New Age Islam
Fri Apr 18 2025, 03:43 AM

Books and Documents ( 16 Feb 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background: Part 8 on Bhakti Movement and Akbar بھکتی تحریک اوراکبر

اکبر اور ہندو

محمداسلم

بھکتی تحریک اوراکبر

جن دنوں ہندو مبلغ جنوبی ہندوستان میں ہندودھرم کے پرچار میں مشغول تھے، ٹھیک اسی زمانے میں شمالی ہندوستان میں بھکتی تحریک کاآغاز ہوا۔اس تحریک نے متعدد بار ہندوستان کی مذہبی ،معاشرتی اور سیاسی زندگی میں ہلچل پیدا کی۔ اگر اس تحریک کے بنیادی اصولوں کا بغور مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ تحریک دراصل بدھوں کی پھیلائی ہوئی دہریت کا ردّ عمل تھی ،اور مختلف الخیال لوگ اس دہریت کا قلع قمع کرنے کے لئے متحد ہوگئے تھے۱؂۔ اس تحریک کے رہبر انپے خیالات کا اظہار نثر کی بجائے گیتوں اور بھجنوں میں کرتے تھے او ران کے سیدھے سادے الفاظ عوام کے دلوں میں اُتر جاتے تھے۔ فرکو ہر نے اس تحریک کے لٹریچر کابڑا گہرا مطالعہ کیا تھا، اس کا یہ خیال ہے کہ بھکتی تحریک کے رہبروں نے جو بھجن اورگیت لکھے وہ ہندی زبان کے مذہبی لٹریچر کابہترین سرمایہ ہیں۲؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂۔ گلمسپز آف دی مڈیول انڈین کلچر ،ص۷

۲؂۔ دی ورنکلیر ریلیجیس یونٹری آف انڈیا،ص ۶۰۳

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس تحریک کے چلانے والوں میں رامانج کا نام سرِ فہرست ہے۔ یہ بزرگ بارھویں صدی کے نصف اوّل میں مدراس سے 26 میل کے فاصلہ پر سری پرمیودرنام کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا۳؂۔ رامانج نے اپنی تعلیم کا آغاز ویدانت سے کیا او ریاد اور پرکاش نامی ایک یوگی کی صحبت میں رہ کر وہ بھی یوگی بن گیا۔

عام ہندوؤں کے برعکس رامانج موحد تھا اور اس نے اپنی تعلیمات میں خدا کی وحدانیت پر زور دیا ہے۴؂۔ اس نے عوام کو خدا کی بھکتی کی طرف توجہ دلائی او را س مقصد کے تحت اس نے کئی اہم کتابیں لکھیں۔ رامانج نے اپنشدوں کی شرحوں پر، جو متعصب ہندوؤں نے مشرکانہ رنگ میں لکھی ہوئی تھیں، اعتراض کیا اور گیتا کی شرح اپنے انداز میں لکھی۵؂۔

رامانج نے زیادہ کام ہندوؤں کی نیچ ذاتوں میں کیا، او را س کی سعی و پرچار سے ہزاروں اشخاص شرک سے توبہ کرکے موحد بن گئے۶؂۔ رامانج کی زندگی کا بیشتر حصہ جنوبی ہندوستان میں گذرا ،اس لئے شمالی ہندوستان میں اس کا مشن رامانند نے جاری کیا۔ فرکو ہر کے خیال میں رامانند بھکتی تحریک کا حقیقی بانی تھا۷؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۳؂۔ دی لائف اینڈ ٹیچنگز آف شری رامانج اچاریہ ،ص ۴۵

۴؂۔ ایضاً ،۲۶۳،۲۷۵

۵؂۔ گیتا ہی ہندوؤں کی وہ کتاب ہے جس کے متعلق ہمارے علما نے اچھے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ شاہ عبدالعزیزدہلویؒ گیتا کے متعلق یہ فرمایا کرتے تھے کہ اسے پڑھ کر یوں معلوم ہوتاہے کہ اس کے مصنف شری کرشن چندر اولیاء اللہ میں سے تھے ۔رودکوثر ،ص ۵۶۹

