مولانا ندیم الواجدی
19 مارچ ، 2021
حضرت ابوایوب انصاریؓ کا
مکان یہود علماء
سرکار دو عالم صلی اللہ
علیہ وسلم کی اونٹنی قصواء حضرت ابوایوب انصاریؓ کے مکان پر جا کر بیٹھ گئی، بلکہ
بعض روایات میں ہے کہ وہ ایک دفعہ بیٹھ کر اٹھی، واپس کچھ دور گئی، پھر آکر
دوبارہ اسی جگہ بیٹھ گئی اور اس نے گردن ڈال دی۔ یہ حیرت انگیز واقعہ ہے، بلکہ ایک
معجزہ ہے۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز واقعہ یہ ہے کہ یمن کے بادشاہ تُبّع کی وصیت
کی رو سے یہ مکان سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص طور پر بنایا گیا
تھا۔ تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ تبع جس نے سب سے پہلے خانۂ کعبہ پر غلاف چڑھایا،
مختلف ملکوں اور علاقوں کو فتح کرتے ہوئے یثرب پہنچا اوریہاں اپنے بیٹے کو حاکم
بنا کر خود عراق اور شام کی طرف نکل گیا۔ یثرب کے لوگوں نے اس کے بیٹے کو قتل
کردیا، تبع کو جب اس واقعہ کی خبر ملی تو وہ غیظ و غضب کے عالم میں وہاں گیا اور
اس شہر کو تباہ و برباد کرنے کا ارادہ کیا۔ اس کے ساتھ چارسو یہودی علماء بھی تھے۔
انہوں نے بادشاہ سے عرض کیا کہ یثرب میں اللہ کے آخری نبیؐ آنے والے ہیں، تورات میں لکھا ہوا ہے کہ یہ
شہر انؐ
کا مسکن ہوگا، اس لئے یثرب کو برباد کرنے کا خیال دل سے نکال دیں۔ علمائے
یہود کے سمجھانے سے تبع نے اپنا ارادہ ختم کردیا۔ ان علماء نے نبی آخر الزماں صلی
اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے انتظار میں یہاں رہنے کی اجازت چاہی، تبع نے ان
کو نہ صرف یہ کہ رہنے کی اجازت دی بلکہ ان کو الگ الگ مکانات بھی بنا کر دئیے اور
ایک مکان نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بہ طور خاص بنوایا کہ وہ یہاں
تشریف لا کر قیام فرمائیں گے۔ اس مکان کی دیکھ بھال کے لئے ایک عالم کو وہاں
ٹھہرایا، اس کو ایک خط لکھ کر دیا کہ اگر تمہاری زندگی میں نبی آخر الزماں تشریف
لے آئیں تو ان کی خدمت میں میرا یہ خط پیش کردینا اور اگر تم مر جاؤ تو یہ خط
اپنی اولاد کے سپرد کردینا۔ پشتہا پشت تک خط کی منتقلی کا سلسلہ چلتا رہا۔ حضرت
ابوایوب انصاریؓ اسی عالم کی اولاد میں سے ہیں۔ ان کے پاس باشاہ تبع کا یہ خط موجود
تھا، جس میں اس نے حضورؐ کے ساتھ اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا
کہ اگر میں آپؐ کی تشریف آوری تک زندہ رہا تو آپؐ کا وزیر اور آپؐ کاچچا زاد بھائی بنوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی تشریف آوری کے بعد حضرت ابوایوب انصاریؓ نے یہ خط خدمت اقدس میں پیش
کردیا۔ ایک طرح سے آپؐ اپنے مکان ہی میں مقیم ہوئے اوریہ سب کچھ من جانب اللہ
ہوا۔ (روض الانف، ۱؍۲۴)
حضرت ابوایوب انصاریؓ کی
مہمان نوازی
حضرت ابوایوب انصاریؓ نے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دل و جان سے خدمت کی، اپنے دومنزلہ مکان کی
بالائی منزل میں خود رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیچے کی منزل میں قیام
فرمایا۔ انہوں نے عرض بھی کیا کہ یارسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات مناسب نہیں ہے کہ ہم اوپر رہیں اور آپؐ کا قیام
نیچے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے ابوایوب ! ہمارے لئے اور
ہمارے پاس آنے والوں کے لئے مناسب یہی ہے کہ میں نیچے والے مکان میںرہوں۔ حضرت
ابوایوبؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز پانی کا مٹکا ٹوٹ گیا، میں اور ام ایوب کمبل لے کر
دوڑے اور گرے ہوئے پانی کو کمبل میں جذب کرنے لگے۔ اس ڈر سے کہ کہیں پانی چھت سے
ٹپک کر نیچے نہ چلا جائے۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا کمبل بھی نہ تھا۔ فرماتے ہیں کہ ہم
روز رات کو کھانا تیار کرکے نیچے بھیج دیا کرتے تھے، جب آپؐ کھانا تناول فرمالیتے
اور بچا ہوا کھانا واپس آتا تو ہم لوگ ٹھیک اسی جگہ سے کھانا شروع کرتے جس جگہ
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک انگلیوں کے نشانات ہوتے۔ ایک مرتبہ
کھانے میں لہسن اور پیاز کا استعمال ہوا۔ اس روز کھانا جوں کا توں واپس آگیا،
ہمیں تشویش ہوئی، عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں، آپؐ نے
کھانا واپس فرمادیا؟ اس میں آپؐ کی انگلیوں کے نشانات نظر نہیں آئے؟ آپؐ نے
ارشاد فرمایا کہ مجھے اس کھانے میں پیاز اور لہسن کی بو محسوس ہوئی، میں نے کھایا
نہیں، کیوںکہ میں جبریلؑ سے سرگوشی کرتا ہوں، تم لوگ وہ کھانا کھالو، چنانچہ ہم نے
کھا لیا، اس کے بعد ہم نے کبھی آپؐ کے کھانے میں پیاز لہسن کا استعمال نہیں کیا۔
(سیرت ابن ہشام، ۲؍۳۶۶)
حضرت ابوایوب انصاریؓ کے
مکان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات ماہ تک قیام فرمایا، اس عرصے میں دوسرے
انصار صحابہؓ بھی اپنے اپنے گھروں سے کھانا لے کر آیا کرتے تھے۔ حضرت زیدؓ بن
ثابت فرماتے ہیں کہ حضرت ابوایوب انصاریؓ کے گھر میں قیام فرمانے کے بعد جو سب سے
پہلا ہدیہ آپؐ کی خدمت میں پیش کیا گیا وہ دودھ، گھی اور روٹی سے تیار کیا ہوا
ثرید تھا، یہ ہدیہ میں خود آپؐ کی خدمت میں اقدس میں لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا
کہ یہ کھانا میری والدہ نے تیار کیا ہے۔ آپؐ نے خیرو برکت کی دعا دی اور اپنے اصحاب
کو بلاکر ان کے ساتھ یہ کھانا تناول فرمایا، اس کے بعد حضرت سعد بن عبادہؓ کے گھر
سے کھانا آیا جو ثرید اور گوشت پر مشتمل تھا، اس طرح ہر رات آپؐ کے دروازے پر
تین چار آدمی یکے بعد دیگرے کھانا لے کر حاضر ہوتے رہتے تھے۔ (السیرۃ النبویہ ابن
کثیر، ۲؍۲۷۷)
اہل و عیال بھی مدینہ
پہنچے
ہجرتِ رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کے بعد مکہ مسلمانوں سے خالی ہوگیا، مسلمانوںنے ہجرت کی خاطر اپنے مکانوں کی
بھی پروا نہیں کی، بنوجحش ایک بڑا قبیلہ تھا اور اس کے وسیع مکانات تھے، یہ لوگ
اپنے گھرچھوڑ کر مدینے آگئے، ان کی عدم موجودگی میں ابوسفیان بن حرب نے ان کی
جائیداد پر قبضہ کرلیا اور اسے عمرو بن علقمہ کو بیچ ڈالا، کسی نے اس کی اطلاع بنی
جحش کو دے دی، تکلیف فطری تھی۔ عبداللہؓ بن جحش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کی خدمت میں حاضر ہو کر اس واقعے کی خبر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے
عبداللہ! کیا تم اس بات سے خوش نہیں کہ اللہ تمہیں جنت میں اس سے بہتر گھر عطا
فرمائے۔ عبداللہ نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ مجھے ضرور خوشی ہوگی۔آپؐ نے
فرمایا: تب جنت کا گھر تمہارے لئے ہے، اس وقت تو بات ختم ہوگئی، کئی سال بعدجب مکہ
فتح ہوگیا اور مسلمان اس شہر میں فاتحانہ داخل ہوئے تو ایک صحابی ابواحمدؓ نے خود
سے یا عبداللہ بن حجشؓ کی خواہش اور تحریک پر ان کے مقبوضہ مکانات کا قصہ چھیڑ
دیا۔ مقصد یہ تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قابضین سے فرمائیں کہ وہ مہاجر
صحابہؓ کے مکانات سے بے دخل ہوجائیں مگر آپؐ نے کوئی جواب نہیں دیا اور دیر تک
خاموش رہے۔ دیگر صحابہ کرامؓ نے ابواحمدؓ سے کہا: اے ابواحمدؓ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ تمہارا جو مال اللہ کی راہ میں نکل گیا وہ
واپس لیا جائے۔ یہ جاننے کے بعد عبداللہ بن حجشؓ نے اس سلسلے میں پھر کوئی بات
نہیں کی۔ (سیرت ابن ہشام، ۱؍۳۶۷) دوسرے تمام مہاجر صحابہؓ
نے بھی اس پر عمل کیا، جو چیز وہ چھوڑ چکے تھے اس کا غم نہیں کیا، اور نہ کبھی اس
کی واپسی کے لئے کوئی کوشش کی۔ بہت سے صحابہ کرام کے گھر والے، ماں باپ، بہن بھائی
اور بیوی بچے بھی وہاں رہ گئے تھے اور وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے، انہوںنے ان کی بھی
پروا نہیں کی، ان میں سرِفہرست حضرت ابوبکرؓ ہیں۔ ان کے والد ابوقحافہؓ بھی اس وقت
تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان کو بھی مکہ میں ہی رہنے دیا۔ وہ فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے، البتہ جن صحابہ
کرامؓ کے بیوی بچوں نے اسلام قبول کرلیا تھا ان کو مدینہ بلالیا گیا تھا۔ ان میں
آنحضرتؐ اور حضرت ابوبکرؓ کے اہل و عیال بھی تھے۔ ہجرت کے کچھ مہینوں کے بعد ان
لوگوں کو مدینہ منورہ بلا لیا گیا، جس کی صورت یہ ہوئی کہ حضرت زید بن حارثہؓ اور
حضرت ابورافعؓ کو دو اونٹ اور پانچ سو درہم دے کر مکہ مکرمہ روانہ کیا گیا کہ وہ
دونوں حضرات کے گھر والوں کو لے کر آجائیں۔ راستے میں ان دونوں نے تین اونٹ مزید
خرید لئے۔ مکہ میں داخل ہوئے تو حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ سے ملاقات ہوئی۔ یہ بھی
ہجرت کا ارادہ کئے بیٹھے تھے اور نکلنے کے لئے تیار تھے، اس طرح تین مرد ہوگئے، ان
کے ساتھ کئی خواتین اور بچے مدینہ کے سفر پر روانہ ہوئے۔ ان میں حضرت زید بن
حارثہؓ کی اہلیہ ام ایمنؓ، ان کے بیٹے اسامہؓ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو
صاحب زادیاں حضرت فاطمہؓ اور حضرت ام کلثومؓ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ
محترمہ حضرت عائشہ صدیقہؓ جن سے نکاح ہوچکا تھا رخصتی باقی تھی اور ام المؤمنین
حضرت سودہؓ، حضرت ابوبکرؓ کی اہلیہ محترمہ حضرت ام رومانؓ، حضرت عائشہؓ کی بہن
حضرت اسماءؓ، ان کے بھائی حضرت عبداللہؓ وغیرہ حضرات شامل ہیں۔آپؐ کی ایک
صاحبزادی حضرت زینبؓ جو ابوالعاصؓ کے نکاح میں تھیں اس وقت نہیں آسکیں، انہیں ان
کے شوہر حضرت ابوالعاصؓ نے آنے نہیں دیا، وہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔
حضرت زینبؓ جنگ بدر کے بعد تشریف لائیں۔ جس وقت یہ قافلہ مدینہ پہنچا اس وقت آپ ﷺ
اپنے اہل و عیال کیلئے حجرے تعمیر کرا رہے تھے۔ چنانچہ حضرت سودہؓ اور حضرت فاطمہؓ
اور حضرت ام کلثومؓ کو ان حجروں ٹھہرایا گیا۔ حضرت عائشہؓ اپنے والدین کے پاس
ٹھہریں۔
(جاری)
19 مارچ 2021،بشکریہ:انقلاب،
نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part: 23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع ہوا ہے
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/madina-last-prophet-abode-part-24-/d/124595
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism