New Age Islam
Fri Apr 18 2025, 02:36 AM

Books and Documents ( 6 May 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background: Part 12 on Nuqtavi Movement and Akbar دین الہی اور اس کا پس منظر : نقطوی تحریک اوراکبر

محمداسلم

قسط ۱۲

نقطوی تحریک اوراکبر

اکبر کے مریدوں میں ابوالفضل سرفہرست تھا او ربدایونی نے ایک موقع پر اسے ‘‘مجتہددین ومذہب نو’’ کے لقب سے ملقب کیا ہے۱؂۔جن لوگوں نے اکبر کو گمراہ کیا ان میں بھی ابولفضل کا نام سب سے اوپر تھا ۔ جہاں تک شیخ مبارک کا تعلق ہے ہم یہ ثابت کرچکے ہیں کہ وہ شیعہ تھا، لیکن جہاں تک ابوالفضل کی ذات کا تعلق ہے ، وہ ملحد تھا۔ اس کی اپنی تحریروں سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اس کی زندگی میں ہی اس پر فتوے لگنے شروع ہوگئے تھے۲؂۔ ابوالفضل فطرتاً الحاد کی طرف مائل تھا اور ایک بار اس نے باتوں باتوں میں بدایونی سے کہا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ چندروز دارئ الحاد کی سیر کردی۔ بدایونی نے کہا کہ اگر نکاح کی قید اٹھا دوتو پھر اس کا سیر کالطف دوبالا ہوجائے گا۳؂۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ابوالفضل کے دل میں اسلام کے متعلق شکوک پیدا ہوچکے تھے اور ۔۔فزادھم اللہ مرضاً۔۔کے مصداق یہ شکوک دن بدن بڑھتے گئے اور آخر کار وہ مبدأد معاد کا انکار کرکے ملحد ہوگیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂۔ منتخب التواریخ ،جلد۲،ص ۲۰۳ ۲؂۔ آئین اکبری ،جلد اوّل ،ص ۱۸۹

۳؂۔ منتخب التواریخ ،جلد ۲ص ۲۶۲

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خواجہ کلاں عبیداللہؒ نے شریف آملی کو ابوالفضل کی گمراہی کا سبب بتایا ہے۴؂۔ شریف آملی کے متعلق ان کی یہ رائے ہے کہ وہ محمود پیسخوانی کا پیروتھا اور اس کا شمار نقطوی فرقہ کے ‘‘رؤسا’’ میں ہوتا تھا۔اس فرقہ نے دسویں صدی ہجری میں ایران او رہندوستان کے ہزاروں لوگوں کے ذہنوں کو متاثر کیا او رایران میں تو اس فرقہ کو اتنا فروغ ہوا کہ اس کے پیروؤں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی اور شاہ عباس اوّل کا سنگھاسن ڈولنے لگا ۔شاہ نے اپنا تخت وتاج خطرے میں دیکھ کر ہزاروں نقطوں یوں کو 1002 ہجری میں تہ تیغ کرڈالا۵؂۔ سبھی مؤرخ اس پر متفق ہیں کہ اس قتل عام میں کچھ نقطوی جان بچا کر ہندوستان چلے آئے او ر یہاں آکر اپنے عقائد کا پرچار کرنے لگے۶؂۔ ان میں شریف آملی بھی تھا جو ابوالفضل کا دست راست مانا جاتا تھا۔ رقعات ابوالفضل میں شریف آملی کے نام گیا رہ خط موجود ہیں جو دونوں کے تعلقات پر بڑی عمدہ روشنی ڈالتے ہیں۔

ڈاکٹر نذیر احمد صاحب، صدر شعبہ فارسی، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ او رتہران یونیورسٹی کے پروفیسر صادق کیا کی تحقیق کے مطابق نقطوی فرقہ کا بانی محمود پسیخوانی گیلان کے ایک گاؤں پسیخوان کا رہنے والا تھا۷؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۴؂۔ مبلغ الرجال ،ورق ۳۲ الف ۔ ۵؂۔ تاریخ عالم آرائے عباسی ،جلد ۲،ص ۳۲۵

۶؂۔ i۔ ایضاً ۔ii۔ نقطویان پا پسیخانیاں ، ص ۹۔۱۰۔ii۔ منتخب التواریخ ،جلد۲،ص ۲۴۶

۷؂۔ i۔ تاریخی وادبی مطالعے ،ص ۱۔ ii۔ نقطویان یا پسیخانیاں ،ص ۵۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 بچپن ہی میں اس کے دل میں حصول علم کی آرزو چٹکیاں لینے لگی ۔اتفاق سے ان دنوں ایران میں فضل اللہ استر آبادی او را س کے حرونی فرقہ کا بڑا شہرہ تھا۔ محمود اس کی شہرت سن کر اس کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس سے اکتساب فیض کرنے لگا۔ کچھ عرصہ بعددونوں میں کسی مسئلہ پر اختلاف پیدا ہوا او رمحمود نے فضل اللہ سے علٰحیدگی اختیار کرلی اور 800 ہجری میں نقطوی فرقہ کی بنیاد رکھی ۸؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نقطویاں یاپسیخانیاں، ص ۵؂۔ ‘‘ دمی درسال ۸۰۰ این دین نور ا پدید آورد’’۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمود پسیخوانی کے مخالفین بھی اس بات پر متفق ہیں کہ کسی زمانے میں بڑا متقی او رپرہیزگارتھا۔ اس کا یہ معمول تھا کہ وہ آبادی سے دور عبادت ومراقبہ میں مشغول رہتا اور درختوں کے پتے اور گھاس کھا کر اپنا وقت پورا کرتا۔ایک دن وہ ندی کے کنارے بیٹھاوضو کررہا تھا کہ اسے پانی میں کوئی چیز بہتی نظر آئی جب وہ چیز اس کے قریب آئی تو اس نے دیکھا تو وہ گاجر تھی۔اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے پکڑلیا او روہیں بیٹھے بیٹھے کھا گیا۔ اس کے بعد وہ ہر روز وقت مقررہ پر وضو کے لئے ندی پر آتا او رایک بہتی ہوئی گاجر اس کی طرف آتی او روہ پکڑ کرکھالیتا۔ وہ اس پر خوش تھا کہ خدانے اس کے رزق کا اس طرح انتظام کردیا ہے۔

محمود پسیخوانی کا گاجریں کھاتے ہوئے دوماہ گذر گئے تو اس کے دل میں یوں ہی ایک خیال آیا کہ دیکھنا تو چاہئے کہ روزانہ یہ گاجر کہاں سے آتی ہے۔اگلے روز وہ وقت مقررہ سے پہلے ندی پر پہنچا او رپانی کے بہاؤ کے خلاف چل پڑا۔ ابھی تھوڑی ہی دور گیا تھاکہ اس نے دیکھا ایک برہنہ عورت ندی کے کنارے بیٹھی :۔

زرد کے رادرمحل مخصوص خود میفرشد ومی برآردر ساعتے بدان عمل قیام نمودچون از کار پرداخت وآتش توقان اوفرونشست آن زردک رادر آب از دست فردہشت۹؂۔

ایک گاجر اپنی اندام نہانی میں ڈال کرباہر نکال لیتی ہے ۔کچھ دیر تک وہ یہی عمل دہراتی رہی جب وہ اس کام سے فارغ ہوئی اور اس کی خواہش ٹھنڈی پڑی تو اس نے اپنے ہاتھ سے وہ گاجر پانی میں پھینک دی۔

محمود نے دور سے یہ منظر دیکھا تو خدا کو مخاطب کرکے کہنے لگا ‘‘ اے خدا تو اپنے مخلص بندوں کو ایسی چیزیں کھانے کو دیتاہے؟ اس واقعہ کے بعد وہ اس قدر دل براشتہ ہوا کہ وہ اسلام سے پھر گیا او را س نے الحاد وزندقہ کا پرچار شروع کیا۱۰؂۔ اس نے اپنے عقائد پر تیرہ رسالے لکھے، جن میں سے ‘‘بحروکوزہ’’ سب سے گیا گذرا ہے۔ اس کے مندرجات کے متعلق بدایونی لکھتا ہے کہ ۔فضلاتی کہ درآنجاخوردہ گوش از شنیدن آن تی میکند۱۱؂۔ اس ‘‘ملعون’’ کے روسائے مذہب میں سے شریف آملی اکبر کے عہد میں ہندوستان آیا اور ابوالفضل نے اس سے یارانہ گانٹھ لیا۱۲؂۔

شریف آملی نقطوی فرقہ کا ایک سرگرم مبلغ تھا اور اس کی تبلیغ وسعی سے ہزارہا لوگ اس فرقہ میں شامل ہوگئے۔جب شاہ عباس نے نقطویوں کا قتل عام شروع کیاتو وہ کسی نہ کسی طرح جان بچا کر ایران سے بھاگ نکلا۱۳؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۹؂۔ مبلغ الرجال ،ورق ۳؂۳۱ ۱۰؂۔ ایضاً ،ورق ۳۲الف

۱۱؂۔ منتخب التواریخ ،جلد۲ ص ۲۴۷ ۱۲؂۔ مبلغ الرجال ،ورق ۳۲الف

۱۳؂۔ تاریخ عالم آرائے عباسی ،جلد۲۔ص ۳۲۵

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدایونی اور خواجہ کلاںؒ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ ایران سے بھاگ کر اس نے بلخ میں مولانا محمد زاہدنبیرہ شیخ حسین خوار زمی کی خانقاہ میں پناہ لی اور صوفیوں کی طرح رہنے لگا۱۴؂۔ اس کی طبیعت کو چونکہ درویشی سے کوئی مناسبت نہ تھی اس لئے اس نے ہرزہ سرائی اور شطاحی کو اپنا شعار بنالیا۔ جب مولانا محمد زاہد کو اس کے عقائد معلوم ہوئے تو انہوں نے اسے اپنی خانقاہ سے نکال دیا اور وہ دکن چلا گیا۔

دکن میں ان دنوں شیعیت کا دور دورہ تھا اس لئے لوگوں نے شریف آملی کو شیعی عالم سمجھتے ہوئے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ وہ چونکہ فطرتاً بدباطن تھا اس لئے اس نے شیعیت کا لبادہ اوڑھ کر اپنے عقائد کا پرچار شروع کیا ۔ جب لوگوں کو اس کے عقائد معلوم ہوئے تو وہ اس کے درپئے آزاد ہوئے ۔بدایونی کے الفاظ ہیں:۔

حکام دکن می خواستند کہ لوح ہستی اور ا ازنقش حیات پاک سازند، عاقبت برسواری خرقراریا فتہ برسوائی تشہیر ش نمودند۱۵؂۔

دکن کے حکام اس کا نقش حیات ہی مٹا دینا چاہتے تھے لیکن بعد ازاں انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اسے گدھے پر بٹھا کر اس کی تشہیر کی جائے۔

دکن سے جان بچا کر شریف آملی شمالی ہندوستان چلا آیا او رپہلی ہی ملاقات میں اس نے بادشاہ کے سامنے ‘‘حرفہائے ناہموار’’ کہے جو پسند خاطر ہوئے ۔ اکبر نے ہزاری منصب دے کر اسے اپنے مقربین کے زمرہ میں شامل کرلیا۱۶؂۔

۱۴؂۔ i۔مبلغ الرجال ،ورق ۳۲،الف ii۔ منتخب التواریخ ۔جلد ۲،ص

۱۵؂۔ ایضاً ۱۶؂۔ مبلغ الرجال ،ورق ۳۲

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہیں سے اس کی دوستی ابوالفضل کے ساتھ شروع ہوئی اور اس کے توسط سے ابوالفضل نے ایران کے نقطویوں کے ساتھ نامہ وپیام شروع کیا۔ خواجہ کلاںؒ رقمطراز ہیں کہ شریف آملی، محمود پسیخوانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مراتب چہار گانہ کا،جو ابوالفضل کے اجتہاد کا نتیجہ تھے، پرچار کیا کرتاتھا۱۷؂۔ اس نے بھی بحروکوزہ پر‘‘ ترشح ظہور ’’ نام کی ایک کتاب لکھی تھی جو‘‘ مہملات’ ’ پر مشتمل تھی۱۸؂۔

شریف آملی کے حواریوں نے اسے ۔۔ مجددمایہ عاشر۔۔ مشہور کررکھا تھا۱۹؂۔ اس لئے سرکاری حلقوں میں وہ بڑی قدرومنزلت کی نگاہوں سے دیکھا جاتاتھا ۔اسکندرمنشی کی روائت ہے کہ اکبر اسے اپنا پیرومرشد مانتاتھا او راس کی تعظیم وتکریم بالکل ایک پیر کی طرح کرتا تھا۲۰؂۔ بادشاہ او روزیر کی دیکھا دیکھی ان کے مصاحب بھی اس کے ساتھ بڑی عقیدت سے پیش آتے تھے۔

بدایونی نے کیا خوب لکھا ہے:۔

چون ہندوستان وسیع است و میدان اباحت دران عرصہ فراخ وکسی را باکسی کاری نہ تاہر کس بہر طور یکہ باشد، باشد۲۱؂۔

ہندوستان ایک وسیع ملک ہے او راس وسعت میں اباحت کا میدان بڑا فراخ ہے او رپھر کسی کو کسی کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں اس لئے جس کا جوجی چاہے کرتا پھرے۔

شریف آملی خود کئی جگہ سے اپنی جان بچاتا ہوا اکبر کے ہموار کردہ میدان اباحت۔ میں آکر معززدمکرم ہوا۔ جب ایران میں نقطویوں پر عرصہ حیات تنگ ہوا تو بہت سے نقطوی وہاں سے بھاگ کر ہندوستان چلے آئے۲۲؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۷؂۔ ایضاً۔ ۱۸؂۔ منتخب التواریخ ،جلد ۲،ص ۲۴ ۱۹؂۔ ایضاً ،ص ۲۴۶

۲۰؂۔ تاریخ عالم آرائے عباس ،جلد ۲،ص ۳۲۵ ۲۱؂۔ منتخب التواریخ ۔جلد ۲،ص ۲۴۶

۲۲؂۔ نقطویاں پسیخانیاں ،ص ۹۔۱۰۔‘‘ ازپیردان دینہائی گوناگون وتہمت زدگان رانیز ہند رہمون شد۔ امذک ہندوستان جایگاہ وانشمندان وہنر مندان ایران دپناہ گاہ گر یختگان این سامان گشت’’۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان میں جو پڑھے لکھے یا کسی فن میں ماہر تھے انہوں نے شریف آملی کے توسط سے اکبر کی ملازمت اختیار کرلی۔ہمیں دربار اکبر ی میں دونقطوی شاعر، وقوعی نیشاپوری اور تشبیہی کاشی بڑے معززومکرم نظر آتے ہیں۔ یہ بات بڑی غور طلب ہے کہ ابوالفضل کے ساتھ ان کے بڑے عمدہ مراسم تھے اور اس کے ہاں ان کی آمد ورفت بھی رہتی تھی۲۳؂۔

وقوعی نیشاپوری کے متعلق بدایونی لکھتا ہے کہ یہ ۔۔ مغضوب الرب وئعون خلق ۔۔ تناسخ اور نظریہ ارتقا ء کا قائل تھا۔ ایک بار کشمیر جاتے ہوئے لشکر شاہی نے بھنبر کے مقام پر پڑا ؤ ڈالا ۔اتفاق سے وقوعی کسی کام سے مجھے ملنے آیا ۔میرے خیمہ کے باہر بڑے بڑے پتھر بکھرے ہوئے تھے، جونہی اس کی نظر ان پر پڑی ۔

بحسرت گفت کہ آہ این بیچا رہا منتظر اند کہ تاکی لقالب انسانی یر آیند۲۴؂۔

حسرت سے کہنے لگا کہ بیچارے کب سے منتظر ہیں کہ دیکھئے کب انسانی صورت میں اٹھتے ہیں۔

اس سے نقطویوں کے عقائد پرکافی روشنی پڑتی ہے۔

تشبیہی کا شی بھی ابوالفضل کے توسط سے اکبر کے دربار میں باریاب ہوا تھا اس نے ایک موقع پر اکبر کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا جس میں اس نے اکبر کو مخاطب کرکے یہ کہا۔’’ چرا یکرویہ شدہ تقلید یان رابرنمی اندازید تاحق بمرکز قراریابد’’۲۵؂۔بدایونی نے ابوالفضل کے گھر میں تشبیہی کاشی کے ہاتھ میں محمود پسیخوانی کا ایک رسالہ دیکھا تھا جس کا آغاز ان الفاظ سے ہوتاتھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۳؂۔ منتخب التواریخ ،جلد ۳، ص ۲۰۵ ۲۴؂۔ ایضاً ،ص ۳۷۹

۲۵؂۔ ایضاً ،ص ۲۰۵

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

باللہ المحمودفی کل فعالہ استعین بنفسک الذی لاالٰہ الا ھوالحمد اللہ الذی وجد نعمہ بوجود کلیاتہ واظھر وجود الکلیات عن نفسہ سھوبھم کلیا وھوبعلم نفسہ ولانعلم نفوسنا ولا ھوکون کاین الابہ وکان لایکون بغیرہ وھوارحم الراحمین۲۶؂۔

بدایونی کی تحریروں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں شاعر عوام کو دعوت الحاد دیا کرتے تھے او رتشبیہی نے تو خود کو ابوالفضل سے مجتہدبھی تسلیم کروالیا تھا۲۷؂۔

ابوالفضل کے نقطویوں کے ساتھ ربط وضبط رکھنے سے لوگوں کو اس کا یقین ہوگیا تھا کہ وہ بھی نقطوی ہے۔ ہندوستان سے باہر بھی اس کے الحاد کا چرچا تھا، چنانچہ مشہور ایرانی مؤرخ اسکندر منشی کی اس کے متعلق یہ رائے ہے۔

شیخ ابوالفضل ولد شیخ مبارک کہ ازارباب فضل واستعدادولایت ہند ودرملازمت پادشاہ عالیجاہ جلا الدین محمد اکبر پادشاہ تقریب واعتبار تمام یافتہ بوداین مذہب داشت و پادشاہ رابکلمات واہیہ وسیع المشرب شاختہ ازجادہ شریعت منحرف ساختہ بود۲۸؂۔

شیخ ابوالفضل ولد شیخ مبارک نے جس کا شمار ہندوستان کے اہل علم وفضل میں ہوتا ہے ،اکبر کی ملازمت کے دوران ا س کے حضور میں بڑا عتبار پیدا کرلیا تھا۔ وہ اسی مذہب کاپیروتھا او را س نے بادشاہ کوبھی گمراہ کن باتوں سے وسیع المشرب بنا کر شریعت کی راہ سے ہٹادیا تھا۔

اسکندر منشی لکھتا ہے کہ جب شاہ عباس نے نقطویوں کا قتل عام کیا اور ان کے سرغنہ میر سید احمد کاشی کا گھر لٹوایا تو اس کے گھر سے ابوالفضل کا ایک خط نکلا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۶؂۔ ایضاً۔ ۲۷؂۔ ایضاً،ص ۲۰۴۔۲۰۵

۲۸؂۔ تاریخ عالم آرائے عباسی ، جلد۲، ص ۳۲۵

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس خط کے مضمون سے یہ معلوم ہوا کہ ابوالفضل بھی نقطویف فرقہ کا پیرو تھا۲۹؂۔ سرسید احمد خان نے تشبیہی کاشی کے سوانح حیات کے حاشیہ پر ابوالفضل کے متعلق لکھا ہے۔

از سر آغاز آگہی شوریدگی دارد وبآیئن محمود یان میزند۳۰؂۔

وہ نوعمری سے ہی گمراہ تھا اور محمود پسیخوانی کے مسلک پرگامزن تھا۔

خواجہ کلانؒ بھی ابوالفضل کو محمود پسیخوانی کا پیروبتاتے ہیں۳۱؂۔ آئندہ سطور میں ہم نقطویوں کے عقائد بیان کریں گے او ران کی روشنی میں یہ جائزہ لیں گے کہ ان مؤرخوں کا یہ دعویٰ کہاں تک صحیح ہے کہ ابوالفضل نقطوی تھا۔

نقطوی فرقہ کے پیرو۔۔ عالم راموجود باعتبار میدانند وترتیب ثواب وعقاب برعمل وکردار اعتقاد نکند۳۲؂۔ اسکندر منشی لکھتا ہے

آئطائفہ بمذہب حکمأ عالم راقدیم شمردہ اندواصلاً اعتقاد بحشرواجساد قیامت ندارند ومکافات حسن وقبح اعمال رادرعافیت وندلت دنیا قرار دادہ بہشت ودوزخ ہمانرامی شماند۳۳؂۔

حکمأ کی طرح یہ فرقہ بھی عالم کو قدیم تسلیم کرتاہے او رقیامت کے روز دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان نہیں رکھتا یہ لوگ دنیاوی زندگی میں خوشحالی اور عسرت کو اچھے اور بُرے اعمال کا نتیجہ سمجھتے اور اسے ہی جنت او رجہنم مانتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۹؂۔ ایضاً ۳۰؂۔ آئین اکبری ، جلدسوم،ص ۳۱۵

۳۱؂۔مبلغ الرجال ،ورق ۳۱الف ۳۲؂۔ ایضاً ،ورق ۲۵ الف

۳۳؂۔ تاریخ عالم آرائے عباسی ،جلد۲،ص ۳۲۵

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاہنواز خان ان کے متعلق لکھتا ہے :۔

علم نقطہ الحاد وزندقہ واباحت و توسیع مشرب است، مثل حکمأ بقدم عالم گردندوانکار حشر وقیامت نمایند ومکافات حسن قبح اعمال وجنت ونار درعافیت ومذلت دنیا قرار دہند۳۴؂۔

علم نقطہ سے مراد زندقہ ،اباحت او روسیع المشربی ہے حکماء کی طرح یہ بھی عالم کو قدیم مانتے ہیں ۔ یہ لوگ قیامت کے روز حشر ونشر کونہیں مانتے او رنیک وبداعمال کی جزا اور جنت ودوزخ کو دنیاوی زندگی میں خوشحالی اور تنگدستی پر محمول کرتے ہیں۔

وہ نظریہف ارتقاء کے قائل ہیں اور ان کا یہ عقیدہ ہے کہ جمادات ونباتات ترقی کرتے کرتے انسان کے درجہ تک پہنچ جاتے ہیں۳۵؂۔ تشبیہی کاشی نے پتھروں کو دیکھ کر یہی کہا تھاکہ آہ این بیچارہا منتظر اند کہ تاکی بقالب انسانی برآیند۳۶؂۔

وہ نظریہ ارتقا کے قائل ہیں اور ان کا یہ عقیدہ ہے کہ جمادات ونباتات ترقی کرتے کرتے انسان کے درجہ تک پہنچ جاتے ہیں ۳۵؂۔تشبیہی کاشی نے پتھروں کودیکھ کر یہی کہا تھا کہ آہ این بیچارہا منتظر اندکہ تاکی بقالب انسانی برآیند۳۶؂۔

ان کا یہ عقیدہ ہے کہ جو کچھ زمین میں ڈالوگے وہ اُگ آئے گا، اس کے اُگنے میں قدرت خدا کو کوئی دخل نہیں بلکہ یہ عمل تاثیر کو اکب وعناصر کے تحت ہوگا۳۷؂۔

خوجہ کلانؒ رقمطراز ہیں کہ یہ لوگ قرآن پاک کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف سمجھتے ہیں او رمسائل شریعت کے متعلق ان کا عقیدہ ہے کہ یہ اہل رائے نے بنائے ہیں۳۸؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۳۴؂۔ مأثر الامراء ۔جلداوّل ،ص ۶۱۹ ۳۵؂۔دبستان مذاہب ،ص ۳۰۰

۳۶؂۔ منتخب التورایخ ،جلد۳،ص ۳۷۹ ۳۷؂۔ مبلغ الرجال ،ورق ۲۵ الف

۳۸؂۔ ایضاً ،ورق ۲۵

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس فرقہ کے پیرونماز کا مذاق اڑاتے ہیں اور جب کسی مسلمان کو نماز ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ خدا کو آسمان پر ماننا او رسرزمین پر رکھنا بھی بھلا کوئی عقل کا کام ہے۳۹؂۔ اسی طرح جب یہ لوگ حجاج کو صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ ان کا کیا گم ہوگیا ہے جس کی تلاش میں یہ ادھر ادھر مارے مارے پھرتے ہیں۴۰؂۔ قربانی کے جانوروں کو دیکھ کر یہ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ ان بے زبان نے تمہارا کیا بگاڑا ہے جو انہیں جان سے مارتے ہو۴۱؂۔ ماہ رمضان کا نام ان ملحدوں نے ماہ گرسنگی ونشنگی رکھا ہوا ہے۴۲؂۔

ان کا یہ کہنا ہے کہ جو قطرہ آب انسان کی خلقت کا سبب ہے بھلا ا س کے باہر نکلنے سے غسل کیونکر واجب ہوتاہے؟ حالانکہ اسی راہ سے پیشاب جو کہیں زیادہ پلید ہے،نکلنے سے غسل واجب نہیں ہوتا۴۳؂۔ اس فرقہ کے پیروماں بہن کو حرمت کے بھی قائل نہیں ہیں۴۴؂۔ اسی طرح یہ گروہ نقلیات کا منکر او رعقلیات کا داعی ہے اور ہر اسلامی شعار کا مذاق اُڑاناان کا بہترین مشغلہ ہے۴۵؂۔

نقطویوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اوّل ظہور سے محمود پسیخوانی تک آٹھ ہزار سال کی مدّت ہوتی ہے۔ یہ درو عربوں کی سیادت کا دور تھا کیونکہ اس مدّت میں پیغمبر صرف عربوں ہی میں پیدا ہو تے رہے ہیں۔ محمود پسیخوانی کے ظہور سے عربوں کی سیادت ختم ہوگئی ہے لہٰذا آئندہ آٹھ ہزار سال تک پیغمبر عجمیوں ہی میں پیدا ہوا کریں گے۴۶؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۳۹؂۔ ایضاً ۴۰؂۔ ایضاً ۴۱؂۔ ایضاً ۴۲؂۔ ایضاً

۴۳؂۔ ایضاً ۴۴؂۔ ایضاً ۴۵؂۔ ایضاً ۴۶؂۔دبستان مذاہب ،ص ۳۰۱

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کا یہ عقیدہ ہے کہ جب عناصر میں قوت پیدا ہوتی ہے تو معدنی صورت نباتی خصلت پہنتی ہے ۔پھر کسوت حیوانی ا س کے جسم پرچست ہوتی ہے جب اس میں شان وشوکت پیدا ہوتی ہے تو انسان کا مل کے مرتبہ تک پہنچ جاتاہے۔ اس طرح ظہور آدم تک اجزائے انسانی ترقی کی منزلیں طے کرتے رہے یہاں تک کہ مرتبہ محمدی آیا پھر بھی قدم کمال کی طرف بڑھتا رہا تو محمود کا درجہ آگیا۴۷؂۔ چنانچۃ ان یبعثک ربک مقاماً محموداً’’ میں اسی کی طرف اشارہ ہے۴۸؂۔

ان کا کلمہ۔۔لا الہ الا المرکب المبین۔۔ ہے او ر‘‘مرکب مبین’’ سے یہ لو گ انسان مراد لیتے ہیں۴۹؂۔ اس فرقہ کے بانی نے لیس کمثلہ شئ کو حذف کرکے اس کی جگہ قرآن میں ‘‘اناالمرکب المبین’’ لکھ دیا تھا۵۰؂۔

محسن فانی لکھتاہے کہ نقطویوں کی ایک خاص دعا ہے جسے وہ سورج کی طرف منہ کرکے پڑھتے ہیں۵۱؂۔ ان کے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ جب دونقطوی ملتے ہیں تو وہ سلام مسنون کی بجائے اللہ اللہ کہتے ہیں ۵۲؂۔ نقطویوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ مذہب اسلام منسوخ ہوچکا ہے اس لئے محمود کا لایا ہوا دین قبول کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ۵۳؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۴۷؂۔ ایضاً ،ص،۳۰ ۴۸؂۔ یہ عبارت ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کی ہے۔ میں نے خود ترجمہ کرنے کی بجائے یہ عبارت ان سے مستعار لے لی ہے۔

۴۹؂۔ تاریخی وادبی مطالعے ،ص ۸۔ ۵۰؂۔ دبستان مذاہب ،ص ۳۰۰

۵۱؂۔ ایضاً ،ص ۳۰۲ ۵۲؂۔ ایضاً ۵۳؂۔ ایضاً ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے عہد میں بعض اہل علم کو اس بات کا احساس ہونے لگا ہے کہ دین الٰہی کی بنیادیں نقطویوں کا بھی کافی حصہ ہے۔لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس بات کی زحمت گوارا نہیں فرمائی کہ وہ اکبر او راس کے حواریوں کے عقائد کا موازنہ نقطویوں کے عقائد سے کرتے اور تاریخ پاک وہند کے طلباء کے سامنے ایک نئی چیز پیش کرتے ۔ ہم نے اپنے طور پر ان کے عقائد کا موازنہ کیا ہے او را س نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اکبر اور اس کے حواریوں نے اکثر وبیشتر عقائد نقطویوں سے مستعار لئے تھے۔

(1) نقطوی تناسخ کے قائل ہیں اور اس کے بغیر وہ جزاوسزا کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ ہم یہ بتاچکے ہیں کہ بیربر ،دیوی، پرکھوتم او ربھادن نے اکبر کو اس بات کا یقین دلایا تھا کہ تناسخ کے بغیر عذاب وثواب بے معنی ہے او روہ تناسخ پر یقین کرنے لگا تھا۔ نقطویوں کی صحبت نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔ بدایونی لکھتاہے کہ جب خان اعظم بنگال سے آکر اکبر کی حدمت میں باریاب ہوا تو اکبر نے اس سے کہا۔

مادلائل قطعی برحقیقت تناسخ یافتہ ایم، شیخ ابوالفضل خاطر نشان شماخواہد کرد۵۴؂۔

ہم نے تناسخ کی حقانیت پر قطعی دلائل فراہم کرلئے ہیں ،شیخ ابوالفضل تمہیں ان سے آگاہ کریں گے۔

ہمارا یہ خیال ہے کہ اس نے ‘‘ دلائل قطعی’’ شریف آملی ، وقوعی نیشاپوری اور تشبیہی کا شی کی صحبت میں رہ کر فراہم کئے تھے۔

(2) نقطوی حشر ونشر کے قائل نہیں ہیں، اکبر بھی حشر ونشر پر ایمان نہیں رکھتا تھا بدایونی کے الفاظ ہیں۔درہررکنے ازار کان دین ودرہر عقیدہ از عقاید اسلامیہ چہ اصول چہ فروغ مشل نبوت وکلام درویت وتکلیف وتکوین وحشر ونشر شبہات گوناگون بتمسخر واستہزاآوردہ۵۵؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۵۴؂۔ منتخب التواریخ ،جلد۲،ص ۳۰۰ ۵۵؂۔ ایضاً ،ص

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(3) نقطوی قرآن حکیم کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف بتاتے ہیں ،جہانگیر کہاکرتا تھاکہ ابوالفضل نے میرے والد کے ذہن میں یہ بات بٹھادی تھی کہ قرآن حکیم حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف ہے۵۶؂۔

(4) جب دونقطوی ملتے تھے تو سلام مسنون کی بجائے وہ اللہ اللہ کہتے تھے ۔جب اکبر کے پیروملتے تھے تو ایک اللہ اکبر کہتا اوردوسرا جواب جل جلالہ کہتا تھا۔

(5) نقطویوں کی ایک خاص دعا ہے جسے وہ سورج کی طرف منہ کرکے پڑھتے تھے اکبر بھی سورج کی بڑی تعظیم کرتاتھا اور اس کی طرف منہ کرکے ایک خاص دعا پڑھا کرتاتھا۔

(6) نقطویوں کا یہ کہنا تھا کہ دین اسلام کی میعاد ختم ہوچکی ہے ، اس لئے اب نئے دین کی ضرورت ہے ،اکبر بھی عقیدہ الفی پر یقین کامل رکھتا تھا اور اسکا یہی کہنا تھا کہ دین اسلام کی میعاد ختم ہوچکی ہے لہٰذا اب ایک نئے دین کی ضرورت ہے۔

(7) نقطوی انسان کی پرستش کرتے او راسے حق کا مترادف سمجھتے ہیں۔اکبر کا قریب قریب یہی عقیدہ تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب راجہ ٹوڈرمل کے ٹھاکر چوری ہوئے او را س نے کھانا پینا چھوڑ دیا تو اکبر نے اس سے کہا کہ ٹھاکرو کا غم نہ کرو، میں جو موجود ہوں۔میرے درشن کرکے بھوجن کرلو۔

(8) نقطوی غسل جنابت کے قائل نہیں ہیں۔ اکبر نے بھی غسل جنابت منسوخ کردیا تھا اور بقول بدایونی فیضی تو جنابت کی حالت میں بھی سواطع الالہام کی تصنیف میں لگا رہتا تھا۵۷؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۵۶؂۔ مأثر الامرأ ،جلد۲،ص ۲۱۷ ۵۷؂۔ منتخب التواریخ ،جلد۳، ص ۳۰۰

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(9) نقطوی مناسک حج کا تمسخر اُڑاتے ہیں ،اکبر نے بھی حجاج پر پابندی لگا دی تھی ، بدایونی لکھتاہے کہ اکبر سے حج پرجانے کی اجازت مانگنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۵۸؂۔

(10) نقطوی اباحت کے قائل ہیں ابوالفضل نے بھی ایک بار کہا تھا کہ میراجی چاہتاہے کہ کچھ دنوں کے لئے وادی الحاد کی سیر کروں ۔بدایونی نے کہا کہ اگر نکاح کی قید بھی اٹھا دوتو پھر اس سیر کا لطف دوبالا ہوجائے گا۵۹؂۔ خواجہ کلاںؒ نے بھی شیخ مبارک او رابوالفضل دونوں پر مسلک اباحت پر گامزن ہونے کا الزام لگایا ہے۶۰؂۔

(11) نقطوی عقلیات کے قائل ہیں اور نقلیات کے منکر۔ اکبر بھی اپنے حواریوں سے یہ کہا کرتاتھا کہ اگر کسی کاتعلق عقل کے ساتھ ہوتو وہ مجھ سے دریافت کرو اور اگر وہ شریعت سے متعلق ہوتو وہ ان ملاّوں سے پوچھو۶۱؂۔

(12) نقطویوں کایہ خیال ہے کہ شریعت کے مسائل اہل رائے نے بنائے ہیں ،اکبر جس سے ناراض ہوتااسے وہ فقہیہ کہہ کر پکار ا کرتا تھا۶۲؂۔ فیضی جام شراب ہاتھ میں اٹھا کر کہا کرتا تھا کہ ۔این پیالہ رابکوری فقہامی خوریم۶۳؂۔ نقطوی اسلام اور شعائر اسلام کا مذاق اُڑاتے ہیں ابوالفضل اپنی تحریروں میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کا ذکر کرتاہے انہیں پیردان احمدی کیش ۶۴؂۔ کوتاہ بین ۶۵؂۔ گم گشتگان بیابان ضلالت۶۶؂۔ سادہ لوحان تقلید پرست۶۷؂۔ اور گرفتار زندان تقلید۶۸؂۔کے تحقیر آمیز کلمات سے یاد کرتاہے۔نیز اس نے عبادت اسلامی کے خلاف رسائل بھی لکھے تھے۶۹؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۵۸؂۔ ایضاً ،جلد،۲ص ۲۳۹۔‘‘ نام نمیتوان برود بمجر وطلبیدن رخصت مجرم راجب القتل میشوند’’۔ ۵۹؂۔ ایضاً ،ص ۲۶۲۔۶۰؂۔ مبلغ الرجال ، ورق ،۳۳ الف ،۳۳ب۔

۶۱؂۔ منتخب التواریخ ،جلد۲ ص ۳۰۸ ۶۲؂۔ ایضاً ،ص ۳۳۹ ۶۳؂۔ ایضاً ،ص ۳۰۹

۶۴؂۔ آئین اکبری ، جلد ۲، ص ۱۴۵ ۶۵؂۔ ایضاً ،جلد۳،ص ۲۹۸

۶۶؂۔ مہابھارت ،ص ۱۰۔ ۶۷؂۔ آئین اکبری ب،جلد ۳، ص ۲۹۳ ۶۸؂۔ مہابھارت ،ص ۳۵

۶۹؂۔منتخب التواریخ ،جلد۲،ص ۳۰۲

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(13) فیضی کو تفسیر بے نقط لکھنے کا خیال نقطویوں سے مل کر آیا تھا ۔

(14) ماہ رمضان کو نقطوی ۔۔ماہ تشنگی وگر سنگی ۔۔کہا کرتے تھے ۔اکبر بھی اپنے درباریوں کو رمضان میں روزے رکھنے سے منع کرتا تھا۔ اس کا یہ حکم تھا کہ ماہ رمضان میں اس کے درباری اس کے سامنے کھایا پیا کریں۔ اگر انہیں کھانے پینے کی خواہش نہ ہو تو اس صورت میں وہ پان کا بیڑا منہ میں رکھ لیا کریں۷۰؂۔

ان حقائق کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کرناچنداں دشوار نہیں کہ اکبر او را سکے حواریوں کے نقطویوں کے ساتھ بڑے گہرے مراسم تھے اور دین الہٰی کی بنیاد میں نقطوی مذہب کو کافی دخل تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۷۰؂۔تذکرۃ الملوک ،ورق ۲۳۱ب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Part: 1 – Muhammad Aslam's book on Akbar’s Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu: Part 1 on Appreciation and Foreword دین الہٰی اور اس کا پس منظر

Part: 2 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 2 on Opening Remarks آغاز سُخن

Part: 3 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 3 on The Early Religious Life of Akbar اکبر کی ابتدائی مذہبی زندگی

Part: 4 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 4 on Impact of False Scholars (Ulama-e-Suu) on Deviation of Akbar علمائے سو

Part: 5 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 5 صُوفیائے خام

Part: 6 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 6 on the Objective of Shaikh Mubarak Nagori شیخ مبارک کا منصوبہ

Part: 7 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 7 on Akbar and Hindus اکبر اور ہندو

Part: 8 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 8 on Bhakti Movement and Akbar بھکتی تحریک اوراکبر

Part: 9 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 9 on Jainism and Akbar جینی اوراکبر

Part: 10 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 10 on the Parsis and Akbar دین الہی اور اس کا پس منظر : پارسی اور اکبر

Part: 11 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part 11 on Akbar and Christians دین الہی اور اس کا پس منظر : اکبر اور عیسائی

URL: https://newageislam.com/books-documents/muhammad-aslam-akbar-deen-e-ilahi-urdu-part-12/d/132268

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..