۶؂۔دی رینائسنس آف ہندوازم ،ص ۴۱

۷؂۔ آؤٹ لائن آف دی ریلجیس لٹریچر آف انڈیا۔ص ۳۲۳

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ڈاکٹر ناراچند کے خیال میں رامانند نے شمالی او رجنوبی ہندوستان کے درمیان ایک پُل کا کام دیا ہے۸؂۔

رامانند 1400ء میں پریاگ میں پیدا ہوا ،لیکن اس کی زندگی کا بیشتر حصہ بنارس میں گذرا۹؂۔ وہ بھی اپنے پیشرو کی طرح ذات پات کا سخت مخالف تھا اور اس نے اپنی زندگی نیچ ذاتوں کی فلاح وبہبود او رہندوستانی معاشرہ میں ان کو صحیح مقام دلانے کے لئے وقف کردی تھی۱۰؂۔ اس کا کلام ، جو نیچ ذاتوں میں بہت مقبول تھا ، گورونانک نے گرنتھ صاحب میں شامل کرلیا ۔رامانند نے اپنے پیچھے بے شمار چیلے چھوڑے، جن میں سے بھگت کبیر نے بڑا نام پیدا کیا۔

بھگت کبیر 1440ء میں ایک ہندوگھرانے میں پیدا ہوا۔ لیکن اس کی تربیت ایک مسلمان جولا ہے کے گھر میں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ‘‘ہندومت’’ پر اسلامی رنگ غالب ہے۱۱؂۔ اس کے کلام کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ مختلف المذاہب لوگوں کے لئے جنہیں مذہب نے ایک دوسرے سے الگ تھلگ رکھا ہوا تھا ، ایسی فضا پیدا کرنا چاہتا تھا جس میں وہ باہم شیر وشکر ہوکر رہ سکیں۱۲؂۔ اس نے اپنی کوششوں سے وہ رکاوٹیں کافی حد تک دور کردیں جنہوں نے اسلام او رہندو دھرم کو ایک دوسرے سے الگ رکھا ہوا تھا۱۳؂۔ کبیر نے ایسے دھرم کا پرچار کیا جس کی بنیاد باہمی نفرت او رعناد کی بجائے محبت اور خلوص پر قائم تھی۱۴؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۸؂۔ دی اتفلو ئنس آف اسلام آن انڈین کلچر، ص ۱۴۳

۹؂۔ ایضاً ،ص ۱۴۳،۱۴۴ ۱۰؂۔ دی رینائسنس آف ہندازم ،ص ۵۲

۱۱؂۔ ایضاً ،ص ۵۳ ۱۲؂۔ گلمپسز آف دی مڈیول انڈین کلچر،ص۱۸۔۱۹

۱۳؂۔ کبیر اینڈدی کبیرپنتھ ،ص iii دیباچہ

۱۴؂۔ دی انفلوئنس آف اسلام آن انڈین کلچر ،ص ۔۱۵

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اسلام او رہندو دھرم کے ان اصولوں کو،جو اس کی تعلیمات کے منافی تھے، ٹھکرادیا۔

ڈاکٹر تاراچند کے خیال میں وہ پہلا ہندوستانی تھا جس نے ہندوستان کے دوعظیم مذاہب کے درمیان اختلافات کی خلیج پاٹنے کی مخلصانہ کوشش کی او ران کے بین بین ایک متوازن راستہ تلاش کرلیا۱۵؂۔ ہم آئندہ چند صفحات میں یہ ثابت کریں گے کہ اکبر نے بھی کبیر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام او رہندو دھرم کے درمیان ایک راہ نکالی تھی جسے وہ توحید الہٰی او ربدایونی دین الہٰی کے نام سے موسوم کرتاہے۔ اکبر نے بھی کبیر کی طرح یہی کیاکہ اسلام اور ہندودھرم کے اچھے اچھے اصول اپنائے او ر جو باتیں اس کے مشن کے منافی تھیں ، ان کو ماننے سے صاف انکار کردیا۔ ڈاکٹر قانون گو کبیر کے متعلق لکھتاہے کہ ہندوستان میں اکبر سے لیکر مہاتماگاندھی تک جس نے بھی ‘‘ ہندو مسلم اتحاد’’ کے لئے کام کیا ا س نے کبیر کی تعلیمات کو ہی مشعل راہ بنایا ۱۶؂۔

مسلمان کبیر کو ایک صوفی سمجھتے ہیں او ربعض لوگوں کے خیال میں وہ محی الدین اکبر ابن عربیؒ کی تعلیمات سے متاثر تھا۱۷؂۔ اگر کبیر کے کلام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو بعض مقامات پر وحدت الوجود کے نظریہ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔سید عبدالقادر حسینی نے اپنی تصنیف ابن العربی میں کبیر کے بعض اشعار کا ابن العربی کے اشعار سے موازنہ کرکے یہ ثابت کیاہے کہ کبیر ابن العربی کے نظریہ وحدت الوجود سے بے حد متاثر تھا۱۸؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۵؂۔ ایضاً ۔ص ۱۶۳ ۱۶؂۔ داراشکوہ ، ص ۳۳۶

۱۷؂۔ ابن العربی ،ص ۴۷ ۱۸؂۔ ایضاً۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محسن فانی کبیر کے متعلق لکھتا ہے کہ وہ بڑے اونچے پایہ کاصوفی تھا۱۹؂۔ مفتی غلام سرور نے خزینۃ الاصفیاء میں کبیر کا ذکر شیخ کبیر جولا ہیہ قدس سرہ کے عنوان کے تحت کیاہے۲۰؂۔ ابوالفضل نے کبیر کو ہندو یا مسلمان کی بجائے موحد لکھا ہے۲۱؂۔

سلطان سکندر لودھی نے کبیر کو اس کے آخر ی ایّام حیات میں بنارس سے جلاوطن کردیاتھا، اس لئے اس کی بقیہ عمر سپرد حیات میں گزری کبیر کا انتقال 1518ء میں گورکھپور کے قریب ایک گاؤں میں ہوا۲۲؂۔

کبیر کی وفات کے بعد اس کامشن اس کے چیلوں نے جاری رکھا، ان میں سے دھرم داس نے بڑا نام پایاہے ۔اس نے جبل پور کے قریب باندوگڑھ میں ایک مٹھ قائم کرکے اسے کبیر پنتھیوں کا روحانی مرکز بنایا۲۳؂۔ جہاں مبلغوں کی تربیت دے کر کبیر پنتھ کے پرچار کے لئے ملک کے طول وعرض میں بھیجا جاتاتھا۔ لیکن کبیر کامشن ا س کے چیلوں کی بجائے گورونانک دیونے بڑے احسن طریقہ سے پورا کیا او را س کا کلام گرنتھ صاحب میں شامل کرلیا۔ دسویں گورو گوبند سنگھ کاکہنا ہے‘‘کبیرپنتھ اب بھیؤ خالصہ’’ یعنی کبیر پنتھ اب سکھ دھرم میں مدغم ہوگیا ہے۲۴؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۹؂۔ دبستان مذاہب ،ص ۱۵۹ ۲۰؂۔ خزینۃ الاصفیاء ،جلد ۲، ص ۴۴۷

۲۱؂۔ آئین اکبری جلد ۲، ص ۱۴۵۔‘‘ دررتن پور کبیر موحد درزمان سکندلودی بودمختی درمعنی پردہ کشایش یافت داز فرسودہ رسمہای روزگار برکنارہ شد فراوان حقایق بشعر ہندی زبان از دیادگار’’۔

۲۲؂۔ آؤٹ لائن آف دی ریلیجس لٹریچر آف انڈیا۔ص ۳۳۲

۲۳؂۔ کلمپسز آف دی مڈیول انڈین کلچر ،ص ۲۷

۲۴؂۔ ایضاً ،ص ۲۷،۲۸

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دھنہ نامی ایک جاٹ نے بھی اس تحریک میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا۔وہ راجستھان میں 1415 ء میں پیدا ہوااور حق کی تلاش میں مختلف تیرتھوں کی یاترا کرتاہوا بالآخر بنارس پہنچا ،جہاں اس کی ملاقات رامانند سے ہوئی ۔ رامانند کے سیدھے الفاظ میں دھنہ کے دل پر بڑا اثر کیا او ر وہ اس کاچیلہ بن گیا۔دھنہ نے اپنی بقیہ عمر اپنے گورو کے خیالات کو عام کرنے کیلئے وقف کردی۲۵؂۔ اس کا کلام گورونانک دیو نے گرنتھ صاحب میں شامل کرکے اسے امر کردیا ۔سکھ حلقوں میں دھنہ کا نام بڑے احترام کے ساتھ لیا جاتاہے او راکثر وعظ وتلقین میں اس کی ‘‘خدایابی’’ کا قصہ بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیا جاتا ہے۲۶؂۔

دھنہ کی طرح نامدیونامی ایک درزی نے بھی اپنی زندگی بھکتی تحریک کے لئے وقف کردی تھی۔ وہ اپنی مادری زبان مرہٹی کے علاوہ ہندی سے بھی واقف تھا اس لئے وہ اپنے خیالات کاپرچار ان دونوں زبانوں میں کیا کرتا تھا۔شرما کی روایت کے مطابق مہاراشٹر او رپنجاب اس کی سرگرمیوں کے مرکز تھے۲۷؂۔ اس کے انتقال کے بعد اس کا ہندی کلام گورونانک نے گرنتھ صاحب میں شامل کرلیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۵؂۔ دی انفلوئنس آف اسلام آن انڈین کلچر ،ص ۱۷۸

۲۶؂۔ میں نے یہ قصہ بارہا گورودارہ سنگھ سبھا نیوکیسل میں گرنتھی کی زبانی سنا ہے۔

۲۷؂۔ دی رینائسنس آف ہندوازم ،ص ۵۶۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نامدیو کے بعد جس شخص نے بھکتی تحریک میں کام کرکے نام پایا وہ ایکناتھ نامی ایک برہمن تھا۔لطف کی بات یہ ہے کہ وہ برہمن ہوکر ذات پات کا سختی کے ساتھ مخالف تھا اور اس نے ادنیٰ واعلیٰ کو مساوی حقوق دلانے کے علاوہ ہندو مسلم اتحاد کے لیے کافی کوشش کی۲۸؂۔ وہ اکبر کا ہم عصر تھا۔

دادوبھی کبیر کی طرح بھکتی تحریک کے بڑے رہنماؤں میں شمار ہوتاہے۔ دادو 1544 ء میں احمد آباد میں پیدا ہوالیکن اس کی عمر عزیز کا زیادہ حصہ راجستھان میں گزرا۔ اس کی بانی میں تقریباً 5000 اشعار ہیں جن کا تعلق انسانی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کے ساتھ ہے۲۹؂۔ دادواکبر کاہم عصر تھا اورڈاکٹر تارا چند کی روایت کے مطابق وہ اکبر سے ملابھی تھا۳۰؂۔ دادوکا انتقال 1603 ء میں ہوا اور اس کے انتقال کے بعد اس کے 52 چیلے ملک کے طول وعرض میں پھیل گئے ۔اور ان میں سے ہر ایک نے ایک دادو دوارہ تعمیر کیا۔لاہور کے عوام چھجوبھگت سے خوب متعارف ہیں، وہ دادو کا چیلہ تھا۔ اس کے تعلقات صوفیوں کے ساتھ خصوصاً حضرت میاں میرؒ سے بڑے خوشگوار تھے اور ان کی ملاقات اکثر ہوتی رہتی تھی۳۱؂۔

گو رونانک دیو کا شمار ہندوستان کے اہم ترین مصلحین میں ہوتا ہے ۔وہ 1469 ء تلونڈی میں پیدا ہوئے۳۲؂۔ انہوں نے جوانی کے عالم میں دنیاوی لذت سے منہ موڑ لیا اور طلب حق میں ایک ایک تیرتھ پر گئے۔ آخر عمر میں انہوں نے کرتارپور میں سکونت اختیار کرلی اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔

گورونانک پٹھان حکمرانوں کے بڑے مخالف تھے اور ان کے ظلم وستم کے واقعات اکثر بیان کرتے رہتے تھے۳۳؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۸؂۔ ایضاً ۲۹؂۔ آوٹ لائن آف دی ریلجیس بوئٹری آف انڈیا، ص ۳۴۱

۳۰؂۔ دی الفلوئنس آف اسلام آن انڈین کلچر،ص ۱۸۲

۳۱؂۔ تاریخ لاہور ،ص ۱۸۷، ۳۲؂۔ دی ڈیوائن ماسٹر ،ص ۱۹

۳۳؂۔ ایضاً ،ص ۸۹۔۹۰

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غالباً اسی بنا پر سلطان ابراہیم لودھی نے انہیں زندان میں ڈال دیا تھا ۳۴؂۔ قید سے رہائی کے بعد انہوں نے اپنا مشن دوبارہ شروع کیا لیکن اس بار بابر کے سپاہیوں نے انہیں گرفتار کرکے جیل پہنچا دیا۔انہوں نے بابر کے مظالم کا ذکر بھی اپنے اشعار میں کیا ہے۳۵؂۔

نانک اپنے ہم عصر بھگت کبیر کی طرح ملاّ او رپنڈت دونوں کے خلاف تھے، او ران کا یہ کہنا تھا کہ وہ دونوں اپنی مرضی کے مطابق قرآن اور ویدوں کے احکام کی تاویلیں کرلیتے ہیں ۔ کبیر کی طرح نانک نے بھی ہندو دھرم اور اسلام کے درمیان ایک نئی راہ (سکھ مت) نکالی ۔ وہ بھکتی تحریک کے رہنماؤں کی تعلیمات سے کافی حد تک متاثر تھے، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے رامانند ،کبیر، دھنہ او رایکناتھ کے کلام کو گرنتھ صاحب میں شامل کرلیا تھا۔

سکھ مت کے بارے میں اکبر کے خیالات بڑے اچھے تھے اور وہ سکھوں کے گورو امرداس سے ایک بار ملا بھی تھا۳۶؂۔ اس نے اثنائے ملاقات گورو صاحب کی خدمت میں ایک گاؤں بھی پیش کیا او راسی مقام پر گورو رامداس نے ہر مندر(دربار صاحب امرتسر ) تعمیر کرایا۳۷؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۳۴؂۔ ایضاً ،ص ۱۷۷

۳۵؂۔ گو رونانک اپنی ایک بانی میں بابر کو مخاطب کر کے کہتے ہیں ۔

پاپ کی جنج لے کابلوں دھائیا جوری منکے دان دے لالو

قاضیاں باہمنان کی گل تھکی اگدپڑھے شیطان دے لالو

خون کے سوئیے گا دے نانک رت کا کنگوپاے دے لالو

بحوالہ پنجابی شاعراں داتذکرہ ،ص ۴۱

۳۶؂۔ دی مغلز اینڈدی پورچگیز،ص ۵۹

۳۷؂۔ i۔ تاریخ پنجاب ،ورق ۱۶الف۔ii۔ امپیریل گزئیٹر آف انڈیا ،جلد۵،ص ۳۲

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھگت کبیر اور گورونانک دونوں لودھیوں او رمغلوں کے ابتدائی دور حکومت میں گذرے ہیں۔ ان دونوں کی تعلیمات نے ہندوستان کے طول وعرض میں ایک ہلچل سی پیدا کردی تھی۔ جب اکبر تخت نشین ہوا تو اس وقت مذہبی سرگرمیاں زو روں پر تھیں او ر عوام کے خیالات میں ہیجان پیدا ہوچکا تھا ۳۸؂۔نیزان مصلحین نے ہندوستان میں ایسی فضا پیدا کردی تھی جس میں ادنیٰ ذاتوں کے افراد اونچی ذاتوں کے افراد کے شانہ بشانہ چل رہے تھے۔

جب اکبر نے ہوش سنبھالا تو ہندوستان کی فضا میں ‘‘ہندومسلم اتحاد’’ کے نعرے گونج رہے تھے۔ عوام ملّا اور پنڈت دونوں سے بدظن ہوچکے تھے اور ان کا یہ کہنا تھا کہ ان دونوں نے اپنی پیٹ پوجا کے لئے مذہبی اختلافات پیدا کردیئے ہیں، اور اب وقت آگیا ہے کہ اختلافات کی خلیج پاٹ کر مل جل کر رہنے کے لئے راستہ تلاش کیا جائے۔ اکبر نے کبیر او رنانک کی طرح ایک درمیانی راستہ تلاش کرلیا جسے اس نے توحید الہٰی کا نام دیا ۔

بھکتی تحریک نے ہندوستان میں ایک ایسی فضا پیداکردی تھی جس نے مختلف الخیال لوگوں کے درمیان تعصب ختم کردیا۔ ہندوؤں او رمسلمانوں کے میل جول مسلمانوں میں ہندوؤں کے علوم سیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔رزق اللہ مشتاق او رمیاں طٓہ کی ہندوؤں کے علوم پر بڑی گہری نظر تھی۳۹؂۔ محمد غوث گوالیاریؒ نے امرت کنڈنام کی ایک کتاب کا بحرالحیاۃ کے نام سے فارسی میں ترجمہ کیا۔ اس کتاب میں اور باتوں کے علاوہ یوگ کے آسن اور ویدانت کے مسائل کا بھی ذکر موجود ہے۔۴۰؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۳۸؂۔ دی ریلجیس پالیسی آف دی مغل ایمپررز،ص ۶۱۔

۳۹؂۔سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات ،ص ۴۵۱

۴۰؂۔ بحرالحیاۃ ۔(مائیکروفیلم عندی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد غوث گوالیاریؒ ہندوؤں او رمسلمانوں سے مساوی سلوک کیا کرتے تھے۔ بدایونی لکھتاہے کہ میرے دل میں ان کی زیارت کا بڑا اشتیاق تھا لیکن جب یہ معلوم ہواکہ وہ ہندوؤں کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں تو میں اس ارادہ سے باز آیا۴۱؂۔ ان کے مُریدوں میں ہندو بھی شامل تھے ، تان سین کا والد مکرند پانڈے ان کا بڑا معتقد تھا۴۲؂۔ ملک جائسی نے اپنی شہرۂ آفاق تالیف پدماوت اسی عہد میں تحریر کی۔

یہ بھکتی تحریک کی پیدا کردہ فضا بھی تھی جس میں شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ کے صاحبزادے شیخ رکن الدینؒ ایک ہندوسنیاسی اننت کر سے اسرار توحید معلوم کرنے جایا کرتے تھے۴۳؂۔ گورونانک کے تعلقات پاک پٹن کے سجادہ نشین شیخ ابراہیم فریدثانی کے ساتھ بڑے خوشگو ار تھے، او رگو رونانک ان کے ہاں بطور مہمان رہا کرتے تھے۔ گوروصاحب نے فرید ثانی کا کلام اپنے گرنتھ صاحب میں شامل کرکے اسے امر کردیا۴۴؂۔ ہیررانجھا کا قصہ لودھیوں کے دور حکومت کا بتایا جاتاہے ، وارث شاہ سے تقریباً دوسوسال پہلے اسے اول بار ومورد نے نظم کیا تھا۴۵؂۔ اس قصہ کا ہیرو رانجھا ایک ہندوجوگی بالناتھ کاچیلہ بن گیا تھا۔ لطائف قدوسی کی ایک عبارت سے یہ معلوم ہوتاہے کہ بالناتھ بابر کے عہد حکومت میں حیات تھا۴۶؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۴۱؂۔ منتخب التواریخ ،جلد ۲ ص ۶۴ ۴۲؂۔ آج کل ۔دہلی ،موسیقی نمبر، ص ۸۷

۴۳؂۔ لطائف قدوسی ،ص ۷۴، پروفیسر خلیق احمد نظامی نے اننت کرکی بجائے بالناتھ لکھا ہے، حالانکہ لطائف قدوسی میں اننت کر کا نام مکرر آیا ہے۔ملاحظہ ہو سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات ،ص ۴۵۱ ۔

۴۴؂۔ انوارالفرید ۔ص ۳۹۱

۴۵؂۔ پنجابی شاعراں داتذکرہ ،ص ۴۸۔۴۹۔ ۴۶؂۔ لطائف قدوسی ،ص ۷۴

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سے ثابت ہوتاہے کہ وہ لودھیوں کے عہد میں اپنے ‘‘تلہ ’’ پرموجود تھا۔ اس تلہ کا ذکر بھی لطائف قدسی میں موجود ہے۴۷؂۔

اکبر کے عہد حکومت میں جب اس کے حکم سے ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کے تراجم فارسی میں ہوئے تو ان کے مطالعہ سے مسلمانوں میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا جسے بدایونی ‘‘ مسلمانان ہندومزاج’’ لکھتا ہے۴۸

بدایونی نے اکبر کو ‘‘طالب حق’’ َلکھا ہے۴۹؂۔یہی طلب اسے جدروپ گسائیں کے آستانہ پر لے گئی ۔جہانگیر لکھتا ہے کہ میرا والد خاندیش سے واپسی پراُجین کے نواح میں جدروپ سے ملاتھا۵۰؂۔ خود جہانگیر کو بھی اس کے ساتھ بڑی ‘‘عقیدت’’ تھی اور اسی کے مشورے پرجہانگیر نے سیر کاوزن 36 دام کے برابر کردیا تھا۵۱؂۔ اور اسی کی سفارش پر خسرو کو رہائی بخشی تھی۵۲؂۔ ان امثال سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اکبر او رجہانگیر پر ہندوجوگیوں اور سنیاسیوں کا بڑا اثر تھا۔ او روہ ان کی بات رد نہیں کرتے تھے۔

بادشاہ کی صُلح کُل پالیسی نے ملک میں ایسی فضاپیدا کردی تھی کہ جب گورو امرداس نے ہر مندر (دربار صاحب امرتسر) کی تعمیر کا منصوبہ بنایا تو اس کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے لاہور سے حضرت میاں میرؒ کوبلایا او راس مردحق نے بھی بڑی خوشی کے ساتھ غیر مسلمو ں کی عبادت گاہ کا سنگ بنیاد رکھنے کی دعوت قبول کرلی۵۳؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۴۷؂۔ ایضاً ۴۸؂۔ منتخب التواریخ ،جلد۲۔ص ۲۶۹

۴۹؂۔ ایضاً۔ ص ۲۵۵ ۵۰؂۔ تزک جہانگیری ،ص ۱۷۶

۵۱؂۔ ایضاً،ص ۲۸۱ ۵۲؂۔ مآثر جہانگیری،ورق ۱۲۱،

۵۳؂۔ تاریخ دربار امرتسر ،ص ۸۴

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خود ہندوؤں کے اندر ایسے لوگ پیدا ہوگئے تھے جو اپنے دھرم پر سختی کے ساتھ جمے رہے او رانہوں نے اسلام قبول کرنے کے بجائے اپنی جانیں قربان کردیں لیکن وہ ہندودھرم کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی مذہب حق تسلیم کرتے تھے۔ اس ضمن میں نواہوں اور لودھن برہمن کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ ہردے رام کے خیالات بھی کچھ اس قسم کے تھے اور وہ رام رحیم کو ایک ہی چیز سمجھتا تھا۵۴؂۔

یہ تو ہندوؤں کی بات تھی ،خود مسلمانوں میں بھی ایسا طبقہ پیدا ہوگیا تھا جو کفر اور اسلام میں کوئی امتیاز روانہ رکھتا تھا۔چشتیہ سلسلہ کے گل سرسید شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ یہ کہتے تھے پھرتے تھے، ‘‘این چہ شو رداین چہ غوغا کشادہ،کسے مومن کسے کافر، کسے مطیع ، کسے عاصی، کسے درراہ ، کسے بے راہ ،کسے مسلم ،کسے پارسا،کسے ملحد، کسے ترسا، ہمہ دریک سلک است’’۵۵؂۔ بالکل ایسا ہی عقیدہ اکبر او راس کے حواریو ں کاتھا، آئین اکبری میں ایک موقعہ پر ابوالفضل لکھتاہے ۔‘‘ کدام دین وچہ دین یک حسن ولآویز درچندن ہزار پردہ تابش می دہد’’۵۶؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۵۴؂۔ مکتوبات امام ربانی، جلداوّل ،مکتوب ۱۶۷ ۵۵؂۔ مکتوبات شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ ،ص ۲۰۵

۵۶؂۔ آئین اکبری ،جلد اوّل ،ص ۱۸۹

۔۔۔۔۔۔۔۔

اکبر کے خیالات شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ کے خیالات سے مختلف نہ تھے، آخر وہ کون سی نئی بات تھی جو اکبر کہتا تھا اور شیخ عبدالقدوسؒ نے اس سے قبل نہیں کہی تھی لیکن اکبر کاقصور یہ تھا کہ وہ بادشاہ تھا اور الناس علی ادین ملوکھم کے مصداق اس کے ایسے خیالات کا اثر براہ راست عوام پر پڑتاتھا ،جب کہ صوفیوں ،قلندروں اورمجذوبوں کے ایسے ہی خیالات کو لوگ دیوانے کی بڑکہہ کر نظرانداز کردیتے ہیں۔ نیز مسلمانوں نے ہندوستان کو بزورِ بازو فتح کیا تھا او رگذشتہ چار صدیوں سے وہ اندرونی او ربیرونی دشمنوں سے اس کی مدافعت کرتے آئے تھے۔ وہ ہندوستان کودارالاسلام سمجھتے او را س ملک میں مسلمانوں کی برتری کے قائل تھے۔اکبر نے کبیر او رنانک کے نقش قدم پر چل کر صلح کل پالیسی اختیار کی او رمسلمانوں کی برتری ختم کرکے ہندوستان کو دارالاسلام سے ایک سیکولر اسٹیٹ (دلادینی مملکت) میں تبدیل کردیا ،او رہر مذہب وملّت کے رہنماؤں سے بڑی فراخ دلی سے ملنے لگا۔ اکبر کی اس حکمت عملی سے ہندوستان میں اسلام او رمسلمانوں کے مفاد کو جو نقصان پہنچا، اس کی تلافی آج تک نہیں ہوسکی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Part: 1 – Muhammad Aslam's book on Akbar’s Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu: Part 1 on Appreciation and Foreword دین الہٰی اور اس کا پس منظر

Part: 2 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 2 on Opening Remarks آغاز سُخن

Part: 3 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 3 on The Early Religious Life of Akbar اکبر کی ابتدائی مذہبی زندگی

Part: 4 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 4 on Impact of False Scholars (Ulama-e-Suu) on Deviation of Akbar علمائے سو

Part: 5 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 5 صُوفیائے خام

Part: 6 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 6 on the Objective of Shaikh Mubarak Nagori شیخ مبارک کا منصوبہ

Part: 7 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 7 on Akbar and Hindus اکبر اور ہندو

URL: https://www.newageislam.com/books-documents/muhammad-aslam-akbar-deen-e-ilahi-urdu-part-8/d/131730

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..