مولانا ندیم الواجدی
16 اپریل 2021
تحویل قبلہ کا حکم
مکہ مکرمہ میں سرکار دو
عالمﷺ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا
فرماتے تھے۔ خانۂ کعبہ اگرچہ چہرۂ مبارک کے سامنے نہیں ہوتا تھا، لیکن بہر حال
آپؐ اس کے قریب ہوا کرتے تھے۔ جب آپ ﷺ ہجرت کرکے مدینے تشریف لے آئے تو یہ ممکن
نہ رہاکہ خانۂ کعبہ قریب ہو یا آپؐ اس کے برابر میں ہوں اور رُخ بیت المقدس کی
طرف ہو؛ کیوں کہ وہاں بیت المقدس کا رُخ خانۂ کعبہ کے بالکل مخالف سمت میں تھا،
اس لئے اب اس کے علاوہ کوئی صورت نہیں تھی کہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی
جائے، اور پشت خانۂ کعبہ کی طرف ہو۔
مکہ مکرمہ میں بیت المقدس
کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھنے میں در اصل مشرکین مکہ کی مخالفت بھی کرنی تھی، اور
دین ابراہیمی کو دوسری ملل و ادیان سے ممتاز بھی کرنا تھا، اس وقت صورت حال یہ تھی
کہ مشرکین مکہ کعبہ ہی کو اپنی توجہات اور عبادت کا مرکز بنائے ہوئے تھے، دوسری
طرف یہود ونصاریٰ کا مرکز ِ عبادت بیت المقدس تھا۔ سرکار دو عالم ﷺنے ان سب سے الگ
ہٹ کر اپنا رخ تو بیت المقدس کی طرف رکھا ؛ کیوں کہ یہودی اور نصرانی اہل کتاب
ہونے کی بناء پر اسلام سے زیادہ قربت رکھتے ہیں اور خانۂ کعبہ کو برابر میں رکھا
تاکہ دین ابراہیمی سے انحراف بھی نہ ہو جس کی بنیاد خانۂ کعبہ کی تعمیر وبناء میں
مضمر ہے۔
مدینہ منورہ تشریف آوری
کے بعد اب اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کہ جب تک حکم الٰہی نہ ہو اس وقت تک
تعمیل حکم میں بیت المقدس ہی کو قبلہ سمجھا جائے، اس لئے آپ ؐنے مسجد قباء کا رخ
بھی اسی طرف رکھا، اور نماز بھی اسی طرف رخ کرکے ادا فرماتے رہے۔ مسجد نبویؐ کا
قبلہ بھی بیت المقدس کی طرف رہا۔ مہاجر صحابۂ کرامؓ جو اپنا آبائی دین چھوڑ کر
مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے آئے تھے، ان کے لئے یہ سخت آزمائش کا
مرحلہ تھا۔ وطن جیسی محبوب چیز سے جدا ہوگئے، خانۂ کعبہ بھی نظروں سے اوجھل ہوگیا
جو انہیں ہر چیز سے زیادہ پیارا تھا، اب تک تو یہ تسلّی تھی کہ خانۂ کعبہ قریب
ہے، جب جی چاہے گا دیکھ آئیں گے، طواف کرلیں گے، لیکن اب ایسا ممکن نہیں رہا، دل
دہی اور دلداری کے لئے اتنا ہی ہوجاتا کہ مکہ کی طرف رُخ کرلیتے۔صحابۂ کرامؓ اس
آزمائش میں بھی پورے اترے اور بے چوںوچرا اس حکم پر عمل پیرا رہے، صحابۂ کرامؓ
کے جذبات، اُن کے عمل اور ان کی آزمائش کو قرآن کریم کی اس آیت میں اس طرح بیان
کیا گیا ہے:
’’اور جس قبلے پر آپ پہلے تھے اس کو ہم نے اس لئے مقرر کیا کہ
معلوم کریں کون پیغمبر کی اتباع کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، اور یہ
بات (بیت المقدس کا قبلہ ہونا) لوگوں کو گراں معلوم ہوئی، مگر جن کو اللہ نے ہدایت
عطا کی (وہ اسے گراں نہیں سمجھتے) اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ تمہارے ایمان کو یونہی
ضائع کردے، بلاشبہ اللہ بڑا مہربان اور رحم والا ہے۔‘‘
اس نئی جگہ آنے کے بعد
اب صورت حال بالکل تبدیل ہوچکی تھی، اب ان مصلحتوں کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی جن
کی بنیاد پر بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی جارہی تھی۔ ادھر مدینہ میں
یہودیوں کے بڑے بڑے قبیلے تھے۔ انہوں نے جب یہ دیکھا کہ مسلمان بیت المقدس کی طرف
رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں تو کہنا شروع کردیا کہ یہ لوگ قبلے میں تو ہماری موافقت
کرتے ہیں اور باقی دین میں ہماری مخالفت۔ یہود کی یہ باتیں سن کر اور کچھ مکہ
مکرمہ اور بیت اللہ سے قلبی لگاؤ اور انسیت کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کا دل چاہتا
تھا کہ کعبہ ہی ہمارا قبلہ بن جائے، اس سلسلے میں آپ دعائیں بھی کرتے رہتے تھے۔
اسی دوران ایک مرتبہ جناب
سرکار دو عالم ﷺ قبیلہ بنو سلمہ میں حضرت
بشر بن براءؓ کی والدہ محترمہ کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے ، انہوں نے کھانا تیار
کرلیا، اتنے میں ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا، آپؐ مسجد تشریف لے گئے اور صحابۂ
کرامؓ کو نماز پڑھانی شروع کردی۔ ابھی پہلی ہی رکعت تھی، بعض روایات میں ہے کہ دوسری
رکعت تھی، کہ تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوگیا۔ اس سلسلے میں بخاری شریف میں حضرت
براء بن عازبؓ کی تفصیلی روایت کا حوالہ دینا مناسب رہے گا۔ اس میں اس وقت کی صورت
حال کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے، فرماتے ہیں: ’’ رسول اللہ ﷺ (مدینہ منورہ تشریف
آوری کے بعد) سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے، ویسے
آپؐ کی دلی خواہش تھی کہ آپؐ کے لئے کعبہ کو قبلہ بنا دیا جائے جب اللہ نے یہ
آیت نازل فرمائی:
’’لو اب اپنا رخ مسجد حرام
کی طرف کرلو۔‘‘
(سورۃ البقرۃ: ۱۴۴)
تو آپ نے خانۂ کعبہ کی
طرف منہ کرکے نماز شروع کردی۔ بے وقوف یہودی کہنے لگے مسلمانوں کو کس چیز نے ان کے
پہلے قبلے سے پھیر دیا ہے، (اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے نبی) آپؐ فرمادیں کہ مشرق
ومغرب کا مالک اللہ ہی ہے، وہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے پر لے آتا ہے۔‘‘
(صحیح البخاری: ۱/۸۸، رقم الحدیث: ۳۹۹)
قرآن کریم میں تحویل
قبلہ کے سلسلہ میں جو آیت نازل کی گئی ہے وہ اس صورت حال پر زیادہ بہتر روشنی
ڈالتی ہے، ارشاد فرمایا:
’’ہم آپ کے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں، سو
ہم آپ کو اسی قبلے کی طرف پھیر دیں گے جس کو آپ پسند کرتے ہیں، اب اپنا چہرہ
مسجد حرام کی طرف کیا کیجئے، اور جہاں بھی تم لوگ ہو اپنے چہرے مسجد حرام کی طرف
کرلو۔‘‘ (سورۃ البقرۃ: ۱۴۴)
اس آیت کریمہ میں اس بے
قراری اور امید کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو سرکار دوعالمﷺ کو قبلے کے سلسلے میں
تھی۔ دل سے آپ ؐیہ چاہتے تھے کہ قبلہ بدل جائے اور ہم خانۂ کعبہ کی طرف چہرہ
کرکے نماز پڑھیں، اس سلسلے میں آپ ﷺ کا دل اس قدر بے قرار وبے چین رہتا تھا کہ
آپ ؐ بار بار آسمان کی طرف دیکھا کرتے تھے اس امید پر کہ شاید کوئی حکم نازل
ہوجائے، کوئی وحی آجائے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک دن بذریعہ وحی یہ خوش خبری سناہی دی
کہ جلد ہی ہم آپؐ کا قبلہ آپ کی پسند اور مرضی کے مطابق کرنے والے ہیں، اوراچانک
ہی یہ حکم بھی نازل فرمادیا کہ اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف کرلیجئے۔ آپؐ اس وقت
ظہر کی نماز پڑھا رہے تھے، ایک رکعت مکمل ہوچکی تھی، دوسری رکعت کا رکوع ہورہا تھا
کہ یہ آیت نازل ہوئی، آپ رکوع ہی کی حالت میں بیت المقدس کی مخالف سمت میں مڑ
گئے، تمام صحابہ نے بھی تقلید کی، نماز کے بعد آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم
کو تحویل قبلہ کی خوش خبری سنائی۔ یہ واقعہ ۱۵؍
شعبان ۲
ھ کا ہے۔
ایک صحابیؓ اس نماز میں
شریک تھے، نماز کے بعد وہ بعض انصاری صحابہؓ کے پاس سے گزرے، وہ عصر کی نماز بیت
المقدس کی طرف رخ کرکے پڑھ رہے تھے، ان صحابیؓ نے بلند آواز سے کہا : میں گواہی
دیتا ہوں کہ میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ نماز پڑھ کر آرہا ہوں، آپ ؐنے کعبے کی طرف
منہ کرکے نماز پڑھی ہے، یہ سنتے ہی وہ لوگ بھی نماز کی حالت میں کعبے کی طرف مڑ
گئے۔ (صحیح البخاری: ۱/۸۸،
رقم الحدیث: ۳۹۹)
صُفَّہ چبوترہ
تحویلِ قبلہ کا واقعہ
ہجرت کے سولہ ماہ بعد پیش آیا۔ قبلے کا رُخ تبدیل ہونے کے بعد قبلۂ اوّل کی طرف
کی دیوار مسجد نبویؐ کے شمالی جانب باقی رہ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم
دیا کہ اس حصے کو مسقف کردیا جائے، یا اس پر سائبان ڈال دیا جائے۔ حکم کی تعمیل کے
بعد یہ چبوترے کی شکل اختیار کر گیا اور اس کو صُفَّہ یا ظُلّہ کا نام بھی دیا
گیا۔ (وفاء الوفاء: ۳۲۱) یہ
سایہ دار چبوترہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجرۂ مبارک کے قریب حدود
مسجد میں بے گھر مہاجرین کے لئے بنوایا تھا، (فتح الباری: ۱/۵۳۵) جب ہم باب جبریل یا باب
النساء سے مسجد نبوی میں داخل ہوتے ہیں تو یہ سامنے ہی نظر آتا ہے، فی الوقت اس
کی اونچائی دو فٹ ہے، اس کا پورا رقبہ چالیس مربّع فٹ ہے، سرکار دو عالم صلی اللہ
علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یہاں غریب اور تنگ دست صحابۂ کرامؓ قیام کرتے تھے، ان
میں اکثریت مہاجرین کی تھی، حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ اہل صفہ اسلام کے وہ
مہمان تھے جن کے نہ اہل وعیال تھے، نہ ان کے پاس مال ودولت تھی اور نہ ان کا کوئی
ٹھکانہ تھا۔ (صحیح البخاری : ۲۰/۸۷،رقم
الحدیث:۵۹۷۱)
مکہ مکرمہ سے جو لوگ ہجرت
کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے یا آپؐ کے ہمراہ یا آپؐ کے بعد مدینہ
منورہ پہنچے تو انصار مدینہ نے حتی الامکان یہ کوشش کی کہ ان کو کوئی پریشانی نہ
ہو، حق تو یہ ہے کہ انہوں نے میزبانی کا حق ادا کردیا، ان کو اپنے گھروں میں رکھا،
ان کو اپنے کھانے پینے میں شریک کیا، ان کا ہر طرح خیال رکھا، مگر جب یہ تعداد
زیادہ ہوگئی تو انصار کے لئے بھی مشکلات پیدا ہوئیں، ہر صبح کے سورج کے ساتھ نئے
قافلے مدینے میں داخل ہو رہے تھے، ان میں مال دار بھی تھے اور غریب بھی، بیوی بچوں
والے بھی تھے اور ناکتخدا بھی۔ انصار مدینہ ان لوگوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتے اور پورے
اعزاز واکرام واحترام کے ساتھ ان کو اپنے گھروں میں ٹھہراتے، بعض ایسے لوگ جنہیں
کہیں ٹھکانہ نہ ملتا وہ صفہ کا رخ کرتے۔
حضرت عبادہ بن الصامتؓ
فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے حد مشغول رہا کرتے تھے، چنانچہ جب
کوئی مہاجر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تو (بوجہ مصروفیت)
آپؐ اس کو ہم میں سے کسی کے سپرد کردیتے کہ وہ اسے قرآن کریم کی تعلیم دے، آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو میرے حوالے کیا، وہ میرے ساتھ میرے گھر میں
رہتا، جو کھانا ہم کھاتے وہ اسے کھلاتے تھے، میں اسے قرآن سکھلایا کرتا تھا۔
(مسند احمد بن حنبل: ۴۶/۲۴۹،
رقم الحدیث: ۲۱۷۰۳) صفہ کی تعمیر کے بعد سب
سے پہلے اس پر مہاجرین نے قیام کیا اس لئے اس چبوترے کو صفۃ المہاجرین بھی کہا جاتا
ہے (وفاء الوفاء: ۱/۳۲۳،
سنن أبی داؤد:۱۱/۱۵،
رقم الحدیث: ۳۴۸۹) وہ
مسافر بھی یہاں قیام کیا کرتے تھے جو وفود کی شکل میں اسلام لانے کی غرض سے رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ ;(جاری)
nadimulwajidi@gmail.com
16 اپریل 2021،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-lord-ka-bah-part-28-/d/124712
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism