی کیفیت تھی، شاہجہاں کے عہد میں منریق نامی ایک
عیسائی مشنری نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا ۔ اس کا سفر نامہ شائع ہوچکا ہے،بدایونی
نے ایسی کوئی بات عیسائیوں کے متعلق نہیں لکھی جس کی صدائے بازگشت منریق کے سفر
نامہ سے نہ سنائی دیتی ہو۔
ان عیسائیوں کی آمد ورفت
او ران کے مناظر ے سن کر اکبر کے دل سے قرآن ، اسلام اور بانی اسلام کا احترام
جاتارہا۔بدایونی کا کہنا ہے کہ اکبر نے علوم شریعت یعنی قرآن ،حدیث اورفقہ کے
پڑھنے پڑھانے پر پابندی لگا دی اور ان کی بجائے ریاضی ، ہیئت ،نجوم او رمنطق جیسے
مضامین کا مطالعہ کرنے کا حکم دیا ۔ابوالفضل کی آئین اکبری سے بھی بدایونی کے اس
بیان کی تصدیق ہوتی ہے کہ بادشاہ نے صرف علوم عقلیات کی تحصیل کا حکم دیا تھا۳۳۔شاید ان ہی پادریوں کے
مناظرے سن کر اکبر کے دل سے بانی اسلام کا احترام اُٹھ گیا تھا ، اور اس نے احمد،
محمد، محمود او رمصطفی جیسے نام رکھنے پر ناخوشنودی کا اظہار کیا۳۴۔ علاوہ ازیں اس نے حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی کلمہ طیبہ سے حذف کردیا( او رخاص خاص حلقوں یا
شاہی محلات کے اندر) یہ کلمہ پڑھا جاتا تھا ۳۵۔
لاالہ الا اللہ اکبر
خلیفۃ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۱۔
مونسیرٹس کا منٹری ،ص ۱۳۰۔ ۳۲۔ ایضاً ،ص ۳۳۶
۳۳۔
آئین اکبری ، جلداوّل ،ص ۲۵۰۔
۳۴۔
منتخب التواریخ ،جلد ۲،ص
، ۲۶۹،۳۱۴
۳۵۔
ایضاً ۔ص ۲۷۳
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ اگر بادشاہ
کے کسی ملازم کے نام کا جزومحمد ہوتا تو وہ اسے کسی دوسرے نام سے پکارتاتھا۳۶۔ اس نے خود اپنے پوتوں
کے نام ساسانی بادشاہوں کے ناموں پر ہونشنگ، ملہورث او ربالسینغررکھے تھے۳۷۔عین ممکن ہے کہ اکبر نے
ایک سے زائد شادیوں پر پابندی ان ہی پادریوں کے زیر اثر لگائی ہو۔
عیسائیوں کی صحبت میں
رہتے ہوئے اکبر نے ان کی بہت سی عادات اپنا لی تھیں۔ بدایونی کا کہنا ہے کہ
۔نواختن ناقوس نصاریٰ وتماشائی صورت ثالث ثلاثہ وبلبلان کی خوش گاہ ایشان است وسا
پر لہوولعب وظیفہ شد‘‘ وکفر شائع شد’’ تاریخ یا فتند’’۳۸۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۶۔
ایضاً ،ص ۲۶۹،
۳۱۴
۳۷۔
تکملہ اکبر نامہ ،ورق ۳۵الف
، ۴۶
الف
۳۸۔
منتخب التواریخ ،جلد۲،ص
۳۰۴
---------------
Part: 5 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part
5 صُوفیائے خام
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism