محمداسلم
قسط ۱۴
اکبر نے کیا کھویا
اسلام کے پانچ رُکن ہیں: کلمہ،
نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج۔اکبر ان سب کا منکر تھا۔ دین اسلام سے برگشتہ ہوتے ہی اس
نے کلمہ طیبہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی حذف کردیا۔ خاص خاص حلقوں اور
شاہی محلات کے اندر یہ کلمہ پڑھا جاتا تھا۱۔
لا الہ الاللہ اکبر خلیفۃ
اللہ
مہابھارت کے دیباچہ میں ابوالفضل
اکبر کو خلیفۃ اللہ لکھتاہے۲۔
اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا تھا کہ اکبر کا اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ براہ راست تعلق
تھا اور اس کے اور خدا تعالیٰ کے درمیان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ ضروری
نہیں تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اکبر کو جو عداوت تھی اس کا اندازہ اس بات
سے بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ اس نے احمد، محمد، محموداو رمصطفےٰ جیسے نام رکھنے پر ناگواری
ظاہر کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔منتخب
التواریخ ،جلد ۲،
ص ۲۷۳ ۲۔
مہابھارت،ص ۵
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدایونی لکھتاہے کہ اگر کسی
شاہی ملازم کا نام یار محمد یا محمد خان ہوتا تو بادشاہ اسے کسی دوسرے نام سے پکارتا
تھا۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینا بھی اسے پسند نہ تھا۳۔ اس نے خود اپنے پوتوں کے
نام ساسانی بادشاہوں کے ناموں کی مناسبت سے ہوشنگ ،طہمورث او ربالیسنغررکھے۴۔ ابوالفضل اس بات پر فخر
کرتاتھا کہ بادشاہ نے اس کے پوتے کانام پشوتن رکھا تھا۵۔
برگشتہ ہوا تو کلمہ طیبہ کی
بجائے اس نے رام اور سیتا کی مورتیں اپنے سکوں پرکندہ کروائیں ۔مشہور مؤرخ اسٹینلے
لین پول نے برٹش میوزیم لندن کے مغل مسکوکات کی جو فہرست تیار کی ہے،اس میں پانچوں
پلیٹ پر 172 نمبر سکے پر رام اور سیتا کی مورتیں موجود ہیں۶۔ ان بیانات کی روشنی میں
یہ نتیجہ اخذ کرنا چنداں مشکل نہیں کہ اکبر جادہ حق سے منحرف ہوچکا تھا او روہ گاہے
گاہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی عداوت کا اظہار بھی کرتا رہتا تھا۔
کلمہ کی طرح نماز بھی اسلام
کا ایک اہم رکن ہے ۔اکبر نے شاہی محل اور دربار میں نماز ادا کرنے پر پابندی لگادی
تھی۔ بدایونی کا کہناہے کہ ہیچ کس یارای آن نداشت کہ علانیہ ادای صلوٰۃ کند۷۔ دیوان خانہ کی جس مسجد
میں اکبر کبھی خود اذان دیا کرتاتھا اس کے درودیوار اب اذان کی آواز سننے کو ترس گئے
تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۔منتخب
التواریخ ،جلد۲،
ص ۳۱۴ ۴۔
تکملہ اکبر نامہ ،ورق ۳۵الف
،۴۰
الف، ۴۶الف
۵۔
آئین اکبری ،جلد۳،
ص ۳۵۸۔
گیتی خداوند آن نونہال سرابستان سعادت رایشوتن نام نہادہ ۶۔ دی کوئنز آف دی مغل ایمپر
رز آف ہندوستان ان دی برٹش میوزیم ،ص ۳۴
۷۔
منتخب التواریخ ،جلد ۲،ص
۳۱۵
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نماز پرپابندی لگتے ہی مسجدیں
ویران ہوگئیں ۔ہندوؤں نے اس صورت سے فائدہ اٹھا تے ہوئے کعبہ کی بیٹیوں کی بے حرمتی
شروع کردی۔ بدایونی کے الفاظ ہیں۔
مساجد وصوامع فراش خانہ وچوکی
خانہ ہندوان شدد بجائی جماعت جُماع وبجائی حیّ علی یللا تللا بود۸۔
مسجدیں او رخانقاہیں ہندوؤں
کے فراش خانے او رچوکی کی خانے بن گئے نماز جمعہ اور حیّ علیٰ الصلوٰۃ کی جگہ وہاں
یللا تللا کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔
جن مساجد پرہندو کسی خاص وجہ
سے قابض نہ ہوسکے ان کی مسمار کرنے کے لئے شاہی فرامین جاری ہوئے۔ اورنگ زیب کے سوانح
نگا رظہرالدین فاروقی اپنی کتاب ‘‘اورنگ زیب اینڈ ہزٹائمز ’’ میں اکبر کا ذکر کرتے
ہوئے لکھتے ہیں کہ اس نے اپنے بیٹے دانیال کے نام یہ فرمان جاری کیا کہ اسیر گڑھ کی مسجد گراکر اس کی جگہ مندر تعمیر کروادو۹۔مشہور مؤرخ فرشتہ رقمطراز
ہے کہ شاہزادے نے اس فرمان کی طرف کوئی توجہ نہ دی اس طرح یہ مسجد بچ گئی۱۰۔
اسلام کا تیسرا رکن روزہ ہے۔خواجہ
عبیداللہ لکھتے ہیں کہ ابوالفضل اور اس کے حاشیہ بردار ماہ رمضان کو ۔۔ماہ گرسنگی وتشنگی
۔۔کہا کرتے تھے۱۱۔اکبر
نے اپنے درباریوں کو حکم دیا تھا کہ وہ رمضان میں بھرے دربار میں کھایا پیاکریں ۔اگر
انہیں کھانے پینے کی خواہش نہ ہو تو اس صورت میں وہ پان کا بیڑا منہ میں رکھ کر دربار
میں آیا کریں، بصورت دیگروہ روزہ دار ہونے کے الزام میں دھر لئے جائیں گے۱۲۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۸۔
ایضاً۔ ص ۳۲۲ ۹۔ او رنگ زیب اینڈ
ہز ٹائمز، ص ۵۶۳
۱۰۔
تاریخ فرشتہ ،جلد۲،ص
۲۳۹
۱۱۔ مبلغ الرجال ،ورق ،۲۵ب
۱۲۔
تذکرۃ الملوک ،ورق ۲۳۱ب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت مجدّد الف ثانیؒ کے مکتوبات
سے بھی اس امر کی شہادت ملتی ہے کہ ہندوؤں کے برت کے دن مسلمانوں کو سرعام کھانے پینے
کی اجازت نہ تھی لیکن ماہ رمضان میں ہندوؤں او رنام کے مسلمانوں کو کھلے بندوں کھانے
پینے کی اجازت تھی۱۳۔
اسلام کا چوتھا رکن زکوٰۃ
ہے۔ اکبر نے ایک فرمان کی رو سے اپنے عمال کو مسلمانوں سے زکوٰۃ وصول کرنے سے روک دیا
تھا۱۴۔
حسن اتفاق سے اکبر کا فرمان رقعات ابولفضل میں موجود ہے۔ جس طرح اکبر نے مسلمانوں سے
زکوٰۃ کی وصولی روک دی تھی ، اسی طرح اس نے ہندوؤں اور دوسرے غیر مسلموں کی جزیہ بھی
معاف کردیاتھا۔
اسلام کا پانچواں رکن حج ہے۔
اکبر نے حج پر جانے والوں پر بھی پابندی لگادی تھی۔ بدایونی لکھتاہے کہ ان ایّام میں
اکبر سے حج پر جانے کے لئے رخصت طلب کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۱۵۔
جہاں تک اسلامی عبادات وعقائد
کا تعلق ہے اکبر انہیں دل لگی سمجھتا تھا۔ بدایونی لکھتا ہے:۔
درہررکن ازار کان دین ودرہر
عقیدہ از عقاید اسلامیہ چہ اصول چہ فروغ مثل نبوت وکلام ورویت وتکلیف وتکوین وحشر و
نشر شبہات گوناگون تمسخروااستہزا آوردہ۱۶۔
ہر عقیدہ کے متعلق خواہ ان
کا تعلق اصول سے ہویا فروغ سے مثلاً نبوت، مسئلہ کلام، دیدار الہٰی ،انسان کامکلّف
ہونا، عالم کی تکوین اور حشر ونشر وغیرہ کے متعلق تمسخر او رٹھٹھے کے ساتھ طرح طرح
کے شکوک و شبہات پیدا کئے جانے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۳۔
مکتوبات امام ربّانی ،جلد۲،مکتوب
۹۲ ۱۴۔
رقعات ابوالفضل ،دفتر اوّل ،ص ۶۲
۱۵۔
منتخب التواریخ ،جلد۲،ص
۲۳۹ ۱۶۔
ایضاً ،ص ۳۰۷
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور موقع پر یہی بزرگ
لکھتے ہیں:۔
نماز روزہ وجمیع نبوات را
تقلید یات نام نہاد ندیعنی غیر معقول ومدار دین برعقل گذاشتند نہ نقل۱۷۔
نماز و روزہ اور وہ ساری چیزیں
جن کا نبوت کے ساتھ تعلق ہے ان کا نام تقلید یات رکھا گیا او ریہ سب باتیں غیر معقول
قرار دی گئیں اور دین کا مدار نقل کی بجائے عقل پر رکھا گیا۔
ایک موقع پربادشاہ نے بھرے
دربار میں یہ اعلان کیا تھا کہ اگر کسی نے عقل و دانائی کی کوئی بات دریافت کرنی ہوتو
وہ مجھ سے پوچھے اور اگر اس مسئلہ کا تعلق دین کے ساتھ ہوتو پھر ان ملاؤں کی طرف رجوع
کرے۱۸۔
اسلامی قانون کے چار مآخذ
ہیں: کتاب اللہ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اجماع اور قیاس او رانہی پر شریعت
کا دارومدار ہے،جہاں تک کتاب اللہ کا تعلق ہے اکبر اسے وحی الہٰی نہیں مانتا تھا ۔جہانگیر
کہاکرتا تھا کہ ابوالفضل نے یہ بات میرے والد کے ذہن میں ڈال دی تھی کہ قرآن حکیم وحی
الہٰی نہیں بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تصنیف ہے۱۹۔ جس شخص کا قرآن پاک کے
متعلق یہ عقیدہ ہو اس سے تو توقع رکھنا ہی عبث ہے کہ وہ اسے سرچشمہ ہدایت تسلیم کرتا
ہوگا ۔اکبر کے عہد میں قرآن پاک کی جوگت بنائی جارہی تھی اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے
اس کا درباری شاعر عرفی لکھتا ہے۲۰۔
جنس دین راچہ کساد آمدہ عرنی
درپیش
کہ بجز مردہ ز حافظہ نخروقرآن
را
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۷۔
ایضاً،ص ۲۱۱ ۱۸۔
ایضاً ،ص ۸۔۳۰
۱۹۔
مآثر الا مراء جلد ۲،ص
۲۱۷ ۲۰۔
دیوان عرفی ،ص ۹
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلامی قانون کا دوسرا اہم
مآخذ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ جس شخص کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کانام
لینا اور سننا بھی گوارا نہ ہو، اس کے نزدیک سنت کی کیا وقعت ہوگی؟ بدایونی ایک جگہ
لکھتاہے کہ اکبر کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے کاموں پر اعتراض تھا، اسی طرح
ہجرت کے بعد قریش کے تجارتی قافلہ کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو روش اختیار
کی تھی اس پر بھی اکبرکو سخت اعتراض تھا۲۱۔ ایک بار اکبر کو معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے ایک موقع پر اپنی اونٹنی قصوہ کو مارا تھا ۔اس پرو ہ بہت بگڑا اور حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنے لگا۲۲۔
اکبر کے عقائد او راعمال کا
مدار چونکہ ‘‘عقل’’ پرتھا اس لئے جوبات اس کی سمجھ سے بالا ہوتی وہ اسے ماننے سے انکار
کردیتا۲۳۔
وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا بھی منکر تھا او رمعراج کے متعلق یہ کہتا
تھا۔
این معنی را عقل چگونہ قبول
کند کہ شخصے دریک لحظہ بآن گرانی جسم از خوابگاہ بآسمان رود ونود ہزار سخن گوئی ومگوئی
باخدای تعالیٰ بکند وبسترش ہنوز گرم باشد تاباز بیاید۲۴۔
اس بات کو عقل کیونکر تسلیم
کرسکتی ہے کہ ایک شخص اپنے وزنی جسم کے ساتھ اپنی خواب گاہ سے آسمانی پر چلا جائے او
روہاں خدا تعالیٰ سے نوے ہزار باتیں کرکے واپس آئے تو اس کا بسترا بھی گرم ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۱۔
منتخب التواریخ ،جلد۲،ص
۳۰۸ ۲۲۔
ایضاً ،ص ۳۰۸
۲۳۔
ایضاً ،ص ۲۱۱ ۲۴۔
ایضاً ص ۳۱۶
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک روز معراج نبوی پر اعتراض
کرتے ہوئے بادشاہ ایک ٹانگ اٹھا کر حاضرین سے کہنے لگا کہ جب میں اپنی دوسری ٹانگ اٹھا
کر ہوا میں معلق نہیں رہ سکتا تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح ۔۔بآن گرانی
جسم ۔۔آسمان پر چلے گئے۔؟ یہ قصہ محض عوام کاگھڑا ہوا معلوم ہوتاہے۲۵۔ بدایونی لکھتاہے کہ اکبر
معجزہ شق القمر کا بھی انکار کرتاتھا۲۶۔
جس شخص کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر گوناگوں اعتراضات ہوں اس کے نزدیک
ان کی سنت کی کیا وقعت ہوگی۔
اسلامی قانون کا تیسرا اہم
مآخذ اجماع صحابہ ہے۔ جو شخص نبی کی ذات گرامی کو ہی واجب الاحترام نہ سمجھتا ہو اس
کے نزدیک شرف صحبت بے معنی سی چیز ہے۔اکبر کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پر بھی کئی اعتراضات
تھے۔ وہ جنگ صفین، قضیہ ندک ،تعین اوقات صلوٰۃ خمسہ ، نکاح اُم اکلثوم بنت علیؓ ،تعمیر
کوفہ، فتح شہر نصیبین اور خلافت خلفائے ثلاثہ کے بارے میں صحابہ کرامؓ سے ناراض تھا۲۷۔ اس لئے ان کے اجماع کی
اس کے نزدیک کوئی وقعت نہ تھی۔
اسلامی قانون کا چوتھا اہم
مآخذ قیاس ہے ۔ اکبر او راس کے حواری یہ کہا کرتے تھے کہ دین اسلام کے مسائل اہل رائے
نے بنائے ہیں۲۸۔
اس لئے ان پر عمل کرنا ضروری نہیں۔علمائے دین اور آئمہ اہل سنت کے ساتھ (جنہیں ابوالفضل
حلوائی ،کفش دوزا ور چرم ساز کہہ کر پکارا کرتاتھا) تو اکبرکو خداواسطے کا بیر تھا
۔بدایونی لکھتا ہے کہ ان ایّام میں اگر وہ کسی کو گالی دینا چاہتا یا کسی کی تحقیر
مقصود ہوتی تواسے ‘‘فقہیہ ’’ کہہ کر پکارا کرتا تھا۲۹۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۵۔
ایضاً ،ص ۳۱۷ ۲۶۔ ایضاً ۔ص ۳۱۶
۲۷۔ایضاً
،ص ۳۰۸
، ۳۱۸ ۲۸۔
مبلغ الرجال ،ورق ب۲۵
۲۹۔
منتخب التواریخ ، جلد ۲،
ص ۳۳۹
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقہا کی جو قدر ومنزلت اکبر
او راس کے حواریوں کے دل میں تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ ملک الشعراء
فیضی ‘‘این پیالہ رابکورئ فقہا می خوریم’’ کہہ کر شراب پیاکرتا تھا۳۰۔
اسلام سے برگشتہ ہونے کے بعد
اکبر نے چہل تن کے نام سے ایک مجلس مشاورت بنائی اس مجلس کا یہ کام تھا کہ وہ ہرمسئلہ
کو عقل کی سان پرکستی تھی۳۱۔
اگر کوئی مسئلہ عقل کے معیار پر پورا ُتر تو اسے ۔نوآئین الہٰی ۔ میں شامل کرلیتے ورنہ
اسے غیر معقول کہہ کر رد کردیتے۔ اس مجلس مشاورت نے مسائل دین کو بازیچہ اطفال بنادیا۔
مجلس مشاورت نے غسل جنابت
کے اسقاط کے متعلق جو فتویٰ جاری کیا تھا وہ ناقابل غور ہے۔ ان کا کہنا تھا :۔
خلاصہ انسان نطفہ منی است
کہ تخم افرینش نیکان وپاکان است واین چہ معنی دارد کہ بحروج بول وغایط غسل واجب نشودوخروج
این طورشئی لطیف مستوجب غسل گردووبلکہ مناسب آنست کہ اوّل غسل کنند بعد ازان جماع۳۲۔
انسان کی اصل نطفہ ہے او ریہی
نیکوں اور پاکباز وں کا تخم ہے یہ کیا بات ہوئی کہ پیشاب اور پاخانہ نکلنے سے تو غسل
واجب نہ ہوا اور اس لطیف ترین شے کے نکلنے سے غسل واجب ہوگیا۔مناسب تو یہ ہے کہ پہلے
غسل کرے اس کے بعد ہمبستر ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۰۔
ایضاً ،ص ۳۰۹ ۳۱۔ ایضاً ،۳۰۸
۳۲۔ایضاً
،ص ۳۰۵
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ عقل کے اندھے کہاکرتے تھے
کہ اگر یہ اصول تسلیم کرلیا جائے کہ سؤر اپنی بے عزتی کی وجہ سے حرام ہوا ہے تو پھر
شیر کو اپنی غیرت اور شجاعت کی وجہ سے حلال ہوناچاہئے ۳۳۔ تجہیز وتکفین کے متعلق
ان ‘‘ داناؤں’’ کایہ کہنا تھا ‘‘ کہ تجہیز وتکفین ایک پُرانی اور فرسودہ رسم ہے ورنہ
ملک عدم کے مسافر کے لئے بار کفن بھی گراں ہے۔ وہ جیسے اس دنیا میں آیا تھا اسے ویسے
ہی جانا چاہئے ۳۴۔
ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے
یوں معلوم ہوتاہے کہ اکبر اسلام کی بیخ کنی پر تلا ہوا تھا اور اس نے ایک ایک کرکے
تمام اسلامی شعائر مٹانے کا تہیہ کرلیا تھا۔ اسلام اور خود مسلمانوں کے یہ بڑا نازک
وقت تھا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ اپنے ایک مکتوب میں اکبر کے عہد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے
ہیں ۔ ‘‘مسلمان اظہار اسلام سے عاجز تھے اگر وہ ایسا کرتے تھے تو انہیں قتل کیا جاتاتھا’’۳۵۔ایک او رمکتوب میں آپ اس
طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں اگر کوئی مسلمان شعار اسلام ادا کرتاتو اسے قتل کرتے
تھے’’۳۶۔
ارکان اسلام میں سے کسی ایک رکن کا انکار کفر ہے، یہی وجہ تھی کہ اکبر کے ایک ہمعصر
عالم ملّا محمدیزدی نے یہ فتویٰ دے دیا تھا کہ اکبر مرتد ہوچکاہے اس لئے اس کے خلاف
صف آرا ہونا ہر مسلمان کا فرض ہے۳۷۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۳۔
آئین اکبری ،جلد ۳ص
۳۰۲
۳۴۔ایضاً
۳۵۔ مکتوبات امام ربّانی ،جلد
اوّل ،مکتوب ۴۶
۳۶۔
ایضاً ،مکتوب ۸۱
۳۷۔کیمبرج
ہسٹری آف انڈیا ،جلد۴،ص
۱۲۶
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکبر نے دین اسلام سے برگشتہ
ہوتے ہی حلال وحرام کی تمیز اُٹھا دی۔ بدایونی لکھتا ہے کہ بادشاہ یہ کہا کرتاتھا۔
شراب اگر بجہتہ رفاہیت بدنی
بطریق اہل حکمت بجور ندوفتنہ وفسادی ازان نزاید ،مباح باشد۳۸۔
شراب اگر بدن کے فائدے کے
لئے طبّی طور پر استعمال کی جائے بشرطیکہ اس کے پینے سے فتنہ وفساد پیدا ہو، تو جائز
ہے۔
اگر بات شراب کی حلت کے فتویٰ
تک ہی محدود رہتی تو بھی خیر تھی اکبر نے شرابیوں کی سہولت کے پیش نظر شاہی دربار کے
قریب ایک میخانہ کھول کر مختلف اقسام کی شراب کے نرخ مقرر کردئیے ۳۹۔ شراب کا سرکاری ڈپو کھلتے
ہی ہر کس وناکس کو کنٹرول ریٹ پر شراب ملنے لگی۔ اکبر نے شراب نوشوں کی کچھ اس طرح
سے حوصلہ افزائی کی کہ بقول بدایونی در مجالس نور روزے اکثر ے ازعلما ء و صلحاً بلکہ
قاضی ومفتی رانیز دروادئ قدح نوشی آورند۴۰۔ بادشاہ ان کو شراب پیتے دیکھ کر بہت مخطوط
ہوتا اور یہ شعر پڑھتا۔
درعہد بادشاہ خطا بخش وجرم
پوش
حافظ قرابہ کش شدد مفتی پیالہ
نوش
بدایونی نے چند ایک علماء
اورقضاۃ کے نام بھی گنواے ہیں جن کا انتقال کثرت شراب نوشی کے سبب ہوا تھا۔
اکبر نے قرآن کی یہ آیت ۔
فَا فکِحُُوامَاطَابَ لَکُم مِنَ النَّساءِ مَثنیٰ وَثَلاٰثَ وَدُبَاعَ۔۔ پس پشت ڈال
کر ۔خدا یکے وزن یکے ۴۱۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۸۔منتخب
التواریخ ،جلد ۲،
ص ۳۰۱
۳۹۔
ایضاً ،ص ۳۰۲ ii۔ اخبار محبت ،ورق ۴۹،
الف وب
۴۰۔
منتخب التواریخ ،جلد ۲
ص ۳۰۹ ۴۱۔
ایضاً ، ۳۵۶
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کو قانون کا درجہ دے دیا۔
اب ظاہر ہے کہ اس قانون کو چلانا ممکن نہ تھا۔ اس لئے اکبر نے زنا کی حِلّت کا فتویٰ
جاری کردیا۔ بدایونی او رمحبت بن فیضی دونوں مؤرخ اس بات پر متفق ہیں کہ اکبر نے شہر
سے باہر شیطان پورہ کے نام سے طوائفوں کی ایک الگ بستی آباد کروائی اورایک محرررجسٹردے
کر وہا ں بٹھا دیا کہ آنے جانے والوں کے نام اس میں درج کرتا جائے اور اگر کوئی شخص
کسی طوائف کو اپنے گھر لے جانا چاہئے تو اس رجسٹر میں اپنا نام وپتہ درج کرکے اسے ساتھ
لے جائے ۴۲۔
بدایونی لکھتاہے کہ بادشاہ طوائفوں کے ذاتی معاملات میں بڑی دلچسپی لیتا اور کبھی کبھار
ان کو بلاکر ان سے یہ پوچھتا کہ بتاؤ تمہارے ہاں کون کون آتاہے اور سب سے پہلے تمہارے
ساتھ کس نے زنا کیا تھا۴۳۔
شیطان پورہ کی تعمیر کے ساتھ
جہاں اکبر نے زنا کو فروغ دیا وہیں اس نے ایک قانون کی رو سے قمار بازی کو بھی حلال
کردیا۔ اکبر نے جواریوں کی سہولت کے لیے ایک جوا خانہ بھی قائم کیا،جہاں جواریوں کو
جوا کھیلنے کے لئے سرکاری خزانے سے سود پر رقم مل جاتی تھی ۴۴۔ اس طرح اکبر نے سود کی
حلت کا بھی فتویٰ جاری کیا۴۵۔
سود کی حلت کا اعلان ہوتے ہی بڑے بڑے مفتی اور قاضی بھی سودی کاروبار کرنے لگے۔ عہد
اکبری کے ایک عالم دین قاضی عبدالسمیع کے متعلق بدایونی لکھتاہے۴۶۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۲۔
i۔ایضاً ،ص ۳۰۲۔ ii۔اخبار محبت ،ورق ۸۹ الف
وب
۴۳۔
منتخب التواریخ ، جلد ۲،ص
۳۰۳
۴۴۔
ایضاً ،ص ۳۳۸
۔۔ قمار دربا حلال شدد دیگر محرمات برین قیاس ،وقما رخانہ دردربار بنا کر دہ زری بسود
بمقامران از خزانہ میدادند۔
۴۵۔
ایضاً ۔
۴۶۔
ایضاً ،ص ۳۱۴۔۔
رشوت نظر بمذہب اوفرض است وسُودراور قبالات قمرض وں سجلات بموجب حکم وضع نمودہ می نویسد۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے نزدیک رشوت لینا فرض
ہے۔ علاوہ ازیں وہ کسی کو رقم اُدھار دیتے وقت اس کا سود قرضہ نامہ اور رجسٹر میں باقاعدہ
درج کرتاہے۔
اسلام میں چونکہ مردوں کے
لیے ریشمی لباس پہننا حرام ہے ، اس لیے اکبر نے اپنی اسلام دشمنی کی بنا پر ریشمی لباس
کی حلّت کا حکم جاری کیا۴۷۔
وہ خود بھی ریشمی لباس پہنتا او راپنے درباریوں کو بھی اس کی تلقین کرتا تھا۴۸۔
اکبر چونکہ ایک ایک کرکے تمام
اسلامی شعائر مٹانے پر تلا ہوا تھا ، اس لئے وہ ریش تراشی پر بھی بہت زور دیتا تھا۔
ریش تراشی کے جواز میں سب سے پہلے حاجی ابراہیم سرہندی نے تحقیق شروع کی۔ بدایونی لکھتاہے
کہ حاجی ابراہیم ، شیخ امان اللہ پانی پتی کے بھتیجے ملّا ابوسعید کے کُتب خانہ کی
ایک کرم خوردہ کتاب میں سے ایک حدیث نکال لائے اور عبادت خانہ میں آکر یہ اعلان کیا
کہ راوی لکھتاہے۔ پسر صحابی مترش ورنظرآن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم آمد، فرمودند کہ
اہل بہشت باین ہیات خواہندبود۴۹۔
اس سے بادشاہ کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جب اہل بہشت بے ریش ہوں گے تو پھر ہم کیوں
نہ شیوبنوائیں ۔ جب ایک فقیہہ نے یہ دیکھا کہ حاجی ابراہیم کی تحقیق بادشاہ کے دل لگی
ہے تو وہ بھی ایک کتاب اٹھا لائے اس میں مرقوم تھا کہ اپنی ڈاڑھی اس طرح رکھو جس طرح
عراق کے قضاۃ رکھتے ہیں۵۰۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۷۔ایضاً
۔ص ۳۰۶
۴۸۔
ایضاً۔ ابرشیم پوشی خود عین فریضہ گشت۔
۴۹۔
ایضاً ۔ص ۲۷۸
۵۰۔
ایضاً ۔ص ۳۰۴۔۔
کمایفعلہ بعض القضاۃ العراق۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالفاظ دیگر تم ان کی مخالفت
کرو اور اپنی ڈاڑھیاں منڈواؤ۔جب ایک فلاسفر نے یہ دیکھا کہ اس کے حریف ڈاڑھی پر تحقیق
کے معاملہ میں اس پر بازی لے گئے ہیں تواس نے ڈاڑھی منڈوانے کے حق میں یہ فلسفیانہ
دلیل پیش کی کہ ریش کی سیرابی خصتین کے پانی سے ہوتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ خواجہ سراؤں
کی ریش نہیں ہوتی ۔ بھلا ایسی چیز کے رکھنے سے کیا فائدہ ؟۵۱۔اس محقق کی تحقیق بادشاہ
کے کچھ اس طرح دل لگی کہ وہ باریش لوگوں کی صحبت سے پرہیز کرنے لگا۵۲۔بدایونی اس بات کاچشم دید
گواہ ہے کہ لوگ اکبر کے مرید ہونے کے بعد اس سے یہ سوال کیا کرتے تھے کہ ۔۔ریش مراچہ
حکم شود۵۳۔
او ریہ ظاہر ہے ہ بادشاہ انہیں ریش تراشی کاہی مشورہ دیا کرتا تھا۔
بیاہ شادی کے معاملات میں
بھی اکبر نے شریعت اسلامیہ کے قوانین منسوخ کرکے ان کی جگہ خود ساختہ قوانین رائج کئے
۔ ابوالفضل ،اکبر کے متعلق لکھتاہے،‘‘ میفر مودند خردی رکدخدا کردن ناخوشنودی اینردیست۵۴۔ خدا کو خوش کرنے کے لیے
اکبر نے یہ حکم دیا کہ جب تک لڑکا سولہ سال کا او رلڑکی چودہ سال کی نہ ہوجائے اس وقت
تک ان کا نکاح نہ کیا جائے۔ اگرنکاح خوان کو ان کی عمروں پر شک گذرے توان کا قریبی
کو توالی میں طوئے بیگی باقاعدہ معائنہ کروایا جائے اورجب تک وہ سرٹیفیکیٹ جاری نہ
کرے اس وقت تک ان کا نکاح نہ کیا جائے۵۵۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۵۱۔
ایضاً ۔ص ۳۰۳ ۵۲۔ ایضاً ۔ صحبت باریش
وار وامثال آن کمال احتراز واشتند
۵۳۔
ایضاً ،ص ۴۰۴ ۵۴۔ آئین اکبری ،جلد
۳، ص ۳۰۶
۵۵۔
منتخب التواریخ ۔جلد ۲،ص
۳۳۸، ۳۹۱
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکبر نے ایک بیوی کی موجودگی
میں دوسری شادی پر پابندی لگا دی ، او ربانجھ عورت کے ساتھ نکاح کی ممانعت کردی۵۶۔ اس کے علاوہ اکبر نے یہ
بھی حکم دیا کہ کوئی شخص اپنے سے بارہ سال بڑی عورت کے ساتھ جماع نہ کرے۵۷۔ ابوالفضل لکھتاہے کہ اکبر
نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ نوجوان مرد کہن سال عورت سے شادی نہ کرے۵۸۔ محبت بن فیض اوربدایونی
دونوں اس پر متفق ہیں کہ بادشاہ نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ آئندہ کوئی مسلمان اپنی
خالہ ،پھوپھی ،ماموں یا چچا کی لڑکی کے ساتھ شادی نہ کرے کیونکہ ایسے نکاح سے جو اولاد
پیدا ہوتی ہے وہ ہمیشہ کمزور رہتی ہے ۵۹۔
اسی طرح بادشاہ زیادہ مہر باندھنے کے بھی خلاف تھا۶۰۔
ختنہ کے متعلق اکبر نے یہ
حکم دیا تھاکہ جب تک لڑکا بارہ سال کانہ ہوجائے اس وقت تک اس کا ختنہ نہ کیا جائے ۶۱۔ ابوالفضل کاکہنا ہے کہ
یہ حکم اس لئے دیا گیا تھا کہ خورد سال بچوں پر تکلیف شریعت نہیں ۔ اس لئے بادشاہ نے
یہ معاملہ ان کے عاقل بالغ ہونے تک چھوڑ دیا ۶۲۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۵۶۔
آئین اکبری ، جلد اوّل ،ص ۱۹۲ ۵۷۔
منتحب التواریخ ،جلد۲،ص
۳۹۱
۵۸۔
آئین اکبری ۔جلداوّل ،ص ۲۴۹۔
یہ حکم بھی خلافت سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقبول تھا کیونکہ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے جب حضرت خدیجہؓ سے نکاح کیا اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ۲۵ سال
اور ام المومنین کی عمر ۴۰
سال تھی۔
۵۹۔
i۔ اخبار محبت، ورق ۸۹ الف
وب۔ii۔ منتخب التواریخ ،جلد ۲، ص ۳۰۶
۶۰۔
آئین اکبری ،جلداوّل ،ص ۲۴۹ ۶۱۔
منتحب التواریخ ،جلد۲،ص
۳۷۶
۶۲۔
آئین اکبری ،جلد ۳،ص
۳۰۲
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دراصل بادشاہ اس شعار کو بھی
مٹانا چاہتاتھا اس لئے اس نے بارہ سال کی عمر کی قید لگادی ۔اب ظاہر ہے کہ بارہ سال
کے بعد شاید ہی کوئی لڑکا ختنہ کی تکلیف برداشت کرنے پر رضا مند ہوگا۔
پردہ کے متعلق اسلام میں جو
احکام ملتے ہیں ،اکبر نے انہیں نظر اندازکرکے پردہ کی ممانعت کردی اور یہ حکم دیاکہ
آئندہ عورتیں کھلے منہ باہرنکلا کریں۶۳۔
اکبر کو تجہیز وتکفین کا اسلامی
طریقہ بھی نا پسند تھا۔ ابوالفضل رقمطراز ہے کہ بادشاہ اکثر کہا کرتا تھا، ‘‘تکفین
رسمے است باستانی ورنہ رہگرائے نیستی چگونہ بارکشد، ہمان طور کہ آمدہ بودباز کردو’’۶۴۔جب اکبر کا مرید خاص سلطان
خواجہ فوت ہوا تو اسے شیخ مبارک کے ساختہ پرواختہ ۔۔مجتہد ۔۔ کے اجتہاد کے مطابق دفن
کیا گیا ۔بدایونی لکھتاہے کہ قبر میں اُتارنے سے پہلے میت کی زبان پر دہکتا ہواانگارہ
رکھا گیا۔ اس کے علاوہ اس کی قبر میں اس کے چہرے کے مقابل مشرق رو ایک دریچہ بنایا
گیا تاکہ ہر صبح جب آفتا جلّت عظمتہ وعزشانہ ، ۔۔طلوع ہوتو اس کی پہلی کرنیں سلطان
خواجہ کے چہرے پر پڑیں ۔بدایونی کہتاہے کہ اکبر اور اس کے پیروؤں کایہ عقیدہ تھا کہ
سورج کی روشنی انسان کو گناہوں سے پاک کردیتی ہے۶۵۔ میّت کی تدفین کے وقت اس
بات کا بھی خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ مردہ کا سر مشرق کی طرف اور اسکے پاؤں قبلہ کی
سمت ہوں۶۶۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۶۳۔
منتخب التواریخ ،جلد۲،ص
۳۹۱
۶۴۔
آئین اکبری ،جلد۳،
ص ۳۰۲ ۶۵۔
منتخب التواریخ ،جلد
۶۶۔
ایضاً ۔ص ۳۵۶
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدایونی لکھتا ہے کہ بادشاہ
کو اسلام کے ساتھ اتنی کد تھی کہ خود بھی سوتے وقت اپنے پاؤں قبلہ کی طرف کرکے سویا
کرتاتھا۶۷۔
بدایونی کی ایک روایت سے یہ
بھی مترشح ہوتاہے کہ بادشاہ نے اپنے بعض مریدوں کو اس بات کی اجازت دے رکھی تھی کہ
وہ اپنے مردوں کی گردن میں خام غلہ اورپختہ اینٹیں باندھ کر دریا میں ڈال دیا کریں۶۸۔ یہ اجازت غالباً ایسے مریدوں
کو مرحمت کی گئی تھی جو عموماً دریاؤں کے کنارے رہتے تھے ، ورنہ پہاڑی علاقوں او رگھنے
جنگلوں میں رہنے والے مریدوں کو اس بات کی بھی اجازت تھی کہ وہ اہل ختن کی طرح اپنے
مردوں کی درختوں کے ساتھ لٹکا دیا کریں۶۹۔
اسلام اور بانی اسلام کے ساتھ
اکبر کو جو عداوت تھی اس کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ اکبر کو۔
ہجرت۔ کالفظ ناگوار گذرتا تھا۔ بایں وجہ اکبر نے سن ہجری کی بجائے سن شمسی رائج کیا
اور یہ بات کوتوال کے فرائض میں شامل کردی کہ وہ اپنے علاقہ اختیار میں اس بات کا خیال
رکھے کہ عوام صرف شمسی کلنڈر ہی استعمال کریں۷۰۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۶۷۔
ایضاً ۔ص ۳۵۷۔۔
سر مردہ بجانب ،مشرق وپای آن بجانب مغرب دفن کنندو خواب رفتن خود را نیز برہمین ہیات
قرار دادند۔
۶۸۔
ایضاً ،ص ۳۹۱ ۶۹۔ ایضاً۔ بطور خطائیاں
بدرختی برنبدند۔
۷۰۔
آئین اکبری ،جلد اوّل ،ص ۳۵۰
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود ابوالفضل کو بھی لفظ ہجرت
سے بڑی کدتھی وہ جہاں کہیں بھی سن ہجری کا ذکر کرتاہے اس سنِ ہلالی لکھتا ہے۷۱۔
نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم
کے ساتھ عداوت کی بنا پر اکبر کو عربی زبان کے ساتھ بھی ایک گوناعداوت تھی۔ اس کا ذکر
پہلے ہوچکا ہے کہ اسے احمد، محمد، محمود اور مصطفی جیسے خالص عربی نام ناپسند تھے اور
اگر اس کے کسی ملازم کے نام کا جز محمد یا احمد ہوتا تو وہ اسے کسی دوسرے نام سے پکارتا
تھا۷۲۔
اسی طرح اس نے اپنی روزمرہ کی بول چال میں اس بات کا خاص اہتمام کیا کہ خالص عربی الفاظ
مثلاً ،ح، ع، ص، ض ، ط، ظ کا استعمال ترک کردیا۷۳۔ بدایونی لکھتاہے اکبر کے
عہد حکومت میں عربی پڑھنا اور پڑھانا معیوب سمجھا جاتا تھا او رعلوم شریعت کی جگہ علوم
عقلیات یعنی نجوم ،حکمت ،طب، ریاضی ،تاریخ ،شعر اور افسانہ کے درس وتدریس کی سرپرستی
کی جاتی تھی۷۴۔
علوم شریعت کی اس کسادبازاری کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ علماء کی مدومعاش بند ہوگئی او
ران کی اولاد علم وفضل کی بجائے پاجی گیری میں نام پیدا کرنے لگی۷۵۔ مجدّد الف ثانیؒعہد جہانگیری
میں اس بات کے شاکی تھے کہ سرہند جیسے عظیم شہرمیں قاضی کا عہدہ مدتوں سے خالی پڑا
ہے۷۶۔
جب عہد اکبری میں علوم شریعت کی درس وتدریس پر پابندی لگ گئی تھی تو پھر علماء اور
قضاۃ کہا ں آتے ؟ ہمارے خیال میں اکبر نے مسلمانوں کو احکام شریعت اور اسلام سے بیگانہ
رکھنے کے لیے علوم شریعت کے درس تدریس پر پابندی لگادی اورایسے علوم کو فروغ دیا جو
انہیں جادہ حق سے دور لے جانے والے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۷۱۔
ایضاً ،جلد۳،ص
۳۳۶،۳۵۱،۳۵۲
۷۲۔
منتخب التواریخ ،جلد۲،
ص ۲۶۹،
۳۱۴
۷۳۔
ایضاً ،ص ۳۰۷
۷۴۔
ایضاً۔
۷۶۔
ایضاً ۔ص ۲۷۴۔
مدارس ومساجد مدرومس واکثرمی جلاوطن شدندواولادناقابل ایشان کہ ماند بمرورپاجی گیری
نام برآور دند۔
۷۶۔
مکتوبات امام ربّانی ،جلد اول ۔مکتوب ۱۹۵
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Part: 5 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part
5 صُوفیائے خام
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism