New Age Islam
Fri Apr 18 2025, 03:31 AM

Books and Documents ( 1 March 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background: Part 10 on the Parsis and Akbar دین الہی اور اس کا پس منظر : پارسی اور اکبر

محمداسلم

قسط ۱۰

پارسی اور اکبر

پارسی مؤبدوں کو عبادت خانہ میں آکر مذہبی مباحثوں میں حصہ لینے کا باقاعدہ دعوت نامہ بھیجنے سے پہلے ہی اکبر زرتشی مذہب سے متعارف ہوچکا تھا۔ گجرات میں قیام کے دوران اکبر کو پارسیوں سے ملنے کا اکثر اتفاق ہوتاتھا۔مؤرخین کا کہنا ہے کہ 1573ء میں جب اکبر سورت کا محاصرہ کئے پڑا تھا ان دنوں اس نے پارسیوں کے مشہور مذہبی رہنما دستور مہرجی رانا کی شہرت سنی جوان دنوں سورت کے نواح میں نوساری میں مقیم تھا۔ اکبر نے اس سے ملاقات کا اشتیاق ظاہر کیا او راسے شرف باریابی بخشا ۔ ملاقات کے دوران اکبر اس کی گفتگو سے اس قدر متاثر ہوا کہ اسے دارالحکومت آنے کی دعوت دی۱؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂۔ اکبر دی گریٹ ،جلداوّل ،ص ۲۴۸

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابولفضل کی تحریروں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دستور مہرجی رانا دوسرے پارسی وساتیر کے ساتھ 1578ء میں عبادت خانہ میں موجود تھا۔ مہرجی رانا چونکہ ایرانی النسل تھا اس لئے اسے فارسی زبان پر پورا عبور تھا،بنا بریں اکبر کے ساتھ گفتگو کرتے وقت اسے کسی مترجم کی ضرورت نہ تھی۔مہرجی رانا سیدھے سادھے الفاظ میں زرتشی مذہب کے عقائد او رنظریات کچھ اس طریقے سے اکبر کے ذہن نشین کئے کہ وہ سورج ،آگ اور چراغ کی پرستش کرنے لگا۔ ابوالفضل رقمطراز ہے کہ بادشاہ آگ کو ۔۔اُم العناصر ۔۔سمجھتا تھا اس لئے وہ اسکی تعظیم دل وجان کے ساتھ کیا کرتا تھا۲؂۔ بدایونی رقمطراز ہے کہ جب نوساری سے پارسی وساتیر کا وفد دارالحکومت آیا تو ان کے زیر اثر اکبر نے ابوالفضل کو حکم دیا کہ وہ اس بات کا خاص اہتمام کرے کہ شاہی محل کے اندر ہمہ وقت آگ روشن رہے۳؂۔ بادشاہ کے حکم سے شاہی آتشکدہ کو آباد رکھنے کے لئے کرمان سے پارسیوں کی ایک جماعت دارالحکومت بلائی گئی۔ انہی ایّام میں کرمان کے ایک پارسی مؤبددستور اردشیر کا شہر ہ اکبر کے دربارتک پہنچا تو اس نے ایک خصوصی دعوت نامہ بھیج کر اسے فتح پور سیکری بلایا۴؂۔ الناس علی دین ملوکھم کے مصداق اکبر کے مصاحب بھی پارسیوں کو دل وجان کے ساتھ احترام کیا کرتے تھے۔ محسن فانی کی روایت ہے کہ ابوالفضل آذر کیوان نامی ایک پارسی مؤبد کا دل وجان کے ساتھ معتقد تھا۵؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲؂۔ مہابھارت ،ص ۲۵ ۳؂۔ منتخب التواریخ ، جلد۲،ص ۲۶۱

۴؂۔ دبستان مذاہب ، ص ۲۶۶      ۵؂۔ ایضاً

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آگ کی عظمت نے اکبر کے دل میں چراغ کے لئے بھی تعظیم پیدا کردی تھی۔‘‘عظمت چراغ’’ کے تحت ابوالفضل لکھتا ہے:۔

گیہان فروز روشن دل نوردوستی راایزدپرستی شمار دوستائش الہٰی اندیشد ،نادان تیرہ خاطر داد ار فرامشی و آذر پرستی خیال کند۶؂۔

جہان کو روشن کرنے والا روشن دل (بادشاہ) آگ کی محبت کو خداپرستی اور ستائش الہٰی سمجھتا ہے لیکن تاریک باطن نادان اسے خدافراموشی اور آذر پرستی پر محمول کرتاہے۔

ابوالفضل کی روایت ہے کہ بادشاہ چراغ کو لُوکو۔۔ سرچشمہ الہٰی نور۔۔ کہا کرتاتھا۷؂۔ اس لئے جب شام کے وقت شاہی محل میں چراغ روشن کئے جاتے تو شاہی خدام سونے چاندی کے بارہ لگنوں میں کافوری شمعیں لے کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ بادشاہ شمعوں کا دل وجان کے ساتھ احترام کرتا او ران کی آرتی لیتا۔ جب تک روشن دل بادشاہ ‘‘ایزدپرستی’’ میں مصروف رہتا اتنی دیر ایک خوش الحان خادم شمع کی مدح سرائی اور بادشاہ کے لئے دعا کرتارہتا تھا۸؂۔ بدایونی کی روایت ہے کہ اگر بادشاہ دربار میں ہوتا اورچراغ جلانے کا وقت ہوجاتا تو وہ چراغ جلانے کے وقت احتراماً کھڑا ہوجاتا او راس کی تقلید میں اس کے دربار ی بھی چراغ کے احترام میں کھڑے ہوجاتے۹؂۔ ابوالفضل لکھتا ہے کہ اکبر کہا کرتاتھا کہ چراغ روشن کرنا سورج کی یاد تازہ کرناہے اور جو شخص سورج کو عزیز رکھتا ہو وہ اگر (غروب آفتاب کے بعد) چراغ جلاکر اس کا احترام نہ کرے تو پھر او رکیا کرے؟۱۰؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۶؂۔ آئین اکبری، جلد اوّل ،ص ۴۷              ۷؂۔ ایضاً۔

۸؂۔ ایضاً ،ص ۴۸۔      ۹؂۔ منتخب التواریخ ،جلد۲ ،ص ۲۶۱۔‘‘ مقربان نیزدر وقت افردختن شمع وچراغ قیام لازم ساختند’’۔

۱۰؂۔ آئین اکبری ،جلد ۳، ص ۳۰۳

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پارسی مؤبدوں کی صحبت میں رہتے ہوئے اکبر تجہیز وتکفین کے اسلامی طریقہ کو ناپسند کرنے لگا تھا۔ پارسی چونکہ اپنے مردوں کو دخموں میں سورج کی روشنی میں گلنے سڑنے کے لئے رکھ آتے ہیں ان کی دیکھا دیکھی اکبر بھی اسی طریقہ پر عمل کرنے لگا تھا۔ جب اکبر کا مرید خاص سلطان خواجہ فوت ہوا تو اکبر نے قریب قریب پارسی طریقہ کے مطاق ہی اسے ٹھکانے لگایا تھا۔ بدایونی رقمطراز ہے کہ قبر میں اتارنے سے پہلے میت کی زبان پر ایک دہکتا ہوا انگارہ رکھا گیا اور لحد بند کرتے وقت میت کے چہرہ کے مقابل مشرق رو ایک دریچہ بناگیا تاکہ ہر صبح جب۔آفتاب جلّت عظمتہ وغرشانہ۔ طلوع ہو تو اس کی پہلی کرنیں میت کے چہرہ پر پڑیں۔ بدایونی کا خیال ہے کہ اکبر اور اس کے پیروؤں کا یہ عقیدہ تھا کہ سورج کی روشنی انسان کو گناہوں سے پاک کردیتی ہے۱۱؂۔ ہمارایہ خیال ہے کہ چونکہ آگرہ میں پارسیوں کا کوئی باقاعدہ وخمہ موجود نہ تھا اس لئے اکبر نے قبر میں کھڑکی بناکر میت کو ٹھکانے لگانے کا پارسیوں سے ملتا جلتا طریقہ وضع کرلیا تھا۔

شہرہ آفاق ہندومؤرخ ڈاکٹر سری واستوا رقمطراز ہے کہ پارسیوں کے زیر اثر اکبر ان جیسا ہی لباس پہننے لگاتھا۱۲؂۔ ان ہی پارسیوں کے زیر اثر اکبر نے سن ہجری منسوخ کرکے اس کی جگہ قدیم ایرانی کلینڈر کو رواج دیا۱۳؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۱؂۔ منتخب التواریخ ،جلد۲،ص ۳۴۱

۱۲؂۔ اکبر دی گریٹ ،جلد اوّل ،ص ۲۵۰       ۱۳؂۔ ایضاً

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ابوالفضل کی ایک تحریر سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اکبر کے عہد حکومت میں یہ بات کوتوال کے فرائض میں شامل تھی کہ وہ اس بات کا خاص خیال رکھے کہ اس کے حلقہ اختیار میں عوام صرف قدیم ایرانی کلینڈر ہی استعمال کریں۱۴؂۔ پارسیوں کی صحبت میں رہتے ہوئے اکبر کے دل میں نوروز کی اہمیت پیدا ہوگئی تھی، چنانچہ نوروز کا تہوار اس کے شاہی محل میں بڑی دھوم دھام کے ساتھ منایا جاتاتھا۔

دستور مہرجی رانا نے اپنے ہم مذہبوں کے لئے بادشاہ سے بہت سی مراعات حاصل کیں اور اس کے ہم مذہبوں نے بھی اس کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اسے ہندوستان کا مؤبداعظم مقرر کیا۱۵؂۔

اکبر کے دل میں دستور مہر جی رانا کا کتنا احترام تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اکبر نے اسے مددمعاش کے طور پر دوسو بیگھہ اراضی دی ہوئی تھی۔ جب 1591ء میں رانا کا انتقال ہوا تو اکبر نے وہ اراضی اس کے فرزند کیقباد کے نام منتقل کردی۔ کیقباد نے شاہی دربار کے ساتھ تعلقات بحال رکھے اور اکبر ا س سے اس قدر خوش تھا کہ 1595ء میں اس نے مزید سوبیگھہ زمین کیقباد کو عطا کی۱۶؂۔

ابوالفضل کی ایک تحریر سے یہ مترشح ہوتاہے کہ پارسیوں کی صحبت میں رہتے ہوئے اکبر نے جو طور طریقے اپنائے تھے انہیں دیکھ کر ۔۔نادان تیرہ خاطر ۔۔یہ سمجھتے تھے کہ بادشاہ نے پارسی مذہب اختیار کرلیا ہے۱۷؂۔ ہمارے خیال میں جب ‘‘نادان تیرہ خاطر ’’ روشن دل بادشاہ کو سورج کی پرستش کرتے ،آگ کے سامنے جھکتے ،چراغ کی آرتی لیتے، ایرانی کلینڈر کو رائج کرتے ، نوروز کا تہوار مناتے، آتش کدے تعمیر کرتے اور پارسیوں کے لباس میں ملبوس دیکھتے تو وہ۔۔ من تشبہ بقوم فھو منھم ۔ کے مصداق اسے پارسی ہی سمجھتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۴؂۔ آئین اکبری ،جلد اوّل ،ص ۳۵۰

۱۵؂۔ دی پارسیز ایٹ دی کورٹ آف اکبر،ص ۱۵۴، ۱۵۵

۱۶؂۔ اکبر دی گریٹ ۔جلد اول ،ص ۲۵۰

۱۷؂۔ آئین اکبری جلداوّل ،ص ۴۷

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Part: 1 – Muhammad Aslam's book on Akbar’s Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu: Part 1 on Appreciation and Foreword دین الہٰی اور اس کا پس منظر

Part: 2 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 2 on Opening Remarks آغاز سُخن

Part: 3 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 3 on The Early Religious Life of Akbar اکبر کی ابتدائی مذہبی زندگی

Part: 4 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 4 on Impact of False Scholars (Ulama-e-Suu) on Deviation of Akbar علمائے سو

Part: 5 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 5 صُوفیائے خام

Part: 6 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 6 on the Objective of Shaikh Mubarak Nagori شیخ مبارک کا منصوبہ

Part: 7 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 7 on Akbar and Hindus اکبر اور ہندو

Part: 8 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 8 on Bhakti Movement and Akbar بھکتی تحریک اوراکبر

Part: 9 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 9 on Jainism and Akbar جینی اوراکبر

URL: https://www.newageislam.com/books-documents/muhammad-aslam-akbar-deen-e-ilahi-urdu-part-10/d/131826

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..